Pages

Saturday 28 August 2021

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ میسون بنت بحدل پر ایک اعتراض کا جواب

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ میسون بنت بحدل پر ایک اعتراض کا جواب


سوال: کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ میسون بنت بحدل کلبی نصرانی تھیں؟ 


♥️الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایة الحق والصواب♥️


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ میسون بنت بحدل کلبی نہ صرف مسلمان بلکہ تابعیت کے مرتبہ پر فائز تھیں جس پر کثیر شواہد و دلائل موجود ہیں  جبکہ ان کے نصرانی ہونے پر کوئی معتبر دلیل موجود نہیں۔

ملاحظہ فرمائیں کہ علماء و ائمہ رحمھم اللہ میسون بنت بحدل کے بارے میں کیا فرماتے ہیں:

1: ميسون ابنة بحدل الكلبية..... قال الصاغاني: *وهي من التابعيات۔*

(تاج العروس، ج 16، ص 528)


2. قال رضي الدين الحنفي (المتوفى 650ھ): 

*"ميسون ابنة بحدل.... أم يزيد بن معاوية : من التابعيات۔"*

(العباب الزاخر، ج 1، ص 200)

3. ميسون بنت بحدل.... *شاعرة إسلامية۔*

(معجم الشعراء العرب، ج 1)

یہ تینوں اقوال صراحۃ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ میسون بنت بحدل نہ صرف مسلمان بلکہ تابعیت کے شرف سے مشرف تھیں۔

4. تاريخ دمشق میں ان سے ایک روایت بھی مروی ہے۔ 

"عَنْ مَيْسُونَ بِنْتِ بَحْدَلٍ ، زَادَ عَلِيُّ بْنُ عُمَرَ : امْرَأَةِ مُعَاوِيَةَ ، ثُمَّ قَالا : عَنْ مُعَاوِيَةَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : "سَيَكُونُ قَوْمٌ يَنَالُهُمُ الإِخْصَاءُ ، فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا ۔"

(تاریخ دمشق لابن عساکر)

تفضیلی حضرات یہ بتانے کی زحمت گوارا کریں گے کہ کیا نصرانی سے روایت لی جا سکتی ہے؟؟

علمائے محدثین کا آپ کی روایات لینا اور انہیں قبول رکھنا بھی آپ کے ایمان پر دلالت کرتا ہے۔

5. تفسير البحر المحیط وغيرہ کتب میں بھی ایک روایت آپ کے متعلق مذکور ہے جس سے میسون بنت بحدل کے مسلمان ہونے کی تائید ملتی ہے۔

"ﻭﻋﻦ ﻣﻴﺴﻮﻥ ﺑﻨﺖ ﺑﺤﺪﻝ اﻟﻜﻼﺑﻴﺔ: ﺇﻥ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺩﺧﻞ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﻭﻣﻌﻪ ﺧﺼﻲ ﻓﺘﻘﻨﻌﺖ ﻣﻨﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻫﻮ ﺧﺼﻲ ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺃﺗﺮﻯ اﻟﻤﺜﻠﺔ ﺗﺤﻠﻞ ﻣﺎ ﺣﺮﻡ اﻟﻠﻪ۔"

یہ روایت اگرچہ مسلمان ہونے کی دلیل نہیں لیکن مسلمان ہونے کی تائید ضرور کرتی ہے اس طرح کہ خدا خوفی کی وجہ سے حلال و حرام کا امتیاز رکھنا اور پردہ کا اتنا اہتمام کرنا شریعت اسلامیہ ہی کا خاصہ ہے۔

پنجتن پاک کی نسبت سے سرِدست یہ پانچ حوالے آپ کے ذوق کی نظر کیے۔ امید واثق ہے کہ منصف مزاج کے لیے یہ کافی ہوں گے۔
مکمل تحریر >>

Friday 27 August 2021

شیعہ کافر ہیں کہ نہیں حصہ اول

شیعہ کافر ہیں کہ نہیں حصہ اول
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : مضمون پڑھنے سے پہلے گذارش ہے اُن پیروں ، مریدوں ، خطیبوں ، نعت خوانوں ، نقیبوں اور قاریوں سے جو شیعوں کے ساتھ مجالس پڑھتے اور ان کے ہمنوا بنتے ہیں ذرا آنکھیں کھول کر ایک بار مکمل پڑھنا غلیظ شیعہ کن کن اہلسنت کے اکابرین ک ناصبی اور کافر کہتے ہیں جن کی راہ پر چل کر آپ لوگ اہلسنت کو ناصبی ناصبی کہنے کی رٹ لگاۓ ہوۓ ہیں ۔ اے لکیر کے فقیرو آپ میں ذرا بھر بھی ایمانی غیرت باقی ہے تو ان مکمل حوالہ جات کو پڑھ کر اس غیرتِ ایمانی سے فیصلہ کریں کہ آپ کہاں کھڑے ہیں ؟

اور شیعہ حضرات کو اتنا کہوں گا گھسی پٹی پوسٹر بازی ۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کی بجاۓ اپنے گھر کی کتابوں کے مکمل حوالے پڑھ کر پھر جواب بحوالہ دینے کی ہمت کیجیے گا اپنے گھسے پٹے پوسٹر اپنے گھر سنبھال کر رکھیں :

شیعہ حضرات اکثر ائمہ میں سے ایک دو کے اقوال پیش کر کے کہتے ہیں کہ دیکھئے ، آپ کے ائمہ کے مطابق ہم کافر نہیں قرار پاتے ۔ لا حول ولا قوة الا باللہ۔اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ شیعہ حضرات تقیہ کے پیروکار ہیں ۔ اس تقیہ کی روشنی میں وہ اپنے عقائد سنی حضرات سے چھپا کر رکھتے رہے ہیں ۔ پس ہمارے کئی ائمہ کرام اور علماء کرام کو ان کے ان عقائد کا پتہ نہ چلا ، لیکن جس نے بھی ان کے عقائد معلوم کیے ، انہوں نے ان کے کفر کا فتوٰی دیا ۔ جنہوں نے شیعوں کو صریحاً کافر قرار نہیں دیا ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے ان کفریہ عقائد کے حامل گروہ کو کافر قرار نہیں دیا ، بلکہ ان کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ شیعوں کے یہی عقائد ہیں ۔ ایک اور بات ذھن میں رہنی چاہیے کہ ہو سکتا ہے کہ شیعوں کے کسی ایک عقیدہ کو بعض ائمہ نے کفر کے زمرے میں شامل نہ کیا ہو ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ا ن کی نظر میں شیعہ کافر نہیں ، یا ان کی نظر میں شیعوں کے بقیہ عقائد کفر کے زمرے میں نہیں آتے ۔ اس مضمون کے آخر میں میں شیعوں کے اہل سنت کے بارے میں عقائد بھی پیش کروں گا جس سے امید ہے اس سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جائے گا ۔

امام بخاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ما أبالي صليت خلف الجهمي والرافض أم صليت خلف اليهود والنصارى ولا يسلم عليهم ولا يعادون ولا يناكحون ولا يشهدون ولا تؤكل ذبائحهم ۔
ترجمہ : میں نے کسی جہمی یا رافضی یا عیسائی یا یہودی کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی فرق نہیں پاتا ۔ ان کو نہ ہی سلام کرنا چاہئیے ، نہ ہی ان سے ملنا چاہئیے ، نہ ہی ان سے نکاح کرنا چاہئیے ، نہ ان کی شہادت قابل قبول ہے اور نہ ہی ان کا زبیحہ کھایا جائے ۔ (خلق افعال العباد صفحہ نمبر ١۳،چشتی)

حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو بھی مثلا حضرت ابوبکر کو یا حضرت عمر کو اور یا حضرت عثمان یا حضرت معاویہ یا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو برا کہنے والے کے بارہ میں حکم بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے کہ اگر وہ شخص یہ کہے کہ وہ (صحابہ) گمراہ تھے یا کافر تھے تو اس شخص کو قتل کیا جائے ۔
من شتم أحداً من أصحاب محمد أبا بكر أو عمر أو عثمان أو معاوية أو عمرو ابن العاص ، فإن قال كانوا على ضلال وكفر قتل ۔
عن أبي بكر المروذي قال : سألت أبا عبد الله عن من يَشتم أبا بكر وعمر وعائشة . قال : ما رآه على الإسلام . قال : وسمعت أبا عبد الله يقول : قال مالك : الذي يشتم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ليس لهم سهم أو قال نصيب في الإسلام ۔
ابوبکر المروزی فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا امام احمد سے اس شخص کے متعلق جو حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) کو برا کہے تو آپ نے فرمایا ؛ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ ابوبکر المروزی فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد کو فرماتے ہوئے سنا کہ امام مالک نے فرمایا کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کو برا کہے تو ان کا کوئی حصہ نہیں یا فرمایا ان کا کوئی حصہ نہیں اسلام میں ۔ (السنہ للخلال ج ۳ ص ۴۹۳)

نیز امام احمد سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس شخص نے نبی کریم ﴿ص﴾ کے صحابی کو گالی دی ،قد مَرَقَ عن الدِّين، تو وہ دین سے نکل گیا ۔ (السنہ للخلال ج ۳ ص ۴۹۳)

على بن عبد الصمدقال سالت احمد بن حنبل عن جار لنا رافضى يسلم على ارد عليه قال لا ۔
علی بن عبدالصمد فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ ہمارے پڑوس میں رافضی ہے ، جو مجھ کو سلام کرتا ہے تو کیا میں اس کو جواب دوں ؟ آپ نے فرمایا ؛ نہیں ۔
(السنہ للخلال ج ۳ ص ۴۹۳،چشتی)

الحسن بن على الحسن انه سئل عبدالله عن صاحب بدعة يسلم عليه قال اذا كان جهميا او قدريا او رافضيا داعية فلا يصلى عليه و لا يسلم عليه ۔
حسن بن علی الحسن نے سوال کیا امام احمد سے صاحب بدعت کے بارے میں کہ وہ ان کو سلام کرتا ہے تو انہوں نے فرمایا جب جہمی یا قدریہ یا رافضی بلائے تو اس پر نہ نماز جنازہ پڑھو اور نہ اس پر سلام کرو ۔ (السنہ للخلال ج ۳ ص ۴۹۴)

ابوبکر بن عیاش فرماتے ہیں : لا اصلي على رافضى ، کہ میں رافضی کی نماز جنازہ نہیں پڑھتا ۔ (المغنی ج ۵ ص ٦۲)

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :و مذهب الرافضة شر من مذهب الخوارج المارقين , فان الخوارج غايتهم تكفير عثمان و على و شيعتهما و الرافضة تكفير ابى بكر و عثمان و جمهور السابقين الاولين ۔
اور رافضہ کا مذہب دین سے نکل جانے والے خارجیوں سے بدتر ہے کیونکہ خوارج کی انتہا حضرت عثمان اور حضرت علی اور ان کے گروہ کی تکفیر تھی اور روافض نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اورتمام سابقین و اولین کی تکفیر کی ۔ (مجموعة فتاوٰی ابن تیمیة ج ٦ ص ۴۲١،چشتی)

محیط میں حضرت امام محمد رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے کہ رافضیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت کے منکر ہیں ۔ خلاصہ میں لکھا ہے : من انکر خلافۃالصدیق فہو کافر یعنی جس شخص نے ابوبکر صدیق کی خلافت کاانکار کیا وہ کافر ہیں ۔

حضرت مالک بن انس کا قول ہے : من غاظه أصحاب محمد فهو كافر لقولـه تعالى: لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۔
جس شخص نے اصحا ب محمد کے تئیں بغض وغصہ رکھا ،وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” تاکہ ان سے کافروں کوغصہ دلائے ۔ (سورہ الفتح : ۲۹)” کے بموجب کافر ہے ۔

فتاوی عالمگیری میں درج ہے : من انکرامامہ ابی بکر الصدیق فہوکافر علی قول بعضہم وقال بعضہم ہو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انہ کافر کذلک من انکر خلافۃ عمر فی اصح الاقوال ویجب اکفار الروافض فی قولہم برجہۃالاموات الی الدنیا وتناسخ الارواح ۔
جس شخص نے ابوبکر کی امامت کبریٰ کا انکار کیا وہ بعض حضرات کے قول کے مطابق کافر ہے جب کہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ مبتدع قرار پائے گا اس کو کافر نہیں کہیں گے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ کافر ہے۔ اسی طرح قول صحیح کے مطابق وہ شخص بھی کافر ہو جائے جو حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرے گا نیز رافضیوں کو اس بنا ء پر کافر قرار دینا واجب ہے کہ وہ مُردوں کے دنیا میں لوٹنے اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں ۔ (فتاوی عالمگیری ج ١۷ ص ١۵۴،چشتی)

مرقاۃ میں امام ملا علی قاری فرماتے ہیں : قلت وهذا في غير حق الرافضة الخارجة في زماننا فإنهم يعتقدون كفر أكثر الصحابة فضلا عن سائر أهل السنة والجماعة فهم كفرة بالإجماع بلا نزاع ۔
میں کہتا ہوں کہ یہ بات ہمارے زمانہ کے رافضیوں اور خارجیوں کے حق میں صادق آتی ہے کیونکہ ان فرقوں کے لوگ اکابر صحابہ میں سے اکثر کے کفر کا عقید ہ رکھتے ہیں اور تمام اہل سنت والجماعت کو بھی کافر سمجھتے ہیں ان فرقوں کے کافر ہونے پر اجماع ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ (مرقاة ۹/١۳۷)

امام ابوزرعہ نے جو امام مسلم کے جلیل القدر شیوخ میں سے ہیں کہا ہے کہ اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کی تنقیض و توہین کرے تو بلاشبہ وہ زندیق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن حق ہے اور رسول جو کچھ (دین وشریعت) لے کر آئے وہ حق ہے نیز ان سب (قرآن اوردین وشریعت) کو نقل اور ہدایت کے ذریعہ ہم تک پہنچانے والے ان صحابہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے پس جس شخص نے ان صحابہ میں عیب و نقص نکالا اس نے در اصل کتاب و سنت کو باطل اورلغو قرار دینے کا ارادہ کیا ۔اس اعتبار سے سب سے بڑا عیب دار اورناقص خود وہی شخص قرار پائے گا اور اس پر زندقہ وضلالت کا حکم راست ودرست آئے گا ۔ حضرت سہل ابن عبد اللہ تستری کا قول ہے، اس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے والا ہرگزنہیں کہا جا سکتا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کی توقیر نہ کی ۔

امام ذہبی فرماتے ہیں : فان كفرهما والعياذ بالله جاز عليه التكفير واللعنة ۔
اگر شیخین کی کوئ تکفیر کرے العیاذ باللہ تو اس کی تکفیر اور اس پر لعنت جائز ہے ۔ (تذکرة الحفاظ ج ۲ ص ۷۵۵،چشتی)

امام ابو سعد السمانی الشافعی اپنی کتاب الانساب میں فرماتے ہیں : واجتمعت الامة على تكفير الامامية ۔ امامیہ کی تکفیر پر اجماع ہے ۔ (الانساب ج ۳ ص ١۸۸)

مختصراً یہ کہ شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی تکفیر پر ائمہ کے بے شمار اقوال اور فتاوی پیش کئے جا سکتے ہیں ۔ امت کا اجماع ہے کہ شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کافر ہیں ۔ مزید بہت حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن فقیر خیال میں اتنا کافی رہے گا ۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ کی تکفیر کرنے والے صرف اہل سنت ہی ہیں یا شیعہ بھی اہل سنت کی تکفیر کرتے ہیں ؟ تو عرض ہے کہ شیعہ بھی اہل سنت کی تکفیر کرتے ہیں ، اور ان کی کتب صحابہ کرام ، ائمہ اہل سنت اور عام سنی لوگوں کی تکفیر سے بھری پڑی ہے بلکہ شیعہ کی تکفیر میں جتنے اقوال اہل سنت کی کتب میں درج ہیں ، اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں شیعہ کتب میں صحابہ کرام ، اہل سنت اور عام سنی لوگوں کی تکفیر موجود ہے ۔ ⬇

امام صادق رضی اللہ عنہ سے شیعوں نے جھوٹا نقل کیا ہے کہ : من شك في كفر أعدائنا والظالمين لنا فهو كافر ۔
جو شخص ہمارے دشمنوں اور ہم پر ظلم کرنے والوں کے کفر میں شک کرے ، تو وہ کافر ہے ۔ (وسائل الشیعہ ج ۲۸ ص ۳۴۵)(بحار الانوار ، ج ۸ ص ۳٦٦،چشتی)

اور شیعہ اسی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد کو اہل بیت رضی اللہ عنہم کا دشمن اور ان پر ظلم کرنے والے سمجھتی ۔

ومن أنكرهم أو شك فيهم أو أنكر أحدهم أو شك فيه أو تولى أعداءهم أو أحد أعدائهم فهو ضال هالك بل كافر ۔
جو بھی ان کا انکار کرے ، یا شک کرے ، یا کسی ایک کا بھی انکار کرے ، یا شک کرے ، یا ان کو دشمنوں کو دوست رکھے ، یا ان کے دشمنوں میں سے کسی ایک کو بھی دوست رکھے ، تو وہ گمراہ ہو گیا ، بلکہ کافر ہو گیا ۔ (بحار الانوار ج ۲۵ ص ۳٦۲)

امام صادق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : المنكر لآخرنا كالمنكر لاولنا ۔
ہمارے آخر کا انکار کرنا ایسا ہے جیسے ہمارے اول کا انکار کرنا ۔ (بحار الانوار ج ۲۷ ص ٦١)

اعلم أن إطلاق لفظ الشرك والكفر على من لم يعتقد إمامة أمير – المؤمنين والائمة من ولده عليهم السلام وفضل عليهم غيرهم يدل على أنهم كفار مخلدون في النار ۔
جان لینا چاہئے کہ لفظ شرک اور کفر کا ان پر اطلاق جو حضرت علی اور ان کی اولاد میں سے جو امام ہیں، ان کی امامت کا اعتقاد نہیں رکھتے، اس کا ثبوت ہے کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ۔ (بحار الانوار ج ۲۳ ص ۳۹۰)

آیت اللہ شیرازی اپنی کتاب الفقہ میں کہتا ہے
و اما سائر اقسام الشيعةغير الاثنى عشرية فقد دلت نصوص كثيرة على كفرهم ككثير من الاخبار المقتدمة الدالة على ان من جحد اماما كان كمن قال : ان الله ثالث الثلاثة ۔
جہاں تک اثنا عشریہ کے سوا شیعہ کے بقیہ تمام گروہوں کا تعلق ہے تو کثیر تعداد میں نصوص ان کے کفر پر دلالت کرتی ہیں، جیسے کہ ہم نے روایات کو اس سے پہلے ذکر کیا، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جوبھی کسی ایک امام کا انکار کرے، وہ ایسا ہے جیسے وہ شخص جو کہے کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے ۔ (الفقہ للشیرازی ، ج ۳،چشتی)

محمد طاہر بن محمد حسین الشیرازی النجفی القمی اپنی کتاب الاربعین فی امامة الائمة الطاہرین میں بکتا ہے : ان عائشة كافرة مستحق للنار و هو مستلزم لحقية مذهبنا ۔
بے شک عائشہ کافرہ ہے، اور نار جہنم کی مستحق ہے ، اور یہ ہمارے مذہب کی حقانیت کے لئے مستلزم ہے ۔ (الاربعین فی امامة الائمة الطاہرین ، ص ٦١۵)

مجلسی کہتا ہے : عندنا أن من حارب أميرالمؤمنين كافر ، والدليل على ذلك إجماع الفرقة المحققة لامامية على ذلك ، و إجماعهم حجة ، وأيضا فنحن نعلم أن من حاربه كان منكرا لامامته ۔
ہمارے ہاں ہر وہ شخص کافر ہے جس نے امیر المومنین ﴿حضرت علی﴾ سے جنگ کی ﴿حضرت عائشہ ، حضرت معاویہ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر اور دیگر صحابہ کرام کی کھلی تکفیر﴾۔ اور اس کی دلیل فرقة المحققہ لامامہ کا اس پر اجماع ہے ، اور ان کا اجماع حجت ہے ، اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ جس نے ان سے جنگ کی ، تو وہ ان کی امامت کا منکر قرار پایا ۔ (بحار الانوار ج ۸ ص ۲٦٦،چشتی)

سلیم بن قیس اپنی کتاب میں حضرت علی رضی اللہعنہ سے منسوب قول نقل کرتا ہے کہ انہوں نے کہا : ان الناس كلهم ارتدوا بعد رسول الله صلى الله عليه و اله غير اربعة ۔
سوائے چار کے بقیہ تمام لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مرتد ہو گئے ۔ (سلیم بن قیس ، ص ۵۹۸)

محمد بن مسعود ابن عیاش السمرقندی اپنی کتاب تفسیر عیاشی میں لکھتا ہے :عن ابى جعفر قال كان الناس اهل الردة بعد النبى الا الثلاثة فقلت و من الثلاثة ؟ قال المقداد و ابو ذر و سلمان فارسى ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد لوگ مرتد ہو گئے ، سوائے تین کے ، راوی کہتا ہے کہ میں نے پوچھا، وہ تین کون ہیں ؟ فرمایا ؛ مقداد ، ابوذر اور سلمان فارسی ۔ (تفسیر عیاشی ص ۲۲۳)

