Pages

Wednesday 19 April 2017

کعبے کی امامت اور مکہ مدینہ کی حکمرانی، حق پر ہونے کی دلیل نہیں..!

کعبے کی امامت اور مکہ مدینہ کی حکمرانی، حق پر ہونے کی دلیل نہیں..!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مولوی طارق جمیل کے اس سوال کہ"کیا اللہ اتنا کمزور ہے کہ وہ گمراہوں کو مکہ شریف پر قبضہ کرنے کی اجازت دے گا؟" کے جواب میں لکھی گئی ایک مدلل و فکرانگیز تحریر...
..........
ڈاکٹر ذاکر نائیک وہابی فرقے کا ایک مبلغ تھا..... وہ بدعات میں ڈوب کر قرآن و سنت پر عمل کا دعوی کرتا تھا..... ممبئی میں سالانہ بدعت اس نے اہل سنت کے سنی اجتماع کے جواب میں شروع کی تھی.....میں ہر سال دیکھا کرتا تھا کہ جیسے ہی سنی اجتماع کے دن قریب آتے، ان ہی تا ریخوں میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی طرف سے بھی نجدی وہابی کانفرنس کا اعلان کر دیا جاتا تھا..... پندرہ پندرہ بیس بیس دنوں تک ممبئی سمیت ہندوسنان بھر کے اہم اردو اخبارات میں مسلسل بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوتے تھے..... جس میں ایک دو نہیں بلکہ درجن بھر تصویریں دنیا بھر کے مختلف ممالک کے وہابی اسکالروں کی موجود ہوتی تھیں جو اس نجدی وہابی کانفرنس کے خصوصی مقررین ہوا کرتے تھے.....
سب سے بڑی تصویر کعبہ شریف یا مسجد نبوی کے نجدی امام کی اس میں ہوا کرتی تھی.....
اس نجدی وہابی کانفر نس کے لیے ہر سال لاکھوں نہیں بلکہ کئی کروڑ روپے خرچ ہوا کرتے تھے.....
اس کانفرنس کا مقصد روپیوں کی گنگا بہا کر جہاں وہابی فرقےکو فروغ دینا تھا وہیں اہل سنت کی مخا لفت کرنا بھی تھا.....
میڈیا والے جس طرح کعبے کے امام کی ہندوستان آمد پر اس کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی دعوت پر ہندوستان کا دورہ کرنے والے کعبے کے نجدی امام نے ایک مرتبہ دیوبند کے مدرسے میں بھی حاضری دی..... میں نے اسی منا سبت سے ایک مضمون..... کعبے کا امام دیوبند میں..... اس عنوان سے لکھا تھا..... جسے کافی پسند گیا تھا..... پھر یکے بعد دیگرے اس مضمون کی مزید نو قسطیں منظر عام پر آگئیں..... ان تمام قسطوں کو بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی..... یہی وجہ تھی کہ بعد میں کتابی صورت میں اس کی متعدد شہروں سے اشا عت بھی عمل میں آئی.....
میں نے دیوبندیوں، غیرمقلد وں اور مودودی جماعت سے وابستہ علماء اور مفتیوں سے دس قسطوں کے اس مضمون میں بڑے ہی سنجیدہ اور علمی انداز میں بار بار سوالات کیے اور سعودی حکومت پر بہت سارے اعتراضات قائم کرتے ہوئے اس بات کا ثبوت پیش کیا کہ جو لوگ اپنا جیب اور پیٹ بھرنے اور اپنے دیوبندی وہابی مودودی مسلک کی تبلیغ کے لیے سعودی وہابی حکمرانوں کو خادمین حرمین شریفین کے نام سے یاد کرتے ہیں انہوں نے اللہ پاک کے خوف کو اپنے دل سے نکال دیا ہے..... حق اور سچ بات یہی ہے کہ سعودی حکمراں خادم نہیں ہیں بلکہ ظالم اور غاصب ہیں ان لوگوں نے حجاز مقدس پر انگریزوں کی مدد سے غاصبانہ قبضہ کیا ہے اور نجدیوں کی یہ حکومت جسے دیوبندی وہابی علما اسلامی حکومت کا درجہ دیتے ہیں ہرگز اسلامی حکو مت نہیں ہے بلکہ اسلام مخالف وہابی حکو مت ہے.....
