Pages

Sunday 30 May 2021

مولوی نامہ

#مولوی_نامہ

#مولویوں کو ملک سے نکال دو سکون ہوجائے گا. 
#مولویوں کو دین کا کچھ پتا ہی نہیں ہے. 
دین تو بڑا آسان ہے ان #مولویوں نے اسے مشکل بنادیا ہے. 
یہ #مولوی دین کے ٹھیکے دار بنے بیٹھے ہیں. 
اب ہماری #مولویوں سے کھلی جنگ ہے. 

آپ غور کیجیے گا یہ جملے کہنے والے لوگ صرف #جمعے کو، اور اکثر تو صرف #عید کے دن ہی وضو کرتے ہیں۔
 اور ہمیں سکھا رہے ہیں کہ #دین کہاں سے آئے گا اس پر کیسے عمل ہوگا🤨🤨🤨

الفاظ تھوڑے سخت ہیں
لیکن
اب حد ہوچکی ہے۔

جس کی خود حروفِ تہجّی پڑھنے کی اوقات نہیں ہے وہ وقت کے #علماء و محدثین پر تنقید کر رہا ہے۔
بھائی #شیخ، #چوہدری، #فلاں، #فلاں #لبرل!
تم کو پتا ہے #مولوی کون ہوتا ہے؟

جس نے اپنی زندگی کے نہیں بلکہ #جوانی کے وہ خوبصورت 11 سال، اگر حافظ بھی ہے تو 15 سال، اگر مفتی ہے تو 18 سال صرف اور صرف اللہ کے دین کو پڑھنے میں وقف کیے ہوتے ہیں، جو تم نے #عیاشیوں اور دنیا کی رنگینیوں میں گم کردیے_________!

#اسکوپ کیا ہے مولوی کا اس معاشرے میں؟
دیا کیا ہے آپ نے مولوی کو جو لینے پر تلے ہو؟
 اپنے محلے کی مسجد، #مدرسے میں جا کر تو دیکھو کس حال میں رہ رہے ہیں یہ لوگ😢😢😢
چلیں اس بات کا تو گلہ ہے ہی نہیں کہ ان کو ملا کیا، وہ الگ بحث ہے۔
بات یہ ہے کہ تم کون ہو؟
#تعلیم کیا ہے تمہاری؟
#وضو کے فرائض پتہ ہیں؟
#غسل کرنا جانتے ہو؟
#جانور_ذبح کرنے کا سنت طریقہ جانتے ہو ؟
آخری بار باجماعت #فجر کب پڑھی تھی؟
#قرآن کتنا جانتے ہو؟
#حدیث کتنی پڑھی ہے؟
#فقہی_مسائل کتنے سمجھ لیتے ہو؟
معیشت و معاشرت پر کتنی #احادیث ازبر ہیں؟

اوقات تمہاری #قاعدہ کی نہیں اور علماء کے خلاف گز بھر لمبی زبان نکلی پڑی ہے۔

وجہ یہ ہے کہ #مولوی نے قرآن پڑھ رکھا ہے وہ تمہارے #حرام کاموں کو "حرام" کہنا جانتا ہے۔
اس لیے تمہاری دکھتی رگ پھڑکتی ہے۔
وہ تمھیں #گستاخوں سے خبردار کرتا ہے. 
وہ #نبیﷺ کے #دشمنوں سے سب تعلقات ختم کرنے کا درس دیتا ہے. 
#مولوی کیا یہ غلط کرتا ہے؟
اپنی نہیں نبیﷺ کی #ناموس کی خاطر اسیری کاٹتا ہے، اپنی جان دیتا ہے. 
کیا تم اپنے سیاسی لیڈر پہ نہیں مرتے؟ اسکے دشمن کی زبانیں نہیں کھینچتے؟ تو پھر مولوی ہی پہ تنقید کیوں؟؟؟
 
ہاں #مولوی تنقید برائے تنقید نہیں کرتا،
وہ اپنی گفتگو سے نرمی تو ختم کر سکتا ہے #تہذیب کا دامن نہیں چھوڑتا،
وہ ایک #چٹائی پر 10 ہزار کی تنخواہ میں زندگی گزار دیتا ہے
مگر کبھی تمہاری طرح #ضمیر کے سودے نہیں کرتا،
#سود نہیں کھاتا
 وہ تمہاری #دُنیا پر نظر کیے بغیر تمہاری #آخرت سنوارنا چاہتا ہے، اس لیے تم کو کھٹکتا ہے....😒

ورنہ مجھے بتا دو #اختلافات کہاں نہیں ہیں؟
 دوغلے، دھوکے باز اور سفید پوش کالی بھیڑیں کس شعبے اور کس ادارے میں نہیں؟
یونیورسٹی کالج اسکولوں میں نہیں؟
کاروبار، فیکٹریوں، زمینوں یا وڈیروں میں نہیں؟
سیاست میں نہیں؟ میڈیا میں نہیں؟ 
سائنس میں نہیں؟ طب میں نہیں؟
حکمت میں نہیں؟ تہذیب میں نہیں؟

 قومیت لسانیت سے لے کر ملکی معیشت و کاروبار تک ہر ادارے میں کچھ نہ کچھ برے لوگ ہیں. 
تو پھر ایک مولویت سے ہی کیوں تکلیف ہے؟😠

ہاں #سنو اس میں بھی غلطی تمہاری ہے. 
تم بھی تو ہر داڑھی والے کو مولویت سے جوڑ دیتے ہو. 
ہر ٹوپی پگڑی والے کو عالم سمجھ لیتے ہو. 
ہر نمازی کو تم مفتی گردان لیتے ہو. ایسا کیوں؟

دنیا کے معاملے میں:
کبھی تم نے فارمیسی جا کر سبزی خریدی ہے؟  
تھانے بھیج کر بچوں کو تعلیم دلوائی ہے؟ 
جوتے کی دوکان سے صوفے خریدے ہیں؟
مستری سے کبھی دانت نکلوایا؟
رنگ والے سے کبھی بال کٹوائے؟
دھوبی سے کبھی جوتے پالش کروائے؟
ڈاکٹر کے کلینک میں بل جمع کروائے؟
بینک میں جا کر کبھی پاسپورٹ بنوائے؟

وہاں تمہاری بڑی عقل چلتی ہے کہ ہر چیز اسی کے مقام و ماہر سے ہی صحیح ہے،

"تو ایک دین ہی مظلوم ملا تھا جو دھوکے میں آگئے؟" 
کیوں گئے تھے "انجینیئر" سے دین کی بات پوچھنے؟
کیوں ایم بی بی ایس ڈاکٹر سے شرعی مسئلہ پوچھا تھا؟
کیوں محلے کے "حاجی" صاحب کا پائنچہ اونچا دیکھ کر ان سے عقائد پر بات کی تھی؟
 کیوں صرف داڑھی دیکھ کر تم ایک کیمسٹری کے طالب علم کو عالم سمجھ لیا؟ 

تم تو اتنے عقلمند تھے دنیا جہاں کی سمجھ رکھتے تھے بس یہیں پر معصوم بننا تھا؟
تو قصور کس کا ہوا؟
 تمہارا یا مولوی کا؟
تم نے سمجھا ہی نہیں ہے عالم ہوتا کون ہے
مدرسے کیا اہمیت رکھتے ہیں 
 دارالافتاء کسے کہتے ہیں۔

میں مانتا ہوں کالی بھیڑیں مولویوں میں بھی ہیں لیکن وہ کہاں نہیں ہیں؟
👈 کسی نے بڑی اچھی بات کی ہے کہ چوروں اور لٹیروں نے داڑھی رکھ لی ہے

دو نمبر لوگوں کے چکر میں کب تک اپنے ہی لوگوں کو گالیاں دوگے؟
تم نے ہی پلمبر سے دانت نکلوا لیا تو اس میں مولوی کا کیا قصور؟
کیوں تم دین سیکھنے صحیح لوگوں کے پاس نہیں جاتے؟
کیوں تم کو صرف دین ہی کے معاملے میں رائے زنی کا شوق ہے؟
آخر کب تک یہ "مُلا" اور "مسٹر" کی جنگ چلتی رہے گی؟
کب تمہاری عقلمندی یہاں فعال ہوگی؟
 کب یہ بالقصد معصومانہ رویہ ختم کرو گے؟

👈کہیں ایسا تو نہیں کہ مولوی کا نام لے کر دین اسلام سے نفرت کر رہے ہو؟

خدارا علمائے دین کی عزت کرو اپنی آنکھوں سے ظلمت، عصبیت اور نادانی کی پٹی اتار دو۔
اب بس کرو🙏 بس کرو🙏______________
مکمل تحریر >>

Wednesday 26 May 2021

انبیاء و اَولیاء سے اِستعانت و استغاثہ* *بعد اَز وصال حیاتِ اَنبیاء و اَولیاء* (متفقہ اکابرین و مفسرین کی آراء)

*انبیاء و اَولیاء سے اِستعانت و استغاثہ*
*بعد اَز وصال حیاتِ اَنبیاء و اَولیاء*
(متفقہ اکابرین و مفسرین کی آراء) 

معتزلہ کے علاوہ تمام اُمت کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ حیاتِ برزخیہ برحق ہے۔ معتزلہ نے درحقیقت مُردوں کی حیات کی نفی کر کے عذابِ قبر کا انکار کیا تھا۔ علامہ سعد الدین تفتازانیؒ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:

وأنکر عذاب القبر بعض المعتزلۃ والروافض لأن المیت جمادُ لا حیاۃ لہُ ولا إدراک فتعذیبہ محال.

تفتازاني، شرح عقائد نسفی: 72

’’بعض معتزلہ اور روافض نے عذابِ قبر کا انکار اس بنا پر کیا کہ ان کے نزدیک میت پتھروں کی طرح ہے جس میں نہ کوئی زندگی ہے نہ شعور اس لئے اسے عذاب دینا محال ہے۔‘‘

ہمارا موضوع بحث اِس وقت حیاتِ انبیاء و اولیاء نہیں ہے اِس موضوع پر ہماری مستقل کتاب ’’حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ موجود ہے۔ سرِ دست اس قدر بیان پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ عام اموات اور بالخصوص انبیاء علیہم السلام، شہداء اور اولیاء کی حیاتِ برزخی پر پوری اُمت کا اجماع ہے۔

اسی وجہ سے علامہ ابنِ قیم نے لکھا ہے:

والسلف مجمعون علی ہذا، وقد تواترت الآثار عنهم بأن المیت یعرف زیارۃ الحیی له ویستبشر به.

ابن قیم، الروح، 1: 5

’’سلف صالحین کا اس پر اجماع ہے اور ان سے تواترِ آثار سے مروی ہے کہ بے شک عام میت (قبر میں) اپنے پاس آنے والے زندہ کی زیارت کو پہچانتی ہے اور اس سے خوش ہوتی ہے۔‘‘

لہٰذا استعانت کے باب میں حیات و ممات کا امتیاز درست نہیںکیونکہ استعانت جسم سے نہیں روح سے ہوتی ہے اور روح نہ وقتِ وفات مرتی ہے نہ قبر میں مُردہ ہوتی ہے۔ وصال کے بعد اِستعانت کے بارے میں قرآن و حدیث میں متعدد دلائل موجود ہیں۔جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

1۔ امام فخر الدین رازیؒ نے آیت {اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ آتَیْنَاھُمُ الْکِتَابَ. (الانعام، 6: 89)} کے تحت ’’التفسیر الکبیر (13: 67، 68)‘‘ میں لکھا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو باذنِ الٰہی مخلوق کے ظاہر و باطن پر قدرت و تصرف کا اختیار حاصل ہے۔ {فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا} کے تحت امام فخر الدین رازیؒ لکھتے ہیں کہ قرآن حکیم میں وارِد ان پانچ کلمات - النازعات، الناشطات، السابحات، السابقات اور المدبرات - کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ ان سے مراد اَرواحِ انسانیہ ہیں:

ثم إِنَّ ہذہ الأرواح الشریفۃ العالیۃ لا یبعد أن یکون فیها ما یکون لقوتها وشرفها یظهر منها الآثار فی أحوال هذا العالم فهی المدبرات امراً ألیس أن الإنسان قد یری أستاذه فی المنام ویسأله عن مشکلۃ فیرشده إلیھا؟ ألیس أن الابن قد یری أباه فی المنام فیھدیه إلی کنز مدفون؟ ألیس أنّ جالینوس قال: کنت مریضاً فعجزت عن علاج نفسی فرَأیت فی المنام واحدًا أرشدنی إلی کیفیۃ العلاج.

رازی، تفسیر الکبیر، 31: 29

’’پھر یه بلند مرتبت ارواحِ طیبہ، بعید نہیں کہ ان میں ایسی اَرواح بھی ہوں جو اپنے شرف اور قوت کے لحاظ سے اس جہان کے احوال میں اثر انداز اور مدبرات امر کے مرتبہ پر فائز ہوں۔ جیسے کبھی شاگرد یا مرید کو کوئی مشکل پیش ہو تو اُستاد اور شیخ خواب میں اس کی رہنمائی کردیتا ہے اور کبھی باپ فوت ہوجانے کے بعد بیٹے کو مدفون خزائن کی خبر دے دیتا ہے۔ جالینوس نے کہا: جب میں اپنے مرض کے علاج میں ناکام ہوا تو میں نے خواب میں کسی کو دیکھا کہ اس نے مجھے طریقۂ علاج بتلایا (جس پر عمل پیرا ہو کر میں صحت یاب ہو گیا)۔‘‘

2۔ ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں:

أن التضییق والانحصار لا یتصور فی الروح. وإنما یکون فی الجسد والروح إذا کانت لطیفۃ یتبعها الجسد فی اللطافۃ فتصیر بجسدھا حیث شاء ت و تتمتع بما شاء ت وتأوی الی ما شاء اللہ لها کما وقع لنبینا علیه الصلوۃ والسلام فی المعراج۔ ولأتباعه من الأولیاء حیث طویت لهم الأرض وحصل لهم الأبدان المکتسبۃ المتعددۃ، وجدوھا فی أماکن مختلفۃ فی آن واحدٍ واللہ علی کل شیئٍ قدیر۔ وهذا فی العالم المبنی علی الأمر العادی غالباً فکیف وأمر الروح والآخرۃ کُلها مبنیۃ علی خوارق العادات.

ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 4: 31

’’محل اور مقام میںتنگی و پابندی اور قید و حبس روح کے لحاظ سے تصور نہیں کی جاسکتی بلکہ صرف جسد عنصری میں ہوتی ہے۔ روح جب لطیف اور پاکیزہ تر ہوجائے تو جسم بھی نورانیت اور لطافت میں اس کے تابع ہوجاتا ہے اور بدن کو جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے اور جہاں فائدہ اٹھاتا ہے اور جہاں تک اللہ تعالیٰ اسے پہنچانا چاہے پہنچاتا ہے جیسے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شبِ معراج یہ بلند ترین مقام نصیب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبع اولیاء اللہ کے لئے بھی جب کہ ان کے لئے زمین سمیٹ دی جاتی ہے اور انہیں بہت سے مثالی بدن حاصل ہوجاتے ہیں جنہیں وہ آنِ واحد میں مختلف مکانوں میں موجود پاتے ہیں اور اللہ جل شانہ ہر چیز پر کامل قدرت والا ہے۔ روح کے لئے یہ لطافت اور نورانیت اور قدرت و طاقت اس عالم میں ہے جو کہ غالباً اُمورِ عادیہ پر مبنی ہے اور جب یہاں ان اُمور میں استبعاد نہیں تو دارِ بقاء و آخرت میں کون سا اِستبعاد ہو سکتا ہے کیونکہ روح کے اور آخرت کے تمام معاملات خرقِ عادت پر مبنی ہیں۔‘‘

3۔ امام عبدالوہاب شعرانی (م 973ھ) مشہور ولی اللہ شیخ موسیٰ ابو عمران کے حالاتِ زندگی میں تحریر کرتے ہیں:

وکان إذا ناداہُ مریدہُ أجابہُ من مسیرۃ سنۃ أو أکثر.

