Pages

Monday 17 October 2016

شیعہ مذہب کا عقیدہ تحریف قرآن

شیعہ مذھب کا عقیدہ تحریف قرآن : اس البم میں آپ پڑھیں گے شیعہ مذھب کا عقیدہ تحریف قرآن شیعہ کتب کے حوالہ جات کی روشنی ان مزید دلائل بھی اس البم میں شامل کیئے جائیں گے شیعہ مذھب کی اصل کتب کے سیکینز بھی شامل کیئے جائیں گے ۔
شیعوں کا قرآن مہدی لے کر آئیں گے جس میں خلفاء ثلاثہ کی برائی ہے جو اس قرآن سے مختلف ہے ۔ شیعہ عقیدہ : خلفاء نے قرآن کرم جمع کیا تو اس کے بعد علی رضہ انکے صحیح قرآن لیکر آئے جو کہ انہوں نے اس کے اجزاء کو دیکھنے کے بعد جمع کیا تھا انہوں علی رضہ کے جمع کئے ہوئے نسخے کو لینے سے انکار کردیا اور خود اپنا نسخہ جمع کروایا.

امام شیعہ محدیثین ابن بابویہ القمی جسے یہ لوگ الصدوق کہتے ہیں اپنی ایک کتاب “کتاب الاعتقادات فی دین الامامیہ” جو کہ شیعہ عقائد میں اہمیت رکھتی ہے  اس کے صفحہ 86پر لکھتے ہیں

[امیر المومنین علیہ السلام نے قرآن جمع کیا اور جب وہ ان (خلفاء) کے پاس لے کر آئے آپ (علی رضہ) نے کہا یہ آپ کے خدا کی کتاب ہے بلکل اسی طرح لکھی گئی ہے جس طرح تمھارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس میں ایک لفظ کی نہ کوئی کمی ہے نہ کوئی زیادتی ہے۔

انہوں (خلفاء) نے کہا ہمیں اس کی ضروت نہیں ہے ہمارے پاس اس طرح کا نسخہ ہے جس طرح کا تمھارے پاس ہے۔ تو وہ (علی رضہ) وہان یہ پڑہتے ہوئے چلے گئے۔

“تو انہں نے اس کو پس پشت پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کی۔ یہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں برا ہے( آل عمران 187)”]

شیخ علی الکورانی تدوین قرآن ص ۱۸۱ پر لکھتے ہیں کہ

[انہوں نےاس نسخہ کو اپنانے سے انکار کردیا کیوں کہ اس میں سب اور اگر سب نہیں تو بھت سی آیات کی تشریح ان (صحابہ) کے مطابق علی رضہ کے حق میں تھیں]

شیخ جعفر المرتضی الاملی اپنی کتاب مسات الازھرہ جلد ۱ ص ۳۶۶-۳۶۷ پر لکھتا ہے

[قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمع کیا گیا تھا لیکن پھلے دو خلفاء نے رسول اللہ کا قرآن لینے سے انکار کیا کیوں کہ اس میں اسباب نزول اور تشریح موجود تھی اور بھت سی چیزیں جو کہ بھت سے لوگوں کو متاثر کر سکتی تھیں لیکن خلفاء نے ان کو لینے سے انکار کیا اور سچ کو ظاہر ہونے نہیں دیا اس کے بعد انہوں نے قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا اور تشریح و تعویل اور اسباب نزول کو اس سے خارج کردیا۔]

عبداللہ علی احمد الدقاق کتاب حقیقت مصحف امام علی ص 304پر لکھتا ہے

[اور کچھ روایات یہ بھی بیان کرتی ہیں ان لوگوں کی رسوائی علوی قرآن میں موجود تھی اس لئے خلافت نے اس قرآن کو لینے سے انکار کیا]

پھر ص 313 پر لکھتا ہے           

[جب ابی بکر نے اس کو کھولا پہلے ہی صفحہ پر اس نے اپنی لئے رسوائی دیکھی تب عمر بیچ میں کودا  اور کہا کہ اے علی یہ واپس لیجا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔اس لئے ہم نے محسوس کیا کہ یہ اس کو رد کرنا اصل میں ایک ردعمل تھا کیون کہ اس کے اجزاء میں ان لوگون کی رسوائی موجود تھی اس لئے انہوں نے اس کو مسترد کردیا تاکہ لوگوں سے چھپایا جا سکے]

