Pages

Wednesday 2 November 2022

خواب میں دیدار الہٰی

*خواب میں دیدارِ الٰہی:*
جُمہور علما رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک دنیا میں خواب کی حالت میں دیدارِ الٰہی ممکن ہے ، محال نہیں ، بلکہ واقع ہے جیساکہ بہت سے اَسلاف سے منقول ہے۔چنانچہ

(1)شیخ عبدُ الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں خواب میں دیدارِ الٰہی ہوسکتا ہے بلکہ ہوا بھی ہے ، ہمارے امامِ اعظم بھی اس نعمت سے مشرف ہوئے ہیں۔ (اشعۃا للمعات ، 4 / 449)

(2)علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حکیم ترمذی ، شمسُ الائمہ علامہ کردری اور حمزہ الزیات وغیرہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خواب میں اللہ پاک کے دیدار سے مشرف ہوئے ہیں۔ ([منح الروض الازھر ، ص151)

(3)امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ حمزہ الزیات کہتے تھے : میں نے اپنے رب کے سامنے سورۂ یٰسٓ اور طٰہٰ کی قراءت کی ہے۔ ([الیواقیت و الجواہر ، ص162ماخوذاً)

(4)حضرتِ سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں خواب میں دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوا ، میں نے عرض کی : اے رب! تیرے نزدیک کون سا عمل افضل ہے جس کے ذریعے مقربین تیرا قرب حاصل کرتے ہیں؟ ارشاد فرمایا : اے احمد! وہ میرا پاک کلام(قراٰنِ پاک) ہے۔ میں نے عرض کی : اے رب! اسے سمجھ کر پڑھےیا بغیرسمجھے پڑھے۔ ارشاد فرمایا : سمجھ کر پڑھےیا بغیر سمجھے۔ ([احیاء العلوم ، 1 / 364)
مکمل تحریر >>

وحی کسے کہتے ہین

وَحی کسے کہتے ہیں لُغَت(Dictionary) کے مطابق وَحی کا معنی خفیہ طریقے سے خبر دینا، اشارہ کرنا، پیغام دینا وغیرہ ہے جبکہ شریعت کی اِصطلاح میں انبیائے کرام علیہمُ الصّلٰوۃ والسَّلام پر اللہ پاک کی طرف سے نازل ہونے والے کلام کو ”وَحی“ کہتے ہیں۔

وَحی کی اقسام انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے حق میں وحی کی تین قسمیں ہیں: (1)فرشتے کے واسطے کے بغیر براہِ راست (Direct) اللہ کریم کا کلام سننا جیسے کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السَّلام نے جبکہ شبِ معراج ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سنا (2)فرشتے کے واسطے سے اللہ کا پیغام آنا (3)انبیا کے دل میں کسی بات کا ڈالا جانا۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں.

کشف کے معنیٰ ہیں کسی بات یا واقعہ کا کھل جانا یا کسی پر غیبی چیز کا منکشف ہو جانا۔
الہام کے معنی ہیں دل میں کسی بات کا القا ہوجانا اور وحی کہتےہیں اللہ تعالی کی جانب سے نبی کی طرف بھیجا جانے والا پیغام۔ الہام کی حقیقت یہ ہے کہ بغیر نظر واستدلال کے اﷲ تعالیٰ کوئی حقیقت بندے کے قلب میں القاء فرمادیں ، یا کسی غیبی مخلوق کے ذریعہ اطلاع بخش دیں جیسا کہ اس حدیث میں ہے :
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ انَّ اللّٰہ تَعَالٰی جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِہٖ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ مَانَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ فَقَالُوْا فِیْہِ وَقَالَ فِیْہِ عُمَرُ الَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ فِیْہِ عَلٰی نَحْوِمَا قَالَ عُمَرُ (
جامع ترمذی - حدیث 3682 )
ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حق بات کو (الہام کے ذریعہ سے) عمر کی زبان اور قلب پر جاری کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب کبھی لوگوں کو کوئی (نئی) بات پیش آئی پھر اس کے بارے میں لوگوں نے بھی اپنی رائے دی اور حضرت عمر نے بھی اپنی رائے دی تو قرآن (ہمیشہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے موافق ہی نازل ہوا۔
اسی طرح بخاری شریف میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل میں مرقوم ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنْ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ زَادَ زَكَرِيَّاءُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ فَإِنْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدث (صاحب الہام) ہواکرتے تھے ، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں ۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود ان سے کلام کیا جاتا تھا اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں ۔
محدث وہ جس پر خدا کی طرف سے الہام ہو اور حق اس کی زبان پر جاری ہوجائے یا فرشتے اس سے بات کریں یا وہ جس کی رائے بالکل صحیح ثابت ہو، محدث وہ بھی ہوسکتا ہے جو صاحب کشف ہو جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت میں حضرت یوحنا حواری گزرے ہیں جن کے مکاشفات مشہور ہیں، یقینا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں ۔