شعراني، لواقع الأنوار في طبقات الأخیار، 2: 21

’’ابو عمران کا مرید جب اِن کو ایک سال یا اِس سے بھی زائد عرصہ سفر کی مسافت سے پکارتا تو وہ اِس کی پکار کا جواب دیتے تھے۔‘‘

4۔ شیخ عبدالحق محدّث دہلویؒ نے بعد از وصال اَولیاء اللہ کی ارواحِ مقدّسہ کے تصرف کے بارے میں لکھا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’قرآن و احادیث سے قطعاً ثابت ہے کہ روح باقی رہتی ہے فنا نہیں ہوتی۔ اِس کو زائرین اور اِن کے احوال کا علم و شعور بھی حاصل ہوتا ہے۔ کاملین کی ارواح کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عظیم میں قرب اُسی طرح ہوتا ہے جیسے حیاتِ دنیوی میں تھا بلکہ اِس سے بھی زیادہ۔ اولیاء اللہ کو کرامات اور دنیا میں تصرف حاصل ہے اور اِ س کا ثبوت صرف اُن کی ارواح کے لئے ہے اور ارواح باقی رہتی ہیں اور متصرف حقیقی بالذات و مستقل سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں اور تمام قدرت اُسی کی ہے اور وہ اولیاء اللہ اپنی حیاتِ ظاہری میں اور موت میں اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہو چکے ہیں پس اگر کسی شخص کو اِن کے واسطہ سے کچھ عطا کیا جائے اُس مرتبہ کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اِن کے لئے ثابت ہے تو یہ امر بعید نہیں ہے جیسا کہ زندگی میں اِن کو تصرف حاصل تھا۔ فعل اور تصرف ہرحال میں اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور کوئی چیز نہیں جو زندگی اور موت میں فرق کرے اور نہ ہی اس فرق پر کوئی دلیل پائی گئی ہے۔‘‘

عبدالحق، اشعۃ اللمعات، 1: 716

مزید بعد از وصال مدد و اِستعانت کے موضوع پر شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے ’’أشعۃ اللمعات (3: 401، 402)‘‘ پر سیر حاصل بحث کرکے ثابت کیا ہے کہ اہلِ قبور سے بعد از وصال استعانت و استمداد جائز ہے اور یہ کہ اولیاء اللہ ارادۂ الٰہی میں فنا ہوجانے کے باعث غیر نہیں رہتے۔ ان سے استعانت بھی حقیقت میں استعانت باللہ ہوتی ہے۔ وہ محض درمیان میں وسیلہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ انبیاء و اولیاء مظہرِ عونِ الٰہی ہیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے ’’لمعات التنقیح (1: 140، 141)‘‘ میں لکھا ہے کہ مرید کے استمداد و استعانت پر شیخ اس کی مدد کرتا ہے خواہ شیخ قریب ہو یا بعید، زندہ ہو یا وصال کر گیا ہو۔شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ علومِ ظاہری و باطنی کے مجمع البحرین علامہ سید عبدالاوّل جونپوریؒ کے بارے میں محققانہ کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

چہ نفس ولی و نبی قوتی می باید کہ در خارج بدن تصرف می کند ہمچنان کہ در بدن و چون روحِ مقدّس حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جان ہمہ عالم است باید کہ در ہمہ عالم است باید کہ در ہمہ اجزایئ عالم متصرف باشد و ازینجاست کہ باشارت قمر را دو شق کرد گوئیا فضلۂ ناخن از ناخن جدا فرمود.

عبدالحق، اخبار الاخیار: 255

’’انبیاء و اولیاء کے نفوس و ارواح ایسی قدرت و قوت حاصل کر لیتے ہیں کہ جسم سے باہر یعنی دوسری اشیاء میں اس طرح تدبیر و تصرّف کرتے ہیں جیسے کہ اپنے اجسام میں اور جب کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفسِ مبارک اور روح مقدّسہ تمام جہان کی جان ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ وہ تمام جہان میں متصرف ہو اور یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ سے چاند کو دو ٹکڑے کر دیا گویا ناخن کے زائد حصہ کو ناخن سے جدا فرما دیا۔‘‘

5۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ نے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’ہمعات‘‘ میں حضرت سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا مزار میں تصرف کرنے کے بارے میں لکھا ہے:

ودر اولیائے امت و اصحابِ طرق اقوی کسیکہ بعد تمام راہِ جذب باکد وجوہ باصل این نسبت میل کردہ است و در آنجا بوجہ اتم قدم زدہ است حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی اند۔ و لہذا گفتہ اند کہ ایشاں در قبر خود مثل احیاء تصرف می کنند.

شاہ ولي اللہ، ہمعات: 61

’’اولیائے امت اور اصحابِ طریقت میں سے قوی ترین حال کی حامل ہستی حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ہے جنہوں نے راہِ جذب کو پختہ ذرائع سے طریقت کی اصل سے جوڑا اور اس مقام پر کامل ترین قدم رکھا۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی قبر میں زندوں کی طرح تصرف کر رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے اسی کتاب کے صفحات نمبر 14، 60، 62، 83، 84 اور 121 پر اولیاء اللہ سے استعانت و استمداد اور ان کے روحانی تصرفات اور توجہات کے بارے میں لکھا ہے۔ یاد رہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ’’ہمعات‘‘ کوئی سطحی نظریات و تصورات کی حامل کتاب نہیں بلکہ یہ حکمتِ ولی اللّٰہی کے فہم کے لئے بنیادی اہمیت کی حامل کتاب ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی ’’ہمعات‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:

’’حکمت ولی اللّٰہی میں یہ رسالے ابتدائی قاعدوں (primers) کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں، اِس کے بعد امام ولی اللہ کی حکمت کی تعلیم شروع کی جاتی ہے۔‘‘

6۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ اَولیاء اللہ کی امداد بعد از وصال کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

از اولیاء مدفونین و دیگر صلحا مؤمنین اِنتفاع و استفادہ جاری است و آنہا را افادہ و اعانت نیز متصور بخلاف مردہ پائے سوختہ کہ این چیزہا اصلاً نسبت بآنہا در اہل مذہب آنہا نیز واقع نیست.

شاہ عبدالعزیز، تفسیر عزیزی، 30: 50

’’وفات یافتہ اَولیاء اللہ اور دیگر صالحین مؤمنین سے اِستفادہ اور استمداد و اِستعانت جاری و ساری ہے اور اِن اولیاء اللہ سے افادہ اور امداد بھی متصور ہے۔ برخلاف اُن لوگوں کے جن کو جلا دیا جاتاہے۔ اِس لئے کہ اِن سے یہ اُمور اِن کے مذہب میں بھی جائز نہیں ہیں۔‘‘

شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے ’’تفسیرِ عزیزی (1: 7 اور 30: 113)‘‘ میں بھی اولیاء اللہ سے استعانت و استمداد کے جواز کو ثابت کیا ہے۔

حکمتِ اِستعانت و توسُّل
جمہور اُمت کے نزدیک اِستعانت و توسل کی حکمت یہ ہے کہ اِس سے دعا أقرب اِلی الإجابت ہو جاتی ہے یا کم از کم امکانِ قبولیت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ بعض اولیاء و مقربین کی دعا سے قضاء مبرم بدل جاتی ہے۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ نے ’’تفسیر المظہری‘‘ میں سورۃ الرعد کی آیت نمبر 39 - یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ج وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِO - کے تحت حضرت عمر اور حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی شقاوت کو سعادت سے اور بعض اوقات سعادت کو شقاوت سے بدل دیتا ہے:

عن ابن مسعود في بعض الأثار أن الرجل قد یکون قد بقی لہ من عمرہ ثلاثون سنۃ فیقطع رحمہ فیرد إلی ثلاثۃ أیام والرجل قد یکون قد بقی لہ من عمرہ ثلاثۃ أیام فیصل رحمۃ فیمد إلی ثلاثین سنۃ۔ ثم روی البغوي بسندہ إلی أبي الدرداء رضی اللہ عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ینزل اللہ في أخر ثلاث ساعات یبقین من اللیل۔ فینظر في الساعۃ الأولی منھن في الکتاب الذي لا ینظر فیہ أحد غیرہ۔ فیمحو ما یشاء و یثبت.

قاضي ثناء اللہ، تفسیر المظہری، 5: 246

’’حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی بعض آثار میں آیا ہے: کسی شخص کی عمر تیس سال باقی ہوتی ہے کہ وہ اپنے رشتے داروں سے قطع تعلقی کرتا ہے تو اس بناء پر اس کی عمر تین دن کر دی جاتی ہے اور ایک آدمی کی بسا اوقات تین دن عمر باقی رہ گئی ہوتی ہے سو وہ صلہ رحمی کرتا ہے پس اس کی عمر تیس برس کر دی جاتی ہے۔ امام بغویؒ اپنی سند سے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کی ذات رات کی تین گھڑیوں میں جلوہ افروز ہوتی ہے تو وہ پہلی گھڑی میں کتاب (تقدیر) کو دیکھتا ہے جو اس کے علاوہ کوئی اور نہیں دیکھ سکتا پس وہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے۔‘‘

اس سے یہ امر مترشح ہوا کہ اولیاء اللہ اور مقربین کی دعاؤں سے تقدیر مبرم ٹل جاتی ہے۔ اسی مقام پر قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒنے تفصیلاً لکھا ہے کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے صاحبزادگان حضرت محمد سعید اور حضرت محمد معصوم کے معلم حضرت ملا طاہر لاہوری کی پیشانی سے لفظِ شقی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی دعا کی بدولت لفظِ سعید سے بدل گیا۔

رُوح کے لیے قرب و بعد کا معنی و مفہوم
یہ ایک بدیہی اَمر ہے کہ روح کیلئے قرب و بعد یکساں حقیقت کے حامل ہیں اوریہ کہ ارواحِ کاملین کو بعد از وفات بھی تدبیر و تصرف حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح دنیوی زندگی میں انسانوں کے مختلف مدارج ہیں۔ ان کی ذہنی، نفسیاتی، بدنی اور روحانی قوتیں ایک جیسی نہیں، بعینہٖ عالم برزخ میں اہلِ ایمان کے مختلف مدارج اور طبقات ہوتے ہیں۔ یہ طبقات اور مدارج یقینا ان کی دنیوی زندگی کے احوال پر منطبق ہونے والے انجام اور ثمرات کی بناء پر متشکل ہوں گے۔

1۔ برزخی احوال سے متعلق جن علماء اسلام نے اپنے اپنے حسبِ حال تفصیلات بیان کی ہیں ان میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا نام بطورِ خاص قابل ذکر ہے۔ شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی ؒنے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں برزخ کے چار مدارج تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ مزید آپ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ (1: 41، 42 )‘‘ اور ’’ہمعات (ص: 57)‘‘ پر مقبولانِ بارگاہ الٰہی اور راندۂ درگاہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ مقبولانِ بارگاہ ملاء اعلیٰ کی مخلوق ہیں اور راندۂ درگاہ ملاء سافل۔ ملاء اعلیٰ معزز اور مقرب فرشتوں پر مشتمل مجلسِ بالا ہے جس میں نیک اور مقرب انسانوں کی ارواح بھی شامل ہوتی ہیں۔ پھر انہوں نے ان کی تین اقسام پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور نتیجے کے طور پر ’’حجۃ اللہ البالغہ (1: 111)‘‘ پر لکھا ہے:

وإذا تمکنت العدالۃ من الإنسان وقع اشتراک بینہُ بین حملۃ العرش ومغربی الحضرۃ من الملائکۃ الذین ہم وسائط نزول الجود والبرکات وکان ذالک باباً مفتوحاً بینہ وبینہم وممد النزول ألوانہم وصبغہم بمنزلۃ تکمیل النفس من ألہام الملائکۃ والانبعاث حسبھا.

شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغۃ، 1: 111

’’پس جب انسان میں صفتِ عدالت متمکن ہو جاتی ہے تو اس میں اور حاملینِ عرش اور مقربین فرشتوں میں جو جودِ الٰہی اور برکاتِ الٰہی کے لئے ذریعہ و واسطہ ہیں، اِشتراک پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس میں اور ان فرشتوں میں فیضان کا دروازہ کھل جاتا ہے اور یہ صفت اس پر ان کے رنگ اور اثر نازل کرنے میں مددگار بن جاتی ہے۔ اس طور پر کہ نفس میں ملائکہ کے الہام سے مستفیض ہونے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ ان کے علوم کے لئے آمادہ رہتا ہے۔‘‘

2۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:

ارواحِ نیکاں بعد از قبض درآں جامی رسند و مقرّبان یعنی انبیاء و اولیاء درآں مستقر میمانند۔ وعوام صلحا بعد از نویسانیندن و رسانیندن نا مہائے بر حسبِ مراتب در آسمانِ دنیا یا درمیان آسمان و زمین یا در چاہ زمزم قرار می دہند و تعلق بقبر نیز ایں ارواح را میباشد کہ بحضور زیارت کنندگان واقارب و دیگر دوستان بر قبر مطلع و مستانس میگردند زیرا کہ روح را قرب وبُعد مکانی مانع ایں دریافت نمی شود.

شاہ عبدالعزیز، تفسیر عزیزی ، 1: 100

’’نیک لوگوں کی اَرواحِ قبض کیے جانے کے بعد علیین کے قیام میں پہنچ جاتی ہیں۔ انبیاء و اولیاء اسی مقام پر قرار پکڑتے ہیں۔ عام صلحاء و اتقیاء کی ارواح کے نام اعلیٰ علیین میں لکھوانے اور وہاں پہنچانے کے بعد ان کے مرتبہ و درجات کے مطابق آسمانِ دنیا میں یا آسمان و زمین کے درمیان زمزم کے چشمہ میں ٹھکانا دیتے ہیں اور ان ارواح کو قبر کے ساتھ بھی تعلق ہوتا ہے، حتی کہ زیارت کرنے والوں کی حاضری اور اقارب اور دوست احباب کی قبر پر آمد سے مطلع ہو جاتے ہیں اور اُنس و راحت و محبت حاصل کرتے ہیں کیونکہ روح کیلئے مکان کے لحاظ سے قریب یا بعید ہونا اس علم و اداراک میں رکاوٹ نہیں ہو سکتا۔‘‘

3۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 54 - وَ لَا تَقُوْلُوا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہ اَمْوٰتٌ - کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

إن اللہ تعالی یعطی لأرواحھم قوۃ الجساد فیذھبون من الأرض والسماء والجنۃ حیث یشاؤون وینصرون أولیاء ھم ویدمرون أعداء ھم إن شاء اللہ تعالی ومن أجل ذٰلک الحیٰوۃ لا تأکل الأرض أجسادھم ولا أکفانھم. قال البغوی: قیل أن أرواحھم ترکع و تسجد کل لیلۃ تحت العرش إلی یوم القیامۃ.

قاضي ثناء اللہ، تفسیر المظہري، 1: 152

’’اللہ تعالیٰ ان کی ارواح کو جسموں جیسی قوت عطا کرتا ہے سو وہ زمین، آسمان اور جنت میں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے اولیاء (دوستوں، ساتھیوں) کی مدد کرتے ہیںاور اپنے دشمنوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں اور اسی زندگی کے سبب زمین ان کے جسموں اور کفنوں کو نہیں کھاتی۔ امام بغویؒ نے فرمایا: یہ بھی قول ہے کہ ان کی ارواح قیامت تک ہر رات اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے رکوع و سجود کرتی رہیں گی۔‘‘

قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ مزید لکھتے ہیں:

ولذلک قالت الصوفیۃ العلیۃ: أرواحنا أجسادنا وأجسادنا أرواحنا وقد تواتر عن کثیر من الأولیاء أنھم ینصرون أولیاء ھم ویدمرون أعداء ھم ویہدون إلی اللہ تعالٰی من یشاء اللہ تعالٰی.

قاضي ثناء اللہ، تفسیر المظہري، 1: 152

’’اسی لئے بلند پایہ صوفیاء کا قول ہے: ہماری ارواح ہمارے جسم اور ہمارے جسم ہماری ارواح ہیں اور بہت سے اولیاء سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی مدد کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں اور جسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔‘‘

4۔ علامہ ابنِ قیم اس حوالے سے لکھتے ہیں:

فللروح المطلقۃ من أسر البدن وعلائقہ وعوائقہ من التصرف والقوۃ والنفاذ والھمۃ وسرعۃ الصعود إلی اللہ والتعلق باللہ، ما لیس للروح المھینۃ المحبوسۃ فی علائق البدن و عوائقہ۔ فإذا کان ھذا وھی محبوسۃ فی بدنھا فکیف إذا تجردت و فارقتہ واجتمعت فیھا قواھا وکانت فی أصل شانھا روحاً علیۃ زکیۃ کبیرۃ ذات ھمۃ عالیۃ فھذہ لھا بعد مفارقۃ البدن شان آخر و فعل آخر.

