Pages

Sunday 22 January 2017

عرس ، مزرات کو چومنا اور چادریں چڑھانا حصّہ سوم

عرس ، مزرات کو چومنا اور چادریں چڑھانا حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انتہاء پسند ہیں اعتدال و توازن جو اسلامی احکام و تعلیمات کا طرہ امتیاز ہے ہمارے ہاں مفقود ہے۔ ایک انتہا تو یہ ہے کہ سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا سوچے سمجھے آنکھیں بند کرکے بدعت اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر حرام کہدیا جو سراسر زیادتی اور احکام شرع کی خلاف ورزی ہے دوسری طرف جائز و مستحسن بلکہ سنت سمجھنے والوں نے اس سنت کے ساتھ اتنی بدعات جو ڑ دیں کہ الامان و الحفیظ۔
موم بتیاں اور چراغ روشن کرنا

ان کی اصل صرف یہ ہے کہ زائرین کسی وجہ سے دن کو زیارت قبور کے لیے نہیں آ سکتے رات کو وقت ملتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں قبرستان تک پہنچنے کے لیے اور صاحب مزار تک آرام سے پہنچنے کے لیے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کے وقت موم بتی یا چراغ وغیرہ کے ذریعہ روشنی کا انتظام کیا جاتا تھا تاکہ رات کو آنے جانے والوں، تدفین کرنے والوں اور زائرین کو تکلیف نہ ہو اور وہ روشنی میں بآسانی آ جا سکیں یہ چراغاں عام راستوں میں قبرستانوں اور مساجد وغیرہ میں ہوتا تھا اور آج بھی بوقت ضرورت ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے اور اس کے جواز بلکہ استحباب میں کوئی شبہ نہیں۔

علامہ امام شیخ عبد القادر الرافعی الفاروقی الحنفی تقریرات الرافعی علی حاشےۃ ابن عابدین میں لکھتے ہیں :

إن البدعة الحسنة الموافقة لمقصود الشرع تسمی سنة فبناء القباب علی قبور العلماء والأولياء والصلحاء ووضع الستور والعمائم والثياب علی قبورهم أمر جائز إذا کان القصد بذلک التعظيم فی أعين العامة حتی لا يحتقروا صاحب هذا القبر وکذا ايقاد القناديل والشمع عند قبور الاولياء والصلحاء من باب التعظيم والا جلال ايضاً للأولياء فالمقصد فيها مقصد حسن ونذر الزيت والشمع للأولياء يوقد عند قبورهم تعظيما لهم ومحبة فيهم جائز ايضاً لا ينبغی النهی عنه.

’’اچھی بدعت (نئی بات) جو مقصود شرع کے موافق ہو سنت کہلاتی ہے پس علماء اور اولیاء اور صلحاء کی قبروں پر گنبد بنانا، ان کی قبروں پر پردے، عمامے اور کپڑے ڈالنا جائز ہے جب کہ اس سے مقصد لوگوں کی نظروں میں ان کی عظمت کا اظہار کرنا ہوتا کہ وہ صاحب قبر کو حقیر نہ سمجھیں یونہی اولیاء و صلحاء کی قبر کے پاس قندیلیں اور شمعیں روشن کرنا تعظیم و اجلال کی بنا پر ہے سو اس میں ارادہ اچھا ہے۔ زیتون کے تیل اور موم بتیاں اولیاء اﷲ کی قبروں کے پاس روشن کی جاتی ہیں یہ بھی ان کی تعظیم و محبت ہے لہٰذا جائز ہے اس سے روکنا نہیں چاہیے‘‘۔

عبدالقادرالرافعی، تقریرات الرافعی علی حاشیہ ابن عابدین، 2 : 123

علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں :

بعض الفقهاء وضع الستور و العمائم و الثياب علی قبور الصالحين و الأولياء وقال في فتاوی الحجة و تکره الستور علی قبور.

ولکن نحن نقول الآن إذا قصد به التعظيم في عيون العامة حتی لا يحتقروا صاحب القبر ولجلب الخشوع والأدب للغافلين الزائرين فهوجائز لأن الأعمال بالنيات وإن کان بدعة.

