Pages

Wednesday 28 August 2019

ماتم کے دلائل اور انکے جوابات ماتم کے حق میں دی گئ دلیلوں کے آسان اور عام فہم شافی جوابات نوجوان حضرات پڑھ کر رٹ لیں شيعوں کا منہ بند کرنے کے کام آئیں گی.

ماتم کے دلائل اور انکے جوابات
ماتم کے حق میں دی گئ دلیلوں کے آسان اور عام فہم شافی جوابات نوجوان حضرات پڑھ کر رٹ لیں شيعوں کا منہ بند کرنے کے کام آئیں گی.
دلیل نمبر1:
یعقوب علیہ السلام بھی تو یوسف علیہ السلام کے غم میں روئے تھے یہاں تک کہ رو رو کر ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی، چنانچہ قرآن پاک میں آتا ہے کہ:
’’وتولی عنھم وقال یا اسفا علی یوسف وابیضت عیناہ من الحزن فھو کظیم‘‘:
''اور اس نے منہ پھیر لیا اور کہنے لگا ہائے افسوس! یوسف پر اور غم واندوہ کی وجہ سے اس کی دونوں آنکھیں سفید ہوگئیں۔''
تو جب ایک نبی دوسرے نبی کے غم میں رو رو کر آنکھیں سفید کرسکتا ہے تو امام عالی مقام کا غم منانے پر کیا اعتراض ہے؟
جواب:
ماتمیوں نے اس آیت کے لفظ ’’فھو کظیم‘‘ پر غور نہیں کیا، جس کا ترجمہ ہے کہ ’’وہ اپنے غم کو روکنے والے تھے‘‘
معلوم ہوا کہ غم لاحق ہونا حضرت یعقوب علیہ السلام کا غیر اختیاری فعل تھا اور انہوں نے اپنا ارادہ و اختیار غم منانے پر نہیں بلکہ غم ختم کرنے پر صرف کیا۔ اسی کو صبر جمیل کہتے ہیں جس پر انعامات کی بشارتیں اللہ کا قرآن سناتا ہے۔۔
(2) آیت میں نہ ''منہ پیٹنے'' کا لفظ ہے نہ ''سینہ کوبی'' اور ''ماتم'' کا بلکہ صرف ''حزن'' کا لفظ ہے جس کا معنی صرف ''غم واندوہ'' ہے۔
(3) حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق کا صدمہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو مسلسل رہا۔ لیکن جب دور فراق ختم ہوا اور آپ کو حضرت یوسف علیہ السلام کے تخت ِمصر پر متمکن ہونے کی بشارت ملی تو پھر آپ کا غم بھی جاتا رہا اور آنکھوں کی روشنی بھی واپس لوٹ آئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب تک کسی محبوب کی مصیبت باقی ہو اور اس کا صدمہ لاحق رہے لیکن صبر کے خلاف کوئی حرکت نہ کرے تو یہ غیر اختیاری ''غم و اندوہ ''گناہ نہیں اور جب وہ مصیبت ختم ہو جائے تو پھر غم بھی ختم ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ میدان کربلا میں حضرت امام عالی مقام اور آپ کے اعزہ واحباب پر جو مصیبت نازل ہوئی وہ وقتی تھی۔ شہادت کا درجہ پانے کے بعد جب آپ کو جنت مل گئی تو پہلی مصیبت ختم ہوگئی۔
اب شہدائے کربلا کی روحوں کو حسبِ آیاتِ قرآنی جنت کا رزق ملتا ہے اور وہ وہاں خوش ہیں تو اب رونے اور ماتم کرنے کا کیا موقعہ ہے؟ ہم تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں کہ جب تک آپ مصیبت میں مبتلا تھے اس وقت بھی صبر کیا اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بلند مقام کی بشارت ملی تو پہلا غم بھی بالکل ختم ہوگیا۔ مصر کے تخت سے جنت کا مقام تو اعلیٰ درجہ رکھتا ہے کیا ماتمیوں کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے جنتی ہونے اور وہاں خوشیاں منانے کا یقین نہیں ہے اور اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جنت میں بھی وہ مصیبت میں ہیں۔
(4) حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کی سلطنت ملنے کے بعد بھی کیا حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس گزری ہوئی مصیبت کی یادگار میں ہر سال غم کی مجلس منعقد کی تھی؟
