Pages

Friday 30 April 2021

ابو طالب کا ایمان

ابو طالب کا ایمان

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

فلما رأی حرص رسول اللہ ﷺ علیه قال :یا ابن أخي! والله، لو لا مخافة السبة علیك وعلی بني أبیک من بعدي، وأن تظن قریش أني إنما قلتھا جزعا من الموت لقلتھا، لا أقولھا إلا لإسرک بھا، قال: فلما تقارب من أبي طالب الموت قال: نظر العباس إلیه یحرک شفتیه، قال: فأصغی إلیه بأذنه، قال: فقال: یا ابن أخي ! واللہ، لقد قال أخي الکلمة التي أمرته أن یقولھا، قال: فقال رسول اللہ ﷺ : لم أسمع.
"جب ابو طالب نے اپنے( ایمان کے) بارے میں رسول اللہ ﷺ کی حرص دیکھی تو کہا: اے بھتیجے ! اللہ کی قسم، اگر مجھے اپنے بعد آپ اور آپ کے بھائیوں پر طعن و تشنیع کا خطرہ نہ ہوتا، نیز قریش یہ نہ سمجھتے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ پڑھا ہے تو میں کلمہ پڑھ لیتا۔ میں صرف آپ کو خوش کرنے کیلئے ایسا کروں گا۔ پھر جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو عباس نے ان کو ہونٹ ہلاتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے اپنا کان لگایا اور (رسول اللہ ﷺ سے ) کہا: اےبھتیجے ! یقیناً میرے بھائی نے وہ بات کہہ دی ہے جس کے کہنے  کا آپ نے اُنہیں حکم دیا تھا۔"

 (السیرۃ لابن ھشام: ۴۱۷/۱، ۴۱۸، المغازي لیونس بن بکیر: ص ۲۳۸، دلائل النبوۃ للبیھقي: ۳۴۶/۲)



سخت ضعیف:  یہ روایت سخت"ضعیف" ہے ،کیونکہ:

٭ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اس حدیث کی سند کا ایک راوی نا معلوم ہے۔ اس کے برعکس صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوئے۔" (تاریخ ابن عساکر: ۳۳/۶۶)

٭حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " ھٰذا إسنادمنقطع ۔۔۔۔"الخ ،  یہ سند منقطع ہے۔۔۔۔۔ (تاریخ الاسلام: ۱۵۱/۲)

٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "إن في السند مبھما لا یعرف حاله، وھو قول عن بعض أھله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد........ و الخبر عندي ما صح لضعف في سندہ"

اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے، جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے، نیز یہ اُس کے بعض اہل کی بات ہے جو کہ نام اور حالات دونوں میں ابہام ہے۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا

ہے۔۔۔ میرے نزدیک یہ روایت سند کے ضعیف ہونے کی بنا پر صحیح نہیں۔ (البدایة و النھایة لابن کثیر: ۱۲۳/۳ ۔ ۱۲۵)

٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "بسند فیه لم یسم...... و ھذا الحدیث لو کان طریقه صحیحا لعارضه ھذا الحدیث الذی ھو أصح منه فضلا عن أنه لا یصح."

یہ روایت ایسی سند  کے ساتھ مروی ہے جس میں ایک راوی کا نام ہی بیان نہیں کیا گیا.... اس حدیث کی سند اگر صحیح بھی ہو تو یہ اپنے سے زیادہ صحیح حدیث کے معارض ہے۔ اس کا صحیح نہ ہونا مستزاد ہے۔ (فتح الباری لابن حجر: ۱۸۴/۷)

٭علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "في سند ھذا الحدیث مبھم لا یعرف حاله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد."

اس حدیث کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔ نام اور حالات دونوں مجہول ہیں۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے۔ (شرح ابي داؤد للعیني الحنفي: ۱۷۲/۶)



ابو طالب کے  بارے میں صحیح روایات:
٭ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا (ابو طالب) سے کہا: آپ لا اٰلہ الا اللہ کہہ دیں۔ میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ اُنہوں نے جواب دیا:  اگر مجھے قریش طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے آمادہ کردیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی: ﴿یقینا جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ جسے اللہ چاہے ہدایت عطا فرمادیتا ہے۔ القصص: ۵۶﴾  "  (صحیح مسلم: ۲۵)


٭ سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: "اے اللہ کے رسول ! کیا آپ نے جو ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا ۔ وہ تو آپ کا دفاع کیا کرتے تھے اور آپ کے لیے دوسروں سے غصے ہوجایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ! (میں نے انہیں فائدہ پہنچایا ہے) وہ اب بالائی طبقے میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہوتے۔" (صحیح البخاری:۳۸۸۳، صحیح مسلم: ۲۰۹)



٭سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "انہوں نے نبیٔ  اکرم ﷺ کو سنا۔ آپ کے پاس آپ کے چچا (ابو طالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: شاید کہ اُن کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور اُن کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صر ف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) اُن کا دماغ کھولے گا۔" (صحیح البخاری: ۳۸۸۵، صحیح مسلم: ۲۱۰)



٭سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جہنمیوں میں سے سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے۔ وہ آگ کے دو جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھول رہا ہوگا۔" (صحیح مسلم: ۲۱۲)