ابن قیم، کتاب الروح: 103

’’جسم کی قید سے آزاد اور اس کے تعلقات اور عوارضات و موانعات سے مبرا روح کیلئے ایسا تصرّف، قوت، نفوذ، ہمت اور اللہ رب العزت کی طرف فوری طور پر بلند ہونے اور اس سے تعلق قائم کرنے کی قوت و صلاحیت حاصل ہوتی ہے، جو جسم کی قید میں مقید و محبوس اور بدنی تعلقات اور عوارضات و موانعات میں جکڑی ہوئی روح کو حاصل نہیں ہوتی۔ روح کا جب جسم سے محبوس و مقید ہوتے ہوئے یہ حال ہے تو اس وقت اس کی حالت کیا ہو گی جب جسم سے مجرد اور جدا ہو جائے او راس میں اس کی تمام تر قوتیں جمع ہو جائیں اور اپنی حالت کے اعتبار سے بھی پاکیزہ فطرت، بلند ہمت اور عالی قدر ہو تو جسم سے مفارقت و جدائی کے بعد اس کی شان نرالی ہو گی اور فعل و تاثیر بھی انوکھی و عمدہ ہو گی۔‘‘

کعبۃ اللہ مسجود لہٗ نہیں مسجود اِلیہ ہے
حقیقت اور مجاز کے ضمن میں ایک تمثیل ملاحظہ کیجئے۔ جو لوگ اولیاء اللہ کے مزارات پر بوقتِ حاضری اِستمداد کرتے ہیں وہ اُنہیں مستعانِ حقیقی سمجھ کر استعانت و اِستغاثہ نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ کامل اُمید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے مقبول اور محبوب بندوں کے مقامات اور اطاعت و اعمالِ صالحہ کے طفیل ہماری خطاؤں کو معاف فرما دے گا۔ یہ اس طرح ہے جیسے لوگ کعبۃ اللہ میں جا کر یا دور سے اسی رخ پر سجدہ کرتے ہیں ۔ بیت اللہ شریف بھی پتھروں سے تعمیر کیا ہوا ایک مکان ہے اور وہ بھی یقینا اللہ تعالیٰ کا غیر ہے عین نہیں۔ پھر جمادات یعنی پتھروں کے ساتھ اس قدر تعظیم کا سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟ اللہ رب العزت نے تو صرف اپنی ذات کو سجدہ جائز قرار دیا ہے اور اپنی ہی عبادت کو جائز کیا ہے۔ پتھروں کی طرف رُخِ سجدہ کرنے کا آخر کیا مطلب ہے صاف ظاہر ہے وہ کعبۃ اللہ کی عبادت نہیں مگر اس میں اس کی تعظیم تو یقینا مضمر ہے۔ یہی معاملہ طواف اور دیگر بہت سے اُمور کا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کعبہ معظمہ کی سمت سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ بیت اللہ شریف میں حاضری کے وقت بظاہر دیوارِ کعبہ سے لپٹ کر ہم رو رہے ہوتے ہیں۔ التجائیں کر رہے ہوتے ہیں، مگر کبھی کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ بیت اللہ شریف کی دیواروں میں چنے ہوئے پتھروں کو ہم اپنا معبود گردانتے ہیں یا اُن سے مرادیں اور حاجات مانگتے ہیں تو پھر اُن لوگوں کے حق میں یہ بدگمانی کیوں کی جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں اور وہاں اللہ تعالیٰ سے دُعا و التجا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے توسل اور برکت سے ہماری حاجات پوری فرما دے گا۔ مسجود اِلیہ تو پتھروں ہی کا بنا ہوا گھر تھا مگر وہ مسجود لہ نہیں تھا۔ اِس سے ثابت ہوا کہ ہم دن میں کئی مرتبہ غیر اللہ کی سمت سجدہ کرتے ہیں اور یہ سجدے کر کے بھی مسلمان ہی رہتے ہیں۔

اِسی طرح ہم مقامِ ابراہیم کی سمت - جو کہ حضرت ابراہیم ں کے قدموں کے نشان والا پتھرہے - رُخ کرکے نماز پڑھنے کے بعد بھی مسلمان ہی رہے۔ کیوں؟ صرف اِسی لئے کہ ہمارے نزدیک مسجود وہ پتھر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ سو اِسی دلیل کی بنیاد پر یہ عمل بھی استوار ہے کہ جب ہم روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں تو وہاں بھی مرادیں اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتے ہیں اور ان کو وسیلہ بناتے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی نسبت کا مظہر کعبۃ اللہ کو قرار دیا ہے اِسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء و اولیاء بھی اپنے اپنے مقام اور مرتبہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مظہر ہیں۔ بقول غالب:

پرے ہے حدِ اِدراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

اس ساری بحث سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوگئی ہے کہ مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کی ارواح بعد از وصال مُدَبِّرَاتِ اَمر میں سے بن جاتی ہیں او رملائِ اعلیٰ کے ساتھ شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے اذن اور مشیت کے مطابق تدبیر و تصرّف کرتی ہیں اور اہلِ محبت کی بالخصوص مدد کرتی ہیں، لہٰذا ان سے ان کی شان کے لائق استمداد و استعانت کرنا اسی طرح جائز، مباح اور صحیح ہے جیسے کہ حیاتِ ظاہری میں مباح اور مستحسن ہے۔

حیاتِ ظاہری اور حیاتِ برزخی میں فرق روا رکھنا باطل ہے کیونکہ بعض ائمہ کے نزدیک بعد از وصال امداد و اعانت قوی طریقہ پر متحقق ہو جاتی ہے لہٰذا معترضین اور منکرین کا انبیاء و اولیاء کو بعد از وصال اس دنیا میں رہنے والے اعانت کے طلب گاروں سے بے خبر غافل اور لاتعلق بتلانا اور بتوں والی آیات ان پرمنطبق کرتے ہوئے ان کی امداد و اعانت سے عاجز و قاصر اور مجبور و معذور اور بے بس قرار دینا باطل ہے۔
مکمل تحریر >>

Monday 24 May 2021

نامِ رسالت سن کر انگوٹھے چومنا

نامِ رسالت سن کر انگوٹھے چومنا:دورانِ اذان جب مؤذن اَشۡہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوۡلُ اللہ کہے تو اس کو دُہرا کر اپنے دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانا مستحب ہے۔ اس میں دینی و دنیاوی بہت سے فوائد ہیں اور اس کے متعلق حدیثوں میں ترغیب بھی دلائی گئی ہے۔ حضرتِ سَیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مُؤذِّن سے اَشۡہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوۡلُ اللہ سُن کر اِسے دُہرایا اور دونوں انگوٹھے چوم کر اُنہیں آنکھوں سے لگایا تو سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنۡ فَعَلَ مِثۡلَ مَا فَعَلَ خَلِیۡلِیۡ فَقَدۡ حَلَّتۡ عَلَیۡہِ شَفَاعَتِیۡ یعنی جو شخص میرے اِس پیارے دوست کی طرح کرے اُس کے لئے میری شفاعت حلال ہوگئی۔(فیضانِ صدیق اکبر،ص187)

آنکھیں کبھی نہ دُکھیں گی: حضرتِ سَیِّدُنا امام حَسَن رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے ارشاد فرمایا: جو شخص مؤذن سے اَشۡہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوۡلُ اللہ سُن کر کہے: مَرۡحَبًا بِحَبِیۡبِیۡ وَقُرَّۃِ عَیۡنِیۡ مُحَمَّدِ بۡنِ عَبۡدِ اللہ پھر دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھے، وہ کبھی اندھا نہ ہوگا اور نہ ہی  اُس کی آنکھیں کبھی دکھیں گی 
۔(مقاصدِ حسنہ، ص 391، حدیث: 1021)
پیچھے پیچھے جنت میں: حضرتِ عَلّامَہ ابنِ عابِدِین شَامی قُدِّسَ  سِرُّہُ السّامی فرماتے ہیں: اذان میں پہلی مرتبہ اَشۡہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوۡلُ اللہ سننے پر صَلَّی اللہُ عَلَیۡکَ یَارَسُوۡلَ اللہ کہنا اور دوسری مرتبہ سننے پر قُرَّۃُ عَیۡنِیۡ بِکَ یَارَسُوۡلَ اللہ کہنا مستحب ہے۔ اس کے بعد اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو آنکھوں پر رکھے اور کہے: اَللّٰہُمَّ مَتِّعۡنِیۡ بِالسَّمۡعِ وَالۡبَصَر تو ایسا کرنے والے کو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے۔ (رد المحتار،ج2، ص84)

(حکایت)بیماری دور ہوگئی: ایک شخص کا بیان ہے کہ میں  نےمشہورمُحدِّث حضرت سَیِّدُناشیخ نورُالدّین خراسانی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی کو اذان کے وقت دیکھا کہ جب مؤذن نے اَشۡہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوۡلُ اللہ کہا تو دونوں مرتبہ آپ نے انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگائے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو ارشاد فرمایا: میں پہلے یہ عمل کیا کرتا تھا، پھر اِسے ترک کر دیا تو میری آنکھوں میں بیماری ہوگئی۔ میں نے خواب میں سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی اور آپ نے ارشاد فرمایا: تم نے اذان میں میرے ذکر کے وقت آنکھوں پر انگوٹھے پھیرنا کیوں ترک کر دیا؟ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری آنکھیں ٹھیک ہو جائیں تو پھر سے یہ عمل شروع کردو۔ بیداری کے بعد میں نے یہ عمل دوبارہ شروع کر دیا، اس کی برکت سے میری آنکھیں درست ہوگئیں اور اب تک دوبارہ وہ بیماری نہیں ہوئی۔(مواہب الجلیل، ج2،ص101، ملخصاً)
انگوٹھے چومنے کی احتیاطیں: نماز پڑھتے وقت نیز قراٰنِ پاک اور خطبۂ جمعہ وغیرہ سنتے وقت انگوٹھے نہیں چومنے چاہئیں۔ نماز میں اِس کے منع ہونے کی وجہ تو ظاہر ہے، قراٰنِ پاک اور خطبہ سنتے وقت اِس لئے کیونکہ اس وقت تمام کام کاج روک کر مکمل توجہ سے اِنہیں سننے کا حکم ہے۔ نامِ رسالت سُن کر انگوٹھے ہونٹوں پر رکھ کر آنکھوں سے لگالئے جائیں، چومنے کی آواز نہیں نکلنی چاہئے۔(فتاویٰ رضویہ، ج22،ص316، ملخصاً)

لب پر آجاتا ہے جب نامِ جناب، منہ میں گھل جاتا ہے شہدِ نایاب

وَجْد میں ہوکے ہم اے جاں بیتاب اپنے لب چُوم لیا کرتے ہیں

(حدائقِ بخشش، ص 114
مکمل تحریر >>

Sunday 23 May 2021

انہدام جنت البقیع پرایک مفصل تحقیق: ”آلِ سعود نسلِ یہود“ پیش کردہ ازمحمد عثمان صدیقی (بشکریہ محققِ عرب محمدساخراورنیوز ایجنسی TNA)

