Pages

Monday 11 February 2019

صحابہ کرام کی نماز اور زیارتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسین منظر

*صحابہ کرام کی نماز اور زیارتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسین منظر*

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وصال میں جب تین دن تک حجرۂ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے تو وہ نگاہیں جو روزانہ دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرفِ دلنوازسے مشرف ہوا کرتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئیں۔ جان نثاران مصطفیٰ سراپا انتظار تھے کہ کب ہمیں محبوب کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ بالآخر وہ مبارک و مسعود لمحہ ایک دن حالتِ نماز میں انہیں نصیب ہوگیا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایامِ وصال میں جب نماز کی امامت کے فرائض سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد تھے، پیر کے روز تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں حسب معمول باجماعت نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرے افاقہ محسوس کیا۔ آگے روایت کے الفاظ ہیں :

*فکشف النبی صلي الله عليه وآله وسلم ستر الحجرة، ينظرإلينا و هو قائمٌ، کأن وجهه ورقة مصحف، ثم تبسم*

بخاری شریف
السنن الکبریٰ للبیہقی / المصنف عبدالرزاق / مسند حمیدی / المسند ابو یعلی

’’آپ نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اٹھا کر کھڑے کھڑے ہمیں دیکھنا شروع فرمایا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہو، پھر مسکرائے۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

*فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبی صلي الله عليه وآله وسلم، فنکص أبوبکر علی عقبيه ليصل الصف، وظن أن النبی صلي الله عليه وآله وسلم خارج إلی الصلوٰة*

صحیح بخاری  /السنن الکبریٰ / مصنف عبدالرزاق

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم لوگ نماز چھوڑ بیٹھتے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں شامل ہوجائیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لانے والے ہیں۔‘‘

ان پر کیف لمحات کی منظر کشی روایت میں یوں کی گئی ہے :

فلما وضح وجه النبی صلي الله عليه وآله وسلم ما نظرنا منظرا کان أعجب إلينا
من وجه النبی صلي الله عليه وآله وسلم حين وضح لنا.

صحیح بخاری 
صحیح مسلم
ابن خزيمه، الصحيح
ابوعوانه، المسند،
سنن الکبری للبیہقی
مسند احمد بن حنبل
ابو يعلی، المسند ابویعلی

’’جب (پردہ ہٹا اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سامنے آیا تو یہ اتنا حسین اور دلکش منظر تھا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔‘‘

مسلم شریف میں فھممنا ان نفتتن کی جگہ یہ الفاظ منقول ہیں :

فبهتنا و نحن فی الصلوة، من فرح بخروج النبی صلي الله عليه وآله وسلم.

صحيح مسلم

’’ہم دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر تشریف لانے کی خوشی میں حیرت زدہ ہو گئے (یعنی نماز کی طرف توجہ نہ رہی)۔‘‘

شارحینِ حدیث نے فھممنا ان نفتتن من الفرح برؤیۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی اپنے اپنے ذوق کے مطابق کیا ہے۔

امام قسطلانی رحمۃ ﷲ علیہ لکھتے ہیں

*فهممنا أی قصدنا أن نفتتن بأن نخرج من الصلوة*

قسطلانی، ارشاد الساری،

’’پس قریب تھا یعنی ہم نے ارادہ کر لیا کہ (دیدار کی خاطر) نماز چھوڑ دیں۔‘‘

لامع الدراری میں ہے دیوبندی مولوی نے بھی یہ لکھا کہ
و کانوا مترصدين إلی حجرته، فلما أحسوا برفع الستر التفتوا إليه بوجوههم.

گنگوهي، لامع الدراری علی الجامع البخاری

’’تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی توجہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک کی طرف مرکوز تھی، جب انہوں نے پردے کا سرکنا محسوس کیا تو تمام نے اپنے چہرے حجرۂ انور کی طرف کر لئے۔‘‘

*فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبی صلي الله عليه وآله وسلم*

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے ہم کو اتنی خوشی ہوئی کہ ہم خوشی کے مارے نماز توڑنے ہی کو تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ نیچے ڈال دیا۔‘‘

امام ترمذی رحمۃ ﷲ علیہ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں

*فکاد الناس ان يضطربوا فأشار الناس ان اثبتوا*

ترمذی، الشمائل

’’قریب تھا کہ لوگوں میں اضطراب پیدا ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو۔‘‘

