Pages

Monday 29 January 2018

تقلید کیوں ضروری ھے ؟

تقلید کیوں ضروری ھے ؟

:
بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جب ہم خود قرآن و حدیث پڑھ سکتے ہیں اور احادیث کی کتابوں سے اور قرآن سے اپنے مسائل کا حل دریافت کر سکتے ہیں تو پھر ہمیں مجتہدین کی تقلید کی کیا ضرورت ہے؟

جواب

اگر کسی کو علوم قرآن اور علوم حدیث میں اتنی ہی نظر ہو تو پھر وہ شخص خود مجتہد ہے اور اسے واقعی کسی کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اگر کوئی قرآن میں ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ، مطلق و مشروط آیات، لغات عرب کا عالم ہو اور حدیث کے مندرجہ ذیل علوم کا ماہر ہوتو پھر واقعا اس پر سے تقلید ساقط ہی ہو جائے گی اور وہ علوم احادیث درج ذیل ہیں جن کو مجتہد بننے کے لئے حاصل کرنا ضروری ہے۔
1 محدث کی صداقت کا علم
2 اسناد حدیث کا علم
3 حدیث عالی کا علم
4 حدیث نازل کا علم
5 روایات موقوفہ کا علم
6 ان اسناد کا علم جس کی سند پیغمبر اسلام سے ذکر نہ ہو
7 صحابہ کے مراتب کا علم
8 احادیث مرسلہ اور ان کے سلسلے میں پیش کی جانے والی دلیلوں کی معرفت
9 تابعین سے نقل کی گئی احادیث کا علم
10 اسناد مسلسل کا علم
11 احادیث معنعنہ کا علم
12 روایات معضل کا علم
13 احادیث مدرج کی پہچان کا علم
14 تابعین کی شناخت کا علم
15 تباع تابعین کی معرفت
16 اکابر و اصاغر کی معرفت
17 اولاد اصحاب کی معرفت
18 علم جرح و تعدیل کی معرفت
19 صحیح و سقیم کی پہچان
20 فقہ الحدیث کا علم
21 ناسخ و منسوخ احادیث کا علم
22 متن میں جو غریب (نامانوس) الفاظ استعمال ہوں ان کا علم
23 احادیث مشہور کا علم
24 غریب اور نامانوس احادیث کا علم
25 احادیث مفرد کی پہچان کا علم
26 ان لوگوں کی معرفت جو حدیث میں تدلیس کر دیتے ہیں
27 حدیث کی علتوں کا پہچاننا
28 شاذ روایات کا علم
29 پیغمبر کی ان حدیثوں کا جانچنا جو دوسری احادیث سے معارض نہ ہو
30 ان حدیثوں کی معرفت جن کا کوئی رخ کسی رخ سے معارض نہ ہو
31 احادیث میں الفاظ زائد کی معرفت
32 محدیثین کے مذہب کی اطلاع
33 متون کی تحری غلطیوں سے آگاہی
34 مذاکرہ حدیث کا جانچنا اور مذاکرہ کرتے ہوئے راستگو کی معرفت
35 اسناد میں محدثین کی تحریری غلطیوں کی اطلاع
36 صحابہ، تابعین اور ان کے بھائیوں،بہنوں  کی عصر حاضر تک معرفت
37 ان صحابہ، تابعین،تباع تابعین کی معرفت جن میں سے بس ایک راوی نے روایت کی ہو
38 ان صحابہ تابعین اور ان کے پیرئووں میں سے جو راوی ہیں عصر حاضر تک ان کے قبائل کی معرفت
39 صحابہ سے عصر حاضر تک کے محدثین کے انساب کا علم
40 محدثین کے ناموں کا علم
41 صحابہ، تابعین، تباع تابعین اور عصر حاضر تک ان کے پیرئوں کی نیت کا جاننا
42 روایان حدیث کے وطن کی پہچان
43 صحابہ، تابعین، تباع تابعین کی اولاد اور ان کے غلاموں کی معرفت
44 محدثین کی عمر کی اطلاع۔ولادت سے وفات تک
45 حدثین کے القابات کی معرفت
46 ان راویوں کی معرفت جو ایک دوسرے سے قریب ہیں
47 راویوں کے قبائل، وطن، نام، کنیت اور ان کے پیشوں میں متشابہات کی پہچان
48 غزوات پیغمبر ان کے ان خطوط وغیرہ کا علم جو انہوں نے بادشاہوں کو تحریر فرمائے
49 اصحاب حدیث نے جن ابواب کو جمع کیا ہے ان کی معرفت اور اس بات کی جستجو کہ ان میں سے کون سا حصہ ضائع ہو گیا ہے
50 اس کے علاوہ احادیث کی مندرجہ ذیل اقسام کا علم بھی ہونا چاہئیے۔