انہدام جنت البقیع پرایک مفصل تحقیق:
”آلِ سعود نسلِ یہود“
پیش کردہ ازمحمد عثمان صدیقی
(بشکریہ محققِ عرب محمدساخراورنیوز ایجنسی TNA)
احباب سعودی عرب دنیا کی وہ واحد مملکت ہے جس کا نام کسی خاندان کے نام پر ہے، سعودی عرب پر فرمانروا خاندان آل سعود کا پس منظر کیا ہے؟
 اس خاندان کے آباء و اجداد کون ہیں؟
اس خاندان کا تعلق کیا واقعی عرب کے مشہور خاندان عنزہ سے ہے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے؟
کیا آل سعود حقیقت میں عربی النسل ہیں؟ یا یہ کسی اور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور کیا ان کے آباء و اجداد مسلمان تھے یا ان کا تعلق کسی دوسرے مذہب سے تھا؟
یہ وہ تمام سوالات تھے جو تحقیق طلب تھے، چنانچہ اس تحقیق کا بیڑاایک محقق محمد ساخر نے اٹھایا،(محمد ساخر کی یہ ریسرچ اس کے لیے موت کا پروانہ لے کر آئی اور سعودی حکام نے اپنی اصل حقیقت سامنے آنے پر اس شخص کو سزائے موت دے دی)۔
اب مفصل انداز میں ہم آپ کو کوبتاتے ہیں کہ عرب شریف پر قابض ہزاروں بے بےگناہ مسلمانوں کو شہید کرنے والا قاتل جنت البقیع کو منہدم کرنے والا درندہ ڈاکو لٹیرا  بدبخت سعود اصل میں ایک منافق یہودی ”مردخائی“ کا پوتاتھا۔
851 ہجری میں قبیلہ عنزہ کی ایک شاخ آل مسالیخ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے ایک تجارتی کارواں تشکیل دیا جس کا مقصد عراق سے غذائی اجناس خرید کر انہیں نجد لانا تھا، اس قافلے کا سالار سامی بن مثلول تھا، اس قافلے کا گزر جب بصرہ کے بازار سے ہوا تو قافلے کے کچھ لوگوں نے اشیائے خورد و نوش خریدنے کے لیے بصرہ کے بازار کا رخ کیا، وہاں وہ ایک تاجر کے پاس پہنچے، یہ تاجر یہودی تھا، اس کا نام مردخائی بن ابراہیم بن موسیٰ تھا،خرید و فروخت کے دوران اس تاجر نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کا تعلق عنزہ قبیلے کی ایک شاخ المسالیخ سے ہے، یہ نام سننا تھا کہ یہودی کھڑا ہوا اور وہ ان میں سے ہر فرد سے بڑے تپاک کے ساتھ گلے ملا، اس نے بتایا کہ وہ خود اس قبیلے کی شاخ سے تعلق رکھتا ہے لیکن اپنے والد کے عنزہ قبیلے کے بعض افراد سے ایک خاندانی جھگڑے کی وجہ سے اس نے بصرہ میں آکر رہائش اختیار کر لی، اس نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ قافلے والوں کے تمام اونٹوں پر گندم، کھجور اور چاول کی بوریاں لاد دی جائیں، یہودی تاجر کے اس رویے نے قافلے والوں کو حیران کر دیا، وہ انتہائی خوش ہوئے کہ عراق میں ان کے ایک خاندان کا فرد مل گیا ہے، جو ان کے رزق کا وسیلہ ہے، انہوں نے اس کی ہر بات پر من و عن یقین کر لیا، اگرچہ وہ تاجر یہودی تھا لیکن چونکہ المسالیخ قبیلے کے لوگوں کو اناج کی شدید ضرورت تھی لہٰذا انہوں نے اس کی مہمان نوازی کو اپنے لیے غنیمت جانا، جب قافلہ اپنا واپسی کا رخت سفر باندھ رہا تھا تو اس نے اہل قافلہ سے درخواست کی کہ وہ اگر اسے بھی اپنے ہمراہ لے چلیں تو یہ اس کے لیے بڑی خوش بختی ہوگی، کیونکہ اس کی عرصہ دراز سے خواہش ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے وطن کو دیکھے، نجد پہنچ کر اس نے لوگوں سے راہ و رسم بڑھانا شروع کر دی اور کئی افراد کو اپنی چرب زبانی کی بنا پر، اپنے حلقہ اثر میں لانے میں کامیاب ہوگیا، لیکن غیر متوقع طور پر اسے وہاں القسیم سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما شیخ صالح السلمان عبد اللہ رحمہ اللہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ان مذہبی عالم کی تبلیغ کا دائرہ نجد، یمن اور حجاز تک پھیلا ہوا تھا، یہودی کو اس شخص کی مخالفت کی وجہ سے مجبوراً یہ علاقہ چھوڑنا پڑا اور وہ القسیم سے الاحصاء آگیا، یہاں آکر اس نے اپنا نام تبدیل کر دیا اور مردخائی سے مرخان بن ابراہیم موسیٰ بن گیا، پھر وہ یہاں سے القطیف کے قریب ایک علاقہ دراعیہ میں قیام پذیر ہوگیا، یہاں اس نے مقامی باشندوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک من گھڑت کہانی کا سہارا لیا، کہانی یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں اور کفار کے مابین لڑی جانے والی جنگ احد میں ایک کافر کے ہاتھ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھال لگ گئی، اس کافر نے یہ ڈھال بنو قنیقہ کے ہاتھ فروخت کر دی، بنو قنیقہ نے اسے ایک بیش بہا خزانہ سمجھتے ہوئے اپنے پاس محفوظ رکھا، یہودی تاجر نے اس علاقے کے بدؤوں کے درمیان اس طرح کی کہانیاں پھیلانا شروع کر دیں، ان من گھڑت کہانیوں کے ذریعے وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ عربوں میں یہودی قبائل کا کتنا اثر ہے اور وہ کس قدر لائق احترام ہیں، اس نے اس طریقے سے عرب دیہاتیوں، خانہ بدوشوں، بدو قبائل اور سادہ لوح افراد میں اپنا ایک مقام و مرتبہ بنا لیا، آخر اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ مستقل طور پر القطیف کے قریب درعیہ قصبے میں قیام کرے گا اور اسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے گا، اس کے خیال میں یہ علاقہ عرب میں بڑی یہودی سلطنت کے قیام کے لیے راہ ہموار کرے گا، اپنے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے اس نے عرب کے صحرائی بدؤوں سے روابط شروع کر دیے، اس نے اپنے آپ کو ان لوگوں کا ملک یعنی بادشاہ کہلوانا شروع کردیا، اس موقع پر دو قبائل قبیلہ عجمان اور قبیلہ بنو خالد اس یہودی کی اصلیت کو جان گئے اور فیصلہ کیا کہ اس فتنے کو یہیں ختم کر دیا جائے، دونوں قبائل نے باہم اس کے مرکز درعیہ پر حملہ کردیا اور اس قصبے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جبکہ مردخائی جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور العارض کے نزدیک المالی بید غثیبہ کے نام سے ایک فارم میں پناہ لی۔ یہی العارض آج ریاض کے نام سے جانا جاتا ہے، جو سعودی عرب کا دارالخلافہ ہے، مرد خائی نے اس فارم کے مالک ۔۔ کہ جو بہت بڑا زمیندار تھا ۔۔ سے درخواست کی کہ وہ اسے پناہ دے، فارم کا مالک اتنا مہمان نواز تھا کہ اس نے مرد خائی کی درخواست قبول کرلی اور اسے اپنے یہاں پناہ دے دی لیکن مردخائی کو اپنے میزبان کے پاس ٹھہرے ہوئے ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اس نے اپنے محسن اور اس کے اہل خانہ کو قتل کردیا اور بہانہ یہ کیا کہ ان تمام کو چوروں کے ایک گروہ نے قتل کیا ہے، اس کے ساتھ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس افسوس ناک واقعہ سے قبل اس نے اس زمیندار سے اس کی تمام جائیداد خرید لی تھی، لہٰذا اب اس کا حق بنتا ہے کہ اب وہ یہاں ایک بڑے زمیندار کی حیثیت سے رہے، مرد خائی نے اس جگہ پر قبضہ جمالینے کے بعد اس کا نام تبدیل کر کے اپنے پرانے کھوئے ہوئے علاقے کے نام پر آل درعیہ رکھا اور اس غصب شدہ زمین پر فوراً ہی ایک بڑا مہمان خانہ تعمیر کروایا جس کا نام اس نے مضافہ رکھا، یہاں رہتے ہوئے اس نے آہستہ آہستہ اپنے مریدین کا ایک حلقہ بنا لیا جنہوں نے لوگوں کے درمیان یہ غلط طور پر مشہور کرنا شروع کردیا کہ مرد خائی ایک مشہور عرب شیخ ہے، کچھ عرصے بعد اس نے اپنے اصل دشمن شیخ صالح سلمان عبداللہ التمیمی کو ایک منصوبے کے تحت قصبہ آل زلافی کی مسجد میں قتل کروادیا، اس اقدام کے بعد وہ ہر طرف سے مطمئن ہوگیا اور درعیہ کو اپنا مستقل ٹھکانابنا لیا، درعیہ میں اس نے کئی شادیاں کیں، جن کے نتیجے میں وہ درجنوں بچوں کا باپ بنا، اس نے اپنے ان تمام بیٹے بیٹیوں کے نام خالص عرب ناموں پر رکھے، یہودی مرد خائی کی یہ اولاد ایک بڑے عرب خاندان کی شکل اختیار کر گئی، اس خاندان کے لوگوں نے مرد خائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیر قانونی طریقوں سے لوگوں کی زمینیں ہتھیانا شروع کردیں اور ان کے فارموں پر قبضہ کرنا شروع کردیا، اب یہ اس قدر طاقتور ہوگئے کہ جو کوئی بھی ان کی شر انگیزیوں کے خلاف آواز اٹھاتا اسے قتل کروا دیتے، یہ اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے، اپنے اثر و رسوخ کو مزید بڑھانے کے لئے انہوں نے رابعہ عنزہ اور المسالیخ جیسے مشہور عرب قبائل کو اپنی بیٹیاں دیں، مرد خائی کے لاتعداد بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا نام المقارن تھا، المقارن کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا گیا تھا، محمد کے بعد القارن کے ہاں اس کے دوسرے بیٹے نے جنم لیا جس کا نام سعود رکھا گیا، یہودی مردخائی کے اسی بیٹے کی نسل بعد میں آل سعود کہلائی اس وقت کہ جب میں یہ تحقیق پیش کررہا ہوں آل سعود کی تعداد 200 شہزادوں اور 25000 نفوس تک پہنچ چکی ہے
انیسویں صدی عیسوی میں آل سعود کو کیسے انگریزوں نے استعمال کرکے سلطنت عثمانیہ ختم کروائی یہ ایک الگ موضوع ہے مگرفی الوقت انہدام جنت البقیع کے حوالے سے معروضات پرہی اکتفاکررہاہوں
تو احباب ”بقیع“ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جنگلی پیڑ پودے بکثرت پائے جاتے ہوں اور چونکہ بقیع قبرستان کی جگہ میں پہلے جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹے عوسج یعنی غرقد کے پیڑ بکثرت تھے اس لیے اس قبرستان کا نام بھی بقیع غرقد پڑ گیا، اس کا محل وقوع یہ ہے کہ یہ قبرستان مدینہ منورہ کی آبادی سے باہر مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں واقع ہے، اس کے ارد گرد مکانات اور باغات تھے اور تیسری صدی میں جو مدینہ منورہ کی فصیلی دیوار تعمیر ہوئی اس سے یہ ملا ہوا تھا، اس فصیل کی تجدیدات متعددبار ہوئی ہے، جن میں آخری تجدید عثمانی ترکی دور میں سلطان سلیمان قانونی کے زمانہ میں ہوئی، پھر اس ملک میں امن قائم ہوجانے کے بعد اس فصیلی دیوار کو منہدم کر دیا گیا، پھر مسجد نبوی شریف کی آخری توسیع میں اس قبرستان اور مسجد نبوی شریف کے درمیان جو مکانات تھے ان سب کو منہدم کر دیا گیا، ان دنوں کے درمیان جو محلہ آباد تھا، وہ اغوات کے نام سے مشہور تھا، مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں اب یہ بقیع قبرستان مسجد نبوی شریف کے خارجی صحن سے مل چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات مہاجرین رضوان اللہ اجمعین نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت کر کے اپنا مسکن و وطن بنایا، تو اس شہر مبارک میں مزید تعمیری و تمدنی ترقی ہونے لگی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ کوئی مناسب جگہ مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے متعین ہو جائے،اسی مقصد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس(بقیع کی)جگہ تشریف لائے،تو ارشاد فرمایا: مجھے اس جگہ(یعنی بقیع) کا حکم(قبرستان کے لیے)دیا گیا ہے۔(مستدرک امام حاکم 11/193)اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس (بقیع کی)جگہ مسلمانوں کا قبرستان بنانے کا حکم فرمایا تھا اور یہیں سے اس جگہ یعنی بقیع قبرستان کی فضیلت کی ابتدا ہوتی ہےجنت البقیع میں تقریباً دس ہزار صحابہ، کئی امہات المؤمنین، ہلبیت آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم،سینکڑوں اولیاء اللہ، صوفیا، علماء، محدثین اورسلطنت عثمانیہ کے خلفاو دیگر مدفون ہیں۔
دوررسالت میں سب سے پہلے انصار مدینہ میں اسعد بن زرارہ اور عثمان بن مظعون رضوان علیہ اجمعین اس قبرستان میں دفن کیے گئے،سلطنت عثمانیہ میں مؤرخین نے تحقیق کی روشنی میں کئی اہم شخصیات کی قبروں کی نشان دہی کی اور وقت گزرنے کے بعد جب زیادہ قبریں ہوتی گئیں تو بہت سے مزارات اور گنبد مخصوص شخصیات کی عزت وتوقیر کے طورتعمیر کیے گئے جو پچھلی صدی میں انہدام سے سےقبل باقی تھے۔ اور آل سعود نے یوم الہدم کے تاریخی سیاہ واقعے میں سب اجاڑ دیے۔
جنت البقیع میں مدفون دس ہزارسے زائد اللہ کی نیک ہستیوں میں اولادِ سیدی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
 حضرت خاتون جنت سیدہ فاطمہ بنت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ام کلثوم بنت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت رقیہ بنت سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت زینب بنت محمدصلی اللہ علیہ وسلم
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ بنت ابی بکررضی اللہ عنہا، حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی
حضرت حفصہ بنت عمررضی اللہ عنہ
حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ
حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہ
حضرت ام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیان رضی اللہ عنہ
حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہ
حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہ
صحابہ و دیگر شخصیات :
حضرت عثمان بن مظعون،رضی اللہ عنہ صحابی پہلے مدفون بقیع
حضرت اسعد بن زرارہ، صحابی رضی اللہ عنہ دوسرے مدفون بقیع
حضرت عثمان بن عفان، داماد رسول و تیسرے خلیفہ راشد
رضی اللہ عنہ حضرت اروی بنت کریزرضی اللہ عنہ خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان کی والدہ ہرضی اللہ عنہ
حضرت عبدالرحمن بن عوف، صحابی رضی اللہ عنہ  عشرہ مبشرہ میں سے ایک۔
حضرت سعید بن زیدرضی اللہ عنہ، صحابی عشرہ مبشرہ میں سے ایک۔
حضرت سعد بن معاذ، صحابی رضی اللہ عنہ۔
حضرت ابو سفیان بن حرب صحابی رضی اللہ عنہ
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ، تابعی
حضرت عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعودرضی اللہ عنہ، تابعی
حضرت عروہ بن زبیررضی اللہ عنہ تابعی
حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکررضی اللہ عنہ تابعی
ابوبکر بن عبدالرحمان رضی اللہ عنہ، تابعی مذکورہ پانچ فقہا سات معروف فقہائے مدینہ میں سے ہیں
حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ، تابعی فقیہ مدینہ منورہ۔
حضرت سالم بن عبد اللہ، رضی اللہ عنہ تابعی
حضرت خارجہ بن زید بن ثابت، تابعی رضی اللہ عنہ 
حضرت سلیمان بن یسار، رضی اللہ عنہ تابعی
حضرت ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف، تابعی فقیہ مدینہ منورہ۔رضی اللہ عنہ
حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ، آپ فقہ مالکی کے بانی و فقيہ مسلم۔
حضرت شمس الدین سخاوی، محدث ومؤرخ مؤرخ مصري۔
امام شامل، قفقاز۔رحمتہ اللہ علیہ
شیخ محمد غزالی سقا عالم ومفكر اسلام رحمتہ اللہ علیہ
حضرت محمد سید طنطاوی ، شيخ الأزهر۔رحمتہ اللہ علیہ
جناب محمد ادریس سنوسی، ملك لیبیا رحمتہ اللہ علیہ۔
حضرت سلطان عبد المجید ثانی، خلیفہ سلطنت عثمانیہ۔رحمتہ اللہ علیہ یہ نام تو کچھ ہی ہیں مگر ہزاروں کی تعداد میں جید ہستیاں اس سرکارصلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مختص کردہ قبرستان میں پردہ فرماہیں
8 شوال 1344 ہجری بمطابق 21 اپریل 1926ء بدبخت سعودی دہشت گردوں نے ہلہ بول دیا اورمکمل طور پرصحابہ و اہلبیت آئمہ اربعہ تابعین تبع تابعین آئمہ مجتہدین کے مزارات بلڈوزروں سے منہدم کرکے تمام قیمتی سامان غارت کرکے چوری کرلیا۔ ان جنگجودہشت گردوں کا اگلا ٹارگٹ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک کامعاذاللہ انہدام تھا جو دنیا بھرسے مسلمانان عالم کے غصے کی وجہ سےیہ نہ کرسکےمگر آل سعودعبدالوہاب نجدی کی فکرکوبدمعاشی کےزور پرحرمین شریفین پر مسلط کردیا گیا 1932 سے جدید انداز میں ملک سعودی عرب کی بنیاد پڑی تب سے سرکاری سرپرستی میں جنت البقیع کو چٹیل میدان کی صورت ہی رکھاہواہےوہاں دوران عمرہ وحج دنیابھرسےآئے سادہ لوح مسلمانان عالم کوجنت البقیع شریف کابلڈوزکیاگیا چٹیل میدان دکھاکرکہا جاتاہے یہ دیکھویہاں تو کوئی مزار نہیں تم لوگ ہی اللہ کے ولیوں کے بڑے بڑے مزارات بناتے ہو۔اس بلڈوزر سے پھیری گئی سیاہی سے پٌر تاریخ کو نہ جاننے والا یہ سادہ لوح حاجی ان مکاروہابیوں کی باتوں میں آکرگمراہ ہوجاتاہے۔اس مفصل تحریر میں آپ کو بتایاگیاکہ آل سعود مردخائی نامی منافق یہودی کی نسل سے ہیں اور اب ان کی شرانگیزیوں فتنہ گری اور یہود وہنودسے میل ملاپ صلیبیوں کے مفادات کا تحفظ بھی یہی ثابت کرتاہے کہ انکی اصل یہود ہی ہے۔
استاد قمرجلالوی کیا خوب فرماگئے
پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
بے مثل یہودی بھی سعودی ہے عذاب
اس قوم کےبارے میں قمر کوئی کیا لکھے
کعبے کی کمائی سے جو پیتی ہے شراب
مکمل تحریر >>

انہدام جنت البقیع پرایک مفصل تحقیق: ”آلِ سعود نسلِ یہود“ پیش کردہ ازمحمد عثمان صدیقی (بشکریہ محققِ عرب محمدساخراورنیوز ایجنسی TNA)

