Pages

Monday 31 October 2016

انبیاء کرام علیہم السّلام اپنی مبارک قبروں میں زندہ ہیں اور یہ حدیث صحیح

انبیاء کرام علیہم السّلام اپنی مبارک قبروں میں زندہ ہیں اور یہ حدیث صحیح
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غیر مقلد اھلحدیث وھابی حضرات کے سب سے بڑے عالم قاضی شوکانی کی گواہی
( نیل الاوطار جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 282 )
یہ روایت بلکل صحیح ہے۔ اس کو امام نوویؒ نے الاذکار،جلد1صفحہ 131 پہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔علامہ ابن حجرؒ نے فتح الباری،جلد6،صفحہ 562 پہ ،امام احمد بن حنبلؒ نے مسند احمد جلد 26 صفحہ 84 پہ ذکر کیا ہے اور علامہ شعیب الارنوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اس کے رجال کو صحیح کہا ہے،علامہ ابن حبانؒ نے صحیح ابن حبان جلد 3صفحہ 190،191 پہ اس کے رجال کو مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیا ہے۔ امام دارمیؒ نے سنن دارمی جلد 1 صفحہ 445، علامہ ابن شیبہؒ نے مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6 صفحہ 40 پہ، امام بہیقیؒ نے سنن الکبری للبہیقی جلد 4 صفحہ 432 پہ، ابن خزیمہؒ نے صحیح ابن خزیمہ جلد 3 صفحہ 118 پہ ذکر کیا ہے۔
اس کے رجال صحیح ہیں۔
علامہ ابن قیمؒ جلاء الافھام میں یہ حدیث بیان کر کے اس پہ حسین بن علی الجعفی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''حسین بن علی الجعفی نے تصریح کی ہے کہ انہوں نے یہ روایت عبدالرحمان بن یزید بن جابرؒ سے سنی ہے چنانچہ اب حبانؒ نے صحیح ابن حبان میں ذکر کیا ہے اور اس سند میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے۔اور لوگوں کا یہ گمان کہ یہ ابن تمیم ہے اور حسین بن علی سے ابن جابرؒ کہنے میں غلطی ہو گئی ہے یہ گمان صحیح نہیں ہے ۔حسین بن علی پراس میں کوئی اشتباہ نہ تھا۔ وہ تنقیقد کی اہلیت بھی رکھتے تھے اور دونوں کو بخوبی جانتے بھی تھے اور دونوں سے سماعت بھی کی ۔''۔(جلاء الفھام،صفحہ 79،80)۔حیات النبیاء ﷺ پہ یہ روایت بلکل صحیح ہے۔

مکمل تحریر >>

تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے استعانت

تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے استعانت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ایک رات حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاشانۂ نبوت میں وضو فرما رہے تھے کہ ایک دم بالکل ناگہاں آپ نے بلند آواز سے تین مرتبہ یہ فرمایا کہ لبیک۔ لبیک۔ لبیک۔ (میں تمہارے لئے بار بار حاضر ہوں۔) پھر تین مرتبہ بلند آواز سے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ نصرت۔ نصرت۔ نصرت (تمہیں مدد مل گئی) جب آپ وضو خانہ سے نکلے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ تنہائی میں کس سے گفتگو فرما رہے تھے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ اے میمونہ ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا غضب ہوگیا۔ میرے حلیف بنی خزاعہ پر بنی بکر اور کفار قریش نے حملہ کردیا ہے اور اس مصیبت و بے کسی کے وقت میں بنی خزاعہ نے وہاں سے چلا چلا کر مجھے مدد کے لئے پکارا ہے اور مجھ سے مدد طلب کی ہے اور میں نے ان کی پکار سن کر ان کی ڈھارس بندھانے کے لئے ان کو جواب دیا ہے۔ حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ اس واقعہ کے تیسرے دن جب حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نماز فجر کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز سے فارغ ہوئے تو دفعۃً بنی خزاعہ کے مظلومین نے رجز کے ان اشعار کو بلند آواز سے پڑھنا شروع کر دیا اور حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ان کی اس پر درد اور رقت انگیز فریاد کو بغور سنا۔ آپ بھی اس رجز کے چند اشعار کو ملاحظہ فرمایئے :۔

یَا رَبِّ اِنِّيْ نَاشِدٌ مُحَمَّدًا

حِلْفَ اَبِيْنَا وَاَبِيْهِ الْاَتْلَدًا

اے خدا ! میں محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو وہ معاہدہ یاد دلاتا ہوں جو ہمارے اور ان کے باپ داداؤں کے درمیان قدیم زمانے سے ہوچکا ہے۔