٭خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنه بیان کرتے ہیں: "جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ کے چچا فوت ہوگئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاکر دفنا دیں۔ میں نے عرض کی: یقینا وہ مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جائیں اور انہیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔ میں نے ایسا کیا، پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔" (مسند الطیالسی: ص ۱۹،ح۱۲۰ وسندہ حسن متصل)

ایک روایت کے الفاظ ہیں: "سیدنا علی رضی اللہ نے عرض کی: آپ کے  گمراہ چچا فوت ہوگئے ہیں۔ ان کو کون دفنائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں۔" (مسند الامام احمد: ۹۷/۱، سنن ابی داؤد: ۳۲۱۴، سنن النسائی: ۱۹۰، ۲۰۰۸، واللفظ له، و سندہ حسن)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (کما في الاصابة لابن حجر: ۱۱۴/۷) اور امام ابن جارود رحمہما اللہ (۵۵۰) نے "صحیح" قرار دیا ہے۔

یہ حدیث نص قطعی ہے کہ ابو طالب مسلمان نہیں تھے۔ اس پر نبیٔ اکرم ﷺ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ تک نہیں پڑھی۔



٭سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا انتہائی واضح بیان ملاحظہ ہو: "عقیل اور طالب دونوں ابو طالب کے وارث بنے تھے، لیکن (ابو طالب کے بیٹے) سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما نے اُن کی وراثت سے کچھ بھی نہیں لیا کیونکہ وہ دونوں مسلمان تھے جبکہ عقیل اور طالب دونوں کافر تھے۔ " (صحیح البخاری: ۱۵۸۸، صحیح مسلم: ۱۶۱۴ مختصراً)

یہ روایت بھی بیّن دلیل ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوگئے تھے۔ اسی لیے عقیل اور طالب کے برعکس سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما  اُن کے وارث  نہیں نے کیونکہ نبیٔ اکرم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: "نہ مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے نہ کافر مسلمان کا۔" (صحیح البخاری: ۶۷۶۴، صحیح مسلم: ۱۶۱۴)

 ابو طالب کے ایمان لائے بغیر فوت ہونے پر رسول اللہ ﷺ کو بہت صدمہ  ہوا تھا۔  وہ یقیناً پوری زندگی اسلام دوست رہے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے وہ ہمیشہ اپنے دل میں ایک نرم گوشہ رکھتے رہے لیکن اللہ کی مرضی کہ وہ اسلام کی دولت سے سرفراز نہ ہو پائے۔ اس لیے ہم اُن کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھنے کے باوجود دُعاگو نہیں ہوسکتے۔
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ابو طالب کے کفر پر فوت ہونے کا ذکر نے کے بعد لکھتے ہیں: "اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع  نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابو طالب کیلئے استغفار کرتے اور اُن کیلئے رحم کی دُعا بھی کرتے!" (سیرۃ الرسول لابن کثیر: ۱۳۲/۲)

قرآن پاک اور مفسرین اور عدم ایمان ابو طالب
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے
آیت نمبر1
مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ یَّسْتَغْفِرُوۡا لِلْمُشْرِکِیۡنَ وَلَوْکَانُوۡۤا اُولِیۡ قُرْبٰی مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیۡمِ ﴿۱۱۳﴾
*سورہ التوبة ۱۱۳*
امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ اس آیت کا شان نزول ذکر فرماتے ہیں کہ *اس آیت کے نزول کا تعلق نبی علیہ السلام کا اپنے چچا ابو طالب کے لئے استغفار اور بعض صحابہ کا اپنے والدین مشرکین کے لئے استغفار کرنے سے ہے*
تفسیر جلالین شریف
صرف حضرت امام سیوطی ہی نے اس کا شان نزول ابو طالب کے لئے کہا بلکہ کئ اور مفسرین نے بھی لکھا ہے جن میں *تفسیر بیضاوی تفسیر صاوی تفسیر مدارک تفسر معالم التنزیل تفسیر خازن تفسیر قرطبی تفسیر نیشاپوری تفسیر ابو سعود تفسیر کبیر تفسیر جریر طبری تفسیر در منثور تفسیر بحر المحیط تفسیر السراج المنیر تفسیر روح البیان تفسیر فرقان القرآن تفسیر روح المعانی تفسیر حسینی تفسیر ابن کثیر*
ان تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ آیت ابو طالب کے تعلق سے نازل ہوئی
آیت نمبر2
انك لا تهدى من احببت ولكن الله يهدى من يشآء
*سوره القصص 56*
اس آیت کے شان نزل کے تعلق سے مفسیر قرآن امام طبری فرماتے ہیں کہ
*ذکر کیا گیا ہےکہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل ہوئ جب آپ نے اپنے چچا ابو طالب کو ایمان لانے کی دعوت دی اور ابو طالب نے آپ کی دعوت کا انکار کردیا*
*ترجمہ:نبی اور ایمان والوں کو لائق نہیں کہ مشرکوں کی بخشش چاہیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ انہیں کھل چکا کہ وہ دوزخی ہیں*
ہندوستان کے مشہور بزرگ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
*” امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب سے کہا لا اللہ الہ الا اللہ پڑھ لو قیامت کے روز میں تمہاری گواہی دوں گا ابو طالب نے کہا اگر قریش مجھے یہ کہہ کر کہ عار نہ دلاتے کہ انہیں ڈر اور خوف نے لاالہ الا اللہ پڑھنے پر مجبور کیا ہے تو میں کلمہ طیبہ پڑھ کر ضرور تمہاری انکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا اس وقت اللہ نے یہ ارشاد فرمایا انك لا تهد ى من احببت ولكن الله يهدى من يشاء*
اس آیت کے شان نزول پر بھی تمام مفسرین یہی کہتے ہیں کہ آیت مذکورہ کا تعلق ابو طالب سے ہے
 