شیخ ابراہیم بیجوری  صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اضطراب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں

*فقرب الناس أن يتحرکوا من کمال فرحهم لظنهم شفاءه صلی الله عليه وآله وسلم حتی أرادوا أن يقطعوا الصلوة لإعتقادهم خروجه صلی الله عليه وآله وسلم ليصلی بهم، و أرادوا أن يخلوا له الطريق إلی المحراب و هاج بعضهم فی بعض من شدة الفرح*

بيجوری، المواهب اللدنيه علی الشمائل المحمديه

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شفایاب ہونے کی خوشی کے خیال سے متحرک ہونے کے قریب تھے حتیٰ کہ انہوں نے نماز توڑنے کا ارادہ کر لیا اور سمجھے کہ شاید ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لا رہے ہیں، لہٰذا انہوں نے محراب تک کا راستہ خالی کرنے کا ارادہ کیا جبکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خوشی کی وجہ سے کودنے لگے۔

امام بخاری نے باب الالتفات فی الصلوۃ کے تحت اور دیگر محدثین کرام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یہ والہانہ کیفیت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں بیان کی ہے :

*و هَمَّ المسلمون أن يفتتنوا فی صلوٰتهم، فأشار إليهم : أتموا صلاتکم*

ابن حبان، الصحيح

ابن سعد، الطبقات الکبریٰ،

طبری، التاريخ

’’مسلمانوں نے نماز ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز کو پورا کرنے کا حکم دیا۔‘‘

مکمل تحریر >>

Sunday 3 February 2019

پیری مُریدی کا ثُبوت

پیری مُریدی کا ثُبوت

     عُلَماِکرام فرماتے ہیں، ایمان کی حفاظت کا ایک ذریعہ کسی ''مرشِد کامل'' سے مرید ہونا بھی ہے۔ اَللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
یَوْمَ نَدْعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمْ ۚ

( ترجمہ قرآن کنزالایمان)''جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے''۔ ( بنی اسرائیل:۷۱)
    نورُ العِرفان فی تفسیرُ القرآن میں مفسرِ شہیر مفتی اَحمد یا ر خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس آیتِ مبارَکہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،'' اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کسی صالح کو اپنا امام بنالیناچاہے شَرِیْعَت میں ''تقلید'' کرکے ، اور طریقت میں ''بَیْعَت''کرکے ، تاکہ حَشْر اچھوں کے ساتھ ہو۔ اگر صالح امام نہ ہوگا تو اس کا امام شیطٰن ہوگا۔ اس آیت میں تقلید ، بَیْعَت اور مُریدی سب کا ثبوت ۱؎ ہے۔" نورالعرفان فی تفسیر القرآن ،پ ۱۵ سورۃ بنی اسرائیل :۷۱)

مرید ہونے کا مقصد

    پیر اُمورِ آخِرت کے لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اُس کی راہنمائی اور باطنی توجّہ کی بَرَکت سے مُرید اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ناراضگی والے کاموں سے بچتے ہوئے ''رِضائے رَبُّ الانام کے مَدَنی کام'' کے مطابق اپنے شب و روز گزار سکیں۔(مزید معلومات کے لئے صفحہ 160تا 167 مطالعہ فرمائیں)

فی زما نہ حالات

    موجودہ زمانے میں بیشتر لوگوں نے ''پیری مُریدی'' جیسے اَہم منصب کو حُصولِ دنیا کاذریعہ بنا رکھا ہے ۔بیشمار بد عقیدہ اور گمراہ لوگ بھی تَصَوُّف کاظاہری لبادہ

۱؎مزید معلومات کیلئے ص ۷۰ تا ۷۴ ملاحظہ فرمائیں۔

اوڑھ کر لوگوں کے دین و ایمان کو برباد کررہے ہیں ۔ اور انہی غَلَط کار لوگوں کو بنیاد بنا کر''پیری مریدی'' کے مخالفین اس پاکیزہ رشتے سے لوگوں کو بدگمان کررہے ہیں۔
    دورِ حاضر میں چونکہ کامل و ناقص پیر کا امتیاز انتہائی مشکل ہے۔لہٰذا مرید ہوتے وقت سرکارِاعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنّت مولٰینا شاہ اَحمد رضا خان علیہ رحمۃ المناناور حجۃ الاسلام ا بو حامدمحمد بن محمد الغزا لی علیہ رحمۃ البارینے جن شرائط و اَوصا فِ مرشِد کے بارے میں وضاحت فرمائی ہے اورمرشِدِ کامل کی پہچان کا طریقہ ارشاد فرما کر اُمّت کو صحیح رَہنمائی عطا کی ہے۔اسے پیشِ نظر رکھنا ضَروری ہے۔