(5) حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے سانحہ کربلا ایک بہت بڑا ایمانی امتحان تھا۔ جس میں آپ اعلیٰ نمبروںمیں پاس ہوئے تو اب ''واہ واہ حسین'' امام کربلا کی شان کے مناسب ہے یا ''ہائے حسین، ہائے حسین'' جو امام عالی مقام کو پاس سمجھتا ہے وہ ''واہ واہ'' کرے اور جو نعوذ باللہ فیل سمجھتا ہے وہ ''ہائے ہائے'' کرتا رہے ۔ نگاہ اپنی اپنی، پسند اپنی اپنی.
(6) پاکستان میں کتنے ماتمی ایسے ہیں جو امام حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں اندھے ہوئے ہیں؟؟؟
دلیل نمبر2:
ماتمی حضرات اپنے ماتم کی حمایت میں پارہ ٧المائدہ آیت ٨٣ بھی پیش کرتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے:
"اور جب وہ سنتے ہیں اس کو جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اتارا گیا تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے حق پہچان لیا۔" الخ۔
الجواب!
(1) یہ آیت ان عیسائیوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو ملک حبشہ سے حضرت جعفر بن ابی طالب کے ساتھ مدینے شریف پہنچے تھے اور جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے انہوں نے قرآن مجید سنا تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ مسلمان ہوگئے۔ یہاں تو صرف آنکھوں سے آنسو جاری ہونے کا ذکر ہے اور وہ بھی قرآن سننے پر۔ اس کو تمہارے ماتم سے کیا تعلق ہے۔
(2) اگر ماتمیوں کے نزدیک اس آیت کا مطلب ماتم کرنا ہے تو پھر قرآن سننے پر ماتم کیوں نہیں کرتے؟
دلیل نمبر3:
ماتمی حضرات کا ایک استدلال یہ بھی ہے کہ فرعون کے غرق ہونے کے واقعے کے دوران اللہ جل شانہ فرماتے ہیں کہ:
’’فما بکت علیھم السماء والارض وما کانوا منظرین‘‘:
''نہ ان پر آسمان رویا نہ زمین نے گریہ کیا۔ اور نہ انہیں اللہ کی طرف سے مہلت دی گئی۔''
معلوم ہوا کہ جوبرے لوگ ہیں وہ اس قابل نہیں کہ ان پر رویا جائے، اس کے بالمقابل ثابت ہوتا ہے کہ اچھے لوگوں پر رونا چاہئیے۔''
الجواب!
(1) اس آیت میں نہ شہادت کا ذکر ہے نہ ماتم کا تو اس سے مروجہ ماتم کیسے ثابت ہوگیا۔
(2) اس آیت میں کوئی حکم نہیں ہے کہ نیک لوگوں پر رونا چاہیے۔
(3) کیا ماتمی لوگ زمین وآسمان کے مذہب کے پیرو ہیں؟
(4) اگر اللہ کے مقبول اور صالح بندے مستحق گریہ ہیں تو پھر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور دیگر صلحائے امت کی وفات پر ہر سال کیوں گریہ وماتم کی مجلس بپا نہیں کرتے؟
(5) نیک لوگوں کی وفات پر طبعا انسان کو افسوس ہوتا ہے اور غیر اختیاری طور پر رونا بھی آتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں، اعتراض تو سال بسال اس دن کی یادگار منانے اور بے صبری و نوحے کے اعمال کرنے پر ہے جن کے کسی ثبوت کا اشارہ بھی اس آیت سے نہیں نکلتا.
دلیل نمبر4:
بعض ماتمی تفسیر ابن کثیر کے ایک حوالے سے بھی اپنے مروجہ ماتم کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تفسیر ابن کثیر میں ہابیل و قابیل کے واقعہ کے تحت لکھا ہے کہ:
''کہتے ہیں کہ اس صدمہ سے حضرت آدم بہت غمگین ہوئے اور سال بھر تک انہیں ہنسی نہ آئی۔ آخر فرشتوں نے ان کے غم دور ہونے اور ہنسی آنے کی دعا کی۔''الخ
(تفسیر ابن کثیر مترجم جلد اول صفحہ٨٦)
الجواب:
(1) فرمائیے! کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام ہر سال''غم کی مجلس'' قائم کرتے تھے یا یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرشتوں نے ان کے غم کو دور کرنے کی دعا کی تھی؟ اس سے معلوم ہوا کہ غم دور کرنا ضروری ہے نہ کہ باقی رکھنا۔