’’بعض فقہاء نے صالحین و اولیاء کی قبروں پر غلاف اور کپڑے رکھنے کو مکروہ کہا ہے فتاویٰ الحجۃ میں کہاقبروں پر غلاف چڑھانا مکروہ ہے۔

لیکن اب ہم کہتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظروں میں تعظیم و تکریم مقصود ہے تاکہ وہ قبر والے کو حقیر نہ سمجھیں اور تاکہ عاجزی و انکساری پیدا ہو اور غافل زائرین میں ادب پیدا ہو تو یہ امور جائز ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اگرچہ نئی چیز ہے‘‘۔

ابن عابدین شامي، ردالمحتار، 6 : 363، دار الفکر بیروت
خلاصۂ کلام

مسلمان کی قبر پر پھول چڑھانا بھی مسنون ہے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کو چراغ جلانا یا روشنی کرنا بھی کار خیر ہے اس سے لوگوں کو آرام اور صاحب قبر کی عزت و عظمت کا اظہار ہوتا ہے یونہی غلاف چڑھانا بھی مزارات و صاحبان مزارات کی تعظیم و تکریم کا اظہار کرنا ہے مگر آج کل بعض مزارات و مقابر پر جو جہالت، فضول خرچی، گمراہی اور ماحول کی پرا گندگی و تعفن پیدا کیا جاتا ہے وہ سراسر فضول، اسراف اور جہالت و گمراہی ہے۔
چراغاں

آپ موم بتی یا تیل کا چراغ اس نیت سے رکھیں کہ بجلی نہ ہونے کی صورت میں روشنی کا اہتمام کر کے عام ضرورت پوری کی جائے، اچھا ہے، اس کے ساتھ ایمرجنسی لائیٹ کا متبادل بھی آ گیا ہے۔ چراغوں اور موم بتیوں کی جگہ اسے استعمال کریں ان سے نہ دھواں، نہ گندگی اور نہ ہی بدبو پیدا ہوتی ہے آج کل مختلف مزارات پر حد سے زیادہ ہونے والا چراغاں جہالت، حماقت اور فضول خرچی ہے بجلی کی ٹیوبوں اور قمقموں کی دلفریب حسین روشنی کے ہوتے ہوئے بھی حد سے زیادہ چراغ جلانا، موم بتیاں روشن کرنا اور ان موم بتیوں کو آگ کے الاؤ میں ڈالنا، پگھلانا اور جلانا فضا کو زہر آلود کرتا ہے پورا ماحول گندا اور بدبودار ہوتا ہے لطافت و نظافت پسند شریف آدمی کو سانس لینا اور قدم رکھنا دشوار ہے ان پڑھ اور پڑھے لکھے جہلا خراج عقیدت پیش کر کے دین کی خدمت اور بزرگوں کی نیک نامی کو چار چاند لگا رہے ہیں یہ سب ولایت و تصوف کے نام پر ہو رہا ہے علماء و مشائخ دیکھ رہے ہیں سیاستدان اور حکمران دیکھ رہے ہیں صحافی اور دانشور تماشا دیکھ رہے ہیں اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بلا ضرورت یہ موم بتیوں کا الاؤ اور چراغوں کا جلانا کونسی نیکی ہے؟ یہ سب قومی دولت کا ضیاع ہے شیطانی فضول خرچی ہے روحانی اور ستھرے ماحول کو زہریلے دھوؤں سے زہر آلود کرنا ہے پاؤں رکھو تو تیل اور موم، نہ بیٹھنا ممکن نہ چلنا، نہ سانس لینا، گرمی، بدبو، دھوئیں کی گندگی اور وہ بھی کہاں؟ داتا گنج بخش رحمۃاﷲ علیہ کے مزار اور مسجد میں، مادھولال حسین کے مزار اور مسجد میں یہاں سے زائرین تربیت لے کر اپنے علاقوں میں گندگی پھیلاتے ہیں۔

