Pages

Sunday 19 September 2021

رافضیت و ناصبیت کو پہچانیں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رافضیت و ناصبیت کو پہچانیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : رافضیت اہلبیت رضی اللہ عنہم کی محبت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ بغضِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا نام ہے ۔ اسی طرح ناصبیت محبتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نام نہیں بلکہ بغضِ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کا نام ہے ۔ الحَمْدُ ِلله ہم اہلسنت و جماعت صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم دونوں کے غلام ہیں اور اُن سب کا ادب و احترام کرتے ہیں اور اُن سب سے محبت کرتے ہیں ۔ ہم اہلسنت و جماعت صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والوں پر ببانگِ دہل لعنت بھیجتے ہیں ۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کرتے ہیں تو جاہلوں کے نزدیک  ہمارا شمار روافض میں ہوتا ہے اور جب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کرتا ہوں تو  مجھے ناصبی ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے ، پس میں  رافضی اور ناصبی رہونگا ان کی محبت کی وجہ سے یہاں تک کہ قبر میں دفن کیا جاؤں ۔ (دیوان الامام شافعی مترجم اردو صفحہ نمبر 203 مطبوعہ انڈیا)

رافضی کسےکہتے ہیں

رافضی کے معنی : (مجازاً) شیعہ انحراف کرنے والا اہل  تشیع کا ایک فرقہ سپاہیوں کا وہ گروہ جو اپنے سردار کو چھوڑ دے فرقہ رافضہ  فرقہ رافضہ کا ایک فرد رافضی کے انگریزی معنی :

(one of) a Shi'ite dissenting sect (Plural) روافض rva'fizadj & n.m ۔

رافضہ یا روافض کے لفظ کے ساتھ کوئی پیشین گوئی حدیث میں نہیں ہے ۔ البتہ  ان لوگوں نے ایسے ایسے عقیدے گھڑے جو قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہیں ، اس  لیئے علماء نے اس جماعت کا نام رافضی رکھا ۔

رافضی کے معنی ہیں تارکِ اسلام

چونکہ انہوں نے اپنے عقائد باطلہ کی وجہ سے اسلام کو چھوڑدیا اس لیئے انہیں  رافضی کہا جاتا ہے ۔ مثلاً ان کے عقائد میں سے یہ عقیدہ ہے کہ قرآن تحریف  شدہ ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کے قائل ہیں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں ۔ حضرت جبرئیل  علیہ السّلام کو خائن کہتے ہیں یعنی وحی امام غائب کے پاس لانے کے بجائے  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے ۔ اپنے بارہ اماموں کے بارے  میں ان کا عقیدہ ہے کہ ان کو اللہ کی طرف سے نیا دین دیا گیا اور آسمانی  نئی کتاب دی گئی ہے ۔ شیعہ در حقیقت رافضی ہی ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو بطور  تقیہ شیعہ ظاہر کرتے ہیں تاکہ غیر مضر تشیع کے ذریعے اہلِ سُنّت و جماعت  میں بھی رہا جائے اور جب موقعہ ملے تو اپنی رافضیت کو ظاہر بھی کر دیا جائے  ۔

شیعہ رافضی کے تاریخِ اسلام کے امام و شیوخ علیہم الرّحمہ کے فتوے

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر میں اپنے شیعوں کو جانچوں تو یہ زبانی دعویٰ کرنے والے ہیں اور باتیں  بنانے والے نکلیں گے ، اور ان کا امتحان لوں تو یہ سب مرتد نکلیں گے ۔  (ارضہ کلینی:۱۰۷)

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ لیغیظ بھم الکفار کے تحت فرماتے ہیں کہ : رافضیوں کے کفر کی قرآنی دلیل یہ ہے  کہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھ کر جلتے ہیں ، اس لئے کافر ہیں ۔  (الاعتصام :۲/۱۲۶۱)(روح المعانی:پارہ۲۶)

کتاب الشفاء میں قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص ایسی  بات کرے کہ جس سے امت گمراہ قرار پائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی  تکفیر ہو ، ہم اسے قطعیت کے ساتھ کافر کہتے ہیں ، اسی طرح جو قرآن میں  تبدیلی یا زیادتی کا اقرار کرے ۔ (کتاب الشفاء:۲/۲۸۶،۸۲۱،چشتی)

حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : شیعوں کے تمام گروہ  اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ امام کا تعین اللہ تعالیٰ کے واضح حکم سے  ہوتا ہے ، وہ معصوم ہوتا ہے ، حضرت علی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل  ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو امام ماننے کی وجہ سے چند ایک کے سوا تمام صحابہ مرتد ہوگئے ۔ (غنیۃ  الطالبین:۱۵۶۔۱۶۲)

حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں : رافضیوں کی طر ف سے قرآن مجید کی تحریف کادعویٰ اسلام کو باطل کردیتا ہے ۔ (تفسیر کبیر:۱۱۸)

علامہ کمال الدین ابن عصام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فتح القدیر میں علامہ کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر رافضی  ابوبکر صدیق و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر ہے تو وہ کافر ہے ۔  (فتح القدیر، باب الامامت:۸)

صاحبِ فتاویٰ بزازیہ فرماتے ہیں : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا  منکر کافر ہے ۔ حضرت علی ، طلحہ ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو  کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں : جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی  خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے ، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ  رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۱۹۸،چشتی)

حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں ، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا  ہے جس کا نام رد روافض ہے ، اس میں تحریر فرماتے ہیں : اس میں شک نہیں کہ  ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں ، پس یہ بات ظاہر ہے  کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث  ہے ۔ (ردّ روافض:۳۱)

