Pages

Wednesday 27 December 2017

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر آئمہ ،محدثین علیہم الرّحمہ کی کتابیں

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر آئمہ ،محدثین علیہم الرّحمہ کی کتابیں

مکمل تحریر >>

سوال: کیا نذر و نیاز کرنا جائز ہے، کیونکہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ غیر ﷲ کی نذرونیاز کرنا ناجائز ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں؟*

*🔴سوال: کیا نذر و نیاز کرنا جائز ہے، کیونکہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ غیر ﷲ کی نذرونیاز کرنا ناجائز ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں؟*

*🔵جواب۔۔۔ﷲ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت حلال اور طیب رزق ہے، جسے رب کریم اپنے بندوں کو محنت کرکے حلال ذرائع سے حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ بندے حرام سے بچ کر حلال طیب رزق حاصل کرکے اپنی زندگی گزاریں۔*
*انہی حلال و طیب رزق میں سے ایک بابرکت چیز نذرونیاز ہے جوکہ رب کریم کی بارگاہ میں پیش کرکے اس کا ثواب نیک و صالح مسلمانوں کو ایصال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس مضمون میں نذرونیاز کی حقیقت اور اسے حرام کہنے والوں کی اصلاح کی جائے گی۔*
*نذرونیاز کو حرام کہنے والے یہ آیت پیش کرتے ہیں۔*
*القرآن: انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اہل بہ لغیر ﷲ O (سورۂ بقرہ، رکوع 5، پارہ 2 ، آیت 173)*
*ترجمہ: درحقیقت (ہم نے) تم پر حرام کیا مردار اور خون سور کا گوشت اور جس پر ﷲ کے سوا (کسی اور کا نام) پکارا گیا ہو۔*
*القرآن: حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ومااہل لغیر ﷲ بہ O (سورۂ مائدہ، رکوع 5، پارہ 6، آیت 3)*
*ترجمہ: حرام کردیا گیا تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر ﷲ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔*

*🎇ان آیات میں ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘*
*سے کیا مراد ہے*:
*1۔ تفسیر وسیط علامہ واحدی میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کا مطلب ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔*
*2۔ شاہ ولیﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اپنے ترجمان القرآن میں ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ سے مراد لکھا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔*
*3۔ تفسیر روح البیان میں علامہ اسمٰعیل حقی علیہ الرحمہ نے ’’مااہل بہ لغیرﷲ‘‘ سے مراد یہی لیا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔*
*4۔ تفسیر بیضاوی پارہ 2 رکوع نمبر 5 میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیرﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ جانور کے ذبح کے وقت بجائے خدا کے بت کا نام لیا جائے۔*
*5۔ تفسیر جلالین میں ’’مااہل بہ لغیرﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جانور جو غیرﷲکے نام پر ذبح کیا گیا ہو، بلند آواز سے بتوں کا نام لے کر وہ حرام کیا گیا۔*
*ان تمام معتبر تفاسیر کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ یہ تمام آیات بتوں کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں، لہذا اسے مسلمانوں پر چسپا کرنا کھلی گمراہی ہے۔*

*🌄مسلمانوں کا نذرونیاز کرنا* *مسلمان ﷲ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک جانتے ہیں اور جانور ذبح کرنے سے پہلے ’’بسمﷲ ﷲ اکبر‘‘ پڑھ کرﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں پھر کھانا پکواکرﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے لہذا اس میں کوئی شک والی بات نہیں بلکہ اچھا اور جائز عمل ہے۔*

*🗾ایصال ثواب کیلئے بزرگوں کی طرف منسوب کرنا*
*الحدیث: ترجمہ… سیدنا حضرت سعد بن عبادہ رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا یارسول ﷲﷺ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے کچھ خیرات اور صدقہ کروں۔ آپﷺ نے فرمایا!ہاں کیجئے، حضرت سعد بن عبادہ رضیﷲ عنہ نے دریافت فرمایا۔ ثواب کے لحاظ سے کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ’’پانی پلانا‘‘ تو ابھی تک مدینہ منورہ میں حضرت سعد رضیﷲ عنہ ہی کی سبیل ہے (بحوالہ: سنن نسائی جلد دوم، رقم الحدیث3698،ص 577، مطبوعہ فرید بک لاہور)*

