Pages

Sunday 30 September 2018

شیعوں پر اعتراضات کے جوابات کتب شیعہ سے

ماتم کی ابتداء کس نے کی تھی___ ؟ :*

*سب سے پہلے ابلیس نے ماتم کیا تھا:*

علامہ شفیع بن صالح شیعی عالم لکھتا ہے کہ شیطان کو بہشت سے نکالا گیا تو اس نے نوحہ (ماتم) کیا۔

*حدیث پاک میں ہے کہ* غناء ابلیس کا نوحہ ہے۔ یہ ماتم اس نے بہشت کی جدائی میں کیا۔
اور رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
*ماتم کرنے والا کل قیامت کے دن کتے کی طرح آئے گا اور آپ نے یہ بھی فرمایا: کہ ماتم اور مرثیہ خوانی زنا کا منتر ہے۔*

*(شیعہ کی معتبر کتاب مجمع المعارف حاشیہ حلیۃ المتقین، ص 142، ص 162، اور حرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)*

👈🏿 امام حسین رضی ﷲ عنہ کا پہلا باقاعدہ ماتم کوفہ میں آپ کے قاتلوں نے کیا

(جلاء الیون ص 424-426 مطبوعہ ایران)

👈🏿 پھر دمشق میں یزید نے اپنے گھر کی عورتوں سے تین روزہ ماتم کرایا

(جلاء العیون ص 445 مطبوعہ ایران)

*ابن زیاد نے آپ کے سر مبارک کو کوفہ کے بازاروں میں پھرایا۔ کوفہ کے شیعوں نے رو رو کر کہرام برپا کر دیا۔*

*نوٹ :*

*حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتل رافضی شیعہ ہی ہیں 👇🏼*

*👈🏿 شیعوں کی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوفہ والوں کو روتا دیکھ کر سیدنا امام زین العابدین نے فرمایا:*

ان ہولاء یبکون علینا فمن قتلنا غیرہم ۔

*ترجمہ :* یہ سب خود ہی ہمارے قاتل ہیں اور خود ہی ہم پر رو رہے ہیں ۔

(احتجاج طبرسی، جلد 2، ص 29)

*👈حضرت سیدہ طاہرہ زینب نے فرمایا: کہ تم لوگ میرے بھائی کو روتے ہو__؟*
*ایسا ہی سہی۔ روتے رہو، تمہیں روتے رہنے کی کھلی چھٹی ہے۔ کثرت سے رونا اور کم ہنسنا۔ یقینا تم رو کر اپنا کانا پن چھپا رہے ہو۔ جبکہ یہ بے عزتی تمہارا مقدر بن چکی ہے۔ تم آخری نبی کے لخت جگر کے قتل کا داغ آنسوئوں سے کیسے دھو سکتے ہو جو رسالت کا خزانہ ہے اور جنتی نوجوانوں کا سردار ہے*

(احتجاج طبرسی ج 2، ص 30)

*👈 اسی طرح شیعہ کی کتاب مجالس المومنین میں لکھا ہے کہ کوفہ کے لوگ شیعہ تھے*

(مجالس المومنین ج 1، ص 56)

*کیا شیعوں نے امام حسین کو چھوڑ دیا تھا__؟*

*👈 امام حسین رضی ﷲ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا : کہ*
*مجھے خبر ملی ہے کہ مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا ہے اور شیعوں نے ہماری مدد سے ہاتھ اٹھا لیا ہے جو چاہتا ہے ہم سے الگ ہوجائے، اس پر کوئی اعتراض نہیں*

(جلاء العیون ص 421، مصنفہ ملا باقر مجلسی، منتہی الاعمال مصنفہ شیخ عباس قمی ص 238)

*⚫___ مذکورہ بالا خطبہ سے معلوم ہو گیا کہ قاتلان حسین شیعہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ علمائے شیعہ نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے۔*
*ملا خلیل قدوینی لکھتا ہے:* ان کے (یعنی شہدائے کربلا کے) قتل ہونے کا باعث *شیعہ امامیہ کا قصور ہے تقیہ سے*