انہدام جنت البقیع پرایک مفصل تحقیق:
”آلِ سعود نسلِ یہود“
پیش کردہ ازمحمد عثمان صدیقی
(بشکریہ محققِ عرب محمدساخراورنیوز ایجنسی TNA)
احباب سعودی عرب دنیا کی وہ واحد مملکت ہے جس کا نام کسی خاندان کے نام پر ہے، سعودی عرب پر فرمانروا خاندان آل سعود کا پس منظر کیا ہے؟
 اس خاندان کے آباء و اجداد کون ہیں؟
اس خاندان کا تعلق کیا واقعی عرب کے مشہور خاندان عنزہ سے ہے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے؟
کیا آل سعود حقیقت میں عربی النسل ہیں؟ یا یہ کسی اور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور کیا ان کے آباء و اجداد مسلمان تھے یا ان کا تعلق کسی دوسرے مذہب سے تھا؟
یہ وہ تمام سوالات تھے جو تحقیق طلب تھے، چنانچہ اس تحقیق کا بیڑاایک محقق محمد ساخر نے اٹھایا،(محمد ساخر کی یہ ریسرچ اس کے لیے موت کا پروانہ لے کر آئی اور سعودی حکام نے اپنی اصل حقیقت سامنے آنے پر اس شخص کو سزائے موت دے دی)۔
اب مفصل انداز میں ہم آپ کو کوبتاتے ہیں کہ عرب شریف پر قابض ہزاروں بے بےگناہ مسلمانوں کو شہید کرنے والا قاتل جنت البقیع کو منہدم کرنے والا درندہ ڈاکو لٹیرا  بدبخت سعود اصل میں ایک منافق یہودی ”مردخائی“ کا پوتاتھا۔
851 ہجری میں قبیلہ عنزہ کی ایک شاخ آل مسالیخ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے ایک تجارتی کارواں تشکیل دیا جس کا مقصد عراق سے غذائی اجناس خرید کر انہیں نجد لانا تھا، اس قافلے کا سالار سامی بن مثلول تھا، اس قافلے کا گزر جب بصرہ کے بازار سے ہوا تو قافلے کے کچھ لوگوں نے اشیائے خورد و نوش خریدنے کے لیے بصرہ کے بازار کا رخ کیا، وہاں وہ ایک تاجر کے پاس پہنچے، یہ تاجر یہودی تھا، اس کا نام مردخائی بن ابراہیم بن موسیٰ تھا،خرید و فروخت کے دوران اس تاجر نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کا تعلق عنزہ قبیلے کی ایک شاخ المسالیخ سے ہے، یہ نام سننا تھا کہ یہودی کھڑا ہوا اور وہ ان میں سے ہر فرد سے بڑے تپاک کے ساتھ گلے ملا، اس نے بتایا کہ وہ خود اس قبیلے کی شاخ سے تعلق رکھتا ہے لیکن اپنے والد کے عنزہ قبیلے کے بعض افراد سے ایک خاندانی جھگڑے کی وجہ سے اس نے بصرہ میں آکر رہائش اختیار کر لی، اس نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ قافلے والوں کے تمام اونٹوں پر گندم، کھجور اور چاول کی بوریاں لاد دی جائیں، یہودی تاجر کے اس رویے نے قافلے والوں کو حیران کر دیا، وہ انتہائی خوش ہوئے کہ عراق میں ان کے ایک خاندان کا فرد مل گیا ہے، جو ان کے رزق کا وسیلہ ہے، انہوں نے اس کی ہر بات پر من و عن یقین کر لیا، اگرچہ وہ تاجر یہودی تھا لیکن چونکہ المسالیخ قبیلے کے لوگوں کو اناج کی شدید ضرورت تھی لہٰذا انہوں نے اس کی مہمان نوازی کو اپنے لیے غنیمت جانا، جب قافلہ اپنا واپسی کا رخت سفر باندھ رہا تھا تو اس نے اہل قافلہ سے درخواست کی کہ وہ اگر اسے بھی اپنے ہمراہ لے چلیں تو یہ اس کے لیے بڑی خوش بختی ہوگی، کیونکہ اس کی عرصہ دراز سے خواہش ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے وطن کو دیکھے، نجد پہنچ کر اس نے لوگوں سے راہ و رسم بڑھانا شروع کر دی اور کئی افراد کو اپنی چرب زبانی کی بنا پر، اپنے حلقہ اثر میں لانے میں کامیاب ہوگیا، لیکن غیر متوقع طور پر اسے وہاں القسیم سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما شیخ صالح السلمان عبد اللہ رحمہ اللہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ان مذہبی عالم کی تبلیغ کا دائرہ نجد، یمن اور حجاز تک پھیلا ہوا تھا، یہودی کو اس شخص کی مخالفت کی وجہ سے مجبوراً یہ علاقہ چھوڑنا پڑا اور وہ القسیم سے الاحصاء آگیا، یہاں آکر اس نے اپنا نام تبدیل کر دیا اور مردخائی سے مرخان بن ابراہیم موسیٰ بن گیا، پھر وہ یہاں سے القطیف کے قریب ایک علاقہ دراعیہ میں قیام پذیر ہوگیا، یہاں اس نے مقامی باشندوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک من گھڑت کہانی کا سہارا لیا، کہانی یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں اور کفار کے مابین لڑی جانے والی جنگ احد میں ایک کافر کے ہاتھ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھال لگ گئی، اس کافر نے یہ ڈھال بنو قنیقہ کے ہاتھ فروخت کر دی، بنو قنیقہ نے اسے ایک بیش بہا خزانہ سمجھتے ہوئے اپنے پاس محفوظ رکھا، یہودی تاجر نے اس علاقے کے بدؤوں کے درمیان اس طرح کی کہانیاں پھیلانا شروع کر دیں، ان من گھڑت کہانیوں کے ذریعے وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ عربوں میں یہودی قبائل کا کتنا اثر ہے اور وہ کس قدر لائق احترام ہیں، اس نے اس طریقے سے عرب دیہاتیوں، خانہ بدوشوں، بدو قبائل اور سادہ لوح افراد میں اپنا ایک مقام و مرتبہ بنا لیا، آخر اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ مستقل طور پر القطیف کے قریب درعیہ قصبے میں قیام کرے گا اور اسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے گا، اس کے خیال میں یہ علاقہ عرب میں بڑی یہودی سلطنت کے قیام کے لیے راہ ہموار کرے گا، اپنے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے اس نے عرب کے صحرائی بدؤوں سے روابط شروع کر دیے، اس نے اپنے آپ کو ان لوگوں کا ملک یعنی بادشاہ کہلوانا شروع کردیا، اس موقع پر دو قبائل قبیلہ عجمان اور قبیلہ بنو خالد اس یہودی کی اصلیت کو جان گئے اور فیصلہ کیا کہ اس فتنے کو یہیں ختم کر دیا جائے، دونوں قبائل نے باہم اس کے مرکز درعیہ پر حملہ کردیا اور اس قصبے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جبکہ مردخائی جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور العارض کے نزدیک المالی بید غثیبہ کے نام سے ایک فارم میں پناہ لی۔ یہی العارض آج ریاض کے نام سے جانا جاتا ہے، جو سعودی عرب کا دارالخلافہ ہے، مرد خائی نے اس فارم کے مالک ۔۔ کہ جو بہت بڑا زمیندار تھا ۔۔ سے درخواست کی کہ وہ اسے پناہ دے، فارم کا مالک اتنا مہمان نواز تھا کہ اس نے مرد خائی کی درخواست قبول کرلی اور اسے اپنے یہاں پناہ دے دی لیکن مردخائی کو اپنے میزبان کے پاس ٹھہرے ہوئے ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اس نے اپنے محسن اور اس کے اہل خانہ کو قتل کردیا اور بہانہ یہ کیا کہ ان تمام کو چوروں کے ایک گروہ نے قتل کیا ہے، اس کے ساتھ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس افسوس ناک واقعہ سے قبل اس نے اس زمیندار سے اس کی تمام جائیداد خرید لی تھی، لہٰذا اب اس کا حق بنتا ہے کہ اب وہ یہاں ایک بڑے زمیندار کی حیثیت سے رہے، مرد خائی نے اس جگہ پر قبضہ جمالینے کے بعد اس کا نام تبدیل کر کے اپنے پرانے کھوئے ہوئے علاقے کے نام پر آل درعیہ رکھا اور اس غصب شدہ زمین پر فوراً ہی ایک بڑا مہمان خانہ تعمیر کروایا جس کا نام اس نے مضافہ رکھا، یہاں رہتے ہوئے اس نے آہستہ آہستہ اپنے مریدین کا ایک حلقہ بنا لیا جنہوں نے لوگوں کے درمیان یہ غلط طور پر مشہور کرنا شروع کردیا کہ مرد خائی ایک مشہور عرب شیخ ہے، کچھ عرصے بعد اس نے اپنے اصل دشمن شیخ صالح سلمان عبداللہ التمیمی کو ایک منصوبے کے تحت قصبہ آل زلافی کی مسجد میں قتل کروادیا، اس اقدام کے بعد وہ ہر طرف سے مطمئن ہوگیا اور درعیہ کو اپنا مستقل ٹھکانابنا لیا، درعیہ میں اس نے کئی شادیاں کیں، جن کے نتیجے میں وہ درجنوں بچوں کا باپ بنا، اس نے اپنے ان تمام بیٹے بیٹیوں کے نام خالص عرب ناموں پر رکھے، یہودی مرد خائی کی یہ اولاد ایک بڑے عرب خاندان کی شکل اختیار کر گئی، اس خاندان کے لوگوں نے مرد خائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیر قانونی طریقوں سے لوگوں کی زمینیں ہتھیانا شروع کردیں اور ان کے فارموں پر قبضہ کرنا شروع کردیا، اب یہ اس قدر طاقتور ہوگئے کہ جو کوئی بھی ان کی شر انگیزیوں کے خلاف آواز اٹھاتا اسے قتل کروا دیتے، یہ اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے، اپنے اثر و رسوخ کو مزید بڑھانے کے لئے انہوں نے رابعہ عنزہ اور المسالیخ جیسے مشہور عرب قبائل کو اپنی بیٹیاں دیں، مرد خائی کے لاتعداد بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا نام المقارن تھا، المقارن کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا گیا تھا، محمد کے بعد القارن کے ہاں اس کے دوسرے بیٹے نے جنم لیا جس کا نام سعود رکھا گیا، یہودی مردخائی کے اسی بیٹے کی نسل بعد میں آل سعود کہلائی اس وقت کہ جب میں یہ تحقیق پیش کررہا ہوں آل سعود کی تعداد 200 شہزادوں اور 25000 نفوس تک پہنچ چکی ہے
انیسویں صدی عیسوی میں آل سعود کو کیسے انگریزوں نے استعمال کرکے سلطنت عثمانیہ ختم کروائی یہ ایک الگ موضوع ہے مگرفی الوقت انہدام جنت البقیع کے حوالے سے معروضات پرہی اکتفاکررہاہوں
تو احباب ”بقیع“ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جنگلی پیڑ پودے بکثرت پائے جاتے ہوں اور چونکہ بقیع قبرستان کی جگہ میں پہلے جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹے عوسج یعنی غرقد کے پیڑ بکثرت تھے اس لیے اس قبرستان کا نام بھی بقیع غرقد پڑ گیا، اس کا محل وقوع یہ ہے کہ یہ قبرستان مدینہ منورہ کی آبادی سے باہر مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں واقع ہے، اس کے ارد گرد مکانات اور باغات تھے اور تیسری صدی میں جو مدینہ منورہ کی فصیلی دیوار تعمیر ہوئی اس سے یہ ملا ہوا تھا، اس فصیل کی تجدیدات متعددبار ہوئی ہے، جن میں آخری تجدید عثمانی ترکی دور میں سلطان سلیمان قانونی کے زمانہ میں ہوئی، پھر اس ملک میں امن قائم ہوجانے کے بعد اس فصیلی دیوار کو منہدم کر دیا گیا، پھر مسجد نبوی شریف کی آخری توسیع میں اس قبرستان اور مسجد نبوی شریف کے درمیان جو مکانات تھے ان سب کو منہدم کر دیا گیا، ان دنوں کے درمیان جو محلہ آباد تھا، وہ اغوات کے نام سے مشہور تھا، مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں اب یہ بقیع قبرستان مسجد نبوی شریف کے خارجی صحن سے مل چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات مہاجرین رضوان اللہ اجمعین نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت کر کے اپنا مسکن و وطن بنایا، تو اس شہر مبارک میں مزید تعمیری و تمدنی ترقی ہونے لگی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ کوئی مناسب جگہ مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے متعین ہو جائے،اسی مقصد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس(بقیع کی)جگہ تشریف لائے،تو ارشاد فرمایا: مجھے اس جگہ(یعنی بقیع) کا حکم(قبرستان کے لیے)دیا گیا ہے۔(مستدرک امام حاکم 11/193)اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس (بقیع کی)جگہ مسلمانوں کا قبرستان بنانے کا حکم فرمایا تھا اور یہیں سے اس جگہ یعنی بقیع قبرستان کی فضیلت کی ابتدا ہوتی ہےجنت البقیع میں تقریباً دس ہزار صحابہ، کئی امہات المؤمنین، ہلبیت آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم،سینکڑوں اولیاء اللہ، صوفیا، علماء، محدثین اورسلطنت عثمانیہ کے خلفاو دیگر مدفون ہیں۔
دوررسالت میں سب سے پہلے انصار مدینہ میں اسعد بن زرارہ اور عثمان بن مظعون رضوان علیہ اجمعین اس قبرستان میں دفن کیے گئے،سلطنت عثمانیہ میں مؤرخین نے تحقیق کی روشنی میں کئی اہم شخصیات کی قبروں کی نشان دہی کی اور وقت گزرنے کے بعد جب زیادہ قبریں ہوتی گئیں تو بہت سے مزارات اور گنبد مخصوص شخصیات کی عزت وتوقیر کے طورتعمیر کیے گئے جو پچھلی صدی میں انہدام سے سےقبل باقی تھے۔ اور آل سعود نے یوم الہدم کے تاریخی سیاہ واقعے میں سب اجاڑ دیے۔
جنت البقیع میں مدفون دس ہزارسے زائد اللہ کی نیک ہستیوں میں اولادِ سیدی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
 حضرت خاتون جنت سیدہ فاطمہ بنت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ام کلثوم بنت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت رقیہ بنت سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت زینب بنت محمدصلی اللہ علیہ وسلم
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ بنت ابی بکررضی اللہ عنہا، حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی
حضرت حفصہ بنت عمررضی اللہ عنہ
حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ
حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہ
حضرت ام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیان رضی اللہ عنہ
حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہ
حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہ
صحابہ و دیگر شخصیات :
حضرت عثمان بن مظعون،رضی اللہ عنہ صحابی پہلے مدفون بقیع
حضرت اسعد بن زرارہ، صحابی رضی اللہ عنہ دوسرے مدفون بقیع
حضرت عثمان بن عفان، داماد رسول و تیسرے خلیفہ راشد
رضی اللہ عنہ حضرت اروی بنت کریزرضی اللہ عنہ خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان کی والدہ ہرضی اللہ عنہ
حضرت عبدالرحمن بن عوف، صحابی رضی اللہ عنہ  عشرہ مبشرہ میں سے ایک۔
حضرت سعید بن زیدرضی اللہ عنہ، صحابی عشرہ مبشرہ میں سے ایک۔
حضرت سعد بن معاذ، صحابی رضی اللہ عنہ۔
حضرت ابو سفیان بن حرب صحابی رضی اللہ عنہ
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ، تابعی
حضرت عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعودرضی اللہ عنہ، تابعی
حضرت عروہ بن زبیررضی اللہ عنہ تابعی
حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکررضی اللہ عنہ تابعی
ابوبکر بن عبدالرحمان رضی اللہ عنہ، تابعی مذکورہ پانچ فقہا سات معروف فقہائے مدینہ میں سے ہیں
حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ، تابعی فقیہ مدینہ منورہ۔
حضرت سالم بن عبد اللہ، رضی اللہ عنہ تابعی
حضرت خارجہ بن زید بن ثابت، تابعی رضی اللہ عنہ 
حضرت سلیمان بن یسار، رضی اللہ عنہ تابعی
حضرت ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف، تابعی فقیہ مدینہ منورہ۔رضی اللہ عنہ
حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ، آپ فقہ مالکی کے بانی و فقيہ مسلم۔
حضرت شمس الدین سخاوی، محدث ومؤرخ مؤرخ مصري۔
امام شامل، قفقاز۔رحمتہ اللہ علیہ
شیخ محمد غزالی سقا عالم ومفكر اسلام رحمتہ اللہ علیہ
حضرت محمد سید طنطاوی ، شيخ الأزهر۔رحمتہ اللہ علیہ
جناب محمد ادریس سنوسی، ملك لیبیا رحمتہ اللہ علیہ۔
حضرت سلطان عبد المجید ثانی، خلیفہ سلطنت عثمانیہ۔رحمتہ اللہ علیہ یہ نام تو کچھ ہی ہیں مگر ہزاروں کی تعداد میں جید ہستیاں اس سرکارصلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مختص کردہ قبرستان میں پردہ فرماہیں
8 شوال 1344 ہجری بمطابق 21 اپریل 1926ء بدبخت سعودی دہشت گردوں نے ہلہ بول دیا اورمکمل طور پرصحابہ و اہلبیت آئمہ اربعہ تابعین تبع تابعین آئمہ مجتہدین کے مزارات بلڈوزروں سے منہدم کرکے تمام قیمتی سامان غارت کرکے چوری کرلیا۔ ان جنگجودہشت گردوں کا اگلا ٹارگٹ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک کامعاذاللہ انہدام تھا جو دنیا بھرسے مسلمانان عالم کے غصے کی وجہ سےیہ نہ کرسکےمگر آل سعودعبدالوہاب نجدی کی فکرکوبدمعاشی کےزور پرحرمین شریفین پر مسلط کردیا گیا 1932 سے جدید انداز میں ملک سعودی عرب کی بنیاد پڑی تب سے سرکاری سرپرستی میں جنت البقیع کو چٹیل میدان کی صورت ہی رکھاہواہےوہاں دوران عمرہ وحج دنیابھرسےآئے سادہ لوح مسلمانان عالم کوجنت البقیع شریف کابلڈوزکیاگیا چٹیل میدان دکھاکرکہا جاتاہے یہ دیکھویہاں تو کوئی مزار نہیں تم لوگ ہی اللہ کے ولیوں کے بڑے بڑے مزارات بناتے ہو۔اس بلڈوزر سے پھیری گئی سیاہی سے پٌر تاریخ کو نہ جاننے والا یہ سادہ لوح حاجی ان مکاروہابیوں کی باتوں میں آکرگمراہ ہوجاتاہے۔اس مفصل تحریر میں آپ کو بتایاگیاکہ آل سعود مردخائی نامی منافق یہودی کی نسل سے ہیں اور اب ان کی شرانگیزیوں فتنہ گری اور یہود وہنودسے میل ملاپ صلیبیوں کے مفادات کا تحفظ بھی یہی ثابت کرتاہے کہ انکی اصل یہود ہی ہے۔
استاد قمرجلالوی کیا خوب فرماگئے
پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
بے مثل یہودی بھی سعودی ہے عذاب
اس قوم کےبارے میں قمر کوئی کیا لکھے
کعبے کی کمائی سے جو پیتی ہے شراب
مکمل تحریر >>