اے مسلمان بھائیو ! ان بیہودگیوں سے توبہ کرو مزارات و مساجد کی عزت و عظمت کو پامال نہ کرو فضول خرچیوں اور بد تمیزیوں سے شیطان کے بھائی نہ بنو ان مقدس مقامات کی بے حرمتی نہ کرو اولیاء اﷲ کے آستانوں کو گندگی کے ڈھیروں میں مت بدلو! دنیا کی نظروں میں اسلام اور تصوف کو بدنام نہ کرو۔ آج دنیا کی کوئی قوم کسی سے دور نہیں رہی دنیا ہماری ان حماقتوں کو دیکھ رہی ہے۔

بند کرو ! آگ کے یہ الاؤ نہ بدنام کرو ان اچھے ناموں اور خوبصورت آستانوں کو۔ ۔ صاف کردو اﷲ کے گھروں کو، رکوع، سجود اور اعتکاف کرنے والوں کے لیے۔ ۔ بحال کردو ان کی عظمت رفتہ کو۔ ۔ منالو ! اپنے روٹھے خدا کو۔ ۔ خوش کردو اپنے پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔ ۔ اپنی طرف مبذول کرلو تو جہات اولیاء کو۔

ختم کردو ! ان آستانوں سے جوا، نشہ، بے پردگی، بے ہودگی، بدمعاشی کو۔ ۔ مٹادو گندے دھوئیں، بدبو اور جملہ آلودگی کو۔ ۔ تاکہ تاریک دلوں کو جلا ملے، اندھی آنکھوں کو شرم و حیاء ملے، بیماردلوں کو دوا ملے، پورا ماحول رنگ و نور کے ماحول میں ڈوب جائے۔ ۔ بیقرار دلوں کو سکون اور پراگندہ طبیعتوں کو اطمینان و یقین کی دولت میسر ہو۔
بزرگوں کے ہاتھ اور ان کے مزارات کا بوسہ

عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه أَنَّهُ جَاءَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ فَقَالَ إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے، پھر اسے بوسہ دیا، پھر فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے(اس حیثیت سے ) نہ نقصان دہ نہ فائدہ مند۔ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے دیکھا نہ ہوتا، تجھے (کبھی) نہ چومتا‘‘۔

بخاری، الصحیح، 2 : 579، رقم : 1520

علامہ عینی نے امام شافعی کا یہ قول نقل کیا ہے :

أما تقبيل الأماکن الشريفة علی قصد التبرک وکذلک تقبيل أيدي الصالحين وأرجلهم فهو حسن محمود باعتبار القصد والنيه وقد سأل أبو هريرة الحسن رضی اﷲ تعالی عنه أن يکشف له المکان الذي قبله رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وهو سرته فقبله تبرکا بآثاره وذريته صلی الله عليه وآله وسلم وقد کان ثابت البناني لايدع يد أنس رضی اﷲ تعالی عنه حتی يقبلها ويقول يد مست يد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. . . أن الامام أحمد سئل عن تقبيل قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم وتقبيل منبره فقال لا بأس بذلک قال فأريناه للشيخ تقی الدين بن تيمية فصار يتعجب من ذلک ويقول عجبت أحمد عندي جليل بقوله هذا کلامه أو معنی کلامه قال وأي عجب في ذلک وقد روينا عن الامام أحمد أنه غسل قميصا للشافعي وشرب الماء الذي غسله به واِذا کان هذا تعظيمه لأهل العلم فکيف بمقادير الصحابه وکيف بآثار الأنبياء عليهم الصلاة والسلام ولقد أحسن مجنون ليلی حيث يقول :

أمر علی الديار ديار ليلی

أقبل ذا الجدار وذا الجدارا

وما حب الديار شغفن قلبی

ولکن حبُّ من سکن الديارا

قال المحب الطبري يمکن أن يستنبط من تقبيل الحجر واستلام الأرکان جواز تقبيل ما في تقبيله تعظيم تعالی فانه ان لم يرد فيه خبر بالندب لم يرد بالکراهه.