مرشِد کامل کیلئے چار شرائط

    سَیِّدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فتاویٰ افریقہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ مرشِد کی دو قِسمیں ہیں
(۱)مرشِدِ اِتِّصال     (۲)مرشِدِ اِیصال ۔
(۱)مرشِدِ اتّصال یعنی جس کے ہاتھ پر بَیْعَتْ کرنے سے انسان کا سلسلہ حضوُرِ پُر نور سَیِّد المرسلین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم تک مُتَّصِل ہوجائے، اس کیلئے چار شرائط ہیں۔
پہلی شَرْط٭مرشِد کا سلسلہ بِاِتّصالِ صحیح(یعنی دُرُست واسطوں کیساتھ تعلق) حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم تک پہنچا ہو۔ بیچ میں مُنقَطع(یعنی جُدا) نہ ہو کہ مُنقَطع کے ذریعہ اِتِّصال(یعنی تعلق) نا ممکن ہے۔٭بعض لوگ بِلا بَیْعَتْ(یعنی بِغیر مرید ہوئے)، مَحض بَزُعمِ وراثت(یعنی وارث ہونے کے گمان میں) اپنے باپ دادا کے سَجادے پر بیٹھ اوڑھ کر لوگوں کے دین و ایمان کو برباد کررہے ہیں ۔ اور انہی غَلَط کار لوگوں کو بنیاد بنا کر''پیری مریدی'' کے مخالفین اس پاکیزہ رشتے سے لوگوں کو بدگمان کررہے ہیں۔
    دورِ حاضر میں چونکہ کامل و ناقص پیر کا امتیاز انتہائی مشکل ہے۔لہٰذا مرید ہوتے وقت سرکارِاعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنّت مولٰینا شاہ اَحمد رضا خان علیہ رحمۃ المناناور حجۃ الاسلام ا بو حامدمحمد بن محمد الغزا لی علیہ رحمۃ البارینے جن شرائط و اَوصا فِ مرشِد کے بارے میں وضاحت فرمائی ہے اورمرشِدِ کامل کی پہچان کا طریقہ ارشاد فرما کر اُمّت کو صحیح رَہنمائی عطا کی ہے۔اسے پیشِ نظر رکھنا ضَروری ہے.

مرشِد کامل کیلئے چار شرائط

    سَیِّدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فتاویٰ افریقہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ مرشِد کی دو قِسمیں ہیں
(۱)مرشِدِ اِتِّصال     (۲)مرشِدِ اِیصال ۔
(۱)مرشِدِ اتّصال یعنی جس کے ہاتھ پر بَیْعَتْ کرنے سے انسان کا سلسلہ حضوُرِ پُر نور سَیِّد المرسلین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم تک مُتَّصِل ہوجائے، اس کیلئے چار شرائط ہیں۔
پہلی شَرْط٭مرشِد کا سلسلہ بِاِتّصالِ صحیح(یعنی دُرُست واسطوں کیساتھ تعلق) حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم تک پہنچا ہو۔ بیچ میں مُنقَطع(یعنی جُدا) نہ ہو کہ مُنقَطع کے ذریعہ اِتِّصال(یعنی تعلق) نا ممکن ہے۔٭بعض لوگ بِلا بَیْعَتْ(یعنی بِغیر مرید ہوئے)، مَحض بَزُعمِ وراثت(یعنی وارث ہونے کے گمان میں) اپنے باپ دادا کے سَجادے پر بیٹھ جاتے ہیں۔ یا بَیْعَتْ کی تھی مگر خلافت نہ ملی تھی، بِلا اِذْن(بِغیر اجازت)مرید کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ یا ٭سلسلہ ہی وہ ہوکہ قَطْع کردیاگیا ،اس میں فیض نہ رکھاگیا، لوگ برائے ہَوَس اس میں اِذْن و خلافت دیتے چلے آتے ہیں یا٭ سلسلہ فی نفسہٖ صحیح تھا ۔مگر بیچ میں ایسا کوئی شخص واقعہ ہوا جو بوجہ اِنتِقائے بعض شرائط قابلِ بیعَت نہ تھا ۔ اس سے جو شاخ چلی وہ بیچ میں مُنْقَطِع(یعنی جُدا) ہے۔ان تمام صورتوں میں اس بَیْعَتْ سے ہر گز اِتِّصال(یعنی تعلق) حاصل نہ ہوگا۔ (بیل سے دودھ یابانجھ سے بچہ مانگنے کی مَت جدا ہے)۔
د وسری شَرْط٭مرشِد سُنّی صحیح العقیدہ ہو۔ بدمذہب گمراہ کا سلسلہ شیطان تک پہنچے گا نہ کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم تک۔ آج کل بَہُت کھلے ہوئے بددینوں بلکہ بے دینوں کہ جو بَیْعَتْ کے سِرے سے منکر و دشمنِ اَولیاء ہیں، مکاری کے ساتھ پیری مریدی کا جال پھیلا رکھا ہے۔

