Pages

Wednesday 25 April 2018

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی کفر و گمراہی ہے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی کفر و گمراہی ہے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جس طرح اللہ تعالی کی شان الوہیت میں گستاخی کرنا کفر ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس و شان نبوت میں بھی ذرہ بھر گستاخی کرنا کفر ہے۔ اسی طرح جن نفوس قدسیہ کا سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غلامی کا نیاز مندانہ رشتہ ہے ان میں سے کسی کی گستاخی کرنا بھی کفر ہے خواہ وہ ازواج مطہرات امہات المومنین ہوں، خواہ آل و اولاد ہو، خواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں، لہذا ان کی فضیلت کا مسئلہ اس طرح نہ لیا جائے کہ ایک کی تعریف سے دوسرے کی تنقیص ہو۔ تعظیم و تکریم میں سب برابر ہیں، ہاں رتبہ فضیلت میں فرق ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس طرح پہلے خلیفہ راشد ہیں اسی طرح مرتبہ و فضیلت میں بھی پہلے نمبر پر ہیں۔ دوسرے نمبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، تیسرے پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، چوتھے نمبر پر خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں ۔ آج کل عام طور پر یہ وبا اور رَوِش چل نکلی ہے کہ جس کے جی میں جو آتا ہے اُگل دیتا ہے، چاہے کوئی بڑا ہو یا چھوٹا، عالم ہو یا جاہل، بزرگ ہو یا شیخ، استاذ ہو یا پیر، اس کی کوئی ایسی بات، قول، فعل اور عمل جو سمجھ میں نہ آئے، اس پر اعتراض و تنقید کے نشتر چلا دیئے جاتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اگر کوئی مقرب بارگاہ الٰہی ایسا کررہا ہے تو یقینا اس کے پاس کوئی دلیل یا جواز ہوگا، جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہا؟ یا وہ ہمارے علم میں نہیں، کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے، مختصر یہ کہ بجائے اس کے کہ نہایت ادب اور سلیقہ سے ہم اس مقبول بارگاہ الٰہی سے اس کے قول، فعل یا عمل کی وجہ، علت اور حکمت پوچھتے، اپنی ہانکنے میں مصروف ہوجاتے ہیں، بلاشبہ یہ رَوِش بہت ہی خطرناک ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ دین دشمنوں نے ہماری نئی نسل کے کان میں یہ افسوں پھونک دیا ہے کہ تم کسی سے کم نہیں ہو، لہٰذا جو بات تمہاری عقل و فہم میں نہ آئے وہ غلط ہے، بلکہ صحیح وہ ہے جو تمہیں صحیح اور سچ نظر آئے، غالباً اسی وجہ سے ہماری نوجوان نسل، ہر بڑے، چھوٹے اور عالم و جاہل پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھتی ہے، بالفرض اگر کوئی بندہٴ خدا ان کو اس سے باز رہنے کی تلقین کرے تو اس کی دل سوزی پر مبنی اس نصیحت کو بھی اندھی تقلید کی تلقین کے نام سے جھٹک دیا جاتا ہے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ اپنے اس غیر معقول فعل اور عمل کے جواز کے لئے طرح طرح کے دلائل و براہین تراشے جاتے ہیں، بلاشبہ اس مرض میں لکھے، پڑھے اور جاہل، عوام اور خواص سب ہی مبتلا ہیں، غالباً ان کو اس اندھی تنقید و تنقیص کے انجام بد کا علم نہیں، اگر انہیں اس کے خطرناک انجام کا علم ہوجائے تو شاید وہ اس کی جرأت نہ کریں۔

کچھ فضائل وہ ہیں جن میں تمام صحابہ کرام شریک ہیں۔ بعض فضائل خصوصی ہیں کہ ایک میں ہیں دوسروں میں نہیں۔ تاہم عزت و تکریم میں، جنتی ہونے میں، ادب و احترام میں سب برابر ہیں۔ کسی کی ادنیٰ سی گستاخی سے بھی انسان شیطان بن جاتا ہے۔قرآن پاک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گردو غبار کی اللہ قسمیں کھاتا ہے۔ ارشاد فرمایا : وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا. فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا. فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا. فَاَثَرْنَ بِه نَقْعًا.(العاديات:1 تا 4)
ترجمہ : (میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں ۔

