Pages

Friday 20 September 2019

اہل سنت کے لئے لمحہ فکریہ اورشیعہ کے نظریات وعقائد

اہل سنت کے لئے لمحہ فکریہ اورشیعہ کے نظریات وعقائد

۱- شیعوں کی معتبر کتاب ’’ اصول کافی کتاب الروضۃ ‘‘ ص ۲۸۵ طبع ایران میں درج ہے کہ ’’ ہمارے شیعوں کے سوا سب لوگ کنجریوں کی اولاد ہیں ‘‘ یعنی تمام مسلمان کنجریوں کی اولاد ہیں ۔ معاذ اللہ
۲- شیعہ کی اصطلاح میں ناصبی سنی کو کہتے ہیں ، خمینی کا ممدوح باقر مجلسی اپنی کتاب ’’حق الیقین ‘‘ ص ۵۱۶ میں لکھتا ہے ۔ ’’ناصی سنی ولد الزنا سے بھی بدتر ہے ۔ یہ یقینی بات ہے کہ خدا نے کوئی مخلوق کتے سے زیادہ بری پیدا نہیں کی اور سنی خدا کے ہاں کتے سے بھی زیادہ ذلیل و خوار ہے ‘‘ ۔ مزید برآں ملا باقر مجلسی ڈنکے کی چوٹ پرکہتا کہ:
۳- جب ہمارا مہدی غار سے ظاہر ہوگا ۔ سب سے پہلے سنیوں کا اور ان کے علماء کا قتل عام کرے گا ۔ (حق الیقین ص ۵۲۷ ) وہی ملا باقر مجلسی ہے جس کی کتابیں پڑھنے کی خمینی تلقین کرتا ہے ۔ (کشف الاسرار ص ۱۲۱)
۴- چاریاری عورت (یعنی سنی عورت جو کہ چاروں خلقاء کو برحق مانتی ہے) کسی چکلے کے قابل ہے کسی شریف گھر کے قابل نہیں ہے ۔ (غلام حسین نجفی ، کیا ناصی مسلمان ہیں ؟ص ۲۷ ، جامعہ المنتظر ماڈل ٹاؤن لاہور)
ؔ۵- امام بخاری کو خدا اور رسول کا دشمن نہ کہنا عین کفر ہے ۔
(کلید مناظرہ ص ۵۲)
۶- شیخ عبدالقادر جیلانی بت پرست اور یہودیوں کا چوہدری تھا (معاذ اللہ )
(کلید مناظرہ ص ۳۹۲)
۷- امام اعظم ابو حنیفہ بدترین انسان ہے جو اسلام میں پیدا ہوا ہے ۔ (ایضاً ۱۲۳)
۸- ابو حنیفہ کا فتنہ دجال کے فتنہ سے بڑا ہے ۔ (ص ۱۲۴)
۹- ابو حنیفہ بھی کافر تھا۔ (ص ۱۵۴)
۱۰- جس فقہ حنفیہ کاآپ (اہل سنت) طنبورہ بجاتے ہیں اور جس کے سہارے تم اہل اسلام کو تکفیر کرتے ہو اس فقہ کا بانی بھی کافر ہے (ص ۱۵۶)
۱۱- مولوی (یعنی سنی علماء) بے دُم کے گدھے ہیں ۔ ان سے ابھی کام لینا چاہئیے ان کی ضرورت نہ رہے تو ان کا خاتمہ کردیا جائے ۔ (ص ۲۱۳)
۱۲- شیعوں کی تکفیر کے فتوے دینے والے ! تم (ملاوں ) جیسے نواصب (یعنی سنی) اولاد حلالہ یا اولاد زنا یا اولاد حیض ہیں ۔ ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ لعنت نواصب کی اس ماں پر کہ جس نے اندھیر ی رات میں جن کر انہیں کہیں پھینک دیا تھا ۔ (ص ۲۵۱)
شیعہ اثنا عشریہ کی صحابہ کرامؓ کو اپنی کتابوں میں گالیاں:

(۱) کہ مراد از فرعون و ہامان ….. ابوبکر و عمر است۔

ترجمہ:۔ فرعون اور ہامان سے مراد ابوبکر و عمر ہیں۔ (حق الیقین:۳۱۸)(نعوذباللہ)

(۲) ابوبکر خلیفہ نہیں مرتد ہے، مستحق قتل ہے۔ (نعوذ باللہ) (حق الیقین:۲۲۲)

(۳) عبارت ہے ’’مرادش از شیطان عمر باشد‘‘۔ یعنی شیطان سے مراد عمر ہے۔ (حق الیقین:۲۲۹)(نعوذباللہ)

(۴) ’’حضرت طلحہ و زبیر مرتد شوند’’۔ یعنی حضرت طلحہ و زبیر مرتد تھے۔ (حق الیقین:۲۳۱)(نعوذباللہ)

(۵) ابو لؤلؤ عمر را زخم زد وخبزم کرد لعہفتم واصل خواہد شد۔ (حق الیقین:۲۵۲)
(نعوذباللہ)

(۶) عثمان لعین او را۔ (حق الیقین:۲۲۰)(نعوذباللہ)