ہوشیار! خبردار! احتیاط! احتیاط!۔

تیسری شَرْط٭مرشِد عالم ہو۔ یعنی کم از کم اتنا علْم ضَروری ہے کہ بِلا کسی اِمداد کے اپنی ضَروریات کے مسائل کتاب سے نکال سکے ۔کُتب بینی (یعنی مطالَعَہ کرکے)اور اَفواہِ رِجال (یعنی لوگوں سے سن سن کر) بھی عالم بن سکتا ہے،(مطلب یہ ہے کہ فارغُ التحصیل ہونے کی سَنَد نہ شرْط ہے نہ کافی۔ بلکہ علْم ہونا چاہے۔)٭علمِ فِقْہ(یعنی اَحکامِ شریعَت)اس کی اپنی ضَرورت کے قابل کافی۔ ٭اور عقائدِ اَہلسنّت سے لازمی پورا واقف ہو۔٭کُفْرو اسلام ، گمراہی و ہدایت کے فرق کا خوب عارِف (یعنی جاننے والا) ہو۔
چوتھی شرط٭مرشِد فاسِق مُعْلِن(یعنی اعلانیہ گناہ کرنے والا) نہ ہو۔ اس شرط پر حُصولِ اِتِّصال کا تَوَقُّف نہیں(یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے تعلق کا دارومَدار اس شرط پر
نہیں،کہ فُجور و فِسْق باعثِ فَسخ(منسوخ ہونے کا سبب) نہیں۔ مگر پیر کی تعظیم لازِم ہے اور فاسق کی توہین واجب اور دونوں کا اجتماع باطل۔(''اسے امامت کیلئے آگے کرنے میں اس کی تعظیم ہے اور شَرِیْعَت میں اس کی توہین واجب ہے۔'')

مکمل تحریر >>

تقلید کا ثبوت قرآنِ کریم سے:

تقلید کا ثبوت قرآنِ کریم سے:

1: ﴿فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ [النحل:43]

ترجمہ:اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے دریافت کرو۔

صاحبِ روح المعانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جس بات کا علم نہ ہو اس میں علماء سے معلوم کرنا اور ان کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔

"واستدل بها أيضاً على وجوب المراجعة للعلماء فيما لا يعلم".

روح المعانى  (7 / 387):

حافظ ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ علماء کا اس بات میں اختلاف نہیں کہ عام لوگوں کے ذمہ اپنے علماء کی تقلید کرنا واجب ہے، اور اللہ رب العزت کے ارشاد سے یہی لوگ مراد ہیں، ان سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اندھے کو جب قبلہ کی سمت معلوم نہ ہو تو اس پر لازم  ہے کہ وہ اس شخص کی تقلید اور پیروی کرے جس کی تمییز پر اسے بھروسہ ہو، اسی طرح وہ لوگ جن کے پاس دینی علم نہیں اور وہ دینی بصیرت سے عاری ہیں ان کے ذمہ اپنے عالم کی تقلید لازم ہے۔

"ولم تختلف العلماء أن العامة عليها تقليد علمائها، وأنهم المرادون بقول الله عز وجل: ﴿فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ [النحل: 43] وأجمعوا على أن الأعمى لا بد له من تقليد غيره ممن يثق بميزه بالقبلة إذا أشكلت عليه، فكذلك من لا علم له ولا بصر بمعنى ما يدين به لا بد من تقليد عالمه".

