Pages

Saturday 22 April 2017

کاتب وحی امیر المؤمنین حضرت سید نا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ​

کاتب وحی امیر المؤمنین حضرت سید نا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ​

نام ونسب : ابو عبد الرحمن معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ بن صخر بن حرب بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی۔
پیدائش : حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے تقریباً ۵ سال قبل پیدا ہوئے ۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سردار قریش ابو سفیان کے صاحبزادے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے ان 17 ِافرا دمیں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ کی والدہ ہندؓ بنت عتبہ ،والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور ایک قیافہ شناس کے اقوال نقل کئے ہیں فرماتے ہیں :” ایک مرتبہ جبکہ آپ رضی اللہ نوعمر ہی تھے آپ رضی اللہ عنہ کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ کی طرف دیکھ کہ کہا : میرا بیٹا بڑے سروالا ہے اور اس قابل ہے کہ اپنی قوم کا سردار بنے “۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے اپنے شوہر کے یہ الفاظ سنے تو کہنے لگیں : آپ صرف اپنی قوم کی سرداری کی بات کررہے ہیں ۔ اس کی ماں اس کو روئے اگر یہ پورے عالم عرب کا قائد اور سردار نہ بنے ۔ ایک قیافہ شناس نے آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب کہ آپ رضی اللہ عنہ بچے ہی تھے تو کہنے لگا ” یہ اپنی قوم کا سردار بنے گا “ ۔
اسلام کے دامن رحمت میں: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان فتح مکہ 8 ھ کے موقع پر فرمایا ، لیکن اس سے بہت عرصے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام داخل ہوچکا تھا ،جس کا ایک اہم اور واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق اور صلح حدیبیہ میں حصہ نہیں لیا ، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ جوان اور فنون حرب وضرب کے ماہر تھے نیز آپ رضی اللہ عنہ کے والد ان معرکوں میں قریش کے صف اول کے قائدین میں شمار کئے جاتے تھے ۔ فتح مکہ میں چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کے والدین بھی مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے ،اس لئے حالات سازگار دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے قبول اسلام کاا علان کردیا ۔ اس سے پہلے قبول اسلام کا اعلان نہ کرنے کی وجہ آپ رضی اللہ عنہ ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے: ” میں عمرة القضا سے بھی پہلے اسلام لاچکا تھا ، مگر مدینہ جانے سے ڈرتا تھا ، جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر تم مسلمان ہوکر مدینہ چلے گئے تو ہم تمہارے ضروری اخراجات زندگی بھی بند کردیں گے “ ( طبقات ابن سعد ؒ)
خدمت نبوی ﷺ میں: اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے شب وروز خدمت نبوی ﷺ میں بسر ہونے لگے آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہءنسب پانچویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے ملتاتھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو امیہ کے تعلقات قبول اسلام سے پہلے بھی حضور اکرم ﷺ کے ساتھ دوستانہ تھے ، یہی وجہ تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے دار ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو دار الامن قراردے دیا تھا ، نیز حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور حضرت معاویہؓ کی بہن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کے حرم میں داخل تھیں ۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہ صرف کاتبین وحی صحابہ رضی اللہ عنہم میں شامل فرمالیا تھا بلکہ دربار رسالت ﷺ سے جو فرامین اور خطوط جاری ہوتے تھے ، ان کو بھی آپ رضی اللہ عنہ لکھا کرتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی دربار نبوی میں حاضری کے متعلق علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”حضور اکرم ﷺ کے کاتبین میں سب سے زیادہ حاضر باش حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ شب وروز کتابت وحی کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی شغل نہ تھا “ ( جامع السیر )