*احادیث کریمہ اور ایمان ابو طالب*
بخاری شریف اور عدم ایمان ابو طالب
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّکَ فَإِنَّهُ کَانَ يَحُوطُکَ وَيَغْضَبُ لَکَ قَالَ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ وَلَوْلَا أَنَا لَکَانَ فِي الدَّرَکِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ
مسدد یحیی سفیان عبدالملک عبداللہ بن حارث حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کو کچھ نفع پہنچایا کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف داری میں (مخالفوں پر) غصہ کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صرف ٹخنوں تک آگ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے نچلے طبقہ میں ہوتے۔
صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 1116
صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 1117
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا ابْنُ الْهَادِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذُکِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ فَقَالَ لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ النَّارِ يَبْلُغُ کَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ
عبداللہ بن یوسف لیث ابن ہاد عبداللہ بن خباب حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا (ابو طالب) کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امید ہے قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کچھ نفع دے جائے گی کہ وہ آگ کے درمیان درجہ میں کردیئے جائیں گے کہ آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس سے ان کا دماغ کھولنے لگے گا۔
*صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 1118*
مسلم شریف اور عدم ایمان ابو طالب
 
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی التُّجِيبِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَائَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کَلِمَةً أَشْهَدُ لَکَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَيُعِيدُ لَهُ تِلْکَ الْمَقَالَةَ حَتَّی قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا کَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَی مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبَی أَنْ يَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا کَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِينَ وَلَوْ کَانُوا أُولِي قُرْبَی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی فِي أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَائُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
حرملة بن یحیی، عبداللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بن مغیرہ کو ان کے پاس موجود پایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے چچا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا کلمہ کہہ دو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی گواہی دوں گا ابوجہل اور ابن امیہ کہنے لگے کیا تم عبدالمطلب کے دین سے پھر رہے ہو؟ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باربار کلمہ تو حید اپنے چچا ابوطالب کے سامنے پیش کرتے رہے اور یہی بات دھراتے رہے بالآخر ابوطالب نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہنے سے انکار کردیا اور آخری الفاظ یہ کہے کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک مجھے روکا نہیں جائے گا میں تو برابر دعائے مغفرت کرتا رہوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْ ا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ) 9۔ التوبہ : 113) نازل فرمائی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنوں کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ ان پر یہ ظاہر ہوگیا ہو کہ وہ دوزخی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ)
*صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 135*
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ کَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ لَکَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللَّهُ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ الْآيَةَ
محمد بن عباد، ابن ابی عمر، مروان، یزید یعنی ابن کیسان، ابوکیسان، ابوحازم ، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا سے ان کی موت کے وقت فرمایا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہہ دو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دے دوں گا ابوطالب نے انکار کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ) 28۔ القصص : 56) نازل فرمائی یعنی بے شک تو ہدایت نہیں کر سکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔
*صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 137*
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ يَقُولُا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا طَالِبٍ کَانَ يَحُوطُکَ وَيَنْصُرُکَ فَهَلْ نَفَعَهُ ذَلِکَ قَالَ نَعَمْ وَجَدْتُهُ فِي غَمَرَاتٍ مِنْ النَّارِ فَأَخْرَجْتُهُ إِلَی ضَحْضَاحٍ
ابن ابی عمر، سفیان، عبدالملک، بن عمیر، عبداللہ بن حارث، ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے لوگوں پر غصے ہوتے تھے تو کیا ان باتوں کی وجہ سے ان کو کوئی فائدہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے انہیں آگ کی ش’دت میں پایا تو میں انہیں ہلکی آگ میں نکال کر لے آیا۔
 
*صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 511*
نسائی شریف اور عدم ایمان ابو طالب
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ سَمِعْتُ نَاجِيَةَ بْنَ کَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ أَبَا طَالِبٍ مَاتَ فَقَالَ اذْهَبْ فَوَارِهِ قَالَ إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِکًا قَالَ اذْهَبْ فَوَارِهِ فَلَمَّا وَارَيْتُهُ رَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ لِي اغْتَسِلْ
محمد بن مثنی، محمد، شعبہ، ابواسحاق، ناجیہ بن کعب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابوطالب گزر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم لوگ جاؤ اور ان کو زمین میں دبا دو۔ میں نے کہا وہ تو کافر و مشرک ہونے کی حالت میں مرے ہیں پس ان کو دبا دینا کیا ضروری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جاؤ ان کو زمین میں دبا دو۔ میں جس وقت ان کو زمین میں دبا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا غسل کرو۔
*سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 192*
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ کَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَمَّکَ الشَّيْخَ الضَّالَّ مَاتَ فَمَنْ يُوَارِيهِ قَالَ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاکَ وَلَا تُحْدِثَنَّ حَدَثًا حَتَّی تَأْتِيَنِي فَوَارَيْتُهُ ثُمَّ جِئْتُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي وَذَکَرَ دُعَائً لَمْ أَحْفَظْهُ
عبیداللہ بن سعید، یحیی، سفیان، ابواسحاق ، ناجیة بن کعب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بوڑھا چچا ابوطالب مر گیا ہے۔ اب ان کو کون آدمی دفن کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم لوگ جاؤ اور اپنے والد کو دفن کر کے آجاؤ اور تم لوگ کسی قسم کی کوئی نئی بات نہ کرنا چنانچہ میں گیا اور میں ان کو زمین کے اندر چھپا کر واپس آگیا پھر میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو غسل کرنے کا حکم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے واسطے دعا فرمائی اور ایک دعا اس قسم کی بیان فرمائی کہ جو مجھ کو یاد نہیں۔
*سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ جنائز کے متعلق احادیث ۔ حدیث 2012*
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ فَقَالَ أَيْ عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کَلِمَةً أُحَاجُّ لَکَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَالَا يُکَلِّمَانِهِ حَتَّی کَانَ آخِرُ شَيْئٍ کَلَّمَهُمْ بِهِ عَلَی مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْکَ فَنَزَلَتْ مَا کَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِينَ وَنَزَلَتْ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ
محمد بن عبدالاعلی، محمد و ابن ثور، معمر، زہری، سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد سے سنا کہ جس وقت (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا) ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے وہاں پر ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے میرے چچا! تم لَا اِلٰہِ اِلَّا اللہ کہو اس جملہ کی وجہ سے میں تمہارے واسطے بارگاہ الٰہی میں حجت کروں گا (سفارش کی کوشش کروں گا) اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا اے ابوطالب! کیا تم عبدالمطلب کے دین سے نفرت کرتے ہو؟ پھر وہ دونوں ان سے گفتگو کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ابوطالب کی زبان سے آخری جملہ یہ نکلا کہ میں تو عبدالمطلب کے دین پر ہی قائم ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمہارے واسطے اس وقت تک دعا مانگوں گا جب تک مجھ کو ممانعت نہ ہوگی اس پر آیت کریمہ مَا کَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِينَ نازل ہوئی
*سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ جنائز کے متعلق احادیث ۔ حدیث 2041*
ترمذی شریف اور عدم ایمان ابو طالب
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ کَيْسَانَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ لَکَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي بِهَا قُرَيْشٌ أَنَّ مَا يَحْمِلُهُ عَلَيْهِ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَائُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ کَيْسَانَ
محمد بن بشار، یحیی بن سعید، یزید بن کیسان، ابوحازم اشجعی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے فرمایا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دیجئے تاکہ میں قیامت کے دن آپ کے متعلق ایمان کی گواہی دے سکوں۔ وہ کہنے لگے اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریش کہیں گے کہ (ابوطالب) نے موت کی گھبرا ہٹ کی وجہ سے کلمہ پڑھ لیا تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ ) 28۔ القصص : 56) (بے شک تو ہدایت نہیں کر سکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔) یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف یزید بن کیسان کی روایت سے جانتے ہیں۔
*جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1136*
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ يَحْيَی قَالَ عَبْدٌ هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرِضَ أَبُو طَالِبٍ فَجَائَتْهُ قُرَيْشٌ وَجَائَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَ أَبِي طَالِبٍ مَجْلِسُ رَجُلٍ فَقَامَ أَبُو جَهْلٍ کَيْ يَمْنَعَهُ وَشَکَوْهُ إِلَی أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي مَا تُرِيدُ مِنْ قَوْمِکَ قَالَ إِنِّي أُرِيدُ مِنْهُمْ کَلِمَةً وَاحِدَةً تَدِينُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّي إِلَيْهِمْ الْعَجَمُ الْجِزْيَةَ قَالَ کَلِمَةً وَاحِدَةً قَالَ کَلِمَةً وَاحِدَةً قَالَ يَا عَمِّ قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالُوا إِلَهًا وَاحِدًا مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ قَالَ فَنَزَلَ فِيهِمْ الْقُرْآنُ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّکْرِ بَلْ الَّذِينَ کَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ إِلَی قَوْلِهِ مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ و قَالَ يَحْيَی بْنُ عِمَارَةَ