1صحیح
2 حسن
3 ضعیف
4 مسند
5 متصل
6 مرفوع
7 موقوف
8 مقطوع
9 مرسل
10 معضل
11 تدلیس
12 شاذ
13 غریب
14 معنعن
15 معلق
16 مفرد
17 مدرج
18 مشہور
19 مصحف
20 عالی
21 نازل
22 مسلسل
23 معروف
24 منکر
25 مزید
26 ناسخ
27 منسوخ
28 مقبول
29 مشکل
30 مشترک
31 موتلف
32 مختلف
33 مطروح
34 متروک
35 مول
36 مبین
37 مجمل
38 معلل
39 مضطرب
40 مہمل
41مجہول
42 موضوع
43 مقلوب
44 حدیث ماثور
45 قدسی
46 عزیز
47 زائد الثقہ
48 موثوق
49 متواتر
اب اگر کوئی شخص تقلید نہ کرنا چاہے تو ٹھیک ہے وہ ان تمام علوم کوحاصل کرے اور احادیث و قرآن سے اپنے مسائل کا حل نکالے اور جو ایسا نہ کرسکے  یا اس کے پاس اتنا وقت نہ ہو تو اس کے پاس سوائے تقلید کرنے کا اور کونسا راستہ رہ جاتا ہے؟

مکمل تحریر >>

توسل بالذات : حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا کے وسیلہ سے دعا

توسل بالذات : حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  کے چچا کے وسیلہ سے دعا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ دورِ فاروقی میں ایک مرتبہ قحط پڑ گیا ، بارش کی سخت ضرورت تھی اور لوگ جاں بلب تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے صحابہ کرام اور دیگر حضرات کو ساتھ لیا اور بارگاہِ ربوبیت میں دستِ سوال دراز کیا۔ دعا میں حضرت عباس رضی اﷲعنہ (حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے چچا) کو وسیلہ بنایا اور مالک الملک کی بارگاہ میں عرض کیا ۔ اللھم انا کنا نتوسل الیک نبینا صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون۔ اے اﷲ !ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب فرماتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں، ہمیں سیراب فرما ! حضرت انس فرماتے ہیں کہ انہیں سیراب کیا گیا ۔ (بخاری ، جلد اول کتاب الاستقاء حدیث نمبر:956) (اب کہہ دو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ضعیف حدیثیں لکھتے تھے) صرف یہی نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے لوگوں کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے ویسا ہی سلوک کیا کرتے تھے، جیسا ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے ۔ پس اے لوگو! تم بھی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے طریقہ کو اپناتے ہوئے آپ سے ویسا ہی سلوک کرو ! واتخذوہ وسبیلۃ الی اللّٰہ ۔ اور حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کا وسیلہ اﷲ کی بارگاہ میں پیش کرو ! (فتح الباری) دیکھ رہے ہیں آپ ! کس قدر محبت تھی حضرت عمر رضی اﷲعنہ کو محبوب دو جہاں ، تاجدارِ مرسلاں، رسول انس وجاں صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے کہ ان کے چچا کا وسیلہ پیش کر رہے ہیں ۔ معلوم ہوا نبیوں علیہم السّلام کے علاوہ دوسرے بزرگوں کا وسیلہ پیش کرنا بھی درست ہے ۔(تیسیر الباری شرح بخاری غیر مقلد وہابی علامہ نواب وحید الزّمان)