معلوم ہواکہ الہام اور کشف اور وحی تینوں چیزیں اللہ تعالی کے چاہنے سے ہی ہوتی ہیں ،انکا منبع ایک ہی ہےلیکن ان میں بنیادی فرق ہے کہ وحی نبی کے ساتھ خاص ہوتی ہے اور الہام اور کشف غیر بنی کو ہوتے ہیں۔ وحی تو نبوت کے ساتھ ختم ہو گئی ۔ اب اگرکوئی اس کادعوی کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے۔کشف والہام کا حکم یہ ہے کہ ان سے علم ظنی حاصل ہوتا ہے ، اگر شرعی قواعد کے مطابق ہے تو قابل عمل ہے ورنہ واجب الترک ہے۔ان دونوں کی رو اسے اگر کوئی حقائق ومعارف کادعوی کرے تو صرف وہی حقائق ومعارف مقبول ہیں جن کو شریعت مسترد نہ کرے.
مکمل تحریر >>

*قرآن و حدیث میں کشف و کرامات و تصرفات اولیاء اللہ کا بیان*

*قرآن و حدیث میں کشف و کرامات و تصرفات اولیاء اللہ کا بیان*

 اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورہ نمل  میں ارشاد فرماتا ہے. 
قَالَ يَآ اَيُّـهَا الْمَلَاُ اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِىْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ يَّاْتُوْنِىْ مُسْلِمِيْنَ (38) 
کہا اے دربار والو! تم میں کوئی ہے کہ میرے پاس اس کا تخت لے آئے اس سے پہلے کہ وہ میرے پاس فرمانبردار ہو کر آئیں۔

قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ ۖ وَاِنِّىْ عَلَيْهِ لَقَوِىٌّ اَمِيْنٌ (39) 
جنوں میں سے ایک دیو نے کہا میں تمہیں وہ لا دیتا ہوں اس سے پہلے کہ تو اپنی جگہ سے اٹھے، اور میں اس کے لیے طاقتور امانت دار ہوں۔

قَالَ الَّـذِىْ عِنْدَهٝ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٝ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْۖ لِيَبْلُوَنِـىٓ ءَاَشْكُـرُ اَمْ اَكْفُرُ ۖ وَمَنْ شَكَـرَ فَاِنَّمَا يَشْكُـرُ لِنَفْسِهٖ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّىْ غَنِىٌّ كَرِيْـمٌ (40) 
اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے تیری آنکھ جھپکنے سے پہلے لا دیتا ہوں، پھر جب اسے اپنے روبرو رکھا دیکھا تو کہنے لگا یہ میرے رب کا ایک فضل ہے، تاکہ میری آزمائش کرے کیا میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری، اور جو شخص شکر کرتا ہے اپنے ہی نفع کے لیے شکر کرتا ہے، اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بھی بے پروا عزت والا ہے۔

قرآن کریم کے ایک ولی اللہ کے تصرف کو اس طرح واضح بیان کرنے کے بعد بھی کوئی تصرف ولی کو شرک کہے تو پھر یا عقل سے فارغ ہے یا ایمان سے یا شاید دونوں سے. 

حضرت مریم رضی اللہ عنھا کی کرامت
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا موقع آیاتوآپ کی والدۂ ماجدہ حضرت مریم رضی اللہ عنھا ایک درخت کے تنے کے پاس آئیں، جوسوکھاتھا، اُس پر کھجورنہ تھے ، اللہ تعالی نے فرمایا:
وَهُزِّیْ إِلَيْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْکِ رُطَبًا جَنِيًّا-
ترجمہ:اور کھجور کے درخت کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ، یہ تم پر تازہ اور پکے کھجور گرادے گا۔(سورۃمریم ۔25)

     آیتِ مذکورہ میں بتایا گیا کہ حضرت مریم رضی اللہ عنھا نے کھجور کے درخت کو ہاتھ لگایا تو وہ اسی وقت تروتازہ کھجور آپ کی گود میں ڈالنے لگا ، ظاہر ہے سوکھا ہوا درخت تروتازہ ہوتاہے تواُس کے لئے وقت درکار ہے ، مختصر لمحات یا چند گھنٹوں میں بے پھل درخت پھلدار نہیں ہوتا‘ خشک درخت سرسبز نہیں ہوتا‘ سوکھے ہوئے درخت پر پھل نظر نہیں آتے ، سوکھے درخت کا لمحہ بھرمیں تروتازہ اور پھلدار ہوجانا اور وہ بھی مریم کے فرمان پر یقیناخداکی اس محبوب ولیہ کی کرامت ہے ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ رضی اللہ عنھا کی کرامت
قرآن کریم میں بیان کی جا نیوالی غیر انبیاء کی کرامتو ں میں سے ایک حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ رضی اللہ عنھا کو غیبی خبر کا الہام کیا جانا ہے :

وَاَوْحَيْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِيْهِۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَاَ لْقِيْهِ فِى الْيَمِّ وَلَا تَخَافِىْ وَلَا تَحْزَنِىْۚ اِنَّا رَاۤدُّوْهُ اِلَيْكِ وَجٰعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ
سورہ القصص آيت 7
یعنی اللہ کی جانب سے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے پاس وحی (الہام) ہوئی کہ تم اس بچے کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا ئے نیل میں ڈال دو اور یہ خوش خبری بھی دیدی گئی کہ ہم اس کو پھر تمہارے پاس پہنچادیں گے اور اس کو (اپنا رسول )بنائیں گے۔
 یہ سب مستقبل اور غیب کی خبریں ہیں جو ام موسی علیہ السلام کو دی گئیں مگر کچھ بیوقوف انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی کو کشف یا الہام کے ذریعے غیبی خبریں ملنے کو شرک تصور کرتے ہیں. 

*بخاری و مسلم میں کشف و کرامت اور تصرف ولی کا بیان*

 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی لڑکا جھولے میں (یعنی شیرخوارگی میں) نہیں بولا: مگر تین لڑکے۔ ایک تو عیسی علیہ السلام، دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج کا قصہ یہ ہے کہ وہ ایک عابد شخص تھا سو اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اسی میں رہتا تھا۔ اس کی ماں آئی وہ نماز پڑھ رہا تھا، ماں نے پکارا: اے جریج! وہ بولا: اے رب! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز ہی میں رہا اس کی ماں پھر گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہو ا، پھر آئی اور پکارا: اے جریج! وہ بولا: یا اللہ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز ہی میں رہا۔ اس کی ماں بولی: یا اللہ! اس کو مت مارنا جب تک بدکار عورتوں کا منہ نہ دیکھے۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا۔ اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے۔ وہ بولی: اگر تم کہو تو میں جریج کو بلا میں ڈال دوں، پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی، لیکن جریج نے اس طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چروا ہے کے پاس آئی جو جریج کے عبادت خانہ کے پاس ٹھہرا کرتا تھا اور اجازت دی اس کو اپنے سے صبحت کرنے کی، اس نے صبحت کی وہ پیٹ سے ہوئی اور جب بچہ جنا تو بولی: کہ یہ بچہ جریج کا ہے لوگ یہ سن کر جریج کے پاس آئے اور اس سے کہا: اتر اور اس کا عبادت خانہ گرا دیا اور اس کو مارنے لگے وہ بولا: کیا ہو ا تم کو؟ انہوں نے کہا: تو نے زنا کیا اس بدکار عورت سے، وہ ایک بچہ بھی جنی ہے تجھ سے۔ جریجنے کہا: وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے،جریج نے کہا: ذرا مجھ کو چھوڑو میں نماز پڑھ لوں، پھر نماز پڑھی اور آیا اس بچہ کے پاس اور اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا: اے بچے! تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا: فلانا چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ دوڑے جریج کی طرف اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے تیرا عبادت خانہ ہم سونے سے بنا دیتے ہیں۔ وہ بولا: نہیں مٹی سے پھر بنا دو جیسا تھا۔ لوگوں نے بنا دیا۔ تیسرا ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا اتنے میں ایک سوار نکلا عمدہ جانور پر ستھری پوشاک والا۔ اس کی ماں نے کہا:: یا اللہ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا۔ بچے نے یہ سن کر چھاتی چھوڑ دی اور اس سوار کی طرف دیکھا اور کہا: یا اللہ! مجھ کو ایسا نہ کرنا، پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔“سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہو ں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کے دودھ پینے کی نقل کرتے تھے اس طرح پر کہ کلمہ کی انگلی اپنے منہ میں ڈال کر چوستے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر لوگ ایک لونڈی کو لے کر نکلےجس کو مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے: تو نے زنا کرایا اور چوری کی۔ وہ کہتی تھی: اللہ مجھے کفایت کرتا ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ بچے کی ماں بولی: یا اللہ! میرے بچہ کو اس لونڈی کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس لونڈی کی طرف دیکھا اور کہنے لگا: یا اللہ! مجھ کو اس لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی۔ ماں نے کہا: او سر منڈے! جب ایک شخص اچھی صورت والا نکلا اور میں نے کہا: یا اللہ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا: یا اللہ! مجھ کو ایسا نہ کرنا اور یہ لونڈی کو لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں تو نے زنا کیا، چوری کی، تو میں نے کہا: یا اللہ! میرے بچے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ تو کہتا ہے: یا اللہ! مجھ کو اس کی طرح کرنا (یہ کیا بات ہے؟)۔ بچہ بولا: وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی یا اللہ! مجھ کو اس کی طرح نہ کرنا اور لونڈی پر لوگ تہمت کرتے ہیں، کہتے ہیں تو نے زنا کیا، چوری کی، حالانکہ نہ اس نے زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے، تو میں نے کہا: یا اللہ! مجھ کو اس کے مثل بنا۔“
(صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ، باب تَقْدِيمِ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى التَّطَوُّعِ بِالصَّلاَةِ وَغَيْرِهَا:
حدیث نمبر: 6509)
جریج کا یہ واقعہ بخاری شریف میں حدیث نمبر: 1206 میں بھی موجود ہے
 بخاری و مسلم کی اس روایت میں جریج نہ تو کوئی نبی تھا نہ فرشتہ.. نیک آدمی (اللہ کا ولی) تھا لیکن بچہ اسکے کہنے پر بولنے لگ گیا..
اور ایک دودھ پیتا بچہ اللہ کے حکم سے غیب کی باتیں جان  سکتا ہے تو اب اس طرح کی کرامات کا انکار کر کے اسے کفر و شرک کہنے والے کون سے دین یا بخاری مسلم کا درس دیتے ہیں ؟