فَانْصُرْ هَدَاكَ اللّٰهُ نَصْرًا اَبَّدَا

وَادْعُ عِبَادَ اللهِ یَاتُوْا مَدَّدَا

تو خدا آپ کو سیدھی راہ پر چلائے۔ آپ ہماری بھر پور مدد کیجئے اور خدا کے بندوں کو بلائیے۔ وہ سب امداد کے لئے آئیں گے۔

فِيْهِمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ قَـدْ تجَـَّردَا

اِنْ سِيْمَ خَسْفًا وَجْهُهٗ تَرَبَّدَا

ان مدد کرنے والوں میں رسول اللہ (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) بھی غضب کی حالت میں ہوں کہ اگر انہیں ذلت کا داغ لگے تو ان کا تیور بدل جائے۔

هُمْ بَيَّتُوْنَا بِالْوَتِيْرِ هُجَّدًا

وَ قَتَلُوْنَا رُکَّعًا وَّ سُجَّدًا

ان لوگوں (بنی بکر و قریش) نے ” مقام و تیر ” میں ہم سوتے ہوؤں پر شب خون مارا اور رکوع و سجدہ کی حالت میں بھی ہم لوگوں کو بیدردی کے ساتھ قتل کر ڈالا۔

اِنَّ قُرَيْشًا اَخْلَفُوْكَ الْمَوْعِدَا

وَ نَقَّضُوْا مِيْثَاقَكَ الْمُؤَكّدَا

یقینا قریش نے آپ سے وعدہ خلافی کی ہے اور آپ سے مضبوط معاہدہ کر کے توڑ ڈالا ہے۔

ان اشعار کو سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علہا وسلم نے ان لوگوں کو تسلی دی اور فرمایا کہ مت گھبراؤ میں تمہاری امداد کے لئے تیار ہوں۔ (زرقانی ج ۲ ص ۲۹۰)

مکمل تحریر >>

ﻟﻔﻆ” انشاء اللہ“ اور ان شاء اللہ میں فرق

ﻟﻔﻆ” انشاء اللہ“  اور  ان شاء اللہ میں فرق
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ" ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺑﻠﮑﮧ یه *" ﺍﻥ
ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ …
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ
ﮐﮯ ﺍﻟﮓ الگ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔

ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺟﺴﮑﺎ
ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ " ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ " ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ
" ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ
" ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ " ( ﻧﻌﻮﺫﺑﺎ ﺍﻟﻠﮧ

ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ
" ﮐﻮ ﻟﻔﻆ " ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ
ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-
ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺍﮐﯿﻼ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ
ﮨﻮﺍ ہے...

1. ﻭَﻫﻮَ ﺍﻟَّﺬِﯼ ﺃَﻧْﺸَﺄَ
ﻟَﮑُﻢُ ﺍﻟﺴَّﻤْﻊَ ﻭَﺍﻟْﺄَﺑْﺼَﺎﺭَ ﻭَﺍﻟْﺄَﻓْﺌِﺪَۃَ
ﻗَﻠِﯿﻠًﺎ ﻣَﺎ ﺗَﺸْﮑُﺮُﻭﻥَ – ( ﺍﻟﻤﻮﻣﻦ

2. ﻗُﻞْ ﺳِﯿﺮُﻭﺍ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ
ﻓَﺎﻧْﻈُﺮُﻭﺍ ﮐَﯿْﻒَ ﺑَﺪَﺃَ ﺍﻟْﺨَﻠْﻖَ
ﺛُﻢَّ ﺍﻟﻠَّﻪ ﯾُﻨْﺸِﺊُ ﺍﻟﻨَّﺸْﺄَۃَ ﺍﻟْﺂَﺧِﺮَۃَ
ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﮧَ ﻋَﻠَﯽ ﮐُﻞِّ ﺷَﯽْﺀ ٍ ﻗَﺪِﯾﺮ
, ـ ( ﺍﻟﻌﻨﮑﺒﻮﺕ ) 20

3. ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻧْﺸَﺄْﻧَﺎﻫﻦَّ
ﺇِﻧْﺸَﺎﺀ ً – ( ﺍﻟﻮﺍﻗﻌﮧ ) , 35

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ
ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﮐﮩﯿﮟ " ﺍﻟﻠﮧ " ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ
ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﺍﻟﮓ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔۔

ﻟﻔﻆ " ﺍﻥ
ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ
ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*

" ﺍﻥ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﺍﮔﺮ

" ﺷﺎﺀ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﭼﺎﮨﺎ "
" ﺍﻟﻠﮧ
" ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ " ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ "...