اس حدیث مبارک سے ثابت ہوا کہ طلب حاجات میں اللہ کے نیک بندوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے۔ منکرین وسیلہ کی طرف سے اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث سے زندوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ثابت ہوتا ہے مُردوں کا نہیں۔ اس لئے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ زندہ تھے۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو اسی حدیث سے فوت شدہ بزرگوں کے توسل کی نفی ہوتی ہے۔ کیوں کہ حدیث میں مذکور ہے کہ اے اللہ ! ہم تیرےنبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے۔ اب تیرے نبی کے چچا حضرت عباس کا وسیلہ پکڑتے ہیں صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کی زندگی میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا وسیلہ پکڑتے تھے۔ اگر کسی بزرگ کے فوت ہو جانے کے بعد اس کا وسیلہ جائز ہوتا تو صحابہ کرام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد بھی حضور ہی سے توسل کرتے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بجائے حضرت عباس سے توسل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بزرگ کے فوت ہو جانے کے بعد اس سے توسل جائز نہیں۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حدیث مبارک میں نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں توسل مذکور ہے۔ جس میں زندہ اور مردہ کاکوئی تفاوت نہیں اور نہ حدیث کا کوئی لفظ فوت شدہ بزرگوں سے توسل کی نفی پر دلالت کرتا ہے۔ رہا یہ امر کہ صحابہ کرام  نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کا وسیلہ یہاں کیوں نہ پکڑا تو جواباً عرض ہے کہ کسی حدیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وسیلہ بنانے کی نفی نہیں بلکہ کثرت احادیث سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے وصال کے بعد بھی سرکار سے توسل کو جائز سمجھتے تھے۔ اس باب میں البتہ یہاں ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے۔ وہ یہ کہ جب زندہ اور فوت شدہ دونوں قسم کے بزرگوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خاص موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کی بجائے حضرت عباس سے توسل کیوں کیا تو اس کے جواب میں حدیث اعرابی جو شفاء السقام میں منقول ہے رفع شبہات کے لئے کافی ہے جس میں مذکور ہے کہ صحابہ کرام کی موجودگی میں وہ اعرابی سید عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے مزار مقدس پر حاضر ہوااور سرکار سے توسل کیا وہ اعرابی اپنے گناہوں کی مغفرت کی حاجت لے کر مزار پر انوار پر حاضر ہوا تھا ۔ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے توسل کی برکت سے اس کی حاجت پوری ہوئی اور قبر انور سے آواز آئی ’’ان اللّٰہ قد غفرلک‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ نے تیرے گناہوں کو معاف فرمادیا نیز مشکوٰۃ شریف ص۵۴۵ باب الکرامات میں بروایت دارمی ایک حدیث مرقوم ہے۔ وہو ہذا : عَنْ اَبِی الجَوْزَاء قَالَ قُحِطَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ قَحْطًا شَدِیْداً فَشَکَوْا اِلٰی عَائِشَۃَ قَالَتْ اُنْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاجْعَلُوْ ا مِنْہُ کُویً اِلَی السَّمَائِ حَتّٰی لَا یَکُوْنَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ السَّمَائِ سَقْفٌ فَفَعَلُوْا فَمُطِرُوْا مَطَرًا حَتّٰی نَبَتَ الْعَشَبُ وَ سَمَنَتِ الْاِبِلُ حَتّٰی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشحم فَسُمِّیَ عَامَ الْفَتَقِ رَوَاہ الدَارمی۔
ترجمہ : حضرت ابوالجوزاء سے روایت ہے کہ ایک سال اہلِ مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس شکایت لائے۔ انہوں نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے مزار اقدس کو دیکھو اور مزار اقدس سے ایک روشن دان آسمان کی طرف کھول دو۔ یہاں تک کہ مزار انور اور آسمان کے درمیان چھت نہ ہو۔ اہل مدینہ نے ایسے ہی کیا۔ تو خوب بارش ہوئی حتیٰ کہ جانوروں کا چارہ بھی بکثرت پیدا ہوا اور اونٹ چربی سے خوب موٹے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چربی سے پھٹے جاتے ہیں تو اس سال کا نام عام الفتق رکھ دیا گیا۔ اس حدیث کو دارمی نے روایت کیا ہے ۔