علمائے احناف کا متفقہ فتویٰ : روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان  پر لعنت کریں تو کافر ہیں ، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر  ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔ (فتاویٰ  عالمگیری:۲/۲۶۸)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ اپنی کتاب مسویٰ شرح مؤطا امام محمد میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی  خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن بعض ایسی دینی حقیقتوں کی جن کا ثبوت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے قطعی ہے ایسی تشریح و تاویل کرتا ہے جو  صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اور اجماعِ امت کے خلاف ہے تو اس زندیق کہا  جائے گا اور وہ لوگ زندیق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ  عنہما اہل جنت میں سے نہیں ہیں ، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ  علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے گا ، لیکن نبوت کی جو  حقیقت کسی انسان کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا ، اس کی اطاعت کا فرض ہونا  اور اس کا معصوم ہونا ، یہ سب ہمارے اماموں کو حاصل ہے ، تو یہ عقیدہ رکھنے  والے زندیق ہیں اور جمہور متأخرین حنفیہ ، شافعیہ کا اتفاق ہے کہ یہ واجب  القتل ہیں ۔ (مسویٰ شرح مؤطا محمد)

صاحبِ درّ مختار فرماتے ہیں : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان  میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے  گی ۔ (درمختار)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ  عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔  (شامی : ۲/۲۹۴)

ناصبی کون ؟

محترم قارئینِ کرام : ناصبی جس کی جمع نواصب ہے اور اس کے لیئے ناصبہ اور ناصبیہ بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ (القاموس المحیط ص177) (فتح الباری 7:437)

اس کی اصطلاحی تعریفات ایک سے زائد ہیں جن میں سے معروف درج ذیل ہیں

علامہ زمخشری و علامہ آلوسی علیہما لعّحمہ لکھتے ہیں : بغض علی و عداوتہ ۔ ترجمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض و عداوت کا نام ناصبیت ہے ۔ (الکشاف 4:777) (روح المعانی 30:172)

علامہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بغض علی و تقدیم غیرہ علیہ (ھدی الساری ص 459)
ترجمہ : مفہوم اوپر گزر چکا ہے ۔

سیرت نگار ابن اسید الناس رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : النواصب قوم یتدینون ببغضۃ علی ۔ (المحکم والمحیط الاعظم 8:345) ، اور اس قول کو معروف لغوی ابن منظور اور فیروزاآبادی نےبھی اختیار کیا ہے ۔

علامہ ابن تیمیہ ممدوح غیر مقلد وہابی حضرات لکھتے ہیں : النواصب : الذین یوذون اہل البیت بقول و عمل ۔ (مجموع الفتاوی 3:154)

”ناصبیت“ کی اصطلاح رافضیوں کی ایجاد کردہ ہے ، تیسری صدی ہجری تک کسی بھی سنی عالم نے کسی دوسرے سنی عالم کو”ناصبی“ نہیں کہا ہے ، بلکہ اس دور میں اگر کوئی شخص کسی کو ناصبی کہتا تھا تو یہ اس کے ”رافضی“ ہونے کی دلیل سمجھی جاتی تھی ۔

امام علی بن المدينی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى234) سے منقول ہے : ومن قال فلان ناصبی علمنا أنه رافضی ۔
ترجمہ : جو کہتا تھا کہ فلاں ناصبی ہے تو ہم جان لیتے تھے کہ وہ رافضی ہے ۔ (شرح أصول اعتقاد أهل السنة 1/ 166)

امام علی بن المدینی رحمہ اللہ کے شاگرد امام أبو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى277) نے بھی یہی بات کہی ہے اور اسے اپنے دور کے تمام علماء کی طرف منسوب کیا ہے ، اس سے اس نقل کی تائید ہوتی ہے ، کیونکہ ظاہر ہے کہ اس نسبت میں ان کے استاذ علی بن المدینی رحمۃ اللہ علیہ بدرجہ اولی شامل ہیں ۔

امام أبو حاتم الرازی (المتوفى277) اور امام أبو زرعہ الرازی (المتوفى264) علیہما الرحمہ نے فرمایا : وعلامة الرافضة تسميتهم أهل السنة ناصبة ۔
ترجمہ : رافضیوں کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو ناصبی کہتے ہیں ۔

یاد رہے کہ یہ صرف ان دو ائمہ ہی کا کہنا نہیں ہے بلکہ ان کے دور کے تمام علماء کا یہی ماننا تھا ، جیسا کہ امام ابوحاتم رازی اور امام ابوزرعہ رازی نے یہ بات کہنے سے پہلے اس کی صراحت اس طرح کی ہے : أدركنا العلماء في جميع الأمصار حجازا وعراقا وشاما ويمنا فكان من مذهبهم ترجمہ : ہم نے تمام شہروں ، حجاز ، عراق ، شام ، یمن کے علماء کو پایا ہے ۔ (شرح اعتقاد أهل السنة للالکائی 1/ 201 ، وإسناده صحيح ، أصل السنة واعتقاد الدين للرازيين : ق168/ب ، وإسناده صحيح وانظر: تکحیل العینین : صفحہ نمبر 222)

امام أبو محمد الحسن بن علي بن خلف البربهاری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 329 ) نے فرمایا : وإذا سمعت الرجل يقول فلان ناصبی فاعلم أنه رافضی ۔
ترجمہ : جب تم کسی شخص کو کہتے ہوئے سنو کہ فلاں ناصبی ہے ، تو جان لو کہ وہ رافضی ہے ۔ (شرح السنہ للبربھاری : ص 118 ، طبقات الحنابلة 2/ 36)

ناصبیت و رافضیت گمراہی کی دو انتہائیں ہیں ۔ جبکہ عقیدہ اہل سنت ان کے درمیان ایک پل صراط ہے ، جس سے ذرا برابر بھی اِدھر اُدھر ہونے والا یا تو ناصبیت کی پر خار وادی میں جا گرتا ہے یا رافضیت کی ۔ ناصبیت کی وادی میں گرنے والا دفاع صحابہ رضی اللہ عنہم کے جذباتی نعرے لگاتے ہوئے گرتا ہے جبکہ رافضیت کی وادی میں گرنے والا دفاع اہل بیت رضی اللہ عنہم کے جذباتی نعرے لگاتے ہوئے گرتا ہے ۔ گمراہی کی ان دونوں انتہاؤں کا سبب رطب و یابس سے بھر پور تاریخی روایات ہیں ، دفاعِ صحابہ رضی اللہ عنہم والا ناصبی جب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتا ہے تو یزید اس کے گلے میں مچھلی کے کانٹے کی طرح پھنس جاتا ہے ، چار و ناچار اسے دفاعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام پر تاریخی روایات کے سہارے یہ کانٹا بھی نگلنا پڑتا ہے ، اور سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بدگمان ہونا پڑتا ہے ۔