کتا بت وحی کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نے دور نبوی ﷺمیں ہونے والے حنین اور طائف کے معرکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور خوب داد شجاعت دی ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے : ” وہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں اسلام قبول کرنے سے پہلے مسلمانوں سے لڑتا تھا ، اب آپ ﷺ مجھے حکم دیجئے کہ میں کفار سے جہاد کروں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ضرور ، جہاد کرو،“
دور خلافت راشدہ رضی اللہ عنہم میں آپ رضی اللہ عنہ کے جہادی کارنامے: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کی طرف جو لشکر بھیجے گئے آپ رضی اللہ عنہ اس کے ہراول دستے میں شامل تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں گورنر شام کی حیثیت سے آپ رضی اللہ عنہ نے روم کی سرحدوں پر جہاد جاری رکھا اور متعدد شہر فتح کئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے عموریہ تک اسلام کا پرچم لہرا یا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا ایک اہم جہادی کارمانہ قبرص کی فتح ہے ۔
شام کے قریب واقع یہ حسین وزرخیز جزیرہ اس حیثیت سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ یورپ اور روم کی جانب سے یہی جزیزہ مصر وشام کی فتح کا دروازہ تھا ۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سمندری مشکلات کے پیش نظر آپ رضی اللہ عنہ کو لشکر کشی کی اجازت نہیں دی تھی ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے عزم کامل اور شدید اصرار کو دیکھتے ہوئے اجازت مرحمت فرمادی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہاں حملہ کرنے کی غرض سے 500 جہازوں پر مشتمل بحری بیڑہ تیار فرمایا ۔ جب اہل قبرص نے اتنے عظیم بحری بیڑے کو قبرص میں لنگر انداز دیکھا تو ابتدا میں کچھ شرائط پر مسلمانوں سے صلح کرلی، لیکن موقع پاکر عہد شکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف رومیوں کومدد فراہم کی چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ حملہ کردیا اور اس اہم جزیرے کو مسخر کرلیا ۔
یہ اسلام کا پہلا بحری بیڑہ تھا اور باتفاق محدثین آپ رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے اس بیڑے میں شامل مجاہدین ہی اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں حضور اکرم ﷺ نے بحری جہاد کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے ، علاوہ ازیں افرنطیہ ،ملطیہ ،روم کے متعدد قلعے بھی آپ رضی اللہ عنہ نے فتح کئے ۔
عہدے ومناصب اور خلافت: آپ رضی اللہ عنہ 18 ھ سے 41 ھ تک تقریباً 22 سال گورنری کے منصب پر فائز رہے ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ 18 ھ میں آپ رضی اللہ عنہ کے برادراکبر حضرت یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ طاعون کے باعث شہید ہوگئے ،چنانچہ ان کی جگہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو دمشق کا گورنر مقرر فرمایا ۔ بعد ازاں حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو ہٹاکر حمص کی اور حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو ہٹا کر جابیہ کی گورنری پر بھی آپ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فلسطین ،اردن اور لبنان بھی آپ رضی اللہ عنہ کی گورنری میں دےدئیے ۔ اس طرح شام کا صوبہ اور اس کے مضافات کے تمام علاقے آپ رضی اللہ عنہ کی عملداری میں آگئے ۔ 41 ھ میں حضر ت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دستبرداری پر آپ رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسلمین بنے ، تمام مسلمانوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے دست حق پر ست پر بیعت کی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت تقریباً 20 سال پر محیط ہے ۔
بطور خلیفہ خدمات جلیلہ: ہم انتہائی اختصار کے ساتھ چند اہم کارناموں کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں :۔
1۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دو رخلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ،ترمذ ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی ) سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔ ان فتوحات میں غزوہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتاہے ۔ یہ مسلمانوں کی قسطنطنیہ پر پہلی فوج کشی تھی ، مسلمانوں کا بحری بیڑہ سفیان ازدی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روم سے گزر کر قسطنطنیہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔
2۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ موسم سرما میں اور دوسرا حصہ موسم گرما میں جہاد کرتا تھا ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فوجیوں کا وظیفہ دگنا کردیا ۔ ان کے بچوں کے بھی وظائف مقرر کردئیے نیز ان کے اہل خانہ کا مکمل خیال رکھا ۔
3۔ مردم شماری کےلئے باقاعدہ محکمہ قائم کیا ۔
4۔ بیت اللہ شریف کی خدمت کےلئے مستقل ملازم رکھے ۔ بیت اللہ پر دیبا وحریر کا خوبصورت غلاف چڑھایا ۔
5۔ تمام قدیم مساجد کی ازسرنو تعمیر ومرمت ،توسیع وتجدید او رتزئین وآرائش کی ۔
6۔ نہروں کے نظام کے ذریعے سینکڑوں مربع میل اراضی کو آباد کیا اور زراعت کو خوب ترقی دی ۔
7۔ نئے شہر آباد کئے اور نو آبادیاتی نظام متعارف کرایا ۔
8 ۔ ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا ، اس میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ محکمہ بناکر ملازم مقرر کئے ۔
9 ۔ عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کیں اور اس کو مزیدترقی دی ۔
10۔ مستقل فوج کے علاوہ رضا کاروں کی فوج بنائی ۔
11۔ بحری بیڑے قائم کئے اور بحری فوج ( نیوی ) کا شعبہ قائم کیا ۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا تجدیدی کارنامہ ہے ۔
12 ۔ جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ کارخانے قائم کئے ۔پہلا کارخانہ 54 ھ میں قائم ہوا ۔
13 ۔ قلعے بنائے ، فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور ” دارالضرب “ کے نام سے شعبہ قائم کیا ۔
14 ۔ امن عامہ برقرار رکھنے کےلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا ۔
15۔ دارالخلافہ دمشق اور تمام صوبوں میں قومی وصوبائی اسمبلی کی طرز پر مجالس شوری قائم کیں ۔
الغرض آپ رضی اللہ عنہ کا دو ر ایک مثالی دور تھا ۔ ابو اسحق السبیعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بلاشبہ وہ مہد ی زماں تھے ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ احادیث وآثار کے آئینے میں :
1۔اے اللہ ! اسے ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعہ اوروں کو ہدایت دے ( حدیث مبارکہ )
2۔اے اللہ ! معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتاب وحساب کا علم دے اور اسے عذاب سے محفوظ رکھ ( حدیث مبارکہ )
3۔ اے اللہ ! اس کے سینے کو علم سے بھر دے ۔ ( حدیث مبارکہ )
4۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر بھلائی کےساتھ کرو۔ ( اسے حدیث سمجھنا غلط فہمی ہے ) ( حضرت عمر فاروق ؓ)
5۔ لوگو ! فرقہ بندی سے بچو ۔ اگر تم نے فرقہ بندی اختیار کی تو یاد رکھو معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں موجود ہیں ۔ ( حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ )
6۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو برا نہ سمجھو کیونکہ جب وہ نہیں ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا دیکھو گے ( حضر ت علی رضی اللہ عنہ )
7۔ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر امو ر سلطنت وبادشاہت کے لائق کسی کو نہیں پایا۔ ( حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ )
8۔ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان سے بڑھ کر حق کا فیصلہ کرنے والا نہیں پایا ۔ ( حضرت سعدؓبن ابی وقاص)
9۔میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر برد بار ،سیادت کے لائق ، باوقار اور نرم دل کسی کو نہیں پایا ۔( حضرت قبیصہؓ بن جابر )