(صافی شرح اصول کافی)

*👈🏿 ملا باقر مجلسی 150 خطوط کا مضمون بایں الفاظ تحریر کرتا ہے۔*
ایں عریضہ ایست بخدمت جناب حسین بن علی از شیعان وفدویان و مخلصان آنحضرت)
*ترجمہ: یہ عریضہ شیعوں فدیوں اور مخلصوں کی طرف سے بخدمت امام حسین بن علی رضی ﷲ عنہا*

(جلاء العیون ص 358)

*ان تمام بیانات سے معلوم ہوا کہ*
*1_* امام حسین کے قاتل بھی شیعہ تھے
اور
*2_* ماتم کی ابتداء کرنے والے بھی شیعہ تھے
اور
*3_* ان ماتم کرنے والوں میں یزید بھی شامل تھا۔

👈🏿اب اگر امام حسین کے غم میں رونے یا ماتم کرنے سے بخشش ہوجاتی ہے تو بخشش کا سرٹیفکیٹ کوفیوں کو بھی مل جائے گا اور یزیدیوں کو بھی مل جائے گا۔

👈بارہ اماموں کے عہد تک موجودہ طرز ماتم کا یہ انداز روئے زمین پر کہیں موجود نہ تھا۔

*⚫___ چوتھی صدی ہجری 352ھ میں المطیع ﷲ عباسی حکمران کے ایک مشہور امیر معزالدولہ نے یہ طریق ماتم و بدعات عاشورہ ایجاد کیں۔*
اور
*⚫___ دس محرم کو بازار بند کرکے ماتم کرنے اور منہ پر طمانچے مارنے کا حکم دیا اور شیعہ کی خواتین کو چہرہ پر کالک ملنے، سینہ کوبی اور نوحہ کرنے کا حکم دیا۔ اہل سنت ان کو منع کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے، اس لئے کہ حکمران شیعہ تھا۔*

(شیعوں کی کتاب منتہی الاعمال، ج 1، ص 452، اور اہلسنت کی کتاب، البدایہ والنہایہ، ج 11، ص 243، تاریخ الخلفاء ص 378)

مکمل تحریر >>

Friday 28 September 2018

مزارات اولیاء اللہ 🌹 قسط نمبر 5

🌹 مزارات اولیاء اللہ 🌹
قسط نمبر 5
اولیاء اللہ سے بغض و دشمنی درحقیقت اللہ پاک سے اعلان جنگ ہے بخاری شریف
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ :    مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا ، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا ، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ ، وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ ، وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ    .صیح بخاری
حدیث نمبر 6502

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔صیح بخاری 6502
(دشمن ولی سے اعلان جنگ )
دیکھیں: اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں اس محبت کا کتنا بڑا مقام ہے۔
اب اگر اس محبت پر تنقید کی جائے
اگراس محبت کو بت کی محبت قرار دیا جائے۔
اگر اس محبت کو شرک فی الالوہیت قرار دیا جائے۔
تو اس سے بڑا جرم کیا ہو گا۔
اسی لئے خالق کائنات جل جلالہٗ کے حبیب ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے۔ حدیث قدسی ہے۔
مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ۔
(بخاری شریف کتاب الرقاق باب التواضع، مشکوٰۃ شریف کتاب الدعوات باب ذکر اللہ عزو جل و التقرب الیہ رقم الحدیث:6021)
جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں۔
خالق کائنات فرماتا ہے کہ جب میں نے اسے اپنا ولی بنا لیا، جب میں نے اسے اپنا دوست بنا لیا، اور اس کی محبت کو عام فرما دیا، جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی لگائی، آسمانوں پر اس کی محبت کے نعرے لگوائے، کائنات میں اس کی محبت عام کر دی، پھر تم میرے ولی کو گالیاں دو، میرے ولی پر تنقید کرو تو یہ میرے ولی کے ساتھ نہیں بلکہ میرے ساتھ اعلان جنگ ہے۔
ولایت کوئی معمولی مقام نہیں
چونکہ ولی کا مقام بہت بلند ہے اس لئے ولی کی محبت بھی بڑی ضروری ہے خالق کائنات نے یہ الفاظ بول کر بندوں کو توبہ کی طرف مائل کیا ہے
🌹 گوہر 🌹
تاریخ تصوف کی مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اہل تصوف حصول فیوض و برکات کے لئے اولیائے کاملین کے مزارات مقدسہ پر کسب فیض کے لئے حاضر ہوتے رہے۔ جس طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سید علی مخدوم ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر چلہ کشی کی۔