جن شہسواروں سے گھوڑوں کو، گھوڑوں سے گردو غبار کو یہ مقام ملا، ان شہسواروں کی اپنی شان کیا ہوگی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کے متعلق امت کو خیر خواہی، دعائے خیر اور ان کا اچھا ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی۔ فرمایا : الله الله فی اصحابی، الله الله فی اصحابی، لا تتخذوهم غرضا من بعدی فمن احبهم فبحبی احبهم ومن ابغضهم فببغضی ابغضهم ومن اذا هم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی الله ومن اذی الله فيوشک ان ياخذه . (ترمذی، بحواله مشکوٰة، 554،چشتی)
ترجمہ : میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ بعد انہیں (طعن و تشنیع کا) نشانہ نہ بنانا۔ سو جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے میرے ساتھ بغض رکھنے کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف دی اس نے یقینا مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے یقینا اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو عنقریب اسے اللہ پکڑے گا ۔

اسی طرح ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبايهم اقتديتم اهتديتم . (مشکوٰة، 554)
ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کی پیروی کرو گے راہ پاؤ گے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے اللہ راضی ہوچکا اور وہ حضرات اپنے رب سے راضی ہوچکے ۔ قرآن کریم میں ہے : رَّضِیَ اﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ . (التوبة:100)
ترجمہ : اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے ۔

بخاری شریف کی ایک حدیث ِقدسی میں ارشاد ِ الٰہی ہے ’’جس شخص نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اس کے لئے میری طرف سے اعلان ِ جنگ ہے‘‘ اور صحابہ کرام سے بڑا ولی کون ہوسکتا ہے ؟ صحیح بخاری ومسلم شریف میں ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم یوںہے ’’میرے صحابہ کو گالیاں مت دو ، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،تم میں سے اگر کوئی شخص اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی راہ ِ للہ خرچ کردے تو میرے صحابہ کے ایک مٹھی دانے صدقہ کرنے بلکہ اس سے آدھے ثواب کو بھی نہیں پہنچ سکتا ‘‘ طبرانی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہے’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ،اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ،اس نے مجھے گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں، اس نے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں ‘‘ غرض مذکورہ آیات ِ قرآنیہ اور اِن احادیـث ِ نبویہ کے پیش ِ نظر اہل ِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے ۔

فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی، طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے۔
(فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸،چشتی)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: ’’جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۱۹۸)

حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے، اس میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض:۳۱)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری:۲/۲۶۸،چشتی)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ اپنی کتاب مسویٰ شرح مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن بعض ایسی دینی حقیقتوں کی جن کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے قطعی ہے ایسی تشریح و تاویل کرتا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رضی اللہ عنہم اور اجماعِ امت کے خلاف ہے تو اس زندیق کہا جائے گا اور وہ لوگ زندیق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اہل جنت میں سے نہیں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے گا ، لیکن نبوت کی جو حقیقت کسی انسان کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا ، اس کی اطاعت کا فرض ہونا اور اس کا معصوم ہونا ، یہ سب ہمارے اماموں کو حاصل ہے ، تو یہ عقیدہ رکھنے والے زندیق ہیں اور جمہور متأخرین حنفیہ، شافعیہ کا اتفاق ہے کہ یہ واجب القتل ہیں ۔ (مسویٰ شرح مؤطا محمد)

درّ مختار میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔(درمختار)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ (شامی:۲/۲۹۴،چشتی)

