Pages

Tuesday 22 December 2020

کرسمس ڈے ) 25 دسمبر کی حقیقت*

*( 🎄 کرسمس ڈے ) 25 دسمبر کی حقیقت*

*اهم سوالات ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟* --------------------------------------

*1 - میری کرسمس کہنا کیسا هے؟*
*2 - اس کا کیا مطلب ہے ...... ؟*
*3 - کیا ہم کسی عیسائی کو میری کرسمس کہہ سکتے ہیں ...... ؟*

        __________________
           📝 جواب 🖊️
        ----------------------------

*میری کرسمس کا مطلب ھے*
اللہ کے بیٹا ہوا ہے، مبارک ہو. 😱

*الله کی پناہ، نعوذبااللہ من ذلك*

*ایسا عقیدہ رکھنا کفر ھے جو مسلمان سے ایمان ختم کر دیتا ہے.*
       _____ ×××××× _____

*اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے* _____

*( سورة إخلاص. )*

*ترجمہ ------*
اے محبوب علیہ السلام ! آپ فرما دیجئے اللہ ایک ہے. وہ کسی کا محتاج نہیں ھے نہ اس نے کسی بیٹے کو جنا. اور نہ اس کو کسی نے جنا ہے .اور نہ کوئی اس جیسا ہو سکتا ہے

*ہم مسلمان ہیں .....*
ہمیں *میری کرسمس* Happy Christmas نہیں کہنا چاہئے، ❌

عیسی عليه الصلاة والسلام. کو *غیر مسلم عیسائی، اللہ کا بیٹا مانتے ہیں*
اور ان کی پیدائش کی خوشی میں کرسمس ڈے مناتے ہیں.

*تو برائے کرم .....*
مسلمان ہونے کے ناتے کبھی .....
*❌ میری کرسمس Happy Christmas نہ کہنا.*❌

*پچیس 25 دسمبر سے پہلے پہلے* ہر مسلمان بھائی تک پہنچانے کی کوشش کیجئے اس پر آپ کو اجر ملےگا

نوٹ 📍:
اس موقع پر *سوشل میڈیا و ٹی وی TV میڈیا* پر اس تہوار پر مشتمل کسی بھی قسم کا کوئی *پروگرام و نیوز* ہرگز مت سنیں نہ دیکھیں اور اپنے *بچوں پر بھی نظر رکھیں*

بالخصوص *سکول و کالج یونیورسٹی میں کرسمَس ڈے Day Christmas پروگرام رکھے جاتے ہیں* اور انہیں سیلیبریٹ یعنی منایا جاتا ھے 

*بچوں کو ہرگز اس کا حصہ نہ بننے دیں نہ خود شرکت کریں نہ بچوں کو شرکت کروائیں*🙏

وٹس ایپ لنک کو کلک کر کے گروپ جوائن کر لیں 👇🏿
https://chat.whatsapp.com/JWUnXd1mtv36O07kH6Mqyk

https://chat.whatsapp.com/ChNOAMfm4VCG6GgdwD1qd6

https://chat.whatsapp.com/BuwRu4UOELLKA9O7HU7jFy

*_⛔ Facebook link_*👇🏿
https://www.facebook.com/Darulmutalea12/
⤵️
https://www.facebook.com/AnjumRazaAttari12/

*کرسمس ڈے* 25دسمبر 

پاکستان میں اسلام مخالف سوچی سمجھی سوچ کے تحت دین سے بیزار لبرل ازم میڈیا کے ذریعے عوام میں اتاری جا رہی ہے اور یہ ناپاک سوچ سیاستدانوں میں بڑھتی جا رہی ھے جو آئے دن اسلامی تعلیمات کی مخالفت میں زبان درازی کرتے نظر آتے ہیں 
*اسی طرح کفار کے مذہبی تہوار منانا بھی عام ہو رہا ھے*

ان تہواروں کو منانے والے وہی میڈیا کی اینکرز، سیاستدان اور بعض مذہبی حلیے والے بدمذہب بھی ہیں جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف نہیں بولتے 
*یہ لوگ جب بھی بطور اعتراض بولیں گے اسلام کے احکام و مسلمانوں اور علمائے دین کے خلاف ہی بولیں گے اور ان کی زبانوں پر دن رات اقلیتوں کے حقوق سوار ہوں گے۔*
وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ چند *دنیاوی مفادات کی خاطر انگریزوں کے ذہنی غلام ہونے کے ساتھ عملی غلام بھی بن چکے ہیں* اور ہر دم اپنے انگریز آقاؤں کو خوش کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔
*🎄 کرسمس ڈے بھی کفار کے تہواروں میں سے عیسائیوں کا مذہبی تہوار ھے* جس کو منانے والے مسلمان ہرسال بڑھتے جا رہے ہیں اور *اس کے منانے کو عجیب و غریب انداز سے صحیح ثابت کیا جا رہا ھے ۔* نعوذبااللہ 

