Pages

Sunday 3 February 2019

تقلید کا ثبوت قرآنِ کریم سے:

تقلید کا ثبوت قرآنِ کریم سے:

1: ﴿فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ [النحل:43]

ترجمہ:اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے دریافت کرو۔

صاحبِ روح المعانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جس بات کا علم نہ ہو اس میں علماء سے معلوم کرنا اور ان کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔

"واستدل بها أيضاً على وجوب المراجعة للعلماء فيما لا يعلم".

روح المعانى  (7 / 387):

حافظ ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ علماء کا اس بات میں اختلاف نہیں کہ عام لوگوں کے ذمہ اپنے علماء کی تقلید کرنا واجب ہے، اور اللہ رب العزت کے ارشاد سے یہی لوگ مراد ہیں، ان سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اندھے کو جب قبلہ کی سمت معلوم نہ ہو تو اس پر لازم  ہے کہ وہ اس شخص کی تقلید اور پیروی کرے جس کی تمییز پر اسے بھروسہ ہو، اسی طرح وہ لوگ جن کے پاس دینی علم نہیں اور وہ دینی بصیرت سے عاری ہیں ان کے ذمہ اپنے عالم کی تقلید لازم ہے۔

"ولم تختلف العلماء أن العامة عليها تقليد علمائها، وأنهم المرادون بقول الله عز وجل: ﴿فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ [النحل: 43] وأجمعوا على أن الأعمى لا بد له من تقليد غيره ممن يثق بميزه بالقبلة إذا أشكلت عليه، فكذلك من لا علم له ولا بصر بمعنى ما يدين به لا بد من تقليد عالمه".

جامع بيان العلم وفضله - مؤسسة الريان - (2 / 230):

2۔ ﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اَطِيعُوا اللَّهَ وَاَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾ [ النساء : 59]

ترجمہ: اے ایمان والو!  اللہ، رسول اور اپنے میں سے "اولو الامر"  کی اطاعت کرو۔

علامہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں "اولو الامر"  سے علمائے مجتہدین مراد لینا زیادہ بہتر ہے۔

"وخامسها: أن أعمال الأمراء والسلاطين موقوفة على فتاوي العلماء، والعلماء في الحقيقة أمراء الأمراء، فكان حمل لفظ أولي الأمر عليهم أولى".

تفسير الرازي : مفاتيح الغيب ـ موافق للمطبوع - (10 / 117):

3۔ ﴿وَإِذَا جَآءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ﴾ [النساء: 83]

ترجمہ: جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں ، اگر پیغمبرِ خدا اور اپنے میں   سے "اولی الامر" کے پاس اسے لے جاتے تو ان میں جو اہلِ استنباط (یعنی مجتہدین) ہیں اسے اچھی طرح جان لیتے۔

علامہ رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ پیش آمدہ مسائل میں علماء کی تقلید کریں۔

"إذا ثبت هذا، فنقول: الآية دالة على أمور. أحدها: أن في أحكام الحوادث ما لا يعرف بالنص بل بالاستنباط. وثانيها: أن الاستنباط حجة. وثالثها: أن العامي يجب عليه تقليد العلماء في أحكام الحوادث".

تفسير الرازي : مفاتيح الغيب ـ موافق للمطبوع - (10 / 159):

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات پیش خدمت ہیں:

1۔ تقلید واجب ہے۔

2۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یا ان کے علاوہ ائمہ (امام مالک، شافعی یا احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے،  جس امام کی اتباع اپنے اوپر لازم کرلی جائے تو تمام مسائل میں اس مذہب کے مطابق عمل کیا جائے گا، ایک مسئلہ میں ایک مذہب اور دوسرے مسئلے میں دوسرے مذہب پر عمل کرنا خواہشاتِ نفسانی پر چلناہے، ایسا کرنا درست نہیں۔

3۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام جب آخری زمانے میں تشریف لائیں گے تو وہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کے مذہب کے مطابق عمل کریں  نہیں کریں گے ، بلکہ وہ اجتہاد کریں گے اور اس کے مطابق فیصلے فرمائیں گے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ  انہیں وحی کے ذریعہ پہلے سے ہی ہماری شریعت سکھلادی گئی تھی ، وہ اس کے مطابق عمل کریں گے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ انہیں آسمانوں میں علم عطا کیا جائے گا، اس کے مطابق عمل کریں گے۔

چوتھا قول یہ ہے کہ وہ قرآن کریم میں غور و فکر کرکے اس سے احکام سمجھیں گے۔

" فكما كان مذهب الإمام أبي حنيفة أول المذاهب المدونة فكذلك يكون آخرها انقراضاً، وبذلك قال أهل الكشف ا هـ لكن لا دليل في ذلك، على أن نبي الله عيسى على نبينا وعليه الصلاة والسلام يحكم بمذهب أبي حنيفة وإن كان العلماء موجودين في زمنه، فلا بد له من دليل، ولهذا قال الحافظ السيوطي في رسالة سماها الإعلام ما حاصله : إن ما يقال إنه يحكم بمذهب من المذاهب الأربعة باطل لا أصل له، وكيف يظن بنبي أنه يقلد مجتهداً مع أن المجتهد من آحاد هذه الأئمة لا يجوز له التقليد، وإنما يحكم بالاجتهاد، أو بما كان يعلمه قبل من شريعتنا بالوحي، أو بما تعلمه منها وهو في السماء، أو أنه ينظر في القرآن فيفهم منه كما كان يفهم نبينا عليه الصلاة والسلام ا هـ واقتصر السبكي على الأخير". (رد المحتار (1 / 151 و 152) ط: دار عالم الکتاب) فقط واللہ اعلم

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