دفاع اہل بیت رضی اللہ عنہم والا رافضی جب علی و فاطمہ و حسنین رضی اللہ عنہم کا دفاع کرتا ہے تو خلفاء ثلاثہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب غلط تاریخی روایات کی وجہ سے اسے ان نفوس قدسیہ سے بدگمانی پیدا ہوتی ہے ۔ ناصبی جب دفاعِ یزید پلید کےلیے تاریخی روایات لے کے آتا ہے تو رافضی بھی بھاگم بھاگ مخالفت معاویہ رضی اللہ عنہ میں اسی قسم کے سینکڑوں حوالے اٹھا لاتا ہے ۔ اگر ناصبی کو حق ہے کہ وہ تاریخی روایات کی بنیاد پر یزید پلید کےلیے نرم گوشہ رکھے تو پھر رافضی کو بھی یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ تاریخی روایات کی بنیاد پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بد گوئی کرے ۔

اور اگر رافضی کو یہ حق حاصل نہیں ہے تو پھر ناصبی کو تاریخی روایات کی بنیاد پر یزید کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا حق کس نے دیا ہے ؟

اسی لیے اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ان بے ہنگم تاریخی روایات سے ہٹ کر قرآن و سنت کی مستند بنیادوں پر قائم ہے ، قرآن نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جو عظمتیں بیان کی ہیں وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو پوری پوری ملیں گی ۔ اور جو اہل بیت رضی اللہ عنہم کی عظمتیں بیان کی ہیں وہ انہیں پوری پوری ملیں گی ۔

اہل سنت و جماعت میں ایک گروہ بڑی شدت سے مائل بارافضیت ہو چکا ہے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ و دیگر عظیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یاوہ گوئی کرتا ہے ۔ جبکہ اہل سنت میں ہی اب ایک گروہ مائل بناصبیت ہوتا پھر رہا ہے، وہ یزید کو تحفظ دینے کا خواہاں ہے اور سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں تحفظات کا شکار ہے ۔ اگر عظمت صحابہ کرام کے بارے میں قرآن و سنت کی کثیر نصوص موجود ہیں تو کیا عظمت اہل بیت کے بارے میں کوئی نصوص موجود نہیں ہیں ؟ جب دونوں کے لیے نصوص موجود ہیں تو پھر ادھر ادھر بھٹکنے کی بجائے ہر دو کی عظمت قائم رکھنے میں ہی ایمان کی سلامتی ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : آج کل کے روافض نے ایک پُر فریب طریقہ نکالا ہے ، اور  وہ یہ ہے کہ جو ان کے مکر و دجل کو بےنقاب کرتا ہے اسے یہ ناصبی کہہ دیتے  ہیں روافض نے یہ "ناصبی ناصبی" کی گردان اتنے زور شور سے کی کہ اب یہ حال  ہے کہ اگر کوئی سنی روافض کے مکر کا رد کرے تو اہل سنت عوام بھی اسے ناصبی  کہنے لگ جاتے ہیں ۔ بھولے بھالے اہل سنت یہ بھی نہیں جانتے کہ اسلافِ  اُمّت علیہم الرّحمہ کے نزدیک جو ناصبی تھے ان کا اب کوئی وجود نہیں ، نہ  ہی ان جیسا عقیدہ و عمل اس شخص کے جیسا ہے کہ جسے وہ ناصبی کہہ رہے ہیں ۔  اسلافِ اُمّت علیہم الرّحمہ نے ایک خاص دور کے خاص رجحان رکھنے والوں کو  ناصبی کہا ہے ۔ یہ چوتھی صدی ہجری میں شام کی ایک اقلیت تھی جو بنو امیہ  سے محبت اور روافض سے بغض رکھتی تھی ! جب روافض نے اس صدی میں پر پرزے  نکالے اور دس محرم کو سرعام سوگ و ماتم منانا شروع کیا تو ان شامی نواصب نے  اگلے سال سے دس محرم کو عید (خوشی) منانا شروع کر دی ، نئے کپڑے پہتے ،  خوشبو لگاتے ، رقص محفل و میلوں کا اہتمام کرتے ۔ یہ سب وہ اپنی دانست  میں روافض کے رد میں کرتے تھے ، بہرحال ۔ الحمد للہ اب اس باطل فرقے کا  نام و نشاں بھی باقی نہیں ۔ لیکن روافض پھر کیو ہر دوسرے بندے کو ناصبی  کہتے رہتے ہیں ؟

در اصل بات یہ ہے کہ یہی ان کا مذھب کہ ہر غیر رافضی ناصبی ہے ۔ جی ہاں  ! دراصل ناصبی فی زمانہ روافض کا بناوٹی اصطلاحی لفظ ہے کہ جو ان کے مذھب  پر نہ ہو یا حضرت علی رضی اللہ عنہ پر خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم اور  انبیاء کرام علیہم السّلام کو فضیلت دیتا ہو تو وہ ناصبی ہے ۔ یقینا یہ  بات بہت سوں کیلئے انجان ہوگی ، آپ سب کے لئے روافض شیعوں کے گھر کی  گواہیاں پیش خدمت ہے :

(1) فضیل کہتا ہے میں نے امام جعفر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا سنی مرد شیعہ عورت سے نکاح کرسکتا ہے ؟ فرمایا : نہیں ! خدا کی قسم شیعہ عورت ناصبی (سنی) کےلیے حلال نہیں ۔ (فروع ج،۵،ص۳۵۰)

(2) عبد اللہ کے والد نے امام جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہتا ہے کہ میں سن رہا  تھا کہ کسی نے پوچھا کہ یہودی اور نصرانی عورت سے نکاح کیسا ہے ؟ ۔ فرمایا : مجھے ناصبی (سنی) عورت کے مقابلہ میں یہود یاعیسائی عورت سے نکاح زیادہ محبوب ہے ۔ (فروع،ج:۵،ص:۳۵۱)