*📌 شرعی نقطہ نظر سے کرسمس ڈے منانا ناجائز و حرام اور بعض صورتوں میں کفر ھے۔*

قارئین کے سامنے مستند حوالہ جات پیش کرکے ثابت کیا جا رہا ھے کہ *کفار کے دینی تہوار کو منانا اسلامی شرعیہ میں حرام و کفر ھے*

*کرسمس دو الگ لفظوں کا مجموعہ ہے۔*

*لفظ Christ* سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام لی جاتی ھے 
اور
*لفظ Mas* سے مراد پیدائش لی جاتی ھے ۔
*گویا کرسمیس کا مطلب ھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ۔*

👈 انٹرنیٹ پر ایک عیسائی  شخص *''David J. Meyer''* نے باقاعدہ *انگلش ڈکشنری و تاریخ* سے ثابت کیا ہے کہ کرسمس کا مطلب حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش نہیں *بلکہ اس کا مطلب ھے*
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات چنانچہ وہ کہتا ہے :
*Here let it be noted that most people think that the word, "Christmas" means "the birth of Christ." By definition, it means "death of Christ", and I will prove it by using the World Book Encyclopedia....the word "Mass" in religious usage means a "death sacrifice." The impact of this fact is horrifying and shocking; for when the millions of people are saying"Merry Christmas", they are literally saying "Merry death of Christ!"*
یعنی یہ بات غور طلب ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ
*کرسمس کا مطلب ہے* حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش۔
*جبکہ اس کا مطلب ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات۔*
*اس بات کو میں ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیا سے ثابت کروں گا۔*
👈🏻 *لفظ Mass مذہب* میں موت کی قربانی میں استعمال ہوتا ہے۔یہ بات کافی حیران کن ہے کہ جب لاکھوں لوگ کہتے ہیں کہ کرسمس مبارک ہو تو *درحقیقت وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات مبارک ہو۔*

(www.lasttrumpetministries.org/tracts/tract4.html)

*کرسمس ڈے عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے* اس میں عیسائیوں کے ساتھ شرکت کرنا حدیث پاک کی رو سے جائز نہیں
*چنانچہ سنن ابو داؤد کی حدیث پاک ہے*
”من جامع المشرک وسکن معہ فانہ مثلہ“
*ترجمہ :*
جو مشرک سے یکجا ہو اور اس کے ساتھ رہے وہ اسی مشرک کی مانند ہے ۔

*( سنن ابی داؤد ،کتاب الجہاد،باب فی الإقامۃ بأرض الشرک ،جلد 3،صفحہ 93، المکتبۃ العصریۃ،بیروت )*

*مسئلہ :* جب فقط شرکت کرنا حرام ھے
*تو ایک مسلمان کا مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کرنا، ان کی تقریب کو ٹی وی TV چینل اور اخبارات کے ذریعے مشہور کروانا، مرد و عورت کے اختلاط میں کیک کاٹنا، مصافحہ کرنا وغیرہ حرام ھے*

*مسئلہ :* اگر کوئی اس دن عیسائیوں کی تقریبات میں اس دن کی *تعظیم* کرتے ہوئے شریک ہو *تو وہ کفر کا مرتکب ہے۔*
*فتاوی ہندیہ میں ہے*
”یکفر بخروجہ الی نیروز المجوس لموافقتہ معھم فیما یفعلون فی ذلک الیوم “
*ترجمہ:*
جو مجوسیوں کے نیروز میں ان کی موافقت کرنے کے لئے جائے جس دن میں وہ خرافات کرتے ہیں تو اس کی تکفیر کی جائے گی ۔
*( فتاوی ہندیہ،کتاب السیر،الباب التاسع فی احکام المرتدین، مطلب موجبات الکفر، جلد 2،صفحہ 276،دار الفکر ،بیروت )*

*مسئلہ :* اگر شرکت نہ کی جائے ویسے ہی اس دن کی *تعظیم کرے اور عیسائیوں کی ان خرافات کو اچھا سمجھے تو کفر* ھے۔
( فتاوی تار تار خانیہ 📚 ) میں ہے
واتفق مشایخنا ان من رای امر لکفار حسنا فھو کافر
*“ترجمہ:*
مشائخ عظام کا اس بات پر اتفاق ہےکہ جو کافر کے کسی امر کو اچھا جانے وہ کافر ھے

*( تار تار خانیہ ،کتاب احکام المرتدین،فصل فی الخروج الی النشیدۃ۔۔،جلد 5،صفحہ 354،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)*