ﺗﻮ ﻟﻔﻆ *"
ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ
ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ۔۔

1. ﻭَﺇِﻧَّﺎ
ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻟَﻤُﮩْﺘَﺪُﻭﻥَ –
( ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ ) 70

2. ﻭَﻗَﺎﻝَ ﺍﺩْﺧُﻠُﻮﺍ
ﻣِﺼْﺮَ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺁَﻣِﻨِﯿﻦَ
– ( ﯾﻮﺳﻒ ) 99

3. ﻗَﺎﻝَ ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ
ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺻَﺎﺑِﺮًﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺃَﻋْﺼِﯽ
ﻟَﮏَ ﺃَﻣْﺮًﺍ – ( ﺍﻟﮑﮩﻒ ) 69

4. ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ
ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﯿﻦَ
– ( ﺍﻟﻘﺼﺎﺹ ) 27

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﻟﻔﻆ
*" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "*
ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ

*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*
ﺗﻮ ﺍسے ایسےھی
ﻟﮑﮭﻨﺎ ﭘﺎﻟﮑﻞ ﺩﺭﺳﺖ ھو گا ۔۔

مکمل تحریر >>

دور سے سننے کی دلیل قرآن سے سماعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین کو جواب

دور سے سننے کی دلیل قرآن سے سماعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین کو جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سورہ النمل کی آیت 18 اور 19 کو ملاحظہ کرو۔ترجمہ: حتی کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا، اے چیونٹیو! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بےخبری میں تمہیں روند نہ ڈالے۔ اس کی بات سے سلیمان مسکرا کر ہنس دیے۔الخ اس کے بعد اسی سورہ النمل کی آیت 38 تا 41 ملاحظہ کرو۔ترجمہ: سلیمان نے کہا اے سردارو! تم میں کون ان کے اطاعت گزار ہو کر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے؟ ایک بہت بڑے جن نے کہا میں آپ کے مجلس برخواست کرنے سے پہلے اس تخت کو اس کے پاس حاضر کر دوں گا اور میں اس پر ضرور قادر اور امین ہوں۔ جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اس تخت کو آپ کے پاس حاضر کر دوں گا، سو جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے۔ الخ

ایک طرف سیدنا سلیمان علیہ السلام نے انسان کجا، ایک چیونٹی کی بات نہ صرف سن لی بلکہ سمجھ بھی لی۔ کتنے میٹر یا کلومیٹر سے سنی اور سمجھی، یہ اپنے کسی مولوی سے پوچھ لو اگرچہ وہ خود کسی چیونٹی کی بات کان لگا کر بھی سننے کے قابل نہ ہو، سمجھنا تو دور کی بات ہے۔دوسری طرف سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ایک درباری کی قوت اور تصرف ملاحظہ کرو کہ آنکھ جھپکنے کی دیر میں ملکہ بلقیس کا تخت خدمت میں حاضر کر دیا جو ہزاروں میل کے فاصلے پر سخت پہروں میں رکھا تھا، جسے لانے کے لیے ایک عفریت جن نے بھی مجلس کے خاتمے تک کی مہلت مانگی تھی۔

مکمل تحریر >>

اذآن سے پہلے اور بعد میں درود و سلام پڑھنے کا جواز

اذآن سے پہلے اور بعد میں درود و سلام پڑھنے کا جواز
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اذان سے قبل صلوٰۃ و سلام کا ثبوت

