Pages

Friday 14 October 2016

بغض اہلبیت رضی اللہ عنہم تاریخ کی روشنی میں

بغض اہلبیت رضی اللہ عنہم تاریخ کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جس طرح کی تفریق بد قسمتی سے آج محبتِ اہلِ بیت کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں ہے، اس کی ابتداء اس وقت ہوئی جب بنو امیہ اقتدار میں تھے۔ بنو امیہ کے اکثر حکمران اہل بیت سے بغض رکھتے تھے۔ اس کا آغاز یزید کے دورِ حکومت سے ہوا۔ یزید نے ایک نئی طرز پیدا کر دی۔ اُس بدبخت اور ملعون کے زمانہ میں ایک کلچر develop ہوگیا، سارے معاملہ نے سیاسی رنگ اختیار کرلیا، معاملہ Politicize ہوگیا۔ حکومت کے چھوکرے، لونڈے، عمال، انتظامیہ، بیوروکریسی، وزیر، مشیر، سیاسی نمائندگان، جن کو چھوٹی چھوٹی سطح کا اقتدار ملتا ہے، علاقوں میں اُن کے ذمہ داران، یہ تمام اہل بیت اطہار کے خلاف ہر سطح پر ایک ماحول پیدا کرتے اور انہیں گالیاں دیتے تھے۔ سیدنا مولا علی المرتضی اور اہل بیت اطہارکو برا بھلا کہتے۔

حکمران اور ان کے گماشتے چونکہ جان سے مار دیتے تھے، قتل کر دیتے تھے، داڑھی منڈھوا دیتے تھے، کوڑے مارتے تھے۔ بڑے بڑے جلیل القدر تابعین اس ظلم و ستم اور سب و شتم کو دیکھ کر بڑی احتیاط کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو روایت کرتے تاکہ دین امت تک پہنچے۔

حتی کہ سیدنا عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جو پانچویں خلیفہ راشد کہلاتے ہیں، جب اُن کا دور آیا، تو انہیں یہ قانون نافذکرنا پڑا کہ جو یزید کو امیرالمومنین کہے گا، شرعی طور پہ اُس کو بیس کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو اس حوالے سے مزید سخت اقدامات لینے پڑے۔ آپ نے منبروں پر حضرت مولا علی شیرخدا رضی اللہ عنھما اور اہل بیت اطہار کو گالی دینے کا کلچر حکماً بند کردیا۔ الغرض لوگوں کے ذہن اتنے یکطرفہ اور اتنے زہر آلودہ ہو چکے تھے کہ باقاعدہ احکامات صادر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔

عام نئی نسلیں جس ماحول میں جنم لیتی ہیں، وہ جو کچھ پیدا ہوتے ہی دیکھتے اور سمجھتے ہیں، اسی کو دین سمجھتے ہیں۔ مثلاً روس اور چین کے اندر جب سیکولرازم آیا، تو تین چار نسلیں اس کے اندر گزر گئیں، انہوں نے اسلام نہیں دیکھا تھا۔ جب سے آنکھ کھلی وہ سب کچھ سیکولرازم ہی کو سمجھتے رہے۔ اسی طرح اور بھی دنیا کی کئی جگہیں ایسی ہیں، جہاں ایک عقیدہ مسلط کردیا جاتاہے، تو تین تین چار نسلیں اس میں گزرتی ہیں، اس لئے کہ اُنہوں نے اور کچھ دیکھا ہی نہیں ہے، اصل دین نہیں دیکھا، باپ دادا سے جودیکھا، اسے ہی اصل دین سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً اصل تاریخ سے منقطع (cut off) ہو جاتے ہیں۔

اِسی طرح جب حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اہل بیت اطہار کو اور سیدنا مولاعلی المرتضی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے پر پابندی لگادی تو تاریخ کی کتب، اسماء الرجال کی کتب، محدثین کے ہاں یہ درج ہے کہ عامۃ الناس نے شور مچایا کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے سنت بند کردی۔ حالانکہ وہاں سنت سے لغوی معنی مراد ہے کہ وہ ایک طریقہ اور شیوہ جو پرانا چلا آرہا تھا، اس کو ختم کردیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ سنت بند نہیں کی بلکہ جو بند کیا وہ بے ہودگی تھی، دین کے خلاف ایک ماحول تھا، جو بعض لوگوں نے اپنے مفادات کے لئے بنا رکھا تھا تاکہ حکومت سے مراعات لیں لہذا اُس کوبند کیا ہے۔

بنو امیہ کے بعد بنو عباس بھی آئمہ اطہار اہل بیت کو شہید کرتے رہے۔ اُن کو بھی اہل بیت سے خطرہ تھا کہ اِن کی محبت کرنے والے کہیں ہمارا تخت نہ الٹ دیں۔ چونکہ وہ اقتدار میں بھی محبت اہل بیت کے نام پر آئے تھے۔ انہوں نے اہلِ بیت کے نام کا غلط استعمال کیا تھا کہ ہم واقعہ کربلا کا بدلہ لے رہے ہیں۔ وہ اہل بیت کی حمایت میں اٹھے تھے، اہل بیت سے محبت کرنے والی امت کی اکثریت نے اُن کی تائید کی تھی اور وہ بنو امیہ کی حکومت کو ختم کرکے اقتدار میں آئے۔ چونکہ محبت اہل بیت ہی وہ قوت و طاقت تھی جو اُنہیں منصب حکومت پر لائی تھی، لہذا اُن کو پتہ تھا کہ اہل بیت کی محبت کتنی بڑی طاقت ہے۔ پس اِس سے انہیں بھی خطرہ تھا۔ اقتدار پر آجانے کے بعد جب انہیں منزل مل گئی تو جو بھی محبتِ اہل بیت کا نام لیتا، عباسی حکمران اُسے مار دیتے تاکہ ان کا اقتدار مضبوط رہے اور اسے کوئی چیلنج نہ کرسکے۔

لہذا اُس وقت اقتدار کے چھن جانے کے خوف کی بناء پر بنو امیہ کے اوباش لونڈے اہل بیت سے محبت کرنے والوں کو قتل کرتے اور مارتے تھے۔ آج وہ کیفیت نہیں ہے، مگر صف بندی ہے، فرقہ بندی ہے، جس میں لوگ انتہاؤں کی طرف جا رہے ہیں اور خود انتہاء پسندی کی وجہ سے نادانستگی میں حق کو چھوڑ رہے ہیں، ایمان کی دولت سے محروم ہو رہے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