اسی طرح صحیح مسلم میں اصحاب الاخدود کا واقعہ مرقوم ہے جس میں ایک راہب اور اسکے شاگرد کی کرامات، کشف، الہام اور مستقبل بینی کا تفصیلی تذکرہ ہے. حدیث کیونکہ طویل ہے اسکی ساری روایت بیان کرنا چھوٹے مضمون میں ممکن نہیں. جسے مکمل حدیث پڑھنی ہو وہ صحیح مسلم میں نے كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ کا باب اصحاب الاخدود کا قصہ
حدیث نمبر: 7511 تفصیل سے پڑھ سکتا ہے. 

بخاری کتاب التفسیر میں حضرت خضر علیہ السلام کا تصرف بیان کیا گیا ہے کہ 
"آپ نے گرتی دیوار کو فقط ہاتھ سے مس کر کے دوبارہ صحیح حالت میں لوٹا دیا" 
صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ البَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا)  حدیث نمبر 4725
فقط مس کر کے قابل تعمیر دیوار کو صحیح سالم کر دینا واضح  تصرف ہے. 
حضرت خضر علیہ السلام کے نبی یا غیر نبی ہونے میں علماء کرام کا اختلاف ہے اور کسی کے پاس بھی اپنی یا تفہیم کے علاوہ قطعی دلیل موجود نہیں. حضرت خضر علیہ السلام کے کشف و الہام، تصرفات کا بیان سورہ کہف میں تفصیل سے موجود ہے. 

 *کرامات ِ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ*

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور  تابعین رحمہم اللہ اور دیگر صالحین کی کرامات تو بہت زیادہ ملتی ہیں مگر اختصار سے چند ایک کا بیان کیا جاتا ہے تا کہ کرامات کو جھوٹی کہانیاں کہنے والوں کا جھوٹ و فریب آشکار ہو سکے. 

نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابی حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ کا کشف یعنی علمِ غیب دیکھئے کہ اپنی مَوت، نَوعِیَتِ مَوت، حُسنِ خاتِمَہ وغیرہ سب کی خبر پہلے سے دے دی۔ چنانچہ حضرت سیّدُنا جابِر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب غَزْوَۂ اُحُد ہوا میرے والد نے مجھے رات میں بُلا کر فرمایا: میں اپنے متعلق خیال کرتا ہوں کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ میں پہلا شہید میں ہوں گا۔میرے نزدیک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد تم سب سے زیادہ پیارے ہو۔ مجھ پر قرض ہے تم ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے لئے بھلائی کی وَصِیَّت قبول کرو۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم نے دیکھا صبح سب سے پہلے شہید وہی تھے۔(بخاری،ج1،ص454،حدیث:1351مختصراً)

اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سورۂ کہف پڑھ رہے تھے تو آسمان سے ایسی چیز اتری تھی جو بادل کا سیاہ سائبان معلوم ہوتا تھا اور جس میں گویا چراغ روشن تھے۔ یہ فرشتے تھے جو کہ ان کی قرأت سننے کے لیے آئے تھے۔
(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، رقم: 3614، مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب نزول السکینۃ رقم: 1859، ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فی سورۃ الکہف، رقم: 2885، مسند احمد4؍281۔)

سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو فرشتے سلام کیا کرتے تھے۔
(مسلم کتاب الحج، باب التمتع، رقم: 2974۔)

سیدناسلمان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہما جس طشتری میں کھانا کھا رہے تھے کہ وہ طشتری یا وہ چیزیں جو کہ اس میں تھیں، تسبیح پڑھنے لگیں۔ سیدناعباد بن بشر رضی اللہ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے پاس سے اندھیری رات میں نکلے تھے اور تازیانہ کے کنارے کی شکل کا ایک نور ان کے لیے روشنی کرتا تھا۔ جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو وہ روشنی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک حصہ ایک کے ساتھ اور ایک حصہ دوسرے کے ساتھ ہوگیا۔
(بخاری، 3805، کتاب مناقب الانصار، باب منقبہ، اُسید بن حضیر و عباد بن بشر، مسند احمد3؍131)

بخاری و مسلم میں سیدناصدیق رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے کہ جب وہ تین مہمانوں کے ہمراہ اپنے گھر کی طرف گئے۔ جو لقمہ کھاتے تھے، اس کے نیچے کھانا بڑھ کر اس سے زیادہ ہو جاتا تھا چنانچہ سب نے پیٹ بھر کر کھا بھی لیا اور کھانا بھی پہلے کی نسبت زیادہ ہوگیا۔ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ کھانا پہلے سے زیادہ ہے تو سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اس کھانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے پاس لے گئے۔ وہاں بہت سے لوگ آئے سب نے کھانا کھایا اور سب سیر ہوگئے۔
(بخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب السمر مع الضیف والاھل رقم: 602، مسلم کتاب الاشربہ، باب اکرام الضیف، رقم: 5365)

سیدناخبیب بن عدی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں مشرکین کے پاس قیدی تھے اور ان کے پاس انگور لائے جاتے تھے جنہیں آپ کھایا کرتے تھے، حالانکہ مکہ میں انگور نہیں ہوتے۔
(بخاری ، کتاب الجہاد باب ھل یستاثر الرجل ومن لم یستاثر، 3045)

سیدناعامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔ لوگوں نے ان کی نعش کو ڈھونڈا لیکن نہ ملی۔ بات یوں ہوئی کہ نعش قتل ہوتے ہی اٹھا لی گئی تھی، عامر بن طفیل نے نعش کو ہوا میں اٹھتے ہوئے دیکھا۔ عروہ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں فرشتوں نے اٹھا لیا تھا۔
سیدہ اُم ایمنrہجرت کر کے نکلیں تو ان کے پاس راستے کا خرچ تھا اور نہ پانی، قریب تھا کہ پیاس سے ہلاک ہو جاتیں۔ روزہ دار بھی تھیں، جب افطار کا وقت قریب آیا تو ان کو اپنے سر پر کوئی آہٹ سنائی دی۔ سر اٹھایا تو کیا دیکھتی ہیں کہ ایک ڈول لٹک رہا ہے۔ چنانچہ آپ نے اس ڈول سے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور زندگی بھر ان کو کبھی پیاس نہیں لگی۔
(ابن سعد 8/224۔ الاصابہ۔ باسناد رجالہ ثقات ولکنہ منقطع)

حضرت سیّدُنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی کرامت بھی بہت مشہور ہے کہ یہ رُوم کی سَرزمین میں دورانِ سفر اسلامی لشکر سے بِچَھڑ گئے۔ لشکر کی تلاش میں جارہے تھے کہ اچانک جنگل سے ایک شیر نکل کر ان کے سامنے آگیا۔حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو مخاطب کر کے کہا: اے شیر! اَنَامَولٰی رَسُولِ اللہِ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم یعنی میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا غلام ہوں، میرا معاملہ اِس اِس طرح ہے۔ یہ سُن کر شیر دُم ہِلاتا ہُوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا۔ جب کوئی آواز سنتا تو اُدھر چلا جاتا، پھر آپ کے بَرابَر چلنے لگتا حتّٰی کہ آپ لشکر تک پہنچ گئے پھر شیر واپس چلا گیا
(مستدرک حاکم3؍606، مجمع الزوائد9؍366، والبیہقی فی الدلائل6؍46)

براء بن مالک رضی اللہ عنہ جب اللہ کو قسم دیتے تھے تو ان کی قسم سچی کر دی جاتی تھی۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب براء بن مالک، رقم: 3854)