(2) حضرت آدم علیہ السلام نے ''منہ پیٹا'' اور نہ ''سینہ کوبی'' کی اور نہ کالے کپڑے پہنے تو ماتمی لوگ یہ کام کر کے کس کی سنت کی پیروی کرتے ہیں؟
دلیل نمبر5:
''حضرت نوح علیہ السلام کا اصلی نام عبد الغفار تھا اور نوحہ کرنے کی وجہ سے نوح کہلاتے ہیں۔ ''(الصاوی علی الجلالین، جلد دوم صفحہ ١٣٣مطبوعہ مصر)
الجواب!
(1) حضرت نوح علیہ السلام کسی مقبول بندے کی مصیبت،بشارت کی وجہ سے سے نہیں روئے بلکہ اس کی وجہ سے خود صاوی حاشیہ جلالین میں یہ لکھی ہے :
''لقب نوح لکثرة نوحة علی نفسہ حیث دعا علی قومہ فھلکوا ۔وقیل لمراجعتہ ربہ فی شان ولدہ کنعان۔
آپ کا لقب نوح اس لیے ہوا کہ آپ اس بنا پر زیادہ روتے رہے کہ آپ نے اپنی قوم کے لیے بددعا کی تھی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئی تھی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کے رونے کی وجہ یہ تھی کہ اپنے بیٹے کے بارے میں آپ نے اپنے رب تعالیٰ سے سوال کیا تھا۔
(2) اس نوحہ (رونے) سے منہ پیٹنا او رسینہ کوبی کرنا کیسے ثابت ہوگیا۔
دلیل نمبر6:
حضرت ابراہیم بن محمد ۖنے انتقال کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف لائے۔ نزع کی حالت تھی گود میں اٹھا لیا۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ (سیرت النبی حصہ اول صفحہ ٧٢٨)
الجواب!
(1) اس کے بعد یہ الفاظ بھی ہیں کہ:
''عبد الرحمن بن عوف نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی یہ حالت؟ آپ نے فرمایا یہ رحمت ہے۔''
اس سے ثابت ہوا کہ اپنے فرزندحضرت ابراہیم کے انتقال پر رحمت کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے تھے لیکن اس سے ماتم مروّجہ کیسے ثابت ہوا۔؟
(2) اور اس گریہ کی بھی کیا ہر سال ابراہیم کی وفات کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مجلس بپا کیا تھی؟
(3) حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ماتمیوں نے بھی کبھی حضرت ابراہیم بن محمد ۖ کے ماتم کی مجلس بپا کی ہے؟ عجیب بات ہے کہ جس چیز سے استدلال کرتے ہیں خود اسی پر عمل نہیں۔
دلیل نمبر7:
حضرت حمزہ کی شہادت پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روئے اور فرمایا۔ ہائے آج حمزہ کا ماتم کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس پر صحابہ نے اپنی عورتوں سے کہا کہ تم حضرت حمزہ کا ماتم کرو اور عورتوں نے گریہ کیا اور صف ماتم بچھائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کا گریہ سن کر خود گریہ کیا اور عورتوں کو ماتم کرنے کی وجہ سے دعائے خیر دی۔ (کتاب مغازی فتوح الشام صفحہ١٠٨، سیرة ابن ہشام ،سیرة النبی شبلی نعمانی جلد اول)
الجواب!
(1) اس عبارت میں بھی منہ پیٹنا اور سینہ کوبی کرنا ثابت نہیں جس سے مروجہ ماتم ثابت ہوتا ہے۔
(2) سیرة النبی شبلی نعمانی حصہ اول ٣٨٧میں تو یہ الفاظ ہیں۔
''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو دروازہ پرپردہ نشینان انصار کی بھیڑ تھی اور حضرت حمزہ کا ماتم بلند تھا۔ ان کے حق میں دعائے خیر کی اور فرمایا تمہارے ہمدردی کا شکرگزار ہوں لیکن مُردوں پر نوحہ کرنا جائز نہیں''
اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حمزہ کے ماتم میں عورتوں نے رواج کے تحت نوحہ (بین کرکے رونا)شروع کر دیا تھا جس سے رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمادیا۔
(4) کیا پھر ہر سال حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن ماتم و گریہ کی مجلس بھی قائم کی گئی تھی؟