٭ شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نور اللہ مرقدہ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے یورپ جانے سے قبل حضرت محبوب الہٰی نظام الدین اولیاء زری زر بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضری کا شرف حاصل کیا اور کہا:

چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو

فلک نشیں صفت مہر ہوں زمانے میں
تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو

٭ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار گوہر بار پر متعدد بار حاضری دی اور پروفیسر عبدالقادر کے بقول حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خود انہیں فرمایا کہ ’’حضرت قاضی سلطان محمود کے ارشاد عالیہ کے مطابق وہ دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہٰی نور اللہ مرقدہ کے مزار پر انوار جوکہ مرجع خلائق ہے پر حاضر ہوئے اور وہاں پر عالم رویاء میں اشارہ ہوا کہ تمہارا فیض حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ہے۔ چنانچہ اس اشارہ پر عمل کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار عالیہ پر حاضر ہوکر فیض یاب ہوئے۔

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، عارف کامل حضرت مولانا محمد ہاشم جان سرہندی سے اس طرح مخاطب ہوئے: ’’اس روحانی تجربے (مزار پر انوار حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ پر مراقب ہونے) کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ مزارات اولیاء فیضان سے خالی نہیں۔
🌹 گوہر 🌹

مکمل تحریر >>

مزارات اولیائے کرام 🌹 قسط نمبر 4

🌹 مزارات اولیائے کرام 🌹
قسط نمبر 4
اولیاء اللہ ڈائریکٹ اللہ تعالیٰ سے جڑے ہوتے ہیں
"وَ کَذٰلِکَ اَعۡثَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ لِیَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ  لَا رَیۡبَ فِیۡہَا ۚ٭ اِذۡ یَتَنَازَعُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اَمۡرَہُمۡ فَقَالُوا ابۡنُوۡا عَلَیۡہِمۡ بُنۡیَانًا ؕ رَبُّہُمۡ اَعۡلَمُ بِہِمۡ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمۡرِہِمۡ  لَنَتَّخِذَنَّ  عَلَیۡہِمۡ  مَّسۡجِدًا ﴿۲۱﴾

اور اس طرح ہم نے ان (کے حال) پر ان لوگوں کو (جو چند صدیاں بعد کے تھے) مطلع کردیا تاکہ وہ جان لیں کہ ﷲ کا وعدہ سچا ہے اور یہ (بھی) کہ قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ جب وہ (بستی والے) آپس میں ان کے معاملہ میں جھگڑا کرنے لگے (جب اصحابِ کہف وفات پاگئے) تو انہوں نے کہا کہ ان (کے غار) پر ایک عمارت (بطور یادگار) بنا دو، ان کا رب ان (کے حال) سے خوب واقف ہے، ان (ایمان والوں) نے کہا جنہیں ان کے معاملہ پر غلبہ حاصل تھا کہ ہم ان (کے دروازہ) پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (تاکہ مسلمان اس میں نماز پڑھیں اور ان کی قربت سے خصوصی برکت حاصل کریں)
اولیاء اللہ غم اور خوف سے آزاد ہوتے ہیں،
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بندوں میں سے بعض ایسے ہیں جو نہ تو نبی ہیں اور نہ شہید، لیکن اللہ کے نزدیک ان کا مرتبہ دیکھ کر انبیاء اور شہداء بھی ان کی تحسین اور تعریف کریں گے۔ صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خبر دیں کہ وہ کون لوگ ہونگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں سے محض اللہ کی وجہ سے محبت کرتے ہیں، حالانکہ وہ لوگ ان کے رشتہ دار ہوتے ہیں نہ ان کو ان سے کوئی مالی فائدہ ہوتا ہے، اللہ کی قسم ان کے چہرے منور ہونگے اور بے شک وہ نور کے منبر پر فائز ہونگے اور جب لوگ خوفزدہ ہونگے تو انہیں خوف نہیں ہوگا۔ اور جب لوگ غمزدہ ہونگے تو انہیں غم نہیں ہوگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :

أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَo

(يُوْنـُس ، 10 : 62)

خبردار! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گےo

(سنن ابی داؤد، رقم الحديث : 3028، مشکوٰة شريف، 3 / 12 )

امام ابن جریر طبری اس آیت کے معنی میں لکھتے ہیں کہ سنو اللہ کے دین کے مددگاروں کو آخرت میں اللہ کے عتاب اور عذاب کا خوف نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور اللہ نے ان کو اپنے عتاب اور عذاب سے محفوظ رکھا اور نہ ان کو دنیا کے فوت ہو جانے کا غم ہوگا۔

قیامت والے دن جب نفسانفسی کا عالم ہوگا، ہر شخص کو اپنی فکر ہوگی۔ حتی کہ حقیقی اور خونی رشتے دار بھی ایک دوسرے سے بھاگ رہے ہونگے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ

اس دن ہر شخص کو ایسی (پریشان کن) حالت لاحق ہوگی جو اسے (ہر دوسرے سے) بے پروا کر دے گیo

(عَبَسَ ، 80 : 37)

یعنی انسان اپنے بھائی، ماں، باپ، دوست احباب، اولاد سب ایک دوسرے سے بھاگ رہے ہونگے۔ ہر ایک کو فکر ہوگی کہ آج وہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کے عتاب سے بچ جائے تو اس وقت اولیاء اللہ پر کسی قسم کا کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔ کیونکہ ان نیک لوگوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیا تھا۔ ان کا ہر لمحہ اللہ کی یاد میں گزرتا تھا، دن رات عبادت میں مشغول رہتے تھے، انسانوں کی خدمت میں لگے رہتے تھے، شریعت کی پابندی کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے راضی ہوتا ہے تو اس وجہ سے قیامت  کی ہولناکیوں سے محفوظ ہونگے۔ کسی قسم کا کوئی غم یا خوف نہیں ہوگا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے حوالے سے ارشاد ہوا۔

الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَo

سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)o

(الزُّخْرُف ، 43 : 67)

کہ قیامت کے دن دوست احباب ایک دوسرے کے دشمن ہونگے اور اس وقت اگر کسی کی دوستی، صحبت اور سنگت کام آئے گی تو وہ اولیاء اللہ کی ہوگی۔ دنیا کے اندر جس نے بھی اپنا تعلق اولیاء اللہ کے ساتھ قائم رکھا وہ محفوظ ہوگا۔

مگر شرط یہ ہے کہ وہ حقیقتاً اولیاء اللہ ہوں اور اولیاء اللہ وہ ہوتے ہیں جن کے بارے میں حضور علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ ولی کی پہنچان کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جب دکھائی دیں تو اللہ یاد آ جائے۔

(جامع البيان، رقم الحديث : 13725)

اولیاء اللہ ہر وقت اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں، دنیا کے پیچھے بھاگتے نہیں۔ دنیا سے ان کی کوئی غرض نہیں ہوتی۔ انسانیت کی خدمت کرتے ہیں، شریعت کے پابند ہوتے ہیں
🌹 گوہر 🌹