جب جہاد میں جنگ کا زور مسلمانوں پر آپڑتا تھا تو صحابہ رضی اللہ عنہم فرمایا کرتے تھے، اے براء رضی اللہ عنہ اپنے پروردگار کو قسم دو۔ آپ کہا کرتے تھے ''اے میرے پروردگار میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے۔ (یعنی ان کی مشکیں باندھ کر ہمارے حوالے کر دے) تو پھر دشمن کو شکست ہوجاتی تھی چنانچہ جب یوم قادسیہ میں آپ نے کہا کہ اے میرے پروردگار! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے اور مجھے پہلا شہید بنا تو کفار کو شکست ہوگئی اور سیدنابراء رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔
سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب ایک مستحکم قلعہ کا محاصرہ کر لیا، تو کفار سے کہاکہ اسلام قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک اسلام نہیں لائیں گے جب تک تو زہر نہ پی لے۔ سیدناخالد رضی اللہ عنہ نے زہر پی لیا لیکن انہیں کچھ نقصان نہ ہوا۔
(مجمع الزوائد، 9؍350، طبرانی)

سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس درجہ مستجاب الدعوات تھے کہ جو دعا بھی کرتے تھے، منظور ہوجاتی تھی۔ آپ ہی نے کسریٰ کی فوجوں کو ہزیمت دی اور عراق فتح کیا۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب سعد بن ابی وقاص، رقم: 3751)

امیرالمؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کا سپہ سالاربنا کر نہاوند کی سرزمین میں جہاد کے لیے روانہ فرمادیا۔ آپ جہاد میں مصروف تھے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجدنبوی کے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ناگہاں یہ ارشاد فرمایا کہ یَاسَارِیَۃُ الْجَبَل (یعنی اے ساریہ!پہاڑکی طرف اپنی پیٹھ کرلو) حاضرین مسجد حیران رہ گئے کہ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو سرزمین نہاوند میں مصروف جہاد ہیں اورمدینہ منورہ سے سینکڑوں میل کی دوری پر ہیں۔آج امیر المؤمنین نے انہیں کیونکر اورکیسے پکارا ؟ لیکن نہاوند سے جب حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاصد آیا تو اس نے یہ خبر دی کہ میدان جنگ میں جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی اتنے میں ناگہاں ایک چیخنے والے کی آواز آئی جو چلا چلا کریہ کہہ رہا تھا کہ اے ساریہ ! تم پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو ۔ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز ہے، یہ کہا اورفوراً ہی انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کر کے صف بندی کا حکم دیا اور اس کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو ایک دم اچانک جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اوردم زدن میں اسلامی لشکرنے کفار کی فوجوں کو روندڈالا اورعساکر اسلامیہ کے قاہرانہ حملوں کی تاب نہ لاکر کفار کا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا۔ (مشکوٰۃ باب الکرامات ، بیہقی دلائل النبوۃ6؍370  طبرانی ،ابو نعیم وتاریخ الخلاء,  الاصابہ لابن حجر قال الالبانی وقد خرجۃ فی الصحیحہ 1110۔)