مجلسی اپنی کتاب میں لکھتا ہے : عن مولى لعلى بن الحسين قال : كنت معه فى بعض خلواته فقلت ان لى عليك حقا الا تخبرنى عن هذين الرجلين : عن ابى بكر و عمر . فقال كافران , كافر من احبهما ۔
علی بن الحسین کا آزاد کردہ غلام کہتا ہے کہ میں ان کے ساتھ ایک دفعہ تنہائ میں تھا، میں نے ان سے کہا کہ میرا آپ پر حق بنتا ہے کہ آپ مجھے ان دو افراد کے بارے میں بتائے، یعنی ابوبکر اور عمر ۔ تو انہوں نے کہا، دونوں کافر ہیں اور وہ بھی کافر ہیں جو ان سے محبت کریں ۔ (بحار الانوار ج ۲۸ ص ١۹۹،چشتی)

باقر مجلسی کا باپ ملا تقی مجلسی اپنی کتاب میں کہتا ہے :(و اما) انكار معاوية و عائشة فانهما خارجان عن الدين و ليسا من المسلمين ۔
جہاں تک انکار معاویہ اور حضرت عائشہ کا تعلق ہے تو وہ دونوں دین سے خارج ہیں، اور مسلمانوں میں سے نہیں۔ (روضة المتقین ج ۲ صفحہ نمبر ۲١۸)

شیعہ عبداللہ الشبر اپنی کتاب شرح الزيارة الجامعة میں کہتا ہے : وقد دلت اخبار كثيرة على كفر المخالفين يحتاج جمعها الى كتاب مفرد ۔
کثیر تعداد میں روایات مخالفین کے کفر پر دلالت کرتی ہیں ، اور یہ محتاج ہیں کہ ان کو ایک پوری کتاب میں جمع کیا جائے ۔ (شرح الزيارة الجامعة صفحہ ١۳٦)

آیت اللہ بحرانی شیعہ کہتا ہے : قد استفاضت الروايات والاخبار عن الائمة الابرار (عليهم السلام) – كما بسطنا عليه الكلام في كتاب الشهاب الثاقب في بيان معنى الناصب – بكفر المخالفين ونصبهم وشركهم وان الكلب واليهودى خير منهم ۔
بڑی تعداد میں نیک ائمہ سے مروی روایات ، جیسا کہ میں نے اپنی کتاب شہاب الثاقب فی بیان معنی الناصب میں بیان کیں ، مخالفین کے کفر اور ان کے ناصبی ہونے اور ان کے شرک کو ظاہر کرتی ہیں ۔ اور کتے اور یہودی ان سے بہتر ہیں ۔ (الحدائق الناضرة ج ١۰ صفحہ ۴۳)

حسین البحرانی اپنی کتاب محاسن الاعتقاد فی اصول الدین میں کہتا ہے : فبهذا نعتقد و نقطع بان معاوية و طلحة و الزبير و المراة و اهل النهروان و غيرهم ممن حاربوا عليا و الحسن و الحسين كفار بالتاويل ۔
اور اس وجہ سے ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ معاویہ اور طلحہ اور زبیر اور وہ عورت ﴿یعنی حضرت عائشہ﴾ اور اہل نہروان اور دوسرے جو علی اور حسن اور حسین کے ساتھ لڑے ، وہ کافر بالتاویل ہیں ۔ (محاسن الاعتقاد فی اصول الدین ص ١۵۷،چشتی)

مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں شیخ مفید کا قول نقل کرتا ہے : قال الشيخ المفيد قدس الله روحه فى كتاب المسائل : اتفقت الامامية على ان من انكر امامة احد من الائمة و جحد ما اوجبه الله تعالى له من فرض الطاعة فهو كافر ضال مستحق للخلود فى النار ۔
شیخ مفید اپنی کتاب المسائل میں کہتا ہے ؛ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی کسی ایک امام کا انکار کرے ، اور جو اللہ تعالٰی نے واجب کی ہے ان کے متعلق اس کا انکار کرے، تو وہ کافر ہے، گمراہ ہے، اور جہنم میں رہنے کا مستحق ہے ۔ (بحار الانوار ج ۲۳ صفحہ ۳۹۰)

اہل تشیع کے ہاں اہل سنت کو ناصبی پکارا جاتا ہے ۔ پہلے ایک روایت ملاحظہ ہو کہ نواصب کی شیعہ کے ہاں کیا حیثیت ہے ۔

عن داود بن فرقد قال : قلت لأبي عبد الله ع ما تقول في قتل الناصب قال: حلال الدم لكني اتقي عليك فان قدرت أن تقلب عليه حائطا أو تغرقه في ماء لكيلا يشهد به عليك فافعل قلت: فما ترى في ماله قال توه ما قدرت عليه ۔
داؤد بن فرقد کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر سے پوچھا کہ ناصبی کو قتل کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ تو انہوں نےفرمایا اس کا خون حلال ہے لیکن مجھے تجھ پر ڈر ہے اس لیے اگر تیرے لئے ممکن ہو تو اس پر کوئ دیوار گرا دے یا اس طرح پانی میں غرق کر دے کہ کوئی تجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھ نہ لے ۔ (علل الشرائع للصدوق جلد ۲ صفحہ ٦۰١)

شیعہ نعمت اللہ الجزائری اپنی کتاب انوار النعمانیہ میں لکھتا ہے : الذي ورد في الأخبار أنه نجس وأنه شر من اليهودي والنصراني والمجوسي، وأنه كافر نجس بإجماع علماء الشيعة الإمامية ۔
روایات میں وارد ہوا ہے کہ یہ ﴿ناصبی﴾ یہودی ، عیسائی اور مجوسی سے بدتر ہوتا ہے ، اور وہ باجماع علماء شیعہ امامیہ نجس کافر ہوتا ہے ۔ (انوار النعمانیہ ج ۲ ص ۳۰٦،چشتی)

اب ملاحظہ کرتے جائیے کون کون سے سنی ائمہ کرام علیہم الرحمہ پر شیعہ ناصبی کا لیبل لگاتے ہیں ۔ جب ہمارے علماء و اٸمہ ناصبی قرار دیے جائیں تو کیا خیال ہیں تقیہ کی چادر تلے آپ کو کچھ اور سمجھا جا رہا ہوگا ؟

امام شعبی رحمة اللہ علیہ

و عامر الشعبي الناصبي المنحرف عن أمير المؤمنين ۔ (نور الأفهام للحسن الحسيني اللواساني ج ۲ ص ۳۴)

امام مالک رحمة اللہ علیہ

أن الإمام مالكا كان من النواصب
امام مالک ناصبی تھے ۔ (الشيعة هم أهل السنة للدكتور محمد التيجاني السماوي، ص ١۰۳)

امام شافعی رحمة اللہ علیہ

امام شافعی کے خلاف تو محقق البحرانی نے پوری ایک نظم لکھی ہے، کہتا ہے
كذبت في دعواك يا شافعي ۔ فلعنة الله على الكاذب ۔
شافعی ، تم اپنے دعوی میں جھوٹے ہو، اور اللہ کی لعنت ہو جھوٹوں پر ۔
فالشرع والتوحيد في معزل ۔ عن معشر النصاب يا ناصبي ۔
شریعت اور توحید ناصبیوں سے دور ہے ، اے ناصبی ۔

امام احمد رحمة اللہ علیہ

علی بن یونس العاملی اپنی کتاب الصراط المستقیم میں شیخ کشی کا امام احمد کے بارے میں قول نقل کرتا ہے ۔ قال الكشي : هو من أولاد ذي الثدية جاهل شديد النصب ۔
وہ زی الثتیہ کی اولاد سے ہے ، جاہل، ناصبیت میں شدید ہے ۔ (الصراط المستقیم جلد ۳ صفحہ ۲۲۳)

امام یحیی بن معین رحمة اللہ علیہ

نور الله الحسيني المرعشي التستري اپنی کتاب شرح احقاق الحق میں لکھتا ہے : نور الله الحسيني المرعشي التستري ۔ و كذا الكلام في يحيى بن معين ، فإنه كان أمويا ناصبيا ۔ یہی کلام یحیی بن معین کے لیے ہے ، اور وہ اموی اور ناصبی ہے ۔ (شرح احقاق الحق جلد ۳ صفحہ ۳۹۸،چشتی)

امام ابو داؤد رحمة اللہ علیہ

شیخ باقر المحمودی اپنی کتاب جواہر المطالب کے حاشیہ میں ان کا تعارف کرتے ہوئے لکھتا ہے : و هو عبد الله بن سليمان بن الأشعث الناصبي ۔ اور وہ عبداللہ بن سلیمان بن الاشعث الناصبی ہے ۔ (جواہر المطالب صفحہ نمبر ١۵١)
ۢ
امام ابن حبان رحمة اللہ علیہ

آیت اللہ تقی التستری قاموس الرجال میں لکھتا ہے : قول ابن حبان الناصبي ۔
(قاموس الرجال ج ۹ ص ۲۸۳)

امام دارقطنی رحمة اللہ علیہ

آیت اللہ علی النمازي الشاهرودي اپنی کتاب المستدرکات میں لکھتا ہے : وكان ناصبيا ۔ وہ ناصبی تھا ۔ (مستدركات علم رجال الحديث ج ۸ ص ۵١۴)

امام ابن حجر الہیثمی رحمة اللہ علیہ

نعمت اللہ جزائری اپنی کتاب نورالبراہین میں لکھتا ہے : و لما نظر ابن حجر الناصبي إلى أن هذا الخبر يستلزم ۔ (نور البراہین ج ۲ ص ١۵۸)

شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ

آیت اللہ تقی تستری اپنی کتاب قاموس الرجال میں ایک راوی کےتحت لکھا ہے : وثقه ابن حجر الناصبي ۔ اس کو توثیق ابن حجر الناصبی نے کی ہے ۔ (قاموس الرجال ج ۹ ص ۲۸٦)

امام ذہبی رحمة اللہ علیہ

نور اللہ شوستری اپنی کتاب صوارم المحرقہ میں ایک جگہ لکھتا ہے : وأما ما نقله عن الذهبي الناصبي ذهب الله بنوره ۔ اور جہاں تک اس کا تعلق ہے جس کہ ذہبی الناصبی سے نقل کیا ہے، اللہ اس کا نور ہٹا دے ۔ (صوارم المحرقہ صفحہ ١۹۸،چشتی)

امام فخر الدین الرازی رحمة اللہ علیہ

شیخ باقر مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں ایک جگہ لکھتا ہے : وأفحش من ذلك ما ذكره الرازي الناصبي حيث قال ۔ اور اس سے بھی بدتر وہ ہے جس کو رازی الناصبی نےذکر کیا جب وہ کہ رہا تھا ۔ (بحار الانوار ج ۳۵ ص ۳۸۴)

امام ابن جوزی رحمة اللہ علیہ

آیت اللہ تقی تستری اپنی کتاب قاموس الرجال میں کہتا ہے : ابن الجوزي هو ” عبد الرحمن بن علي الناصبي “ ۔ ابن جوزی ، اور وہ عبدالرحمٰن بن علی الناصبی ہے ۔ (قاموس الرجال جلد ١١ صفحہ ۵۹۹)

خطیب بغدادی رحمة اللہ علیہ

تقی تستری اپنی کتاب قاموس الرجال میں کہتا ہے : ولا عبرة بقول الخطيب الناصبي ۔ خطیب الناصبی کے قول کو کوئ توجہ نہیں دینی چاہئے ۔ (قاموس الرجال ج ۹ ص ۳۹۰)
اور ایک دوسری جگہ لکھتا ہے : وفي تاريخ بغداد للخطيب الناصبي ۔ اور خطیب الناصبی کی کتاب تاریخ بغداد میں ۔ (قاموس الرجال جلد ۹ صفحہ ۵۵۵،چشتی)

امام حسن بصری ، امام غزالی اور امام سفیان ثوری علیہم الرحمہ

ملا باقر مجلسی اپنی کتاب عین الحیاة میں کہتا ہے : أتقول : انّي تابعت الحسن البصري الملعون في عدّة أحاديث ؟ أو تابعت سفيان الثوري المعادي للامام الصادق ( عليه السلام ) والمعارض له ، وقد ذكرنا بعض أحواله في أوّل هذا الكتاب ؟ أو تعتذر عند الله بمتابعة الغزالي الناصبي يقيناً ۔ میں کہتا ہوں ، کیا تم حسن بصری کی اتباع کرو گے جو کے کئی احادیث میں ملعون قرار دیا گیا ہے ؟ یا پھر سفیان ثوری کی اتباع کرو گے جو کے امام صادق کا دشمن تھا ۔ یا پھر غزالی کی متابعت کرو گے جو کے کھلم کھلا ناصبی تھا ۔

امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ کے متعلق ایک شیعی روایت کو پیش کرتے ہوئے کہتا ہے : انّ أمير المؤمنين (عليه السلام) قال الحسن البصري : … أما انّ لكلّ قوم سامري وهذا سامريّ هذه الامة ، أما انّه لا يقول لا مساس ولكن يقول لا قتال ۔ حضرت علی ﴿ع﴾ نے حسن بصری سے کہا ؛ ہر قوم کا ایک سامری ہوتا ہے اور یہ اس قوم کا سامری ہے ۔ (عین الحیاة ص ۴۲۲ ، ۴۲۳)
مکمل تحریر >>

Tuesday 24 August 2021

دیوبندیوں کے نزدیک محرم میں سبیل اور ذکر امامِ حرام اور دیوالی کی پیاؤ جائز ٭٭

دیوبندیوں کے نزدیک محرم میں سبیل اور ذکر امامِ حرام اور دیوالی کی پیاؤ جائز
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : دیوبندیوں کے نزدیک محرم میں ذکر شہادت امام حسین رضی اللّہ عنہ اگرچہ بروایات صحیحہ ہو یا سبیل لگانا ، شربت پلانا یا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب نا درست اور تشبتہ روافض کی وجہ سے حرام ہے ۔ جبکہ اہلسنت کے ہاں ہر زمانے میں سبیل لگانے کا طریقہ کار رہا ہے جو کتب بینی کا ذوق رکھتے ہیں وہ یہ بات اور تشبیہ کے کیا شرائط ہیں وہ بخوبی واقف ہیں اور یہی گنگوہی صاحب لکھتے ہیں ہندو اگر سود کے پیسوں سے سبیل لگائے جسے ہندی زبان میں پیاؤ کہتے ہیں اس کا پانی پینا مسلمان کو جائز ہے میں پوچھتا ہوں ہندو نے امام حسین رضی اللّہ عنہ  کے نام پہ سبیل لگائی ہوگی یا شنکر کے نام پر ؟ افسوس ایسے بغض پر یہاں تو مال بھی سود کا سبیل بھی بت کے نام کی لیکن پھر بھی بلکل جائز ہوگئ جو کہ شریعت مطہرہ کی رو سے ہر حالت میں حرام و ناجائز ہے ۔

دیوبندیوں کے قطب العالم رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : محرم میں ذکر شہادت امام حسین علیہ السلام اگرچہ بروایات صحیحہ ہو یا سبیل لگانا، شربت پلانا یا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب نا درست اور تشبتہ روافض کی وجہ سے حرام ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ کتاب العلم صفحہ نمبر 149 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)

اِن کے نزدیک محرم میں ذکر امام عالی مقام رضی اللّہ عنہ  کرنا اگرچہ درست روایات کے ساتھ ہو پھر بھی نا درست اور حرام ہے ۔ میں کہتا ہوں تمہاری زبانوں پر تو پورا سال ہی یہ ذکر نہیں چڑھتا ۔ محرم میں تو پھر خاص تمہاری شامت آتی ہے لہٰذا کیونکر جائز ہونے کا فتوی دے سکتے ہو ۔ اور رہی بات سبیل وغیرہ لگانے کی تو یہ کس نص سے حرام ٹھہری اگر کوئی سُنی چندہ کرکے یا اپنی جیب سے فقط ایصالِ ثواب شہیدانِ کربلا کیلئے دودھ پانی کی سبیل لگاتا یا کھانا تقسیم کرتا ہے تو اس میں روافض کی تشبیہ کیسے ؟ اہلسنت نذر و نیاز اور ایصال ثواب اِن کے برصغیر میں قدم رکھنے سے پہلے سے کرتے چلے آرہے ہیں ۔

خیر گنگوہی مع ذریت اس سبیل کا پانی جو کہ مسلمانوں کے چندے سے لگایا گیا ہے وہ پینا پسند نہیں کریں گے اگر کوئی کافر ہندو دیوالی یا ہولی کا کھانا تحفتہ بھیجے وہ کھانا درست اور حلال ہے ۔

دیوبندیوں کے قطب العالم رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : ہندوؤں کی دیوالی کی کھیلیں ، پوری اور ہندو جو اپنی سُود کی رقم سے پانی کی پیاؤ لگاتے ہیں مسلمانوں کو اس سودی رقم کے پانی پینے میں مضائقہ نہیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ کتاب الخطر و الاباحة صفحہ 575 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)

اگر کوئی ہندو "سود" کے پیسے سے پانی پِلائے تو اس پانی کے پینے میں کوئی حرج نہیں وہ پی لیں گے ۔ حرج ہے تو امام عالی مقام کے ایصال ثواب کیلئے لگائی گئی سبیل سے پانے پینے میں ۔ مسلمانانِ اہلسنت جو محرم الحرام میں نیاز و ایصالِ ثواب کرتے  ہیں اُن سے گذارش  ہے کہ یہ نیاز اُس منہ میں جانی چاہئیے جو منہ صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم دونوں کے فضائل و کمالات کا معترف ہو اور دل و جان سے اُن کو مانتا ہو بصورت دیگر یہ ایصال ثواب نہیں بلکہ وبال جان ہوگا ۔

پہلے سوال کے جواب میں گنگوہی نے امام حسین کے ساتھ "علیہ السلام "لکھا ہے اس بارے میں کیا کہتے ہیں مفتیانِ دیوبند گنگوہی شیعہ ہوئے کہ نہیں ؟

جب سید الشُھَدَاء حضرت امام حسین  رضی اللّہ عنہ کی نیاز اور آپ کے ایصالِ ثواب کیلئے پانی کی بات آتی ہے تو ساتھ ہی بدعت و حرام کے مروڑ اٹھنے لگ جاتے ہیں ۔ آخر امامِ حسین رضی اللہ عنہ سے کیا دشمنی ہے کہ ان کے ایصالِ ثواب کا پانی ناجائز اور اس کے مقابلے میں ہندوؤں کے سودی رقم کا پانی اور ہولی دیوالی کی پوریاں جائز ؟

اگر امام حسین  رضی اللّہ عنہ کے ایصال ثواب کی سبیل کا دودھ اور شربت تشبیہِ روافض کی وجہ سے حرام ہے تو یہ ہندوؤں سے ہولی دیوالی کی پوریاں لینے میں تشبیہِ کفار نہیں پائی جا رہی
مکمل تحریر >>

فاتحہ سوئم چہلم بدعت کی مختصر تحقیق.........!!

فاتحہ سوئم چہلم بدعت کی مختصر تحقیق.........!!

سوال:

سوئم چہلم پے آپ کی پردلیل تحریر درکار ہے نیز قرآن میں جو ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا...اس کا جواب بھی عطاء فرمائیں
.
جواب:

فاتحہ سوئم چہلم وغیرہ پے علماء اہلسنت نے باقاعدہ کتب و رسائل لکھے ہیں، مکتبہ سے کتب خریدیں ، مطالعہ کریں...کم سے کم پی ڈی ایف بکس تو ضرور پڑہیں، marfat ڈاٹ کام پے جائیں اور سرچ کے خانے میں esal یا fatiha یا sawab وغیرہ لکھ کر سرچ کریں کافی کتب آجائیں گی
ہم یہاں اسلاف کی کتب سے تبرک کے طور کچھ لکھ رہے ہیں اللہ اسے قبول فرمائے ، نفع بخش بنائے
① وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ

اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے انہیں بخش دے

[سورہ الْحَشْرِ: آیت 10]

اگر زندہ کی دعا مردہ کے لیے فائدہ مند نہ ہوتی تو یہ دعا کرنا فضول کہلاتا....آیت میں مقام مدحت و انداز اثبات سے ثابت ہوتا ہے کہ دعا و استعغفار سے وفات شدگان کو فائدہ ہوتا ہے بشرطیکہ مومن ہوں جیسا کہ نمبر④کی حدیث پاک میں وضاحت ہے
.
② الحدیث:

إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ: أَنَّى هَذَا؟ فَيُقَالُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ

ترجمہ:

جنت میں کسی کا درجہ بلند ہوگا تو وہ پوچھے گا یہ کیسے...؟؟
اس سے کہا جائے گا کہ تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا(یہ اسکا نفع ہے
(سنن ابن ماجه ,2/1207حدیث3660)
(مسند أحمد 16/356حدیث10610)

جب استغفار فائدہ مند ہو سکتا ہے تو پھر دیگر صدقات و ایصال ثواب بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں جیسا کہ احادیث کے حوالے سے ہم بیان کریں گے

.
③قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْرَءُوا يس عَلَى مَوْتَاكُم

ترجمہ::

نبی پاک صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اپنے مردوں (قریب المرگ اور بعد از موت و بعد از دفن میت مُردوں) پے سورہ یس پڑھو
(سنن أبي داود ,3/191حديث3121)
(مستدرک حدیث2074نحوہ)
(ابن ماجہ حدیث1448نحوہ)

أَيْ عَلَى مَنْ حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَوْ بَعْدَ الْمَوْتِ أَيْضًا

ترجمہ:

 یعنی جو قریب المرگ ہوں اور جو وفات پا جائیں دونوں حالتوں میں ان پر سورہ یس پڑھو

(حاشية السندي على سنن ابن ماجه ,1/442)

سورہ یس کی تلاوت کا اہم نفع ہے جو اسکی خصوصیت آئی ہے جب یس کا نفع ہے تو دیگر سورتوں و صدقات وغیرہ کا بھی نفع پہنچے گا


④ ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ وفات پا گئیں صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سوال کیا

فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»

اگر میں اپنی وفات شدہ والدہ کی طرف سے صدقہ ( ایصال ثواب ) کروں تو کیا اس کو اجر.و.ثواب ملے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں

(بخاري حدیث1388)
.
⑤إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ بَلَغَهُ ذَلِكَ

ترجمہ
میت مسلمان ہوتو اس کےلیےغلام آزاد کرو یا صدقہ کرو یا حج کرو اسےاسکا ثواب پہنچتا ہے

(سنن أبي داود ,3/118 حدیث2883)
.
⑥ إن أبي مات وترك مالاً ولم يُوصِ فهل يُكفِّر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: ((نعم))

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  عرض کیا کہ میرا والد انتقال کر گیا ہے اور مال چھوڑ گیا اور اس نے وصیت نہیں کی...کیا اس کے گناہ بخشے جائیں گے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں۔“

(مسلم حدیث4219)
.
⑦ زندہ کے لیےبھی ایصال ثواب جائز بلکہ بہتر..........!!