مسئلہ :
*اس دن عیسائیوں کو مبارکباد دینا، تحائف دینا ناجائز و حرام ہے اور اگر تعظیم کی نیت سے یہ سب کرے تو کفر ہے۔*
( فتاوی تار تار خانیہ میں ہے)
”حکی عن ابی حفص الکبیر لو ان رجلا عبد اللہ خمسین سنۃ ثم جا ء یوم النیروزفاھدی  الی  بعض المشرکین بیضۃ یرید بہ تعظیم ذلک الیوم فقد کفر باللہ و احبط عملہ “
*ترجمہ:*
حضرت ابو حفص الکبیر سے  حکایت کیا گیا کہ اگر آدمی پچاس سال اللہ عزوجل کی عبادت کرے پھر نیروز کا دن (کافروں کا مخصوص دن) آ جائے اور وہ اس دن کی تعظیم میں بعض مشرکین کو کوئی تحفہ دے اگرچہ انڈہ ہی ہو تو بےشک اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال برباد ہوگئے۔

*(تار تار خانیہ ،کتاب احکام المرتدین،فصل فی الخروج الی النشیدۃ۔۔،جلد 5،صفحہ 354،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)*

*👈🎄 کرسمس ڈے منانے کے بعض حمایتی کہتے ہیں کہ:*
یہ بھی ایک نبی کی پیدائش کا دن ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا دن بارہ ربیع الاول ہے۔
*پہلی بات تو یہ ہے کہ* مستند دلائل سے ثابت ہے کہ یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی *پیدائش کا نہیں*

*دوسری بات یہ ہے کہ* خود کو مسلمان کہلوانے والا جو طبقہ اس دن کو مناتا ہے اس میں شاید ہی کوئی ہو جو ایک نبی کی ولادت کی خوشی میں مناتا ہے *عام طور پر یہ منانے والے سیاستدان، اینکرز، این جی اوز والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو مشہور شخصیات ہوتی ہیں اور انٹرنیشنل لیول میں خود کو عیسائیت کا خیر خواہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب تک تصویر یا مووی نہ بنے تب تک یہ لوگ کرسمس کیک نہیں کاٹتے اور سرعام بینرز اور پوسٹروں پر یہ نبی کی ولادت کی خوشی نہیں لکھتے بلکہ عیسائیوں سے اظہارِ یکجہتی  والے کلمات ہوتے ہیں اور واضح الفاظ میں عیسائیوں کو مبارکباد دے رہے ہوتے ہیں۔*

*مستند علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ :*
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش 25 دسمبر نہیں ہے یہ تو بعد میں بنا لی گئی ہے

*بلکہ ایک عیسائی ''David J. Meyer'' نے بھی یہ کہا ہے کہ*
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش 25دسمبر نہیں چنانچہ کہتا ہے:
*Jesus was not born on December 25th.*
http://www.lasttrumpetministries.org/tracts/tract4.html

*مفتی عبد الواجد قادری مفتی اعظم ہالینڈ فتاوٰی یورپ میں فرماتے ہیں:*
”عیسائیوں کے یہاں کرسمس ڈے کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے *یہ چودہویں صدی عیسوی کا ایک حادث تیوہار  (تہوار) ہے ۔*
لیکن دنیا بھر کے عیسائیوں نے اس اختراعی تیوہار (تہوار) کو اتنی مضبوطی سے تھاما کہ یہ صدیوں سے عیسائیت کی پہچان و شعار بن گیا ہر چرچ اور عیسائی تنظیم گاہیں اس تاریخ میں مزین کی جاتی ہیں اور دنیا کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ گویا یہ مسیحیوں کا عظیم الشان تیوہار ھے، *جس میں اربوں ڈالر کی شراب نہ صرف Drinke پی جاتی ہے*
*پھر اربوں ڈالر کی آتشبازی اور آتشی مادّوں سے یورپ و امریکہ کے درودیوار اور آسمانی فضا تھرا اٹھتی ھے۔*
ہفتہ عشرہ تک گندھک کی بدبو سے ملک کا ملک مہکتا رہتا ھے

*بہرحال (🎄کرسمس ڈے) ان کا مذہبی تہوار ہو یا نہ ہو* مگر آج قومی تہوار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے *جس سے مسلمانوں کا دور رہنا لازم و ضروری ہے*

( Fatwa ID : 366-365 N = 4/1437-E )

.              *ہولی کےمسائل*

*ہولی وغیرہ کی مبارک باد دینا اشد حرام بلکہ منجر الی الکفر ہے جو مسلمان ایسا کرتے ہیں ان پر توبہ تجدید ایمان و نکاح لازم ہے*

*( فتاوی شارح بخاری ج 2ص566 )*

*ہولی جو کہ غیرمسلموں کا شعار ہے اس میں شرکت حرام بد کام بدانجام -شریک ہونے والوں پر توبہ فرض ہے اور تجدید ایمان وتجدید نکاح بھی کر لیں؛:*