*🏞صاحب تفسیر خازن و مدارک فرماتے ہیں*
*اگر فوت شدہ کا نام پانی پر آنا اس پانی کے حرام ہونے کا سبب بنتا تو حضرت سعد رضیﷲ عنہ اس کنویں پر اُم سعد کا نام نہ آنے دیتے، ’’مااہل بہ لغیرﷲ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بوقت ذبح جانور پر غیرﷲ کا نام نہ آئے، جان کا نکالنا خالق ہی کے نام پر ہو ۔(تفسیر خازن و مدارک، جلد اول، ص 103)*

*🎆الحدیث: ترجمہ… حضرت عروہ بن زبیر رضی ﷲ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضیﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسولﷲﷺ نے سینگوں والے مینڈھے کے لئے حکم فرمایا جس کے سینگ سیاہ آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا سیاہ ہوں۔ پس وہ لایا گیا تو اس کی قربانی دینے لگے۔ فرمایا کہ اے عائشہ! چھری تو لائو، پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر تیز کرلینا۔ پس میں نے ایسا ہی کیا تو مجھ سے لے لی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے لگے تو کہا۔ ﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اےﷲ تعالیٰ! اسے قبول فرما محمدﷺ کی طرف سے آل محمدﷺ کی طرف سے اور امت محمدﷺ کی طرف سے پھر اس کی قربانی پیش کردی (بحوالہ: ابودائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1019، ص 392، مطبوعہ فرید بک لاہور)*

*🗾الحدیث: ترجمہ… حنش کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی رضیﷲ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا، یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ رسولﷲﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی، اپنی طرف سے قربانی کرنے کی۔ چنانچہ (ارشاد عالی کے تحت) ایک قربانی میں حضورﷺ کی طرف سے پیش کررہا ہوں۔(بحوالہ: ابو دائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1017، ص 391، مطبوعہ فرید بک لاہور)*

*🎑حضرت علامہ مولانا مُلّا جیون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں*
*ذبح سے پہلے یا ذبح کے بعد بغرض ملکیت یا بغرض ایصال ثواب وغیرہ کسی جانور وغیرہ پر آنا یہ سبب حرمت نہیں، مثلا یوں کہا جاتا ہے۔ مولوی صاحب کی گائے، خان صاحب کا دنبہ، ملک صاحب کی بکری، عقیقہ کا جانور، قربانی کا جانور، ولیمہ کی بھینس، ان جانور پر جو غیر ﷲ کا نام پکارا گیا تو کیا یہ حرام اور منت ہوگئے؟ ہرگز نہیں! یہی حکم ہے گیارہویں کے دودھ، حضور غوث الثقلین رضیﷲ عنہ کی طرف منسوب بکری اور منت والے جانوروں کا‘‘ (بحوالہ: تفسیرات احمدیہ)*

*🌠تیرہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں*
*’’واگر مالیدہ و شیر برنج بنا برفاتحہ بزرگ بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخورند مضائقہ نیست جائز است‘‘*
*یعنی اگر مالیدہ اور شیرینی کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے پکاکر کھلا دے تو جائز ہے، کوئی مضائقہ نہیں*
*(بحوالہ : تفسیر عزیزی، جلد اول ،ص 39)*
*آگے فرماتے ہیں ’’طعامیکہ ثواب آں نیاز حضرت امامین نمایندو وبرآں فاتحہ و قل ودرود خواندن تبرک میشود خوردن بسیار خوب است‘‘*
*یعنی جس کھانے پر حضرات امامین حسنین کی نیاز کریں اس پر قُل اور فاتحہ اور درود پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے*
*(بحوالہ: فتاویٰ عزیزی، جلد اول، ص 71)*

مکمل تحریر >>

Sunday 10 December 2017

دف کے ساتھ نعت خوانی کا حکم:

دف کے ساتھ نعت خوانی کا حکم:

دف اگر جھانج کے ساتھ ہو تواس کا بجانا مطلقاً ناجائز ہے،
جھانج والی دف کے ساتھ نعت پڑھنازیادہ ممنوع اور سخت گناہ ہے،

اور اگر دف کے ساتھ جھانج نہ ہو تو دف بجانے کی اجازت تین شرطوں کے ساتھ ہے، اگر ان میں سے ایک بھی کم ہو تو جائز نہیں،

(1) پہلی شرط یہ ہے کہ ہیئت تطرب پر نہ بجایا جائے، یعنی قواعد موسیقی کی رعایت نہ کی جائے.