صلوٰۃ و سلام کا مطلب: یاد رہے یہاں پر ہم تفصیل میں جائے بغیر یہ بیان کررہے ہیں کہ یہ بات تمام فقہائے اسلام اور جمہور علمائے اسلام کے نزدیک متفق ہے کہ سید عالمﷺ کے لئے صلوٰۃ و سلام کا مطلب دعا ہے۔
ابن قیم لکھتے ہیں کہ جب ہم صلوٰۃ و سلام پڑھتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ عزوجل جانِ عالمﷺ پر نزول رحمت فرمائے (جلاء الافہام ص 87، دارالکتب العربی)
تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کیا سید عالمﷺ کے لئے دعا کرنا جائز ہے یا نہیں تو اس کا ثبوت ہم فراہم کررہے ہیں۔ کیونکہ قاعدہ کلیہ کے طور پر حکم نص سے ثابت ہے تاہم تسلی کے لئے ہم اس کا جزیہ بھی بیان ہیں۔
حضرت: حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ بنی نجار کی ایک عورت سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرا گھر اونچے گھروں میں سے تھا اور مسجد کے گردونواح میں سے تھا۔ پس حضرت بلال رضی اﷲ عنہ فجر کی اذان کے لئے سحری کے وقت آتے اور میرے مکان پر بیٹھ جاتے اور فجر کا انتظار کرتے تھے اور جب وہ دیکھ لیتے تو یہ کہتے اے اﷲ عزوجل میں تیری حمد کرتا ہوں اور تجھ سے مدد مانگتا ہوں اس بات کی کہ قریش سرور دوعالمﷺ کے دین پر قائم رہیں۔ انہوں نے کہا پھر وہ اذان دیتے (بنی نجار کی اس عورت نے کہا) خدا کی قسم میں نہیں جانتی کہ کسی بھی رات میں آپ نے یہ کلمات پڑھنے ترک کئے ہوں (ہر رات اذان سے پہلے پڑھتے تھے)
(سنن ابو دائود، جلد 1، ص 77، مطبوعہ دارالحدیث، ملتان)
انتباہ اذان سے پہلے دعا بروایت ثابت ہے اور صلوٰۃ و سلام دعا ہے لہذا اذان سے پہلے صلوٰۃ و سلام ثابت ہوا کیونکہ وہ دعا ہے اور جمہور محدثین کے نزدیک روایت بالمعنی جائز ہے۔
نوٹ: جمہور علماء کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بھی نہ صرف قبول بلکہ قابل عمل ہوتی ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے جب اور عموم کی تصریح کے ساتھ ہو تو تمام از مسند تحت امر داخل ہوتے ہیں (فتاویٰ رضویہ جلد 9، ص 243، رضا فائونڈیشن)
اس قاعدے کے مطابق کہ جب امر کا صیغہ عموم کی تصریح کے ساتھ ہو اور یہاں صلوٰۃ و سلام میں جو امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اس کا عموم کسی سے مخفی نہیں اور جب عموم ہے تو اس میں تمام اوقات داخل ہیں لہذا نماز واذان سے قبل و بعد کا وقت لامحالہ (ضروری طور پر) داخل حکم امر ہوگا یعنی جو شخص ان اوقات میں صلوٰۃ و سلام پڑھے گا تو یہ قرآن کے اس حکم پر عمل ہوگا۔ (قواعد فقیہ معہ فوائد رضویہ ص 298 تا 301، مطبوعہ شبیر برادرز)
یاایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما
اے ایمان والو تم بھی اس غیب بتانے والے نبیﷺ پر خوب درود و سلام بھیجو۔ مفتی احمد یار خان علیہ رحمتہ اﷲ الحنان جاء الحق میں ارقام کرتے ہیں۔
یہ آیت کریمہ مطلق وعام ہے۔ اس میں کسی قسم کی قید و تخصیص نہیں ہے یعنی یہ نہیں فرمایا گیا کہ بس فلاں وقت میں ہی پڑھا کرو یا فلاں وقت میں درود و سلام نہ پڑھا کرو بلکہ مطلق رکھا تاکہ تمام ممکن اوقات کو شامل رہے (جاء الحق: ص 781، مطبوعہ مکتبہ غوثیہ)
اسی لئے حضرت علامہ علی قاری علیہ رحمتہ اﷲ الباری فرماتے ہیں:
انہ تعالیٰ لم یوقت ذلک یشمل سائر الاوقات
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ نے اس امر صلوٰۃ (درود و سلام کا حکم) کا وقت معین نہیں کیا تاکہ تمام اوقات شامل رہیں (شرح الشفاء للقاری، جلد 3، ص 447)
سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ہے۔ فی صلوتکم ومساجد کم و فی کل موطن
یعنی اپنی نمازوں اور مساجد اور ہر مقام میں نبی کریمﷺ پر درود شریف پڑھو (جلاء الافہام، ص 252)
زکریا کاندھلوی دیوبندی نے لکھا ہے جن اوقات میں بھی (درود شریف) پڑھ سکتا ہو، پڑھنا مستحب ہے (تبلیغی نصاب فضائل، درود شریف ص 67)
لہذا مطلقا ہر جگہ اور ہر وقت نبی کریمﷺ پر درود وسلام پڑھنا جس میں اذان کا مقام بھی داخل ہے کلام الٰہی عزوجل سے مامور و ثابت ہے۔ لہذا روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ اذان سے پہلے درود شریف پڑھنا جائز و مستحسن ہے۔