علامہ ابن ِ تیمیہ نے ’’الصارم المسلول‘‘ میں نقل کیا ہے’’فقہائے کوفہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دینے والے کو قتل کرنے اور رافضہ کو کافر قرار دینے کا قطعی فتویٰ دیا ہے‘‘ محمد بن یوسف فریابی سے حضرت ابو بکرصدیق رضٰ اللہ عنہ کوگالی دینے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’وہ کافر ہے ، اسکا جنازہ نہیں پڑھا جا ئے گا ، نہ ہاتھ لگایا جائے گا بلکہ اسے کسی لکڑی کے ذریعے گڑھے میں ڈال کر بند کردیا جائے گا‘‘ قاضی ابو یعلیٰ نے کہا ہے ’’ فقہاء کے نزدیک جو شخص حلال سمجھ کر صحابہ کو گالی دے وہ کافر ہے اور جو حلال تو نہ سمجھے مگر گالی دے ،وہ فاسق ہے‘‘ اور اپنافیصلہ دیتے ہوئے علامہ ابن ِ تیمیہ لکھتے ہیں ’’جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو الٰہ یا نبی سمجھے اور یہ یقین رکھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام غلطی سے وحی ورسالت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو دے گئے تھے اور صحابہ کو گالی دے ، وہ کافر ہے اور اسے کافر کہنے میں توقف کرنے والا بھی کافر ہے اور جو شخص قرآن کریم کو ناقص قرار دے یا باطنی تاویلات کا زعم رکھے جیسا کہ قرامطہ ، باطنیہ اور تناسخیہ کا خیال ہے تو وہ بھی کافر ہے ، جو شخص صحابہ پر بخل ، بزدلی ، کم علمی اور عدم ِ زہد کا الزام لگائے وہ کافر تو قرار نہیں دیا جائے گا مگر وہ سزا وار ِ تعزیر ہے ۔ مطلق لعن طعن کرنے والوں میں سے جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی وفات کے بعد 10،15 صحابہ رضی اللہ عنہم کے سوا باقی سب مرتد یا فاسق ہوگئے تھے ، وہ بھی کافر ہے اور ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافرہے ۔ الغرض گالی دینے والوں میں سے کچھ صاف کافر ہیں اور بعض کے کفر میں تردّد کیا گیا ہے اور بعض پر کفر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ۔ (الصارم المسلول)

پس ہر شخص کو آگاہ ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا، ان کے راستے پر چلنا، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کے لئے دعائے خیر کرنا، امت پر فرض ہے۔ ان سے بغض رکھنا، ان کی بے ادبی کرنا، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ہے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں، کاتب وحی ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا . (مومن:7)

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صرف دو مرتبہ جنگ ہوئی ۔

(1) جنگ صفین ۔ (2) جنگ جمل

ان جنگوں کا سبب جیسا کہ معلوم ہے بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیرالمومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال اور معلومات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا اس زمانہ میں ممکن نہ تھا جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مسلم عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہوجانا باعث تعجب نہیں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں : باہمی جنگیں ہوئیں جس میں مسلمانوں کا ناقابل بیان جانی و مالی نقصان ہوا ۔ ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی ۔ وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جارہے تھے، یکدم رک گئے ۔

تاہم یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا نہ صحیح ہے نہ انصاف۔ اس مسئلہ میں ناصبی، خارجی بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور رافضی بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی اجتہادی خطاء پر ان کی شان عظمت میں گستاخی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ گستاخی کی لعنت سے ہر مسلمان کو محفوظ فرمائے ۔ صحیح صورت حال وہی ہے جس کی نشاندہی ہم نے کردی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم ائمہ و اولیاء و علماء اور عام اہل اسلام کا ادب و احترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے ۔

علماء اور محققین نے فرمایا ہے کہ جس طرح حضرات انبیأ کرام علیہم السلام کی توہین و تنقیص یا ان پر بے جا تنقید پر یہ وعید ہے، ٹھیک اسی طرح وہ لوگ جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سچے وارث اور صحیح جانشین ہیں، ان کی توہین و تنقیص یا ان کی گستاخی اور بے ادبی کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں ہے : من عادیٰ لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب“ (مشکوٰة، ص:۱۹۷)
ترجمہ : جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت اور عداوت کی، میرا اس سے اعلانِ جنگ ہے ۔

عاشق رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں تحریر فرمایا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عنہم کی تنقیص کرنے والا ملعون ہے . قارئین شفا شریف کا کیا عظیم مقام ہے آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں .

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : جو شخص صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی گمراہی پر مانے اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے گالی دی اسے سخت سزا دیجائے گی . برکات آل رسول ص 283 علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنے رسالہ القام الحجر میں اس بات پر اجماع نقل کیا کہ کسی بھی صحابی کو گالی دینے والا فاسق ہے اگر اسے وہ حلال نہ جانے اور اگر وہ حلال جانے تو کافر ہے اس لیے کہ اس توہین کا ادنی درجہ فسق ہے اور فسق کو حلال جاننا کفر ہے .

علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام امور میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حق پر تھے اور فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین عادل ہیں اور ساری جنگیں اور اختلافات تاویل پر مبنی ہیں ان کے سبب کوئی بھی عدالت سے خارج نہیں اس لیے کہ وہ مجتہد ہیں.
الشرف المؤبد ص 104. حدیث میں ہے کہ جس نے میرے صحابہ کرام کو گالی دی اس پر اللہ اور رسول اور فرشتے اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ (برکات آل رسول ص383 )

اصحاب رسول کو برا کہنے والے ملعون کی نہ فرض عبادت قبول نہ نفل: عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا ، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا ، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا صَرْفًا وَلا عَدْلا ” , هذا حديث صحيح الأسناد ولم يخرجاه ، وقال الذهبي “صحيح” [مستدرك الحاكم : ٣/٦٣٢] ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ : الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ : الْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ . [الشريعة للآجري » رقم الحديث: 1973]؛
ترجمہ : حضرت عویم بن ساعدہ رسول الله سے مروی ہیں کہ “بیشک الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے چن لیا، اور میرے لئے اصحاب کو چن لیا، پس ان میں بعض کو میرے وزیر اور میرے مددگار اور میرے سسرالی بنادیا، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے ، ان پر الله کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت ، قیامت کے دن نہ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا، اور نہ ہی نفل .
تخريج الحديث : 1) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 885 2) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:279) » رقم الحديث: 1553 3)الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1590(1772) 4) الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1730(1946) 5) معجم الصحابة لابن قانع (سنة الوفاة:351) » رقم الحديث: 1285(1437) 6) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1972 7) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1973 8) المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 467(456) 9) المعجم الكبير للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 13809(349) 10) جزء ابن الغطريف (سنة الوفاة:377) » رقم الحديث: 37 11) المستدرك على الصحيحين (سنة الوفاة:405) » رقم الحديث: 6686(3 : 629) 12) الجزء التاسع من الفوائد المنتقاة (سنة الوفاة:412) » رقم الحديث: 27 13) حديث ابن السماك والخلدي (سنة الوفاة:419) » رقم الحديث: 56 14) أمالي ابن بشران 20 (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 59 15) حلية الأولياء لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 1399(1401) 16) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4040(4440) 17) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4863(5344) 18) المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي (سنة الوفاة:458) » رقم الحديث: 24(47) 19) تلخيص المتشابه في الرسم (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 936(2 : 631) 20) أربع مجالس للخطيب البغدادي (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 21 21) مجلسان من أمالي نظام الملك (سنة الوفاة:485) » رقم الحديث: 20 22) الثاني والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 55 23) السابع والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 14 24) التبصرة لابن الجوزي (سنة الوفاة:597) » رقم الحديث: 104 25) التدوين في أخبار قزوين للرافعيي (سنة الوفاة:623) » رقم الحديث: 1438 26) مشيخة أبي بكر بن أحمد المقدسي (سنة الوفاة:718) » رقم الحديث: 69(70)

علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم تک دین صحابہ ء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ذریعے ہی پہنچا ہے انہیں کو جب مطعون کردیا جائے گا تو آیات و احادیث بھی محل طعن بن جائیں گی اور اس میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور مبلغ کی تبلیغ کے لیے اس کا عادل ہونا ضروری ہے اور .( برکات آل رسول 281 )

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مبارک سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز افضل ہیں یا حضرت امیر معاویہ آپ نے فرمایا. رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جہاد کے موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو غبار داخل ہوا وہ غبار حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے افضل ہے. الناہیہ ص16 علامہ قاضی عیاض علامہ معافی بن عمران علیہما الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ معافی نے فرمایا کہ صحابی پر کسی کسی کو بھی قیاس نہیں کیا جائے گا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی اور زوجہء رسول ام حبیبہ کے بھائی اور کاتب وحی ہیں. ایضاً ص 17 .. بخاری شریف کی حدیث شریف ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جب کہ فلاں مسئلے میں انہوں نے یوں کیا تو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے ٹھیک کیا بیشک وہ فقیہ ہیں. مشکات ص 112..