(۷) عثمان کا قتل کفر پر ہوا۔ (حق الیقین:۲۸۰)(نعوذباللہ)

(۸) عثمان کو یہودیوں کے مقبرے میں دفن کیا۔ (حق الیقین:۲۸۳)
(نعوذباللہ)
(۹) حضرت خالد بن ولید نے زنا کیا۔ (نجفی ملعون کی کتاب خصائل معاویہ:۲۷۶)
(نعوذباللہ)
(۱۰) حضرت عثمان کی بیوی نائلہ نے ڈانس کیا، خون آلود قمیص پہن کر۔ (خصائل معاویہ:۱۴۳)(نعوذباللہ)

(۱۱) ابوہریرہ کا مردود ہونا ثابت ہے۔ (خورشید خاور:۱۹۵)(نعوذباللہ)

(۱۲) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والا ابوہریرہ ہے۔
(نعوذباللہ)
مذکورہ عبارات سے ثابت ہوا کہ شیعہ شجرۂ ملعونہ خبیثہ ہیں۔
اگر اب بھی کوئی کہے کے شعیہ مسلمان ھے تو وہ اپنے ایمان کی خیر منائے
ملت سبائیہ بدترین گستاخ اہلبیت و اولاد فاطمہؓ و اولاد حسنؓ

۱) ملت جعفریہ کا باقر مجلسی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن حنیفہ کی شان میں گستاخی کرتے ہوے لکھتا ہے کہ انکا چہرہ جہالت سے آلودہ تھا (بحارالانوار)

۲) ملت جعفریہ کا دوسرا عالم یعقوب کلینی سیدہ فاطمہ رضہ کی شان میں گستاخی کرتے ہوے لکھتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضہ کو امام حسین رضہ اللہ عنہ کا پیدا ہونا سخت ناپسند تھا جب سیدہ فاطمہ رضہ کو حسین رضہ کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو یہ بات آپ کو سخت ناگوار گزری (الشافی جلد سوم)

۳) مزید ملت جعفریہ کا معروف عالم جسے تقۃ السلام کے لقب سے نواز رکھا ہے نے آپنی کتاب میں اولاد حسن رضہ کی توہین کچھ اس طرح کرتا ہے کہ اولاد حسن سے ایک منحوس انسان ممبر رسول پر چڑھے گا اور آپ کو آپنی امامت کی طرف بلاے گا (الشافی جلد دوم)

شیعیت جس کا دوسرا نام رافضیت ہے کے آغاز ہونے سے اب تک علمائے اہل حق نے شیعہ کی تکفیرکی اور انکی وجہ یہ ہی ہے کہ ان کی گستاخیوں سے جہاں اصحاب رسول نا بچ سکے وہان اہلبیت بھی انکے شر سے محفوظ نا رہ سکے ان حقائق کو جاننے کے باوجود کچھ سادہ لوح مسلمان ایسے ہیں جو اب بھی شیعوں کے دھوکے میں مبتلا ہیں اور ان کی تکفیر میں تذبذب کا شکار ہیں