مکمل تحریر >>

Thursday 27 September 2018

مزارات پر حاضری 🌹 قسط نمبر 3

🌹 مزارات پر حاضری 🌹
قسط نمبر 3
فضل الرّحمٰن اور اھل دیوبند پاکستان کے بڑے  مفتی محمود داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دی حلوہ تقسیم کیا چادر  چڑھائی
یہی تھانوی صاحب لاہور میں حضور داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد کہتے ہیں؛
بہت بڑے شخص ہیں۔ عجیب رعب ہے، وفات کے بعد بھی سلطنت کررہے ہیں۔(سفرنامہ لاہور و لکھنؤ، ص 50)۔
بانی مسلک دیوبند و دارالعلوم دیوبند جناب قاسم نانوتوی صاحب کلیر شریف مزار پر با ادب ننگے پاؤں حاضری دیا کرتے تھے
🌹 حوالہ خطابات طیب
مولانا طارق جمیل صاحب نے بھی میاں بخش کے مزار پر حاضری دی دعا مانگی مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ میں کچھ دنوں پریشان تھا دوست نے کہا کہ اللہ نیک بندوں کے در پر جا کر دعا کرو پریشانی دور ہو جائے گی
میں نے کھڑی شریف مزار پر حاضری دی یوں ہی مزار مبارک کے اندر قدم رکھا مجھے روحانی سکون ملا جیسے کوئی پریشانی تھی بھی نہیں
دارلعلوم دیوبند کےبرے مفتی محمو دیوبندی کی حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دی اور چادر چڑھائی مفتی محمود صاحب کی ویڈیو بھی ساتھ شیر کر رہا ہوں دیکھ لینا
شاہ عبدالرحیم صاحب کا معمول تھا کہ شاہ ولی اللہ صاحب کے مزار پر جایا کرتے تھے فاتحہ پرھتے اور اس کے بعد چنے الایچی دانے تقسیم کرتے
حوالہ ارواح ثلاثہ صفحہ نمبر 48
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب مقامات بزرگانِ دین کی زیارت کو گیا اور ارشاد فرمایا کہ آثار بزرگانِ دین کی زیارت سے برکت حاصل ہوتی ہے
حوالہ امداد المشتاق صفحہ نمبر 38
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ میں حضرت (حاجی امداد اللہ) قبر مقدس سےوہی فائدہ اٹھایا جو حالت حیات میں اٹھایا کرتا
فرماتے ہیں کہ فقیر مرتے نہیں بلکہ ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقل ہوتے ہیں
حوالہ امداد مشتاق صفحہ نمبر 94
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ میرے پیر صاحب حاجی امداد اللہ صاحب کا ایک جوالا مرید تھا پیر صاحب کے مزار پر حاضر ہوا اور عرض کی میں بہت پریشان اور روٹیوں کا محتاج ہوں کچھ دستگیری فرمایئے مزار سے آواز آئی آپ کو 2 آنے مزار سے روزانہ ملا کرے گے
امدالمشتاق صفحہ نمبر 114

سوال یہ ھے اُن لوگوں سے مزارات اولیاء اللہ پر حاضری دینے والوں کو مشرک بدعتی قبر پرست کہتے ہیں پوچھنا یہ تھا کہ اب  ان بزرگوں کے بارے کیا خیال ہے
گل وچ ہور اے

ہماری گذارش ہے کہ خدارا کچھ خوف کریں۔ اگر آپ سے ان نفوسِ قدسیہ کی شان برداشت نہیں ہوتی تو نہ کریں بیان لیکن اس طرح دشنام طرازیاں کرکے کیوں عذابِ الہٰی کو دعوت دیتے ہیں۔
جاری ہے بقیہ آیندہ پوسٹ پر
🌹 گوہر 🌹

مکمل تحریر >>

مزارات پر حاضری 🌹 قسط نمبر 2

🌹 مزارات پر حاضری 🌹
قسط نمبر 2
مزاراتِ اولیاء پر جانا کیسا ہے؟
(نوٹ,,برائے مہربانی اس تحریر کو فرقہ وراریت کی اور تعسب کی نظر سے نہ پڑھا جائے)
مزاراتِ اولیاء پر جانا جائز اور مستحب کام ہے۔ جیسا کہ حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیاتھا۔ اب زیارت کیا کرو۔