(3) کسی مسلمان (شیعہ) مرد کیلئے جائز نہیں کہ وہ ناصبی (سنی) سے نکاح کرے  اور شیعہ مرد اپنی اپنی بیٹی کسی سنی مرد کو دے ۔ (من لایحضرہ الفقیہ باب  النکاح ج،۳ص،۳۸۵)

(4) شیخ نے فرمایا کسی شیعہ مرد کا نکاح ناصبی (سنی) عورت سے جائز نہیں ۔ (تہذیب الاحکام ،ج:۷صفحہ:۳۰۲)

(5) فضیل کہتا ہے کہ میں نے امام باقر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا میں سنی سے شیعہ عورت  کا نکاح پڑھا سکتا ہوں ؟ فرمایا : بالکل نہیں کیونکہ ناصبی کافر ہے ۔  (تہذیب ،جلد :۷،صفحہ :۳۰۳)

(7) امام باقر رضی اللہ عنہ کے سامنے ناصبی (سنی) کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا : ان سے  نکاح نہ کرو ، نہ ان کا ذبیحہ کھاؤ ، نہ ان کے ساتھ رہائش اختیار کرو ۔ (تہذیب ، ج ،۷،ص:۳۰۳)

(8) ابن ادریس نے کتاب سرائر میں کتاب مسائل محمد عیسیٰ سے روایت کی ہے کہ  لوگوں نے حضرت علی نقی کی خدمت میں عریضہ لکھا کہ ہم ناصبی کے جاننے اور  پہچاننے کے اس سے زیادہ محتاج ہیں کہ حضرت امیرالمومنین پر ابوبکر و عمر  اور عثمان کو مقدم جانے اور ان تینوں کی امامت کا اعتقاد رکھے ۔ حضرت نے  جواب میں فرمایا : سو جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے وہ ناصبی ہے ۔ (حق الیقین  از ملا باقر مجلسی صفحہ نمبر ۶۸۸)

(9) ناصبی وہ ہے جو غیر امیرالمومنین کو اس جناب پر فضیلت دے اور وہ ہے جو  جبت و طاغوت صنمی قریش (حضرت ابوبکر و عمر  اور عثمان رضی اللہ عنہم) کو  امام و پیشوا جانے ۔ (اصلاح الرسوم صفحہ نمبر ط ۹۸)

(10) اصل نام فرقہ متخلفین کا ناصبی ہے دواعتبار پر ، اول یہ کہ ناصب عداوتِ اہل بیت ہیں ، دوسرے ناصب خلیفہ بہ ناحق اور فرقہ نواصب جن کالقب اہل سنت و  جماعت ہے ۔ (شمس الضحیٰ بجواب اظہار الہداصفحہ:۱۸۱)

محترم قارئینِ کرام : رافضی شیعوں کے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں مزید حوالے  موجود ہیں مگر میرے خیال میں یہ دس حوالے ہی کافی ہیں ، یہ ثابت کرنے کےلیے کہ رافضیوں کی نظر میں تمام اہل سنت و جماعت ہی نواصب ہیں ۔ کیونکہ  اہل سنت و جماعت کا اجماعی و متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر اور  عثمان جنابِ على رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں : علمائے اہلسنت کا اس امر پر  اتفاق ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی  اللہ تعالی عنہ سب سے افضل و برتر ہیں ، ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی  عنہ ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ  تعالی عنہ ، ان کے بعد عشرہ مبشرہ کے دیگر حضرات رضوان اللہ تعالی علیہم  اجمعین ، پھر اصحابِ بدر رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ، پھر باقی اصحابِ  اُحد رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ان کے بعد بیعتِ رضوان والے اصحاب  رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور ان کے بعد دیگر اصحابِ رسول صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے افضل ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ  نمبر 45 مطبوعہ نفیس  اکیڈمی لاہور امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)۔(تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ نمبر 45 مطبوعہ ممتاز اکیڈمی لاہور) ۔ لہٰذا آئندہ کسی کو ناصبی کہنے سے پہلے ضرور سوچ لینا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

Wednesday 8 September 2021

*جماعت اور فرقے میں فرق*

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

*یاد رہے چاروں ائمہ فقہ علیہم الرّحمہ کے عقائد میں کوئی فرق نہیں ہے سب کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا تھا۔*
*ہمیشہ سے امت میں ایک بہت بڑی جماعت کا عقیدہ ایک رہا ہے اور یہی عقیدہ درست ہے*
*اسی کو جماعت یا سواد اعظم کا نام دیا گیا ہے*
*جو جماعت سے نکل جاتا ہے اس کو فرقہ کہتے ہیں*
*جماعت ہمیشہ سے حق پر ہے اور حق پر رہے گی*
جتنے بھی فرقے ہوں گے حق پر نہیں ہوں گے کیونکہ یہ بنتے رہے ہیں اور ختم ہوتے رہے ہیں اسی طرح قیامت تک ہوتا رہے گا۔ *احادیث مبارکہ میں ہے ۔*

*حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :*

ان الله لا يجمع أمتی (أو قال امة محمد صلی الله عليه وآله وسلم) علی ضلالة، ويد الله مع الجماعة، ومن شذ شذ الی النار.

*ترجمہ :*

اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا
*( یا فرمایا : امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا )*
اور جماعت پر اللہ (تعالی کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا ۔

(ترمذی، السنن، 4 : 466، رقم : 2167، بيروت لبنان)
(حاکم، المستدرک، 1 : 201، رقم : 397، دار الکتب العلمية، بيروت، لبنان،)

*حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :*

لا يجمع الله هذه الامة علی الضلالة ابدا وقال : يدالله علی الجماعة فاتبعوا السواد الاعظم فانه من شذ شذ فی النار .

*ترجمہ :*

اللہ تعالی اس امت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا اور فرمایا :
اللہ تعالی کا دست قدرت جماعت پر ہوتا ہے
پس سب سے بڑی جماعت کی اتباع کرو اور جو اس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا جاتا ہے ۔

(حاکم، المستدرک، 1 : 199، رقم : 391،)
(ابن ابی عاصم، کتاب السنة، 1 : 39، رقم : 80، مکتبة العلوم والحکم، مدينة منوره، سعودی عرب)

*حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :*

ان أمتی لا تجتمع علی ضلالة فاذا رأيتم اختلافا فعليکم بالسواد الاعظم .