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کی حیاتِ ظاہری میں بھی قحط سالی اور خشک سالی میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے توسل کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وصالِ اقدس کے بعد بھی مزارِ انور سے توسل کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے توسل کی برکت سے خلق اللہ اسی طرح خوشحال ہوئی، جس طرح پہلے ہوتی تھی۔ اس مبارک حدیث سے آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن اور واضح ہو گیا کہ صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے وصال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے توسل کرتے تھے اور دونوں توسلوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ دیکھئے سرکار کی ظاہری حیات میں بھی بارانِ رحمت کی طلب اور قحط سالی دور ہونے کے لئے توسل کیا گیا اور وصال کے بعد بھی قبر انور سے خشک سالی دور ہونے اور بارانِ رحمت نازل ہونے کے لئے توسل کیا گیا۔ اب معترض کا یہ کہنا کہ فوت شدہ بزرگوں سے توسل جائز نہیں۔ نیز یہ کہ صحابہ کرام بعد از وصال حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے توسل نہ کرتے تھے کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اگر غور کیا جائے تو اچھی طرح واضح ہو جائے گا کہ یہاں حضرت عباس کی ذات سے توسل نہیں۔ یہ توسل بھی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  ہی سے ہے۔ کیوں کہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’اِنَّا نتوسل الیک بِعَمِّ نَبِیِّکَ‘‘ اے اللہ! ہم تیرے نبی کے چچا کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں۔ عم مضاف ہے نبی کی طرف یعنی حضرت عباس سے جو توسل کیا جا رہا ہے وہ اس نسبت اور اضافت کی بنا پر ہے جو انہیں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے ساتھ ہے۔ اس نسبت سے قطع نظر کر کے توسل نہیں۔ جب توسل کا دارومدار اس نسبت و اضافت پر ہوا تو ثابت ہوا کہ یہ توسل حضرت عباس سے نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قبل الوصال حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے بلا واسطہ توسل ہوتا تھا اور یہ توسل بالواسطہ ہے۔
اور بالواسطہ توسل میں حکمت یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام ہمیشہ بلا واسطہ توسل کرتے اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کی ذاتِ گرامی کا بغیر واسطہ کے وسیلہ اختیار کرتے رہتے۔ نیز سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے کسی غلام کے واسطہ سے کبھی توسل نہ کرتے تو منکرین وسیلہ کہہ دیتے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے سوا کسی سے توسل جائز ہی نہیں۔ اگر جائز ہوتا تو صحابہ کرام کبھی تو کسی غیر نبی کا وسیلہ پکڑتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس کے واسطہ سے توسل کر کے اس دعویٰ پر دلیل قائم کر دی کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے بلا واسطہ توسل جائز ہے، اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلاموں کے واسطہ سے بھی بلاشبہ توسل جائز اور صحیح ہے۔ اب قیامت تک ہر ولی اللہ اور بزرگ کے ساتھ وسیلہ پکڑنے کا جواز ظاہر ہو گیا ۔ مختصر یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل فرما کر توسل کو آگے بڑھایا اور وسیلہ کو عام کیا اور اس امر پر نص فرما دی کہ یہ توسل حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے ساتھ نسبت اور اضافت پر مبنی ہے۔ لہٰذا قیامت تک اللہ تعالیٰ کا جو نیک بندہ بھی اس نسبت اور اضافت کے شرف سے مشرف ہو، اس کے ساتھ وسیلہ اختیار کرنا شرعاً جائز اور درست ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مکمل تحریر >>

کیا بریلوی کا لقب اہلسنت کو وہابیوں نے دیا ہے؟

کیا بریلوی کا لقب اہلسنت کو وہابیوں نے دیا ہے؟
کچھ سنی نما صلح کلی اور انکے ہمنواؤں نے کچھ دنوں سےشوسل میڈیا پر ادھم مچایا ہوا ہے یہ لوگ مسلمہ و معتمد اکابر و اعاظم علماء و مشائخ اہلسنت و مشائخ طریقت کی واضح تصریحات کے برعکس محض وہمی خیالی مفروضوں اور ڈھکوسلوں کی بنیاد پر لفظ ’’بریلوی‘‘ اور اصطلاح اصلاح مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف ایک منظم مہم چلا رہے ہیں۔ محض خدشات کی بنیاد پر مختلف النوع شوشے چھوڑ رہے ہیں کہ ’’بریلوی‘‘ نام ہمیں دیوبندیوں وہابیوں نے دیا۔ مسلک اعلیٰ حضرت کی اصطلاح اور بریلوی کے اطلاق و استعمال سے دوسری خانقاہوں اور دوسرے اکابرین کے عقیدت مندوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ مولوی ظہیر غیر مقلد وہابی نے کتاب البریلویہ لکھ کر دنیا بھر میں ہمیں بریلوی ایک نیا فرقہ ظاہر کردیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آوارگی فکرونظر کے حامل ان جدت پسندوں کو اتنی توفیق تو ہوئی نہیں کتاب ’’البریلویہ‘‘ جیسی رسوائے زمانہ مبنی برکذب و افتراء بوگس کتاب کا علمی تحقیقی محاسبہ کرکے مدلل و متحقق جواب دیتے جبکہ بحمدللہ اس کتاب کے تین چار معرکۃ الآرا و مسکت جوابات چھپ کر شائع ہوچکے ہیں۔ غیر مقلدین کی صفوں میں تو سناٹا چھایا ہوا ہے
یہ لوگ اتنا بھی نہیں بتاسکے کہ بریلوی بے شک نیا فرقہ نہیں۔ یہ تو سچے پکے خالص حقیقی واقعی اصلی اہلسنت کی علامت و نشان، شناخت و پہچان ہے۔ اس فتنوں کے دور میں دیوبندی وہابی بھی اہلسنت کہلا رہے ہیں۔ غیر مقلد وہابی بھی اہلسنت کہلا رہے ہیں۔ سعودی نجدی علماء بھی حنبلی بن کر اہلسنت کہلا رہے ہیں۔ ندوی اور مودودی بھی اہلسنت کہلا رہے ہیں۔ شیعہ رافضی بھی اہلسنت ہونے کے دعویدار ہیں۔ کچھ سجدہ تعظیمی والے جہلاء اور گمراہ گر بھی اہلسنت کا لیبل لگائے پھرتے ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے اور اس بیسوں کتب کے معتبر حوالہ جات نقد موجود ہیں۔
،،  ہم تو بریلوی کہلائے اور دیوبندی خود کو سنی کہہ کر متعارف کروانے لگے،، ۔ احسان الٰہی ظہیر اور کتاب البریلویہ کا رونا تسلسل و تواتر کے ساتھ بار بار رویا جارہا ہے