*( فتاوی تاج الشریعہ ج 2ص 74 📚 )*

*ہولی کے موقع پر رنگ کو برا جانتے ہوے تھوڑا سا لگوانا بھی ناجائز و گناہ* 

*( فتاوی مرکزتربیت افتاء ج 2ص380 )*

*کافر اگر ہولی یا دیوالی کے دن مٹھائی دیں تونہ لے ہاں اگر دوسرے روز دے تو لےلیں  مگر یہ نہیں  سمجھیں کہ  ان کے خبثاء کے تہوار کی مٹھائی ہے بلکہ*
*"مال موذی نصیب غازی" سمجھے*
.
*( بحوالہ ملفوظات اعلی حضرت حصہ اول ص163 )*

زیادہ سے زیادہ شئیر کریں صدقہ جاریہ ھے
مکمل تحریر >>

Friday 18 December 2020

رافضیوں کا اعتراض اور اس کا تحقیقی جواب*

*رافضیوں کا اعتراض اور اس کا تحقیقی جواب*
"عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا." 

شیعہ حضرات اکثر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ باغی ٹھہرے۔

اس حدیث میں جس باغی گروہ کی بات کی گئی ہے وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں موجود خارجی گروہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کیا اس سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بالکل مراد نہیں اور نہ ان کا نام موجود ہے حدیث میں، اسی طرح کے خارجی لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں بھی موجود تھے جب ایک شخص حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو خوشخبری ہو میں نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ (جو جنگ جمل میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے لشکر میں موجود تھے) کو قتل کر دیا ہے تو اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں تجھے جہنمی ہونے کی خوشخبری دیتا ہوں کیوں کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں تو حدیث رسول تھی کہ جو ان کو قتل کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔ اب جس طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی الزام نہیں جہنمی ہونے کا (کیوں کہ وہ شخص حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں سے تھا) اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر بھی باغی ہونے کا کوئی الزام نہیں لگ سکتا۔
اسی طرح سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے اور ان کے قاتلین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم کے لشکر میں شامل تھے جنہیں حدیث پاک میں منافقین فرمایا گیا ہے.. حدیث پاک ملاحظہ کریں 
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عثمان! اللہ تعالٰی آپ کو خلافت کی قمیص پہنائیں گے، اگر منافق آپ سے وہ قمیصِ خلافت چھیننا چاہیں تو آپ نے اسے اتارنا نہیں، یہاں تک مجھے آ ملو(شہید ہو جاؤ)۔پھر فرمایا : عثمان! اللہ تعالیٰ آپ کو خلعت ِ خلافت پہنائیں گے، اگر منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو آپ نے شہید ہونے تک اسے نہیں اتارنا۔یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔"
(مسند الامام احمد : 24566، وسندہ صحیح)
نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے واضح طور پر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو فتنہ کے وقت حق پر ہونے کی بشارت ارشاد فرمائی تھی اور شہادت کو انکے لیے بطور اعزاز ارشاد فرمایا تھا.. سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے دی گئیں انہیں بشارتوں کی وجہ سے جب کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قاتلین اور باغیوں کو جو مدینہ کی حرمت پامال کرنے کے بھی مجرم تھے اور مدینہ منورہ کی حرمت پامال کرنے والوں پر حدیث میں لعنت بھیجی گئی ہے، انہیں باغیوں اور قاتلوں کو سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم کے جھنڈے تلے دیکھا تو غلط فہمیوں اور بدگمانیاں کا پیدا ہونا لامحالہ لازم تھا جو کہ جنگ کی صورت اختیار کر گیا. 
صحابی رسول حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم کے لشکر کے  مقابل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ہونے کی وجہ بیان فرماتے ہوئے کیا فرماتے ہیں ملاحظہ فرمائیں 

"حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد امیر معاویہ کے لشکر میں تھے پس کعب بن مرہ بہزی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فلاں چیز نہ سنی ہوتی تو آج میں اس مقام پر کھڑا نہ ہوتا پس جب انہوں (حضرت معاویہ) نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر سنا تو لوگوں کو بٹھا دیا اور کہا : ایک دن ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے کہ وہاں سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پیدل گزرے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ضرور بالضرور اس جگہ سے جہاں میں کھڑا ہوں ایک فتنہ نکلے گا، یہ شخص اس دن (مسند خلافت پر) ہو گا جو اس کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر ہوگا پس عبداﷲ بن حوالہ ازدی منبر کے پاس سے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تو اس آدمی کا دوست ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! ابن حوالہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم جس مجلس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا میں اس مجلس میں موجود تھا اور اگر میں جانتا ہوتا کہ اس لشکر میں میری تصدیق کرنے والا کوئی موجود ہے تو سب سے پہلے یہ بات میں ہی کر دیتا۔ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں اور امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 52 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 236، و الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 316، الحديث رقم : 753، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 89، و الشيباني في الأحاد و المثاني، 3 / 66، الحديث رقم : 1381.