*ترجمہ :*

بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اختیار کرو"۔

(ابن ماجه، السنن، 4 : 367، رقم : 3950 دارالکتب العلمية، بيروت، لبنان)
(طبرانی، معجم الکبير، 12 : 447، رقم : 13623، مکتبة ابن تيمية قاهره)

*حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :*

ان بنی اسرائيل افترقت علی أحد وسبعين فرقة. وان أمتی ستفترق علی ثنتين وسبعين فرقة. کلها فی النار، الا واحدة. وهی الجماعة .

*ترجمہ :*

یقینا بنی اسرائیل اکتہر 71 فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت یقینا بہتر 72 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی
وہ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے *سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے ۔*
(ابن ماجه، السنن، 2 : 1322، رقم : 3991)
(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 145، رقم : 12501)

*لہذا چاروں ائمہ علیہم الرّحمہ کو Follow کرنے والے یا پھر کوئی علاقائی طور پر کسی نام سے پکارے جانے والے مسلمان اگر عقیدہ سواد اعظم اہلسنت و جماعت والا رکھتے ہوں تو وہ فرقہ نہیں ہیں بلکہ جماعت ہی ہیں کیونکہ سب کا عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والا عقیدہ ہے اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کے مطابق ہے*
ہاں جس کا عقیدہ جماعت سے مختلف ہوا وہ جہنم کے راستے پر ہے اور وہی فرقہ ہے۔
مکمل تحریر >>

Monday 6 September 2021

سات ستمبر یوم تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے خصوصی مفصل تحریر ایک تحقیقی وتاریخی مطالعہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے والی قرار داد…….. تاریخی حقائق کیا کہتے ہیں؟