غیر مقلدوں کے امام ابن قیم لکھتے ہیں۔ المواطن السادس من مواطن الصلوٰۃ علی النبیﷺ بعد اجابتہ الموذن وعنہ الاقامۃ
ترجمہ: یعنی حضور سید عالمﷺ پر درود شریف بھیجنے کے مواقع میں چھٹا موقع ہے موذن کی اذان سننے کے بعد اور اقامت سے پہلے (جلاء الافہام، ص 308)
امام قاضی عیاض مالکی رحمتہ اﷲ علیہ رقم طراز ہیں۔ ومن مواطن الصلوٰۃ علیہ عند ذکر و سماع اسمہ و کتابہ او عند الاذان
ترجم: نبی کریمﷺ پر درود شریف بھیجنے کے مقامات میں سے یہ ہے کہ آپﷺ کے ذکر کے وقت آپﷺ کا نام مبارک سننے کے وقت یا آپﷺ کے نام مبارک لکھنے کے وقت یا اذان کے وقت۔ (شفاء شریف فصل فی المواطن الخ جلد 2، ص 43، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
علامہ علی قاری فرماتے ہیں:
عند الاذان ای الاعلام الشامل للاقامۃ
ترجمہ: اذان سے مراد اعلام ہے جو اذان شرعی و اقامت دونوں کو شامل ہے (شرح الشفائ، جلد 2، ص 114)
عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں: یستفاد منہ بظاہرہ استحبابہ عند شروع الاقامۃ کما ہو معارف فی بعض البلاد
(الاسعایۃ فی کشف مافی شرح الوقایۃ باب الاذان ج 2، ص 41، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور) امام سید ابی بکر المشہور باسید البکری رحمتہ اﷲ لکھتے ہیں:
ای الصلوٰۃ والسلام علی النبیﷺ قبل الاذان والاقامۃ
ترجمہ: اذان و اقامت سے پہلے رسول اﷲﷺ پر درود و سلام بھیجنا مسنون و مستحب ہے (امانۃ الطالبین علی فتح المعین جلد 1، ص 232، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی)
حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی الفلاح میں علامہ شیخ احمد طحطاوی فرماتے ہیں: وفی الدرۃ المنیقۃ: اول من احدث اذان اثنین معابنو امیۃ واول لازیدت الصلوٰۃ علی النبی ﷺ بعد الاذان علی المنارۃ فی زمن حاجی بن الاشراف شعبان بن حسین بن محمد بن قلاون، باامر المستحب نجم الدین الطنبدی وذلک فی شعبان سنۃ احدی وتسعین وکذا فی الاوئل للسیوطی
(حاشیۃ الطحطاوی جلد 1، ص 271، مطبوعہ قاسم پبلی کیشنز کراچی)
مومن وہ ہے جو ان کی عزت پہ مرے دل سے
تعظیم بھی کرتا ہے نجدی تو مرے دل سے
(حدائق بخشش)
اب ہم فتاویٰ امجدیہ سے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں جس سے اظہر من الشمس وابین من الامس، روز روشن سے زیادہ ظاہر گزشتہ کل سے زیادہ واضح ہوجائے گا۔
اذان و اقامت سے پہلے اور بعد میں درود و دعا و سلام پڑھنا جائز و مستحسن ہے۔ صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمتہ اﷲ القوی لکھتے ہیں: اذان کے بعد جو دعا احادیث میں وارد ہے۔ اس کا پڑھنا اتباع سنت و موجب برکات ہے۔ اس کے پڑھنے کے لئے احادیث میں شفاعت کا وعدہ فرمایا گیا۔ انبیاء علیہم السلام پر درود و سلام پڑھنا موجب ثواب و برکات اور درود کے ثواب جو احادیث میں وارد ہیں، اس کا مستحق ہے۔ احادیث میں درود پڑھنے کی فضیلت موجود ہے اور اذان کے بعد درود کی ممانعت نہیں۔
مزید لکھتے ہیں کہ اس کو (درود و سلام اذان و اقامت سے پہلے یا بعد میں پڑھنے کو) ناجائز و بدعت قبیحہ کہنے والے ایمان و انصاف سے بولیں کہ اذان کے بعد درود شریف پڑھنا کس حدیث میں منع کیا۔ کس صحابی نے منع کیا یا تابعین و تبع تابعین یا ائمہ مجتہدین میں سے کس نے ناجائز کہا۔ اگر ایسا نہیں اور یقینا ایسا نہیں تو یہ حکم احداث فی الدین و بدعت قبیحہ ہے یا نہیں ضرور ہے اور وہ تمام احادیث جو مجوزین کے حق میں ذکر کی گئیں۔ سب مانعین کے حق میں ہیں۔ بالجملہ صلوٰۃ وسلام (اذان واقامت سے پہلے ہو یا بعد میں) پڑھنا جائز ہے کسی دلیل شرعی سے اس کی ممانعت نہیں۔
اب نجدیوں نے موقوف کردیا ہے ورنہ صدیوں سے حرمین طیبین مکہ و مدینہ دیگر بلاد اسلامیہ میں رائج و معمول بنارہا اور علماء و مشائخ بنظر استحسان دیکھتے رہے اور عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ماراہ المسلمون حسنا فہو عنہ اﷲ حسن لہذا یہ جائز و مستحسن ہے۔
در مختار و ہدایہ، فتاویٰ قاضی خان، عالمگیری و غیرہ کتب فقہ میں اس کے جواز بلکہ استحسان کی تصریح ہے۔ التسلیم بعد الاذان حدث فی ربیع الاخر سنۃ سبع مانۃ واحدی وثمانین فی عشاء لیلۃ الاثنین ثم یوم الجمعۃ ثم بعد عشر سنین حدث فی الکل الا المغرب ثم فیہا مہ تین وہو بدعۃ حسنۃ