محمود بن غیلان وعبد بن حمید، ابواحمد، سفیان، اعمش، یحیی، عبد بن عباد، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جب ابوطالب بیمار ہوئے تو قریش اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے۔ ابوطالب کے پاس ایک ہی آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ابوجہل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں بیٹھنے سے منع کرنے کے لئے اٹھا اور لوگوں نے ابوطالب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت کی، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا بھتیجے ! اپنی قوم سے کیا چاہتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ یہ لوگ ایک کلمہ کہنے لگیں اگر یہ لوگ میری اس دعوت کو قبول کرلیں گے تو عرب پر حاکم ہو جائیں گے اور عجمیوں سے جزیہ وصول کریں گے۔ ابوطالب نے پوچھا ایک ہی کلمہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ایک ہی کلمہ۔ چچا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ لیجئے۔ وہ سب کہنے لگے کیا ہم ایک ہی اللہ کی عبادت کرنے لگیں ہم نے تو کسی پچھلے دین میں یہ بات نہیں سنی (بس یہ من گھڑت ہے) راوی کہتے ہیں کہ پھر ان کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں (ص وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ عِزَّةٍ وَّشِقَاقٍ ) 38۔ص : 1-2) (قرآن کی قسم ! جو سراسر نصیحت ہے بلکہ جو لگ منکر ہیں وہ محض تکبر اور مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے انسے پہلے کتنی قومیں ہلاک کر دیں ہیں، سو انہوں نے بڑی ہائے پکار کی اور وہ وقت خلاصی کا نہ تھا اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ڈرانے ولاء آیا اور منکروں نے کہا کہ یہ تو ایک بڑا جادوگر ہے، کیا اس نے کئی معبودوں کو صرف ایک معبود بنادیا۔ بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے اور ان میں سے سردار یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو۔ بے شک اس میں کچھ غرض ہے۔ ہم نے یہ بات اپنے پچھلے دین میں نہیں سنی۔ یہ تو ایک بنائی ہوئی بات ہے۔) ۔ یہ حدیث حسن ہے۔ بندار، یحیی بن سعید، سفیان، اعمش، یحیی بن عمارة،
*جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1180*
ابو داؤد شریف اور عدم ایمان ابو طالب
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ کَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَمَّکَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ قَالَ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاکَ ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّی تَأْتِيَنِي فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ وَجِئْتُهُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي
مسدد، یحیی، سفیان، ابواسحاق ، ناجیہ بن کعب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (جب میرے والد ابوطالب کا انتقال ہوا تو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے بوڑھے اور گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے آپ نے فرمایا جا اور اپنے باپ کو دفن کر آ اور اس کے علاوہ کوئی اور کام نہ کرنا یہاں تک کہ تو میرے پاس لوٹ آئے لہذا میں گیا اور ان کو دفن کر کے آ گیا۔ پس آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا پس میں نے غسل کیا اور اپنے میرے لئے دعا فرمائی۔
*سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 1446*
مسند امام احمد اور عدم ایمان ابو طالب
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ فَقَالَ انْطَلِقْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثْ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَوَارَيْتُهُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ دَعَا لِي بِدَعَوَاتٍ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهِنَّ مَا عَرُضَ مِنْ شَيْءٍ
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوگیا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا اور گمراہ چچا مر گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے کسی گڑھے میں چھپا دو اور میرے پاس آنے سے پہلے کسی سے کوئی بات نہ کرنا، چنانچہ میں گیا اور اسے ایک گڑھے میں چھپا دیا، نبی صلی اللہ علیہ نے اس کے بعد مجھے غسل کرنے کا حکم دیا اور مجھے اتنی دعائیں دیں کہ ان کے مقابلے میں کسی وسیع و عریض چیز کی میری نگاہوں میں کوئی حیثیت نہیں ۔
*مسند احمد ۔ جلد اول ۔ حدیث 1039*
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ نَعْلَيْنِ مِنْ نَارٍ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اہل جہنم میں سب سے ہلکاعذاب ابو طالب کو ہوگا، انہوں نے آگ کی دو جوتیاں پہن رکھی ہوں گی جس سے ان کا دماغ ہنڈیا کی طرح ابلتا ہوگا۔
*مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 764*
مزید اور کتب حدیث میں روایات موجود ہیں جس سے ابو طالب کے ایمان نہ لانے اور کفر پر فوت ہونے کی صحیح روایات موجود ہیں
*وہ کتب جن میں ابو طالب کے کفر پر خاتمہ کا ذکر آیا ہے*
*مسند احمد مشکوہ شریف کنزالعمال حاکم مستدرک جامع صغیر مسند ابوداود طیالسی طبقات ابن سعد اسد الغابہ معجم طبرانی مصنف عبدالرزاق مصنف ابن ابی شیبہ مسند اسحق راہویہ مسند بزار مدارج النبوہ الوفاء ابن جوزی کتاب الشفاء حلیہ الاولیاء تاریخ ابن عساکر سیرت حلبیہ وغیرہ کتب دیکھی جاسکتی ہیں*
*کیا اعلی حضرت کے پیر گھرانہ کی کتاب سبع سنابل شریف میں ابو طالب کو مسلمان کہا گیا ہے*
سبع سنابل کے حوالے سے رافضی نے یہ دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت میر عبدالواحید بلگرامی علیہ الرحمہ ابو طالب کو مسلمان سمجھتے تھے؟ جب یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ رافضی کو بولنے سے پہلے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ سبع سنابل شریف اب بھی چھپ رہی ہے جو چاہے وہ پڑھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت میر عبدلواحید بلگرامی علیہ الرحمہ کا وہی موقف ہے جو چودھویں صدی کے مجدد کا موقف ہے جمع اہل سنت وجماعت کے اکابرین کا موقف ہے یعنی ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا
اب آئیے سبع سنابل شریف کی عبارت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ خود فیصلہ کر لیجئے گا
حضرت میر عبدالواحید بلگرامی سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں
*میرے بھائ اگر چہ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و شرف کے کمالات اہل معرفت کے دلوں میں نہیں سماں سکتے اور ان کے سچے دوستوں کے نہاں خانوں میں منزل نہیں بنا سکتے* *_اس کے با وجود ان کے ان نسب عالوں میں اپنا کامل اثر نہیں دکھا سکتے خواہ وہ آباؤ اجداد ہوں یا اولاد در اولاد چنانچہ ابو طالب میں اس نسب نے کوئی اثر نہیں کیا حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں بلیغ کوشش فرماتے رہے لیکن چونکہ خدائے قدوس جل و علا نے ان کے دل پر روز اول ہی سے مہر لگا دی تھی لہذا جواب دیا اخرت النار على العار میں عار پر نار کو ترجیح دیتا ہوں_* *جیسا کہ مشہور ہے منقول ہے کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا مولی علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچائی کہ مات عمك الضال حضور کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا بیت-کبھی ایسے گوہر پیدا کرنے والے گھرانہ میں ابو طالب جیسے کو (خالق بے نیاز) پتھر پھینکنے والا بنا دیتا ہے*
سبع سنابل شریف صفحہ ۸۹