10۔اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پاتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ عدل وانصاف کیا ہے ؟ ( امام اعمش ؒ)
جنگ صفین کی آڑلیکر اس عظیم صحابیؓ رسول ﷺکی شان میں زبان درازی کرنے والے اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں ۔ ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی بھی صحابی کے خلاف زبان طعن وتنقید دراز کرے ۔صحابہ رضی اللہ عنہم کے کردار کو تاریخ کے آئینے میںدیکھنا ایسا ہے جیسے ہیرے جواہرا ت کا وزن لکڑی تولنے والے سے کرایاجائے ۔
وفات: یہ آفتاب رشد وہدایت ،فاتح بحر وبر اور امام سیاست 22 رجب المرجب 60 ھ میں دمشق میں راہی ملک بقا ہو ا ۔
https://www.facebook.com/sunniaqaid12/

مکمل تحریر >>

Thursday 20 April 2017

سوال: الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہنا کہاں سے ثابت ہے کسی کو یا کہنا کیسا ہے ؟؟ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ بدعت اور عقیدۃً شرک کہتے ہیں ۔اس کی حقیقت کیا ہے ؟

سوال: الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہنا کہاں سے ثابت ہے
کسی کو یا کہنا کیسا ہے ؟؟ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ بدعت اور عقیدۃً شرک کہتے ہیں ۔اس کی حقیقت کیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ : یا حروفِ نِدا میں سے ایک لفظ ہے ، اور یہ حاظر غائب ، زندہ ، وفات شُدہ ،انسان اور غیر انسان ہر ایک کے لیئے بولا جا سکتا ہے ، اسکو شرک و بدعت کہنا وہابیوں کا طریقہ ہے جو کہ جاہلانہ حرکت ہے کیونکہ یہ نہ تو علم اور نہ عربی سے کوئی تعلق رکھتے ہیں سوائے ہر ایک کو مُشرک قرار دینے کے )
سوال کا جواب:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ اپنے چچا سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عزوہ احد میں شہادت پر اس قدر روئے کہ انہیں ساری زندگی اتنی شدت سے روتے نہیں دیکھا گیا۔ پھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے :
يا حمزة يا عم رسول الله اسد الله واسد رسوله يا حمزة يا فاعل الخيرات! يا حمزة ياکاشف الکربات يا ذاب عن وجه رسول الله.
(المواهب اللدينه، 1 : 212) (یعنی ترجمہ: یا حمزہ ، یا ’’رسول اللہ کے چچا‘‘ اور اللہ کے شیر اور رسول اللہ کے شیر ، یا حمزہ ائے تکلیفیں دور کر دینے والے شخص۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )
آپ نے دیکھا کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام اپنے وفات شدہ چچا سے فرما رہے ہیں یا کاشف الکربات (اے تکالیف کو دور کرنے والے)۔ اگر اس میں ذرہ برابر بھی شبہ شرک ہوتا تو آپ اس طرح نہ کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض لوگوں کو یارسول اللہ کے الفاظ ہضم نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ اس طرح کہنا شرک ہے جیسا کہ سوال میں بھی مذکور ہے تو میراان سے ایک سوال یہ ہے کہ جو شرک ہو تا ہے وہ ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر لحاظ سے شرک ہو تا ہے تو پھر یہ لوگ صحابہ کرام اور بزرگان دین کے بارے میں کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے یارسول اللہ کے الفاظ سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو مخاطب کیا اور خود اللہ تعالی کے بارے میں ان لوگوں کا کیا خیال ہے کہ جب اللہ تعالی قرآن کریم میں حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو کبھی ’’یایھاالمزمل ‘‘کے خطاب سے مخاطب فرماتا ہے اور کبھی ’’یایھا المدثر‘‘ کے لقب سے اور کبھی’’ یاایھاالنبی‘‘ کے مبارک الفاظ سے ۔کیا نعوذباللہ ،اللہ تعالی خود شرک کی تعلیم دیتا ہے ؟
نہیں ہر گز نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں اور عقلوں پر اللہ تعالی نے مہر لگا دی ہے ان کو حقیقت بات بھی الٹی سمجھ آتی ہے ۔
بلکہ حقیقت بات یہ ہے کہ ندا ئے یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کا ثبوت قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ’’لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا‘‘
ترجمہ: :یعنی،’’ رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے ‘‘۔[النور :63]۔