( مسلم شریف ، کتاب الجنائز، ،حدیث نمبر 2260، مطبوعہ دارالسلام، ریاض سعودی عرب)

جی ہاں! حضور علیہ السلام بھی مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی۔ آپﷺ نے وہاں گریہ فرمایا اور جو صحابہ آپﷺ کے ساتھ تھے وہ بھی روئے۔

(مسلم شریف ، کتاب الجنائز،حدیث 2258، مطبوعہ دارالسلام، ریاض سعودی عرب)

فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب رد المحتار میں حضور خاتم المحققین ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ (وصال1252ھ) فرماتے ہیں:

امام بخاری علیہ الرحمہ کے استاد امام ابن ابی شیبہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے ۔

(رد المحتار ، باب مطلب فی زیارۃ القبور ،مطبوعہ دارالفکر، بیروت)

امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (سن وصال606ھ) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: حضور علیہ السلام ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے اور آپﷺ کے وصال مبارک کے بعد چاروں خلفاء کرام علیہم الرضوان بھی ایسا ہی کرتے تھے (تفسیر کبیر، زیر تحت آیت نمبر 20، سورہ الرعد)
حضورﷺ کے مزار اقدس پر حاضری دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت مالک دار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ ایک صحابی نبی کریمﷺ کی قبر اطہر پر آئے اور عرض کیا۔ یارسولﷺ آپ اپنی امت کے لئے بارش مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہوگئی۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، حدیث نمبر 32002، مکتبہ الرشد، ریاض، سعودی عرب)

حضرت دائود بن صالح سے مروی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی کریمﷺ کی مزارِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے تو اس (مروان) نے کہا: کیا تو جانتا ہے کہ توکیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تودیکھا وہ صحابی رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ اور انہوں نے جواب دیا۔ ہاں میں جانتا ہوں۔ میں رسول اﷲﷺ کے پاس آیا ہوں ’’لم ات الحجر‘‘ میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔
(مسند امام احمد بن حنبل،حدیث نمبر 23646، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت )                                                                                                    شافعیوں کے پیشوا امام شافعی علیہ الرحمہ (سن وصال 204ھ) فرماتے ہیں۔ میں امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ سے برکت حاصل کرتا ہے اور ان کے مزار پر آتا ہوں۔ اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دو رکعتیں پڑھتا ہوں اور ان کے مزار کے پاس جاکر اﷲ سے دعا کرتا ہوں تو حاجت جلد پوری ہوجاتی ہے۔ (رد المحتار، مقدمہ، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت)
امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے وطن فلسطین سے عراق کا سفر کرکے امام صاحب کے مزار پر تشریف لاتے تھے اور مزار سے برکتیں بھی حاصل کرتے تھے۔کیا ان کا یہ سفر کرنا بھی ناجائز تھا؟
محمد بن معمر سے روایت ہے کہ کہتے ہیں: امام المحدثین ابوبکر بن خذیمہ علیہ الرحمہ، شیخ المحدثین ابو علی ثقفی علیہ الرحمہ اور ان کے ساتھ کئی مشائخ امام علی رضا بن موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے مزار پر حاضر ہوئے اور مزار کی خوب تعظیم فرمائی۔(تہذیب التہذیب، حروف العین المہملہ، مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

اگر مزاراتِ اولیاء پر جانا شرک ہوتا تو…!