اللہ تعالیٰ امت کو اس فتنہ سبائیہ سے محفوظ رکھے
شیعہ رافضیوں کے کفریہ عقائد جن کو پڑھ کر آپکی روح کانپ اٹھے گی اور خون کھول جائے گا ۔👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻
شیعہ کی معتبر کتابوں کا حوالہ موجود ہیں پھر کوئی مسلمان یہ نہ کہے کہ ہم کوتویہ معلوم نہ تھا
نقل کفر کفر نہ باشد
1 ۔ اللہ تعالٰی کبھی کبھی جھوٹ بھی بولتا ہے اور غلطی بھی کرتا ہے ۔(معاذ اللہ ) اصول کافی جلد 1 ص 8 مؤلف امام کلینی
2۔ نہ ہم اس رب کو مانتے ہیں اور نہ اس رب کے نبی ص کو مانتے ہیں جس کا خلیفہ ابوبکر رض ہو انوارالنعمانیہ ج 2 ص 278
3۔ میں اس خدا کو رب نہیں مانتا جس نے عثمان اور معاویہ جیسے بد قماشوں کو حکومت دی۔ کشف الأسرار مصنف امام خمینی ص 107
4۔ . شیعہ کی معروف کتاب وسائل الشيعة ج 18 ص 463 اور بحارالأنوار ج 2 ص 278 میں لکھتے ہیں کہ ناصبی یعنی اہل السنة سب ہمارے لے برابر ہیں اور ان کا خون بہانا ہمارے لیے حلال ہیں اور ان کا مال اور عورتیں ان سے چیننا ہمارے لے جائز ہے
5۔ شیعہ کہتے ہیں کہ ہم اس اللہ اور رسول کو نہیں مانتے جو اہل السنة مانتے ہیں اور نہ اہل السنة کی کلمہ کو ہم مانتے کیونکہ ہمارے شیعہ اور سنیوں کی درمیان فرق ہونا چاہیے ہیں کتاب انوارالنعمانیہ مؤلف جزائري ج 2 ص 278 . . .
6 ۔ شیعہ کہتے ہیں اپنے معروف کتاب می بحارالأنوار ص 53 اور اصول الکافی ج 1 ص 300 میں کہ جب ہمارا امام مہدی اجایگا سب سے پہلے مسجد حرام بیت اللہ اور مسجد النبوي کو منہدم یعنی گرادیگا اور ابو بکر اور عمر کو قبروں سے نکال کر سزا دیگا . .
7۔ شیعہ کی معروف کتاب زینبیات مؤلف شیرازی ص 77 میں لکھتے ہیں کہ جس آدمی کی ماں بیوہ ہو یعنی باپ انتقال کرگیا تو اپنے ماں سے مزے لے سکتا ہیں بغیر جماع کی تاکہ اس کے ماں کسی ادمی کے ساتہ زنا پر مجبور نہ ہوجائے مختصر یہ کہ بیٹا اپنے ماں سے مزے لے سکتا ہیں . . .
8 ۔ شیعہ کی معروف کتاب کشف الأسرار موسوی کی ص 24 میں کہ رسول اللہ ص کے شرم گاہ ( نعوذبااللہ ) جهنم میں چلا جائے گا کیونکہ اس نے اپنے بیوی عائشہ اور حفصہ کی ساته ہمبستری کی ہیں . . . .
9 ۔ شیعہ کی معروف کتاب الاحتجاج طبرسی کے ج 1 ص 86 می لکھتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر اور عثمان جہنم کی آخری حصہ میں ہیں اور ابہی بہی اللہ سخت عذاب دیتے ہیں ان کو . . . .
10 ۔ شیعہ کی معروف اصول الکافی ج 2 ص 751 میں لکھتے ہیں کہ کوئی مؤمن جس رات میں ابو بكر عمر عثمان پر لعنت بھیجے اور اس رات اس کو موت آجائے تو جنت میں چلا جائے گا ……
11۔ خمینی اپنے کتاب کشف الأسرار ص 126 میں لکھتے ہیں کہ عمر ابن خطاب اصل کافر اور زندیق تہا . نعوذبااللہ . …..
12۔ علامہ مجلسی اپنے کتاب حق الیقین ص 522 میں لکھتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر دونوں کافر تہے اگر کوئی ان کے ساتھ محبت کریگا تو وہ بھی کافر ہیں . . .
13۔ علامہ جزائري اپنے کتاب انوارالنعمانیہ ج 1 ص 181 اور خمینی اپنے کتاب الحکومت الإسلامية ص 69 میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ص کے وفات کی بعد سارے صحابہ کافر اور مرتد ہوی سواے چہار صحابہ کے سلمان فارسی ابو ذر مقداد اور عمار … علامہ جواد مغنیہ اپنے کتاب الدولۃ الإسلامية ص 107 میں لکھتے ہیں کہ امام خميني اللہ کے رسول موسی علیہ السلام سے افضل ہیں . . . .
14۔ شیعہ کی معروف کتاب المزار المفيد ص 51 میں لکھتے ہیں کہ جس نے امام حسین علیہ السلام کے قبر کے زیارت کیا گویا کہ اس نے اللہ کی زیارت کیا عرش پر …
15۔ شیعہ کی علماء کہتے ہیں کتاب ثواب الأعمال عقاب الأعمال ص 121 میں کہ ہمارے آئمہ کرام کے قبروں کی زیارت مکہ مکرمہ کی حج کرنے سے افضل ہیں چاہے امام خمینی کے قبر کیوں نہ ہو …..
16۔ علامہ ملطی کے کتاب تنبیہ الرد ص 25 میں لکھتے ہیں کہ موجودہ قرآن نامکمل اور ناقص ہیں اور ہمارے شیعہ کی قرآن مصحف فاطمی امام مہدی کے ساتھ غار کے اندر ہیں ….
17۔ شیعہ کی معروف کتاب فروع الکافی جلد 6 ص 520 میں لکھتے ہیں کہ مرد دوسرے مرد کے ساتھ لواطت ( یعنی جماع ) کرسکتے ہیں . . . .
18۔ ۔ شیعہ کہتے ہیں کہ سنی لڑکی کی ساتہ شادی کرنے سے افضل ہیں کہ کسے یہودی یا نصرانی لڑکی کی ساته شادی کیا جائے اصول کافی الکلینی ج 5 ص 351
19۔ خمینی کے کتاب تحریر الوسيلة جلد 2 ص 221 میں لکھتے ہیں کہ آدمی ایک سال بچی یعنی ماں کی دودھ پینی والی بچی سے مزہ لیے سکتا ہے ….
20۔ علامہ حسین الموسوي اپنے کتاب للہ ثم للتاريخ ص 78 میں لکھتے ہیں کہ میں اپنے سید امام خمینی کے ساتھ عراق میں ایک سفر میں تہا امام خمینی کے ایک شاگرد کے گہر پر ہم ٹھرے اور اس شاگرد کے ایک بیٹی تھیں جو بہت خوبصورت تہی جن کی عمر 5 سال تہی امام خمینی نے اس بیٹی کو متعہ کیلے مانگا اور باپ نے خوشی سے قبول کیا اور امام خميني اس بچی کی ساتھ الگ کمرے میں رات گزارا اور سارے رات اس بچی کی چیخیں میں سن رہا تھا . . . . .
21۔ شیعہ کی معروف کتاب مصباح التهجد للطبرسی ص 252 میں لکھتے کہ آدمی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا کہ جب تک کسی مؤمنہ عورت کی ساته متعہ کرلے اور متعہ یہ ہیں کہ لڑکا اور لڑکی آپس میں ہمبستری کرلے بغیر کسی گواہ اور نہ کسی کو پتہ چلے )) یعنی زنا (( کسی مؤمن نے ایک دفعہ متعہ کیا گویا کہ اس نے بیت اللہ کی زیارت کی . . . .
22۔ شادی شدہ عورت مؤمنہ کسی اور آدمی کے ساتھ متعہ کرسکتی ہیں بشرط یہ کہ اپنے شوہر کو پتہ نہ چلے ۔ فروع الکافی ج 5 ص 463 ۔۔۔۔
بہر حال یہ شیعہ کا دین ہیں بہت اختصار کے ساتھ ورنہ گند بہت زیادہ ہیں اگر کئی جلدوں میں کتاب لکھی جائے تب بہی ختم نہیں ہو گا.
یہود بہی ان کی دین سے شرماتے ہیں ۔۔ شیعہ رافضی ملعون ہیں اور یہ جہنمی کتے ہیں جن کی دُم کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی..
اللہ تمام مسلمانوں کو انکے شر سے محفوظ رکھے…