اس آیت کے تحت تفسیر روح المعانی میں اور تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے تحت مذکور ہے ’’ والفظ لہ :قال الضحاک عن ابن عباس ،کانو یقولون یامحمد یااباالقاسم فنہاھم اللہ عزوجل عن ذلک اعظاما لنبیہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) قال فقولو ایانبی اللہ ،یارسول اللہ ھکذا قال مجاہد وسعید بن جبیر ،وقال قتادۃ ‘‘
یعنی: ،’’ حضرت ضحاک علیہ الرحمہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے تھے یامحمد ،یااباالقاسم ،تو اللہ تعالی نے اپنے محبوب(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عزت اورتوقیر کے لئے اس سے منع فرمادیااور فرمایا کہو’یانبی اللہ ،’یارسول اللہ ،
اور مجاہد اور سعید بن جبیر اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنھم نے اسی طرح روایت کیا [تفسیر ابن کثیر :ج،6ص81مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی سے ملتاجلتا مضمون تفسیر درمنثور :ج،8ص230پر بھی موجود ہے اور تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
’’ لا تنادو ہ کما ینادی بعضکم بعضا یامحمد ولکن قولوا یا رسول اللہ ،یانبی اللہ‘‘
یعنی ان (حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم))کو ندا اس طرح نہ دیں جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکار تے ہو(یعنی یامحمد کہہ کرنہ پکارو)لیکن یا رسول اللہ ، یا نبی اللہ کہہ کر پکارو [تفسیر کبیر:ج،8ص 425مطبوعہ دار الا حیاء بیروت ] ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث پاک میں ہے کہ جب سرکار دوعالم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے یارسول اللہ کے نعرے کے ساتھ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا استقبال کیا
’’فصعد الرجال والنساء فوق البیو ت وتفرق الغلمان والخد ام فی الطرق ینادون یامحمد ،یارسول اللہ،یامحمد ،یارسول اللہ‘‘
یعنی،’’ پس مرد اور عورتیں مکان کی چھتوں پر چڑھ کر اور بچے اور خدام بازاروں کے راستو8 ں میں پھیل کر یا محمد ،یارسول اللہ ،یامحمد ،یارسول اللہ ،کا نعرہ لگاتے تھے [صحیح مسلم شریف :ج،1ص419مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں
:’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا باجماع مسلمین جائز ومستحب ہے جس کی ایک دلیل ظاہر وباہر التحیات میں ،’’السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ ہے اور اس کے سواء صحاح کی حدیث میں ،’’یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ ‘‘یعنی،’’ اے محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں اپنی حاجت (ضرورت )میں آپ کو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور آپ کووسیلہ بناتا ہوں ‘‘۔موجود جس میں بعد وفات اقدس حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کے حضور کو پکارنا حضور سے مدد لینا ثابت ہے مگر ایسے لوگ جو یا رسول اللہ کہنے کو شرک کہیں ایسےجاہل کو احادیث سے کیا خبر جب اسے التحیات ہی یاد نہیں جو مسلمان کا ہر بچہ جانتاہے ‘‘۔[فتاوی رضویہ :ج،۲۳،ص۶۸۰مطبوعہ رضاء فا ؤنڈیشن لاہور ]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ‘‘کے صیغے سے حضورنبی کریم رؤف الرحیم علیہ التحیۃ والتسلیم پردورو سلام پڑھنا جائزومستحسن ہے جس طرح دیگر درود شریف کے صیغوں سے درود و سلام پڑھنا جائز ہے اور یہ اللہ تعالی کے اس فرمان پاک سے ثابت ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے ’’ ان اﷲ وملئکتہ یصلون علی النبی یا ایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما ‘‘
ترجمۂ کنزالایمان : بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ [ سورۃ الاحزاب اٰیۃ نمبر ۵۶ ]۔
اس آیت کریمہ میں لفظ ’’صلاۃ‘‘ اورلفظ’’ سلام‘‘ ہے اور’’الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ‘‘میں بھی لفظ’’صلاۃ‘‘ اورلفظ’’ سلام‘‘ دونوں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشکوٰۃ شریف کی حدیث پاک میں ہے