یہ آیت کریمہ بالاتفاق ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جیسا کہ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) فرماتے ہیں :
فقد أَجمع المفسرون علي انھا نزلت في ابي طالب، وكذا نقل إجماعھم علي ھذا الزجاج وغيره، وھي عامه فانه لا يھدي الا يضل الا الله تعاليٰ.
”مفسرین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت کریمہ ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ زجاج وغیرہ نے مفسرین کا اجماع اسی طرح نقل کیا ہے۔ یہ آیت عام ( بھی ) ہے۔ ہدایت دینا اور گمراہ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔“ ( شرح صحیح مسلم للنووی : 41/1)


حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852ھ) لکھتے ہیں :
”بیان کرنے والے اس بات میں اختلاف نہیں کرتے کہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔“ ( فتح الباری لا بن حجر 506/8)


حا فظ سہیلی رحمہ اللہ (ھ581-508) فرماتے ہیں :
وظاھر الحديث يقتضي أن عبدالمطلب مات علي الشرك
”اس حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات کے متقاضى ہیں کہ عبدالمطلب شرک پر فوت ہوئے تھے۔“ (الروض الانف : 19/4)

یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ ابوطالب کافر تھے۔ وہ ملت عبدالمطلب پر فوت ہوئے۔ انہوں نے مرتے وقت کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کو ہدایت نصیب نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کے حق میں دعا کرنے سے منع کر دیا تھا۔ 


حا فظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (733-853ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
فھذا شان من مات علي الكفر، فلو كان مات علي التوحيد لنجا من النار أصلا والاحاديث الصححة والاخبار المتكاثرة طاقحة بذلك ”یہ صورتحال تو اس شخص کی ہوتی ہےجو کفر پر فوت ہوا ہو۔ اگر ابوطالب توحید پر فوت ہوتے تو آگ سے مکمل طور پر نجات پا جاتے۔ لیکن بہت سی احادیث و اخبار اس (کفر ابو طالب) سے لبریز ہیں-“ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 241/7)

  خلیفہ راشد سیدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : 
لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ 
”جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ کے چچا فوت ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جا کر انہیں دفنا دیں۔“ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جائیں اور انہیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔“ میں ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔“ (مسند الطيالسي : ص : 19، ح، 120، وسنده‘ حسن متصل )

حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (700-774ھ) ابو طالب کے کفر پر فوت ہونے کے بعد لکھتے ہیں:
وَلَوْلَا مَا نَهَانَا اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ، لَاسْتَغْفَرْنَا لابي طَالب وترحمنا عَلَيْهِ ”اگر اللہ تعالیٰ نی ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابوطالب کے 
   لیے استغفار کر تے اور اُن کے لیے رحم کی دعا بھی کرتے!“ (سیرةالرسول ابن کثیر:132/2)

مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں
آنحضرت ﷺ کے چچے اور پھوپھیاں حارث, قثم, حمزہ, عباس, ابوطالب, عبدالکعبہ, جحل, ضرّار, غیداق, ابولہب, صفیہ, عاتکہ, اروی, اُمّ حکیم, بّرہ, امیمہ اس جماعت میں سے حضرت حمزہ و عباس و حضرت صفیہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین وعلیھن ایمان لائے (تحقیق الحق فی کلمة الحق ص:١٥٣) کیا خیال ہے تفضیلی صاحب؟؟؟
مکمل تحریر >>