ان کو کچھ معلوم نہیں بریلوی… نام ہے، لفظ ہے، لقب ہے، امتیازی نشان و علامت ہے، خطاب ہے، حقیقت ہے کہ بریلوی کی حیثیت و حقیقت و معنویت کا معترضین کو کچھ پتہ نہیں۔ وہ تو اپنی افتاد طبع سے مجبور ہوکر بریلوی سے الرجک ہے اور بزعم خود عقل شکن وہمی خیالی من مانی دلیلوں سے بریلوی کا اطلاق و استعمال ترک کرانا چاہتا ہے ورنہ اس کے خیال خام میں دیوبندی، وہابی کتاب ’’البریلویہ‘‘ دکھا دکھا کر حقیقی سنیت حنفیت بریلویت کو صفحہ ہستی سے مٹادیں گے۔حالانکہ بارہا ہمارے علمائے اعلام کی طرف سے اسکا مسکت ومفصل جواب چھپ چکا ہے
انکو تو کو چاہئے تھا کہ اپنے قائم کردہ عنوان ’’بے شک بریلوی کوئی فرقہ نہیں‘‘ پر دلائل و شواہد قائم کرتے، نیا فرقہ کہنے کے لایعنی الزامات واثرات کا علمی تحقیقی انداز میں ازالہ کرتے اور یہ کہ بریلوی نیا فرقہ نہیں بلکہ خالص ومخلص مستند ومعتمد سچے پکے حقیقی واقعی سنی حنفی کی علامت و نشانی ہے۔  خالص سنیت کی سند اور ضمانت بریلوی ہے

خدا جانے معترضین کیوں احساس کمتری میں مبتلا ہیں؟ چلو میں خود سوال کرتا ہوں اور معترضین سے پوچھتا ہوں کہ اگر بالفرض ہم بریلوی کہلانا چھوڑ دیں تو کیا ہمیں نجدی وہابی حکومت بحیثیت صرف اور صرف اہلسنت ہمیں ہمارے عقائد نورانیت مصطفیﷺ علم غیب، حاضر وناظر، مختار کل امداد و اعانت و استعانت انبیاء و اولیائ، عید میلاد جلسہ و جلوس اور گیارہویں شریف، عرس بزرگان دین کرنے، انبیاء و رسل محبوبان خدا کو خدا تعالیٰ کی عطا سے حاجت روا مشکل ماننے پر کچھ قدغن نہ ہوگا؟ اس کی کیا گارنٹی اور کیا ضمانت ہے کہ دیابنہ وہابییہ کے ہم عقیدہ وہم مسلک ہمیں ان عقائد و معمولات کی بناء پر ہمیں مشرک بدعتی قرار نہ دیں گے۔ سوچ سمجھ کر اور سنبھل کر جواب دیں۔ آپ نے اپنی اندرونی حالت و کیفیت سے مجبور ہوکر یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ ہمیں بریلوی کہلانے کے جرم میں نیا فرقہ قرار دیا گیا ۔ میں معترضین سے پھر سوال کرتا ہوں کہ وہ بتائیں کہ جب جنت المعلی اور جنت البقیع شریف میں سیدہ فاطمہ سیدہ عاشہ، سیدہ خدیجۃ الکبری، سیدنا عثمان غنی، سیدنا امام حسن و دیگر ازواج ومطہرات و ابنات مقدسہ و اہل بیت اطہر اور جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مزارات مقدسہ کو گرایا اور ڈھایا گیا اور بلڈوز کیا گیا۔ ہم اس وقت بریلوی کہلاتے تھے؟ حرمین شریفین مکہ معظمہ، مدینہ منورہ میں ہزاروں علماء اہلسنت کو معزول اور پریشان کیاگیا۔ کیا اس وقت وہ بریلوی کہلاتے تھے؟ کتاب التوحید اور تقویۃ الایمان وغیرہ کتب میں ہمارے عقیدہ ومسلک اور معمولات پر جو بار بار شرک و بدعت کے فتاویٰ صادق ہوئے، اس وقت ہم بریلوی کہلاتے تھے؟. کیا بنے بات جہاں بات بنائی نہ بنے