جامع بيان العلم وفضله - مؤسسة الريان - (2 / 230):

2۔ ﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اَطِيعُوا اللَّهَ وَاَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾ [ النساء : 59]

ترجمہ: اے ایمان والو!  اللہ، رسول اور اپنے میں سے "اولو الامر"  کی اطاعت کرو۔

علامہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں "اولو الامر"  سے علمائے مجتہدین مراد لینا زیادہ بہتر ہے۔

"وخامسها: أن أعمال الأمراء والسلاطين موقوفة على فتاوي العلماء، والعلماء في الحقيقة أمراء الأمراء، فكان حمل لفظ أولي الأمر عليهم أولى".

تفسير الرازي : مفاتيح الغيب ـ موافق للمطبوع - (10 / 117):

3۔ ﴿وَإِذَا جَآءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ﴾ [النساء: 83]

ترجمہ: جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں ، اگر پیغمبرِ خدا اور اپنے میں   سے "اولی الامر" کے پاس اسے لے جاتے تو ان میں جو اہلِ استنباط (یعنی مجتہدین) ہیں اسے اچھی طرح جان لیتے۔

علامہ رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ پیش آمدہ مسائل میں علماء کی تقلید کریں۔

"إذا ثبت هذا، فنقول: الآية دالة على أمور. أحدها: أن في أحكام الحوادث ما لا يعرف بالنص بل بالاستنباط. وثانيها: أن الاستنباط حجة. وثالثها: أن العامي يجب عليه تقليد العلماء في أحكام الحوادث".

تفسير الرازي : مفاتيح الغيب ـ موافق للمطبوع - (10 / 159):

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات پیش خدمت ہیں:

1۔ تقلید واجب ہے۔

2۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یا ان کے علاوہ ائمہ (امام مالک، شافعی یا احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے،  جس امام کی اتباع اپنے اوپر لازم کرلی جائے تو تمام مسائل میں اس مذہب کے مطابق عمل کیا جائے گا، ایک مسئلہ میں ایک مذہب اور دوسرے مسئلے میں دوسرے مذہب پر عمل کرنا خواہشاتِ نفسانی پر چلناہے، ایسا کرنا درست نہیں۔

3۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام جب آخری زمانے میں تشریف لائیں گے تو وہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کے مذہب کے مطابق عمل کریں  نہیں کریں گے ، بلکہ وہ اجتہاد کریں گے اور اس کے مطابق فیصلے فرمائیں گے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ  انہیں وحی کے ذریعہ پہلے سے ہی ہماری شریعت سکھلادی گئی تھی ، وہ اس کے مطابق عمل کریں گے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ انہیں آسمانوں میں علم عطا کیا جائے گا، اس کے مطابق عمل کریں گے۔

چوتھا قول یہ ہے کہ وہ قرآن کریم میں غور و فکر کرکے اس سے احکام سمجھیں گے۔

" فكما كان مذهب الإمام أبي حنيفة أول المذاهب المدونة فكذلك يكون آخرها انقراضاً، وبذلك قال أهل الكشف ا هـ لكن لا دليل في ذلك، على أن نبي الله عيسى على نبينا وعليه الصلاة والسلام يحكم بمذهب أبي حنيفة وإن كان العلماء موجودين في زمنه، فلا بد له من دليل، ولهذا قال الحافظ السيوطي في رسالة سماها الإعلام ما حاصله : إن ما يقال إنه يحكم بمذهب من المذاهب الأربعة باطل لا أصل له، وكيف يظن بنبي أنه يقلد مجتهداً مع أن المجتهد من آحاد هذه الأئمة لا يجوز له التقليد، وإنما يحكم بالاجتهاد، أو بما كان يعلمه قبل من شريعتنا بالوحي، أو بما تعلمه منها وهو في السماء، أو أنه ينظر في القرآن فيفهم منه كما كان يفهم نبينا عليه الصلاة والسلام ا هـ واقتصر السبكي على الأخير". (رد المحتار (1 / 151 و 152) ط: دار عالم الکتاب) فقط واللہ اعلم

مکمل تحریر >>