Wednesday 21 April 2021

حضورنبی کریم ﷺ نے متعدد نکاح کیوں کیے؟* 💫

💫 *حضورنبی کریم ﷺ نے متعدد نکاح کیوں کیے؟* 💫
 ایک پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ کافی عرصہ کی بات ہے کہ جب میں لیاقت میڈیکل کا لج جامشورو میں سروس کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرت النبی ﷺ کانفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔ 
چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ماہر تھے) کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس نشست میں اسلامیات کے ایک لیکچرار نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شادی کیوں کی اور اس سے امت کو کیا فائدہ ھوا۔ 
 یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سراہا ۔ کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کار آرہے تھے تو ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے عجیب بات کی...
  اس نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ آج رات میں دوبارہ مسلمان ھوا ھوں 
میں نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ FRCS کے لیے انگلستان گئے تو کراچی سے انگلستان کا سفر کافی لمبا تھا  ہوائی جہاز میں ایک ائیر ہوسٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔
ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟  
میں نے بتایا اسلام ۔ ہمارے نبی ﷺ کا نام پوچھا میں نے حضرت محمد ﷺ بتایا ، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے نبی ﷺ نے گیارہ شادیاں کی تھیں؟ 
میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ بات حق اور سچ ہے ۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضور ﷺ کے بارے میں (معاذاللہ ) نفسانی خواہشات کے غلبے کے علاوہ  دو تین دیگر الزامات لگائے، جس کے سننے کے بعد میرے دل میں (نعوذ بااللہ) حضور  ﷺکے بارے میں نفرت پیدا ہوگئی اور جب میں لندن کے ہوائی اڈے  پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔
 آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا، حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتوار کو میں گرجوں میں جاتا اور وہاں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے۔
 جب میں آٹھ سال بعد واپس پاکستان آیا تو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیاقت میڈیکل کالج میں کام شروع کیا ۔ یہاں بھی میری وہی عادت رہی ۔ آج رات اس لیکچرار کا بیان سن کر میرا دل صاف ہو گیا اور میں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے۔ 
غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر آج ڈاکٹر عنایت اللہ کا یہ بیان نہ سنتا تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا؟ 
اس کی وجہ ہم مسلمانوں کی کم علمی ہے۔ ہم حضور  ﷺ کی زندگی کے متعلق نہ پڑھتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 
کئی میٹنگز میں جب کوئی ایسی بات کرتا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے، ٹال دیتے ہیں۔ جس سے اعتراض کرنے والوں کےحوصلے بلند ہوجاتے ہیں ۔ 
اس لئیے بہت اہم ہے کہ ہم اس موضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر حقیقت لوگوں کو بتائیں ۔ 
میں ایک دفعہ بہاولپور سے ملتان بذریعہ بس سفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لوگوں کو حضور ﷺ کی شادیوں کے بارے میں گمراہ کر رہا تھا۔ میں نے اس سے بات شروع کی تو وہ چپ ہوگیا اور باقی لوگ بھی ادھر ادھر ہوگئے۔
لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی خاطر جانیں قربان کی ہیں۔ کیا ہما رے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یاد کر لیں اور موقع پر لوگوں کو بتائیں ۔
 اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہاں ایک جماعت کے ساتھ آئے تھے ۔ انگلستان میں ڈاکٹر صاحب کے کافی دوست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے ، وہ ان کو اس موضوع پر صحیح معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں ۔
 انہوں نے چیدہ چیدہ نکات بتائے، جو میں پیش خدمت کررہا ہوں۔  اتوار کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستو ں کے ذریعے ”گرجا گھر“ چلے جاتے ہیں ، وہاں اپنا تعارف اور نبی کریم  ﷺکا تعارف کراتے ہیں ۔ عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ کی شادیوں پر اعتراض کرتی ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب جو جوابات دیتے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
◀️ (1) میرے پیارے نبی ﷺ نے عالم شباب میں (25 سال کی عمر میں) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔
  50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کیا ۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ ﷺنے نکا ح کئے ۔
 پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال پوچھا کہ یہاں بہت سے نوجوان بیٹھے ہیں ...... آپ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شادی کرے گا....؟
 سب خاموش رھے ۔  ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں آپ ﷺنے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں ۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔ 
پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔
 اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم  ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لوگوں کو ترغیب دینے کے لئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔
 ◀️ (2) حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 
 ◀️ (3) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور
  ◀️ (4)حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے مختلف اوقات میں نکاح کئے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا خواتین کے گھر آباد ہوگئے - 
 ◀️ (5) عربوں میں کثرت ازواج کا رواج تھا۔ دوسرے شادی کے ذریعے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپ ﷺ کے  پیش نظر تھا۔  
  ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔ 
 ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور ﷺکے شدید ترین مخالف تھے ۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے حضور  ﷺ کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔ ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کر گئیں ، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔
 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلات سے گھر پہنچیں ۔ حضور ﷺ  نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا.
◀️  (6) حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا والد قبیلہ مصطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور ﷺ نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ، ان کا سردار مارا گیا ۔ 
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہوکر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ کر کے سر دار کی بیٹی کا نکاح حضور ﷺ سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔
◀️ (7) خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورے سے ا ن کا نکاح حضور اکرم  ﷺ سے کرا دیا ۔ 
◀️ (8)  اسی طر ح میمونہ رضی الله عنہا سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور ﷺکے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مشاہدہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔
 ◀️ (9) حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ آپ پہلے مسیحی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ ان کو بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس نے بطور ہدیہ کے آپ ﷺکی خدمت اقدس میں بھیجا تھا۔
◀️ (10) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح متبنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی الله عنہ حضور ﷺ کے متبنی(منہ بولے بیٹے) کہلائے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی الله عنہ نے انہیں طلاق دے دی تو حضور ﷺنے نکاح کر لیا اور ثابت کردیا کہ متبنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا.
 ◀️ (11)  اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سرچشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس ﷺ کی سیرت پاک ہے۔ 
آپ  ﷺکی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی الله عنہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ عورتوں میں اس کام کے لئیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ 
ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا ۔ اس کام کی تکمیل کے لئیے آپ ﷺ نے کئی نکاح کیے ۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضور ﷺ نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔
 حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 48 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ۔
 صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا ۔
 اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔ 
ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لئیے تھیں اور سار ی دنیا کے لیے  تھیں اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جاسکتا۔ 
آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مذکورہ بالا بیان میں گرجوں میں لوگوں کو سناتا  ہوں اور وہ سنتے ہیں ۔ باقی ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔
 اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کرلیں اور کوئی بدبخت حضور  ﷺ کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفاع کریں ۔
*🌹جزی الله عنا سيدنا محمدا صلی اللہ علیہ وسلم بما هو اهله🌹* 
کم سے کم اسکو اپنے ہر گروپ وہاٹساپ فیس بک اور تمام  کونٹیکٹ بک پر شیر کرکے اپنی ذمہ داری نبھائیں 
 اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے ۔ (آمین )
مکمل تحریر >>