حضرت امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرزمین روم میں مجاہدین اسلام کا ایک لشکر بھیجا ۔ پھر کچھ دنوں کے بعد بالکل ہی اچانک مدینہ منورہ میں نہایت ہی بلندآواز سے آپ نے دو مرتبہ یہ فرمایا : یَالَبَّیْکَاہُ!یَالَبَّیْکَاہُ!  (یعنی اے شخص! میں تیری پکار پر حاضر ہوں)اہل مدینہ حیران رہ گئے اوران کی سمجھ میں کچھ بھی  آیا کہ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس فریاد کرنے والے کی پکار کا جواب دے رہے ہیں؟ لیکن جب کچھ دنوں کے بعد وہ لشکر مدینہ منورہ واپس آیا اوراس لشکر کا سپہ سالاراپنی فتوحات اور اپنے جنگی کارناموں کاذکر کر نے لگا تو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان باتوں کو چھوڑدو! پہلے یہ بتاؤ کہ جس مجاہد کو تم نے زبردستی دریا میں اتاراتھا اوراس نے یَاعُمَرَاہُ! یَاعُمَرَاہُ!  (اے میرے عمر!میری خبرلیجئے ) پکارا تھا اس کا کیا واقعہ تھا. سپہ سالارنے فاروقی جلال سے سہم کر کانپتے ہوئے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اپنی  دریا کے پار اتارنا تھا اس لئے میں نے پانی کی گہرائی کا اندازہ کرنے کے لیے اس کو دریا میں اترنے کا حکم دیا ،چونکہ موسم بہت ہی سرد تھا اور زور دار ہوائیں چل رہی تھیں اس لئے اس کو سردی لگ گئی اوراس نے دو مرتبہ زور زور سے  یَا عُمَرَاہُ! یَاعُمَرَاہُ! کہہ کر آپ کو پکارا،پھر یکایک اس کی روح پرواز کر گئی ۔ خدا گواہ ہے کہ میں نے ہرگز ہرگز اس کو ہلاک کرنے کے ارادہ سے دریا میں اترنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ جب اہل مدینہ نے سپہ سالارکی زبانی یہ قصہ سناتو ان لوگوں کی سمجھ میں آگیا کہ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن جو دو مرتبہ یَالَبَّیْکَاہُ! یَالَبَّیْکَاہُ! فرمایا تھا درحقیقت یہ اسی مظلوم مجاہد کی فریاد وپکارکا جواب تھا ۔ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سپہ سالارکا بیان سن کر غیظ وغضب میں بھر گئے اورفرمایاکہ سر دموسم اور ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں میں اس مجاہد کودریا کی گہرائی میں اتارنا یہ قتل خطا کے حکم میں ہے ،لہٰذا تم اپنے مال میں سے اس کے وارثوں کو اس کا خون بہا ادا کرواورخبردار! خبردار!آئندہ کسی سپاہی سے ہرگز ہرگز کبھی کوئی ایسا کام نہ لینا جس میں اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہوکیونکہ میرے نزدیک ایک مسلمان کا ہلاک ہوجانا بڑی سے بڑی ہلاکتوں سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر ہلاکت ہے۔( ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء للشاہ ولی اللہ)۔

زنیرہ رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے کی وجہ سے عذاب دیا گیا لیکن اس نے اسلام نہ چھوڑا اور اس کی بینائی جاتی رہی۔ مشرکوں نے کہا، اس کی بینائی لات و عزیٰ لے گئے۔ زنیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ''واللہ ہرگز نہیں'' اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔
(الاصابہ: 6/312۔)

سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے ارویٰ بنت حکم کے خلاف بددعا کی اور وہ اندھی ہوگئی۔ واقعہ یوں ہے جب کہ ارویٰ نے سعید پر کوئی جھوٹا الزام لگایا تو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! اگر وہ جھوٹی ہے تو اسے آنکھ سے اندھی کر دے یا اسے اسی زمین میں ہلاک کر دے، چنانچہ وہ اندھی ہوگئی۔ اور اپنی زمین کے ایک گڑھے میں گر کر مر گئی۔
(مسلم کتاب المساقاۃ، باب تحریم الظلم، وغصب الارض وغیرھا، رقم: 1610)

علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی طرف سے بحرین کے حاکم تھے اور اپنی دعا میں کہا کرتے تھے۔ یاعلیم، یا حلیم، یا علی، یاعظیم، تو ان کی دعا قبول ہوجایا کرتی تھی۔ایک مرتبہ ان کے کچھ آدمیوں کو پینے اور وضو کرنے کے لیے پانی نہ ملا تو آپ نے دعا کی اور قبول ہوگئی۔ ایک دفعہ سمندر ان کے سامنے آگیا اور وہ گھوڑوں کے ذریعہ اسے عبور کرنے پر قادر نہ تھے۔ آپ نے دعا کی تو ساری جماعت پانی پر سے گزر گئی اور ان کے گھوڑوں کی زینیں بھی تر نہ ہوئیں۔ پھر آپ نے دعا کی کہ میں مرجائوں تو یہ لوگ میری نعش نہ دیکھنے پائیں۔ چنانچہ ان کی نعش لحد میں نہ پائی گئی۔
(الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ)

 حضرتِ سیِّدُنا امام مالک بن اَنس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے مشہورِ زمانہ مجموعہ احادیث'' مُوَئطّاامام مالِک'' میں فرماتے ہیں،حضرتِ سیِّدُنا عُر وہ بن زُبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ا ُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا،خلیفۃُ الرَّسول حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہنے اپنے مرضِ وفات میں انہیں وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، میری پیاری بیٹی ! آج تک میرے پاس جو میرا مال تھا ، وہ آج مِیراث کا مال ہے تمہارے دو بھائی( عبدالرحمٰن ا ور محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) اور تمہاری دو بہنیں (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) ہیں لہٰذا تم لوگ میرے مال کو قراٰنِ مجید کے حکم کے مطابِق تقسیم کر لینا ۔ یہ سُن کر حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی، ابّا جان! میری توایک ہی بہن'' بی بی اَسمائ'' ہیں، یہ میری دوسری بہن کون ہے؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے ارشاد فرمایا ، وہ (تمہاری سَوتیلی والِدہ)'' حبیبہ بنتِ خَارِجَہ'' (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)کے پیٹ میں ہے، میرے خیال میں وہ لڑکی ہے ۔
( المُؤطّالِلامامِ مالک ج 2 ص 270 حدیث 1503 )