مکمل تحریر >>

بیس سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام معاویہ تھے اور تابعین، تبع تابعین سمیت پچیس سے زیادہ راویان حدیث کے نام بھی معاویہ تھے.. خود اہلبیت رضی اللہ عنہم میں نام معاویہ نام رکھا جاتا تھا.. سردست یہ دو نام ملاحظہ فرمائیں.

بیس سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام معاویہ تھے اور تابعین، تبع تابعین سمیت پچیس سے زیادہ راویان حدیث کے نام بھی معاویہ تھے.. خود اہلبیت رضی اللہ عنہم میں نام  معاویہ نام رکھا جاتا تھا.. سردست یہ دو نام ملاحظہ فرمائیں.
معاويه بن عبدالله بن جعفر بن ابي طالب
يزيد بن معاويه بن عبدالله بن جعفر بن ابي طالب
(جمهرة أنساب العرب:ج1،ص42)
صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایسا بغض تو کوئی رافضی رکھتے ہیں سنی  تو سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و اہلبیت عظام رضی اللہ عنہم اجمعین کے غلام و محب ہیں وہ ایسا اعتراض کیسے کر سکتے ہیں؟ ....
  وہ کیا کہتے ہیں کہ

مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر

ہم انکے سامنے کچھ نام رکھتے  اب لگائیں یہ ساری سنیت پر ناصبیت اور یزیدی ہونے کا فتوی......
بخاری و مسلم کے مشائخ و راویان کے ناموں سے پہلے سن لیں، سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ کے نام سے کون واقف نہیں... اب بتائیں کیا کہیں گے بایزید بسطامی رحمہ اللہ اور سلسلہ عالیہ نقشبدیہ کے بارے میں...
لیجیے کلیجہ تھام کے پڑھیے

*علماء و محدثین جن کے نام یزید تھے*

۱- یزید بن ابراہیم التستری:
کبار تبع تابعین میں سے ہیں۔ ان کی وفات ۱۶۷ھ میں ہوئی ان سے بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔

               ۲- یزید بن حیان المنبطی البلخی مولی بکر بن وائل:
کبار تبع تابعین میں سے ہیں ان سے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔ ابن حجر کے یہاں ان کا مرتبہ صدوق ہے اور بخاری نے کہا ہے کہ ان کے یہاں غلطیاں بہت زیادہ ہیں۔

               ۳- یزید بن خالد بن یزید بن عبد اﷲ بن موہب الہمدانی.
دسویں طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو تبع تابعین کے بعد کا درجہ ہے۔ وفات ۲۳۲ھ یا اس کے بعد ہوئی۔ روایتیں ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ میں ہیں۔ ابن حجر نے ثقہ ، عابد اور ذہبی نے ثقہ کہا ہے۔

             ۵- یزید بن زریع العیشی:
پیدائش ۱۰۱ھ میں ہوئی۔ اوساط تبع تابعین میں سے ہیں  ۱۸۲ھ میں بصرہ میں وفات پائی ان کی روایتیں بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں ہیں۔ ابن حجر نے ثقہ ، ثبت اور ذہبی نے حافظہ قرار دیا ہے۔
               ۶- یزید بن السمط الصنعانی الفقیہ:
نویں طبقہ سے جو صغار تبع تابعین کا ہے، تعلق رکھتے ہیں۔ ۱۶۰ھ کے بعد وفات پائی۔ ان کی روایتیں ابن ماجہ، نسائی اور مراسیل ابو داؤد میں ہیں۔ حافظ نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں اور حاکم نے ان کو ضعیف کہہ کر غلطی کی ہے۔ ذہبی نے ثقہ کہا ہے۔