(5) اور کیا آج کل کے ماتمیوں نے بھی کبھی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی مجالسِ ماتم بپا کی ہیں۔اگر نہیں تو کیوں؟
دلیل نمبر8:
حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات کے سال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام الحزن یعنی غم کا سال کے نام سے یاد کیا ہے۔
الجواب!
(1) اگر اس سال کو عام الحزن کا نام دینے کا مطلب یہی ہے کہ ہر سال ان کی وفات کے دن ماتم کی مجالس قائم کی جائیں تو کیا حضرت علی المرتضیٰ،حضڑت فاطمہ الزہرائ،حضرت حسن اور حضرت حسین نے بھی ہر سال کوئی مجلس غم بپا کی تھی؟ اور کیا رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے مہربان چچا ابو طالب اور اپنی پیاری بیوی خدیجة الکبریٰ کی وفات کا دن ہر سال مجلس ماتم کی صورت میں منایا تھا؟ اگر نہیں تو پھر کس کی پیروی کرتے ہو؟
دلیل نمبر9:
جنگ احد میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا دانت مبارک شہید ہوگیا۔ جس کی خبر سن کر خواجہ اویس قرنی نے اپنے دانت توڑ دیے۔ آنحضرت ۖنے اس فعل کو پسند فرمایا اور خواجہ کے لیے دعا دی۔
الجواب!
(1) ماتمی حضرات کی پیش کردہ یہ روایت بے سند ہے اس لیے اس کو حجت نہیں بنایا جا سکتا۔
(2) اگر اس طرح اپنے دانت توڑنا صحیح اور کارِ ثواب ہوتا تو پھر حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا بھی اپنے دانت توڑ دیتے۔ کیا ماتمیوں کے نزدیک خواجہ اویس قرنی کا عشقِ رسالت حضرت علی سے زیادہ تھا؟
(3) اگر خواجہ اویس قرنی کی یہ سنت ماتمیوں کو پسند ہے تو پھر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے کے دانت شہید ہونے کی یادگار میں اپنے دانت کیوں نہیں توڑ دیتے۔ سارا قصہ ہی ختم ہوجائے، نہ مرثیہ خوان رہیں اور نہ سوز خواں،
نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔
دلیل نمبر10:
اسلام دین فطرت ہے رونا فطرت انسانی ہے بچہ پیدائش کے بعد زندگی کا آغاز رونے سے کرتا ہے۔
الجواب!
(1) پیدائش کے بعد بچے کا رونا مروّجہ ماتم کی دلیل کیسے بن گیا؟ بچہ کس کے ماتم میں روتا ہے؟
(2) اگر بچہ روتا ہے تو پیشاب پاخانہ بھی کرتا ہے، تو اس فطرت انسانی کے پیشِ نظر پیشاب پاخانہ کی مجالس بھی قائم ہونی چاہئیں؟ واہ کیا خوب عقل ہے۔ سبحان اللہ۔
یہ اور اسی قسم کی بے ڈھنگی بے سروپا دلیلیں ماتمی ٹولے کے ذاکروں کی کل کائنات ہیں جن کو راگنی و سر کے ساتھ سنا کر گرمی محفل کا سامان کیا جاتا اور مگر مچھ کے آنسو بہا کر سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے، کیا ہمارا پیارا دین اسلام یہی کہتا ہے اور کیا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہی پیغام لے کر دنیا میں آئے تھے کہ سارا سال جو مرضی کرتے رہو، نہ نماز نہ روزہ نہ تراویح نہ قرآن، بس سال میں ایک دو دن سینہ کوبی اور دیگر جاہلانہ افعال انجام دے لو جنت کے پکے ٹھے حق دار بن جاؤ؟ حاشا وکلا ثم حاشا وکلا، یہ ہرگز ہمارا دین نہیں ہے اور نہ اس جہالت کو دین اور اسلام کے ساتھ کچھ واسطہ ہے۔ اللہ جل شانہ کم فاہم ماتمیوں کو عقل سلیم اور ہدایت عطاء فرمائیں۔ آمین
نوٹ: یہ پوسٹ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ کے رسالہ ’’ہم ماتم کیوں نہیں کرتے‘‘ سے ماخوذ ہے.
ردِ ماتم ہی کے موضوع پر حضرت رحمہ اللہ کی ایک ضخیم کتاب بھی ہے جس کا نام ہے "بشارت الدارین بالصبر علی شہادۃ الحسین" سنی مسلمانوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے.