اِس حدیث کے تَحت حضرتِ سیِّدُنا علّامہ محمد بن عبدُالْباقی زُرْقانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَّانی تحریر فرماتے ہیں ، چُنانچِہ ایسا ہی ہوا کہ لڑکی پیدا ہوئی جن کا نام'' اُمِّ کُلثُوم'' رکھا گیا۔( شرحُ الزُّرقانی علی المُؤَطّا ج4ص61)
محترم قارئین!ا ِس حدیث مبارَک کے بارے میں حضرتِ علّامہ تاجُ ا لدّین سُبکی علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ القوی حجۃ اللہ علی العالمین میں بیان فرماتے ہیں کہ اس حدیث سےخلیفۃُ الرَّسول حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو کرامتیں ثابِت ہوتی ہیں:
(1) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبل از وفات ہی یہ علم ہو گیا تھا کہ میں اِس مرض میں دنیا سے رِحلَت( یعنی کُوچ) کرجاؤں گا ، اسی لیے توبوقتِ وصیّت فرمایا، میرے پاس جو میرا مال تھا ، وہ آج میراث کا مال ہے'' (2) جو بچّہ پیدا ہوگا وہ لڑکی ہے۔
( حُجَّۃُاللّٰہِ علَی العالَمِین ص612)
 
جو لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور اولیاءاللہ رحمہم اللہ کی کرامات میں انکا اپنا کچھ عمل دخل نہیں ہوتا اور انہیں کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ "سورہ ص" کی ان آیات مبارکہ کو بغور پڑھ کر اپنے عقیدہ کی اصلاح کر لیں۔
فَسَخَّرْنَا لَـهُ الرِّيْحَ تَجْرِىْ بِاَمْرِهٖ رُخَـآءً حَيْثُ اَصَابَ (36)
ترجمہ: پھر ہم نے ہوا کو اس کے تابع کر دیا کہ وہ اس کے حکم سے بڑی نرمی سے چلتی تھی جہاں اسے پہنچنا ہوتا
وَالشَّيَاطِيْنَ كُلَّ بَنَّـآءٍ وَّغَوَّاصٍ (37
اور شیطانوں کو جو سب معمار اور غوطہ زن تھے۔
وَاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِى الْاَصْفَادِ(38)
اور دوسروں کو جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔
هٰذَا عَطَـآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ بِغَيْـرِ حِسَابٍ (39)
یہ ہماری بخشش ہے پس احسان کر یا اپنے پاس رکھ کوئی حساب نہیں۔

*غیر مقلدین کے امام ابن تیمیہ کا کرامات و تصرفات کا اقرار*

علامہ ابن تیمیہ  فرماتے لکھتے ہیں کہ : بہت سے لوگ ولی اسے سمجھتے ہیں جس کے ہاتھ میں خوارقِ عادت چیزوں کا ظہور ہو، اور اس سے کشف کا ظہور ہو، اس سے بعض خارقِ عادت تصرفات کا ظہور ہو، مَثَلاً : وہ کسی کی طرف اشارہ کرے تو وہ مرجاۓ یا وہ ہوا میں اڑ کر مکہ یا دوسرے شہر پہنچ جاۓ یا وہ پانی پر چلے یا وہ ہوا سے لوٹا بھردے یا اس کے پاس کچھ نہیں مگر وہ غیب سے خرچ کرتا ہے، یا وہ نگاہوں سے غائب ہوجاتا ہے، یا جب کوئی اس سے مدد چاہتا ہے اور وہ اس کے پاس نہیں ہے، یا وہ اپنی قبر میں ہے تو وہ اس کے پاس آتا ہے اور وہ اس کی مدد کرتا ہے، یا چوری شدہ مال کی خبر دیتا ہے یا غائب آدمی کا حال بتلادیتا ہے، یا مریض کے احوال سے آگاہ کردیتا ہے ان خوارق عادت باتوں کا صدور اگرچہ کبھی الله کے ولی سے ہوتا ہے مگر کبھی اس طرح کی باتیں الله کے دشمنوں سے بھی ظاہر ہوتی ہیں  بلکہ ولی الله ہونے کا اعتبار ان کی صفات، افعال اور احوال سے ہوگا کہ وہ کتاب الله اور سنّت کے مطابق ہیں؟  (مجموع الفتاوى : 11 / 214)
مکمل تحریر >>