جس طرح ان باغیوں اور قاتلوں جن کو احادیث میں منافق اور موجب لعنت فرمایا گیا کہ سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہ الکریم کے لشکر میں ہونے کی بنا پر سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم کو معتوب نہیں کیا جا سکتا اور نہ معاذاللہ ناحق کہا جا سکتا ہے کیونکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم خلیفہ برحق تھے اور اپنے اس مؤقف پر بھی حق پر تھے کہ باغیوں کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی میں قصاص لینے پر باغی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد کسی اور بڑے نقصان کا موجب بن سکتے تھے اس لیے قصاص لینے کو مؤخر فرمایا... 
جبکہ مقابل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فوری قصاص لینے کے اپنے مؤقف کو حق سمجھنے کے باوجود خطائے اجتہادی پر تھے مگر اجتہادی خطا مطلقاً خطا یا گناہ نہیں ہوتی.. 
دل تھام کر سوچیۓ کہ اگر اس مقام پر اہلسنت کا مؤقف نہ اپنایا جائے اور اپنی عقلوں کے گھوڑے دوڑا کر رافضیوں یا ناصبیوں کی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بدگمانی کی جائے تو کیا ہم اپنا ایمان محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ اگر ہم کذاب راویوں کی جھوٹی کہانیوں پر اعتماد کر کے ایک طرف کو بدگمانی پیدا کر لیں تو سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم سے بدگمان ناصبیوں کو کس منہ سے روکیں گے جو ان کے لشکر میں موجود باغیوں کے سبب انہیں معتوب کرتے ہیں معاذاللہ ثم معاذاللہ. 
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہمیں نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے جو حکم ارشاد فرمایا ہے ملاحظہ کریں 

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم کہو : تم پر اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر کی وجہ سے. ایک روایت میں ہے : انہیں لعنت (و ملامت) کرو.‘‘
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل من رای النّبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 697، الرقم : 3866، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 397، الرقم : 606، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 190.191، الرقم : 8366.

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا مقصد محض اپنی خلافت قائم کرنا نہ تھا بلکہ وہ تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے سے افضل اور خلافت کا زیادہ حقدار سمجھتے تھے تاریخ الاسلام میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ

وحدثني يعلى بن عبيد: ثنا أبي قال: قال أبو مسلم الخولاني وجماعة لمعاوية: أنت تنازع عليا هل أنت مثله فقال: لا والله إني لأعلم أن عليا أفضل مني وأحق بالأمر، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، وإنما أطلب بدمه، فأتوا عليا فقولوا له: فليدفع إلي قتلة عثمان وأسلم له، فأتوا عليا فكلموه بذلك، فلم يدفعهم إليه

کتاب تاريخ الإسلام - الذهبي - ج 3 - الصفحة 540

ترجمہ
حضرت ابومسلم خولانی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور فرمایا :آپ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے خلافت کے بارے میں تنازع کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے ہیں؟ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نہیں الله کی قسم میں جانتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن تم نہیں جانتے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو ظلما قتل کردیا گیا؟ اور میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہا ہوں تم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ قاتلان عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو میرے حوالے کردیں اور میں یہاں کا نظام ان کے سپرد کر دوں گا۔

اس سے پتہ چلا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو محض خلافت سے کوئی غرض نہیں تھی ان کا مطالبہ صرف قتل عثمان کا قصاص لینا تھا اور یہی بات مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مکتوب میں بھی موجود ہے۔

وكان بدء أمرنا أنا التقينا والقوم من أهل الشام. والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان

کتاب نهج البلاغة - خطب الإمام علي (ع) - مکتوب 58 - الصفحة 448

ترجمہ
ہمارے معاملے کی ابتداء یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب کہ بظاہر دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں تھا۔

دوسری بات یہ کہ بخاری شریف میں فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں یہ الفاظ کہ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائیں گے ایسے الفاظ ہیں کہ جن سے امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ والے گروہ کی بھی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ والے گروہ کے صاحب ایمان ہونے کی خود زبان نبوت نے تصدیق فرما دی اور صلح اور بیعت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کر کے امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی تائید مزید فرما دی۔

یہ حدیث شیعہ کتاب كشف الغمة میں بھی موجود ہے

روى عن أبي بكرة قال بينما رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يخطب إذ صعد إليه الحسن فضمه إليه وقال إن ابني هذا سيد وان الله عله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين عظمتين