اب آیئے آپ کی بلا دلیل وثبوت ہوائی باتوں، خیالی وسوسوں کی طرف
آپ لوگ کہتے ہیں کہ ’’لفظ دیوبندی وہابی کے جواب میں وہابیہ کی طرف سے لفظ بریلوی سواداعظم اہلسنت کو دیا جانے والا نام ہے‘

آپ کی یہ دونوں باتیں سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہیں۔ نہ آپ نے اس کا کوئی ثبوت و حوالہ دیا۔ مودبانہ عرض ہے کہ پڑھ لکھ کر دیکھ بھال کر بات فرمایا کریں۔

سنو غور کرو اور حوالہ جات ملاتے جائو، وہابیوں کو وہابی علامہ ابن عابدین شامی نے کہا دیکھو ردالمحتار حاشیہ و صاحب تفسیر صاوی علی الجلالین علامہ جمیل آفندی عاقی الفجر الصادق ص 17-18، علامہ احمدین زینی دحلان مکی (الفتوحات الاسلامیہ جلد 2 ص 268، والدر السنیہ ص 49، مولوی عبید اﷲ سندھی ابجد العلوم ص 87 بحوالہ تاریخ وہابیہ ص 83، بلکہ وہابی اپنی وہابیت پر اس قدر نازاں تھے کہ نواب الوہابیہ نواب صدیق حسن بھوپالی نے اپنے رسالہ کا نام ہی ’’ترجمان وہابیہ‘‘ رکھ لیا تھا اور وہابیوں کی ایک کتاب ’’تحفہ وہابیہ‘‘ ہے۔

ترجمہ بقلم مولوی اسماعیل غزنوی وہابی یہ جملہ کتب اور ان کے مصنفین سیدنا اعلیٰحضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کی ولادت باسعادت سے پہلے کے ہیں، لہذا ثابت ہوا کہ وہابیوں نے نام وہابی اور وہابیہ خود پسند کیا اور رکھا۔ ہم مندرجہ بالا قسم کے پچاس حوالہ جات اور نقل کرسکتے ہیں کہ وہابی بقلم خود وبیدہ خود وہابی ہیں۔
وہابیوں کو وہابی کا لقب ہم نے نہیں دیا۔ سیدنا اعلیٰحضرت قدس سرہ نے نہیں دیا، بلکہ لفظ وہابی کے معنی کی وضاحت میں اہل لغت متفق البیان ہیں اور سب نے یہی لکھا ہے۔ (وہابی (ع) عبدالوہاب نجدی کا پیروکار فرقہ (جو صوفیوں کے مدمقابل خیال کیا جاتا ہے )دیکھو حسن اللغات، فیروز اللغات، امیر اللغات وغیرہم زیر و۔ہ)
معترضین کے محدود مطالعہ اور عدم واقفیت و لاعلمی پر رہ رہ کر افسوس ہوتا ہے اور کچھ نہیں تو وہ اکابر علماء بدایوں شریف کی سیدنا مجدد اعظم اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ سے بہت پہلے کی کتاب سیف الجبار اور مجاہد جلیل وعظیم شیر حق علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ کی کتاب برد وہابیہ تحقیق الفتویٰ لسلب الطغویٰ اور بوارق محمدیہ وغیرہ ملاحظہ فرماتے اور تو اور مقالات سرسید میں خود مولوی اسماعیل پانی پتی وہابی فخریہ طور پر اپنی اور اپنے فرقہ کی وہابیت کا برملا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں اور ’’انگلش گورنمنٹ ہندوستان میں خود اس فرقہ کے لئے جو وہابی کہلاتا ہے، ایک رحمت ہے جو سلطنتیں اسلامی کہلاتی ہیں ان میں بھی وہابیوں کو ایسی آزادی مذہب ملنا دشوار بلکہ ناممکن ہے (مسلم) سلطان کی عمل داری میں وہابی کا رہنا مشکل ہے‘‘ (مقالات سرسید حصہ نہم ص 211-212، از مولوی اسماعیل پانی پتی وہابی و علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ بابت 2 فروری 1889ئ)