(2) دوسری شرط یہ ہے کہ بجانے والے مرد نہ ہوں، کہ ان کے لیے دف بجانا مطلقاً مکروہ ہے.

(3) تیسری شرط یہ ہے کہ بجانے والی عزت دار بیبیاں نہ ہوں،اور وہ بھی غیر محل فتنہ میں بجائیں تو جائز ہے.

اور حدیث مبارکہ میں جس دف کے بجانے کا ذکر ہے وہ انہیں شرائط کے تحت داخل ہے۔

عموماً جو طریقہ رائج ہے اس میں دف بجانے کی مکمل  شرائط نہیں پائی جاتیں، تو ایسا دف بجانا اور اس کے ساتھ نعت پڑھنا جائز نہیں۔

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن دف بجانے کے جواز کی شرائط بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:علماء شرط لگاتے ہیں کہ قواعد موسیقی پر نہ بجایا جائے، تال سم کی رعایت نہ ہو نہ اس میں جھانج ہوں کہ وہ خود ہی نخواہی مطرب وناجائز ہیں۔ پھر اس کا بجانا بھی مردوں کو ہر طرح مکروہ ہے۔       
(فتاوی رضویہ جلد23ص 281)

سیدی اعلیٰ حضرت ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:دف کہ بے جلا جل یعنی بغیر جھانج کا ہو اور تال سم کی رعایت سے نہ بجایاجائے اور بجانے والے نہ مرد ہوں نہ ذی عزت عورتیں، بلکہ کنیزیں یاایسی کم حیثیت عورتیں اور وہ غیر محل فتنہ میں بجائیں تو نہ صرف جائز بلکہ مستحب ومندوب ہے۔       
(فتاوی رضویہ جلد 21ص643)

مفتی اعظم ھند حضرت علامہ محمد مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ سے پوچھا گیاکہ دف بجا کر قصائد،نعت اور حالت قیام میلاد شریف میں صلاۃ وسلام پڑھنا جائز ہے یا ناجائز ،دف مع جھانج ہو تو کیا حکم ہے اور بلا جھانج ہو تو کیا حکم ہے؟

تو جوابا ارشاد فرمایا: ہر گز نہ چاہے کہ سخت سوء ادب ہے اور اگر جھانج بھی ہوں یا اس طرح بجایا جائے کہ گت پیدا ہو فن کے قواعد پر جب تو حرام اشد حرام ہے،حرام در حرام ہے۔
(فتاوی مصطفویہ 448)

مکمل تحریر >>

Thursday 7 December 2017

منہاج القرآن چھوڑنے وجہ یہ کھوکھلے نعرے ہیں بہت افسوس کے ساتھ بحالت مجبوری یہ تحریر لکھ رہا ہوں اگر کسی کو گراں گزرے تو معاف کردیجئے گا اللہ پاک آپکو بہتر جزا دے آمین

منہاج القرآن چھوڑنے وجہ یہ کھوکھلے نعرے ہیں بہت افسوس کے ساتھ بحالت مجبوری یہ تحریر لکھ رہا ہوں اگر کسی کو گراں گزرے تو معاف کردیجئے گا اللہ پاک آپکو بہتر جزا دے آمین

میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ طاہرالقادری صاحب نے اہلسنت کے لیے بہت اچھا اور لاجواب کام کیا مجھے اچھے طریقے سے یاد ہے جب میں پہلی بار طاہرالقادری کو سیاسی کمپیئن میں سننے کے لیے گیا تھا جسے روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی لیکن ہم بمشکل اس مقام تک پہنچ گئے جہاں طاہرالقادری صاحب کی تقریر ہونی تھی اسکے ساتھ ساتھ میں نے نماز اور قرآن پاک کی تعلیم کا کچھ حصہ بھی ایک منہاج القرآن کے استاد مشتاق احمد صاحب سے پڑھا اگر وہ زندہ ہیں تو اللہ پاک انھیں سلامت رکھے اور وفات پاچکے ہیں تو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے

جب پہلا دھرنا دیا گیا تو میں چونکہ کراچی میں تھا اور دھرنے میں شامل نہ ہوسکا لیکن میں نے اس مقصد کے لیے کافی مالی سپورٹ بھی کی مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے بعد جو دھرنے میں ہوا اور لوگوں نےمحبتیں نشاور کیں اسکا زرلٹ یہ نکلا کہ قادری صاحب کینڈا تشریف لے جا کر مکمل سکرین سے غائب ہوگئے وہ جس مقصد کے لیے بھی گئے یہ ایک الگ ہی ٹاپک ہے

وہ جاتے جاتے ہمارے لیے مختلف طرح کے طعنے اور باتیں چھوڑ گئے جن میں ایک عدد شاندار VIP کنٹینر خوابوں کی ایک بہت لمبی لسٹ چھوٹی سی داڑھی اور کفن چھوڑ عوام کو شاید بے وقوف بنا کراپنے وطن واپس لوٹ گئے اس طرح کی باتیں جو شاید ہمارے جیسے بندے کے لیے کافی ناگوار تھیں
اب ہم زرا تھوڑی سی روشنی شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے افکار اور انکے نظریات پر ڈالتے ہیں جنکی وجہ سے ہم منہاج القرآن سے متنفر ہوئے اسکی ایک وجہ وہ منافقت بھی ہے(معزرت) جو شیخ الاسلام صاحب نے دنیا میں اپنے سیاسی مقام اور مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک سمبل کے طور پر پیش کی جسے اتحاد امت یا صلح کلی کا نام بھی دیا جاتا ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم اتحاد امت کے مخالف ہیں (یہ میرا ذاتی نظریہ ہے) مگر اتحاد امت میں سب سے پہلا اتحاد آپکا اپنا سنی مکتبہ فکر تھا دیوبندی اہل حدیث شیعہ یہ سب بعد کے معاملات تھے اگر آپ واقعی اتحاد امت کے داعی ہیں تو یہ کیسا اتحادہے جس نے سنی قوم کو دو حصوں بریلوی اور منہاجی میں بانٹ دیا آخر وہ کونسے معاملات تھے وہ کونسے نعرے تھے جن سے سنیت دو ٹکڑے ہوگئی میں نے قادری صاحب کی ایک تقریر سنی جس میں آپ فرما رہے تھے کہ ایک ہی زمانے میں رہنے والوں میں ایک ہی ملک کے دو باشندوں اور پھر ایک ہی مسلک میں رہنے والوں میں جب ایک زمین پر ہی رہا دوسرا آسمان پر پہنچ گیا تو زمین والے نے آسمان والے پر تنقید شروع کردی بلاشبہ یہ بات سچ ہے مگر افسوس اسکا اطلاق انھوں نے غلط جگہ پر کردیا
دنیا داری میں تو ایسا عموماً ہوتا ہے مگر امت مسلمہ کے مستند علماء پر اس بات کو اس لیے فٹ کرنا کہ وہ آپ سےاختلاف رکھتے ہیں یہ بات سراسر غلط اور ناجائز ہے جسکا مجھے کافی دکھ ہوا
آپ نے اپنے آپ کو آسمان پر اور پاکستان کے دوسرے علماء کو زمین پر تصور کرکے انکے اختلاف کو بغض اور عناد قرار دیا
آپ بلاشبہ سنیت میں اعلی مقام رکھتے تھے آپ نے اہلسنت کے لیے بہت کام کیا مگر آپکو اسی غرور اور تکبر نے سنیت کو دو حصوں میں بانٹ دینے پر مجبور کردیا
اب آپکے چاہنے والے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت نے امام اعظم سے کچھ جگہوں پر اختلاف کیا تو وہ درست  جبکہ کچھ مسائل پر میں اختلاف کردوں تو تنقید شروع ہوجاتی ہے تو اسکا جواب بھی آپکا تکبر ہٹ دھرمی اور اپنی انا ہے ورنہ بات اختلاف کرنے کی نہیں بلکہ اس زمانے میں اپنے آپ کو سپیرئیر سمجھنے کی ہے معزرت کے ساتھ میں نے منافقت کا لفظ بھی اسی سینس میں کہا کہ جس شخص نے بھی آپ سے اختلاف کیا آپ نے کبھی بھی اختلاف پر اتحاد کا عملی ثبوت نہ دیا میں چند مثالیں آپکے سامنے پیش کرتا ہوں
آپ سے مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں مختلف لوگوں نے مختلف مسائل پر اختلاف کیا جسکی کچھ مثالیں ہم آپکے سامنے پیش کرتے ہیں سب سے پہلے ہم دیت کے مسئلے پر آپ سے اختلاف کرنے والے دو حضرات کاتعارف اور انکی اہلسنت میں اہمیت بیان کرنے کے بعد اتحاد امت کے داعی شیخ الاسلام کا اتحاد امت کے لیے کی جانیوالی کوشش بیان کریں گے