علماء جب اسے اس ہیئت خاصہ کے ساتھ بدعت حسنہ کہتے ہیں تو اسے بدعت سیئہ قرار دے کر منع کرنا سخت غلطی ہے۔ (فتاویٰ امجدیہ، جلد 1، ص 67, 66, 65 مطبوعہ مکتبہ رضویہ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اذان کے بعد یا اذان سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود بھیجنا جائز و مستحب امر مستحسن ہے کما حردناہ فی اوائلہ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا
تم ہو حفیظ و مغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث
تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود
(حدائق بخشش)
امام ابن حجر متوفی 974ھ اپنی مایہ ناز تصنیف الدر المنصور فی الصلوٰۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود میں ارقام کرتے ہیں کہ نماز جمعہ اور نماز فجر و مغرب کے سوا باقی سب نمازوں سے پہلے اور اذان کے بعد مساجد کی میناروں پر رسول اﷲﷺ پر صلوٰۃ و سلام پڑھنے کی جو عادت اہل اسلام میں رائج ہے۔ ا سکو سلطان صلاح الدین بن ایوب رحمتہ اﷲ علیہ نے جاری کیا تھا۔ نماز جمعہ اور نماز فجر میں اذان سے پہلے پڑھا جاتا تھا اور نماز مغرب کا وقت تنگ ہونے کی وجہ سے اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام نہیں پڑھا جاتا تھا۔ بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ اس عمل کی ابتداء مصر اور قاہرہ میں 791ھ سے ہوئی ہے کہ بعض معتقدین نے خواب میں اس کو دیکھا تھا۔ ان مورخین کا یہ بیان اس طریقہ کے اس سے قبل جاری ہونے کے مخالف نہیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سلطان صلاح الدین بن ایوب کی وفات کے بعد مذکورہ تاریخ تک اس کو ترک کردیا گیا ہو اور اس تاریخ کے بعد دوبارہ اس پر عمل کیا گیا ہو یا سلطان صلاح الدین نے صرف جمعتہ المبارک کی رات اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہو اور مذکورہ تاریخ کے بعد باقی ایام میں بھی اس کو معمول بنادیا گیا ہو۔ مزید لکھتے ہیں کہ بعض متاخرین نے اس عمل کو درست قرار دیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ بدعت حسنہ ہے۔ اس پر عمل کرنے والے کو حسن نیت کی وجہ سے اجر ملے گا۔ حضرت امام احمد بن محمد بن حجر رحمتہ اﷲ علیہ کے شیخ حضرت شیخ الاسلام ذکریا رحمتہ اﷲ علیہ کا قول اس کے قریب ہے۔ انہوں نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا ہے کہ اس کی اصل مستحب ہے اور کیفیت بدعت (حسنہ) ہے (انظرنی الدر المنصور فی الصلوٰۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود ص 325)
نیز اسی میں ہے کہ سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا جس نے مجھ پر درود پاک نہ پڑھا۔ اس کا کوئی دین نہیں۔
اس حدیث کو المروزی نے تخریج کیا۔ اس کی سند میں ایک راوی کا نام ذکر نہیں (الدر السمنن ص 308)
انداز لگایئے کہ درود پاک نہ پڑھنے والے پر اس وعید شدید ارشاد فرمائی گئی۔ ان بدبختوں کا انجام کیا ہوگا جو اپنے دقیانوسی خیالات فاسدہ جاہلانہ اعتراضات کے تیر برسا کر اذان سے پہلے اور بعد میں درود سلام پڑھنے کو منع کرتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ آخرت میں ان کا انجام کیا ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو سمجھنے اور حق توفیق عطا فرمائے۔
خدام الدین ستمبر 1963ء میں لکھا ہے کہ اس درود سے منع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ حاجی امداد اﷲ صاحب نے فرمایا ہے کہ اس کے جواز میں شک نہیں (مولانا محمد صدیق ملتانی) (تقاریری نکات ص 463 بتغیر مطبوعہ کرانوالہ بک شاپ لاہور)
حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہ الکریم فرماتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ رحمت کونین نانائے حسنینﷺ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں ایک طرف کو نکلا تو میں نے دیکھا کہ جو درخت اور پہاڑ سامنے آتا ہے۔ اس سے السلام علیک یارسول اﷲ کی آواز آتی ہے اور میں خود اس آواز کو اپنے کانوں سے سن رہا تھا (سنن الترمذی الحدیث 3464، ج 5ً ص 359)