مَنْ يَضْمَنُ لِي مِنْكُمْ أَنْ يُصَلِّيَ لِي فِي مَسْجِدِ الْعَشَّارِ رَكْعَتَيْنِ، أَوْ أَرْبَعًا، وَيَقُولَ هَذِهِ لِأَبِي هُرَيْرَةَ

ترجمہ:

تم میں سے کون ہے جو اپنے ذمے لے کہ وہ مسجد عشار میں دو رکعت پڑھے یا چار رکعت پڑھے اور کہے کہ یہ ابوہریرہ کے لیے ہے

(سنن أبي داود ,4/113روایت4308)

جب زندہ کو ایصال ثواب ہوسکتا ہے تو وفات شدگان کو بھی بدرجہ اولیٰ ایصال ثواب پہنچتا ہے
.
⑧ الحديث:

ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً، فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ فَقَالَ: «لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا»

ترجمہ:

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھجور کی ایک  ہری ڈالی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ صحابہ کرام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ امید ہے کہ اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہو جائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔

(صحيح البخاري ,2/95 حدیث1361)

اس حدیث پاک سے ایصال ثواب کو ثابت کرتے ہوئے علماء نے لکھا کہ:

فيه دليل على استحباب تلاوة القرآن على القبور، لأنه إذا كان يرجى أن يخفف عن الميت بتسبيح الشجر، فتلاوة القرآن أعظم رجاء وأكثر بركة

ترجمہ:

اس حدیث پاک میں دلیل ہے کہ 
قرآن پاک قبروں پر پڑھنا مستحب و ثواب ہے کیونکہ جب یہ امید ہے کہ سبزہ
(ڈالی تازہ پھول سبزہ) کی تسبیح سے عذاب میں کمی کی امید ہے تو قرآن تو اس سے زیادہ برکت والا ہے زیادہ امید والا ہے

(أعلام الحديث شرح صحيح البخاري1/274)

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,3/118)

(إكمال المعلم بفوائد مسلم2/120نحوہ)
دیوبندی کتاب احسن الفتاوی4/205بحوالہ تحقیق لاجواب ص58)
.
⑨ الحدیث:

مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ

ترجمہ:
میت قبر میں اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو ڈوب رہا ہو مدد کے لیے پکار رہا ہو، میت بھی انتظار میں ہوتا ہے کہ اسے دعا (صدقہ وغیرہ ایصال ثواب) پہنچے
(شعب الإيمان حدیث8855)
(مشكاة المصابيح حدیث2355)
(جامع الاحادیث حدیث19826)

.========================

وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ وَصَدَقَاتِهِمْ مَنْفَعَةٌ لِلْأَمْوَاتِ

زندہ لوگ جب دعا کریں اور صدقات کریں ایصال ثواب کریں  تو اس کا فائدہ مُردوں کو ہوتا ہے

[عقيدة الطحاوية مع الشرح ,2/663]
.
الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ اهـ هُوَ مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ

افضل ہیں کہ جب صدقہ ایصال ثواب کرے تو تمام مومنین و مومنات کو ایصال ثواب کرے ان سب کو ثواب پہنچے گا اور ایصال ثواب کرنے والے کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی یہی اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے

(فتاوی شامی حنفی ( رد المحتار ) ,2/243)

.
فَإِنَّ مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِنْ الْأَمْوَاتِ وَالْأَحْيَاءِ جَازَ وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ كَذَا فِي الْبَدَائِعِ وَبِهَذَا عُلِمَ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ الْمَجْعُولُ لَهُ مَيِّتًا أَوْ حَيًّا

ترجمہ:

بے شک جو شخص روزہ رکھے اور نماز پڑھے یا صدقہ خیرات کرے اور اس کا ثواب مُردوں میں سے یا زندوں میں سے کسی کے لئے ایصال ثواب کر دے تو ان سب کو ثواب پہنچتا ہے اہل سنت والجماعت کے مطابق... اسی طرح  الْبَدَائِعِ میں ہے۔۔۔۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے 

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ,3/63)
.
يصله ثوابُ الدعاء، وثوابُ  الصدقة بالِإجماعْ

میت کو دعا اور صدقے کا ثواب پہنچتا ہے اس پر تمام علماء کا اجماع ہے

(فتاوى النووي الشافعی ص83)
.
فتادی دیوبند میں ہے کہ:

میت کو ثواب صدقہ و خیرات و تلاوت قرآن شریف وغیرہ پہنچتا ہے..
(فتاوی دار العلوم دیوبند5/430 بحوالہ تحقیق لاجواب ص88)
.
الإتيوبي شرح مسلم میں ابن تیمیہ وہابی کا قول نقل کرتےہوئے لکھتا ہے کہ:

فأجاب: الحمد لله رب العالمين، ليس في الآية، ولا في الحديث أن الميت لا ينتفع بدعاء الخلق له، وبما يُعمَل عنه من البرّ، بل أئمة الإسلام متفقون على انتفاع الميت بذلك۔۔۔وقد دَلَّ عليه الكتاب، والسنة، والإجماع، فمَن خالف ذلك كان من أهل البدع

ترجمہ:

ابن تیمیہ نے جواب دیا کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں کسی آیت یا کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ مخلوق کی دعا اور نیک اعمال (تلاوت ذکر درود حج زکوۃ صدقہ خیرات نوافل  وغیرہ) سے مردہ کو فائدہ نہیں ہوتا
بلکہ
ائمہ اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ ان تمام نیک کاموں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔۔۔اس پر قرآن و سنت اور اجماع دلیل ہے تو جو نہ مانے وہ بدعتی ہے

(البحر المحيط الثجاج في شرح صحيح الإمام مسلم بن الحجاج ,19/317ملتقطا)
.
أَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً كَانَ أَوْ صَوْمًا أَوْ حَجًّا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةَ قُرْآنٍ أَوْ ذِكْرًا أَوْ أَيَّ أَنْوَاعِ الْقُرَبِ وَهَذَا هُوَ الْقَوْلُ الْأَرْجَحُ

بےشک ایک انسان دوسرے کو اپنے اعمال کا ثواب ایصال کرسکتا ہے (مومن کو ہر طرح کا ایصال ثواب پہنچتا ہے) نماز روزے حج صدقہ تلاوت ذکر وغیرہ مختلف قسم کے نیک کام کے ثواب کو ایصال کرسکتا ہے یہی مذہب راجح و قوی ہے

(وہابی و اہل حدیث کتب سبل السلام1/509 فتاوی ثنائیہ2/35..فتاوی علماء حدیث.5/363بحوالہ تحقیق لاجواب ص78)
.
اہلسنت اور وہابی اہلحدیث وغیرہ میں اختلاف بس اس قدر ہے کہ وہابیوں اہلحدیثوں وغیرہ کے مطابق فاتحہ ایصال ثواب کا دن مقرر نہیں کرسکتے جبکہ اہلسنت کہتے ہیں کہ دن مقرر کرنا سہولت کے طور پر ہے اور باقی ایام بھی فاتحہ ہوتی رہتی ہے....

*تیسرا چالیسوان دن کیوں.........؟؟*

اصل فاتحہ ایصال ثواب مذکورہ احادیث و آیات سے ثابت ہے اور تیسرے دن و چہلم کی مناسبت و تعیین عرف و عادات مسلمین و صالحین سے ثابت و جائز جسکی اصل سنت  و آثار سے ثابت ہے...

جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وعظ کے لیے جمعرات کا دن مقرر فرمایا یہ تعیین سہولت کے طور پر تھی ، اس تعیین کا ثبوت کسی حدیث پاک میں نہیں
كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ
سیدنا عبداللہ ابن عباس لوگوں کو ہر جمعرات وعظ فرماتے

(صحيح البخاري ,1/25 روایت70)

لیھذا سہولت کے لیے سوئم چہلم کی تعیین جائز ہے بشرطیکہ اس کو ضروری بھی نہ سمجھا جائے، اگر کہیں ضروری سمجھا جاتا ہو تو فاتحہ سے منع نہ کریں گے بلکہ وضاحت پھیلائیں گے بتائیں گے کہ مسلمانوں سوئم چہلم دن مقرر کرنا سہولت و مناسبت کے لیے ہے جائز ہے فرض واجب ضروری نہیں....سہولت کے لیے دن مقرر کرنے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ دیوبندیوں کے ہاں ہر سال دن مقرر کرکے رائےونڈ اجتماع ہوتا ہے، ختم بخاری و دستاربندی کا دن مقرر کیا جاتا ہے مگر اسے کوئی بدعت نہیں کہتا اسی طرح فاتحہ کا سہولت کے لہے تیسرا دن مقرر کرنا اور باقی دنوں میں بھی فاتحہ ایصال ثواب کرتے رہنا بالکل جائز ہے....
مزید تحقیق و تفصیل کے لیے دیکھیے فتاوی رضویہ جلد 9 ص 585 اور کتاب سعیدالحق ، کتاب تحقیق لا جواب وغیرہ

.========================

*تعزیت کی فضیلیت اور تین دن تعزیت........!!*

الحدیث:
مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُعَزِّي أَخَاهُ بِمُصِيبَةٍ إِلَّا كَسَاهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ مِنْ حُلَلِ الْكَرَامَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ:

کوئی اپنے مسلمان بھائی کے دکھ و مصیبت میں "شرعی تعزیت" کرے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ قیامت کے اسے عزت و کرامت کا جبہ پہنائے گا

(ابن ماجہ حدیث1601)
.
نهينا أن نحد أكثر من ثلاث

ترجمہ:

ہمیں (وفات کے فورا بعد والے) تین دن سے زیادہ سوگ.و.غم کرنے سے روکا گیا ہے.
(بخاری حدیث1279)

جب سوگ و غم کے اظہار کی تین دن اجازت ہے تو ان تین دنوں میں تعزیت و تسلی دینا بھی ثابت ہوگیا....اسی لیے فقہاء علماء کرام نے لکھا کہ:

التعزية لصاحب المصيبة حسن فلا بأس بأن يجلسوا في البيت أو المسجد والناس يأتونهم ويعزونهم...وأكثرهم أنه يعزى إلى ثلاثة أيام

لواحقین سے تعزیت کرنا اچھا و ثواب ہے، لواحقین گھر میں یا مسجد میں بیٹھیں اور لوگ آئیں تعزیت کریں اس میں کوئی حرج نہیں...اکثر علماء کا فرمان ہے کہ تعزیت تین دن کی جائے

(البناية شرح الهداية ,3/260ملتقطا)
.
ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَيُكْرَهُ بَعْدَهَا إلَّا أَنْ يَكُونَ الْمُعَزِّي أَوْ الْمُعَزَّى إلَيْهِ غَائِبًا فَلَا بَأْسَ بِهَا

تین دن کے بعد تعزیت مکروہ ہے...ہاں اگر تعزیت کرنے والا یا جس سے تعزیت جائے وہ غائب ہوں تو بعد میں آنے پر تعزیت کرنے میں حرج نہیں

(الفتاوى الهندية ,1/167)

دکھ میں بن بلائے جانا چاہیے، دکھ ونڈانہ چاہیے،تعزیت کرنی چاہیے، تسلی دینی چاہیے، حسب طاقت مدد کرنی چاہیے…مریض کی عیادت کرنی چاہیے....وفات یا بیماری پے محض دور سے تعزیت و دعا کافی معلوم نہیں لگتی، اگر مشکل و عذر و مجبوری نہ ہو تو عیادت تعزیت و دعا کے لیے ضرور ضرور ضرور جانا چاہیے…
.
*سڑک پےتعزیت منع کیوں اور کب.....؟؟*

گھر مسجد میں تعزیت کے لیے بیتھنے کو جائز لکھنے کے ساتھ ساتھ فقہاء کرام نے لکھا کہ
سڑک پر قناطیں لگا کر، قالینیں بچھا کر تعزیت کے لیے بیٹھنا برا ہے....
پہلے عبارت ملاحظہ کیجیے

وَلَا بَأْسَ لِأَهْلِ الْمُصِيبَةِ أَنْ يَجْلِسُوا فِي الْبَيْتِ أَوْ فِي مَسْجِدٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَالنَّاسُ يَأْتُونَهُمْ وَيُعَزُّونَهُمْ وَيُكْرَهُ الْجُلُوس عَلَى بَابِ الدَّارِ وَمَا يُصْنَعُ فِي بِلَادِ الْعَجَمِ مِنْ فَرْشِ الْبُسُطِ وَالْقِيَامِ عَلَى قَوَارِعِ الطُّرُقِ مِنْ أَقْبَحِ الْقَبَائِحِ

لواحقین تین دن گھر میں یا مسجد میں بیٹھیں اور لوگ آئیں تعزیت کریں اس میں کوئی حرج نہیں....گھر کے دروازوں پے تعزیت کے لیے بیٹھنا مکروہ ہے اور وہ جو عجم میں ہے کہ قالینیں بچھاتے ہیں راستوں کے بیچوں بیچ بیٹھتے ہیں یہ بہت برا ہے

(الفتاوى الهندية ,1/167)

مسجد گھر میں تعزیت کے لیے بیٹھنے کو ثواب لکھنے کے ساتھ جو یہ مکروہ لکھا ہے اسکی کیا وجہ ہے......؟؟
سرعام تعزیت وجہ ہے...؟؟
تو مسجد میں بھی سرعام تعزیت ہوتی ہے پھر وہ کیوں ثواب....؟؟

غور کیا جائے تو پہلے کے گھر بڑے ہوا کرتے تھے تو بلاعذر و بلااجازت راستے بند کرکے تعزیت کے لیے بیٹھنے کو مکروہ لکھا گیا
جبکہ
ہمارے دور میں شہروں کے گھر بہت چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے گھر سے باہر راستے پر بیٹھنا مجبوری بھی ہے اور عرف میں اسکی اجازت بھی ہے اور لوگوں کی حق تلفی بھی نہیں کہ لوگ اسکی اجازت دیتے ہیں لیھذا ہمارے دور میں اگر کسی کا گھر چھوٹا ہو ، اہل محلہ کی اجازت ہو تو کچھ راستہ بھی چھوڑا جائے یا نعم البدل راستہ موجود ہو تو راستے میں ٹینٹ لگا کر تعزیت و فاتحہ خیرات ممنوع نہ کہلائے گی
.=========================

*فاتحہ تیجہ میں کتنا خرچ کریں،کیا امیر کھا سکتا ہے..؟؟*

فتوی:
سوئم چہلم پے امیر غریب سب شرکت کر سکتے،کھانا کھا سکتے ہیں مگر سوئم چہلم پے غرباء کو کھلانا بہتر…تفخر ، دکھاوا، ایک دوسرے سے خرچے میں سبقت و تکلفات نہ کرنا لازم 
(دیکھیے فتاوی رضویہ 9/594,610)

بہتر ہے کہ چھوٹا موٹا سوئم پےاکتفاء کیا جائے اور بقایا رقم سے کوئی علمی دینی شعوری ترقی کے اچھے کام و خدمات پے خرچ کرکے،  غرباء کی اچھی امداد پے خرچ کرکے، مدارس و کتب پےخرچ کرکے، سچے سرگرم علماء مبلغین پے خرچ کرکے ایصال ثواب کرنا چاہیے

.=======================

*انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا....؟؟*

ایت میں ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا...اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کے نیک اعمال و ایصال و ثواب کا فائدہ میت کو نہیں ملے گا...اس کے متعدد جوابات دییے گئے ہیں

جواب ①: یہ آیت منسوخ ہے

جواب ②:

آیت کے سیاق و سباق میں غور کیا جاءے تو ترجمہ یہ بنے گا کہ صحف ابراہیم و موسی میں یہ ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا...یعنی یہ حکم پہلے کی شریعتوں کا ہے، ہماری شریعت میں دوسروں کا ایصال کردہ ثواب زندہ و مردہ کو ملتا ہے بشرطیکہ مسلمان ہو

جواب ③:
یہ آیت کفار کے بارے میں ہے کہ انہیں ایصال ثواب کا فائدہ نہ ملے گا جبکہ مومن کو ملے گا
.
علامہ قرطبی لکھتے ہیں
 وَقَالَ الرَّبِيعُ بْنُ أَنَسٍ:

(وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا مَا سَعى) 
يَعْنِي الْكَافِرَ وَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَلَهُ مَا سَعَى وَمَا سَعَى لَهُ غَيْرُهُ. قُلْتُ: وَكَثِيرٌ مِنَ  الْأَحَادِيثِ يَدُلُّ عَلَى هَذَا الْقَوْلِ، وَأَنَّ المؤمن يصل إليه ثَوَابِ الْعَمَلِ الصَّالِحِ مِنْ غَيْرِهِ
الرَّبِيعُ بْنُ أَنَسٍ نے کہا ہے کہ 
انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا... یہ کافر انسان کے متعلق ہے اور جہاں تک تعلق ہے مومن کا تو اسے اپنے اعمال کا ثواب ملتا ہے اور دیگر لوگوں کے اعمال کا ایصال کردہ ثواب ملتا ہے...میں یعنی امام قرطبی کہتا ہوں کہ اس قول پر کثیر احادیث دلالت کرتی ہیں کہ مومن کو دوسروں کے نیک اعمال کا ایصال کردہ ثواب ملتا ہے
(تفسير القرطبي17/114)
.
وَهَذَا أَيْضًا فِي صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى...وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَذَا مَنْسُوخُ الْحُكْمِ فِي هَذِهِ الشَّرِيعَةِ، بِقَوْلِهِ: "أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ"، 
(الطُّورِ-21)
وَقَالَ عِكْرِمَةُ: كَانَ ذَلِكَ لِقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ  وَمُوسَى، فَأَمَّا هَذِهِ الْأُمَّةُ فَلَهُمْ مَا سَعَوْا وَمَا سَعَى لَهُمْ غَيْرُهُمْ،
انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا یہ صحف ابراہیم و موسی کا حکم ہے یعنی ہماری شریعت کا حکم نہیں...سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ حکم ہماری شریعت میں منسوخ ہے
أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ"،
(الطُّورِ-21) ناسخ ہے....

سیدنا عکرمہ نے فرمایا کہ یہ حکم کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا یہ صحف ابراہیم و موسی کا حکم ہے جبکہ ہماری شریعت میں اپنے اعمال کا ثواب ملتا ہے اور دیگر لوگوں کا ایصال کردہ ثواب ملتا ہے

(تفسير البغوي - طيبة7/416ملتقطا)

.=========================

*آخر میں بدعت کے بارے میں بھی کچھ پڑھتے جائیے*

میلاد فاتحہ سوئم چہلم عرس دعا بعد جنازہ ، اذان سے قبل صلواۃ و سلام وغیرہ وہ کام جو اہلسنت کرتے ہیں یہ سب مروجہ صورت میں جائز و ثواب ہیں مگر انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے، یہ کام مروجہ صورت کے ساتھ سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں... سنت کے علاوہ جائز و ثواب بھی اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہیں.. یہ تمام امور شرائط و حدود کے ساتھ بدعت و گناہ نہیں..
.
فرقہ واریت یا اختلاف کی ایک بڑی وجہ وہ سوچ ہے جو معاشرے میں پھیلا دی گئ ہے اور مسلسل پھیلائی جا رہی ہے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے... جو کام سنت نہیں وہ بدعت ہے کہہ دیا جاتا ہے..پھر اسے دلیل بنا کر کہہ دیا جاتا ہے کہ اذان سے پہلے درود و سلام، دعا بعد نماز جنازہ، میلاد فاتحہ وغیرہ وغیرہ سب بدعت ہیں..پھر یہ بدعت وہ بدعت ایک لمبی لسٹ شروع کردی جاتی ہے...جو امت میں تفرقہ کا کلیدی کردار ادا کرتی ہے.. لیھذا ان مسائل میں اتفاق کیا جائے تو کافی حد تک اختلاف ختم کیا جاسکتا ہے
.
حدیث پاک میں ہے کہ:

وما سكت عنه فهو مما عفا عنه
ترجمہ:
جس چیز کے متعلق (قرآن و احادیث میں) خاموشی ہو (مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو) وہ معاف ہے، جائز ہے...
(ابن ماجہ حدیث3368)

یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے
.
حدیث پاک میں ہے:

من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء

ترجمہ:
جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد
جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اس نئے طریقے کو جاری کرنے والے کو ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی

(مسلم حدیث نمبر/6800, 1017)
یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے
.
ان دونوں احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ:

① جو کام سنت نہ ہو اور دوٹوک ممانعت بھی نہ ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا...لیھذا یہ کہنا کہ فلان کام سنت نہیں اس لیے بدعت ہے، یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کی روشنی سے واضح ہے کہ جو سنت نہ ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا... ہاں اگر سنت نہ ہو اور جائز بھی نہ ہو بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تب بدعت و گناہ کہلائے گا
.
② اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں کام سنت نہیں بدعت ہے تو آپ فورا جواب دیں کہ ٹھیک ہے سنت نہیں تو کیا جائز بھی نہیں...؟؟
.
③ بے شک سنت کی عظمت ہے مگر قرآن و حدیث نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنت کے علاوہ جائز بھی کوئی چیز ہے... لیھذا سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے
.
④ ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نہ ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز و ثواب ہیں... ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ان میں نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ ایصال ثواب وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نہ ہوں..