سب سے پہلے دیت کے مسئلے پر جس شخص نے نام نہاد شیخ الاسلام کا ردکیا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں جنھیں دنیا ﻏﺰﺍﻟﯽ ﺯﻣﺎﮞ ﻋﻼﻣﮧ ﺳﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺳﻌﯿﺪ ﮐﺎﻇﻤﯽ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ کہتی ہے
احمد سعید کاظمی صاحب سید تھے آپکا ﻧﺴﺐ 35 ﭘﺸﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﻮﺳﯽ ﮐﺎﻇﻢ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ 42 ﭘﺸﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﮐﺮﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺟﮩﮧ ﺍﻟﮑﺮﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﻮﺳﯽ ﮐﺎﻇﻢ ﺳﮯ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺀ ﭘﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺎﻇﻤﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
آپ حامد سعید کاظمی کے والد صاحب حامد سعید کاظمی وہی سید ہیں جن پر خارجیوں نے کرپشن کا جھوٹا کیس ڈالا مگر اللہ پاک نے انھیں عزت دی اور باعزت بری ہوئے اس موقع پر پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے ایک سنہری حروف میں لکھنے والی بات کی تھی کہ حامد سعید کاظمی صاحب کی گارنٹی میں لیتا ہوں کہ آپ مجرم نہیں ہے اسکے لیے میں پوری دنیا کے سامنے سرعام آگ میں ہاتھ ڈالنے کو تیار ہوں
انھوں ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺳﺎﻟﮯ ’’ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺩﯾﺖ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﺻﻮﻑ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﮐﻮ ﺻﺮﺍﻁ ﻣﺴﺘﻘﯿﻢ ﺳﮯ ﺍﻧﺤﺮﺍﻑ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﺴﺦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺳﻌﯽ ﻣﺬﻣﻮﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ یاد رہے طاہرالقادری نے عورت اور مرد کی دیت کو برابر کہا ہوا ہے
اب دیکھتے یہ ہیں کہ سعید کاظمی صاحب ہیں کون جنھوں نے شیخ الاسلام کارد کرنے کی کوشش کی کیا وہ اس رد کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں
پہلی بات تو یہ کہ سعید کاظمی صاحب ڈاکٹر صاحب کے استادوں میں شامل ہیں مطلب ایک استاد نے اتحاد کے داعی سے ایک مسئلے پر اختلاف کیا
کیا شیخ الاسلام صاحب کارد کرنے کے لیے صرف استاد ہونا ہی ہے یا کاظمی صاحب میں کوئی اور بھی قابلیت ہے ؟؟؟؟؟؟؟
احمد سعید کاظمی صاحب ایک بہت متبحر عالم دین تھے آپ نے سب سے پہلے سنیت کا درد محسوس کرتے ہوئے اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے *جمعیت علمائے پاکستان * کی بنیاد رکھی
ﺍﺱ جماعت ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ 1948  میں ﻏﺰﺍﻟﯽ ﺯﻣﺎﮞ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺣﻤﺪ ﺳﻌﯿﺪ ﮐﺎﻇﻤﯽ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﭘﺮ ﻗﯿﺎﻡ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻟﯽ " ﺁﻝ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﺳﻨﯽ ﮐﺎﻧﻔﺮﻧﺲ " ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻗﺎﺋﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﮐﻨﺎﻥ ﮐﻮ ﻣﺠﺘﻤﻊ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺭﮐﮭﯽ ﮔﺌﯽ جو کہ علامہ احمد سعید کاظمی کا بہت بڑا کارنامہ تھا افسوس اس تحریک کو بعد والوں نے ایوب خان کے دور میں تقریباً 6 ٹکڑوں میں بانٹ کر سنیت کی طاقت کو پارہ پارہ کردیا اگر یہ سیاسی پارٹی اپنی بنیادوں پر بنی رہتی تو پاکستان میں خارجیت کے پنپنے کی جراءت ہی نہ ہوتی آج بھی سنیت احمد سعید کاظمی صاحب کی اس دوراندیشی کو سلام پیش کرتی ہے
اسکے بعد آپ کا ایک اور رہتی دنیا تک کا کارنامہ * تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان * بنانا تھا اس میں