مکمل تحریر >>

Sunday 4 August 2019

*🌹 قوّالی کا شرعی حکم کیا ہے؟ 🌹*

*🌹     قوّالی کا شرعی حکم کیا ہے؟   🌹*
------------------------------
سوال: کیا ڈھول باجا کے ساتھ قوالی سن سکتے ھین.
جواب دلیل کے ساتھ دے نوازش کرم ھوگی.

*🌹سائل:🌹  محمد شریف دھنہرہ کٹیہار*
------------------------------
*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوہاب*
صورت مسئولہ میں جواب یہ ہے کہ:
*قوّالی مع مزامیر ناجائز و حرام ہے  ـ* آجکل بزرگانِ دین کے مزارات پر ان کے اعراس کا نام لے کر خوب موج مستیاں ہو رہی ہیں اور اپنی رنگ رنگیلیوں، باجوں، تماشوں، عورتوں کی چھیڑ چھاڑ کے مزے اٹھانے کے لئے اللہ والوں کے مزاروں کو استعمال کیا جارہا ہے اور ایسے لوگوں کو نہ خدا کا خوف ہے، نہ موت کی فکر اور نہ جہنّم کا ڈر  ــ
              خانقاہوں کے سجادہ نشینوں کی پوری ذمہ داری ہے کہ وہ مزارات پر ہونے والے خرافات کے  خلاف لڑیں  اور جو بزرگانِ دین کے مزارات پر  برائیاں ہو رہی ہیں انہیں دور کریں  ـ
    آج کفار ومشرکین یہ کہنے لگے ہیں کہ اسلام بھی دوسرے مذہبوں کی طرح ناچ، گانوں ،تماشوں، باجوں اور بے پردہ عورتوں  کو اسٹیجوں پر لاکر بے حیائی کا مظاہرہ کرنے والا مذہب بن گیا ہے لہٰذا اہلِ کفر  کے اسلام قبول کرنے کی جو رفتار تھی اس میں بہت بڑی کمی آئی ہے ـ
      مذہبِ اسلام میں بطورِ لہو لعب ڈھول،  باجے اور مزامیر ہمیشہ سے حرام  رہے ہیں بخاری شریف کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
     *"لیکونن فی امتی اقوام یستحلون الحرو الحرائر والخمر والمعازف "*
    یعنی ضرور میری امت میں ایسے لوگ ہونے والے ہیں جو زنا، ریشمی کپڑوں، شراب اور باجوں تاشوں کو حلال ٹھہرائیں گے
*(📙 حوالہ: صحیح بخاری شریف، جلد ۲/ کتاب الاشربہ، صفحہ ۸۳۷/)*
ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا  *"ظهرت القينات والمعازف "* یعنی قیامت کے قریب ناچنے گانے والیوں اور باجے تاشوں کی کثرت ہوجائےگی ـ
*(📚  حوالہ: ترمذی، مشکوٰۃ باب اشراط الساعۃ، صفحہ ۴۷۰/)*
        فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
*السماع والقول والرقص الذى يفعله التصوفة فى زماننا حرام لا يجوز القصد اليه والجلوس عليه*
   یعنی سماع، قوّالی، رقص ( ناچ)  جو آجکل کے نام نہاد صوفیوں میں رائج ہے یہ حرام ہے ـ اس میں شرکت جائز نہیں ـ
*(📙 حوالہ:  فتاویٰ عالمگیری، جلد ۵/ کتاب الکراہیۃ ، صفحہ ۳۲۵/)*
    