.=====================
جب نئےطریقےبدعت نہیں تو #پھر_آخر_بدعت_ہے_کیا...؟؟
.
جواب اور #چیلنج:
دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت ، کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا یا اولین ادوار میں نہ تھا وہ بدعت ہے ہم انہیں چیلنج کرتے ہیں کہ کسی آیت یا حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ نے نہ کیا ہو... چیلنج چیلنج... چیلنج...
کچھ لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نہ ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے، جائز بھی دین کی تعلیمات میں سے ہے..
.

*پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟*

ایات احادیث و آثار میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:
المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ
فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ
ترجمہ:
بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے
اور
جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائی کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعت شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت کے"

(فتح الباری 13/253
 حاشیہ اصول الایمان ص126
اصول الرشاد ص64) 

مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار
فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے
جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے
اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب سیدی امام احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)
.
صحابہ کرام کا فتویٰ:
یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
(بخاری جلد2 صفحہ707)

یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے
سنی وہابی نجدی شیعہ اہل ھدیث وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے
اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے
.======================

خلاصہ یہ ہے کہ
① سنت کے علاوہ جائز بھی اسلام کا ایک اہم ستون ہے... جائز کو بھلانا گمراہی اختلاف و انتشار تفرقہ کا باعث ہے
② ہر نئی چیز بدعت نہیں ہوتی...جو سنت نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ جائز کہلائے گی بشرطیکہ کہ اسلامی اصول کے خلاف نہ ہو...بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی اصل اسلام میں موجود نہ ہو

③ میلاد ، فاتحہ ، اذان سے پہلے درود، دعا بعد نماز جنازہ ، سوئم چہلم عرس وغیرہ جو کام اہلسنت کرتے ہیں وہ بدعت نہیں کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے... ہمارے بات پے ذرا غور کیجیے کہ مذکورہ کام جس طریقے سے آج کیے جاتے ہیں بالکل اسی طریقے سے پہلے نہیں کیے جاتے تھے مگر ان امور کی اصل قرآن وسنت میں موجود ہے لیھذا یہ موجودہ مروجہ طریقوں کے ساتھ مذکوہ کام سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے..
.

✍ تحریر :العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
مکمل تحریر >>

ایصال ثواب پر صحابہ کرام کا معمول:*

*✨🌹ایصال ثواب🌹✨*

*✨ایصال ثواب پر صحابہ کرام کا معمول:*

         "حضرت  امام شعبی سے مروی ہے کہ جب انصار کے یہاں کوئی مرتا تو لوگ اسکی قبر پرآتے جاتے اور قرآن شریف پڑھتے۔"

*(شرح الصدور:ص123، باب فی قراہ القرآن للمیت او علی القبر)*

               "حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اس کو مت روکو اور اسے جلدی قبر تک لے جائو۔اس کے سرہانے ابتداء سورہ بقرہ *(مفلحون تک)* اور پائنتی خاتمہ بقرہ *(یعنی امن الرسول سے آخر)* تک پڑھو۔
ایصال ثواب

ایصال ثواب پر صحابہ کرام کا معمول:

حضرت  امام شعبی سے مروی ہے کہ جب انصار کے یہاں کوئی مرتا تو لوگ اسکی قبر پرآتے جاتے اور قرآن شریف پڑھتے۔

*(شرح الصدور:ص123، باب فی قراہ القرآن للمیت او علی القبر)*

          ✨حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ
     آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اس کو مت روکو اور اسے جلدی قبر تک لے جائو۔اس کے سرہانے ابتداء سورہ بقرہ *(مفلحون تک)* اور پائنتی خاتمہ بقرہ *(یعنی امن الرسول سے آخر)* تک پڑھو۔"

     ✨سعد بن علی زنجانی نے فوائد میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے:

            ✨"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے کہ جو شخص قبرستان جائے اور پھر سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص اور سورہ التکاثر پڑھے۔ 
        پھر کہے خداوند جو کچھ میں نے تیرا کلام پڑھا اس کا ثواب مقبرہ والے مسلمان مرد و عورت کو پہنچا۔تو وہ لوگ خدا کے یہاں اس کے سفارشی ہوں گے"۔

     ✨حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور  نے فرمایا بے شک جو قبرستان جا کر سورہ یسین پڑھے خدائے تعالی تخفیف فرماتا ہے اور ان لوگوں کے بقدر نیکیاں عطا فرماتا ہے جو مقبرہ
 میں مدفون ہیں"۔

*(شرح الصدور:امام سیوطی،ص 124)*

*گیارہویں حرام ہے؟؟؟*
ایصال ثواب کے منکرین کے اعتراضات کا مدلل جواب 

*Click To Watch On YouTube 👇🏿*
https://youtu.be/tfkTHUdYYrA
Click To Watch On YouTube 👇🏿
https://youtu.be/uSOydw-ODrM

*Sunni Press Channel Subscribe 🤝*

مفتی اکمل قادری صاحب Explain 
*ہر بات پر شرک کہنے والے منافق فرقوں کو جواب 👇🏿*
https://youtu.be/eB4XseV1Dlc

امت مصطفیٰ پر شرک کا خطرہ 

*Click To Watch On YouTube 👇🏿*
https://youtu.be/qftMGYHQaMM

 مفتی راشد رضوی صاحب

    ✨سعد بن علی زنجانی نے فوائد میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے:

                 "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے کہ جو شخص قبرستان جائے اور پھر سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص اور سورہ التکاثر پڑھے۔ 
        پھر کہے خداوند جو کچھ میں نے تیرا کلام پڑھا اس کا ثواب مقبرہ والے مسلمان مرد و عورت کو پہنچا۔تو وہ لوگ خدا کے یہاں اس کے سفارشی ہوں گے"۔

   "حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور  نے فرمایا بے شک جو قبرستان جا کر سورہ یسین پڑھے خدائے تعالی تخفیف فرماتا ہے-   اور ان لوگوں کے بقدر نیکیاں عطا فرماتا ہے جو مقبرہ میں مدفون ہیں"۔

*(شرح الصدور:امام سیوطی،ص 124)*

*مزید عقائد اہلسنت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کریں* 

جاء الحق📚

زیادہ سےزیادہ شیئر کریں صدقہ جاریہ ھے

*22 رجب میں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے ( ایصال ثواب ) کیلئے کونڈے*

اور کھانا سامنے رکھ کر نیاز کیوں کرتے ہیں وغیرہ

*🔖 علماء اہلسنت* کا ایصال ثواب نذر و نیاز، فاتحہ خوانی تیجہ، ساتہ، چالیسواں، گیارہویں شریف، کونڈے کی نیاز کے متعلق *ویڈیو انسائیکلوپیڈیا* 

*علامہ احسان قادری صاحب _Explain_*

*Imam e Jasfar Sadiq ki Sirat o KHASAIS O KAMALAT* AND
*Imam Jafar Sadiq ke Niyaz ke KONDY ! 15 Rajab ya 22 Rajab*
🎙️Hafiz Ehsan Iqbal Qadiri :

*💠 چند علمائے اہلسنت کا کونڈے کی نیاز کے متعلق موقف و چند اہم عقائد و مسائل پر تفصیلی گفتگو سننے کے لئے نیچے دیے گئے یوٹیوب YouTube ⛔ لنکس کو کلک کریں 👇🏿*

*Jaan Hai Ishq Mustafa Subscribe Channel ⤵️:*
https://youtu.be/JskAIkJ77Sc

*Radde Wahabiyat Channel Subscribe ⤵️*
https://youtu.be/eB4XseV1Dlc

*🎙️Allama Kokab Norani Okarvi ⤵️*
https://youtu.be/QvLfPK0awJA
⤵️
https://youtu.be/smD3UvSFl88
⤵️
https://youtu.be/7z2jLw8aDlA

*Mufti Rashid Mahmood Razvi ⤵️:*
https://youtu.be/NkS2ZaGLRjY

*🎙️Allama Yousaf Rizvi ⤵️*
https://youtu.be/CSxG4Yw6exQ

*🎙️ Allama Tayyib Naqshbandi Shb ⤵️*
https://youtu.be/o2M2DPNEtPc

*🎙️ Allama Syed Muzaffar Shah Shb ⤵️*
https://youtu.be/89druH6xDiw
⤵️
https://www.youtube.com/watch?v=HB-XcBo8WRU

*🎙️Hafiz Ehsan Qadiri ⤵️*
https://youtu.be/bLdjqYVao8c
⤵️
https://youtu.be/9gKqctuHdsc
⤵️
https://www.youtube.com/watch?v=rA0pnpNirFw

*🎙️Maulana Ilyas Qadri ⤵️*
https://youtu.be/26zQjHJe_ZI
⤵️
https://youtu.be/4RFovSF6FBU

*🎙️Maulana Farooq Qadri ⤵️*
https://youtu.be/crR7i0Vicn4
⤵️
https://youtu.be/g2Q8htqYAvc
⤵️
https://youtu.be/7elnJ0ckVwk
⤵️
https://youtu.be/_9HvMaE1Nzc

*🎙️Haji Shahid Attari ⤵️*
https://youtu.be/RzGw2I08JHw
⤵️
https://youtu.be/GYd-PM46gc4

*SUNNI Press Channel Subscribe ⤵️:*
https://youtu.be/tfkTHUdYYrA
⤵️
https://youtu.be/uSOydw-ODrM

*🎙️Mufti Akmal Shb ⤵️*
https://fb.watch/31F4ymxK26/
⤵️
https://fb.watch/40KS-WB8jD/
⤵️
https://fb.watch/40L1t6G4cE/
⤵️
https://fb.watch/45HCRRVPsC/
⤵️
https://www.facebook.com/857858324342943/posts/2618253664970058/
⤵️
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1313469202356704&id=100010809107366
⤵️
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=540717283150701&id=295193960747

*علم کا خزانہ :* وٹس ایپ گروپ کو نیچے دیے گئے لنک کو کلک کر کے جوائن کیجئے 👇🏿
https://chat.whatsapp.com/J0K39pJrDPfGWAGxQoN1Jz
➖➖➖➖➖➖➖🔖

*اپنے مرحومین والدین عزیز اقرباء کے ایصال ثواب کی نیت سے 👂 سن کر شئیر لازمی کریں صدقہ جاریہ ھے*
مکمل تحریر >>

نذر ونیاز ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﮩﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ:

*ﻧﺬﺭﻭﻧﯿﺎﺯ*

نذر ونیاز ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﮩﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ:

 ﺍﻧﻤﺎ ﺣﺮﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﻤﯿﺘۃ ﻭﺍﻟﺪﻡ ﻭﻟﺤﻢ ﺍﻟﺨﻨﺰﯾﺮ ﻭﻣﺎ ﺍﮨﻞ ﺑﮧ ﻟﻐﯿﺮ ﷲ O 
‏( ﺳﻮﺭﮦٔ ﺑﻘﺮﮦ، ﺭﮐﻮﻉ 5 ، ﭘﺎﺭﮦ 2 ، ﺁﯾﺖ 173 ‏)

ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺩﺭﺣﻘﯿﻘﺖ ‏( ﮨﻢ ﻧﮯ ‏) ﺗﻢ ﭘﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﯿﺎ ﻣﺮﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ﺳﻮﺭ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﭘﺮ ﷲ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ‏( ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ‏) ﭘﮑﺎﺭﺍ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ۔

ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ : ﺣﺮﻣﺖ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﻤﯿﺘۃ ﻭﺍﻟﺪﻡ ﻭﻟﺤﻢ ﺍﻟﺨﻨﺰﯾﺮ ﻭﻣﺎﺍﮨﻞ ﻟﻐﯿﺮ ﷲ ﺑﮧ O ‏
( ﺳﻮﺭﮦٔ ﻣﺎﺋﺪﮦ، ﺭﮐﻮﻉ 5 ، ﭘﺎﺭﮦ 6 ، ﺁﯾﺖ 3 ‏)

ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻣﺮﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺭ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺟﺲ ﭘﺮ ﷲ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ۔

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ’’ ﻣﺎﺍﮨﻞ ﺑﮧ ﻟﻐﯿﺮ ﷲ ‘‘ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﮯ؟ 

*1 ۔* ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻭﺳﯿﻂ ﻋﻼﻣﮧ ﻭﺍﺣﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ’’ ﻣﺎﺍﮨﻞ ﺑﮧ ﻟﻐﯿﺮ ﷲ ‘‘ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ *ﺟﻮ ﺑﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ۔*

*2 ۔* ﺷﺎﮦ ﻭﻟﯽ ﷲ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﻧﮯ ﺗﺮﺟﻤﺎﻥ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ’’ ﻣﺎﺍﮨﻞ ﺑﮧ ﻟﻐﯿﺮ ﷲ ‘‘ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ *ﺟﻮ ﺑﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ۔*

*3 ۔* ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺭﻭﺡ ﺍﻟﺒﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺳﻤٰﻌﯿﻞ ﺣﻘﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﻧﮯ ’’ ﻣﺎﺍﮨﻞ ﺑﮧ ﻟﻐﯿﺮ ﷲ ‘‘ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﯾﮩﯽ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ *ﺟﻮ ﺑﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ۔*

*4 ۔* ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺑﯿﻀﺎﻭﯼ ﭘﺎﺭﮦ 2 ﺭﮐﻮﻉ ﻧﻤﺒﺮ 5 ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ’’ ﻣﺎﺍﮨﻞ ﺑﮧ ﻟﻐﯿﺮ ﷲ ‘‘ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﺫﺑﺢ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ *ﺑﺖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔*

*5 ۔* ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺟﻼﻟﯿﻦ ﻣﯿﮟ ’’ ﻣﺎﺍﮨﻞ ﺑﮧ ﻟﻐﯿﺮ ﷲ ‘‘ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺟﻮ ﻏﯿﺮ ﷲ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ، ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ *ﺑﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ* ﻭﮦ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔

*ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﺗﻔﺎﺳﯿﺮ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ*
ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺁﯾﺎﺕ *ﺑﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺬﻣﺖ* ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ
ﻟﮩﺬﺍ ﺍﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﭼﺴﭙﺎں ﮐﺮﻧﺎ ﮐﮭﻠﯽ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﮨﮯ۔

*ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻧﺬﺭﻭﻧﯿﺎﺯ ﮐﺮﻧﺎ*

ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﺎﻟﻖ ﻭ ﻣﺎﻟﮏ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺫﺑﺢ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ’’ ﺑﺴﻢ ﷲ ﷲ ﺍﮐﺒﺮ ‘‘ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﮑﻮﺍ ﮐﺮ ﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﻭﻟﯽ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﺍﯾﺼﺎﻝ ﺛﻮﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﭼﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺋﺰ ﻋﻤﻞ ﮨﮯ۔

*ﺍﯾﺼﺎﻝ ﺛﻮﺍﺏ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﺮﻧﺎ*

ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ : 
ﺗﺮﺟﻤﮧ …
ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺩﮦ ﺭﺿﯽ ﷲ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ 
ﺣﻀﺮﺕ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢﷺ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﺍﻗﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ
 ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﷲﷺ !
ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔
ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﺻﺪﻗﮧ ﮐﺮﻭﮞ۔
ﺁﭖﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ !
ﮨﺎﮞ ﮐﯿﺠﺌﮯ،
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺩﮦ ﺭﺿﯽ ﷲ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔
ﺛﻮﺍﺏ ﮐﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺻﺪﻗﮧ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ؟
ﺁﭖﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﻼﻧﺎ ‘‘
ﺗﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺭﺿﯽ ﷲ ﻋﻨﮧ ﮨﯽ ﮐﯽ ﺳﺒﯿﻞ ﮨﮯ۔

( ﺑﺤﻮﺍﻟﮧ : ﺳﻨﻦ ﻧﺴﺎﺋﯽ ﺟﻠﺪ ﺩﻭﻡ، ﺭﻗﻢ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ 3698 ،ﺹ 577 ، ﻣﻄﺒﻮﻋﮧ ﻓﺮﯾﺪ ﺑﮏ ﻻﮨﻮﺭ ‏)

ﮐﻮﻧﮉﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﯿﺎﺯ 22 ﺭﺟﺐ ﺍﻟﻤﺮﺟﺐ ﮐﻮ ﮨﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺍﯾﺼﺎﻝ ﺛﻮﺍﺏ ﮨﮯ۔ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺗﯿﺮﮨﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﮯ ﻣﺠﺪﺩ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯾﺰﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ’’:
 ﻭﺍﮔﺮ ﻣﺎﻟﯿﺪﮦ ﻭ ﺷﯿﺮ ﺑﺮﻧﺞ ﺑﻨﺎ ﺑﺮﻓﺎﺗﺤﮧ ﺑﺰﺭﮒ ﺑﻘﺼﺪ ﺍﯾﺼﺎﻝ ﺛﻮﺍﺏ ﺑﺮﻭﺡ ﺍﯾﺸﺎﮞ ﭘﺨﺘﮧ ﺑﺨﻮﺭﻧﺪ ﻣﻀﺎﺋﻘﮧ ﻧﯿﺴﺖ ﺟﺎﺋﺰ ﺍﺳﺖ ‘‘ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﮔﺮ ﻣﺎﻟﯿﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺮﯾﻨﯽ ﮐﺴﯽ ﺑﺰﺭﮒ ﮐﯽ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﺼﺎﻝ ﺛﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﺳﮯ ﭘﮑﺎﮐﺮ ﮐﮭﻼ ﺩﮮ ﺗﻮ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻀﺎﺋﻘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ‏
📗( ﺑﺤﻮﺍﻟﮧ : ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻋﺰﯾﺰﯼ، ﺟﻠﺪ ﺍﻭﻝ ،ﺹ 39 ‏)

 ﺁﮔﮯ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ’’ ﻃﻌﺎﻣﯿﮑﮧ ﺛﻮﺍﺏ ﺁﮞ ﻧﯿﺎﺯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻣﯿﻦ ﻧﻤﺎﯾﻨﺪﻭ ﻭﺑﺮﺁﮞ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻭ ﻗﻞ ﻭﺩﺭﻭﺩ ﺧﻮﺍﻧﺪﻥ ﺗﺒﺮﮎ ﻣﯿﺸﻮﺩ ﺧﻮﺭﺩﻥ ﺑﺴﯿﺎﺭ ﺧﻮﺏ ﺍﺳﺖ ‘‘ ﯾﻌﻨﯽ ﺟﺲ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺍﻣﺎﻣﯿﻦ ﺣﺴﻨﯿﻦ ﮐﯽ ﻧﯿﺎﺯ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻗُﻞ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﺮﮐﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ 
📗( ﺑﺤﻮﺍﻟﮧ : ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﻋﺰﯾﺰﯼ، ﺟﻠﺪ ﺍﻭﻝ، ﺹ 71 ‏)

ﻧﺬﺭ ﻭ ﻧﯿﺎﺯ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺘﺤﺐ ﻋﻤﻞ ﮨﮯ۔ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺛﻮﺍﺏ، ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻟﮩﺬﺍ ﯾﮧ ﻓﺮﺽ ﻭﻭﺍﺟﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔
مکمل تحریر >>

گیارہویں شریف اکابرین امت اور منکرین کے اکابرین کی نظر میں

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=3401050406652360&id=752625121494915

گیارہویں شریف اکابرین امت اور منکرین کے اکابرین کی نظر میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : مسلمانوں کا قدیم طریقہ ہے کہ گیارہ تاریخ کو حضرت غوثِ اعظم رضی اللّٰه تعالٰی عنہ کے ایصالِ ثواب کیلئے نیاز و فاتحہ کی جاتی ہے جس کو گیارھویں شریف کہتے ہیں ۔ جس کا مقصد ایصالِ ثواب ہے جبکہ نجدی کے پیروکار اس عمل کو بدعت اور حرام کہتے ہیں ۔ تو آئیے اس عمل کاثبوت ہم اکابرینِ امت اور منکرین کے گھر سے پیش کرتے ہیں ۔