شیعہ مصنف ڈاکٹر ظہیر البتار کتاب الامامہ تلک الحقائق القرآنیہ ص ۴۹ پر لکھتے ہیں۔

[لیکن جب انہوں نے ان کا انکار کیا ان کے پاس ان کے اپنے خیالات کے مطابق نسخہ موجود تھا اس لئے انہوں نے اس قرآن کریم کو مسترد کردیا جو کہ آپ نے جمع کیا تھا جو کہ سبب نزول کے مطابق تھا تاکہ کسی کو اس کا غلط مطلب لینے کی جرأت کرے اور انہوں نے اسے اپنے طریقے سے جمع کیا]

پھر ص ۵۰ پر لکھتا ہے

[اس مسئلہ حقیقت یہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام قرآن و سنت کو بچانے کے خاطر ایک وکیل کا کردار ادا کر رہے تھے جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ انہوں نے قرآن بشمول اسباب نزول آیات جمع کیا تھا کیوں کہ اس کا تعلق پھر تشریح کے ساتھ ہے اس لئے انہوں نے اس کو مسترد کردیا کیوں کہ یہ حقیقت بیان کر رہا تھا جو کہ ان کے طریقے کے خلاف تھا ۔ ]

شیخ علی الکورانی العاملی اپنی کتاب الف سوال و اشکال جلد ۱ صفحہ 243 پر لکھتے ہیں

[حقیقت مین قرآن کریم کو جمع کرنے کے کام میں کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ مسئلہ حکومت نے پیدا کردیا (یہاں حکومت سے مراد عمر رضہ ہیں) جس نے قرآن کریم کا ایک نسخہ کو سرکاری نسخہ قبول کرنے سے انکار کردیا جو کہ علی علیہ السلام لائے تھے ۔]

وہ دوسری کتاب تدوین القرآن ص 256 پر لکھتے ہیں

[ اس کے ساتھ علی رضہ نے امت کی زمیداری پوری کردی اور انہوں ایک قرآن کا نسخہ دیا جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترتیب کیا ہوا اور کہ علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا لیکن انہوں نے (اپنے ارادوں کے لئے) سوچا کہ قرآن کریم کے اس نسخہ کو سرکاری ہرگز نہیں ہونا چاہئے ]

شیعہ مصنف عبدللہ علی احمد الدقاق کتاب حقیقت مصحف الامام علی عند السنہ والشیعہ ص 309-314 پر لکھتا ہے

[جو روایات امامی شیعہ کے ہاں پائی جاتی ہیں وہ اس بات کا اثبات کرتی ہیں کہ خلافت نے امام علی رضہ کے قرآن کو مسترد کردیا۔(۔۔۔۔) اور کیوں کہ جو امامی روایات خلافت کی جانب سے قرآن کریم کو مسترد کرنے کے بارے میں ہیں وہ بھت زیادہ ہیں اس لئے ہمیں یقین ہے کہ یہ معاملہ ہوا ہے (۔۔)  امام علی کے قرآن کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ اور اس کا رد کردینا یہاں تک کہ اس کا نعم البدل بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی]

مشہور شیعہ عالم مرتضی الانصاری کتاب الصلواۃ کی پرانی نسخہ ص 119  پر کہتے ہین

[اس لئے انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام کے قرآن کو رد کردیا جب کہ انہوں نے ان کے سامنے پیش کیا ، تاکہ وہ اسے اپنے بیٹے القائم مھدی(اللہ ان کو جلدی ظاہر کردے) کے لئے چھپا سکیں۔ ]

علامہ محقق  علی بن موسی التبریزی اپنی کتاب مرأت الکتب ص 32 پر کہتے ہیں

[جیسا کہ ہم نے روایات سے ثابت کیا انہوں (علی رضہ) نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن جمع کیا اور اس کو ان (خلفاء) کے پاس لائے لیکن انہوں نے اس کو قبول نہیں کیا اس لئے یہ ہمیشہ محفوظ رہے گا یہاں تک کہ مھدی آخر زمان کا ظھور ہو۔]