کتاب كشف الغمة - ابن أبي الفتح الإربلي - ج 2 - الصفحة 320

ترجمہ
ابی بکرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ ارشاد فرمانے کے دوران یکا یک امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ منبر پر چڑھ گئے تو آپ نے انہیں سینے سے لگایا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور الله اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا

ذرا دل سے پوچھیئے کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام ایک صلح کی بشارت ارشاد فرمائیں اور یہ بھی فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ صلح کروائے گا تو کیا کوئی صاحب ایمان نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام کی بشارت اور اللہ تعالیٰ کے صلح کروانے کو خیر و برکت کے بجائے ظلم و ستم کی نہ ختم ہونے والا سلسلہ سمجھ سکتا ہے؟ 
ہاں اس صلح کو خیر و برکت والا سمجھنے کے لیے ایمان کی شرط لازمی ہے. اس صلح کے بعد مسلمانوں میں کم از کم بیس تک ہر طرح کی خانہ جنگی رک گئی، بے شمار فتوحات ہوئیں، مسلمانوں میں خوشحالی آئی.. امام حسن و حسین  رضی اللہ عنہما بذات خود فتوحات میں شامل ہوئے.

تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ باغی ٹھہرے تو پھر امام حسن و امام حسین (مرضی اللہ تعالی عنہ کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے کیوں کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نہ صرف بیعت کی بلکہ انہیں مسلمانوں کا امیر بھی بنا دیا کیا امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ ایک باغی جہنمی کی بیعت کر سکتے ہیں اور انہیں سلطنت دے سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، اور اگر کوئی رافضی کہے کہ کر سکتے ہیں تو پھر امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی یزید کی بیعت نہ کرنا اور سارا گھر لٹا دینا چہ معنی دارد؟... کیا یہ حدیث امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو معلوم نہ تھی جو ان کی بیعت کرلی اور کیا اس حدیث کا مفہوم آج کل کے شیعہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں یا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ؟ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر دلائل اور بھی ہیں لیکن اختصار کے طور پر ایک حوالہ رجال کشی کا دے دیتے ہیں

امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو مع ساتھیوں کے شام بلایا جب یہ سب آگئے تو

وأعد لهم الخطباء، فقال يا حسن قم فبايع فقام فبايع، ثم قال للحسين عليه السلام قم فبايع فقام فبايع، ثم قال قم يا قيس فبايع فالتفت إلى الحسين عليه السلام ينظر ما يأمره، فقال يا قيس انه امامي يعني الحسن عليه السلام

کتاب اختيار معرفة الرجال (رجال الكشي) - الشيخ الطوسي - ج 2 - الصفحة 104

ترجمہ
ان کے لیے خطیب مقرر کیے گئے پھر کہا اے حسن رضی اللہ تعالی عنہ اٹھیئے اور بیعت کیجیئے وہ اٹھے اور بیعت کی پھر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو کہا آپ اٹھیئے اور بیعت کیجیئے تو انہوں نے بھی اٹھ کر بیعت کی پھر قیس کو فرمایا اٹھ کر بیعت کرو اس نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف نظر کی تاکہ مرضی معلوم کر سکے آپ نے فرمایا اے قیس امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ میرے امام ہیں۔

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کے بعد جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193)

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193)

جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھرپور عزت کرتے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477)
کچھ تواریخ کے مطابق سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قسطنطنیہ کی طرف روانہ کیے گئے لشکر میں بھی شرکت فرمائی.. 

یزید پلید کو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وصیت 

  "اہل عراق حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو تمہارے مقابلے میں لا کر چھوڑ دیں گے . جب وہ تمہارے مقابلے میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہو جائے تو درگزر سے کام لینا کہ وہ قرابت دار ، بڑے حق دار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عزیز ہیں ۔" (تاریخ طبری ج:٥،ص:١٩٦)
(افسوس صد افسوس وہ ازلی بدبخت پاس نہ رکھ سکا) 

چوتھی اہم بات یہ کہ جس کو خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ باغی اور منافق نہ کہیں انہیں آج کل کہ شیعہ کس منہ سے کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے تو انہیں اپنا بھائی کہا ہے

شیعوں کے معروف و معتبر عالم عبداللہ بن جعفر الحمیری اپنی معتبر کتاب "قرب الاسناد" میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے اس سند کے دو راوی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے ہیں خود آئمہ معصومین ہیں اور باقی تین راوی معتبر اور ثقہ شیعہ راوی ہیں جن کو جمہور شیعہ علماء نے ثقہ اور صحیح کہا ہے

جعفر، عن أبيه: أن عليا عليه السلام كان يقول لأهل حربه
إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم، ولم نقاتلهم على التكفير لنا، ولكنا رأينا أنا على حق، ورأوا أنهم على حق

کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 93
ترجمہ
امام جعفر عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدِمقابل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کی لشکر کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ان سے لڑائی اس لیئے نہیں کی کہ وہ ہمیں یا ہم ان کو کافر سمجھتے تھے لیکن ہوا یوں کہ انہوں نے اپنے آپ کو اور ہم نے اپنے آپ کو حق پر سمجھا

جعفر، عن أبيه عليه السلام: أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق، ولكنه كان يقول: " هم إخواننا بغوا علينا

کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 94
ترجمہ
امام جعفر صادق عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدمقابل (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی....... واللہ اعلم

*فیصلہ مولا کائنات سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے خود فرما دیا*

 صفین کے بعد کچھ لوگوں نے اہلِ شام اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک گشتی مراسلہ اپنے ماتحت علاقہ کے لوگوں کو بھیجا، اور تاکید کی کہ کوئی بھی شخص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو بُرا بھلا نہ کہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خط میں لکھا کہ''ہمارے معاملے کی ابتداء یوں ہوئی کہ ہمارا اور اور اہل شام (معاویہ  رضی اللہ عنہ )کا مقابلہ ہوا اور یہ بات تو ظاہر ہےکہ ہمارا اور ان کا خدا ایک ہے، ہمارا اوران کانبی ایک ہے، ہماری اور ان کی دعوت ایک ہے، اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صدیق کرنے میں دونوں کا برابر ہیں ،صرف خونِ عثمان کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان میں اختلاف ہوااور ہم اس سے بری ہیں لیکن معاویہ میرے بھائی ہیں ( نہج البلاغہ۱۵۱)اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیاکہ دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا''قَتْلَانَا وَقَتْلَاهُمْ فِي الْجَنَّةِ''ہمارے اور ان کے لشکر کے مقتولین جنت میں جائیں گے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ، باب ما ذکر فی الصفین ، حدیث نمبر ۳۷۸۸۰)
مکمل تحریر >>

Thursday 10 December 2020

غزوہ ھند احادیث مبارکہ کی روشنی میں ٭

غزوہ ھند احادیث مبارکہ کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : غزوہ ہند کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے متعدد احادیث مروی ہیں ۔ ان احادیث نبویہ کے راوی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں ۔ ان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دو احادیث مروی ہیں ۔ حضرت ثوبان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تبع تابعین میں سے حضرت صفوان بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ : میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے بیان کیا کہ اس امت میں سندھ و ہند کی طرف لشکروں کی روانگی ہوگی " اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں (اس میں شریک ہوکر) شہید ہو گیا تو ٹھیک ، اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں، جسے اللہ تعالیِ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہوگا " امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کو اپنی دو کتابوں میں نقل کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا ۔ (آگے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں) " اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کردوں گا۔ اگر قتل ہو گیا تو میں افضل ترین شہداء میں شمار کیا جاوں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیِ نے آگ سے محفوظ کر دیا ہے ، ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا ارو دوسرا گروہ جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری حدیث ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا : ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا ، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ وہ (مجاہدین) ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ ان کی مغفرت فرمادے گا ۔ پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو شام میں پائیں گے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطاء کردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں اس شان سے آئے گا کہ وہاں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو پائے گا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا صحابی ہوں ۔(راوی کا بیان ہے) کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسکرا پڑے اور ہنس کرفرمایا : بہت زیادہ مشکل، بہت ذیادہ مشکل ۔ (مسند احمد : 369/2)(مسند ابوہریرہ رض: 8467)(البدایہ والنہایۃ، الاخبار عن غزوہ الہند: 223/6، از حافظ علامہ عمادالدین ابن کثیر)(السنن المجتبیٰ : 42/6 ،کتاب الجہاد باب غزوہ ہند: 3174 ،3173)(السنن الکبریٰ للنسائ: 28/3، باب غزوہ الہند: 4382۔4383)(مسند احمد : 278/5، حدیث ثوبان رض : 21362،چشتی)(السنن المجتبیٰ للنسائ:668/2، حدیث: 2575)(السنن الکبریٰ للنسائ: 28/3، باب غزوۃ الھند: 4384)(الجہاد : 665/2 فضل غزوۃ البحر حدیث : 228)(السنن الکبریٰ للبھیقی : 76/9، کتاب السیر، باب ماجاء فی قتال الھند : 186)(البدایۃ والنھایۃ، الاخبار عن غزوۃ الھند : 223/6)(الفردوس بما ثور الخطاب : حدیث 4164)(تاریخ الکبیر : 72/6)(تذکرہ عبد الاعلیٰ بن عدیالبھرانی الحمص : 1747)(تاریخ دمشق : 248/52، از ابن عساکر رح
کتاب الفتن، غزوۃ الھند : 409/1۔ 410، حدیث : 1236۔ 1238)