               ۷-یزید بن سنان بن یزید القرشی الاموی:
ان کی پیدائش ۱۷۸ھ کی ہے گیارہواں طبقہ جو کہ تبع تابعین کے بعد والے طبقہ کے درمیانی لوگوں کاہے ، سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۲۶۹ھ میں مصر میں وفات پائی۔ ان کی روایتیں نسائی میں ملتی ہیں۔ ابن حجر اور ذہبی نے ثقہ کہا ہے۔

               ۸- یزید بن عبد اﷲ بن رزیق القرشی:
دسویں طبقہ کے ہیں جو تبع تابعین کے بعد کے لوگوں کا طبقہ کا ہے۔ ان کی روایتیں نسائی میں ہیں حافظ نے مقبول اور ذہبی نے ثقہ قرار دیا ہے۔

               ۹- یزید بن عبد اﷲ بن یزید.
نویں طبقہ کے ہیں جو صغار تبع تابعین کا طبقہ ہے۔ ان کی روایتیں ابن ماجہ میں ہیں۔ حافظ ابن حجر نے مقبول اور ذہبی نے ابن حبان کے حوالے سے ثقہ کہا ہے۔

               ۱۰- یزید بن عبد ربہ الزبیدی ابو الفضل الحمصی الموذن:
جرجسی کے نام سے معروف ہیں پیدائش ۱۶۸ھ میں ہوئی دسویں طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو تبع تابعین کے بعد کا طبقہ ہے۔ وفات ۲۲۴ھ میں ہوئی۔ مسلم، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں ان کی روایتیں ہیں۔ حافظ نے ثقہ اور ذہبی نے حافظ کہا ہے۔

               ۱۱-یزید بن عطاءبن یزید الیشکری:

ساتویں طبقہ کے ہیں جو کبار تبع تابعین کا ہے۔ وفات ۷۷۱ھ میں ہوئی بخاری نے خلق افعال العباد میں اور ابو داؤد نے سنن میں روایت کی ہے۔ ابن حجر نے لین الحدیث اور ذہبی نے ابن عدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ لین الحدیث ہونے کے باوجود حسن الحدیث ہیں۔

               ۱۲- یزید بن قبیس بن سلیمان السیلحی:

تبع تابعین کے بعد کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابو داؤد میں ان کی روایت ہے۔ ابن حجر اور ذہبی کے یہاں ثقہ ہیں۔

               ۱۳- یزید بن محمد بن عبد الصمد:

پیدائش ۱۹۸ھ میں ہوئی تبع تابعین کے بعد کے طبقہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ۲۷۷ھ میں دمشق میں انتقال ہوا۔ ابو داؤد اور نسائی نے ان سے روایتیں لی ہیں۔ حافظ کے یہاں صدوق اور ذہبی کے یہاں ثقہ اور حافظ ہیں۔

               ۱۴- یزید بن محمد بن فضیل الجزری

گیارہویں طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو تبع تابعین کے بعد کا طبقہ ہے۔

               ۱۵- یزید بن مغلس بن عبد اﷲ بن یزید الباہلی:

صغار تبع تابعین سے ان کا تعلق ہے۔

               ۱۶- یزید بن مہران الاسدی:

تبع تابعین کے بعد سے ان کا تعلق ہے۔ ۲۲۹ھ میں وفات پائی ان کی روایت نسائی میں ہے۔

               ۱۷- یزید بن ہارون بن زاذی:

پیدائش ۱۱۷ھ یا ۱۱۸ھ میں ہوئی صغار تبع تابعین میں سے ہیں۔ ۲۰۶ھ میں وفات پائی۔ کتب ستہ میں ان سے روایتیں ہیں۔ ابن حجر نے ثقہ، عابد اور متقی کہا ہے۔ ابن مدینی نے کہا ہے کہ ان سے زیادہ حافظ کا پختہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔

               ۱۸-یزید بن ابی یزید الضبعی:

پیدائش ۱۰۰ھ میں ہوئی۔ ۱۳۰ھ میں وفات ہوئی۔ کتب ستہ میں ان سے روایتیں ہیں۔ حافظ ابن حجر نے ثقہ اور عابد کہا ہے۔

(تفصیل کے لئے دیکھیں: تہذیب الکمال للمزی، تہذیب التہذیب للحافظ ابن حجر رحمہ اﷲ، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم اور میزان الاعتدال للامام الذہبی)

 

یہ نام علماء محدثین کے ہیں جن کو حافظ ابن حجر اور حافظ ذہبی وغیرہم نے ذکر کیا ہے۔ اختصار کی وجہ سے بہت سارے نام یہاں پر درج نہیں کئے جا سکے ہیں۔