کیا حضورﷺ اپنی والدہ ماجدہ اور شہداء احد کے مزاروں پر تشریف لے جاتے؟
کیا صحابہ کرام حضورﷺ کے مزار پر انوار پر حاضری دیتے؟ کیا تابعین، محدثین، مفسرین، مجتہدین مزارات اولیاء پر حاضری کے لئے سفر کرتے ؟
پتہ چلا مزارات پر حاضری حضور علیہ السلامﷺ ، آپ کے اصحاب اور امت کے مجتہدین ،محدثین اور مفسرین کی سنت ہے اور یہی اہلِ اسلام کا طریقہ رہا ہے اور اس مبارک عمل پر شرک کے فتویٰ دینے والے صراط ِمستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں۔

مزارات ِ اولیاء پر ہونے والی خرافات

اکثر مخالفین مزاراتِ اولیاء  مزارات پر ہونے والی خرافات کو امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مزارات اولیاء پر ہونے والی خرافات کا اہلسنت و جماعت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل علیہ الرحمہ نے اپنی تصانیف میں ان کا رد بلیغ فرمایا ہے۔

O عورتوں کا مزارات پر جانا ناجائز ہے: سوائے روضہ رسولﷺ کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں ۔

(جمل النور فی نہی النساء عن زیارۃ القبور، فتاویٰ رضویہ جلد 9، صفحہ 541، مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)                              مزار کا طواف  بہ نیت تعظیم کرناناجائز ہے , تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے (فتاویٰ رضویہ جلد 4، ص 8، مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی)

Oاگر مزار پر چادر موجود ہو اور وہ پرانی اور خراب نہ ہوتو چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو رقم اس میں استعمال کریں، وہ ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں (احکام شریعت حصہ اول ص62، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

O مزارات پر سجدہ تعظیمی کرنا حرام ہے (الزبدۃ الزکیہ لتحریم سجود التحیہ ص 5، بریلی ، ہندوستان)

O مزامیر یعنی آلات لہوولعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں۔ جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح (یعنی صراحت کے ساتھ موجود ہیں) ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ، جلد 24، ص 79، رضا فائونڈیشن، لاہور)

الحمدﷲ! اس میں جتنی بھی احادیث ہیں، وہ سند کے اعتبار سے صحیح ہیں، کوئی بھی شخص صبح ِ قیامت تک انہیں ضعیف ثابت نہیں کرسکتا, 

قبور پر حاضری کا طریقہ,,,,,                                                               مزار کو ہاتھ نہ لگائے، نہ بوسہ دے اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام۔ واﷲ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 9، صفحہ 522 )

قبروں کا احترام … ان کو بت کہنا حرام… قبروں کو سجدہ حرام…

ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کی کوئی آیت ایسی نہیں جس میں وسیلہ سے دعا مانگنے کو شرک یا کفر قرار دیا گیا ہو۔  وسیلہ سے دعا مانگنا جو صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے لے کر ہر صدی میں امت کے جمہور کا عقیدہ رہا ہے۔ ان سب پر شرک اور کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے۔ یہ معمولی جرم نہیں، بہت بڑی جسارت ہے۔  امت پر شرک کا جھوٹا فتویٰ لگا کے کس قدر فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں۔

محبوبان خدا تعالیٰ کی عداوت پر مشتمل تبلیغ بھی ناپسند ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے اولیاء اﷲ تعالیٰ کے اذن سے غوث اعظم، داتا اور دستگیر ہوسکتے ہیں اس پر قرآن و سنت سے متعدد دلائل موجود ہیں۔ تفصیل ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی صاحب کے عقیدہ توحید سیمینار کے خطاب میں موجود ہے۔

چنانچہ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ بدعقیدگی، فتنہ و فساد پھیلانے والے فرقہ واریت کو ہوا دینے والے اور قرآن مجید کے بارے میں جھوٹ بولنے والے جعل سازی اور دھوکہ دہی والے اس گروہ کا بھی فورا محاسبہ کیا جائے۔