سات ستمبر یوم تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے خصوصی مفصل تحریر
ایک تحقیقی وتاریخی مطالعہ
قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے والی قرار داد…….. تاریخی حقائق کیا کہتے ہیں؟
تحریر:۔محمداحمد ترازی
”ایک جھوٹ کو اتنی بار دوہراؤ کہ لوگ اُسے سچ سمجھنے لگیں۔“ہٹلر کے وزیراطلاعات جوزف گوئبلزکا یہ مقولہ آج ایک ایسے مستقل شیطانی حربے کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کا دائرہ کار اب سیاسی کارکنان، قائدین اور ارباب اقتدار تک ہی محدود نہیں رہا،بلکہ مخصوص مذہبی و دینی شخصیات،صاحب علم و دانش اور کچھ نام نہاد محققین بھی اِس کی لپیٹ میں آچکے ہیں،المیہ یہ ہے کہ اِس ”جھوٹ“ کی شرانگیزی میں اُس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب جھوٹ بولنے والا دینی عالم وفاضل،شیخ الحدیث اور منصب افتاء پر فائز ہو اور اچھی طرح جانتا ہو کہ ایک مومن دیگر اخلاقی کزوریوں اور خرابیوں میں مبتلا ہونے کے باوجودکبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا ہے،دین اسلام جھوٹ،غیبت اورمنافقانہ طرز عمل کی سختی سے ممانیت کرتا ہے،مگر ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سچائی کو چھپانے کیلئے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں،حقیقت کو جھٹلاتے ہیں،تاریخ کو مسخ کرتے ہیں اورلغو ومن گھڑنت تاریخ سازی کرکے اپنی کوتاہیوں،بداعمالیوں اور قومی و ملی جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں،اِس طبقہ فکر میں خاص طور پر وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے 1857ءکی جنگ ِآزادی سے لے کر 1947ءمیں قیام پاکستان تک، انگریز اور ہندؤ بنیئے کی خدمت و کاسہ لیسی کی،اسلامی تعلیمات کی نت نئی توضیح وتشریح پیش کی،اسلامی نظریہ قومیت(مسلم قومیت) کے مقابلے میں” اوطان“ کو قومیت کا ماخذ قرار دیا،متحدہ قومیت کا راگ الاپا،ہندؤ مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگائے،اُنہیں مساجدکے منبر وں پر بیٹھایا،اُن کی خوشنودی کیلئے مسلمانوں کو شعائر اسلامی سے روکنے کے فتوے دیئے ،علیٰ الاعلان کانگریس کا ساتھ دیا،نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کی بھر پور مخالفت کی اور نہ صرف مسلمانان برصغیر کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی راہ_ میں رکاوٹیں کھڑی کیں بلکہ پاکستان کو ”پلیدستان“ اور قائد اعظم محمد علی جناح کو”کافراعظم“ تک قرار دیا،کہنے والوں نے یہاں تک کہا کہ ”کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی ”پ“بناسکے۔“
اِن لوگوں کی بداعمالیاں کسی سے مخفی نہیں،تاریخ کے صفحات اِن کے سیاہ کارناموں سے بھرے پڑے ہیں،مگر جب 14اگست 1947ءکوقیام پاکستان نے اُن کے تمام مذموم عزائم اور ناپاک ارادوں کو خاک میں ملادیا، تواُن کے پاس اِس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا کہ اپنے اکابرین کے شرمناک کرداروعمل کو چھپایا جائے،اُن کے منفی کردار وعمل پر پردہ ڈالا جائے،چنانچہ انہوں نے منظم انداز میںتاریخ کو نئے سانچے میں ڈھالنے کے کام شروع کردیااور اپنی شرمندگی،خجالت اورقومی جرائم کو چھپانے کیلئے حقائق کو مسخ کرکے نئی تاریخ سازی کی ابتداءکی جوآج بھی باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت جاری ہے۔ حال یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی نصاب میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں،تعلیمی نصاب کی شکل بگاڑی دی گئی،نتیجہ ہماری نئی نسل اپنی ہی حقیقی تاریخ سے بے بہرہ ہے،آج ہمارا تعلیمی نظام اِس حد تک منقسم ہے کے آپ اگر منظور شدہ تاریخ سے روح گردانی کے مرتکب ہوئے تو اُس کی سزا امتحان میں صفر اور نتائج میں ناکامی کے مترادف ہے،المیہ یہ ہے کہ ہم نے سوال کو جرم قرار دے دیا ہے اور یہ فرض کر لیا ہے کے اِس ترکیب کے ذریعے شاید ہم سچ کو دبا پائیں،لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کے وہ عمارت جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو وہ کب تک قائم رہ سکتی ہے، کیا جھوٹ کبھی بھی سچ کا متبادل ہو سکتا ہے۔؟کیا حقیقت ہمیشہ جھوٹ کے پردوں میں دبی رہ سکتی ہے۔؟، ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر سچ کبھی افشاں ہو گا تو اُس کا نتیجہ کیا نکلے گااورکیا یہ درست نہیں کہ یہ لوگ اِس بات کی پرورش نہیں کررہے کہ ”جھوٹ سچ سے بہتر ہے۔“
آج یہ مخصوص مکتبہ فکر اپنے فائدے کیلئے تاریخ کے ساتھ جو علمی بددیانتی کر رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے،مگر تاریخ کو دھوکہ دینا اتنا آسان نہیں ہے، چاہے تاریخ فاتح ہی کیوں نہ لکھے، آج تاریخ میں تیمور فاتح اعظم ہو کر بھی کس لقب سے مقبول ہے سب جانتے ہیں،لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ” فاتح“ لکھتا ہے۔“مگر وہ اِس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ فاتح جو تاریخ لکھتا ہے وہ فتح ایک قوم یا ایک علاقے پر پاتا ہے ، تاریخ پر نہیں۔جبکہ سچ اپنا راستہ خود ڈھونڈ لیتا ہے،لیکن جھوٹ کو قائم رکھنے کیلئے مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں،بدقسمتی سے پاکستان میں پائے جانے والے کچھ لوگوں نے سچ کو جھوٹ کے کمبل میں لپیٹ رکھا ہے،مگرتاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حق و باطل کے معرکے میں آخری فتح سچ کا مقدر بنتی ہے،سچ کو شکست دینا،دبا دینا یا روک دینا کسی بھی قوت کیلئے ممکن نہیں ہو تا،سچ دھرتی کا سینہ چیر کر نمو دار ہو جاتا ہے اور اپنے ہونے کی خود ہی گواہی بن جاتا ہے۔
قارئین محترم !آج ہم کچھ ایسی تاریخی حقیقتیں آپ کے سامنے لارہے ہیں جس کے بارے میں اِس مخصوص مکتبہ فکر نے علمی بددیانتی سے کام لیتے ہوئے حقائق کو بدلنے کی کوشش کی اور اِس کا سہرا اپنے اکابرین کے سر باندھنا چاہا،مگر بالآخر سچ سامنے آہی گیا اور اپنے ہونے کی خود ہی گواہی بن گیا۔آئیے دیکھتے ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی تاریخ ساز قرار داد کے حوالے سے اصل حقائق کیا کہتے ہیں۔