قدوۃُالواصلین ، زبدۃُالعارفین ، سیدی و سندی ، پیرانِ پیر ، غوث اعظم سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رضی ﷲ عنہ کے عرس کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب ہے جس میں آپ کے حوالے سے ﷲ و رسول اور وِلایت اولیا کا ذِکر کیا جاتا ہے تاکہ ﷲ پاک اِن اولیا کی محبت لوگوں کے دِلوں میں پیدا فرمائے ، آپ کے عِلمی و عَملی کارناموں سے اُمت آگاہ ہو ۔ اس سے ایک طرف ﷲ تعالیٰ اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت سینوں میں پیدا ہوتی ہے بلکہ اولیاء ﷲ سے بھی اُنس پیدا ہوتا ہے ، ﷲ والوں کی صحبت میسر آتی ہے ، روحانیت ، فیض اور ذہنی آسودگی ملتی ہے ، ﷲ تعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت کی ترغیب ملتی ہے ﷲ والوں کی اتباع و اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اورنیکی کی ترویج اور برائی کے مٹانے میں مدد ملتی ہے ۔ کہنے کو یہ ایک شخص کی تقریب ہوتی ہے مگر در حقیقت یہ ﷲ و رسول صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کی بزم ہوتی ہے جہاں ﷲ و رسول صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر ہوتا ہے ۔ نذرانوں کی صورت میں کھانے پینے کی اشیا آتی ہیں جو حاضرین ، زائرین ، بھوکے ، مسافر ، بے بسوں کے کام آتی ہیں ۔ دینے والوں کو ثواب اور کھانے والوں کو سیری و سیرابی ملتی ہے ۔ اس صدقے سے زبانوں اور دِلوں سے نکلتی دعاؤں ، تلاوتوں ، اذکار کا ثواب زائرین ، ان کے آباو و امہات ، ان کے اساتذہ ، مشائخ اور تمام مسلمانانِ عالم ، زندہ مومنین اور بالخصوص اہل قبور و مزارات کو پہنچایاجاتا ہے ، ان دعاؤں کو سننے والا ﷲ تعالیٰ ہے اس کی بارگاہ سے یقین ہے کہ یہ پر خلوص دعائیں قبول کرتاہے ، مشکلات حل ہوتی ہے ، خالی جھولیاں بھرتی ہے، خشک ہونٹوں پر تری آتی ہے ، پریشاں دِلوں کو سکون اور بہتی آنکھوں کو خنکی ملتی ہے ، زخمی دِلوں کو مرہم اور دھتکارے ہُووں کو ٹھکانا مِلتا ہے ۔ ذیل میں گیارہویں شریف کے متعلق اہل علم کے تأ ثرات قلمبند کئے جارہے ہیں ۔

محدث اعظم ہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی

حضرت غوث اعظم رضی ﷲعنہ کے روضۂ مبارک پر گیارہویں تاریخ کو بادشاہ وغیرہ شہر کے اکابر جمع ہوتے ، نماز عصر کے بعد مغرب تک قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور حضرت غوث اعظم رضی ﷲعنہ کی مدح اور تعریف میں منقبت پڑھتے ، مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے اِردگرد مریدین اور حلقہ بگوش بیٹھ کر ذِکر بالجہر (باآوازِ بلندذِکر) کرتے ۔ اسی حالت میں بعض پروجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ۔ اس کے بعد طعام شیرینی جو نیاز تیار کی ہوتی ، تقسیم کی جاتی اور نماز عشا پڑھ کر لوگ رُخصت ہوجاتے ۔ (ملفوظات عزیزی فارسی : صفحہ نمبت ۶۲۔چشتی)

شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ

میرے پیرومرشد حضرت شیخ عبدالوہاب متقی مہاجر مکی (علیہ الرحمہ) ۹ ربیع الثانی کو حضرت غوث اعظم رضی ﷲعنہ کا عرس کرتے تھے ۔ بے شک ہمارے ملک میں آج کل گیارہویں تاریخ مشہورہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد و مشائخ (ہندو پاک) میں متعارف ہے ۔ (ماثبت من السنۃ: ص۱۶۷۔چشتی)

حضرت شیخ امان ﷲ پانی پتی علیہ الرحمۃ المتوفی 997ھ ۱۱ربیع الثانی کو حضرت غوث اعظم کا عرس کرتے تھے ۔ (اخبار الاخیار اردو ترجم: ص۴۹۸)

مرزا مظہرجانِ جاناں علیہ الرحمہ

میں نے خواب میں ایک وسیع چبوترہ دیکھا جس میں بہت سے اولیاے کرام حلقہ باندھ کر مراقبے میں ہیں ۔ اور ان کے درمیان حضرت خواجہ بہاوالدین نقشبند دوزانو اور حضرت جنید بغدادی تکیہ لگا کر بیٹھے ہیں ۔ اِستغنیٰ ماسواء ﷲ اور کیفیاتِ فنا آپ میں جلوہ نما ہیں ۔ پھر یہ سب حضرات کھڑے ہوگئے اور چل دیے ، میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے ؟ تو اُن میں سے کسی نے بتایا کہ امیر المومنین حضرت علی المرتضٰی رضی ﷲ عنہ کے استقبال کے لیے جا رہے ہیں ۔ پس حضرت علی المرتضٰی شیر خدا کرم ﷲ وجہہ الکریم تشریف لائے ۔ آپ کے ساتھ ایک گلیم پوش ہیں جو سر اور پاوں سے برہنہ ذولیدہ بال ہیں ۔ حضرت علی المرتضٰی کرم ﷲ وجہہ الکریم ان کے ہاتھ کو نہایت عزت اور عظمت کے ساتھ اپنے مبارک ہاتھ میں لیے ہوئے تھے ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو جواب ملا کہ یہ خیرالتابعین حضرت اویس قرنی رضی ﷲ تعالی عنہ ہیں پھر ایک حجرہ شریف ظاہر ہوا جو نہایت ہی صاف تھا اور اس پر نور کی بارش ہو رہی تھی ۔ یہ تمام باکمال بزرگ اس میں داخل ہوگئے ، میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو ایک شخص نے کہا آج حضرت غوث الثقلین سید عبدالقادر جیلانی کا عُرس ہے ۔ ہم سب عرس پاک کی تقریب پر تشریف لے گئے ہیں ۔ (کلمات طیبات ، فارسی: صفحہ۷۷،۷۸)

علامہ فیض عالم بن مُلّا جیون صاحب علیہ الرحمہ

عاشورہ کے روز امامین شہیدین سیدنا شباب اہل الجنۃ ابو محمد حسن اور ابو عبد ﷲ حسین رضی ﷲ تعالی عنہما کے لیے کھانا (نیاز) تیار کرتے ہیں ۔ خدا ے تعالیٰ کی بارگاہ میں اس نیاز کا ثواب ان کی روح کو پہنچاتے ہیں اور اِسی قسم سے گیارہویں شریف کا کھانا ہے جو کہ حضرت غوث الثقلین کریم الطرفین قرۃ العین الحسنین محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا و مولانا فردالافراد ابو محمد شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی ﷲ تعالی عنہ کا عرس مبارک ہے ۔ دیگر مشائخ کا عرس سال کے بعد ہوتا ہے ۔ حضرت غوث پاک رضی ﷲ تعالی عنہ کا عرس مبارک (ہمارے یہاں) ہر ماہ ہوتا ہے ۔ (وجنیر القراط فارسی، ص۸۲،چشتی)

علامہ برخوردار صاحبِ نبراس علیہ الرحمہ

ممالکِ ہندو سندھ وغیرہ میں آپ کاعرس ۱۱ربیع الثانی کو ہوا کرتا ہے ۔ اس میں انواع و اقسام کے طعام و تحائف کہ حاضرین علما و اہل تصوف ، فقرا درویشاں کو پیش کیے جاتے ہیں ۔ وعظ اور بعض نعتیہ نظمیں بھی بیان ہوتی ہیں ۔ اس عرس شریف میں ارواحِ کاملین کا بھی حضور ہوتاہے خصوصاً آپ کے جد امجد حضرت علی المرتضی کرم ﷲ وجہہ الکریم بھی تشریف لاتے ہیں ۔ کما ثبت عند ارباب المکاشفۃ ۔ (سیرت غوث اعظم: ص۲۷۵۔چشتی)

پیر عبدالرحمٰن نے اس (گیارہویں تاریخ) کی وجہ یہ لکھی ہے کہ پیرانِ پیر حضرت غوث الاعظم ہر گیارہویں کو نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کا عرس کیا کرتے تھے ۔ (کلیات جدولیہ فی احوال اولیاء ﷲ، المعروف بتحفۃ الابرار، بحوالہ تکملہ ذکرالاصفیاء : ص۲۹)

غوث اعظم چونکہ گیارہویں کرتے ہیں لہٰذا بطریق (تسبیح فاطمہ) گیارہویں حضرت پیرانِ پیر مشہور ہوئی ۔ (حاشیہ سیرت غوث الاعظم: ص۲۷۶)

اکابرینِ علمائے دیوبند کے مُرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ

پس بہیئت مروجہ ایصال ثواب (ایصال ثواب کا موجودہ طریقہ ) کسی قوم کے ساتھ مخصوص نہیں اور گیارہویں حضرت غوث پاک (قدس سرہ) کی ، دسویں ، بیسویں ، چہلم ، ششماہی ، سالانہ وغیرہ اور توشہ حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی (رحمۃ ﷲ تعالی علیہ) کااور سہ منی (تین ماہ کی) حضرت شاہ بو علی قلندری (رحمۃ ﷲ تعالی علیہ) کی و حلواے شب برات اور دیگر طریق ایصالِ ثواب کے اسی (جواز کے) قاعدے پر مبنی ہیں اور مشرب فقیر (حاجی امداد ﷲ) کا اس مسئلے میں یہ ہے کہ فقیر پابند اس ہیئت (طریقہ، انداز) کا نہیں ہے مگر کرنے والوں کاانکار بھی نہیں کرتا ۔ (کلیاتِ امدادیہ : باب فیصلہ ہفت مسئلہ ، ص۸۲، مطبوعہ:دیوبند)،(فیصلہ ہفت مسئلہ، مسئلہ فاتحہ مروجہ، صفحہ 8، ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی،چشتی)

لو جی گیارھویں کو بدعت کہنے آئے تھے ان کے پیر صاحب نے گیارھویں سمیت پتہ نہیں کیا کیا جائز ثابت کر دیا ۔ ان میں سے بعض ایصالِ ثواب کے ذرائع و نام میں نے بھی پہلے بار سنے ہیں .. تو کیا فرماتے ہیں علماءِ دیوبند کہ گیارھویں کو جائز کہنے والے پر کیا حُکُم ہے اور ایسے کی بیعت کرنا کیسا ؟

مولوی خر م علی بلہوری دیوبندی

حاضری حضرت عباس کی ، صحنک حضرت فاطمہ کی ، گیارھویں عبدالقادر جیلانی کی ، مالیدہ شاہ مدار کا ، سہ منی بوعلی قلندر کی ، تو شہ شاہ عبدا لحق کا ، اگر مَنّت نہیں ہے صرف ان کی روحوں کو ثواب پہنچانا منظور ہے تو درست (جائز) ہے ۔ اس نیت سے ہر گز منع نہیں ۔ (نصیحۃ المسلمین : چند شرکیہ رسمیں ،ص:۴۱)

اسمعٰیل دہلوی امامُ الوہابیہ و دیابنہ

رسوم میں فاتحہ پڑھنے ، عرس کرنے اور فوت شدگان کی نذر و نیاز کرنے کی رسموں کی خوبی میں شک و شبہ نہیں ۔ (صراطِ مستقیم :فارسی، صفحہ:۵۵۔چشتی)
طالب کو چاہیے کہ پہلے وہ با وضو دو زانوں بطور نماز (التحیات) میں بیٹھ کر اس طریقے کے بزرگوں حضرت معین الدین سجزی اور حضرت قطب الدین بختیار کاکی (علیہما الرحمۃ) وغیرہ حضرات کے نام کا فاتحہ پڑھ کر بارگاہِ خداوندی میں ان بزرگوں کے توسط (واسطے) اوروسیلہ سے التجا کرے ۔ (صراطِ مستقیم :فارسی، ص:۵۵۔چشتی)

پس امورِ مروجہ یعنی اموات کے فاتحوں اور عرسوں اور نذر ونیاز سے اس قدر امر کی خوبی میں کچھ شک وشُبہ نہیں ۔ (صراطِ مستقیم، صفحہ 110، مطبوعہ اسلامی اکیڈمی اردو بازار لاھور)

وھابیہ جس کو بدعت کہے ان کا امام اس کو خوبی کہے ..... پس پتہ چلا کہ خوبی والی بدعت بھی ہوتی ہے ... نذرو نیاز کے علاوہ مولوی اسماعیل دھلوی نے بزرگانِ دین اولیاء کے عرس کو بھی خوبی والے کاموں میں شامل کیا ..... جی آلِ نجد جواب دے کہ بدعات کو خوبی والے امور کہنے والے پر کیا حُکُمِ شرعی ہے ؟؟

قطب العالم دیوبند جناب رشیداحمد گنگوہی صاحب

ایصال ثواب کی نیت سے گیارہویں کو توشہ (نیاز) کرنا درست ہے مگر تعیّن یوم و تعیّن طعام کی بدعت اس کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اگرچہ فاعل اس یقین کو ضروری نہیں جانتا مگر دیگر عوام کو موجبِ ضلالت ہوتا ہے لہٰذا تبدیل یوم و طعام (نیاز) کیا کرے تو پھر کوئی خدشہ نہیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ، کتاب العلم ،صفحہ 171، مطبوعہ عالمی مجلس تحفظِ اسلام کراچی،چشتی)

گنگوھی نے آگے جو لکھا کہ دن اور کھانا مقرر کرنا بدعت ہے تو اس کا جواب ہم انہی کے پیر ومُرشد کی زبانی دیتے ہیں ۔

چنانچہ حضرتِ حاجی امداد الله مہاجر مکی علیہ الرحمہ جنکو اکابرینِ علماء دیوبند اپنا پیر و مُرشد مانتے ہیں وہ گیارھوں دسواں سوئم چالیسوں کا دن مقرر کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : رہا تعینِ تاریخ (یعنی گیارھویں کی تاریخ مقرر کرنا) یہ بات تجربے سے معلوم ہوتی ہے کہ جو امر کسی خاص وقت میں معمول ہو تو اس وقت وہ (امر کام) یاد آ جاتا ہے اور ضرور ہوتا رہتا ہے اور (دن وتاریخ مقرر) نہیں تو سالہا سال گزر جاتے ہیں کبھی خیال نہیں ہوتا اسی قِسم کی مصلحتیں ہر امر میں ہیں جنکی تفصیل طویل ہے محض بطورِ نمونہ تھوڑا سا بیان گیا گیا (ہے) زہین آدمی غور کر کے سمجھ سکتا ہے ۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ، مسئلہ فاتحہ مروجہ، صفحہ 8، ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی۔چشتی)

جی جس تاریخ کو مقرر کرنا گنگوھی جی بدعت کہہ رہے ہیں اسی تاریخ کو مقرر کرنے کے فوائد و مصلحتیں گنگوھی جی کے پیر صاحب بیان فرما رہے ہیں ... پیر صاحب کا یہ جملہ نہایت ہی قابلِ غور ہے کہ ” کوئی بھی ذہین آدمی غور کر کے سمجھ سکتا ہے“ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ گنگوھی جی اور جو دیوبندی تاریخ مقرر کرنے کو بدعت کہتے ہیں وہ بقول پیر صاحب کُند ذہن ونالائق ہیں کیو نکہ اگر ذہین ہوتے تو پیر صاحب کے بقول سمجھ جاتے ۔

حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب

بوقت مجلس جب مثنوی مولانا روم ختم ہوگئی ۔ بعد ختم کہ شربت بنانے کا حکم دیا اور ارشاد ہوا کہ اس (شربت) پر مولانا روم کی نیاز بھی کی جائے گی ۔ گیارہ گیارہ بار سورۂ اخلاص پڑھ کر نیاز کی گئی اور شربت بٹنا شروع ہوا ۔ آپ (حاجی امداد ﷲ صاحب نے فرمایا کہ نیاز کے دو معنی ہیں ، ایک عجز و بندگی اور سوائے خدا کے دوسروں کے واسطے نہیں ہے بلکہ ناجائز و شرک ہے ، دوسری خدا کی نذر اور ثواب خدا کے بندوں کو پہنچانا ۔ یہ جائز ہے لوگ انکار کرتے ہیں ، اس میں کیا خرابی ہے ۔ (شمائم امدادیہ ملفوظات حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی ص:۶۸)
ہر شخص کو اختیار ہے کہ (نیک) عمل کا ثواب مردے کو یا زندہ کو کردے ۔ جس طرح مردے کو ثواب پہنچتا ہے اسی طرح زندہ کو بھی ثواب پہنچ جاتا ہے ۔ (التذکیر: ج۳، ص۵)،(امداد المشتاق، صفحہ 86، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاھور۔چشتی)،(شمائم امدادیہ، صفحہ 68، کتب خانہ اشرف الرشید شاہ کوٹ)

گنگوھی جی اور ان کے ماننے والے یہاں بھی دیکھ لیں کہ نیاز کیلئے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے شربت کا تعین کیا جبکہ گنگوھی جی اس کو بدعت کہہ رہے ہیں تو پھر بتائیں کہ آپ کے پیر صاحب پر کیا فتویٰ لگے گا ؟
اگر مولانا روم کے ایصالِ ثواب کیلئے نیاز جائز ہے تو سیدی غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے ایصالِ ثواب کیلئے بھی نیاز جائز ہے جسکو گیارھویں کا نام دیا گیا ہے ۔

ثناء ﷲ امرتسری غیر مقلد

 نذر و نیاز غیرﷲ کے لیے جائز نہیں ہے ۔ نذر ﷲ کی اور ثواب میں دوسرے کو پہنچانا جائز ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ: باب : عقائد ،ج ۱،ص۱۰۸)

گیارھویں بارھویں ایصالِ ثواب کی نیت سے دُرُست ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد 2، صفحہ 71، مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاھور)

یقین جان لے اے آلِ نجد کہ ہم غوثِ پاک کی گیارھویں اور حضور سیّدِ عالَم علیہ السلام کی بارھویں ایصالِ ثواب کی نیت سے کرتے ہیں ۔ تو تمہارے امام ثناء الله امرتسری کے فتویٰ کی رُو سے یہ جائز و دُرُست ٹھری لہذا اگر اب اس کو بدعت کہو گے تو آپ کے مناظرِ اعظم رگڑے جائیں گے کیونکہ ان کا ایک بدعت کو جائز کہنا لازم آئے گا لہذا تم بھی اپنے امام کے قول کو چُپ چاپ مان لو ۔

غیرمقلدین وھابیہ کا عظیم محدث مولوی وحید الزمان حیدر آبادی لکھتا ہے : ولایجوز الانکار علي امور مختلفة فیھا بین العلماء....کاالفاتحة المرسومة  ۔
یعنی وہ کام جو علماء میں مختلَف فیہ ہوں ان کا انکار جائز نہیں جیسے مروجہ ایصالِ ثواب ۔ (ھدیة المھدی (عربی) الجزُالاول، صفحہ 118، در مطبع میور پریس دھلی ۱۳۲۵ھ)

اگر مجھے خواتین کے پڑھنے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں آگے بھی عبارت نقل کرتا اور بتاتا کہ آگے وھابی مولوی نے کیا گُل کھلایا ہے ۔ بے شرمی کی انتہا کر دی ..... لہذا وھابیہ سمجھ گئے ہونگے کہ میرا اشارہ کس طرف ہے کیونکہ ان کے محدث کی جو کتاب ہے تو وھابیہ نے ضرور پڑھی ہو گی ۔ بہر کیف ہماری دلیل ایصالِ ثواب کی تھی سو دے دی ...... اب ذرا اس کو بدعت کہنے والے بتائیں کہ وحید الزماں پر کیا حُکمِ شرعی ہے ؟

غیرمقلدین وھابیہ کے مولوی عبد الجبار غزنوی نے کہا کہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی ایسے محدث تھے جن کو الله اے ہمکلامی کا شرف حاصل تھا ۔ (استادِ پنجاب صفحہ 122 مسلم پبلیکیشنز گوجرانوالہ،چشتی)
اب وھابیہ کے یہی کلیم الله نواب صدیق حسن خان بھوپالوی غوثِ پاک کے ختم کے متعلق لکھتے ہیں کہ : دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورۃ اخلاص گیارہ بار پھر بعد سلام کے یہ درود ایک سو گیارہ بار پڑھے " اللھم صل علي معدن الجود والکرم و علي آله محمد وبارك وسلم " پھر شیرنی پر فاتحہ شیخِ جیلانی رضی اللہ عنہ پڑھ کر تقسیم کر دے “ ۔ (کتاب الدعاء ولدواء، صفحہ 153، نعمانی کتب خانہ حق سٹریٹ اردو بازاد لاھود)

نجدیو : دیکھ لو تمہارا کلیم اللہ ختمِ غوثیہ کا کیا طریقہ بتا رہا ہے ..... کیا یہ طریقہ قرآن و سنت سے ثابت ہے ؟

کیا اس کو بھی بدعتی کہو گے ؟

الحمد للہ فقیر نے کافی شافی دلائل غوثِ پاک علیہ الرحمہ کی گیارھوں کے آَلِ نجد کے جید اکابرین علماء کی کتب سے پیش کر دیئے ہیں اگر اب بھی آلِ نجد میں نہ مانو کی گردان دھرائیں تو ان کو چاہیئے کہ مذکورہ اپنے اکابرین پر بدعتی اور جہنمی ہونے کا فتویٰ صادر کریں یا پھر گیارھویں پہ بھوکنا چھوڑ دیں .......

وہ قصّے اور ہونگے جنہیں سُن کر نیند آتی ہے
تڑپ اُٹھو گے کانپ جاؤ گے سُن کر داستاں اپنی

اللہ تعالیٰ ان کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ﷲ تعالیٰ تا حیات بزرگوں کے دامن سے وابستہ رکھے آمین ۔

( طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

دیوبندیوں کے شرکیہ عقاٸد فتوے دوسروں پر اور کرتے خود ہیں آخر یہ منافقت کیوں؟* ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=108529197836564&id=100060384526365

*دیوبندیوں  کے شرکیہ عقاٸد فتوے دوسروں پر اور کرتے خود ہیں آخر یہ منافقت کیوں؟*
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

*محترم قارٸینِ کرام :*. 