مکمل تحریر >>

اولادِ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

اولادِ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مؤرخین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار بیٹیاں تھی ۔ بیٹوں کی تعداد میں البتہ اختلاف ہے ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب بچپن ہی میں انتقال فرما گئے تھے ۔ اکثر کی تحقیق یہ ہے کہ تین لڑکے تھے حضرت قاسم حضرت عبداللہ حضرت ابراہیم بعضوں نے کہا چوتھے صاحبزادے حضرت طیب اور پانچویں حضرت طاہر تھے ۔ بعض کہتے ہیں طیب اور طاہر ایک ہی صاحبزادے کے نام ہیں بعض کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ہی کا نام طیب اور طاہر تھا اس طرح تین ہوئے لیکن اکثر کی تحقیق تین بیٹوں کی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ساری اولاد حضرت ابراہیًم کے سوا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پیدا ہوئی ۔

حضرت قاسم رضی اللہ تعالی عنہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اولاد میں پہلے حضرت قاسم پیدا ہوےاور بعثتِ نبوت سے پہلے ہی انتقال فرما گئے ۔دو سال کی عمر پائی انہیں کے نام سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم مشہور ہوئ ۔مکہ میں ولادت ہوئی اور وہیں انتقال ہوا ۔ (زرقانی ج3 ص 24،چشتی)

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ایک صاحبزادے کا نام حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے اور حضرت قاسم کی طرح ان کی والدہ کا نام بھی حضرت سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا ہے ۔ حضرت عبداللہ اعلان نبوت کے بعد پیدا ہوئے اور ایک سال چھ ماہ آٹھ دن زندہ رہے اور طائف میں وفات پائی ۔

حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ : حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آخری اولاد ہیں جو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعا عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ یہ 8 ہجری کا واقعہ ہے حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر ولادت کی خوشخبری دی اس بشارت پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابو رافع کو ایک غلام عنایت فرمایا ۔ ساتویں روز اس شہزادہ رسول کاعقیقہ کیا ۔ دو مینڈھے ذبح کرائے سر منڈایا بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی ۔ بال زمین میں دفن کئے۔ ابراہیم نام رکھا ۔ تقریباً سولہ ماہ زندہ رہ کر 10 ہجری میں انتقال فرمایا (ضیاء النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش حضرت قاسم کے بعد ہوئی 24 قبل ہجری میں ہوئی ۔ (الاستعیاب جلد 7 ص 732) و (المستدرک جلد ۴ ص 42)

سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا  بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش 21 قبل ہجری میں ہوئی آپ سیدہ زینب سے ۳ سال چھوٹی تھیں ۔ (الستیعاب جلد 2 ص 727)۔(المستفرک جلد ۴ ص 46)

سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش 20 قبل ہجری ہو ئی آپ سیدہ رقیہ سے چھوٹی تھیں ۔ (تاریخ خمیس جلد 1 ص 271) و( زخائر العقبی ص ۱64،چشتی)

سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش نبوت کے پہلے سال میں ہوئی ۔ (الستیعاب جلد 2 ص 727)۔(المستفرک جلد ۴ ص 46)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار بیٹیاں تھیں شیعہ عالم کی گواہی

و جمعى از علماى خاصه و عامه را اعتقاد آن است كه رقيه و ام كلثوم دختران خديجه بودند از شوهر ديگر مع پيش از رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) داشته و حضرت ايشان را تربيت كرده بود و دختر حقيقى آن جناب نبودند(16)؛ و بعضى گفتند كه: دختران هاله خواهر خديجه بوده‏اند(17). و بر نفى اين دو قول روايت معتبره دلالت مى‏كند ۔
خاصہ و عامہ کی ایک جماعت کا اعتقاد یہ ہے کہ حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم حضرت خدیجہ کی صاحبزادیاں ہیں (رضی اللہ عنہن) ان کے دوسرے شوہر سے جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پہلے تھا اور حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی تربیت کی تھی (ورنہ) وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حقیقی صاحبزادیاں نہ تھیں اور بعض نے کہا کہ یہ (سرے سے) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت ہالہ کی لڑکیاں تھیں مگر ان دونوں اقوال کی نفی پر معتبر روایات دلالت کرتی ہیں ۔ (حیات القلوب ج ۲ ص ۵۶۰،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نواسے و نواسیاں

بنو امیہ و بنو ہاشم کے مابین رشتہ داریوں کا سبائی پروپیگنڈہ کے زیر اثر کتنے ہی مسلمانوں کو پتہ نہیں اور نہ ہی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی کتنے نواسے اور نواسیاں تھیں . اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ایک پروپیگنڈے کے تحت یہ باور کرایا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں اور صرف دو نواسے حضرت امام حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہا تھے . وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے محدثین کرام علیہم الرّحمہ کا کہ ان کی خدمات کے زیر اثر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اصل آل کی معلومات ہم تک بہم پہنچ گئیں اور پتہ چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار صاحبزادیاں بنام حضرت زینب ، حضرت رقیہ ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن تھیں جن میں سے صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی بنو ہاشم میں ہوئی تھی جبکہ باقی تینوں لڑکیاں بنو امیہ میں بیاہی گئیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اموی نواسے اور نواسیاں ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے :

(1) حضرت علی بن ابی العاص رضی اللہ عنہما
(2) حضرت عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما
(3) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما
(4) حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما
(5) حضرت محسن بن علی رضی اللہ عنہما

(1) حضرت امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہا
(2) حضرت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا
(3) حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نواسے

(1) حضرت علی بن ابی العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے بڑی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب سے بڑے نواسے . ان کے والد حضرت ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کا تعلق بنو امیہ سے تھا جو کہ بہت سخی ، ایماندار اور بہادر مشہور تھے . یہ رشتہ میں ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے . حضرت علی بن ابی العاص رضی اللہ عنہ ہجرت سے 5, 6 سال قبل پیدا ہوئے . جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا مدینہ ہجرت کرگئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے ان نواسہ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے لے لیا اور انکی پرورش خود کیب .