Wednesday 14 April 2021

راستے بند

احتجاج کرنا اور راستے میں بیٹھنا ، اے اہلِ ایمان کب جاگو گے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم قارٸینِ کرام : اگر ضمیر زندہ ہے تو ایک بار مکمل ضرور پڑھیں اور اپنے ضمیرِ ایمانی سے پوچھ کر فیصلہ کریں ۔ ہو سکے تو آگے شیٸر بھی کریں ۔

حدثنا علي بن عبد الله ، قال‏ :‏ حدثنا صفوان بن عيسى، قال‏ :‏ حدثنا محمد بن عجلان ، قال‏ :‏ حدثنا ابي ، عن ابي هريرة قال‏ :‏ قال رجل‏ :‏ يا رسول الله ، إن لي جارا يؤذيني ، فقال‏ :‏ ”انطلق فاخرج متاعك إلى الطريق“، فانطلق فاخرج متاعه، فاجتمع الناس عليه، فقالوا‏:‏ ما شانك‏؟‏ قال‏:‏ لي جار يؤذيني، فذكرت للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال‏:‏ ”انطلق فاخرج متاعك إلى الطريق“، فجعلوا يقولون‏:‏ اللهم العنه، اللهم اخزه‏.‏ فبلغه، فاتاه فقال‏:‏ ارجع إلى منزلك، فوالله لا اؤذيك‏ ۔
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے ایذا دیتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اپنا سامان (گھر سے) نکال کر راستے پر رکھ دو ۔ وہ گیا اور اپنا سامان نکال کر راستے پر رکھ دیا ۔ لوگ اس کے پاس آئے اور پوچھا تجھے کیا ہوا ؟ اس نے کہا میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے میں نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ اور اپنا سامان (گھر سے) نکال کر راستے پر رکھ دو ۔ (لوگوں نے یہ سنا) تو کہنے لگے اللہ اس پر لعنت کرے ، اللہ اسے رسوا کرے ۔ یہ بات جب ہمسائے تک پہنچی تو وہ اس کے پاس آیا اور کہا اپنے گھر میں لوٹ آو اللہ کی قسم میں تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا ۔ (الادب المفرد للبخاری كتاب الجار 68. بَابُ شِكَايَةِ الْجَارِ 124،چشتی)،(أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى حق الجوار: 5153)(ابن حبان: 520)(أبويعلي: 6630)(الحاكم: 160 /4)(البيهقي فى شعب الإيمان: 9547)

اے سارے اہلِ ایمان اس وقت بات ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی اور اذیت کی ہے اس لیۓ :

جماعتِ اھلسنت والو ،
ساری جمعیت علماۓ پاکستان والو ،
سنی تحریک والو ،
المصطفی پارٹی والو ،
سنی اتحاد کونسل والو ۔

تنظیم السعید والو ،
دعوتِ اسلامی والو ،
ساری سیاسی و مذھبی پارٹی والو ، مجلس علماۓ اھلسنت والو ، بزم حسان ، بزم چشتیہ ، بزم محمد علیہ السلام سمیت ساری بزم و انجمن والو ۔

سارے خطیبو ، امامو ، مؤذنو ، حافظو ، قاریو ، نعت خوانو ، مساجدکمیٹیوں والو ۔

اے سارے اہلِ ایمان قادریو ، چشتیو ، سھروردیو ، نقشبندیو ، رضویو ، نورانیو ، سعیدیو ، وارثیو ، امینیو ، مدنیو ، نوریو ، شاذلیو ، رفاعیو ، عطاریو ۔

اے سارے اہلِ ایمان مدرسوں والو ، اسکولوں والو ، کالجوں والو ، یونیورسٹیوں والو ۔

اے سارے اہلِ ایمان عدالتوں والو ، بینکوں والو ، کمپنیوں والو ، ایجنسیو والو ، اداروں والو ۔

اے سارے اہلِ ایمان تاجرو ، گاہکو ، دکاندارو ، ہوٹلوں والو ، دیہاڑی دارو ، ریڑھی والو ، ٹھیلے والو ۔

اے سارے اہلِ ایمان اینکرو ، وکیلو ، ٹیچرو ، پروفیسرو ، ڈاکٹرو ، مُدَرِّسو ۔

فرانس کے صدر نے صرف لبیک والوں کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی نہیں کی ہم سب کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی کی ہے اس لیۓ فرانس کا سفیر نکلوانا صرف لبیک والوں کا کام نہیں ہے بلکہ ہر کلمہ پڑھنے والے کی ذمہ داری ہے کیوں کہ جن کا کھاتے ہیں ان سے وفا بھی ضروری ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ۔ ⬇⬇
مکمل تحریر >>