محکمہ اوقاف، مشائخ عظام، علمائے کرام اور عوام اہلسنت سے اپیل

مزارات اولیاء اور خانقاہیں رشد و ہدایت کے مراکز اور روحانی فیض کے سرچشمے ہیں۔ کچھ جہال کی خرافات سے ان کی شرعی حیثیت اور حقیقی مقام کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ لگتا ہے ایک سوچی سمجھی سازش کے مطابق مسلک اہلسنت سے غیر متعلق افراد کا ایک طبقہ ان روحانی مراکز پر غیر شرعی حرکات کی ترویج میں مصروف ہے اور دوسرا طبقہ اپنی ساکھ بچانے کے لئے انہیں بطور دلیل پیش کرکے اہلسنت و جماعت کے سچے معتقدات پر تنقید کرنے میں مصروف ہے۔ اس سے قطع نظر ہمارے مذہب و مسلک کا بھی ہم سے تقاضا ہے کہ ہم ایسے امور کے خلاف جہاد کریں جن کی ہمارا مسلک اجازت نہیں دیتا چنانچہ اگر کوئی جاہل…

1: کسی مزار شریف پر حاضری کے وقت سجدہ یا طواف کی شکل بنائے

2: کسی مزار کے احاطہ یا کسی جگہ میں آگ جلاکر اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو

3: کسی مزار شریف پر عورتیں بے پردہ حاضری کے لئے جائیں یا بے پردہ عورتوں کا مردوں سے اختلاط ہو

4: کسی مزار شریف کے احاطہ یا قرب و جوار میں بھنگیوں، چرسیوں نے ڈیرے جما رکھے ہوں

5: کسی مزار شریف میں جرائم پیشہ لوگوں نے پناہ لے رکھی ہو

6: عرس شریف کے موقع پر ڈھول بجانے یا گانے بجانے کا دھندا کیا جاتا ہو یا عریانی فحاشی کا بازار گرم کیا جاتا ہو

7: کسی مزار شریف پر کوئی نام نہاد پیر یا کوئی عاقبت نااندیش واعظ اسلامی تعلیمات اور سنی عقائد کے خلاف گفتگو کرتے ہوئے بدعقیدگی یا بدعملی پھیلانے کی کوشش کرتا ہو یا اس کے علاوہ کسی قسم کی کوئی غیر شرعی حرکات پائی جائیں تو!

ہم سب کا مشترکہ فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کریں اور انہیں آہنی ہاتھوں سے روکیں۔ ہمارا مذہب و مسلک اتنی معمولی شے نہیں کہ اسے ایسے جہال اور خواہش پرستوں کی نفسانیت کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ اس لئے جو جو مزارات اوقاف کے زیر نگرانی میں ہیں، وہاں محکمہ اوقاف ایسی تمام خرابیوں کا قلع قمع کرے۔ سجادہ نشین حضرات اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے مزارات کا تقدس برقرار رکھنے کے لئے ان خرافات کے خلاف جہاد کریں اور جو پہلے ہی جہاد کررہے ہیں وہ یہ جہاد تیز کریں۔

علماء کرام منبر رسولﷺ کی وراثت اور شریعت مطہرہ کی وکالت کی خاطر اپنی تقریر و تحریر میں مسلک اہلسنت کے ان بدخواہوں کا مزید شدت سے رد کریں۔ عوام اہلسنت کو بھی ایسی کار خیر میں شریک ہونا لازم ہے۔

اس سلسلہ میں حکمت و تدبیر کے ساتھ نرم اور شبنمی لہجے میں بات سمجھائی جائے اور بوقت ضرورت شدت اختیار کرتے ہوئے وجادلھم بالتی ہی احسن (اور ان سے اس طریقے پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو) کے تقاضے پورے کئے جائیں۔
اسی حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ کے عرس مقدس کے موقع پر حکومت پنجاب اور محکمہ اوقاف سے اپیل ہے کہ عرس شریف کے دوران مینار پاکستان کے زیر سایہ چلنے والی لکی ایرانی سرکس، دیگر میوزیکل پروگرامز، دربار شریف کے قرب و جوار میں بے پردہ عورتوں اور مردوں کے مخلوط پروگرامز نیز سڑکوں، چوراہوں اور دربار شریف کے قریب ڈھول اور گانے باجے پر فی الفور پابندی لگائی جائے
جاری ہے بقیہ آیندہ پوسٹ پر
🌹 گوہر 🌹

مکمل تحریر >>