دیوبندیت وہابیت ہند کے امام دوم بانی ثانی مدرسہ دیوبند مولوی رشید احمد گنگوہی وہابیت اور بانی وہابیت عبدالوہاب شیخ نجدی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں۔ ان کے عقائد عمدہ تھے، وہ عامل بالحدیث تھا۔ شرک و بدعت سے روکتا تھا‘‘ (ملحضاً از فتاویٰ رشیدیہ جلد 1ص 111 و ص 551)

دیوبندی حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی بدیں الفاظ اپنی وہابیت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں ’’بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں، یہاں فاتحہ نیاز کیلئے کچھ مت لایا کرو‘‘ (اشرف السوانح جلد 1ص 45)

یہی تھانوی صاحب کہتے ہیں ’’اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں‘‘ (الاضافات الیومیہ جلد 5ص 67)

مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری بڑے ظریف تھے۔ کسی نے ان سے بدعتی اور وہابی کے معنی پوچھے تو عجیب تفسیر کی، فرمایا ’’بدعتی کے معنی ہیں باداب، بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں بے ادب باایمان‘‘ (ملفوظات حکیم الامت جلد 2ص 326)

دیوبندی وہابیوں کے منظور مضرور مناظر اعظم مدیر الفرقان کہتے ہیں ’’ہم خود اپنے بارے میں بڑی صفائی سے عرض کرتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں‘‘ (سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی تبلیغی وہابی ص 192)

مولوی محمد ذکریا امیر تبلیغی جماعت کہتے ہیں ’’مولوی صاحب! میں خود تم سے بڑا وہابی ہوں‘‘ (سوانح مولانا محمد یوسف تبلیغی وہابی ص 193)

فقیر انہی چند حوالہ جات پر اکتفا کرتا ہے، ورنہ بحمدہ تعالیٰ ایسے بیسیوں حوالے مزید پیش کئے جاسکتے ہیں۔ ان حوالہ جات سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ وہابی دیوبندی اکابر اپنے آپ کو فخریہ وہابی کہتے ہیں اور اسی طرح وہابی دیوبندی خود کو دیوبندی اور دیوبندی مسلک و مسلک دیوبندی کہتے اور لکھتے ہیں، ملاحظہ ہوں… مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند جس کا مقدمہ قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے لکھا ہے، میں صاف صاف لکھا ہے، مسلک دیوبند ص 424و ص 428 و ص 431 و ص 476 بیسوں صفحات پر مسلک دیوبند، دیوبندی مسلک لکھا ہوا ہے۔

کتب خانہ مجیدیہ ملتان کے شائع کردہ المہند عقائد علماء دیوبند کے مصنفہ مولوی خلیل انبیٹھوی کے صفحہ 20 صفحہ 21، صفحہ 164، صفحہ 165، صفحہ 187 پر بار بار مسلک دیوبند مسلک حق دیوبند، دیوبندی مسلک لکھا ہے۔ انجمن ارشاد المسلمین کے پاکستانی ایڈیشن حفظ الایمان کے متعدد صفحات پر دیوبندی، بریلوی، دیوبندی لکھا ہے۔ پاکستان دیوبندیوں کے مصنف اعظم مولوی سرفراز صفدر گکھڑوی نے اپنی کتاب عبارات اکابر کے صفحات 143,115,58,18,15 پر بار بار دیوبندی مسلک دیوبندی مسلک لکھا ہے۔

مولوی منظور سنبھلی مولوی رفاقت حسین دیوبندی کی کتاب بریلی کا دلکش نظارہ کے پاکستانی ایڈیشن شائع کردہ مکتبہ مدینہ صفحہ 35، صفحہ 181وغیرہ پر متعدد صفحات پر دیوبندی بریلوی دیوبندی دیوبندی لکھا ہے۔

مولوی خلیل بجنوری بدایونی کی کتاب انکساف حق کی پاکستانی ایڈیشن کے صفحہ 6 صفحہ 7 پر دیوبندی، بریلوی، بریلوی دیوبندی ہر دو اہلسنت لکھا ہے۔

مولوی عارف سنبھلی ندوۃ العلماء کی کتاب بریلوی فتنہ کا نیا روپ صفحہ 121، صفحہ 124پر مسلک دیوبندی، علماء دیوبند کا مسلک لکھا ہے۔

دیوبندیوں کے خر دماغ ذہنی مریض کذاب مصنف پروفیسر خالد محمود مانچسٹروی اپنی تردید شدہ کتاب مطالعہ بریلویت جلد اول کے صفحہ 401، صفحہ 402 پر دیوبندی مسلک دیوبندی دیوبندی لکھتا ہے۔ اسی کتاب کی جلد 3 کے صفحہ 202 پر اہلسنت بریلوی دیوبندی لکھا ہے۔