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے ان بڑے نواسہ سے بہت پیار تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام اہم مواقع پر انکو اپنے ساتھ رکھتے تھے.. یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے یہی نواسہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ انکی سواری پر سوار ہوکر مکہ میں داخل ہوئے تھے ۔ انہوں نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کندھوں پر سوار ہوکر خانہ کعبہ کے بت گرائے تھے.. اس وقت انکی عمر 14 , 15 سال کے لگ بھگ تھی ۔ ( الاصابہ جلد ۲ ص ۵۰۳،چشتی)

یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کی نسبت سے "علی الزینبی" کہلاتے تھے اور سلطنت روم کے خلاف جنگ یرموک میں بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ شامل تھے . یہ جنگ 15 ہجری میں لڑی گئی جس میں انکو شہادت نصیب ہوئی.. اس وقت ان کی عمر 22 سال تھی.. یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نواسوں میں پہلے شہید تھے جو کہ کفار کے خلاف لڑتے ہوئے اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے شہید ہوئے . کفار کے خلاف جہاد کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کسی اور نواسہ کو شہادت نصیب نہیں ہوئی.. اس متعلق حضرت علی بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کا مقام ممتاز ہے ۔

(2) حضرت عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اموی داماد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں . ان کی والدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا تھیں جن کا انتقال 2 ہجری میں ہوا . سو لازم ہے کہ ان کی پیدائش 2 ہجری سے پہلے کی ہی ہوگی . حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہجرت حبشہ سے پہلے ہوئی . (صحیح بخاری)

امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : ان کی عمر جب سات سال تھی تو ایک پرندے نے انکی آنکھ میں چونچ ماری جس کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا لیکن مسعودی لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے ستر سال عمر پائی اور زندگی کے آخری ایام میں ان کی آنکھ میں کچھ خرابی آگئی تھی جس پر مزید کسی پرندے کے چونچ مارنے کی وجہ سے زخم پڑ گیا اور بڑھاپے کے سبب علاج ممکن نہ ہوسکا اور ان کا انتقال ہوگیا . ہمارے زمانے (یعنی مسعودی کے زمانے چوتھی صدی ہجری) میں مکہ میں ایک محلہ ان حضرت عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی اولاد سے آباد ہے . اس کے علادہ ان کی کچھ آل اولاد قرطبہ اور اشبیلیہ نقل مکانی کرگئی تھی اور وہاں مقیم ہے . (سیر للواقدی)

(3) حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تیسرے نواسہ ہیں جو کہ چوتھی یا غالباً پانچویں ہجری میں پیدا ہوئے .. ان کی والدہ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں .. یہ مسلمانوں کے پانچویں خلیفہ تھے جہنوں نے 6 مہینہ تک خلافت کے فرائض انجام دیئے اور چونکہ ان کی طبعیت میں شروع سے صلح جوئی کا مادہ زیادہ تھا اسی لئے اس خیال کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے کہ مسلمانوں کا آپس کا جنگ اور فساد ختم ہو جائے .. نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے ان نواسہ کو ’’سید‘‘ یعنی ’’سردار‘‘ کے لقب سے نوازا تھا اور پیشن گوئی فرمائی تھی کہ ان کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے مابین صلح انجام پائی گی.. سبائی پروپیگنڈہ کے زیر اثر یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ان کی وفات زہر خورانی سے ہوئی تھی جو کہ ان کی زوجہ حضرت جعدہ بنت اشعث بن قیس جو کہ رشتہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بھانجی تھیں , کے ذریعے ان کو دلوایا گیا.. اس بات کی حیثیت ایک بے سند گپ سے زیادہ کچھ نہیں جس کا کوئی اثر تاریخ کی متداول کتابوں میں نہیں ملتا ۔

(4) حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب سے چھوٹے نواسہ ہیں .. ان کی والدہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں .. 61 ہجری میں یزید (بن معاویہ رضی اللہ عنہ) کی بیعت فسخ کرکے یہ کوفہ کی طرف چلے گئے.. حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے انکو خروج کرنے سے سختی سے منع کیا لیکن انہوں نے انکے مشورہ پر عمل نہ کیا اور کوفہ کا رخت سفر باندھا لیکن جب کوفہ پہنچنے پر اہل کوفہ کی غداری کا پتہ چلا تو عمر بن سعد جو کہ یزید کی طرف سے فوجی کماندار تھا , کے سامنے واپسی کے لیے تین شرائط پیش کیں تاہم زبردستی بیعت کو قبول نہ کرتے ہوئے یزیدی فوج کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے ۔