ﺗﻨﻈﯿﻢ ﺍﻟﻤﺪﺍﺭﺱ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﻭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﻣﺪﺍﺭﺱ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻣﻌﺎﺕ ﮐﮯ ﻃﻠﺒﺎﺀ ﻭ ﻃﺎﻟﺒﺎﺕ ﮐﮯ ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﺎﺕ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﺍﺳﻨﺎﺩ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺣﻔﻆ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ، ﺗﺠﻮﯾﺪ ﻭ ﻗﺮﺃﺕ، ﺩﺭﺟﮧ ﺛﺎﻧﻮﯾﮧ ﻋﺎﻣﮧ ‏( ﻣﯿﭩﺮﮎ ‏) ، ﺛﺎﻧﻮﯾﮧ ﺧﺎﺻﮧ ‏( ﺍﯾﻒ ﺍﮮ ‏) ، ﺩﺭﺟﮧ ﻋﺎﻟﯿﮧ ‏( ﺑﯽ ﺍﮮ ‏) ، ﺩﺭﺟﮧ ﻋﺎﻟﻤﯿﮧ ‏( ﺍﯾﻢ ﺍﮮ ‏) ، ﻃﺐ، ﻓﻠﺴﻔﮧ، ﻣﻨﻄﻖ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺿﻞ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﮯ ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮕﺮ ﮐﻮﺭﺳﺰ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻭﺍﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
یہ ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﻧﯿﭧ ﻭﺭﮎ ﮐﯽ ﺣﺎﻣﻞ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﮨﮯ ۔ ﯾﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺳﻄﺢ ﮐﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺁﭨﮫ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﺪﺍﺭﺱ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮦ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﺩﺍﺭﮦ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﻭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﯽ ﺑﻮﺭﮈ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﻠﮏ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﻨﯽ ﻣﺪﺍﺭﺱ ﮐﮯ ﻃﻠﺒﮧ ﺳﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺩﺭﺟﺎﺕ ﻭ ﺷﻌﺒﮧ ﺟﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﻃﻠﺒﮧ ﮐﻮﺳﻨﺪﺍﺕ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ اس تنظیم کے موجودہ سربراہ مشہور و معروف مفتی منیب الرحمن صاحب ہیں اللہ پاک انکی عمر میں برکتیں عطا فرمائے
اسکے علاوہ آپ کا ایک اور بہت بڑا کارنامہ *دعوت اسلامی * کی تحریک کا قیام تھا جو وقت حاضر کی بہت اہم ضرورت تھا
ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻐﯽ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺭﺷﺪ ﺍﻟﻘﺎﺩﺭﯼ ، ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺷﺎﮦ ﺍﺣﻤﺪ ﻧﻮﺭﺍﻧﯽ ، ﻋﻼﻣﮧ ﺳﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺳﻌﯿﺪ ﮐﺎﻇﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﻧﮯ 1981 ﺀ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺷﺎﮦ ﺍﺣﻤﺪ ﻧﻮﺭﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮦ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﺟﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﺟﺎﮔﺮ ﮐﯿﺎ اس طرح احمد سعید کاظمی صاحب کی دوراندیشی یہاں بھی اہلسنت کے کام آئی اور بدمزاہب کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو بہت ہی کم وقت میں بالکل محدود کردیا