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین وملت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ عرب وعجم میں مانا جاتا ہے انہوں نے مزامیر کے ساتھ قوّالیوں کو اپنی کتابوں میں کئ جگہ حرام لکھا ہے ـ کچھ لوگ کہتے ہیں قوّالی مع مزامیر چشتیہ سلسلہ میں رائج اور جائز ہے، یہ بزرگانِ چشتیہ پر ان کا صریح بہتان ہے بلکہ ان بزرگوں نے بھی مزامیر کے ساتھ قوّالی سننے کو حرام فرمایا ہے ـ سیدنا محبوبِ الٰہی نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ دہلوی نے اپنے خاص خلیفہ سیدنا فخرالدین زرداری سے مسئلہ سماع کے متعلق ایک رسالہ لکھوایا جس کا نام *( کَشف القناع عن اُصولِ السماعِ)* ہے اس میں صاف لکھا ہے:
*اما سماع مشائخنا رضى الله تعالى عنهم فبرئ عن هذه التهمة وهو مجرد صوت القوال مع الاشعار المشعرة من كمال صنعة الله تعالى*
   یعنی ہمارے بزرگوں کا سماع مزامیر کے بہتان سے بَری ہے ( ان کا سماع تو یہ ہے)  صرف قوال کی آواز ان اشعار کے ساتھ ہو جو کمال صنعت الٰہی کی خبر دیتے ہیں ــ
        قطب الاقطاب سیدنا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور سیدنا محبوبِ الٰہی نظام الدین اولیاء دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ سیدنا محمد بن مبارک علوی کرمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی مشہور زمانہ کتاب *("سیر الاولیاء ")* میں  فرماتے ہیں ـ *حضرت  سلطان المشائخ قدس سرّہ فرمود کہ چندیں چیز می باید کہ سماع مباح شود مسمع مستمع، مسموع وآلہ سماع مسمع یعنی گویندہ مرد تمام باشد کودک نہ باشد وعورت نہ باشد ومستمع آنکہ می شنود واز  یاد حق خالی نہ باشد ـ ومسموع آنکہ گویند فحش ومسخرگی نباشد ـ وآلہ سماع مزامیر است چوں چنگ ورباب ومثلِ آں می باید کہ درمیان نہ باشد ایں چنیں سماع حلال است،* یعنی محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین دہلوی علیہ الرحمۃ والرضوان  نے فرمایا کہ چند شرائط کے ساتھ سماع حلال ہے ـ
*(۱) سنانے والا مرد کامل ہو چھوٹا لڑکا نہ ہو اور عورت نہ ہو  ــ*
*(۲) سننے والا یاد خدا سے غافل نہ ہو ــ*
*(۳) جو کلام پڑھا جائے فحش، بے حیائی اور مسخرگی نہ ہو ــ*
*(۴) آلۂ سماع یعنی سارنگی مزامیر ورباب سے پاک ہو ــ*
*(📙 حوالہ: سیر الاولیاء، باب ۹/ در سماع ووجد ورقص، صفحہ ۵۰۱/)*
   اس کے علاوہ *("سیر الاولیاء ")* شریف میں ایک اور مقام پر ہے کہ ایک شخص نے حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ ان ایام میں بعض آستانہ دار دُرویشوں نے ایسے مجمع میں جہاں چنگ ورباب ومزامیر.تھا رقص کیا تو حضرت نے فرمایا کہ انہوں نے اچھا کام نہیں کیا جو چیز شرع میں ناجائز ہے وہ ناپسندیدہ ہے، اس کے بعد کسی نے بتایا کہ جب یہ جماعت باہر آئی تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا وہاں تو مزامیر تھے تم نے سماع کس طرح سنا اور رقص کیا ــ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح سماع میں مستغرق تھے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہوا کہ یہاں مزامیر ہیں یا نہیں ــ حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا یہ کوئی جواب نہیں اس طرح تو ہر گناہ گار، حرام کار کہہ سکتا ہے ــ
*( 📙 حوالہ: سیر الاولیاء، بان ۹/ صفحہ ۵۳۰/)*
         خلاصہ یہ کہ آدمی زنا کرےگا اور کہہ دیگا کہ میں بےہوش تھا مجھ کو پتہ نہیں تھا کہ میری بیوی ہے یا غیر عورت، شرابی یہ کہےگا کہ مجھے ہوش نہیں کہ شراب پی یا شربت ـ
   مزید برآں انہیں حضرت سیدنا محبوبِ الٰہی نظام االدین علیہ الرحمۃ والرضوان کے ملفوظات پر مشتمل انہیں کے مرید وخلیفہ حضرت خواجہ امیر حسن علائی سنجری کی تصنیف *("فوائد الفوائد شریف ")* میں ہے ــ
   *دریں میاں شخصی بیامد وحکایت جماعتی تقریر کردہ کہ ہم اکنوں در فلاں موضع یارانِ شما جمعیتی کردند ومزامیر درمیاں بود خوجہ ذکراللہ بالخیر ایں معنیٰ ناپسندید فرمود کہ من منع کردہ ام کہ مزامیر ومحرمات درمیاں نہ باشد ہرچہ کردہ اند نیکو نہ کردہ اند دریں باب بسیار غلومی فرمود*