سات ستمبر کا دن مسلمانان پاکستان کیلئے خصوصی طور پر اور عالم اسلام میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے عمومی طور پر ایک یاد گار اور تاریخی دن کی حیثیت رکھتا ہے،یہ دن جب ہر سال لوٹ کر آتا ہے تو ہمیں اُس تاریخ ساز فیصلے کی یاد دلاتا ہے جو پاکستان کی قومی اسمبلی نے عقیدہ ختم نبوت کی حقانیت کا بر ملا اور متفقہ اعلان کرتے ہوئے جاری کیا تھا اور اِس عظیم اور تاریخ ساز فیصلے کی رُو سے مرزا غلام احمدقادیانی اور اُس کو ماننے والی تمام ذرّیت (احمدی اور لاہوری گروپ) کو کافر قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ7ستمبر 1974ءکو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اِس متفقہ فیصلے کا اصل محرک علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی تیار کردہ وہ قرار داد تھی،جو آپ نے 30جون 1974ءکو قومی اسمبلی میں پیش کی،چونکہ قرار داد پیش ہونے سے لے کر 7ستمبر 1974ءکو قرار داد کی منظوری تک ہونے والے اسمبلی کے” اِن کیمرہ“ اجلاس تھے اوراُن کی نشرواشاعت پر پابندی تھی،اِس وجہ سے عرصہ دراز تک اصل حقیقت پس پردہ رہی اوراِس مخصوص مکتبہ فکر نے اِس صورتحال کا بھر پور فائدہ اٹھا کر حقائق کو مسخ کرنے کی پوری کوشش کی ،انہوں نے اِس حوالے سے کئی کتابیں شائع کیں،جن میں قرار داد کے اصل محرک اور قرار داد پر دستخط کرنے والوں کی ترتیب میں ردوبدل کرکے تاریخی حقیقت پر نہ صرف پردہ ڈالا،بلکہ اپنے لوگوں کو ہیرو بناکر بھی پیش کیا گیا،جبکہ اصل حقیقت اِس کے برخلاف تھی،چنانچہ ہم ذیل میں پاکستان قومی اسمبلی کے ریکارڈ کی روشنی میں آج اسی حقیقت سے پردہ اٹھا رہے ہیں ،مگر اِس سے قبل آپ کے سامنے اِس مخصوص مکتبہ فکر کی چند حوالہ جات جو کہ سراسر جھوٹ،فریب اور دروغ گوئی پر مبنی ہیں،کو پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
آئیے پہلا حوالہ دیکھتے ہیں،مولوی اللہ وسایا اپنی کتاب”تحریک ختم نبوت “جلد سوم شائع کردہ عالمی مجلس ختم نبوت حضوری باغ ملتان جون 1995ءکے صفحہ 467 پر ”اپوزیشن کی قرار داد“کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں”قومی اسمبلی میں آج صبح قادیانیوں کے مسئلہ سے متعلق حزب اختلاف کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی نے جو قرار داد پیش کی اور جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا،اُس پر اپوزیشن کے 23حاضر اور سرکاری پارٹی کے3 ارکان کے دستخط ہیں،اُن کے نام یہ ہیں،مولانا مفتی محمود،مولانا شاہ احمد نورانی،مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری،پروفیسر غفور احمد،مولانا سید محمد علی رضوی،مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک،چودھری ظہور الٰہی،سردار شیر باز مزاری،مولانا ظفر علی انصاری،مخدوم نورمحمد ہاشمی،صاحبزادہ احمد رضا قصوری،محمود اعظم فاروقی،مسٹر غلام فاروق،عبدالحمید جتوئی،حاجی مولا بخش سومرو،مولانا صدرالشہید،سردار شوکت حیات خان،مولانا نعمت اللہ، عمراخان، راؤ خورشید علی خان،میر علی احمد تالپور….ماضی میں حکومت کا ساتھ دینے والے اپوزیشن کے اِن ارکان نے بھی دستخط کئے،مسلم لیگ کے نواب ذاکر قریشی،کرم بخش اعوان،غلام حیدر ڈھانڈلہ،جمعیت علماءپاکستان کے غلام حیدر بھروانہ اور صاحبزاہ نذر سلطان۔اِس جماعت کے غلام ابراہیم برق نے ساتھیوں کے زور دینے کے باوجود قرار داد پر دستخط نہیں کیے۔“
قارئین محترم! مندرجہ بالا اقتباس آپ کے سامنے ہے ،جس میں کئی غلط بیانیاں موجود ہیں،پہلی غلط بیانی یہ ہے کہ اللہ وسایا صاحب مولانا مفتی محمود کا نام سب سے پہلے لکھ رہے ہیں،جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ سر فہرست مولانا شاہ احمد نورانی کا نام ہے ،اپنی بات کا ثبوت ہم آگے آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں،دوسری غلط بیانی یہ کہ اللہ وسایا صاحب قرار داد پر دستخط کرنے والے 23 اپوزیشن اور 3سرکاری ارکان سمیت کل 26اراکین کا ذکر کررہے ہیں،جبکہ پاکستان قومی اسمبلی ریکارڈ(جو کہ آگے پیش ہے) یہ بتاتا ہے کہ قرار داد پر 22ارکان نے دستخط کئے تھے،جناب رئیس عطا محمد خان مری بھی اُن 22اراکین پارلیمنٹ میں شامل تھے جنھوں نے سب سے پہلے اِس قرار داد پر دستخط کئے،مگر مولوی اللہ وسایاکی فہرست میں رئیس عطا محمد خان مری کا نام شامل نہیں ہے،جو اچنبے کی بات ہے،جبکہ 15ارکان اسمبلی جن کے بارے میں معتبر روایات موجود ہیں، کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے بعد میں قرار داد پر دستخط کئے تھے،اِس طرح قرار داد پر دستخط کرنے والوں کی کل تعداد 37 ہو جاتی ہے،26نہیں۔یہاں یہ واضح رہے کہ ”نواب ذاکر قریشی،کرم بخش اعوان،غلام حیدر ڈھانڈلہ، غلام حیدر بھروانہ اور صاحبزاہ نذر سلطان “کا تعلق اُن 15ارکان سے ہے جنھوں نے بعد میں قرار داد پر دستخط کئے تھے،اِس قتباس میں تیسری اور چوتھی غلط بیانی جو کہ حقیقتاً سراسر جھوٹ ،فریب اورمنافقت پر مبنی ہے ،وہ یہ کہ مولوی اللہ وسایا لکھتے ہیں کہ ”اِس جماعت( یعنی جمعیت علماءپاکستان) کے غلام ابراہیم برق نے ساتھیوں کے زور دینے کے باوجود قرار داد پر دستخط نہیں کیے۔ “
مولوی اللہ وسایا کی یہ بات خود اُن کی اپنی کتاب ”پارلیمنٹ میں قادیانی شکست “ (جو کہ پہلے” تاریخی قومی دستاویز 1974“ کے نام سے چھپ چکی ہے) سے ہی غلط ثابت ہوجاتی ہے، جس کے صفحہ30پر قرار داد پر دستخط کرنے والوں کی فہرست کی ترتیب 28 پر مولانا موصوف خود لکھتے ہیں کہ ”میاں محمد ابراہیم برق “نے بعد میں قرار داد پر دستخط کئے تھے،اِس مقام پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولوی اللہ وسایا صاحب ایک طرف میاں محمد ابراہیم برق کی آڑ لے کر جمعیت علماءاسلام کے مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم کے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرار داد پر دستخط نہ کرنے کے شرمناک عمل پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں،جنھوں نے اپنے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود آخر تک قرار داد پر دستخط نہیں کئے تھے،اُن کے اِس طرز عمل کا اظہار مولانا شاہ احمد نورانی اپنے انٹرویو میں کرتے ہوئے کہتے ہیں”ہزاروی اور اُن کے ساتھی مولانا عبدالحکیم نے تو 30جون والی قرار داد پر دستخط تک نہیں کیے۔