مطالعہ بریلویت جلد دوم صفحہ 16 پر دیوبندی بریلوی، مطالعہ بریلویت صفحہ 234 پر دیوبندی بریلوی، صفحہ 235 جلد 4 دیوبندیوں، بریلویوں دیوبندیوں جلد 4 صفحہ 237، دیوبندیوں صفحہ 238 جلد 4 دیوبندیوں بریلیوں، بار بار دیوبندیوں بریلویوں صفحہ 239، دیوبندیوں، دیوبندی بار بار دیوبندی صفحہ 240، جلد 4 دیوبندیوں صفحہ 316، اہلسنت والجماعۃ دیوبند مسلک، دیوبندی بریلوی، صفحہ 317، دیوبندی، دیوبندیوں، دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند وغیرہ وغیرہ، بکثرت مقامات پر دیوبندیوں نے خود کو بقلم خود دیوبندی لکھا ہے۔

مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی الاقاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 220، دیوبندیوں اور بریلیوں، مولوی انور کاشمیری صدر مدرس و شیخ الحدیث مدرسہ دیوبند کتاب حیات انور صفحہ 333، مضمون وقت کی پکار نوائے وقت لاہور، 8 مارچ 1976، جماعت دیوبندی
دیوبندی امیر شریعت عطاء اﷲ بخاری احراری دیوبندی لکھتے ہیں… مولانا غلام اﷲ خان دیوبندی بھی اہلسنت و الجماعت ہین، وہ ابن تیمیہ کے پیروکار ہیں (مکتوب بنام فقیر محمد حسن علی قادری رضوی)  دیوبندی جمعیت العلماء اسلام کے ناظم اعلیٰ مولوی غلام غوث ہزاروی لکھتے ہیں … اہلسنت و جماعت مسلمانوں کی تمام شاخیں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث سب مسلمان ہیں (خدام الدین لاہور)

قصص الاکبر ص 205 میں تھانوی لکھتے ہیں ’’میرا مسلک شیخ الہند کا مسلک‘‘  (دیوبندی مسلک، الافاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 135) میرا مسلک تھانوی (اشرف السوانح جلد 3ص 153 وصفحہ 164، تھانوی مسلک۔

ایک کتاب ’’آئینہ بریلویت‘‘ مولوی عبدالرحیم رائے پوری دیوبندی اور مولوی حسن احمد ٹانڈوی وغیرہ اکابر دیوبند کے پڑپوتے مرید مولوی عبدالرحمن شاہ عالمی مظفر گڑھ کی ہے ۔اس کے صفحہ 24، 27، 30، 34، 40، 42، 43، 45، 54، 57، 61، 63، چالیس صفحات پر بار بار دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند، دیوبندیوں، دیوبندی اہلسنت دیوبندی لکھا ہے اور فخریہ طور پر اپنے دیوبندی ہونے کا اقرار کیا ہے۔

ایک کتاب تسکین الاتقیاء فی حیاۃ الانبیاء مرتبہ مولوی محمد مکی دیوبندی صفحہ 79 مسلک اکابر دیوبند، صفحہ 99، اکابر دیوبند کا مسلک صفحہ 100اکابردیوبند کا مسلک، صفحہ 01 مسلک دیوبند، صفحہ  102 علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 103، علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 106، صفحہ 107 بار دیوبندی دیوبندی… اس کتاب پر پاکستان کے صف اول کے اکابردیوبند مولوی محمد یوسف بنوری شیخ الجامعہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی، مولوی شمس الحق افغانی، صدر وفاق المدرس العربیہ دیوبند، مفتی محمد حسن مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، مفتی محمد شفیع سابق مفتی دیوبند مہتمم دارالعلوم کراچی، مولوی عبدالحق دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، مولوی ظفر احمد عثمانی شیخ الحدیث دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار سندھ، مولوی محمد ادریس کاندھلوی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاوہر، مولوی محمد رسول خان جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور، مولوی احمد علی امیر خدام الدین وامیر جمعیت العلماء اسلام، مولوی محمد صادق، ناظم محکمہ امور مولوی حامد میاں جامعہ مدینہ، مولوی مسعود احمد سجادہ نشین درگاہ دین پور وغیرہ اٹھارہ اکابر دیوبند کی تصدیقات ہیں۔ اس قسم کے حوالے اگر فقیر چاہے تو پچاسوں نقل کرسکتا ہے۔

رضوی ہے کرم مجھ پہ میرے غوث ورضا

ہر بحر سخن سہل تریں میرے لئے ہے

مکمل تحریر >>