دیوبندیوں کے نزدیک 👈 *ایصال ثواب جائز*

👈 دیوبندی پیروں کے *وسیلہ سے دعا بحرمت کہہ کر کرنا جائز*
*👈 دیوبندی پیر دستگیر بھی ہیں اور مشکل کشاء بھی ۔* 

(فیوضات حسینی صفحہ نمبر 68 دیوبندی علماء)

دیوبندیوں کا اقرار ہم بزرگوں کی ارواح سے امداد کے منکر نہیں ہیں

*محترم قارئین کرام :*

ہم سوانح قاسمی کے اصل اسکینز دونوں ایڈیشن کے دے رہے ہیں جن میں ایک واقعہ بیان ہوا کہ بانی دیوبند قبر سے آ کر ایک مولوی صاحب کی مدد کرتے ہیں اس طرح دیوبندی علماء اپنے خود ساختہ شرک کے فتوؤں میں جب پھنس گئے تو اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے خود ہی اقرار کر لیا کہ ہم بزرگوں کی قبروں اور ان کی ارواح سے مدد کے منکر نہیں ہیں بلکہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور ہم اسے مانتے ہیں ہم پر انکار کا الزام لگانے والے جاہل ہیں پہلے یہ پڑھیئے :

*دیوبندی عالم جناب مناظر احسن گیلانی اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے لکھتے ہیں مجبورا :*
پس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں ہمارا بھی ارواح صالحین سے مدد کے متعلق وہی عقیدہ ہے جو اہلسنت وجماعت کا ہے اور یہ سب قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔
(حاشیہ سوانح قاسمی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 332 قدیم ایڈیشن و صفحہ نمبر 211 جدید ایڈیشن مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)

اب ہمارا سوال موجودہ وہابیت کی راہ پر چل کر مسلمانانِ اہلسنت پر یہی عقیدہ و نظریہ رکھنے کی وجہ سے شرک کے فتوے لگانے والے دیوبندی جواب دیں بانی دیوبند ، شیخ الہند دیوبند اور مناظر احسن گیلانی صاحبان مشرک ہوئے کہ نہیں ؟

اور وہ لکھ رہے ہیں ارواح صالحین سے مدد کے انکار کا ہم پر الزام لگانے والے جاہل ہیں اور بہتان لگانے والے ہیں اب بتایئے آپ لوگ بہتان تراش اور جاہل ہیں کہ نہیں جو ارواح صالحین علیہم الرّحمہ سے امداد کے منکر بن کر اسے دیوبند کی طرف منسوب کرتے ہیں ؟

*قطب العالم دیوبند غوث اعظم ہے (سب سے بڑا فریاد رس) قطب العام دیوبند نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ثانی ہے*
( مرثیہ گنگوہی صفحہ 4 از قلم شیخ الہند دیوبند محمود حسن )

دیوبندیوں کا سب سے بڑا مددگار غوث اعظم گنگوہی ہے،بانی اسلام کا ثانی گنگوہی ہے، اللہ کا فیض تقسیم کرنے والا،ابر رحمت،اللہ کا سایہ،قطب ہے گنگوہی،
*( مرثیہ گنگوہی صفحہ نمبر 4 )*

اے مسلمانو
دیوبندیوں نے اپنے گنگوہی کو پیغمبر اسلام رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا ثانی قرار دیا ھے سوال ھے آپ کی غیرت ایمانی سے کیا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی نہیں ہے فرقہ واریت ست ھٹ کر ایک مسلمان کی حیثیت سے جواب دیجیئے ؟
اور یہ گنگوہی کو اللہ کا فیض تقسیم کرنے والا ، غوث اعظم ، اللہ کا سایہ اور اللہ کی رحمت کہیں تو کوئی شرک نہیں اور مسلمانان اہلسنت پر شرک کے فتوے کیوں جناب عالی کیوں ؟

*دیوبندیوں کا حاجت روا مشکل کشاء :*
اب ہم اپنی دین و دنیا کی حاجتیں کہاں لے جائیں وہ ہمارا قبلہ حاجات  روحانی و جسمانی  گیا۔
*(مرثیہ گنگوہی صفحہ 7 شیخ الہند دیوبند محمود حسن)*

دیوبندیوں کا قطب العالم ، غوث زماں گنج عرفاں دستگیر بیکساں مولوی رشید احمد گنگوہی ہے ۔ +
*(تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ 136۔چشتی)*

ہم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی اپنے گنگوہی کو غوث الاعظم لکھیں تو جائز۔ 
*(تذکرۃ الرشید جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 2)*

دیوبندیوں کا مشکل کشاء حاجت روا رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں گنگوہی صاحب کا ایسا مرتبہ تھا کہ گنگوہی کے نام کے وسیلے سے حاجتیں پوری ہوتی تھیں ۔ 
*(تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ297۔چشتی)*

دیوبندیوں کا غوث (یعنی فریاسننے والا) رشید احمد گنگوہی ہے جس کے وسیلے سے ہزاروں لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں
*(تذکرۃُ الرّشید جلد دوم صفحہ نمبر 305)*

دیوبندیوں کا سب سے بڑا فریاد رس غوثُ الاعظم رشید احمد گنگوہی ہے

*عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی لکھتا ہے :*
 رشید احمد گنگوہی قُطبُ العالم اور غوثُ الاعظم ہیں
*(تذ کرۃُ الرّشید جلد اوّل قدیم ایڈیشن صفحہ نمبر 2)*

کوئی دیوبندی قطب العالم اور غوثُ الاعظم کے معنیٰ بتائے گا ؟

*مسلمانانِ اہلسنّت حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوثُ الاعظم کہیں تو شرک کے فتوے* اور تم اپنے مولوی کو غوثُ الاعظم کہو لکھو تو عین توحید اور ایمان ہو جائے کیوں جناب من یہاں شرک کے فتویٰ کہاں گیا ؟

یا مان لو کہ مسلمانانِ اہلسنت کے عقائد و نظریات حق ہیں یا اپنے مولویوں پر فتویٰ لگاؤ شرک ؟

اپنے لیئے شریعت اور دوسروں کےلیئے اور یہ دہرا معیار چھوڑ کر فتنہ فساد اور تفرقہ پھیلانا چھوڑ دو ۔

دیوبندیوں کا مولوی مظہرِ نورِ ذاتِ خدا ، رنج و غم ٹالنے والا اور چارہ ساز بھی ہے جو اٹھ گیا اب کون رنج و غم مٹائے گا اور چارہ سازی کرے گا چارہ ساز جو اٹھ گیا
*(مرثیہ شیخ مدنی صفحہ 24 مطبوعہ راشد کمپنی دیوبند یوپی)*

یہی الفاظ مسلمانانِ اہلسنّت کہیں تو شرک مگریہاں جائز ؟

*گنج بخش فیض عالم مظہرِ نورِ خدا پر شرک کے فتوے لگانے والے دیوبندی مفتیو اب لگاؤ نا یہاں شرک کے فتوے ؟*

جس نے اللہ کا دیدار کرنا ہو وہ دیوبندیوں کے مولوی کی قبر کی زیارت کرے

دیوبندیوں کے مولوی کی قبر کو دیکھنا اللہ کو دیکھنا ہے ، انوار و برکات ہیں ، دیوبندی مولوی دیوبندیوں کا مولا ہے ، دیوبندی مردہ مولوی کی قبر کی زیارت سے اسرار عیاں ہوتے ہیں ۔ دیوبندی مولوی کی قبر کی زیارت سے دیدار رب العالمین ہوگا ، قبر کو اونچا کرنا چاہا تو قبر والے دیوبندی مولوی کو علم ہو گیا کہا نہ کرو خلافِ سنت ہے  اور دیوبندی مولوی کا لوہاری عورت سے عشق ۔
*(تاریخ مشائخ چشت صفحہ  235 ، 236 علامہ محمد زکریا کاندھلویدیوبندی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)*

دیوبندیوں کا مولوی جانتا ہے کون حلال خرید کر لایا ہے اور کون حرام حلال کے پیسوں کے سیب الگ  کردیئے اور حرام کے پیسوں کے الگ کر دیئے ۔ 
*(خوشبو والا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ نمبر 87 ، 88۔چشتی)*

یہاں شرک نہیں ہوا جناب ؟

اگر یہی الفاظ مسلمانانِ اہلسنت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کےلیئے استعمال کرتے ہیں تو شرک کے فتوے مگر اہنے مردہ مٹی میں مل جانے اور گل سڑ جانے والے مولوی کےلیئے یہ سب کچھ جائز ہے آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے ؟
اور اب تک کسی دیوبندی عالم اور پر جوش موحد نے اس کتاب پر اور لکھنے والے پر نہ کوئی فتویٰ لگایا اور نہ ہی رد لکھا آخر یہ دہرا معیار کیوں جناب اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر وہی افعال خود اپنا کر منافقت دیکھا کر تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے آخر کیوں ؟
اصل اسکن پیش خدمت ہیں فیصلہ اہل ایمان خود کریں مسلمانان اہلسنت یہ نظریات رکھیں اور کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی خود سب کچھ کریں تو جائز آخر یہ دہرا معیار و منافقت اپنا کر امت مسلمہ میں تفرقہ و انتشارکیوں پھیلایاجاتا ہے ؟ ۔ 

(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

قرون ثلاثہ میں بخاری نہ تھی مگر ختم جائز*

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2528986484058713&id=100008421589218

*قرون ثلاثہ میں بخاری نہ تھی مگر ختم جائز*

*دیوبندیوں کے رشید احمد گنگوھی سے ایک فتویٰ پوچھا گیا وہ فتویٰ سوال مع جواب ملاحظہ ہو:*

*”سوال :*
 کسی مصیبت کے وقت بخاری شریف کا ختم کرانا قرونِ ثلاثہ سے ثابت ہے یا نہیں اور بدعت ہے یا نہیں؟

*جواب :*
قرونِ ثلاثہ (حضور ﷺ صحابہ اور تابعین کے زمانے) میں بخاری تالیف نہیں ہوئی تھی مگر اسکا ختم درست ہے کہ ذکرِ خیر کے بعد دعا قبول ہوتی ہے *اس کا اصل شرع سے ثابت ہے بدعت نہیں۔“*
[فتاویٰ رشدیہ، کتاب العلم، صفحہ 190، ناشر دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ]

*تو پتہ چلا کہ جو اچھا و نیک کام حضور ﷺ یا صحابہ کرام یا تابعین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اجمعین سے ثابت نہ بھی ہو تو بھی جائز ہے۔*
تو پھر یہ کہنا کہ *میلاد منانا و جھنڈیاں لگانا* نبی کریم ﷺ سے ثابت کرو صحابہ سے ثابت کرو ، یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
*جو کام دیوبندی اکابرین کریں ، وہ ثابت نہ بھی ہوں تو جائز ، اور جو کام اھلسنت کریں انکی اصل شریعت میں موجود بھی ہو تو بدعت؟*

*اب جس دلیل سے ختمِ بخاری ثابت ہے*
👈 اسی دلیل سے ختمِ غوثیہ ثابت ہے اسی دلیل سے قل شریف ، دسواں ، چالیسوں، برسی ، ختمِ گیارھویں وغیرہ ایصال ثواب اور میلاد کی خوشی منانا میلاد ثابت ہے۔
جب ہماری باری آئے تو تمہارا اصول جواز سے بدل کر بدعت میں تبدیل ہو جائے۔

*خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد*
*جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے*

اللہ کریم ﷻ عقلِ سلیم عطا فرمائے آمین

مدینے  پاک  کا  بھکاری
محمداویس رضاعطاری

پچھلی پوسٹ 👇👇👇👇👇
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2528770494080312&id=100008421589218
مکمل تحریر >>

مسئلہ ایصال ثواب قرآن و حدیث اور دیگر مستند دلائل کی روشنی میں

https://www.facebook.com/752625121494915/posts/3387832367974164/

مسئلہ ایصال ثواب قرآن و حدیث اور دیگر مستند دلائل کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : زندوں کی عبادت ( بدنی و مالی) کا ثواب دوسرے مسلمان کو بخشنا جائز ہے جا کا ثبوت قرآن و حدیث اور اقوال فقہاء سے ثابت ہے۔ ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قرآن و حدیث پر ایمان و عمل ہے اور پھر معتزلہ کی طرح ایصال ثواب کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی اور ان دلائل پر غور کرنا چاہیئے ، میں بڑی محنت شاقہ سے کتاب میں حوالہ جات نقل کر دیئے ہیں انہیں پڑھنا ان پر غور کرنا اور پھر انصاف کرنا آپ کا کام ہے ۔ بقول انوار عزمی۔

کوئی منصف ہو تو انصاف کا چہرہ دمکے۔کوئی عادل ہو تو زنجیر ہلائی جائے
اگر آپ تعصب ، بغض ، حسد اور میں نہ مانوں کی عینک اتار کریہ مضمون مکمل پڑھیں گے تو ان شاء اللہ ضرور فائدہ ہوگا۔
والذین جآءوا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا الاخواننا الذین سبقونا بالایمان ط “
وہ جو ان کے بعد آئے وہ یوں دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے با ایمان گزر چکے ہیں ۔“
دنیا سے پردہ کرنے والوں کے حق میں زندوں کی دعا کا یہ کتنا واضح ثبوت ہے اور بھی کئی آیات ہیں مگر اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ۔ حدیث پاک میں آتا ہے :
الدعاء مخ العبادۃ ۔“ دعا عبادت کا مغز ہے۔“ایک اور جگہ ہے۔
الدعاء ھو العبادۃ
“ دعا عبادت ہے۔“
ثابت ہوا زندوں کی عببادت دنیا سے جانے والوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ حضرت امام جلالالدین سیوطی رحتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
وقد نقل غیر واحدالاجماع علی ان الدعاء ینفع المیت و دلیلہ من القرآن قولہ تعالٰٰی والذین جاءوا ۔ ( الی الاخر)
“ اور اس امر پر بہت سے علماء نے اجماع نقل کیا ہے کہ بے شک دعا میت کو نفع دیتی ہے
 اور اس کی دلیل قرآن شریف میں اللہ تعالٰٰی کا یہ قول ہے ۔ (مذکورہ آیت کریمہ والذین جاءوا) ( شرح الصدور ، ص 127۔چشتی)
شرح عقائد نسفی میں ہے :وفی دعاء الاحیاء للاموات او صدقتھم عنھم نفع لھم خلافا للمعتزلۃ۔
“ زندوں کی دعا اور صدقے سے مردوں کو نفع پہنچتا ہے۔ معتزلہ اس کے خلاف ہیں ۔“
 ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ۔ ( مسلم شریف)
“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مرنے والے کی ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ ایک عورت نے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی مگر اس کا انتقال ہو گیا کیا میں اس کی طرف سے حج کرکے اس کی نذر پوری کر سکتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قال حجی عنہا۔ ( بخاری)
“ تم اس کی طرف سے حج کرو ۔“
فتاوٰی عزیزی میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
آرے زیارت و تبرک بقبور صالحین و امداد ایشاں بایصال ثواب و تلاوت قرآن ودعائے خیر و تقسیم طعام و شرینی امر مستحسن و خوب است۔
“ ہاں صالحین کی قبروں کی زیارت کرنا اور ان کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا اور ایصال چواب تلاوت قرآن دعائے خیف تقسیم طعام و شیرینی سے ان کی مدد کرنا بہت ہی خوب اور بہتر ہے
اور اس پر علمائے امت کا اجماع ہے۔‘ اور دیکھئے:
ما من رجل مسلم یموت فیقوم علی جنازتہ اربعون رجلالا تشرکون بااللہ شیئا الا شقعھم اللہ فیہ۔ ( ابو داؤد)
“ اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ پر 40 آدمی ایسے کھڑے ہو جائیں جنہوں نے کبھی کسی کو اللہ تعالٰی کا شریک نہ ٹھرایا ہو تو ان کی شفاعت میت کے حق میں اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے۔ یعنی بخش دیتا ہے۔“
بخاری، مسلم اور مشکوٰۃ میں ہے:
“ دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگواہ کر آدھی ایک قبر پر اور آدھی دوسری قبر پر رکھ دی اور فرمایا جب تک یہ چاخیں ہری رہیں گی قبر والوں کے عذاب میں تحفیف رہے گی۔“
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد آپ نے تکبیر و تسبیح پڑھنی شروع کردی ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے تکبیر و تسبیح پڑھنے کے بابت پوچھا تو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
قال لقد تضایق علٰی ھذا العبد الصالح قبرہ حتٰی فرجہ اللہ عنہ ۔(مشکوۃ)
“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اس نیک آدمی پر قبر تنگ ہو گئی تھی یہاں تک کہ اب اللہ تعالٰی نے اس کی قبر کو فراغ کر دیا ہے۔“
فائدہ!
معلوم ہوا کہ زندوں کی عبادت سے اہل قبور کو فائدہ پہنچتاہے اور دفن کے بعد قبر کے پاس تسبیح وغیرہ (کلام پاک) پڑھنا جائز ہے ۔ میت پر تین دن خاص کر سوگ کیا جاتا ہے ۔ بزرگوں نے فرمایا تین دن سوگ کیا ہے ۔ اب اٹھنے سے پہلے گھر کے چند افراد مل کر کچھ پڑھو کچھ صدقی کرو اوع اس کا ثواب میت کی روح کو پٔہنچا کراٹھو ۔ اس کا نام سوئم یا تیجہ ہو گیا ۔ ثبوت ملاحظہ فرمائیں۔

شاہ عبد العزیز محدث دہلویملفوظات عزیزی ، ص 55 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تیجہ کے متعلق فرماتے ہیں۔ روز سوئم کثرت ہجوم مردم آں قدر بود “ کہ تیسرے دن لوگوں کے بیرون از حساب است بہشتاد ویک کا ہجوم اسقدر تھا کلام بشمار آمدہو زیادہ بہم شدہ یا شد کہ شمار سے باہر ہے ۔ وکلمہ سا حضر نیست اکیاسی کلام اللہ ختم ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوئے ہوں گے اور کلمہ طیبیہ کا تو ابدازہ ہی نہیں۔“
     
حضرت سعید بن منذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر استطاعت ہوتو تین دن میں قرآن ختم کرو۔ (جامع صغیر)
     
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن ہر مہینے ختم کرو ۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن میں ختم کرو۔ ( بخاری جلد اول)
     
    حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو جب حد زنا لگنے سے سنگسار کر دیا تو بعد از دفن جب دو دن یا تین گزر گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے جہاں صحابہ کرام بیٹھے تھے پس سلام کیا آپ نے اور بیٹھ گئے اور صحابہ کرام کو فرمایا کہ ماز بن مالک کی بخشش کی دعا کرو تو صحابہ کرام نے ماز بن مالک رضی اللہ عنہ کی مغفرت کی دعا مانگی۔ ( مسلم، جلد دوم) بفضلہ تعالٰی اہل سنت و جماعت کا یہی معمول ہے۔

ساتواں :حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ بے شک مردے سات دن تک اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں تو صحابہ کرام سات روز تک ان کی جانب سے کھانا کھلانا مستحب سمجھتے تھے۔ ( شرح الصدور ابو نعیم فی الحلیہ) چناچہ شیخ المحدثین حجرت شاہ عند الحق محدچ دہلوی نے فرمایا وتصدیق کردہ شود از میت بعد رفتن اواز عالم تا ھفت روز۔ ( اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ) “ اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہیئے۔“

دسواں:فرمایا دس دنوں میں قرآن ختم کرو۔ ( بخاری شریف، جلد اول)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے فرمایا دس دنوں میں۔ ( ابو داؤد مترجم جلد اول) لہذا قرآن پڑھ کر میت کو بخشنے میں کوئی حرج نہیں!