بخاری مسلم ترمذی ابوداؤد وغیرہ کبار محدثین نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کو قبول فرمایا اور اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ان ائمہ محدثین کس قدر محتاط ہوئے ہیں اخذ حدیث کے معاملے میں کسی ذی علم پر مخفی نہیں خاص طور پر شیخین کہ ذرا سا عیب بھی پایا تو اس کی روایت لینے سے پرہیز کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قبول کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تمام ائمہ کرام کے نزدیک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ متقی عادل اور ثقہ قابل روایت ہیں .

محترم قارئین اس عنوان پر بہت تحقیق ہوچکی ہے جو کتب عقائد میں موجود ہے جس کو مزید تحقیق درکار ہو وہ اہل سنت کی کتب کی طرف رجوع کرے اور بہت موٹی سی بات یہی سمجھ لے کہ جس سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ نے صلح کی ہم ان سے مخالفت نہیں کرسکتے کہ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے اعتماد کا کھلا مذاق ہے اور جس سے ان کے برادر صغیر سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیعت نہیں کی ہم اس یزید پلید سے صلح نہیں کرسکتے باقی جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان نزاع ہوا اس میں بحث کرنے سے خود کو دور رکھتے ہیں نہ ہم اس کے مکلف کہ مجالس میں صبح سے شام تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی جنگوں کا ذکر کریں . ہمارے آقا کا فرمان ہے کہ کہ صحابہ کرام کے بارے میں تمہیں اللہ کا ڈر سناتا ہوں جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی الخ .
شرح عقائد : خوب کان کھول کر سن لیجیے جو صحابہ کرام کی محبت کے نام پر اہل بیت کی شان میں گستاخی کرے ناصبی خارجی ہے اور جو محبت اہل بیت کے نام پر صحابہ کرام پر سب و شتم کرے رافضی ہے. دونوں کی محبت اور تعظیم فرض ہے .

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے :

اپنا ہے بیڑا پار اصحاب حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

امیر معاویہ بھی ہمارے سردار لیکن حق بجانب حیدر کرار (رضی اللہ عنہما)

ضروری گزارش : ہمارا یہ مضمون کا مقصد واللہ صرف یہ بتانا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں سے کسی کو بھی مطعون کرنا کتنا جرم ہے اور سخت گمراہی ہے ایسے کتنے لوگ ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بغض سے سفر شروع ہوا اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بغض تک پہنچ گئے نعوذ باللہ من ذالک الف مرات ۔

لہٰذا جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد گمراہ نہ ہو، وہ قرآن و سنت اور دین و شریعت پر عمل پیرا رہے، یا وہ جادہٴ حق پر قائم اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہے تو ان کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے دور کے اکابر علماء، محققین اور خدا ترس صلحاء سے دلائل و براہین کے ساتھ اختلاف ضرور کریں، کیونکہ یہ ان کا حق ہے، مگر خدارا! ان کی توہین و تنقیص سے پرہیز کریں، کیونکہ اس سے ان کی اولادوں اور نسلوں کے بے دین اور ملحد و خارجی ہونے کا شدید اندیشہ ہے، چنانچہ ایسی بیسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ جن لوگوں نے اکابر علماء اور صلحا کی گستاخی یا بے ادبی کی، نہ صرف یہ کہ ان کی اولاد بے دین و گمراہ ہوگئی بلکہ ان کا انجام بھی کچھ اچھا نہیں ہوا۔

ازواج مطہرات، اہل بیت اطہار، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بے ادبی و گستاخی کرنے والا گمراہ اور بے ایمان ہے، اس کواسلامی عدالت میں تعزیراً سزادی جائے گی جو حد سے بھی سخت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اولیاء کرام کی بے ادبی وگستاخی کرنے والا گمراہ اور بدعقیدہ ہے اس کو بھی جو مناسب ہو تعزیراً سزا دی جائے گی ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کواور ہماری نسلوں کو گستاخی اور بے ادبی سے بچنے، اہل اللہ اور مقربین بارگاہِ الٰہی کی قدردانی کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مکمل تحریر >>