ﺩﻋﻮﺕ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺫﺭﺍﺋﻊ ﺍﺑﻼﻍ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻭﺳﯿﻊ ﻧﻈﺎﻡ ﮨﮯ۔ ﺩﻋﻮﺕ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻧﮯ 1996 ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﮨﯿﭧ ﺑﻨﺎ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﻮ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﯿﭧ ﮮ۔ 2009 ﺀ ﻣﺪﻧﯽ ﭼﯿﻨﻞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﭨﯽ ﻭﯼ ﭼﯿﻨﻞ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ، ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﺭﺩﻭ ، ﻋﺮﺑﯽ ، ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ، ﺑﻨﮕﻠﮧ ، ﮨﻨﺪﯼ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻨﯽ ﻧﺸﺮﯾﺎﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﭼﯿﻨﻞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﻮﺳﯿﻘﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺘﮩﺎﺭﺍﺕ ﻧﮩﻴﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎﺗﺎ۔ ﯾﮧ ﭼﯿﻨﻞ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ 5 ﺳﯿﭩﻼﺋﭩﺲ ﺳﮯ ﻧﺸﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
مزید دعوت اسلامی کا تعارف کروانے کی مجھے ضرورت نہیں دعوت اسلامی الحمد للہ اپنے وسیع تر کام سے جانی جاتی ہے جسکے امیر ابھی الیاس عطار قادری صاحب ہیں
اور سب سے ضروری بات آپکا غزالی زماں کے علاوہ امام اہلسنت کا لقب بھی موجودہے اسکا مطلب آپ کوئی عام چھوٹی سی نکڑ پر بنائی گئی چھوٹی سی مسجد کے چھوٹے سے امام نہیں بلکہ اہلسنت و جماعت میں ایک قدآور شخصیت تھے
اب ایک بات تو طے ہوگئی کہ احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ طاہرالقادری صاحب سے عمر میں بڑے اور انکے استاد بھی تھے اور علم کے سمندر بھی اور اہلسنت میں بلند مقام بھی رکھتے تھے اور اہلسنت کے لیے بہت زیادہ کام بھی کر چکے تھے بہت نامی گرامی تنظیمات بھی قائم کرچکے تھے تو جب انھوں نے طاہرالقادری کے رد میں کتاب لکھی تو کیا اتحاد امت یا صلح کلی کے داعی اپنے استاد کے پاس گئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا ڈاکٹر صاحب نے اپنے بزرگ کے سامنے بیٹھ کر دلائل دئیے؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا ڈاکٹر صاحب نے سرمایہ اہلسنت کے سامنے اپنی تحقیق پیش کی؟؟؟؟؟؟
کیا ڈاکٹر صاحب نے امام اہلسنت کے سامنے اپنی اشکالات پیش کیں؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا ڈاکٹر صاحب نے تنظیم المدارس کے بانی پاس اپنی صفائی اور سوچ کو درست ثابت کرنے گئے؟؟؟؟؟؟
کیا ڈاکٹر صاحب نے دعوت اسلامی کے عظیم کردار کے سامنے انکی کتاب یا موقف کارد پیش کیا؟؟؟؟؟؟
کیا ڈاکٹر صاحب نے جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ کے پاس جاکر سنیت کو بچانے کے لیے کردار ادا کیا؟؟؟؟؟؟؟
آخر ہمیں بھی تو معلوم ہو کہ ڈاکٹر صاحب حقیقت میں اتحاد چاہتے کونسا ہیں ایک طرف ڈاکٹر صاحب تھے جنھوں نے دیت کے مسئلے پر امت کے اجماع کے خلاف کتاب لکھی اور ایک طرف سنیت کے عظیم لیڈر تھے جو ہر موڑ پر امت مسلمہ اور اپنی سنیت کے کام آئے جو عمر میں ڈاکٹر صاحب سے بڑے اور ڈاکٹر صاحب کے استاد بھی تھے جو بیک وقت کئی تنظیموں کے بانی بھی تھے اور سنیت کا درد بھی رکھتے تھے
میرے جیسا بندہ کیا کرے میں دو کشتیوں کا سوار نہیں بن سکتا مجھے مجبوراً ایک کشتی کا سوار بننا پڑا مجھے ماننا پڑا کہ اتحاد امت کا نعرہ صرف سیاسی نعرہ ہے جس میں دین بھی تباہ اور دنیا بھی تباہ ہوگی اگر یہ نعرہ اور اسکے لگانے والے ڈاکٹر صاحب سچے ہیں تو انھوں نے جب پہلی بار سنیت کو دو حصوں میں بٹتے دیکھا تو اتحاد کا داعی بن کر کیوں اپنے استاد کے پاس نہ گئے کہیں یہ انا اور تکبر تو نہ تھا جس نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے استاد کے پاس جانے سے روک دیا اپنے اکابرین کے پاس جانے سے روک دیا اور سنیت کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتا دیکھتے رہے کاش یہ اتحاد امت کا دعویٰ سچا ہوتا کاش ہم میں تکبر اور انا نہ ہوتی کاش ۔۔۔😨😨😨😨😨😨😨😨
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : لئیق احمد دانش