     یعنی حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ایک شخص آیا اور بتایا کہ فلاں جگہ آپ کے مریدوں نے محفل کی ہے اور وہاں مزامیر بھی تھے حضرت محبوبِ الٰہی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا ــ اور فرمایا میں نے منع کیا ہے کہ مزامیر ( باجے)  حرام چیزیں وہاں نہیں ہونا چاہیئے ان لوگوں نے جو کچھ کیا اچھا نہیں کیا اس بارے میں کافی ذکر فرماتے رہے ــ اس کے بعد حضرت نے فرمایا کہ اگر کوئی کسی مقام سے گزرے تو شرع میں کرےگا اور اگر شرع سے گرا تو کہاں گرےگا ــ
*(📚  حوالہ: فوائد الفوائد، جلد ۳/ مجلس پنجم مطبوعہ اردو اکاڈمی دہلی صفحہ ۵۱۲/ ترجمہ خواجہ حسن نظامی)*
   *مسلمانو!  ذرا دل میں ہاتھ رکھ کر سوچو* کہ ایک طرف تو حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ ہے جو اوپر درج ہے اِن اقوال کے ہوتے ہوئے کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ خاندانِ چشتیہ میں مزامیر کے ساتھ  قوالی جائز ہے ـ ہاں یہ بات وہی لوگ کہیں گے جو نہ چشتی ہیں نہ قادری انہیں تو مزےداریاں اور لطف اندوزیاں چاہیئے ــ
    اور اب جبکہ تقریبًا سارے قوال بے نمازی اور فاسق وفاجر ہیں ــ
     یہاں تک کہ بعض شرابی تک سننے میں آئے ہیں ــ یہاں تک کہ عورتیں اور اَمْرَدْ لڑکے بھی چل پڑے ہیں ایسے ماحول میں ان قوالیوں کو صرف وہی جائز کہےگا جس کو اسلام وقرآن، دین وایمان سے کوئی محبت نہ ہو اور حرام کاری، بے حیائی، بدکاری اس کے رگ وپےمیں سرایت کرگئی ہو ــ اور قرآن وحدیث کے فرامین کی اسے کوئی پرواہ نہ ہو ــ کیا اسی کا نام اسلام پسندی ہے کہ مسلمان عورتوں کو لاکھوں کے مجمع میں لاکر ان کے گانے بجانے کرائے جائیں پھر ان تماشوں کا نام عرسِ بزرگانِ دین رکھا جائے ــ کافروں کے سامنے مسلمانوں اور مذہب اسلام کو بدنام کیا جائے؟
        کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قوالی اہل کے لئے جائز اور نا اہل کے لئے ناجائز ہے  ایسا کہنے والوں سے ہم پوچھتے ہیں کہ آجکل جو قوالیوں کی مجالس میں لاکھوں لاکھ کے مجمع ہوتے ہیں کیا یہ سب اہل اللہ اور اصحاب استغراق ہیں؟ جنہیں متاعِ دنیا کا قطعًا ہوش نہیں؟ جنہیں یادِ خدا ذکر الٰہی سے  ایک آن فرصت نہیں؟
       خرّاٹے کی نیندوں اور گپّوں شپّوں میں نمازوں کو گنوا دینے والے، رات دن ننگی فلموں، گندے گانوں میں مست رہنے والے، ماں باپ کی نافرمانی کرنے اور ان کو ستانے والے، چور،  ڈکیت، جھوٹے فریبی ،گرہ کاٹ وغیرہ کیا  سب کے سب تھوڑی دیر کے لئے قوالیوں کی مجلس میں شریک ہوکر اللہ والے ہوجاتے ہیں؟ اور خدا کی یاد میں محو ہوجاتے ہیں؟ یا پیر صاحب نے اہل کا بہانہ تلاش کرکے اپنی موج ومستیوں کا سامان کر رکھا ہے؟ کہ پیری بھی ہاتھ سے نہ جائے اور دنیا کی   موج مستیوں میں بھی کوئی کمی نہ آئے ــ یاد رکھو قبر کی اندھیری کوٹھری میں کوئی حیلہ وبہانہ نہ چلےگا ــ
        بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ مزامیر کے ساتھ  قوالی ناجائز ہوتی تو درگاہوں اور خانقاہوں میں کیوں ہوتی؟
    کاش یہ لوگ جانتے کہ رسولِ پاک  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی احادیث اور بزرگانِ دین کے مقابلے میں آجکل کے فُسّاق داڑھی منڈانے والے ، نمازوں کو قصدًا چھوڑنے والے، بعض خانقاہیوں کا عمل پیش کرنا دین سے دوری اور سخت نادانی ہے جو احادیث ہم نے اوپر لکھیں اور بزرگانِ دین کے اقوال نقل کئے ان کے مقابل نہ کسی کا قول معتبر ہوگا نہ عمل ــ آجکل خانقاہوں میں کسی کام کا ہونا اس کے جائز ہونے کی دلیل نہیں ــ
    *خلاصہ:*  اخیر میں ایک بات یہ بھی بتادینا ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ *(" جو کوئی خلافِ شرع کام کی بنیاد ڈالتا ہے تو اس پر اپنا اور سارے کرنے والوں کا گناہ ہوتا ہے ")*  لہٰذا جو مزامیر کے ساتھ قوالیاں کراتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کا موقع دیتے ہیں ان پر اپنا، قوالوں، اور لاکھوں تماشئیوں کا گناہ ہے اور مرتے ہی انہیں اپنے انجام دیکھنے کو مل جائےگا ــ