اسلام نے ہر عاقل و بالغ مسلمان پر علم دین کے حصول کو فرض قرار دیا ہے..... اللہ پاک چاہتا ہے کہ مسلمان دین سے ناوقف نہ رہیں..... انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کس کی اقتدا میں نماز ادا کی جائے..... اور کن لوگوں سے دور رہا جائے.....؟
وہابیوں دیوبندیوں نے سعودی حکمرا نوں اور سعودی وہابی نجدی ائمہ و علماء کی حمایت و طرفداری کرکے امت کو گمراہ کرنے کی جو مذموم حرکت کی ہے..... اس کا جواب تو قیامت کے دن انہیں دینا ہی ہوگا..... مگر مسلمانوں کے لیے ضروری ہے وہ اچھی طرح اس بات کو جان لیں کہ کعبے کی امامت اور حرمین طیبین پر قبضہ کر لینا حقانیت وصداقت کی دلیل نہیں ہے..... یہ تخت و تاج اور حکومت و امامت تو آنے جانے والی چیزیں ہیں ۔ کبھی کسی کے ہاتھ اور کبھی کسی کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔
میں نے مولوی طارق جمیل صاحب کو ایک تقریر میں روتے بلکتے اور سسکتے ہوئے انداز میں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ
عجیب حال ہے مکہ مدینہ شریف پہنچ کر بھی بہت لوگ وہاں کے ا ماموں کی اقتداء میں نمازیں نہیں پڑھتے..... مولوی صاحب نے اس تقریر میں اپنی آواز کو خوب اونچی نیچی کرتے ہوئے سوال کیاتھا کہ.....
کیا اللہ اتنا کمزور ہے کہ وہ کعبہ شریف پر گمراہوں کو قبضہ کرنے کی اجازت دے گا..... وہ اتنا کمزور ہے..... کیا وہ اتنا کمزور ہے.....؟ کہ کعبہ شریف کی امامت گمراہوں کو دے گا ؟
میں نے سوچ رکھا تھا کہ اس سوال پر دعوت و تبلیغ کا خوب شور مچانے والے ان مولوی صاحب سے دو بات ضرور کروں گا..... اللہ پاک کا شکر ہے کہ مجھے آج یہ توفیق نصیب ہوگئی.....
جتنے جذباتی انداز میں مولوی طارق جمیل صاحب نے یہ سوال پوچھا تھا اس سے کہیں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ میں ان سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ
مولوی صاحب ، کعبے کی امامت اور مکہ مدینے کی بادشاہت سے اللہ تعالی کے مضبوط اور کمزور ہونے کا کیا تعلق ہے اس کی وضا حت کریں.....؟ میرا سیدھا سیدھا سوال آپ ہی سے ہے کہ "جب کعبہ شریف میں 360 بت رکھے گئے تھے اور کفاران مکہ ان بتوں کی پر ستش کیا کرتے تھے تو کیا اللہ پاک اس وقت کمزور تھا".....؟ اور فتح مکہ کے بعد اس کی طاقت و قدرت میں اضافہ ہو گیا.....؟
کیا اس سوال کا کوئی جواب آپ دے سکو گے؟
یہ ایک نہیں ، اس طرح کے ہزار سوالات قائم کیے جا سکتے ہیں جس کا جواب تم مرتے دم تک نہیں دے سکو گے.....
کعبے کی چابیاں تو ابوجہل ، ابو لہب اور کفاران مکہ کے پاس بھی تھیں..... ان کے حکم پر ہی کعبہ شریف کے دروازے کھلتے بھی تھے اور بند بھی ہوتے تھے..... تو کیا اس وجہ سے انہیں حق پر مانا جا سکتا ہے.....؟
مولوی صاحب.....!
علمائے اہل سنت اور سنی مسلمانوں کے سوالات و اعتراضات سے اس دنیا میں تم راہ فرار اختیار کرسکتے ہو اور اپنا دامن بچا سکتے ہو..... مگر تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ
اپنی بے عقل عوام کے سا منے جہالت کی جو باتیں آپ کرتے ہیں ، ایسی ایک ایک بات کا جواب قیامت کے دن تمہیں اللہ پاک کے سامنے دینا ہوگا اور ان با توں کو سن کر گمراہ ہو جانے والوں کے عذاب کو بھی تمہیں جھیلنا ہوگا.....
افسوس کہ اس طرح کی اسلام مخالف بات کا اظہار کرتے ہوئے تمہیں اپنے مقام و منصب کا بھی کوئی لحاظ نہیں رہتا.....؟ تم نہیں سوچتے کہ ایسی جا ہلانہ باتوں کو تمہاری زبان سے سن کر اہل علم تمہارے متعلق کیا رائے قائم کریں گے.....؟
اگر یہ میری خوش فہمی نہیں تو پھر مان لینا چاہیے کہ اس عنوان پر مولوی طارق جمیل کی زبان بندی کے لیے بس یہی اک بات کافی ہے.....
لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہاں مسلمان بھائیوں کے سامنے کچھ ایسے حقائق رکھ دیے جائیں جن کے ذریعے انہیں مکمل اطمینان بھی نصیب ہو جائے اور جو لوگ دیوبندی مولوی طارق جمیل صاحب کو بہت بڑا عالم دین مانتے ہیں ان کی یہ غلط فہمی بھی دور ہوجائے.....
طارق جمیل صاحب کا یہی تو کہنا ہے کہ
سعودی نجدی حکمراں اور علماء اگر گمراہ ہیں تو پھر مکہ مدینہ کے اقتدار اور کعبے کی امامت و خطابت پر ان کا قبضہ کیوں کر ہو سکتا ہے.....؟
اس کا آسان سا مدلل اور ایمان افروز جواب یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ مکہ شریف اور مدینہ شریف پر کبھی گمراہوں اور بے دینوں کا قبضہ نہیں ہو سکے گا..... اسی طرح کعبہ شریف اور مسجد نبوی کی امامت و خطابت کبھی گمراہوں کے قبضے و اختیار میں نہیں جا سکے گی..... اک مسلمان اور صاحب ایمان کے لیے یہی ایک بات اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ۔۔۔۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گمراہ فرقے بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ پر اپنی حکومت قائم کرسکتے ہیں اور گمراہ علماء بھی مکہ مدینے کی مساجد پر امامت و خطابت کے منصب پر قابض ہو سکتے ہیں..... جیسا کہ آج سعودیوں نے اس ارض پاک پر اپنا قبضہ جمالیا ہے اور وہابی نجدی علماء وہاں خطابت و امامت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں.....
اب آئیے تاریخی حوالوں کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا ہے کہ حر مین شریفین پر گمراہوں نے قبضہ کیا ہو..... بلکہ اس سے قبل بھی گمراہ ہوجانے والے لوگوں نے حجاز پاک پر اپنی حکومت قائم کی ہے.....
○ کون نہیں جانتا کہ یزید پلید جیسے بد بخت کو بھی یہ موقع ملا..... کعبہ شریف پر اس نے آگ کے گولے برسائے ۔۔۔۔۔ غلاف کعبہ کو جلایا..... مسجد نبوی شریف میں گھوڑے باندھے..... تین دن تک مسجد نبوی میں نہ اذانیں دی جا سکیں نہ ہی نمازیں ادا کی جاسکیں..... صحابہ کرام اور مسلمانوں کے خون سے حرمین شریفین کی پاک و مقدس سر زمین کو رنگین کیا ۔۔۔۔ یزیدی فوج پر مدینہ شریف کی عورتوں کو حلال کردیا گیا.....
○ تاریخ بتاتی ہے کہ سن 360 ہجری میں ایک زمانہ ایسا بھی آیا تھا جب منکرین زکوات نے مکہ شریف اور مدینہ شریف پر اپنا قبضہ جمالیا تھا..... حاجیوں کو شہید بھی کیا ، اور مرتد ابو طاہر قر متی کی وجہ سے حج بھی بند ہوگیا.....
○ تاریخ کے صفحات پر یہ بات بھی موجود ہے کہ حجر اسود تقریبا بیس سال تک کعبہ شریف سے غائب رہا.....
○ تاریخ ہمیں اس بات کا بھی پتہ دیتی ہے کہ سن 654 ہجری میں خلیفہ معتصم با ا للہ کے دور میں شیعوں اور رافضیوں نے بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ پر اپنی حکومت قائم کی تھی اور مکہ مدینہ کے حاکم و امام سب شیعہ تھے.....
یہ تاریخی حوالے اس بات کے ثبوت کو کافی ہیں کہ مکہ مدینے کی بادشاہت اور حرمین شریفین کی امامت پر قبضہ کر لینا حق پر ہونے کی دلیل نہیں ہے.....
○ رہی بات سعودی حکومت کی تو..... 1925 میں سعودیوں وہابیوں نے حجاز پاک پر جو قبضہ کیا وہ تو اسلام کے خلاف انگریزوں کی ایک بہت ہی خطرناک منصوبہ سازش کا حصہ تھا..... اسے اسلامی انقلاب کہنا اسلام کے ساتھ غداری اور بے وفائی ہے.....
*******
بقلم: شکیل احمد سبحانی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