’’ عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قال کنت مع النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بمکۃ ،فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول :السلام علیک یا رسول اللہ ‘‘
یعنی،’’ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ مکہ میں تھا اور تو ہم مکہ کے نواح میں نکلے تو کسی پہاڑ اور درخت کے پاس سے نہیں گزرتے تھے مگر وہ السلام علیک یا رسول اللہ کہتا‘‘۔[مراقاۃ شرح مشکوٰۃ ،ج:۱۱،ص:۶۵،حدیث:۵۹۱۹،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]۔
اس حدیث پاک میں’’ السلام علیک یارسول اللہ ‘‘ہے ۔ اب اگر آیت پاک اور حدیث شریف دو نوں کی وضاحت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالی نے حضوراکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر دورد وسلام بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا اور حدیث پاک میں لفظ السلام موجود ہے تولہذا آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے’’ الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ‘‘ اس میں’’ صلوا‘‘ اور’’ وسلموا‘‘ دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلام کے الفاظ پر بھی عمل ہو جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی یہ کہے کہ یہی الفاظ کیوں ہیں؟ احادیث پاک میں کثرت سے دوردو سلام کے صیغے موجود ہیں ان میں سے ہی پڑھا جانا چاہئے تو اس کے لئے جواب یہ ہے کہ وہ دورد پاک جواحادیث میں وارد ہیں ان میں حصر نہیں کہ صرف وہی پڑھے جائیں اس کے علاوہ نہیں پڑھ سکتے بلکہ علماء نے صراحت کی ہے کہ جتنے اچھے الفاظ حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شان میں ہو سکیں اس کے ساتھ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پردورد اورسلام بھیجا جائے اس کی ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں جن میں قصیدہ بردہ شریف ،اور دورد تاج ،دلائل الخیرات شریف اس کے علاوہ بھی بہت سارے دورد وسلام حضور اقدس(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے موجود ہیں ۔اگر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر دلائل الخیرات اور قصیدہ بردہ شریف کا کیا جواب دیں گے ؟
خاص یہ الفاظ ’’ الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ‘‘ بزروگوں کی وضع ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے ۔جیسا کہ مذکورہ ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ طحطاوی حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،فصل فی زیارۃ النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زیارت کے آداب بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں حضور اکرم صلی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مواجھہ شریف سے چار ہاتھ دور کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے سر جھکائے ہوئے کہے’’السلام علیک یاسیدی یا رسول اللہ ،السلام علیک یا حبیب اللہ ،السلام علیک یا نبی الرحمۃ‘‘[حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،ص،747،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ ]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ رحمۃ الباری تحریر فرماتے ہیں ’’ یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ :صلی اللہ علیک یا رسول اللہ ،عند الثانیۃ منھا :قرت عینی بک یارسول اللہ ‘‘یعنی،’’مستحب یہ ہے کہ اذان میں مؤذ ن سے پہلی مرتبہ شہادت( اشھد ان محمد رسول اللہ ) سنے تو کہے۔صلی اللہ علیک یارسول اللہ ۔اور جب مؤذن سے دوسری مرتبہ ( اشھد ان محمد رسول اللہ )سنے تو کہے قرّت عینی بک یا رسول اللہ (یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)آپ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں)‘‘۔[ردلمحتار ،ج:۲،ص:۶۸،مطبوعہ امدایہ کتب خانہ ملتان]۔
اس مذکوہ بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ ‘‘کہنا جائز اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔
لہذا آخر میں یہ ہی دُعا ہے کہ اللہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پکی سچی غُلامی اور محبت اور دین کی سمجھ عطا فرمائے اور نجدی فتنے سے محفوظ فرمائے ، آمین

مکمل تحریر >>