چہلم:دن مقرر ہونے کی وجہ سے احباب اکٹھے ہو کر میت کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں ۔ ایک حکمے یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کے لئے تین دن سوگ ہے۔ مگر عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ چالیس روز تک سوگ کرے ۔ ہر عورت کے رشتہ دار اور اولاد وغیرہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں آخری دن کچھ پڑھ کر فاتحہ دلا کر اٹھتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
چالیس کا قرآن سے ثبوت:
واذ وعدنا موسٰی اربعین لیلۃ۔ ( سورہ بقرہ۔ آیت 50)
“ اور جب ہم نے وعدہ دیا موسٰی کو چالیس رات کا“
 اقراء القرآن فی اربعین۔ ( ترمذی شریف)
“ قرآن مجید چالیس دنوں میں پڑھا کرو۔“
بزرگان دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس دن تک اپنے گھر اور مقامات سے‌کاص تعلق رہتا ہے ۔ جو بعد میں نہیں رہتا۔ چناچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مؤمن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ خدا تعالٰی کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے کہ ان کے عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے ان کی روزی اترتی تھی روتے رہتے ہیں۔ (شرح الصدور ، ص 24)
اسی لئے بزرگان دین نے چالیسویں روز بھی ایصال ثواب کیا کہ اب چونکہ وہ خاص تعلق منقطع ہو جائے گا لہذا ہماری طرف سے روح کو کوئی ثواب پہنچ جائے تاکہ وہ خوش ہو جائیں اور ان سب کی اصل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سید الشھداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے لئے تیسرے، دسویں، چالسویں دن اور چھٹے مہینے اور سال کے بعد صدقہ دیا۔ ( کذا فی الانوار ساطقہ مغریا الی مجموعۃ الرویات حاشیہ خزانتہ الرویات)
چہلم کا ایک اور حوالہ
وقیل الٰی اربعین فان المیت یشوق الٰی بیتہ۔
“ اور فرمایا صدقہ دینا چالیس دن پس میت شوق رکھتی ہے ان دنوں اپنے گھر کا۔ (شرح برزخ فیض الاسلام 5، ص 34، کتاب الوجیز، ص 64۔چشتی)
عرس۔ ۔۔۔ ( برسی)
حضرت یحیٰی علیہ السلام کے لئے ارشاد باری تعالٰی :
وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا ہ ( سورہ مریم: آیت 15)
“ اور سلامتی ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوگا۔“
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں:
والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا ہ ( سورہ مریم: آیت 33)
“ اور سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن اٹھوں گا، زندہ ہوکر۔“
تفسیر ابن جریر طبری) دیکھئے: حدیث بیان کی مثنٰی نے سوید سے کیا خبر دی ابن مبارک نے ابراہیم بن محمد سے انہوں نے سہیل بن ابھی صالح نے انہوں نے محمد ابراہیم سے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جاتے شہدائ کی قبروں پر ہر سال پھر فرماتے: سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار۔ اور سیدنا صدیق اکبر اور فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنھم اجمعین بھی اپنے زمانے میں ہر سال قبور شہداء پر جایا کرتے تھے ۔ (تفسیر ابن جریر مطبوعہ مصر، جلد 13۔چشتی)
     
اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ آپ ہر سال شہداء کی قبور پر تشریف لے جاتے اور فرماتے سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار اور اسی طرح چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اسی پر عمل پیرا رہے۔ (تفسیر کبیر مطبوعہ مصر، جلد 5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ تشریف لے جاتے ہر شروع سال مین قبور شہداء پر پس فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار۔(تفسیر کشاف طبوعہ بیرون لبنان، جلد دوم) تفسیر کشاف کے حوالے کے بعد تو مخالفین کے انکار کی گنجائش نہیں رہنی چاہیئے۔
مخالفین کے ایک بڑے کا ایک حوالہ اور۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شھدائے احد کی قبروں پر تشریف لے جاتے پھر فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ۔ (البدایہ و النہایہ مطبوعہ مصر، جلد سوم) سرور کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر سال شہدائے احد کی قبور پر تشریف لے جاتے پھر چاروں خلفاء کا اپنے اپنے زمانہ میں اس سنت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا رہنا عرائس بزرگان دین کیلئے اتنی زبردست دلیل ہے جس کا رد نا ممکن ہے۔ 
فاطمہ خزائیہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور آفتاب قبور شہداء پر غروب ہو چکا تھا اور میرے ساتھ میری بہن تھی۔ میں نے اس سے کہا آؤ قبر حمزہ رضی اللہ عنہ پر سلام کریں ۔ اس نے کہا ہاں پھر ہم ان کی قبر پر ٹھرے ۔ ہم نے کہا ۔ السلام علیک یا عم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے ایک کلام سنا کہ ہم پر رد کیا گیا ( یعنی لوٹایا گیا) وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ کہا کہ ہمارے قریب کوئی آدمی نہ تھا۔ ( اخرج البیہیقی) ( طی الفراسخ الٰی منازل البرازخ مطبوعہ آگرہ 1306 ھ۔چشتی)(سید ذوالفقار احمد وہابی تلمیذ سدیق حسن بھو پالی) دیوبندی حضرات اور اہل حدیث حضرات مذکورہ حوالہ جات پر ضرور غور فرمائیں ۔ اور ہمارے ساتھ مل کر دنیا سے کوچ کر جانے والوں کے لئے ایصال ثواب کرکے ان کی مدد کریں۔
ایصال ثواب کے متعلق ضروری وضاحت
ایصال ثواب کے عمل میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں کرنی چھاہیئے۔ اگر ایصال ثواب کا مقصد نمود و نمائش ہے تو اس کا ثواب حاصل نہ ہوگا ۔ اور ایسا دکھاوے کا عمل حرام اور گناہ ہے ۔ عام طور پر بہت سے لوگ قرض لیکر میت کے لئے ایصا ل ثواب کرتے ہیں۔ اور عام لوگوں کو دعوتیں دیتے ہیں ۔ شریعت میں ایسی دعوتوں کی اجازت نہیں ۔ میت کے ایصال ثواب کے لئے جو کھانا ہے وہ حسب استطاعت ہو اور اسے مستحق اور غریبوں لوگوں کو کھلایا جائے۔ ( صاحبان حیثیت حضرات کو اس کھانے سے اجتناب کرنا چاھیئے۔) اسی طرح بعض گھروں میں ایصال ثواب کے موقع پر دس بیبیوں کی کہانی، شہزادے کا سر، داستان عجیب اور جناب سیدہ کی کہانی وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں اسی طرح ایک پمفلٹ : وصیت نامہ“ جس میں “ شیخ احمد“ کا خواب درج ہے۔ اسے بھی علمائے کرام نے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ ان چیزوں سے بچیں۔ مزید تفصیل کے لئے ممتاز اسلامی اسکالر جناب ڈاکٹر نور احمد شاہتاز صاحب کی کتاب کڑوی روٹی کا مطالعہ فرمائیں ۔
نوٹ : بزرگان دین کی فاتحہ وغیرہ کا کھانا اور چیزہے یہ تبرک ہے اور اسے امیر لوگ بھی کھا سکتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رھمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ واگر فاتحہ بنام بزرگے دادہ شود اغنیا را ہم خور دن جائز است۔ (ربدۃ النصائح،ص 132)
ترجمہ : اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جائے تو مالداروں کو بھی کھانا جائز ہے ۔

(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

اولیاء کرام کا سالانہ ﻋﺮﺱ ﺑﺰﺭﮔﺎﻥ ﺩﯾﻦ ، ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭﯾﮟ ﭼﮍﮬﺎﻧﺎ ، ﭼﺮﺍﻏﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﻣﻨﺎ جشن عید میلاد النبی*

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1067647163664201&id=344353075993617

*اولیاء کرام کا سالانہ ﻋﺮﺱ ﺑﺰﺭﮔﺎﻥ ﺩﯾﻦ ، ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭﯾﮟ ﭼﮍﮬﺎﻧﺎ ، ﭼﺮﺍﻏﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﻣﻨﺎ جشن عید میلاد النبی*

اولیاء اللہ کا سالانہ عرس و ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﻣﻘﺪﺳﮧ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭﯾﮟ ﭼﮍﮬﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﻨﺎ ﺷﺮﮎ ﻧﮩﯿﮟ ھے۔

*ﺁﺝ ﮐﻞ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﺭ نجدی وہابی دیوبندی خوارج ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻏﻠﻂ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔*
 
ﺁﺋﯿﮯ ﻗﺮﺍﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺘﻨﺪ ﺩﻻﺋﻞ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ *ﺍﻥ ﮔﻤﺮﮦ ﮐﻦ ﭘﺮﻭﭘﯿﮕﻨﮉﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﭘﮍﮬﯿﺌﮯ*

ﺑَﺎﺏُ ﺍﻟﺼَّﻠٰﻮﺓِ ﻋَﻠَﯽ ﺍﻟﺸَّﻬِﻴْﺪِ
ﻋَﻦْ ﻋُﻘْﺒَﺔَ ﺑْﻦِ ﻋَﺎﻣِﺮٍ ﺍَﻥَّ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲَ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺧَﺮَﺝَ ﻳَﻮْﻣًﺎ ﻓَﺼَﻠّٰﯽ ﻋَﻠٰﯽ ﺍَﻫْﻞِ ﺍُﺣُﺪٍ ﺻَﻠَﺎﺗَﻪُ ﻋَﻠَﯽ ﺍﻟْﻤَﻴِّﺖِ ﺛُﻢَّ ﺍﻧْﺼَﺮَﻑَ ﺍِﻟَﯽ ﺍﻟْﻤِﻨْﺒَﺮِ ﻓَﻘَﺎﻝَ ﺍِﻧِّﻲْ ﻓَﺮَﻁٌ ﻟَّﮑُﻢْ ﻭَﺍَﻧَﺎ ﺷَﻬِﻴْﺪٌ ﻋَﻠَﻴْﮑُﻢْ ﻭَﺍِﻧِّﻲْ ﻭَﺍﻟﻠّٰﻪِ ﻟَﺎَﻧْﻈُﺮُ ﺍِﻟٰﯽ ﺣَﻮْﺿِﯽ ﺍﻟْﺎٰﻥَ ﻭَﺍِﻧِّﻲْ ﺍُﻋْﻄِﻴْﺖُ ﻣَﻔَﺎﺗِﻴْﺢَ ﺧَﺰَﺍﺀِﻥِ ﺍﻟْﺎَﺭْﺽِ ﺍَﻭْ ﻣَﻔَﺎﺗِﻴْﺢَ ﺍﻟْﺎَﺭْﺽِ ﻭَﺍِﻧِّﻲْ ﻭَﺍﻟﻠّٰﻪِ ﻣَﺎ ﺍَﺧَﺎﻑُ ﻋَﻠَﻴْﮑُﻢْ ﺍَﻥْ ﺗُﺸْﺮِﮐُﻮﺍ ﺑَﻌْﺪِﻱْ ﻭَﻟٰﮑِﻦْ ﺍَﺧَﺎﻑُ ﻋَﻠَﻴْﮑُﻢْ ﺍَﻥْ ﺗَﻨَﺎﻓَﺴُﻮْﺍ ﻓِﻴْﻬَﺎ .

*’’ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻘﺒﮧ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺭﺿﯽ ﷲ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺪ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﯿﺖ ﭘﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﻣﻨﺒﺮ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻭﺍﭘﺲ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ‏( ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺒﺮ ﭘﺮ ﺟﻠﻮﮦ ﺍﻓﺮﻭﺯ ﮨﻮﮐﺮ ‏) ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ‏( ﻓﺮﻁ ‏) ﻣﻘﺪﻡ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻮﺽ ﮐﻮ ﺍﺏ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻨﺠﯿﺎﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﮐﻨﺠﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺷﮏ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺷﺮﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺧﻮﻑ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﻏﺒﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ ‘‘ ۔*
(ﺑﺨﺎﺭﯼ، ﺍﻟﺼﺤﯿﺢ، 451 : 1 ، ﺍﻟﺮﻗﻢ، ﺩﺍﺭ ﺍﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ ﺍﻟﯿﻤﺎﻣۃ ﺑﯿﺮﻭﺕ📚) 

*ﺯﯾﺎﺭﺕِ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕِ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﻭ ﺷﮩﺪﺍﺀ ﺍﻭﺭ ﻋﺮس*

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻘﺒﮧ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﷲ ﻋﻨﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻭﺻﺎﻝ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺪ ﮐﮯ ﺷﮩﺪﺍﺀ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﮔﺌﮯ۔
 ﺷﺎﺭﺣﯿﻦ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﮯ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺘﺤﻘﯿﻖ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻭﺻﺎﻝ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ، ﭼﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺁﮔﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﻨﺒﺮ ﭘﺮ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ۔
*ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﺤﺪﺛﯿﻦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺟﺐ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺷﮩﺪﺍﺋﮯ ﺍﺣﺪ ﮐﻮ ﺁﭨﮫ ﺳﺎﻝ گزر ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔*
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺟﺘﻤﺎﻉ ﺷﮩﺪﺍﺋﮯ ﺍﺣﺪ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﯿﺎ۔
*ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺟﺘﻤﺎﻋﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺎ ﺳﻨﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﮯ۔*

ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺗﮭﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﯿﺎ۔
*ﮔﻮﯾﺎ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺎ ﺍﺟﺘﻤﺎﻉ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﺰﺍﺭ ﻭﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺍﺭ ﺷﮩﯿﺪ ﭘﺮ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﺟﺘﻤﺎﻉ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺳﻨﺖ ھے ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﮐﻮ ﻋﺮﺱ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔* 
ﮔﻮﯾﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺷﮩﺪﺍﺋﮯ ﺍﺣﺪ ﮐﺎ ﻋﺮﺱ ﻣﻨﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔

*ﺳﻮﺍﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻋﺮﺱ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ؟*

ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﺍﮔﻼ ﺣﺼﮧ ﺍﺱ ﺍﻣﺮ ﮐﻮ ﻭﺍﺿﺢ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﻟﯽ ﯾﺎ ﺩﻋﺎ ﻓﺮﻣﺎ ﻟﯽ  
( ﺷﺎﺭﺣﯿﻦ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﻌﻨﯽٰ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ‏)
ﺛُﻢَّ ﺍﻧْﺼَﺮَﻑَ ﺍِﻟﻲَ ﺍﻟْﻤِﻨْﺒَﺮ
*’’ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻨﺒﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺒﺮ ﭘﺮ ﻗﯿﺎﻡ ﻓﺮﻣﺎﮐﺮ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﯿﺎ ‘‘ ۔*
ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻣﻨﺒﺮ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮐﺮ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﯿﺎ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﮭﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﮔﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﮐﻢ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﻣﻨﺒﺮ ﭘﺮ ﻗﯿﺎﻡ ﻓﺮﻣﺎ ﮐﺮ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻭ ﺣﺎﺟﺖ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ۔ 
ﺍﺱ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﯽ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﺷﮩﺪﺍﺋﮯ ﺍﺣﺪ ﭘﺮ ﺁﺋﮯ۔ ﺷﮩﺪﺍﺋﮯ ﺍﺣﺪ ﮐﯽ ﻗﺒﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺒﺮ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻨﺒﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﯾﺎ ﻣﻨﮕﻮﺍﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﮔﻮﯾﺎ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﮧ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺻﺮﻑ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺧﻄﺎﺏ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﺎ۔
*ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﺟﺐ ﻣﺰﺍﺭ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮨﻮ، ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﺟﺘﻤﺎﻉ ﮨﻮ، ﻣﻨﺒﺮ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺒﺮ ﭘﺮ ﺧﻄﺎﺏ ﮨﻮ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺟﺰﺍﺀ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺳﯽ ﮐﻮ ﻋﺮﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔*

👈 ﻟﮩٰﺬﺍ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻭﻓﺎﺕ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺁﺩﺍﺏ ﺳﮑﮭﺎ ﺩﯾﺌﮯ ﮐﮧ ﺷﮩﺪﺍﺀ، ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ، ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﺟﺎﻧﺎ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﺟﺘﻤﺎﻋﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﺮﻧﺎ، ﺧﻄﺎﺏ ﮐﺮﻧﺎ، ﺫﮐﺮ ﻭ ﺗﺬﮐﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﻭﻋﻆ ﻭ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﻨﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﮯ۔
*ﺍﺱ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﺧﻄﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻀﺎﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺎﻗﺐ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺌﮯ۔*
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺧﻄﺎﺏ ﺷﺎﻥ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﺮ ﺗﮭﺎ۔
 ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
*ﻟﻮﮔﻮ ! ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﺎﮐﮧ ﺁﮔﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﺨﺸﺶ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﺮﻭﮞ، ﻣﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ۔*
ﺍِﻧِّﻲْ ﻓَﺮَﻁٌ ﻟَﮑُﻢْ ﻭَﻓِﻲْ ﺭَﻭﺍﻳَﺔ ﻗَﺎﻝَ ﺣَﻴَﺎﺗِﻲْ ﺧَﻴْﺮُﻟَّﮑُﻢْ ﻭَﻣَﻤَﺎﺗِﻲْ ﺧَﻴْﺮٌﻟَّﮑُﻢْ .
*’’ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺧﺎﻃﺮ ﺁﮔﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻭﺻﺎﻝ ‏( ﺑﮭﯽ ‏) ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ‘‘*
ﯾﻌﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻓﯿﺾ ﺩﯾﺘﺎ ﺭﮨﺎ، ﺍﺏ ﺁﮔﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ، ﻭﻓﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﻓﯿﺾ ﮨﻮﮔﯽ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺨﺸﻮﺍﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔
ﺭﺑﻂ ﺑﯿﻦ ﺍﻻﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﯿﮟ۔
ﭘﮩﻼ ﺟﺰ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍِﻧِّﻲْ ﻓَﺮَﻁٌ ﻟَّﮑُﻢْ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺻﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭ ﺍﻣﺖ ﮐﯽ ﺷﻔﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺷﻔﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ 
*ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ*
ﻭَﺍَﻧَﺎ ﺷَﻬِﻴْﺪٌ ﻋَﻠَﻴْﮑُﻢْ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮﮔﯿﺎ، ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﮔﻮﺍﮦ ﺍﻭﺭ ﻧﮕﮩﺒﺎﻥ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﻓَﺮَﻁٌ ﻟَّﮑُﻢْ ﺍﻭﺭ ﺷَﻬِﻴْﺪٌ ﻋَﻠَﻴْﮑُﻢْ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﻨﻮﯼ ﺭﺑﻂ ﮨﮯ۔ 
ﻓَﺮَﻁٌ ﻟَّﮑُﻢْ ﻭﺻﺎﻝ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺷَﻬِﻴْﺪٌ ﻋَﻠَﻴْﮑُﻢْ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻧﮕﮩﺒﺎﻥ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ، *ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺩ ﻭ ﺳﻼﻡ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﭘﯿﺶ ﮨﻮﺗﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﯿﮏ ﻭ ﺑﺪ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ ﻭ ﻏﻤﺰﺩﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﺎﺧﺒﺮ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ۔*
ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﻭَﺍِﻧِّﻲْ ﻭَﺍﻟﻠّٰﻪِ ﻟَﺎَﻧْﻈُﺮُ ﺍِﻟٰﯽ ﺣَﻮْﺿِﯽ ﺍَﻟْﺎٰﻥ . 
ﺍﺱ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺟﻤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﺨﺒﺮﯼ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺣﻮﺽ، ﺣﻮﺽ ﮐﻮﺛﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﺣﻮﺽ ﮐﻮﺛﺮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔
ﯾﮧ ﺣﻮﺽ، ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻇﮩﻮﺭ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﻏﯿﺒﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ۔
ﻣﮕﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﯽ ﺳﺮﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮐﺮ ﺍﺳﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﺍﺱ ﺣﻮﺽ ﮐﻮﺛﺮ ﮐﺎ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺟﻮ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ۔ ﮔﻮﯾﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮐﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺟﻨﺖ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺩﻥ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﺱ ﺩﻥ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﻭَﺍِﻧِّﻲْ ﺍُﻋْﻄِﻴْﺖُ ﻣَﻔَﺎﺗِﻴْﺢَ ﺧَﺰَﺍﺋِﻦ ﺍﻟْﺎَﺭْﺽ ﺍَﻭْ ﻣَﻔَﺎﺗِﻴْﺢَ ﺍﻟْﺎَﺭْﺽِ .
*’’ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﭼﺎﺑﯿﺎﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ‘‘ ۔*
’’ ﻣَﻔَﺎﺗِﻴْﺢ ‘‘ ﺟﻤﻊ ﻣﻨﺘﮩﯽ ﺍﻟﺠﻤﻮﻉ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ’’ ﺧﺰﺍﺋﻦ ‘‘ ﺑﮭﯽ ﺟﻤﻊ ﮨﮯ۔ ’’ ﻣﻔﺎﺗﯿﺢ ‘‘ ﺍﻭﺭ ’’ ﺧﺰﺍﺋﻦ ‘‘ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻀﺎﻑ ﺍﻭﺭ ﻣﻀﺎﻑ ﺍﻟﯿﮧ ﮨﯿﮟ، ﺟﺐ ﻣﻀﺎﻑ ﻭ ﻣﻀﺎﻑ ﺍﻟﯿﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﮞ ﻧﯿﺰ ﻣﻀﺎﻑ ﺟﻤﻊ ﻣﻨﺘﮩﯽ ﺍﻟﺠﻤﻮﻉ ﮨﻮ ﯾﻌﻨﯽ ﺟﻤﻊ ﮐﯽ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﺟﻤﻊ ﭘﺮ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﺳﺘﻐﺮﺍﻕ ﮐﻠﯽ ﮐﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻠﯿﺖ ﭘﺮ ﺩﻻﻟﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ 
*ﮔﻮﯾﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺘﻨﯽ ﻗِﺴﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺟﺘﻨﯽ ﭼﺎﺑﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ، ﺭﺏ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﺩﯼ ﮨﯿﮟ۔*
*ﮔﻮﯾﺎ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺑﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﯿﮟ۔*
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﻭَﻋِﻨْﺪَﻩُ ﻣَﻔَﺎﺗِﺢُ ﺍﻟْﻐَﻴْﺐِ .
*’’ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺐ ﮐﯽ ﮐﻨﺠﯿﺎﮞ ‏( ﯾﻌﻨﯽ ﻭﮦ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻏﯿﺐ ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﺁﺷﮑﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ‏) ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ‏( ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺕ ﻭ ﻣﻠﮑﯿﺖ ﻣﯿﮟ ‏) ﮨﯿﮟ ‘‘ ۔*
(ﺍﻻﻧﻌﺎﻡ، : 6 59) 

👈 ﻏﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﺎﻻ ﮨﻮﺗﺎ ھے ﺍﻭﺭ
👈 ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﺎﺑﯿﺎﮞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﻓﺮﻣﺎﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﮐﻞ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻞ ﭼﺎﺑﯿﺎﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯼ ﮨﯿﮟ۔
ﺍِﻧَّﻤَﺎ ﺍَﻧَﺎ ﻗَﺎﺳِﻢٌ ’’ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﮍ ﺟﺎﺅ، ﺟﺲ ﮐﻮ ﻃﻠﺐ ﮨﻮﮔﯽ، ﺻﺪﻕ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺩﻭﮞ ﮔﺎ ‘‘ ۔
ﻣَﻔَﺎﺗِﻴْﺢَ ﺍﻟْﺎَﺭْﺽ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮨﮯ ﻧﯿﺰ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﺳﺮﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﯿﻞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﻐﯿﺮ ﺩﻟﯿﻞ ﮐﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺠﺮ ﻋﺴﻘﻼﻧﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺑﺖ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﺮﺯﻣﯿﻦ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺗﯿﻞ ﻭ ﻣﻌﺪﻧﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮨﮯ۔
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ، ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ 1400 ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺟﺲ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮩﺮﮦ ﻣﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻔﻊ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺻﺪﻗﮧ ﮨﻮﮔﺎ۔
کوئی ﻣﺎﻧﮯ ﯾﺎ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮯ ﯾﮧ ﺍﻟﮓ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ
ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺻﺪﻗﮧ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔

*ﺍﮨﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﭘﮭﻮﻝ ﭼﮍﮬﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﺮﺍﻏﺎﮞ ﮐﺮﻧﺎ*

ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ :
ﻭَﺇِﻥ ﻣِّﻦ ﺷَﻲْﺀٍ ﺇِﻻَّ ﻳُﺴَﺒِّﺢُ ﺑِﺤَﻤْﺪِﻩِ ﻭَﻟَـﻜِﻦ ﻻَّ ﺗَﻔْﻘَﻬُﻮﻥَ ﺗَﺴْﺒِﻴﺤَﻬُﻢْ ﺇِﻧَّﻪُ ﻛَﺎﻥَ ﺣَﻠِﻴﻤًﺎ ﻏَﻔُﻮﺭًﺍ o
*’’ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﭼﯿﺰ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﻤﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻢ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ‏( ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ‏) ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ، ﺑﮯ ﺷﮏ ﻭﮦ ﺑﮍﺍ ﺑﺮﺩﺑﺎﺭ ﺑﮍﺍ ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ‘‘ ۔*
(ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ : 17 44) 

*ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺣﺎﻝ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﭘﺎﮐﯽ ﺑﻮﻟﺘﯽ ﮨﮯ ﮨﺎﮞ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﻮ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ۔*
ﺍﮨﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺳﺒﺰﮦ ﮔﮭﺎﺱ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﻭ ﺗﮩﻠﯿﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺛﻮﺍﺏ ﻗﺒﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﯿﮏ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﺟﺎﺕ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮔﻨﺎﮨﮕﺎﺭ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﺨﻔﯿﻒ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﮯ۔
*ﻗﺒﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﻟﻮﮒ ﭘﮭﻮﻝ ﭼﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺻﻞ ﻣﻘﺼﺪ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ*
ﺳﺒﺰﮦ ﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﻭ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﻭ ﺗﮩﻠﯿﻞ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻞ ﻗﺒﻮﺭ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺛﻮﺍﺏ ﻣﻠﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮨﺮﺍ ھے۔

*ﺣﺪﯾﺚ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ*
ﺣﺪﯾﺚ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﮯ :
ﻋَﻦِ ﺍﺑْﻦِ ﻋَﺒَّﺎﺱٍ ﺭَﺿِﻲَ ﷲُ ﻋَﻨْﻬُﻤَﺎ ﻋَﻦِ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲِّ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃَﻧَّﻪُ ﻣَﺮَّ ﺑِﻘَﺒْﺮَﻳْﻦِ ﻳُﻌَﺬَّﺑَﺎﻥِ ﻓَﻘَﺎﻝَ ﺇِﻧَّﻬُﻤَﺎ ﻟَﻴُﻌَﺬَّﺑَﺎﻥِ ﻭَﻣَﺎ ﻳُﻌَﺬَّﺑَﺎﻥِ ﻓِﻲ ﮐَﺒِﯿﺮٍ ﺃَﻣَّﺎ ﺃَﺣَﺪُﻫُﻤَﺎ ﻓَﮑَﺎﻥَ ﻟَﺎ ﻳَﺴْﺘَﺘِﺮُ ﻣِﻦَ ﺍﻟْﺒَﻮْﻝِ ﻭَﺃَﻣَّﺎ ﺍﻟْﺂﺧَﺮُ ﻓَﮑَﺎﻥَ ﻳَﻤْﺸِﻲ ﺑِﺎﻟﻨَّﻤِﻴﻤَﺔِ ﺛُﻢَّ ﺃَﺧَﺬَ ﺟَﺮِﻳﺪَﺓً ﺭَﻃْﺒَﺔً ﻓَﺸَﻘَّﻬَﺎ ﺑِﻨِﺼْﻔَﻴْﻦِ ﺛُﻢَّ ﻏَﺮَﺯَ ﻓِﻲ ﮐُﻞِّ ﻗَﺒْﺮٍ ﻭَﺍﺣِﺪَﺓً ﻓَﻘَﺎﻟُﻮﺍ ﻳَﺎ ﺭَﺳُﻮﻝَ ﷲِ ﻟِﻢَ ﺻَﻨَﻌْﺖَ ﻫَﺬَﺍ ﻓَﻘَﺎﻝَ ﻟَﻌَﻠَّﻪُ ﺃَﻥْ ﻳُﺨَﻔَّﻒَ ﻋَﻨْﻬُﻤَﺎ ﻣَﺎ ﻟَﻢْ ﻳَﻴْﺒَﺴَﺎ .
*’’ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺿﯽ ﷲ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺩﻭ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻋﺬﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔*
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻋﺬﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﯿﺮﮦ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ۔
*👈 ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﮐﮯ ﭼﮭﯿﻨﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ* ﺍﻭﺭ 
*👈 ﺩﻭﺳﺮﺍ ﭼﻐﻠﯽ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔*
 ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺒﺰ ﭨﮩﻨﯽ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺣﺼﮯ ﮐﯿﮯ
*ﭘﮭﺮ ﮨﺮ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺣﺼﮧ ﮔﺎﮌ ﺩﯾﺎ۔*
ﻟﻮﮒ ﻋﺮﺽ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ! ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ؟
*ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﺨﻔﯿﻒ ﺭﮨﮯ ﺟﺐ ﺗﮏ ﯾﮧ ﺳﻮﮐﮫ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ‘‘ ۔*
(ﺑﺨﺎﺭﯼ، ﺍﻟﺼﺤﯿﺢ، 458 : 1 ، ﺭﻗﻢ 1295 📚:) 

*ﺷﺮﺡ ﺣﺪﯾﺚ*

ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻋﺴﻘﻼﻧﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ :
ﺃﻥ ﺍﻟﻤﻌﻨﯽ ﻓﻴﻪ ﺃﻧﻪ ﻳﺴﺒﺢ ﻣﺎﺩﺍﻡ ﺭﻃﺒﺎ ﻓﻴﺤﺼﻞ ﺍﻟﺘﺨﻔﻴﻒ ﺑﺒﺮﮐﺔ ﺍﻟﺘﺴﺒﻴﺢ ﻭﻋﻠﯽ ﻫﺬﺍ ﻓﻴﻄﺮﺩ ﻓﻲ ﮐﻞ ﻣﺎ ﻓﻴﻪ ﺭﻃﻮﺑﺔ ﻣﻦ ﺍﻷﺷﺠﺎﺭ ﻭﻏﻴﺮﻫﺎ ﻭﮐﺬﻟﮏ ﻓﻴﻤﺎ ﻓﻴﻪ ﺑﺮﮐﺔ ﮐﺎﻟﺬﮐﺮ ﻭﺗﻼﻭﺓ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﻣﻦ ﺑﺎﺏ ﺍﻷﻭﻟﯽ .
*’’ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﮏ ﭨﮩﻨﯿﺎﮞ ‏( ﭘﮭﻮﻝ، ﭘﺘﯿﺎﮞ، ﮔﮭﺎﺱ ‏) ﺳﺮ ﺳﺒﺰ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﯽ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﺑﻨﺎﺑﺮﯾﮟ ﺩﺭﺧﺖ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺟﺲ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﮨﮯ ‏( ﮔﮭﺎﺱ، ﭘﮭﻮﻝ ﻭﻏﯿﺮﮦ ‏) ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺑﺎﺑﺮﮐﺖ ﭼﯿﺰ ﺟﯿﺴﮯ ﺫﮐﺮ، ﺗﻼﻭﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ، ﺑﻄﺮﯾﻖ ﺍﻭﻟﯽٰ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﺮﮐﺖ ﻭ ﺗﺨﻔﯿﻒ ﮨﯿﮟ، ﻭﮬﻮ ﺍﻭﻟﯽ ﺍﻥ ﯾﻨﺘﻔﻊ ﻣﻦ ﻏﯿﺮﮦ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺎﮎ ﮐﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺣﻖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ‘‘ ۔*

(ﻋﺴﻘﻼﻧﯽ، ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ، 320 : 1 ، ﺩﺍﺭ ﺍﻟﻤﻌﺮﻓۃ ﺑﯿﺮﻭﺕ 📚) 

*ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯼ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﻧﻮﺭ ﺷﺎﮦ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ :*
ﻓﻲ )) ﺍﻟﺪﺭ ﺍﻟﻤﺨﺘﺎﺭ (( ﺍِﻥَّ ﺍِﻧﺒﺎﺕَ ﺍﻟﺸﺠﺮﺓِ ﻣُﺴْﺘَﺤﺐٌّ ۔ ۔ ۔ ﻭﻓﻲ )) ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﮕﯿﺮﯾۃ (( ﺃﻥَّ ﺍِﻟﻘﺎﺀَ ﺍﻟﺮﻳﺎﺣﻴﻦ ﺃﻳﻀًﺎ ﻣُﻔِﻴْﺪ .
*’’ ﺩﺭ ﻣﺨﺘﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﺩﺭﺧﺖ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﻣﺴﺘﺤﺐ ﮨﮯ۔۔۔*
ﺍﻭﺭ ﻓﺘﺎﻭﯼ ﻋﺎﻟﻤﮕﯿﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﭘﮭﻮﻝ ﭼﮍﮬﺎﻧﺎ، ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ‘‘. (ﺍﻧﻮﺭ ﺷﺎﮦ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼ، ﻓﯿﺾ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﺷﺮﺡ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ، : 3 72 ، ﺩﺍﺭ ﺍﻟﮑﺘﺐ ﺍﻟﻌﻠﻤﯿۃ ﺑﯿﺮﻭﺕ۔ ﻟﺒﻨﺎﻥ) 

*ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯼ ﻋﺎﻟﻢ ﺭﺷﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﮔﻨﮕﻮﮬﯽ ﮐﺎ ﻣﺆﻗﻒ ﺩﺭﺝ ﺯﯾﻞ ﮨﮯ :*
ﺍﺑﻦ ﻋﺎﺑﺪﯾﻦ ‏( ﺷﺎﻣﯽ ‏) ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﺮﯼ ﺟﮍﯼ ﺑﻮﭨﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺎﺱ ﻗﺒﺮ ﺳﮯ ﮐﺎﭨﻨﺎ ﻣﮑﺮﻭﮦ ﮨﮯ ﺧﺸﮏ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﺒﺤﺮ ﻭ ﺍﻟﺪﺭﺭ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺡ ﺍﻟﻤﻨﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺍﻻﻣﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﯽ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮔﮭﺎﺱ، ﭘﮭﻮﻝ، ﭘﺘﮯ، ﭨﮩﻨﯽ ﺳﺮ ﺳﺒﺰ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ۔
ﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﯿﺖ ﻣﺎﻧﻮﺱ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺖ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﮔﯽ۔
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﻭﮦ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺎﮎ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺳﺒﺰ ﭨﮩﻨﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻭ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﺩﻭ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻋﺬﺍﺏ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﭨﮩﻨﯽ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﮏ ﯾﮧ ﺧﺸﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮕﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺧﺸﮏ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﺎﻣﻞ ﺳﺮﺳﺒﺰ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮﯼ ﭨﮩﻨﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﮧ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﭘﮭﻮﻝ، ﮔﮭﺎﺱ، ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﺳﺒﺰ ﭨﮩﻨﯿﺎﮞ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﻣﺴﺘﺤﺐ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﭘﺮ ﻗﯿﺎﺱ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺗﺮﻭﺗﺎﺯﮦ ﺧﻮﺷﺒﻮﺩﺍﺭ ﭘﮭﻮﻝ ﭼﮍﮬﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﻣﯿﮟ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺮﯾﺪﮦ ﺍﺳﻠﻤﯽ ﺭﺿﯽ ﷲ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﭨﮩﻨﯿﺎﮞ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
*(ﺭﺷﻴﺪ ﺃﺣﻤﺪ ﮔﻨﮕﻮﻫﯽ دیوبندی ، ﻻﻣﻊ ﺍﻟﺪﺭﺍﺭﯼ ﻋﻠﯽ ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ، : 4 380 ، ﺍﻟﻤﮑﺘﺒﺔ ﺍﻹﻣﺪﺍﺩﻳﺔ، ﺑﺎﺏ ﺍﻟﻌﻤﺮﺓ . ﻣﮑﺔ ﺍﻟﻤﮑﺮﻣﺔ📚)*

*بزگوں کے یومِ وصال کو عرس کیوں کہتے ہیں ؟*

جواب :
دیوبندی اشرف علی تھانوی لکھتا ھے :
*بزرگانِ دین کے یومِ وِصال کو عرس اِس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ محبوب سے ملاقات کا دِن ہے دلیل حدیث نم کنومۃ العروس ھے ۔*
(شرح احادیث خیر الانام صفحہ 60)

*ﻣﻼ ﻋﻠﯽ ﻗﺎﺭﯼ ﻣﺮﻗﺎۃ ﺷﺮﺡ ﻣﺸﮑﻮٰۃ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﻃﺤﺎﻭﯼ ﺣﺎﺷﯿﮧ ﻣﺮﺍﻗﯽ ﺍﻟﻔﻼﺡ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ :*
ﺃﻓﺘﯽ ﺑﻌﺾ ﺍﻷﺋﻤﺔ ﻣﻦ ﻣﺘﺄﺧﺮﻱ ﺃﺻﺤﺎﺑﻨﺎ ﺑﺄﻥ ﻣﺎ ﺍﻋﺘﻴﺪ ﻣﻦ ﻭﺿﻊ ﺍﻟﺮﻳﺤﺎﻥ ﻭﺍﻟﺠﺮﻳﺪ ﺳﻨﺔ ﻟﻬﺬﺍ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ .
*’’ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺘﺎﺧﺮﯾﻦ ﺍﺋﻤﮧ ﺍﺣﻨﺎﻑ ﻧﮯ ﻓﺘﻮﯼ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺟﻮ ﭘﮭﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﭨﮩﻨﯿﺎﮞ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﺳﻨﺖ ھے .‘‘*
*(1 ۔ ﻣﻼ ﻋﻠﯽ ﻗﺎﺭﯼ، ﻣﺮﻗﺎۃ ﺍﻟﻤﻔﺎﺗﯿﺢ، : 2 53 ، ﺩﺍﺭ ﺍﻟﮑﺘﺐ ﺍﻟﻌﻠﻤﯿۃ ﻟﺒﻨﺎﻥ۔ ﺑﯿﺮﻭﺕ)*
*(2 ۔ ﻃﺤﺎﻭﯼ، ﺣﺎﺷﯿۃ ﻋﻠﯽ ﻣﺮﺍﻗﻲ ﺍﻟﻔﻼﺡ، 415 : 1 ، ﺍﻟﻤﻄﺒۃ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ ﺍﻻﻣﯿﺮﯾۃ ﺑﺒﻮﻻﻕ ﻣﺼﺮ)*

*ﺍﻣﺎﻡ ﻃﺤﺎﻭﯼ ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ :*
ﻭﺇﺫﺍ ﮐﺎﻥ ﻳﺮﺟﯽ ﺍﻟﺘﺨﻔﻴﻒ ﻋﻦ ﺍﻟﻤﻴﺖ ﺑﺘﺴﺒﻴﺢ ﺍﻟﺠﺮﻳﺪﺓ ﻓﺘﻼﻭﺓ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﺃﻋﻈﻢ ﺑﺮﮐﺔ .
*’’ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﭨﮩﻨﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﺨﻔﯿﻒ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺗﻼﻭﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮍﯼ ﮨﮯ ‘‘ ۔*
ﺍﯾﻀﺎً
ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻮﻭﯼ ﺷﺮﺡ ﻣﺴﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ :
ﻭﺫﻫﺐ ﺍﻟﻤﺤﻘﻘﻮﻥ ﻣﻦ ﺍﻟﻤﻔﺴﺮﻳﻦ ﻭﻏﻴﺮ ﻫﻢ ﺇﻟﯽ ﺃﻧﻪ ﻋﻠﯽ ﻋﻤﻮﻣﻪ ... ﺍﺳﺘﺤﺐ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ ﻗﺮﺃﺓ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﻘﺒﺮ ﻟﻬﺬﺍ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻷﻧﻪ ﺇﺫﺍ ﮐﺎﻥ ﻳﺮﺟﯽ ﺍﻟﺘﺨﻔﻴﻒ ﻳﺘﺴﺒﻴﺢ ﺍﻟﺠﺮﻳﺪ ﻓﺒﺘﻼﻭﺓ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﺃﻭﻟﯽ .
*’’ ﻣﺤﻘﻘﯿﻦ، ﻣﻔﺴﺮﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﺋﻤﮧ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺎﮎ ﻋﺎﻡ ﮨﮯ۔ ۔ ۔ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﻼﻭﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﻮ ﻣﺴﺘﺤﺐ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﭨﮩﻨﯽ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﺳﮯ ﺗﺨﻔﯿﻒ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺗﻼﻭﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﺑﻄﺮﯾﻖ ﺍﻭﻟﯽٰ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ‘‘ ۔*
( ﻧﻮﻭﯼ، ﺷﺮﺡ ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ، 202 : 3 ، ﺩﺍﺭ ﺍِﺣﯿﺎﺀ ﺍﻟﺘﺮﺍﺙ ﺍﻟﻌﺮﺑﻲ ﺑﯿﺮﻭﺕ📚) 

*ﻓﻘﮩﺎﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡ*
ﻭﺿﻊ ﺍﻟﻮﺭﻭﺩ ﻭ ﺍﻟﺮﻳﺎﺣﻴﻦ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻘﺒﻮﺭ ﺣﺴﻦ ﻭﺇﻥ ﺗﺼﺪﻕ ﺑﻘﻴﻤﺔ ﺍﻟﻮﺭﺩ ﮐﺎﻥ ﺃﺣﺴﻦ .
ﮔﻼﺏ ﮐﮯ ﯾﺎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﮭﻮﻝ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﺻﺪﻗﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ ‘‘ ۔
(ﺍﻟﺸﯿﺦ ﻧﻈﺎﻡ ﻭﺟﻤﺎﻋۃ ﻣﻦ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻟﮭﻨﺪ، ﺍﻟﻔﺘﺎﻭﯼ ﺍﻟﮩﻨﺪﯾۃ، : 5 351 ، ﺩﺍﺭ ﺍﻟﻔﮑﺮ📚) 

ﯾﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﻮ ﺑﮯﻏﺒﺎﺭ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﻖ ﺑﺎﺕ ﺭﻭﺷﻦ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﭘﮭﻮﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ، ﭘﺘﮯ، ﭨﮩﻨﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺎﺱ ﺍﮔﺎﻧﺎ، ﺭﮐﮭﻨﺎ ﻣﺴﻨﻮﻥ ﮨﮯ۔
ﺭﺳﻮﻝ ﷲ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﻮ ﻭﺟﮧ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﺨﻔﯿﻒ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻋﻤﻞ ﻋﺎﻡ ﮨﮯ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﮏ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﺴﺦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ، ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻠﻤﮧ ﮔﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﮨﻢ، ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﺒﺮقاً ﺍﮐﺎﺑﺮ ﺍﺋﻤﮧ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﺍﻗﻮﺍﻝ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ ﮨﯿﮟ۔
*ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﯾﺎ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﷲ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺎﺋﮯ۔*

ﺍﮨﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﻤﻞ ﺳﻨﺖ ﻧﺒﻮﯼ ﮨﮯ۔

*ﺯﺍﺋﺮﯾﻦ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﻓﻮﺭﯼ ﺗﻮﺟﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ*

ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﻟﻤﯿﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﻧﺘﮩﺎﺀ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﻋﺘﺪﺍﻝ ﻭ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﺟﻮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻭ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﮐﺎ ﻃﺮﮦ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﻣﻔﻘﻮﺩ ﮨﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﻨﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺎﮎ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺑﻼ ﺳﻮﭼﮯ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﮐﮯ ﺑﺪﻋﺖ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﮩﺪﯾﺎ ﺟﻮ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﺷﺮﻉ ﮐﯽ ﺧﻼﻑ ﻭﺭﺯﯼ ﮨﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺋﺰ ﻭ ﻣﺴﺘﺤﺴﻦ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﻨﺖ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﺪﻋﺎﺕ ﺟﻮﮌ ﺩﯾﮟ ﮐﮧ ﺍﻻﻣﺎﻥ ﻭ ﺍﻟﺤﻔﯿﻆ۔

*📌 دیوبندی مکتبہ فکر کا معتبر مدرسہ بنام ہتھوڑا میں ہر سال ہندو مشرکوں کی دیوالی کے تہوار کا جشن منایا جاتا ھے اور تحفے میں شیلڈ و نقد رقم بطور انعام پیش کی جاتیں ہیں*
ساری دنیا کے خاموش نجدی وہابی دیوبندیوں سے سوال ہے کہ یہ کہاں سے ثابت ھے؟؟؟
*یا رسول کہنے والے جشن عید میلاد النبی منانے والے بزرگانِ دین اولیاء اللہ کا سالانہ عرس منانے والوں کو مشرک کہنے والے نجدی وہابی دیوبندی خوارج کے روپ میں منافق ہیں*
مکمل تحریر >>