علامہ محمد حسین طباطبائی اپنی کتاب القرآن فی الاسلام ص 137 پر کہتے ہین

[اور امیر المومنین علیہ السلام پہلے تھے جنھوں قرآن کو اس ترتیب سے جمع کیا جس طرح وہ نازل ہوا تھا لیکن انہوں نے اس کو رد کردیا اور انھوں نے آپ کو پہلے بار اور دوسری بار قرآن جمع کرنے میں شامل ہونے نہیں دیا۔ ]

وہ اپنی دوسری کتاب ، ” کتاب الشیعہ فی الاسلام ص 28-29 پر لکھتے ہین

[اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا علی رضہ اسلام اور قرآن کے علوم میں سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں ، لیکن انہوں نے آپ (علی رضہ ) کو قرآن کی تدوین کے عمل میں شامل ہونے نہیں دیا (وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی وفات کے بعد علی گھر میں قرآن جمع کر رہے ہیں) اور ان کا نام ان کی ملاقاتوں اور اجتماعات میں ذکر نہیں کیا گیا ۔

آیت اللہ علی المیلانی کتاب محاضرات فی الاعتقادات جلد 2 ص 602 پر لکھتے ہیں

[یہ سچ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے قرآن جمع کیا تھا اور میں نے پہلے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ امام (علی) ان کی طرف قرآن کریم کے ساتھ آئے لیکن انھوں نے اس کا انکار کیا ، علی کے پاس قرآن تھا یہ ثابت شدہ ہے اور ہر کسی کو یاد ہے]

ٓایت اللہ محمد الحسین الحسینی التھرانی اپنی کتاب نور الملکوت القرآن جلد ۴ ص ۳۴۵ پر لکھتے ہیں

[جہاں تک شیعہ روایات ہیں ان میں ہم یہ دیکتے ہیں انہوں نے قرآن کریم کو اونٹ پر لادیا اور مسجد کی جانب لے کر آگئے اور کہا کہ یہ تمہارہ قرآن ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں تمہارے قرآن کی  ضرورت نہیں ہے اور انہوں نے آپ کی طرف کوئی توجہ نہیں کی پھر آپ نے اونٹ کے مھاریں کھینچی اور اپنے گھر چلے گئے پھر کہا کہ آپ لوگ اسے قیامت تک نہیں دیکھیں گے]

پھر صفحہ ۳۴۳ پر لکھتا ہے کہ

[ امیر المومنین علیہ السلام وہ پہلے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن کریم کو جمع کرنے کا خیال پیش کیا اگرچہ ان کے اپنے نسخہ کو مسترد کردیا گیا تھا۔]

مشہور آیت اللہ محمد الحسینی الشیرازی کتاب قرآن کب تدوین ہوا ص 31 پر لکھتے ہیں

[جہان تک علی کے قرآن کا مسئلہ ہے کہ انہوں نے جمع کیا تھا لیکن رد کردیا گیا ، یہاں پراس کا مطلب ہے کہ یہ تفسیر اور تعویل کی صورت میں جمع کیا گیا تھا  جیسا کہ انہوں (علی رضہ) نے ان روایات میں بیان کیا جو ان سی کی گئی ہیں]

اس لئے  قابل احترام پڑھنےوالے غور کریں کہ کس طرح شیعہ علماء نے اس قرآن کو غلط ہونے کا جواز تلاش کرنے کوشش کی ہے کیوں کہ کچھ لوگوں نے ان کے مطابق ان کے معصوم امام علی کے قرآن کو جب انہوں نے دیکھا کہ اس کے اجزاء (آیات یا تشریح) ان کے خواہش کے مطابق نہیں ہے تو اسے مسترد کردیا تھا۔

یہ کتاب کس طرح جائز کہلائی جاسکتی ہے جب کہ یہ ایک معصوم امام کی جمع شدہ کتاب سے مختلف ہے جس کو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر نگرانی میں جنع کیا تھا !؟

میں ایک امانتدار شیعہ سے سوال کرتا ہوں کیا تم لوگ ایسی قرآن کو پڑہتے وقت آسانی محسوس کرتے ہو جو ان لوگوں کا جمع کیا ہوا ہے جس کو آپ کے علماء الزام دیتے ہیں کہ انہوں نے آپ کے معصوم امام کا تیار کردہ قرآن اس کے اجزاء دیکھنے کے بعد مسترد کردیا تھا۔ ؟

شیعہ عقیدہ:

علی رضہ کا قرآن جو کہ چھپے ہوئے بارہویں امام ظاہر کریں گے وہ ایک بلکل نیا قرآن ہے جو کہ اس سے مختلف ہے جو آج کل مسلمانوں استمعال کرتے ہیں اس کا  سبب  اس کی معجزانہ ظاقت اور مختلف تشریح اور اس کی تدوین میں درستگی ہے ۔

جب کہ علی رضہ کے قرآن میں وہ سب منفرد پہلو موجود تھے جو کہ لوگوں کی دلوں کو چھو جانے کا سبب ہیں ،  قرآن کریم کی حقیقی معجزانہ طاقت ظاہر کرتے ہیں ، اور جو اللہ تعالی چاہتے ہیں اسی مناسبت سے سمجھا جائے وغیرہ تب انہوں نے اپنی روایات میں اس کو نیا قرآن کہنا شروع کردیا جیسا کہ محمد بن ابراہیم النعمانی کی حدیث ہے

[ ابو بصیر ، ابو جعفر سےروایت کرتے ہیں کہ انہون نے کہا القائم ایک نئی شریعت ، نئے قرآن ، اور نئے  ارادے سے ظاہر ہونگے جو کہ عربوں پر سخت ہوگا ، وہ صرف اپنی تلوار استمعال کریں گے اور کسی کی بھی توبہ قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی کو سنیں گے سواء اللہ کے]

حوالہ جات: غیبت النعمانیہ ص 237 ، بحار الانوار  52/354 ، اثبات الھدات جلد 3 ص 540، معجم الحدیث المھدی جلد 3 ص 235۔

مشہور آیت اللہ محقق المنتظری کتاب دراسات فی الولایت الفقیھ جلد 1 ص 521 پر کہتے ہیں

[اور القائم کے بارے میں ابو بصیر کی روایت ابو جعفر علیہ السلام سے ” اللہ کی قسم یہ  ایسا ہے جیسے میں انہیں (مھدی) رکن و مقام کے بیچ دیکھ رہا ہوں اور لوگ ان کی ایک نئی شریعت ، نئی کتاب اور نئی آسمانی اختیار پر بیعت کر رہے ہیں ](۔۔) اور نئے قرآن کریم سے ان (امام باقر) کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور علی رضہ کے ہاتھ سے لکھی گئی تشریح ہے جیسا کہ ہم نے بہت سی روایات میں پڑھا ہے]

شیخ الکورانی کتاب عصر الظہور ص 88-89 پر لکھتے ہیں

[اور نئی کتاب سے ایک نیا قرآن  مراد ہوسکتا ہے جو آیات و اجزاء کی نئی ترتیب کے ساتھ ہوگا، یہ روایت کی گئی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور چیزوں کے ساتھ یہ قرآن کریم بھی مھدی کے پاس محفوظ ہے جو کہ اسے وراثت میں ملا ہے ۔]

شیخ عبداللطیف البغدادی کتاب تحقیق فی الامامہ ص 235-236 پر لکھتا ہے

[ہان یہ قرآن کریم اپنی صحیح تشریح کے ساتھ علی رضہ کے پاس رہا ان کے بعد امام حسن کے پاس رہا اور یوں اماموں کی نجی وراثت کے طور پر چلتا ہوا اب یہ امام العصر و الزمان المھدی کے پاس ہے۔ باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ انہون نے کہا ” جب وہ ظاہر ہونگے تو وہ ایک نئی شریعت ، نئی کتاب ، نئی سنت اور نئے حکم سے شروعات کریں گے اور وہ عربوں پر سخت ہونگے۔”(المجالس السنیہ)  اور ان (ابوجعفر) سے ایک اور روایت ہے : اللہ کی قسم یہ  ایسا ہے جیسے میں انہیں (مھدی) رکن و مقام کے بیچ دیکھ رہا ہوں اور لوگ ان کی ایک نئی شریعت ، نئی کتاب اور نئی آسمانی اختیار پر بیعت کر رہے ہیں ان کا جھنڈہ ان کی موت تک کبھی بھی نیچے نہیں ہوگا” یہاں پر ایک نئی شریعت ، ایک نئی کتاب ، ایک نئی سنت اور نئے حکم اور اختیار سے مراد اسلام کے اصل قوانین لاگو کرنا ہے جو اللہ تعالی چاہتے ہیں اور قرآن کریم کو اس کی تنزیل و تعویل اور اس کی قوانین کی تشریح کے ساتھ واپس لانا ہے]