(5) حضرت محسن بن علی رضی اللہ عنہما

آپ جنابِ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے تھے ہمیں ابو احمد الوہاب بن ابی منصور الامین نے ابو الفضل محمد بن ناصر سے، اس نے ابو طاہر بن ابی الصقر الانباری سے، اس نے ابو البرکات بن لطیف الفراء سے۔ اس نے حسن بن رشیق سے۔ اُس نے ابوبشر الدو لابی سے، اُس نے محمد بن عوف الطائی سے، اُس نے ابو نعیم اور عبد اللہ بن موسیٰ سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا۔ ہم سے اسرائیل نے، اس سے ابو اسحاق نے، اس سے ہانی بن ہانی نے، اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب امام حسن پیدا ہُوئے تو مَیں نے ان کا نام حرب رکھا۔ حضور تشریف لائے۔ فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ۔ پوچھا کیا نام رکھا مَیں نے عرض کیا، حرب۔ فرمایا: نہیں یہ حسن ہے۔ یہی صورت جناب حسین کی پیدائش کے وقت پیش آئی۔ مَیں نے نام حرب بتایا۔ تو آپ نے حسین تجویز کیا۔ تیسری دفعہ محسن پیدا ہوئے تو مَیں نے حرب ہی نام رکھا تھا ۔ حضور نے محسن رکھ دیا ۔ پھر فرمایا ۔ مَیں نے ان بچوں کے نام حضرت ہارون کے بچوں کے نام پر شبر، شبیر،اور مشبر رکھ دیے ہیں۔ کئی راویوں نے ابو اسحاق سے اس طرح نقل کیا ہے۔ سالم بن ابی الجعدہ نے حضرت علی سے روایت کی ہے، لیکن محسن کا ذکر نہیں کیا ۔ اسی طرح ابو الخلیل نے سلمان سے ذکر کیا ہے۔ حضرت محسن رضی اللہ عنہ بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ ابو موسیٰ نے اس کی تخریج کی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نواسیاں

(1) حضرت امامہ بنت ابو العاص رضی اللہ عنہا

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے بڑی نواسی ہیں .. نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان سے بہت پیار تھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسجد میں صلوٰۃ کی امامت کروانے جاتے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کندھوں پر سوار ہوتیں .. حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ صلوٰۃ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گردن پر سوار ہوتیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سجدہ کرنے لگتے تو انکو اپنی گردن سے اتار دیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سجدہ سے واپس کھڑے ہوتے تو انکو اپنی گردن پر پھر بٹھالیتے . (صحیح بخاری، جلد ۱ ص ۷۴،چشتی)

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں ایک بہت ہی خوبصورت ہار پیش کیا گیا .. آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میں اس کو اپنے خاندان میں جس سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں اس کی گردن میں پہناؤنگا .. لوگوں نے سوچا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ ہار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو عنائت فرمائیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ امامہ بنت ابو العاص رضی اللہ عنہا کو بلوایا اور وہ ہار اپنے ہاتھ سے ان کو پہنایا .. حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وصیت کے مطابق حضرت امامہ بنت ابو العاص رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا تھا .. حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد ان کا نکاح حضرت محمد بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ہوا . (جمہرۃ الانساب)

(1) حضرت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما

یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی بیٹی ہیں .. ان کی والدہ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں .. حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام اپنی بڑی بہن حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے نام پر رکھا تھا کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنی بہنوں سے بہت محبت تھی . ان کی شادی خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی .. حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی دو اولادیں ہوئیں .. ایک لڑکا حضرت زید بن عمر رضی اللہ عنہ اور ایک لڑکی حضرت رقیہ بن عمر رضی اللہ عنہما ۔ (سیراعلام النبلا للذہبی)

(3) حضرت سیّدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہما

یہ حضرت علی اور حضرت سیّدم فاطمہ رضی اللہ عنہما کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں جو کہ حضرت ام کلثوم ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم سے عمر میں چھوٹی تھیں ۔ حضرت سیّدہ  فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام بھی اپنی بڑی بہن کے نام پر زینب رکھا تھا .. ان کی شادی اپنے چچا زاد عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہما سے ہوئی تھی . واقعہ کربلا کے بعد یہ دمشق چلی گئیں اور اس کے بعد ساری زندگی وہیں گزاری ۔

محترم قارئین : فقیر نے کوشش کی ہے کہ اولادِ مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مختصر ، مکمل اور جامع تعارف پیش کیا جائے تاکہ اہل ایمان آگاہ ہوں فقیر کہاں تک کامیاب ہوا یہ آپ احباب اپنی قیمتی آراء سے نوازیں گے اہل علم کہیں غلطی پائیں تو آگاہ فرمائیں ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مکمل تحریر >>