Saturday 22 May 2021

نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام کا روضہ اقدس سارے جہان سے افضل ہے*

*نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام کا روضہ اقدس سارے جہان سے افضل ہے*

نبی اکرم، نور مجسم صلی اللہ علیہ والہ و سلم افضل الخلق ہیں، کوئی مخلوق بھی آپ سے افضل نہیں. ایک حدیث میں ہے کہ آدمی جس مٹی سے پیدا ہوتا ہے، اسی میں دفن کیا جاتا ہے، لہذا جس پاک مٹی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے جسد اطہر کی تدفین ہوئی اسی سے آپ کی تخلیق ہوئی، اور جب آپ افضل الخلق ہوئے،، تو وہ پاک مٹی بھی تمام مخلوق سے افضل ہوئی
علاوہ ازیں زمین کے جن اجزاء کو افضل الرسل، افضل البشر، افضل الخلق صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے جسد اطہر سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے، وہ باقی تمام مخلوقات سے اس لیے بھی افضل ہیں کہ یہ شرف عظیم ان کے سوا کسی مخلوق کو حاصل نہیں. 
زیر بحث مسئلے میں خدانخواستہ اللہ تعالی کے درمیان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے درمیان تقابل نہیں کیا جا رہا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے درمیان اور دوسری مخلوقات کے درمیان تقابل ہے، کعبہ ہو، عرش ہو، کرسی ہو، یہ سب مخلوق ہے، اور آنحضرت تمام مخلوق سے افضل ہیں، اور قبر مبارک کی جسد اطہر سے لگی ہوئی مٹی اس اعتبار سے اشرف و افضل ہے کہ جس اطہر سے ہم آغوش ہونے کی جو سعادت اسے حاصل ہے، وہ نہ کعبہ کو حاصل ہے، نہ عرش و کرسی کو۔ آئیے اس مسئلہ کو احادیث اور اکابرین امت کی آراء کی روشنی میں دیکھتے ہیں 

*عظمت مدینہ بذریعہ عظمت نبوی*

عبد الرزاق عن بن جريج قال أخبرني عمر بن عطاء بن وراز عن عكرمة مولى بن عباس أنه قال يدفن كل إنسان في . التربة التي خلق منها. [مصنف عبد الرزاق : باب يدفن في التربة التي منها خلق ، 6531 ، 3/515]؛
ترجمہ : عبدالرزاق ابن جریج سے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی عمر بن عطاء بن وراز نے، ان سے عکرمہ ابن عباس کے غلام نے کہ انہوں (حضرت ابن عباس) نے فرمایا:  دفن کیا جاتا ہے ہر انسان اسی مٹی میں جس سے وہ پیدا کیا گیا؛

یہ بات (مضمون و معنی) حدیث رسول سے بھی ظاہر ہے؛

أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِيُّ ، قَالا : ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، ثنا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيرِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ أَبِي يَحْيَى مَوْلَى الأَسْلَمِيِّينَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ : " قَبْرُ مَنْ هَذَا ؟ " , فَقَالُوا : فُلانٌ الْحَبَشِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سِيقَ مِنْ أَرْضِهِ وَسَمَائِهِ إِلَى تُرْبَتِهِ الَّتِي مِنْهَا خُلِقَ " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ. [المستدرك على الصحيحين، للحاکم :رقم الحديث: 1289 - 1/521 ، رقم 1356،.شعب الایمان بیہقی ؒ ،طبع مکتبہ رشد الریاض (جلد 12 ص297 ،رقم 9425)]؛
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں ایک جنازے پر ایک قبر کے پاس سے گزرے ، آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے پوچھا یہ کس کی قبر ہے ؟ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ فلاں حبشی کی ہے (جو ہمارے شہر مدینہ میں فوت ہوگیا ہے ) آپ نے " لا إله إلا الله " پڑھا اور فرمایا : یہ آدمی اپنی زمین و آسمان یعنی اپنے علاقے سے(اللہ کے حکم سے ) یہاں اس مٹی میں لایا گیا جس مٹی سے اسے پیدا کیا گیا تھا ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي " . رواه البخاري

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے

’’حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ أَبِي ضَمْرَةَ، نَصْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَيْسٍ النَّصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ وَيَقُولُ "‏مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلاَّ خَيْرًا"‘‘۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: " (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے"‘‘۔ (سنن ابن ماجه: کتاب الفتن، باب حُرْمَةِ دَمِ الْمُؤْمِنِ وَمَالِهِ، ج5، رقم الحدیث 3931)

امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ " مجاورت " کیوجہ سے افضل ہے اسی وجہ سے محدث کا قرآن پاک کی جلد کو چھونا جائز نہیں ہے.

پھر فرماتے ہیں : جو رحمتیں اور برکتیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر نازل ہوتی ہیں ان کا فیض امت پر بھی عام ہے اور غیر متناہی ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ہمیشہ عروج ہی آتا رہتا ہے اور امت کو بھی جو کچھ توسل سے ملتا ہے وہ بھی سب سے افضل ہے اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انبیاء کرام علی نبینا و علیہم الصلاۃ والسلام میں سب سے افضل ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ساری امتوں سے افضل ہے  تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور جو ہر فضیلت اور خیر کا سر چشمہ ہے ساری زمین سے کیوں افضل نہ ہو.

 پھر فرماتے پیں: علامہ جوزی رحمہ اللہ نے " الوفاء " میں أمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے حدیث مبارکہ روایت کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تولوگوں میں اختلاف رائے ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کہاں کی جائے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجھہ نے فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک سب سے مکرم جگہ وہی ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا ہے.

امام یحیی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب  رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفن کی جگہ پر لوگوں میں اختلاف رائے ہوا تو حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجھہ نے فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک سب سے مکرم جگہ وہی ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا ہے تو اس بات پر سب راضی ہو گئے. میں کہتا ہوں یہی قول قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تفضیل کی دلیل ہے کیونکہ سب صحابی اس پر خاموش رہے اوروہیں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دفن کرنے میں مشغول ہو گئے.

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا اے یار غار رسول بتائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائےتو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جہاں آپ نے وصال فرمایا بے شک اللہ تعالی نے سب پاکیزہ جگہ پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی روح مبارکہ قبض کی ہے.

" مسند ابو یعلی " میں حدیث کے یہ الفاظ ہیں : " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے " اللہ تعالی ہر نبی کی روح وہیں قبض کرتا ہے جو جگہ اسےسب سے زیادہ محبوب ہو "

تو میں یہ کہتا ہوں کہ رسول کو بھی وہی جگہ زیادہ پسند ہو گی جو اللہ تعالی کو زیادہ پسند ہو گی کیونکہ حب رسول حب الٰہی کے تابع ہوتی ہے اور جو جگہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ پسند ہو وہ سب سے افضل کیوں نہیں ہو گی ؟" 
( الشفاء بتعریف حقوق مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم 2/91 دار الكتب العلميۃ) 

*اکابرین اہل السنت کا مذہب :*

روضۂ اقدس میں جہاں آپ رونق افروز ہیں اور جو مٹی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس کے نیچے ہے اس کی قدر اہل السنت کے مذہب میں عرش بریں سے بھی زیادہ ہے اس لئے کہ عرش خدا تعالیٰ کا مكان نہیں ہے کیونکہ وہ مكان سے وراء الوراء ہے اور جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آرام گاہ ہے وہی ریاض الجنۃ کہلاتا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں ہیں ،ورنہ اور مقامات کو بھی ایسا شرف حاصل ہونا چاہیئے 

الإجماع على أن مكان جسد النبي صلى الله عليه وسلم أفضل من الکونين

اکابرین کے نزدیک اس بات میں تو اختلاف ہے کہ مکہ زیادہ افضل ہے یا مدینہ کیونکہ دونوں کی فضیلت اپنی جگہ احادیث میں آئی ہے لیکن یہ اختلاف روضۃ الرسول کے ٹکڑے کو مستثنی کرکے ہے کیونکہ اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ ٹکڑا دنیا کی ہر چیز سے افضل ہے حتی کہ عرش، کرسی، قلم، عرش تھامنے والے فرشتے اور کعبہ سے بھی اور اس پر کسی نے اختلاف نہیں کیا سوائے چند متاخرین کے۔ اور یہ مسئلہ جمہور میں متفق علیہ ہے۔ اسی طرح کی عبارات اکابرین اہلسنت سے منقول ہیں جو آپ عنقریب ملاحظہ کریں گے۔

  ابن عقیل حنبلی رحمہ للہ کے نزدیک:
ابن القیم نے اپنی کتاب بدائع الفوائد میں لکھا

قال ابن عقيل: سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي أم الكعبة؟ 

فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل ، 

وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة 

لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح
ترجمہ:"ابن عقیل حنبلی رحمہ للہ  نے کہا کہ سائل نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ افضل ہے یا کعبہ؟ جواب دیا اگر تمہارا ارادہ خالی حجرہ ہے تو تو پھر کعبہ افضل ہے اور اگر تمہاری مراد وہ ہے جو اس میں ہے [یعنی روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم جہاں پر مدفون ہیں] تو پھر اللہ کی قسم نہ عرش افضل ہے نہ اس کے تھامنے والے فرشتے نہ جنت عدن اور نہ ہی پوری دنیا۔ اگر حجرے کا وزن جسد کے ساتھ کیا جائے تو وہ تمام کائنات اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بھی افضل ہوگا۔[بدائع الفوائد ج3 ص655]

ابن القیم نے اس کو عنوان ھل حجرۃ النبی افضل ام کعبه کے عنوان کے تحت لکھا ہے جس سے معلوم ہوا کہ ابن القیم بھی اس کے قائل ہیں اور یہ لکھ کر رد نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس کے منکر نہیں۔

قاضی عیاض ، علامہ خفاجی اور امام سبکی رحمہم اللہ کے نزدیک:
قاضی عیاض نے کتاب الشفا میں لکھا
ولا خلاف أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض
فعلَّق عليه الشيخ الخفَّاجي
بل أفضل من السموات والعرش والكعبة كما نقله السبكي رحمة الله
ترجمہ: اور اس کے خلاف کوئی نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تمام زمین سے افضل ہے اس پرعلامہ خفاجی رحمہ اللہ نے تعلیق لکھی کہ بلکہ [آپ کی قبر مبارک کی جگہ یا مٹی] آسمان، عرش، کعبہ سے بھی افضل ہے اور اس کے مثل امام سبکی رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا۔[كتاب الشفا ج 2 ص 76 اور نسیم الریاض ج3 صفحہ 531]


علامہ حصفکی حنفی رحمہ اللہ کے نزدیک:
علامہ حصفکی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

لا حرم للمدينة عندنا ومكة أفضل منها على الراجح

إلا ما ضم أعضاءه عليه الصلاة والسلام فإنه أفضل مطلقا حتى منالكعبة والعرش والكرسي .وزيارة قبره مندوبة , بل قيل واجبة لمن له سعة

ترجمہ: ہمارے نزدیک مدینہ سے بڑھ کر کوئی مقدس جگہ نہیں البتہ مکہ مدینے سے افضل ہے الا یہ کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء[ اس مٹی سے] مس ہوں تو مدینہ [کی مٹی ] بلکل افضل ہے حتی کہ کعبہ، عرش اور کرسی سے بھی اور ہمارے نزدیک روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم مندوب ہے۔ بلکہ واجب ہے جس کی استطاعت ہو ۔[الدر المختار ج2 ص 689]

علامہ سخاوی رحمہ اللہ کے نزدیک:
علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
مع الإجماع على أفضلية البقعة التي ضمته صلى الله عليه وسلم، حتى على الكعبة المفضلة على أصل المدينة، بل على العرش، فيما صرح به ابن عقيل من الحنابلة. ولا شك أن مواضع الأنبياء وأرواحهم أشرف مما سواها من الأرض والسماء، والقبر الشريف أفضلها،
وہ ٹکڑا جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کے ساتھ ضم ہے اس کی افضلیت پر اجماع ہے حتی کہ اس کعبہ سے بھی افضل ہے جو اصل شہر مدینہ [سوائے اس حصے کے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ و سلم مدفون ہیں اس ] سے فضیلت میں زیادہ ہے۔ بلکہ عرش سے بھی زیادہ۔ اس کی تصریح علمائے حنابلہ میں سے ابن عقیل نے کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کی مقیم گاہیں اور روح اشرف ہیں زمین و آسمان کی تمام چیزوں سے۔اور ان کی قبریں بھی افضل ہیں ۔ [التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة السخاوي الصفحة : 12]

ملاعلی قاری رحمہ اللہ کے نزدیک
ملا علی قاری رحمہ اللہ نے کہا
أجمعوا على أنّ أفضل البلاد مكّة والمدينة زادهما الله شرفًا وتعظيمًا ، ثم اختلفوا بينهما أي في الفضل بينهما ، فقيل : مكة أفضل من المدينة ، وهو مذهب الأئمة الثلاثة وهو المرويُّ عن بعض الصحابة ، وقيل : المدينة أفضل من مكة ، وهو قول بعض المالكية ومن تبعهم من الشافعية ، وقيل بالتسوية بينهما۔۔۔
إلى أن قال والخلاف أي الاختلاف المذكور محصورٌ فيما عدا موضع القبر المقدس ، قال الجمهور : فما ضمّ أعضاءه الشريفة فهو أفضل بقاع الأرض بالإجماع حتى من الكعبة ومن العرش
اس بات پر تو اتفاق اور اجماع ہے کہ اللہ نے مکہ اور مدینہ کوافضل بنایا اور شرف و تعظیم سے مالا مال کیا ہے۔ لیکن پھر اس میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں زیادہ افضل کون ہے۔ بعض نے کہا مکہ مدینے سے افضل ہے اور یہ آئمہ ثلاثہ کا مذہب ہے اور بعض صحابہ سے مروی ہے۔ اور بعض نے کہا مدینہ مکے سے افضل ہے اور یہ قول ہے بعض مالکی اور شافعی علماء کا اور بعض نے کہا دونوں کے درمیان توازن ہے۔۔۔۔۔ پھر فرمایا لیکن یہ اختلاف قبر مبارک کو خارج بحث کرکے ہے کیونکہ جمہور نے فرمایا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء شریفہ ضم زمین ہیں وہ ٹکڑا اجماع کے مطابق تمام زمین سے افضل ہے حتی کہ کعبہ اور عرش سے بھی۔[المسلك المتقسط في المنسك المتوسط ص351 - ص352]

علامہ ابن عابدین حنفی، قاضی عیاض، ابن عقیل، علامہ تاج الدین فاکھی اور علامہ زکریا بن شرف نووی رحمہم اللہ کے نزدیک:
ابن عابدین حنفی رحمہ اللہ نے اس باب میں فرمایا کہ
والخلاف فيما عدا موضع القبر المقدس , فما ضم أعضاءه الشريفة فهو أفضل بقاع الأرض بالإجماع . قال شارحه : وكذا أي الخلاف في غير البيت : فإن الكعبة أفضل من المدينة ما عدا الضريح الأقدس وكذا الضريح أفضل من المسجد الحرام . وقد نقل القاضي عياضوغيره الإجماع على تفضيله حتى على الكعبة , وأن الخلاف فيما عداه . ونقل عن ابن عقيل الحنبلي أن تلك البقعة أفضل من العرش , وقد وافقه السادة البكريون على ذلك.وقد صرح التاج الفاكهي بتفضيل الأرض على السموات لحلوله صلى الله عليه وسلم بها , وحكاه بعضهم على الأكثرين لخلق الأنبياء منها ودفنهم فيها وقال النووي : الجمهور على تفضيل السماء على الأرض , فينبغي أن يستثنى منها مواضع ضم أعضاء الأنبياء للجمع بين أقوال العلماء