مکمل تحریر >>

Friday 28 October 2016

گوھر شاھی کون ھے حقائق کی روشنی میں

گوھر شاھی کون ھے حقائق کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
واضح رہے کہ انجمن سرفروشان اسلام کے بانی ریاض احمد گوہر شاہی دین اسلام کے خلاف دشمنانِ اسلام کی جد وجہد کے سلسلے کی ایک ایسی ہی کڑی ہے جس طرح کہ مسیلمہ کذاب یا اس راہِ ضلالت میں اس کے دیگر ہمسفر تھے۔ اس لئے آج کہنے والا اپنے کہنے میں حق بجانب ہے اور عین حقیقت ہے کہ گوہر شاہی کی جد وجہد بھی غلام احمد قادیانی کی جد وجہد کا تسلسل ہے۔ گوہر شاہی نے تصوف وسلوک کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ اس نے اپنی ناپاک زہریلی تعلیمات کے ذریعے اپنے آپ کو نبوت اور الوہیت کے درمیان ثابت کرنے کی کوشش کی‘ دنیا میں ظہور پذیر ہونے والے خود ساختہ جھوٹے نبیوں میں سے ہرایک نے اپنے مشن کو کرہٴ ارض تک ہی محدود رکھا‘ لیکن گوہرشاہی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس نے اپنی تعلیمات کو فروغ دینے کے لئے صرف زمین پر ہی نہیں‘ بلکہ فضاء میں بھی حقائق ساختگی کی جھوٹی اور ناکام کوشش کی‘ اس نے اس سلسلے میں چاند کو بھی معاف نہیں کیا اور بے دریغ سیاہی استعمال کرتے ہوئے در ودیواروں پر بھی کھلے عام یہ لکھوانے سے نہ شرمایا کہ:” چاند میں جس کی صورت آئی‘ گوہر شاہی ‘ گوہر شاہی“ گوہرشاہی بالکل اسلام کے شجرہ طیبہ کی جڑوں کے لئے کسی زہریلے کیڑے سے کم نہیں تھا‘ اس نے مغربی سرمایہ اور سپوٹ کے ذریعے اپنے باطل عقائد کو امت مسلمہ کے درمیان پھیلانے شروع کردئے‘ اللہ جزائے خیر دے علمائے دین کو‘ جنہوں نے بروقت ہی اس ناسور اورفتنے کا تعاقب کیا۔
ذیل میں گوہرشاہی کے عقائد میں سے چند عقائد پیش کئے جاتے ہیں جن کو معمولی عقل کا مالک بھی پڑھ کر اور پھر گوہرشاہی کو اس ترازو پہ رکھ کر اس کے کفر اور اسلام کے بارے میں فیصلہ کرسکتا ہے‘ چنانچہ ملاحظہ ہو:
۱:․․․گوہرشاہی کے نزدیک اللہ تعالیٰ شہ رگ کے پاس ہوتے ہوئے بھی (نعوذ باللہ) انسانوں کے اعمال سے لاعلم ہیں‘ چنانچہ گوہر شاہی اس عقیدے کا اظہار اپنے ملحدانہ کلام میں کچھ یوں کرتاہے:
قریب ہے شہ رگ کے اسے کچھ پتہ نہیں
بے راز ہوئے محمد کاش تونے پایا وہ راستہ نہیں
(بحوالہ تریاق قلب ص:۱۸)
۲:․․․جب گوہرشاہی خدا کو لاعلم کہہ سکتا ہے تو ایسے ملعون کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں تحریف کرنا بھی کوئی مشکل نہ ہوگا چنانچہ وہ کہتا ہے کہ:
”قرآن مجید میں بار بار آیا ہے کہ ”دع نفسک وتعال“ ترجمہ: ”نفس کو چھوڑ اور چلا آ“ (بحوالہ مینارہ نور طبع اول ۱۴۰۲ھ) حالانکہ قرآن کریم میں کہیں یہ الفاظ موجود نہیں “۔
۳:․․․․ جب وہ ایسی جھوٹی آیات اپنی طرف سے گھڑے گا تو اس سے کوئی حوالہ بھی طلب کرے گا‘ چنانچہ اس نے پہلے سے ہی اس کا بندو بست کردیا اور کہہ دیا کہ:
قرآن کے صرف ۳۰ پارے نہیں‘ بلکہ کل ۴۰ پارے ہیں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ:
”یہ موجودہ قرآن پاک عوام الناس کے لئے ہے جس طرح ایک علم عوام کے لئے ہے جبکہ دوسرا علم خواص کے لئے ہے جو سینہ بسینہ عطاء ہوا اسی طرح قرآن پاک کے دس پارے اور ہیں․․․ الخ (بحوالہ حق کی آواز ص:۵۲)
۴:․․․ گوہرشاہی مخلوق کو خدا کے ذکر سے پھیر کر اپنے ذکر میں لگانے کے لئے کہتا ہے کہ:
” یہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے میرا ذکر کرو وہ پارے (یعنی وہ مزید دس پارے جو موجودہ قرآن کے علاوہ ہیں گوہرشاہی کے ہاں) کہتے ہیں کہ اپنا وقت ضائع نہ کرو‘ اسی کو دیکھ لینا اس کی یاد آئے تو․․․ (بحوالیہ آڈیوکسیٹ خصوصی خطاب نشتر پارک کراچی)“۔
۵:․․․ موجودہ قرآن مجید نے شراب کو حرام قرار دیا ‘ لیکن شاید کہ گوہرشاہی کو اپنے خصوصی ان دس پاروں میں جو صرف اس پر (شیطان کی طرف سے) نازل ہوئے ہیں۔ شراب کو حلال قرار دیا گیاہے‘ چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ  کے اس قول کی کہ مجھے حضور ا سے دو علم عطاء ہوئے ایک تم کو بتا دیا‘ دوسرا بتادوں تو تم مجھے قتل کردو‘ اس کی تشریح میں گوہر شاہی لکھتا ہے کہ:
” وہ دوسرا علم یہ ہے کہ شراب پیو‘ جہنم میں نہیں جاؤگے اور بغیر کلمہ پڑھے اللہ تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے“۔ (بحوالہ یاد گار لمحات ص:۹-۱۰)
۶:․․․ گوہرشاہی کو زمین پرتو آرام آیا نہیں‘ اس لئے اس کے نفس نے فضاء میں بھی پرواز کی وہ چاند ‘ سورج اور حجر اسود پر اپنی شبیہ کے متعلق لکھتاہے کہ:
” چاند سورج اور حجر اسود پر شبیہ اللہ کی نشانیاں ہیں‘ یہ من جانب اللہ ہے اور ان کو جھٹلانا گویا کہ اللہ کی بات سے نفی ہے“۔ (بحوالہ حق کی آواز ص:۲۶)
۷:․․․ دنیا کا اصول ہے کہ اپنے محسن کی مدح اور تعریف کی جاتی ہے‘ چونکہ گوہرشاہی بھی اس اصول سے مجبور ہوکر شیطان کی مدح سرائی کرتا ہے تاکہ اس کی طرف سے شیطان کے حق میں کمال ناسپاسی نہ ہو‘ چنانچہ وہ کہتاہے کہ:
” شیطان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو گناہ میں لگاتاہے‘ لیکن خود کبھی شامل نہیں ہوتا․․․ الخ۔ (بحوالہ یادگار لمحات ص:۴)
۸:․․․ جو شخص ہدایت من جانب اللہ سے محروم ہو اور اس کی ہدایت میں کلام خداوندی یعنی قرآن مجید اور فرامین رسول ا یعنی احادیث مبارکہ کارگر نہ ہو اور وہ ان سے ہدایت نہ لے سکے تو آخر وہ کہاں جائے گا؟ اس سوال کا جواب اگر گوہرشاہی خود دے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کا ہادی نہ خدا ہے اور نہ اس کے رسول ا کی تعلیمات‘ چنانچہ وہ خود لکھتا ہے کہ:
” ایک دن پتھریلی جگہ پیشاب کرہا تھا پیشاب کا پانی پتھروں پر جمع ہوگیا اور ویساہی سایہ مجھے پیشاب کے پانی میں ہنستا ہوا نظر آیا جس سایہ سے مجھے ہدایت ملی تھی“۔ (بحوالہ روحانی سفر ص:۲)
۹:․․․ پوری امت مسلمہ کے ہاں زکوٰة ڈھائی پر سینٹ ہے‘ لیکن گوہرشاہی مال وزر کی محبت میں اس قدر آگے بڑھا کہ اس نے اپنے مرید وں پر مزید پچانوے پرسینٹ زکوٰة عائد کردی اور مجموعی طور پر اس کے ہاں زکوٰة ساڑھے ستانوے پرسینٹ ہوگئی وہ کہتا ہے کہ یہ (موجودہ) قرآن کہتاہے کہ:
” زکوٰة دے ڈھائی پرسینٹ زکوٰة دے وہ یعنی وہ مزید دی پارے جن کا معتقد گوہرشاہی خود ہے کہتا ہے کہ ڈھائی پرسینٹ اپنے پاس رکھ‘ ساڑھے ستانوے پرسینٹ زکوٰة دے“۔ (بحوالہ آڈیوکسیٹ خصوصی خطاب نشتر پارک کراچی)
۱۰:․․․گوہرشاہی کو خطرہ ہے کہ اگر اس کا کوئی مرید حج پر چلاجائے اور حجر اسود پر اس کی تصویر نہ دیکھے تو اس کا جھوٹ کھل جائے گا ا سلئے وہ کہتا ہے کہ تم کعبہ کی طرف نہ جاؤ‘ بلکہ کعبہ تمہاری طرف آئے چنانچہ وہ کہتاہے کہ:
” اس کعبہ کو ابراہیم علیہ السلام نے گارے اور مٹی سے بنایاہے تجھے تو اللہ کے نور سے بنایا گیا ہے تو اس کعبہ کی طرف کیوں جاتاہے وہ کعبہ تیری طرف آئے نا“۔ (بحوالہ مذکورہ)

مکمل تحریر >>