غزوہ ھند صرف جنگ تک ہی محدود نہیں ہے اس میں علمی جہاد بھی شامل ہے اور اس کی تکمیل ھندوستان میں اسلام کے مکمل غلبے پر ہوگی ان شاء اللہ ایک بار ان احادیث مبارکہ کو غور سے پڑھیں :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدَنَا رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ الْهِنْدِ فَإِنْ اسْتُشْهِدْتُ کُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا ، سو اگر میں شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا۔ اگر واپس آ گیا تو میں آزاد ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 2: 228، رقم: 7128، مؤسسة قرطبة، مصر،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 588، رقم: 6177، دار الکتب العلمية، بيروت)

عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدْنَا رَسُوْلُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَزْوَةُ الْهِنْدِ فَاِنْ اَدْرَکْتُهَا أَنْفِقُ فِيْهَا نَفْسِي وَمَالِي فَاِنْ اُقْتَلُ کُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَآءِ وَاِنْ أَرْجِعُ فَأَنَا اَبُوْهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ.
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے ، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال ﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کروں گا ۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں سب سے افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا ۔ اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابو ہرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوں گا جو عذاب جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے ۔ (نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4382، دار الکتب العلمية بيروت)(بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18380، مکتبة دار الباز مکة المکرمة)

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا ﷲُ مِنْ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَکُونُ مَعَ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام ۔
ترجمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے غلام ہیں ، سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں کو ﷲ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 5: 278، رقم: 22449)(نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4384 )(بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18381)(طبراني، المعجم الاوسط، 7: 2423، رقم: 6741، دار الحرمين القاهرة)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

Sunday 6 December 2020

دیوبندیوں سے گستاخانہ عبارات کے علاوہ ہمیں یہ اختلاف بھی ہمیشہ ہی رھا ہے کہ یہ لوگ انبیاء واولیاء کی شان کا انکار بڑے دھڑلے سے کرتے ہیں*

https://chat.whatsapp.com/CwHd4mEFkmUJq9BZWP88R2

*دیوبندیوں سے گستاخانہ عبارات کے علاوہ ہمیں یہ اختلاف بھی ہمیشہ ہی رھا ہے کہ یہ لوگ انبیاء واولیاء کی شان کا انکار بڑے دھڑلے سے کرتے ہیں*
 لیکن افسوس کہ یہ باتیں اپنے گھروں کے چوہڑوں چماروں کے حق میں بھی ثابت کرتے ہیں ۔ لیجیے اس کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے:

سرحد میں جہاد کے نام پر فساد کرنے اور غیور پٹھانوں کے ھاتھوں کتے کی موت مرنے والا اسمٰعیل دھلوی قتیل بالاکوٹی اپنی رسوائے زمانہ کتاب "تقویۃ الایمان" میں سورهٔ لقمان کی آخری آیات جن میں علوم خمسہ کا بیان ہے، نقل کر کے لکھتا ہے کہ:

"اور اسی طرح جو کچھ مادہ کے پیٹ میں ہے اس بھی کوئی نہیں جان سکتا کہ ایک ہے یا دو، نر ہے یا مادہ، کامل ہے یا ناقص، خوبصورت ہے یا بد صورت ۔"
 📘(تقویۃ الایمان، ص 32)

*اور دوسری کتاب "تاریخ مشائخ چشت" میں ان کے سڑک چھاپ تبلیغی گدھوں کا مشہور مولبی زکریا کاندھلوی لکھتا ہے کہ:*

"خواجہ ابو محمد کی ہمشیرہ بھی نہایت بزرگ متقیہ تھیں ہر وقت یادِ الٰہی میں مشغول رہتی تھیں ۔ جس کی وجہ سے نکاح کی بھی رغبت نہیں ہوتی تھی ۔ ایک مرتبہ خواجہ ابو محمد ان کے پاس آئے اور فرمایا ہمشیرہ تمہارے پیٹ سے ایک لڑکے کا وجود جو ایک وقت میں قطب الأقطاب ہونے والا ہے مقدر ہو چکا ہے اور وہ بلا نکاح ممکن نہیں اس لیے تم نکاح کر لو ۔"
 📘(تاریخ مشائخ چشت، ص 156 مکتبة الشیخ، بہادر آباد کراچی)

*اسمٰعیل دھلوی نے تقویۃ الایمان کی مذکورہ عبارت پر "فصل دوسری بیان میں برائی شرک فی العلم" کی فصل قائم کی ہے یعنی اس کے نزدیک تو انبیاء واولیاء کے حق میں ما فی الأرحام کے علم کا عقیدہ رکھنے والا مشرک ہے لیکن یہی "شرک" دیوبند وسہارنپور کی چاردیواری میں پہنچ کر عین ایمان اور کرامت بن گیا ۔*
مکمل تحریر >>