مکے اور مدینے میں افضلیت کی بحث قبر اقدس کو خارج از بحث رکھ کر ہے کیونکہ یہ اجماع سے ثابت ہے کہ جہاں آنحضرت کا جسد اطہر مس ہے وہ تمام زمین سے افضل ہے۔
شارح نے فرمایا کہ یہ اختلاف نبی کے آخری ٹھکانے کو چھوڑ کر ہے ۔ اسی لئے کعبہ مدینہ سے افضل ہے سوائے روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو چھوڑ کر اور اسی طرح روضۃ الرسول مسجد حرام سے زیادہ افضل ہے۔ تحقیق کہ قاضی عیاض مالکی نے اس کی افضلیت پر اجماع نقل کیا ہےحتی کہ کعبہ پر بھی اور جو اختلاف ہے وہ اس [ٹکڑائے زمین ] کو چھوڑ کر ہے ۔ اور انہوں نے ابن عقیل جنبلی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ وہ ٹکڑا [جہاں نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم مدفون ہیں ] عرش سے بھی افضل ہے اور جمہور اس پر متفق ہیں۔ اور علامہ تاج فاکھی نے تصریح کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمین میں مدفون ہونے سے زمین آسمان سے افضل ہے۔ اور بعض نے کثیر تعداد سے روایت کیا کہ تمام انبیاءاسی سے ہیں [یعنی مٹی سے بنے ہیں] اور اسی میں مدفون ہیں [لہذا زمین افضل ہے آسمان سے] لیکن علامہ نووی رحمہ اللہ نے جمہور سے روایت کیا ہے کہ آسمان زمین سے افضل ہے البتہ اس میں نبی صلی للہ علیہ سلم کے مدفن کی استثناء ضرور ہے جیسا کہ جاننے والوں کے اقوال اس پر متفق ہیں۔[رد المختار ج 2 ص 688]


علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کے نزدیک:
علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ نے لکھا
وهي كبقية الحرم أفضل الأرض عندنا وعند جمهور العلماء للأخبار الصحيحةالمصرحة بذلك وما عارضها بعضه ضعيف وبعضه موضوع كما بينته في الحاشية ومنه خبر { إنها أي المدينة أحب البلاد إلى الله تعالى } فهو موضوع اتفاقا ، وإنما صح ذلك منغير نزاع فيه في مكة إلا التربة التي ضمت أعضاءه الكريمة صلى الله عليه وسلم فهيأفضل إجماعا حتى من العرش
اور یہ کہ حرم کعبہ میرے اور اخبار صحیحہ صریحہ سے جمہور کے نزدیک تمام زمین سے افضل ہے اور جو چند دلیلیں اس کے معارض ہیں ان میں سے بعض ضعیف ہیں اور بعض موضوع مثلا حاشیہ میں جو دلیل ہے کہ إنها أي المدينة أحب البلاد إلى الله تعالى یہ بالاتفاق موضوع ہے ۔ لیکن اس طرح کی خبریں مکہ [کی فضیلت] کے بارے میں بلااختلاف درست ہیں سوائے اس مٹی کی فضیلت کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے اعضائے مقدسہ کے ساتھ مس ہے حتی کہ عرش سے بھی ۔ یہ فضیلت اجماع سے ثابت ہے[تحفة المحتاج ج 5 ص 167]

امام الوہابیہ  قاضی شوکانی کے نزدیک:
قاضی شوکانی نے نیل الاوطار میں نقل کیا ہے
قال القاضى عياض ، إن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض
قاضی عیاض نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر والا ٹکڑا تمام زمین سے افضل ہے۔[نيل الأوطار - الشوكاني ج 5 ص 99] اور اس پر رد بھی نہیں فرمایا جوکہ اس بات کی دلیل ہے کہ قاضی شوکانی  بھی اسی کے قائل ہیں۔

تُربت اطہر یعنی وہ زمین کہ جسم انور سے متصل ہے کعبہ معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے [1]صرح بہ عقیل الحنبلی وتلقاہ العلماء بالقبول (اس پر ابو عقیل حنبلی نے تصریح کی اور تمام علماء نے اسے قبول کیا)

باقی مزار شریف کا بالائی حصہ اس میں داخل نہیں کعبہ معظمہ مدینہ طیبہ سے افضل ہے، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ مدینہ طیبہ سوائے موضع تربتِ اطہر اور مکہ معظمہ سوائے کعبہ مکرمہ ان دونوں میں کون افضل ہے، اکثر جانب ثانی ہیں اور اپنا مسلك اول اور یہی مذہب فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ ہے، طبرانی کی حدیث میں تصریح ہے کہ المدینۃ افضل من مکۃ [2](مدینہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) مکہ سے افضل ہے۔ ت) والله تعالٰی اعلم۔
(فتاوی رضویہ) 

ان حوالوں سے یہ بات ثابت
 ہوگئی کہ وہ ٹکڑا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں وہ تمام اشیاء سے افضل ہے حتی کہ عرش اور کعبہ سے بھی اور جمہور کا اس پر اجماع ہے۔ اور جمہور کے اجماء کے مقابلے میں کسی کا تفرد کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ممکن ہے کہ کوئی بزرگ ایسا ہو جس کا عقیدہ اس کے برخلاف ہو لیکن اس مسئلے میں ہم اس بزرگ کو نہیں مانیں گے کیونکہ جمہور کا اجماع ایک طرف ہے اور ان بزرگ کی شان میں گستاخی کئے بغیر یہ مانا جائے گا کہ ان سے اس مسئلے میں کوئی ذھول ہوگیا ہے اللہ ان کی خطا کو معاف فرمائے اور ان کو اچھی نیت کا ثواب عطا کرے۔
مکمل تحریر >>

Sunday 9 May 2021

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر ہونےوالے اعتراضات کے جوابات

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر ہونےوالے اعتراضات کے جوابات
تحقیق:مفتی محمد ابراہیم القادری رضوی
سرکار دو عالم نور مجسم ؐکی زبان مبارک سے کئی بار جنت کی بشارت پانا،بیررومہ کا وقف ِ عام فرما کر جنتی چشمہ کا مالک بننا ۔غزوہ تبوک کے موقع پر عسر ت وتنگ دستی کے دور میں سب سے زیادہ فیاضی فرما کر لسانِ نبو ت سے دادِ تحسین حاصل کرنااو رسرکار کا اس موقع پر انکی نذر کردہ رقم کو اچھالتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمانا '' ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم '' (آج کے بعد عثما ن پر کسی عمل کامواخذہ نہیں )۔

سرکار ؐصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی دو شہزادیوں کا یکے بعد دیگر ے ان کے عقد میں آکر ذوالنورین کا خطاب پانا ،بیعت ِرضوان کے موقع پر سرکا ر ؐ کااپنے دستِ کریم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر انہیں شاملِ بیعت فرمانا ،دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرماکر ملتِ اسلامیہ کو بڑے افتراق وانتشار سے محفوظ فرمانا ،یہ وہ مناقبِ جلیلہ او ر اوصافِ حمیدہ ہیں جن کے لئے صرف حضر ت امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ والا کو چنا گیا ہے ۔

ان اعلیٰ اوصاف کے تناظر میں کوئی مسلمان ان بیہودہ او ر خود ساختہ الزامات کا حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود گی کا تصور بھی نہیں کرسکتا جن کا انکی ذات کومورد ٹھہرایا گیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کایہ پہلو بڑا درد ناک ہے کہ جوبے بنیاد الزامات ان پر عائد کئے جا تے ہیں ان میں بیشتر الزامات وہ ہیں جو ان کی حیاتِ طیبہ میں ان کے روبر ولگائے گئے اور ان کے تشفی بخش جوابات خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دیئے ،چاہئے تو یہ تھا کہ سلسلہءِ اعتراضات ختم ہوجاتا مگر افسوس یہ سلسلہ آپ کی شہادت کے بعد بھی دورِ صحابہ کرام سے لے کرآج تک زوروشور سے جاری ہے۔ مشکوۃ شریف میں صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بابت حضر ت عبدا للہ بن عمر اور ایک صاحب کے درمیان مکالمہ مذکو رہے جس کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایامِ حج میں ایک صاحب نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سوال کئے ۔

پہلا یہ تھا کہ کیا عثما ن جنگِ احد میں بھاگے نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ دوسراسوال یہ کہ کیاعثمان غنی جنگِ بدر میں غیر حاضر نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں۔۔۔۔۔۔ اس کاتیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس شخص نے یہ جان کرکہ میرے سوالات کا حضر ت ابنِ عمر نے اعتراف کیاہے ،خوش ہوکر اللہ اکبر کانعرہ لگایا ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا ان تینوںسوالوں کاجواب بھی لیتاجا،پھر آپ نے اس کے سوالوں کاترتیب وار جواب دیا ۔فرمایا!۔۔۔۔۔۔جہاں تک جنگِ احد میں فرار کاتعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں انکی معافی کااعلان کرچکا ہے (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے معافی کااعلان فرمادیا تو اعتراض کیسا ۔۔۔۔۔۔؟)دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ وہ جنگِ بدر میں اسلئے حاضر نہیں ہوسکے تھے کہ رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کی صاحبزادی او ر اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھے جس پر سرکارؐ نے انہیں دو انعاموں سے نوازا ۔۔۔۔۔۔انہیں مجاہدینِ بدر میں شامل فرماکر ان کے لئے اجروثواب کااعلان فرمایا اور انہیں غنیمت میں دوسرے مجاہدین کی طرح حصہ بھی عطا فرمایا۔ 

او رتیسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ ؐ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کواہلِ مکہ کی جانب اپنا سفیر اور نمائندہ بناکر ان کازبردست اعزازواکرام فرمایا انکے مکہ جانے کے بعدبیعت ِرضوان کامعاملہ پیش آیا پھر بھی رسول اللہ ؐ نے انہیں بیعتِ رضوان کے خوش بخت لوگوں میں شامل فرمایا ،اپنا دایاں ہاتھ بلند کرکے فرمایایہ عثمان کاہاتھ ہے پھر اس اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمان غنی کی بیعت لی ۔حضرت ابنِ عمر نے جوابات سے فارغ ہوکر اس معترض سے فرمایا''اذھب بھاالآن'' ان جوابات کو اپنے ساتھ لیتاجا،یعنی ان سوالات کے ذریعے تم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نیچادکھانا چاہتے تھے مگر تم نے دیکھ لیاکہ تینوں واقعات ان کی عظمت کے چمکتے ہوئے نشانات ہیں ۔

(مشکوۃشریف مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف اس طوفانِ بدتمیزی کااصل سبب یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلام کابدخواہ ایک سازشی گروہ پیداہوچکا تھا جس کا قائد عبد اللہ بن سبا تھا جس نے بڑی تیزی کے ساتھ کوفہ ،بصرہ،مصر اور بعض دوسرے شہروں میں لوگوں کو اپنا ہم نوابنایا اورسادہ لوح عوام کواپنے دام تزویرمیں پھنساکرخلیفہءِ اسلام سے بد گمان کرکے ان کے خلاف ایک محاذقائم کیا یہ بے بنیاد الزامات و اتہامات اسی گروہ کے تراشے ہوئے ہیں۔ اس سبائی گروہ کی باقیات آج بھی ان خودساختہ الزامات کو بنیاد بناکرحضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کوہدفِ تنقید بنارہے ہیں۔

اوراہلِ حق نے ہمیشہ ہر دور میں ان الزامات سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی براء ت ثابت کرکے ان کی پوزیشن واضح فرمائی ۔لہذا مناسب ہوگاکہ ان سطو رمیں چند ایسے الزامات کامع جوابات کے ذکر کیاجائے جو شہرت کے ساتھ آپ کی ذات پر عائد کئے گئے ہیں۔

(١) 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض جلیل القدر صحابہ کرام ان کے مناصب سے معزول کرکے اپنے رشتہ داروں کو ان کی جگہ مقرر کیا ،چنا چہ حضر ت مغیرہ بن شعبہ کوفہ کی گورنری سے ہٹاکرحضرت سعد بن ابی وقاص کا تقرر کیا پھر انہیں معزول کیا اور انکی جگہ ولید بن عقبہ کو گورنر بنایا ،اسی طرح حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنر ی ہٹاکر عبد اللہ بن عامر کو بطورگور نرمقرر کیا ،یونہی حضر ت عمر وبن العاص کو مصر کی گورنر ی معزول کرکے عبد اللہ بن ابی سرح کو اس منصب پر بٹھایا،ان تمام کاروائیوں کی اصل بنیا د اقربہ پروری ہے کیونکہ عبد اللہ بن ابنی سرح ،عبد اللہ بن عامر ،اور ولید بن عقبہ حضر ت عثما نِ غنی کے قریبی رشتہ دار تھے ۔

(٢)

بغیر کسی استحقاق کے اپنے اعزہ واقارب کو بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں دلائیں ۔

(٣)

حکم بن ابی العاص کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے افشاء راز کے جرم میں طائف کی طرف جلاوطن کردیا تھا ،سرکار ؐ کے وصال کے بعد شیخین نے اس سزاکو برقراررکھا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو حکم کو مدینہ طیبہ بلالیا اور یہ اس لئے تھا کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچاتھے ۔ 

(٤)

باغیوں کا ایک وفد جو مصر ،کوفہ اور بصرہ کے لوگوں پر مشتمل تھامدینہ طیبہ میں حضر ت علی،حضر ت طلحہ اور حضرت زبیر وغیرہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزل کا مطالبہ کررہاتھا ،جب ان بزگوں نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر واپس کردیا تو بعد میں بصری وفد حضرت علی کے پاس آیا انہوں نے ان کی واپسی کی وجہ پوچھی توانہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک خط پکڑاہے جو حضرت عثمان غنی نے گورنر مصر کے نام لکھاہے جس میں اسے حکم دیا گیاہے کہ جب وفد تمہارے پاس پہنچے تو اسے قتل کردینا ،اس خط پر حضرت عثما نِ غنی کی مہر لگی ہوئی تھی جب حضرت عثمان غنی سے اس خط کی بابت سوال کیا گیا۔ توآپ نے لاعلمی کا اظہارکیا ،اسلئے لوگوں نے نتیجہ نکالاکہ پھر یہ خط مروان نے لکھا ہوگاجوحضر ت عثمان کے چچازادبھائی ان کے سیکریٹری ہیں سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی سازش پکڑے جانے کے باوجود حضرت عثمان نے مروان کوسزاکیوں نہ دی او راسکے جرائم پرپردہ کیوں ڈالا گیا ۔

(٥)

رسول اللہ ؐنے حجۃالوداع میں منیٰ وعرفات میں نمازِ قصر ادافرمائی اورشیخین کاعمل بھی اسی پررہامگر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ منیٰ وعرفات میںاتمام کرتے تھے جو سرکارؐاور طریقہ شیخین کے خلاف تھا ۔

ان تمام سوالات کے اختصارکے ساتھ جوابات ملاحظہ ہوں!