*(📙  حوالہ: ماخوذ از غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح)*

*(🌹واللہ اعلم بالصواب🌹)*

*( نوٹ) ہمارے  اس جواب  کو پڑھ کر ہمارے اسلامی بھائی برا نہ مانیں بلکہ ٹھنڈے دل سے سوچیں اپنی اور اپنے بھائیوں کی اصلاح کی کوشش کریں ـ*
   *اللہ تعالیٰ پیارے مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے وطفیل توفیق بخشے ــ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقه محمد وآله واصحابه اجمعين*

_*💥🖊 کتبہ: 💥 ابو محمد حامد رضا، محمد شریف الحق رضوی! کٹیہاری امام وخطیب نوری رضوی جامع مسجد وخادم دارلعلوم نوریہ رضویہ رسول گنج عرف کوئیلی ضلع سیتامڑھی بہار الھند*_
*( بتاریخ ۲۴/ اپریل بروز بدھ ۲۰۱۹/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞7654833082📲)*

*🌹تصدیق شدہ🌹*

*الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء الله النعيمي غفرله خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*

*الجواب صحیح والمجیب مصاب*
*فقط احقر ابوالصدف محمدصادق رضا*
*خادم شاہی جامع مسجد پٹنہ بہار*

*الجواب صحیح والمجیب نجیح: نبیرہ حضورابوالعلیٰ طوطئی بہار  حضرت مولانا حافظ وقاری محمدمشاہدالعلیٰ نوری صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی  کوچگڑھ شریف پورنیہ بہار*

*الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط محمد اختررضاقادری رضوی ناظم اعلی مدر سہ فیض العلوم خطیب وامام نیپالی سنی جامع مسجد سر کھیت( نیپال)*

*حضرت مولانا محمد رضا امجدی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی*
---------------------------

مکمل تحریر >>