’’حصول برکت کے ارادے سے مقامات مقدسہ کو چومنا، اسی طرح نیک لوگوں کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینا، نیت و ارادہ کے اعتبار سے اچھا اور قابل تعریف کام ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے امام حسن مجتبی رضی اﷲ عنہ سے عرض کی کہ وہ اپنی ناف سے کپڑا اٹھائیں جس کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسہ دیا تھا پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی اولاد کے آثار سے برکت حاصل کرنے کے لیے اسے بوسہ دیا۔ اور (امام) ثابت بنانی جب تک بوسہ نہ دیتے حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ نہ چھوڑتے اور فرمایا کرتے یہ وہ ہاتھ ہے جس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک کو چھوا ہے۔

حضرت امام احمد بن حنبل سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور منبر اقدس کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ کہا کہ ہم نے یہ قول جب شیخ تقی الدین ابن تیمیہ کو دکھایا تو وہ اس پر تعجب کرنے لگے اور کہا مجھے تعجب ہے۔ میرے نزدیک تو امام احمد کی یہ بات یا اس سے ملتی جلتی بات عجیب سی لگتی ہے۔ (محب طبری نے ) کہا اس میں تعجب کس بات پر ؟ ہم نے تو امام احمد کی یہ بات سنی ہے کہ آپ نے امام شافعی کی قمیض دھو کر اس کا دھون پی لیا تھا تو جب وہ اہل علم کی اتنی تعظیم کرتے تھے تو پھر آثار صحابہ رضی اﷲ عنہ آثار انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام سے کتنی عزت و عظمت سے پیش آتے ہوں گے۔ لیلیٰ کے مجنوں (قیس عامری) نے کیا خوب کہا :

جب لیلیٰ کے شہر سے گزرتا ہوں

کبھی اس دیوار کو چومتا ہوں کبھی اس کو

مکانوں کی محبت نے میرا دل دیوانہ نہیں بنا رکھا

بلکہ ان میں بسنے والوں کی محبت نے یہ حال کر رکھا ہے

علامہ محب طبری نے فرمایا : یہ بھی ممکن ہے کہ حجر اسود اور ارکان کے بوسہ دینے سے ہر اس چیز کو چومنے کا مسئلہ نکالا جائے جس کے چومنے سے اﷲ تعالیٰ کی تعظیم ہے اگرچہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث اس عموم استحباب پر مروی تو نہیں مگر اس کی کراہت پر بھی تو کوئی روایت نہیں‘‘۔

علامہ عینی کہتے ہیں : ’’میں نے اپنے دادا محمد بن ابو بکر کے بعض حواشی میں امام ابو عبد اﷲ محمد بن ابی الصیف کے حوالہ سے لکھا دیکھا ہے کہ کچھ آئمہ دین قرآن کو دیکھتے تو اسے بوسہ دیتے جب اجزائے حدیث کو دیکھتے تو ان کو بوسہ دیتے اور جب نیک لوگوں کی قبروں پر نظر پڑتی تو ان کو بوسہ دیتے فرمایا یہ کچھ بعید نہیں ‘‘۔

عینی، عمدۃ القاری، 9 : 241

عن داؤد بن أبي صالح قال أقبل مروان يوما فوجد رجلا واضعا وجهه علی القبر فقال أ تدري ماتصنع فأقبل عليه فاذا هو أبو أيوب فقال نعم جئت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ولم آت الحجر سمعت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقول لا تبکوا علی الدين إذا وليه أهله ولکن ابکوا عليه إذا وليه غير أهله.

’’داؤد بن ابی صالح کہتے ہیں ایک دن مروان آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے ہے۔ مروان نے کہا جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟ وہ شخص مروان کی طرف متوجہ ہوئے تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ فرمایا ہاں میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے جب دین کے معاملات اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر مت روؤ۔ ہاں جب امور دین نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر روؤ ‘‘۔

أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422، الرقم : 23633، مؤسسة قرطبة مصر

مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہوگیا ہے کہ عرس منانا، مزارات پر حاضری دینا، چادر چڑھانا اور مقامات مقدسہ کو بوسہ دینا جائز ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