پہلے ،دوسرے اور پانچویں سوالوں اوربہت سے دیگرسوالات کے خودحضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوابات دئیے جوھدیہ قارئین کئے جاتے ہیں،چنانچہ تاریخِ اسلام مؤلفہ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی میں ہے ،ایک شخص نے اٹھ کر سوال کیاکہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ناجائز طورپرمال دیتے ہیں مثلاًعبداللہ بن سعدکوآپ نے تمام مالِ غنیمت بخش دیا حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیاکہ میں اسکو مالِ غنیمت کے خمس میں سے صرف پانچواں حصہ دیاہے مجھ سے پہلے خلافتِ صدیقی ،فاروقی میں بھی اسکی مثالیں موجود ہیں ۔ اسکے بعد ایک اورشخص اٹھا اس نے کہا کہ تم نے اپنے عزیزواقارب کو امارتیں اور حکومتیں دے رکھی ہیں مثلاًمعاویہ بن سفیان جن کو تمام ملک ِشام پر امیر بنا رکھاہے بصرہ کی امارت سے ابو موسیٰ اشعری کومعزول کرکے ان کی جگہ عبد اللہ بن عامر کو امیر بنایا ،کوفہ کی امارت سے مغیرہ بن شعبہ کوجداکرکے ولید بن عقبہ کواسکے بعد سعید بن العاص کوامیربنایا۔ یہ سن کر حضرت عثمانِ غنی نے فرمایاکہ جن لوگوں کومیں نے امارتیں دے رکھی ہیں وہ سارے میرے اقارب نہیں اور وہ اپنے عہدوں کے کام کو بحسن وخوبی انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں ۔

اگرآپکی رائے کے مطابق امارت کے قابل نہیں ہیں اورمجھ پران کی بے جارعایت کاالزام عائد ہوتاہے تو میں ان لوگوں کی جگہ دوسروں کومقرر کرنے کےلئے تیارہوں ۔ چنانچہ میں نے سعید بن العاص کو انکی امارت سے الگ کرکے ابو موسیٰ اشعر ی کو کوفہ کاگورنربنایاہے ۔ اس کے بعد ایک شخص نے کہاتم نے بلا استحقاق اور ناقابلِ رشتہ داروں کوامارتیں دی جوان امارتوں کے اہل نہ تھے مثلاًعبد اللہ بن عامر ایک نوجوان شخص ہیں انکو والی نہیں بنانا چاہئے تھا حضرت عثمان نے جواب دیاکہ عبد اللہ بن عامر عقل وفراست ،دین داری اور قابلیت میں خاص طور پر ممتازہے محض نوجوان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے آنحضرت ؐ نے اسامہ بن زید کو صرف ١٧ سال کی عمر میں کیوں امیر بنایا تھا ۔

اس کے بعد ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کو اپنے کنبے والوں سے بڑی محبت ہے آپ ان کو بڑے بڑے عطیا ت دیتے ہیں حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیا کہ خاندان والوں سے محبت ہونا کوئی گناہ نہیں ہے میں اگر ان کو عطیا ت دیتا ہوں تو بیت المال سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں بیت المال سے تو میں اپنے خرچ کیلئے بھی ایک کوڑی نہیں لی،اپنے رشتہ داروں کیلئے بلااستحقاق کیسے لے سکتاہوں اپنے ذاتی مال کا مجھے اختیا ر ہے چاہے جسکو بھی دوں ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا او راس نے کہاکہ تم نے چراگاہ کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے حضر ت عثما نِ غنی نے جواب دیا کہ میں جب خلیفہ نہ تھا تو مدینہ میں مجھ سے زیادہ نہ اونٹ کسی کے پاس نہ ہی بکریاں لیکن آج کل میرے پا س صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کے لیے ہیںمیں انکو چرائی پر بھی نہیں بھیجتا البتہ بیت المال کے اونٹوں کی چراگاہ مخصوص ضرور ہے اوروہ میرے زمانے میں نہیں بلکہ پہلے سے مخصوص چلی آ رہی ہے اسکا مجھ پر الزام نہیں لگایا جاسکتا ۔

پھر ایک شخص نے کہا کہ تم بتاؤکہ تم نے منیٰ میںپوری نمازکیوں پڑھی حالانکہ قصر کرنی چاہئے تھی حضرت عثمان نے جواب دیا کہ میرے اہل وعیال مکہ میں مقیم تھے لہذامیرے لئے نماز قصر نہ کرنا جائز تھا

تاریخ اسلام جلد اول ص٣٤١) 

گورنروں کے عزل ونصب کے سلسلے میںیہ با ت ذہن نشین ہونی چاہئے کہ تقرری اور برخاستگی کاسلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِخلافت کے ساتھ مخصوص نہیں ۔شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے دورمیں جہاں عزل ونصب کی ضرور ت محسوس کی گئی ، عزل ونصب کیاگیا ۔ چنانچہ حضر ت عمر نے

حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنری سے علیحدہ کیا اسی طرح حضرت سعدبن ابی وقاص کوبھی بصرہ کی گورنری سے حضرت عمر نے معزول فرمایا تھا اورحضر ت خالد بن ولیدکی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے برخاستگی مشہورومعروف ہے جس طرح حضرت عمر نے بعض حالات کے تحت بعض جلیل الشان صحابہ کو ان کے عہدوں سے الگ کیا اسی طرح حضر ت عثما نِ غنی رضی اللہ عنہ نے جن حضرات کوانکے عہدوں سے الگ کیا اسکے معقول اسبا ب ووجودہ تھے۔ اورجن حضر ت کا تقررفرمایا وہ باصلاحیت لوگ تھے ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو زمانہ سر کار ،عہدِشیخین میں کسی عہدہ پر فائز رہے تھے۔ مثلاً ولیدبن عقبہ فتح مکہ کے زور مسلمان ہوئے پھر انہیں سرکارؐ نے بنو مصطلق کے صدقات کاعامل مقرر فرمایا او ر حضرت عمر نے انہیں عرب الجزیرہ کاعامل بنایا اسی طرح عبد اللہ بن ابی سرح فاتح افریقہ اورعبد اللہ بن عامر فاتحِ ایر ان وخراسان ہیں حضر ت عثمانِ غنی کی مردم شناس نگاہوں نے جن عظیم افراد کاانتخاب فرمایا وہ رشتہ داری کی بناء پر نہیں بلکہ خداداد صلاحیتوں کی بناء پرچنے گئے اور وہ مستقبل میں قوم کے ہیرو بنے جن کے کارناموں پر اسلام واہلِ اسلام کو نازہے۔

جہاں تک تیسرے سوال کاتعلق ہے کہ حضر ت عثما نِ غنی نے حکم بن ابی العاص کو طائف سے مدینہ طیبہ میں بلالیا حضرت عثما نِ غنی نے انکی واپسی کی وجہ خود بیا ن فرمائی کہ میں نے حکم بن ابی العاص کے بارے میں سرکا رؐ سے سفارش کی جسے حضورؐ نے قبول فرماتے ہوئے انکی واپسی کامجھ سے وعدہ فرمایا ۔

چنانچہ(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ )جلد دوم ص٥٣مطبوعہ المکتبہ اسلامیہ تہران میں ہے کہ۔۔۔۔۔۔! ''فلماولیٰ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الخلافۃردہ وقال کنت قد شفعت فیہ الی رسول اللہؐ فوعدنی بردہ وتوفی فی خلافۃعثمان''

ترجمہ: پھرجب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو آپ نے حکم بن ابی العاص کومدینہ طیبہ میں بلالیا او رفرمایا کہ میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ ؐ سے سفارش کی تھی تو سرکارؐ نے مجھ سے انکی واپسی کاوعدہ فرمایا ۔

او ر چوتھے سوال کاجواب یہ ہے کہ یہ خط نہ حضر ت عثمانِ غنی نے لکھا اور نہ اسکا حکم دیااورنہ یہ آپ کی مہرتھی او رنہ ہی اس میںمروان ملوث تھا بلکہ یہ عبد اللہ بن سبا کی جماعت کی سازش تھی جنہوں نے حضر ت عثمانِ غنی کوشہید کیااس جماعت نے صرف حضر ت عثمانِ غنی کے نام سے جعلی خط نہیں لکھابلکہ حضرت علی ،حضرت طلحہ ،حضر ت زبیرکے نام سے مختلف شہروںکے عوام کو جعلی خطوط لکھے گئے جن میں ان سے کہاگیا کہ تم لوگ مد ینہ طیبہ میں جمع ہوکرحضر ت عثمانِ غنی سے معزول ہونے کا مطالبہ کرو،

چنانچہ( علامہ حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ ج٧ص١٧٥)میں اس خط کے بارے میں حضر ت عثمانِ غنی کے تاثرات ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں ''فو اللہ لاکتبت ولااملیت ولادریت بشیء من ذالک والخاتم قد یزورعلی خاتم'' ترجمہ : بخدا میں نے یہ خط نہ لکھوایا نہ اسکے بارے میں کچھ علم ہے اور انگوٹھی ۔۔۔۔۔۔انگوٹھی توجعلی بھی بنائی جاسکتی ہے ۔ چند سطربعد حافظ ابن کثیر ،ابن جریر کے حوالے سے لکھتے ہیں

ان الصحابۃ کتبو االی الافاق من المدینۃ یامرون باالنا س بالقدوم علی عثما ن لیقاتلوہ .وھذاکذب علی الصحابۃ .وانما کتبت کتبا مزورۃ علیھم کماکتبو من جھۃ علی وطلحۃ والزبیرالی الخوارج کتبا مزورۃ علیھم انکروھا وھکذا زورھذالکتاب علی عثمان۔

ترجمہ: صحابہ کرام نے مدینہ طیبہ سے باہر رہنے والوں کو خطوط لکھے جس میںانہیں مدینہ طیبہ میں آکر حضر ت عثما ن سے لڑائی کرنے کوکہا گیا تھااو ریہ صحابہ کر ام پر جھوٹاالزام ہے ،ان بزرگوں کی طرف سے جھوٹے لکھے گئے جیسے علی وطلحہ وزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف سے جھوٹے خطوط لکھے گئے جس کا انہوں نے انکار کیا،اسی طرح حضرت عثمانِ غنی کی طرف سے یہ جھوٹاخط لکھاگیا۔

معاملاتِ صحابہ کرام میں راہ عافیت : حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعداء دین کی طرف سے لگائے گئے الزام واتہامات کی ایک طویل فہر ست ہے جن میں سے چند ایسے مطاعن جنہیں بہت زیادہ اچھالاجاتاہے انتخاب کیا گیااو رپھراختصارکے ساتھ ان کاجواب دیا گیا حق کے متلاشی کے لئے یہ چند سطو رکافی وشافی ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ صحابہ کرام خصو صاًخلفاء راشدین علیھم الرضوان کی عدالت ایک مسلم امر ہے اور اپنی زبانوں کوان کے حق میں برائی سے روکنا عقائدِ اہلِسنت میں شامل ہے۔

شرح عقائد میں ہے ''ویکف عن ذکر الصحابۃ الابخیر ''یعنی ذکرِصحابہ سے زبان کو روکا جائے مگربھلائی کے ساتھ اوریہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم ان کی عظمتوں کی گواہی دے رہاہے اوراحادیث انکے فضائل ومناقب سے مالامال ہیں ۔ یہ آیتیں ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہییں۔۔۔۔۔۔! ٭

یداللّٰہ فوق ایدیھم،

ان کے ہاتھوں پر اللہ کاہاتھ ہے ۔

رضی اللّٰہ عنہ ورضو عنہ،

اللہ ان سے راضی اوروہ اللہ سے راضی ہیں۔

کلا وعداللّٰہ الحسنیٰ ،

سب صحابہ سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی (جنت )کاوعدہ فرمایا ہے ۔

اور یہ حدیثیں بھی ہمارے ذہن نشین رہنی چاہییں۔۔۔۔۔۔ 

لایمس النا رمسلماًرأنی

،جس مسلمان نے میرا دیدارکیااسے آگ نہیں چھوئے گی ۔

اکرموااصحابی فانھم خیارکم

میرے سارے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم سب میں بہترہیں۔

لاتسبوااصحابی،میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔

اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوھم غرضا،

میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈروانہیں طعن کانشانہ نہ بناؤ۔

من سب اصحابی فعلیہ لعنۃاللّٰہ،

جومیرے صحابہ کو گالی دے اس پراللہ کی لعنت ۔

اذارأیتم الذین یسبون اصحابی فقولوالعنۃاللّٰہ علی شرکم،

جب تم ایسے لوگوں کودیکھوجو میرے صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں توکہوتمہارے شرپر اللہ کی لعنت ہو۔

خصوصاً حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دربارِ رسالت سے جاری ہونے والاپروانہءِ بشارت کبھی لوحِ قلب سے محو نہ ہو۔

ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم،آج کے بعد عثمان پرکسی عمل کامؤاخذہ نہیں۔

اوریہ بات بھی ہردم ملحوظ ہوکہ وہ ان دس خوش بختوں میں شامل ہیں جنہیں انکی زندگی میں لسانِ رسالت سے نبوت سے نوید ِ جنت ملی ۔ ان نصوص کے مقابلہ میں ان تاریخی کتب کی کیا حیثیت ہے جوضعاف درکنارموضوعات سے بھری پڑی ہیں جب کتبِ احادیث موضو عات سے محفوظ نہ رہ سکیں تو کتبِ تاریخ کاکیا ٹھکانا،لہذاراہِ احتیاط قرآن وسنت کواپنا نے میں ہے تاریخی موضوعات ومہملات کو عقیدے کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا او رنہ ہی نصوصِ شرعیہ کے مقابلے میں تاریخی واقعات کواہمیت دی جاسکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ملتِ اسلامیہ کے قلوب واذہان میں صحابہ واہلِ بیت کی محبت بسائے او رانکی بارگاہ میں زبا ن درازی سے محفوظ فرمائے ۔آمین
مکمل تحریر >>

کون ہے قاتل حضرت امام حسین رضی الله تعالی عنہ کا شیعہ کتب سے حوالہ جات*

‎ *کون ہے قاتل حضرت امام حسین رضی الله تعالی عنہ کا شیعہ کتب سے حوالہ جات* =======================
شیعوں کی کتاب میں ہے کہ
‎نَبِى عَلَيْهِ السَّلَام نے اِرشَاد فرمایا:

‎*”اے عَلِی! اپنے بیٹوں کو اپنے شِیعوں سے بَچانا، کِیونکہ تیرے شِیعہ تیری اَولاد کو قَتل کر دیں گے.“*

‎بحوالہ شِیعہ کِتاب:
‎(الروضۃ الکافِی:260/8)

‎سَیَّده زَینَب بِنتِ عَلِىُ الْمُرتَضىٰ رَضِي اَللّٰهُ تَعٰالىٰ عَنہَا نے فرمايا:

‎*”اے کُوفِیو! اے غَدَّارو! تُم نے نَبِی عَلَيْهِ السَّلَام کے جِگَر کے ٹُکڑے کو قَتل کِیا ہے.“*

‎بحوالہ شِیعہ کِتاب:
‎(جَلَاءُ العُیُون:424)

‎*”سَيَّدنا حُسَين بِن عَلِىُ الْمُرتَضىٰ رَضِي اَللّٰهُ تَعٰالىٰ عَنهُ کے قَاتِلوں میں کوئی شَامِی یا حِجَازِی نہیں تها بلکہ وه سب کُوفِی تهے.“*

‎بحوالہ شِیعہ کِتاب:
‎(خُلاصَةُ المِصَائِب:201)

‎*”کُوفِی سب کے سب شِیعہ تهے.“*

‎بحوالہ شِیعہ کِتاب:
‎(مَجَالِسُ الْمُؤمِنِینَ:25)

‎*اِعتِرافِ جُرم:*

‎*مُعتَبَر شِيعہ عَالِم مُلّا بَاقِر مَجلِسى لِکهتا ہے:*

‎*”لوگ ہمیں غَدَّار اور قَاتِلانِ حُسَین کہتے ہیں. آج میں اِقرار كرتا ہُوں کہ ہاں! شِیعوں نے ہِی اَہلِ بَیت سے غَدَّاری کی اور اُن کو شَہِید کِیا. پَر قَسَم لے لو وه ہم نہیں تهے بلکہ ہمارے آبا و اَجداد تهے، ہم تو اُن کا کَفَّاره اَدا کر رہے ہیں مَاتَم کر کے.“*

‎بحوالہ شِیعہ کِتاب:
‎(بِحَارُ الْأَنوَار:34/55)


سیدہ زینب رضی اللہ عنھا نے کوفی شیعوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کو یوں بدعا دی:
"أَمّا بَعْدُ يا أَهْلَ الْكُوفَةِ، يا اهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ أَتَبکُونَ فَلا رَقَأَتِ الدَّمْعَةُ وَ لا هَدَأَتِ الرّنّةُ"
"اما بعد، اے اہل کوفہ، اے دھوکہ کرنے والو اور عہد توڑ دینے والو کیا گریہ کرتے ہو؟ " تمہارے آنسو نہ رُکیں اور تمہاری آہ و فغان بند نہ ہو"۔
بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج45، ص109۔
(یہ شیعہ کی مستند کتاب ہے اور سیدہ کی بدعا کا اثر آج تک ہم دیکھ رہے ہیں. کیا پھر بھی ہم اس بدعائی قوم کی قربت سے خود کو برباد کرتے رہیں گے؟)
مکمل تحریر >>