میں یہاں پر کہنا چاہتا ہوں کہ یہ دکھ اور ستم ظریفی کی بات ہے کہ یہ لوگ کہ رہے ہیں کہ صحیح مذہب اور صحیح شریعہ اور قوانین صرف مھدی کے ساتھ ظاہر ہونگے ، کیا تھوڑی سی زیادہ دیر نہیں ہوگئی ہے؟ کیا اسے انصاف سمجہا جائے ؟

المرزا محمد تقی الاصفحانی کتاب مکال المکارم جلد 1 ص 184 پر کہتے ہیں

[اللہ فرماتے ہیں (اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا (سورہ فصلت ٓایت45)) الطبرسی مجمع البیان میں کہتے ہیں کہ ” اس سے مراد ہے کہ انکے لوگ اس پر اختلاف کریں گے اور مطلب اس کتاب کی صداقت  پر جو ان پر نازل ہوئی ہے۔ اور اس کتاب پر بھی اختلاف ہوگا جو کہ القائم لےکر آئیں گے جو کہ مکلمل کتاب ہے الحجہ (مھدی) کے پاس محفوظ ہے۔

اس میں جو اشارہ ہے وہ اسناد ہیں جو ہم روضات الکافی میں دیکھتے ہیں ابوجعفر سے اللہ تعالی اس قول پر (اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا (سورہ فصلت ٓایت45)) وہ (ابوجعفر) کہتے ہیں وہ اس پر اختلاف کریں گے جیسے امت نے اپنی کتاب پر اختلاف کیا اور وہ القائم کی کتاب پر اختلاف کریں گے جو وہ اپنے ساتھ لائیں گے بہت سے لوگ اس کا انکار کریں گے اور وہ (مھدی) ان سب کو قتل کردیں گے اور ان کے سر الگ کردیں گے]

وہ اسی کتاب کے صفحہ 197 پر کہتا ہے

[جب عزیز علیہ السلام اپنے لوگوں میں واپس آکر ان پر ظاہر ہونے تو وہ تورات کو اس طرح پڑہا جس طرح موسی بن عمران علیہ السلام پر نازل ہوا تھا ۔ اور القائم جب زمین کے لوگوں پر ظاہر ہونگے تو وہ قرآن کریم کو اس طرح پڑہیں گے کہ  جس طرح وہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہواتھا]

یعنی یہود نے تورات میں حد درجہ کی تحریف کردی تھی پھر عزیر علیہ السلام نے آکر اسے ٹھیک کیا ، یہ مثال دے کر شیعہ مصنف محمد تقی کہ رہا ہے کہ خلفاء ثلاثہ اور مسلمانوں نے قرآن کریم میں تحریف کردی ہے اس لئے اب عزیر علیہ السلام کی طرح پھر ان کے معصوم مہدی آکر اس کو ٹھیک کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ معاذ اللہ پڑہنے والے اس پر غو رکریں اور بار غور کریں۔

پھر صفحہ نمبر 63 پر کہتا ہے

[ میں کہتا ہوں : اس میں کوئی راز ہوسکتا ہے کہ کیوں القائم کو عظیم قرآن کہا گیا ہے غور کرتے ہوئے کہ وہ آپکو حکم دیں گے اس کی پیروی کی اور اس کے پڑہنے پر لوگوں کو مجبور کریں گے وہ اسے ظاہر کریں گے اس کی تشہیر کریں گے]

تو یہ عقیدہ بھی ویسا ہی ہے جیسے پہلے تھے شیعوں کو مجبور کرتا ہے کہ اس قرآن کریم کو نظر انداز کریں اور اس پر زیادہ دھیان مت دیں اس کے برعکس وہ ان کے امام اور دوسرے قرآن کا انتظار کریں یہ بلکل اس طرح ہے کہ شیعہ کہ رہے ہین کہ  ” اس کتاب کو بھول جاؤ جو کہ خلفاء نے جمع کیا ہے ہم سب کو چاہئے کہ مھدی کا انتظار کریں کہ وہ نیا قرآن ظاہر کریں ، ایسا مکلمل قرآن جو اللہ کی رضا کا سبب بنے اور چھپے امام کے ساتھ ہے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