مکمل تحریر >>

Friday 1 December 2017

سوال: *بارہ ربیع الاول کے دن تو نبی پاک کی وفات ہوئی، وفات پر خوشی تو شیطان کرتا ہے.....؟؟ نبی پاک کی ولادت اور وفات کی تاریخ کیا ہے....؟؟*

سوال:
*بارہ ربیع الاول کے دن تو نبی پاک کی وفات ہوئی، وفات پر خوشی تو شیطان کرتا ہے.....؟؟
نبی پاک کی ولادت اور وفات کی تاریخ کیا ہے....؟؟*
.
جواب:
*ولادت*
حضرت سیدنا ابن عباس اور سیدنا جابر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پیر کے دن بارہ ربیع الاول میں ہوئی...
(البدایہ والنھایہ3/375 سیرت ابن ہشام1/58
فتاوی رضویہ26/411, سیرت رسول مصنف مفتی شفیع دیوبندی ص36)
سبل الھدی تاریخ طبری دلائل النبوہ عیون الاآثار زرقانی مستدرک حاکم وغیرہ کئ کتب میں یہی بات لکھی ہے
.
*وفات*
اور نبی پاک کی وفات دو ربیع الاول میں ہوئی..
(البدایہ والنہایہ4/228.. فتح الباری شرح بخاری8/474
مرقاۃ شرح مشکاۃ11/238)
.
کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ وفات بھی بارہ ربیع الاول میں ہوئی مگر علماء محقیقن کی تحقیق ہے کہ وفات بارہ کو ثابت نہین حتی کہ دیوبندیوں کے معتبر عالم اشرف تھانوی نے بھی لکھا کہ وفات بارہ کو ثابت نہیں
(نشر الطیب ص241 سبل الھدی12/305)
.
امام احمد رضا لکھتے ہیں:
تحقیق یہ ہے کہ حقیقتا حسبِ رویت مکہ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرویں تھی..(نطق الھلال فتاوی رضویہ26/417)
.
دیکھا آپ نے کہ وفات بارہ کو ثابت نہیں، پھر بالفرض بارہ کو وفات ہو تو بھی میلاد پر فرق نہین پڑے گا، کیونکہ ایک ہی دن وفات ہو اور اسکو خوشی کا دن عید بھی کہا جائے یہ حدیث پاک سے ثابت ہے، جمعہ کے کو سیدنا ادم علیہ السلام کی وفات ہے اور اسی جمعہ کے دن کو نبی پاک نے عید بھی فرمایا...
بہت ساری احادیث مبارکہ میں ہے کہ:
جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے اور جمعے کے دن وفات پائ..
(ابو داود حدیث نمبر1047..ابن ماجہ ح1084)
اور
اسی جمعے کے دن کو نبی پاک نے صحابہ کرام نے عید کا دن بھی قرار دیا ہے....الحدیث: بے شک جمعہ کا دن عید ہے..(ابن ماجہ حدیث نمبر1098)
.
دیکھا آپ نے جس دن حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش اسی دن وفات بھی....اور نبی پاک نے
اسی دن کو عید بھی قرار دیا....
.
اور پھر ایک ہی دن وفات بھی ہو اور ولادت بھی ہو تو غم منانے سے اسلام نے روکا ہے اور ولادت پر خوشی کی اجازت ہے لیھذا میلاد کی خوشی جائز ہے...الحدیث:
نبی پاک نے وفات کے تین دن کے بعد سوگ.و.غم کرنے سے روکا ہے....(بخاری حدیث 1279)
.
اور عقل اور شعور کا بھی یہی تقاضا ہے کیونکہ
لاکھوں انبیاء کرام گذرے....لاکھوں صحابہ کرام اور اہل بیت سادات گذرے....لاکھوں اولیاء گذرے اور ہفتے میں صرف 7دن اور سال میں کوئ360 دن تو ہر دن کسی نا کسی کی وفات تو ہوئ ہوگی...پھر تو سارا سال ساری زندگی عید منانا جرم...خوشی جرم...؟؟
ایسا ہرگز نہیں........!! Copy

مکمل تحریر >>