“(ماہنامہ ضیائے حرم ،ختم نبوت نمبر دسمبر1974ء) اور ” جمعیت علماءاسلام کے مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم بار بار کہنے کے باوجود یہ سعادت حاصل نہ کر سکے۔“ (ماہنامہ ضیائے حرم ،ختم نبوت نمبر دسمبر1974ء) دوسری طرف وہ میاں محمد ابراہیم برق کو جمعیت علماءپاکستان کا ممبر اسمبلی قرار دے کر جمعیت علماءپاکستان پر الزام تراشی کے بھی مرتکب ہورہے ہیں،یہ درست ہے کہ غلام ابراہیم برق نے جمعیت علماءپاکستان کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا،مگر ممبر اسمبلی بننے کے بعد اُنہوں نے بھی غلام حیدر بھروانہ اور صاحبزاہ نذر سلطان کی طرح اپنی ہمددریاں حکومتی جماعت سے وابستہ کرلیں،جس کی وجہ سے جمعیت علماءپاکستان نے اُن کی بنیادی رکنیت معطل کردی تھی،اِس کے بعد بھی اللہ وسایا کا یہ لکھنا کہ اِس جماعت(جمعیت علماءپاکستان) کے غلام ابراہیم برق نے ساتھیوں کے زور دینے کے باوجود قرار داد پر دستخط نہیں کیے۔ “سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اور اُن کے دلی بغض اور مسلکی تعصب کا آئینہ دار ہے،جبکہ حقائق اور دیانت داری کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وہ اپنے ہم مسلک مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم کے بارے میں سچائی سے کام لیتے ہوئے یہ لکھتے کہ”جمعیت علماءاسلام کے مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم نے اِس قرار داد پر دستخط نہیں کئے ۔“ مگر افسوس اُنہوں نے اِس حقیقت کا اظہار کرنے کے بجائے ایک نئی کہانی گھڑی اور اصل حقائق کو چھپانے اور تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی۔
اِسی طرح مولوی اللہ وسایا اپنی کتاب ”پارلیمنٹ میں قادیانی شکست “ کے صفحہ 10پر مولانا شاہ احمد نورانی کی پیش کردہ قرارداد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”قائد اہل سنت مولانا شاہ احمد نورانی نے پرائیویٹ بل اسمبلی میں پیش کیا۔“مگر اسی کتاب کے صفحہ 29 پر”حزب اختلاف کی تاریخی قرار داد“ کی سرخی قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’30جون 1974ءکو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرارجو پیش کی تھی،اُس کا متن درج ذیل ہے۔“ایک ہی کتاب میں دو مختلف باتیں۔۔ ۔ ۔ ۔! پہلے مقام پر قائد اہلسنّت مولانا شاہ احمد نورانی قرار داد پیش کرنے والے ،جبکہ دوسرے مقام پر وہی قرار داد اپوزیشن کی قرار دادقرار پاتی ہے،عجب مخمصہ پیدا ہوتا ہے کہ قرارداد کس نے پیش کی،مولانا شاہ احمد نورانی نے یا اپوزیشن نے۔؟یا یہ کہ مولانا نورانی نے اپوزیشن کی جانب سے قرار داد پیش کی۔؟ہماراسوال یہ ہے کہ اگر قرار داد مولانا نورانی کی تیار کردہ نہیں تھی بلکہ حزب اختلاف کی جانب سے پیش کی گئی تھی تو پھر اِس قرار داد کو اپوزیشن کی جانب سے خان عبدالولی خان کو پیش کرنا چاہیے تھا،مولانا نورانی کو نہیں،کیونکہ ولی خان اُس وقت قائد حزب اختلاف تھے،مگر مولانا شاہ احمد نورانی کا اسمبلی میں اِس قرار داد کو پیش کرناظاہر کرتا ہے کہ مولانا نورانی ہی قرار داد کے اصل خالق اور محرک ہیں،آپ نے خود قرار داد تیار کی ،اُس پر ہم خیال اراکین اسمبلی کے دستخط لیے اور30جون 1974ءکو اِس ”تاریخ ساز قرار داد “کو اسمبلی اجلاس میں پیش کردیا۔
اِس مقام پر ہم مولانا شاہ احمد نورانی کا ”ماہنامہ ضیائے حرم لاہور‘’کو دیا گیاایک انٹرویو دیکھتے ہیں،جس میں مولانا نورانی فرماتے ہیں”اِس سال اپریل میں،میں ورلڈ اسلامک کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن گیا،اُن دنوں مکہ معظمہ میں رابطہ عالم اسلامی کا اجلاس ہورہا تھا،ورلڈ اسلامک مشن کانفرنس کی وجہ سے میں اُس وقت مکہ معظمہ نہیں جاسکا،لندن سے فارغ ہوکر میں مکہ معظمہ حاضر ہوا، حاضری کاایک بڑا مقصدیہ بھی تھا کہ وہاں سے رابطہ عالم اسلامی کی وہ قرار داد حاصل کروں جو انہوں نے قادیانیوںکے بارے میں متفقہ طور پر منظور کی تھی،26مئی کو یہ قرار داد لے کر پاکستان پہنچا تو قادیانیوں کا مسئلہ شروع ہوچکا تھا،ہم نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد کی روشنی میں قومی اسمبلی کیلئے اپنی قرار داد مرتب کی،جس میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا مشورہ شامل تھا،یہی قرار داد ہم نے 30جون کو اسمبلی میں پیش کی،جس پر37ارکان کے دستخط تھے۔“(ماہنامہ ضیائے حرم لاہور،ختم نبوت نمبر ،دسمبر 1974)مولانا نورانی کا 7دسمبر1974ءکو قرار داد کی منظوری کے تقریباً دو ماہ بعد ماہنامہ ضیائے حرم لاہور کو دیا گیا انٹرویو واضح کررہا ہے کہ یہ قرار داد صرف اور صرف مولانا شاہ احمد نورانی کی کوشش اور محنت شاقہ کا نتیجہ تھی،آپ ہی اِس قرار داد کے بنانے والے اور اصل محرک ہیں،آپ ہی نے قرار داد کی تیاری کے بعد اُس پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے ہم خیال اراکین سے مشورہ کیا،دستخط لیے اور 30جون 1974ءکو اسمبلی اجلاس میں پیش کردیا۔لیکن مولوی اللہ وسایا نے علمی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کریڈٹ مولانا نورانی کو دینا پسند نہیں کیا بلکہ اپوزیشن کی قرار داد کا لفظ استعمال کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قرار داد اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔
اِس مقام پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ”محرک“کے معنی تحریک دینے والے،اُبھارنے والے یا اُکسانے والے کے ہوتے ہیں،یعنی کسی کام کا تحرک پیدا کرنے یا تحریک دینے والے اور اُس کام کیلئے ابھارنے اور اُکسانے والے کو”محرک“کہتے ہیں،مشاہدہ شاہد ہے کہ کسی کام کیلئے تحرک پیدا کرنے والا،تحریک دینے والا اور ابھارنے یا اُکسانے والا ایک ہی فرد ہوتا ہے،باقی لوگ جو اُس کی حمائت کرتے ہیں ،تائید کرنے والے کہلاتے ہیں،اِس لحاظ سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرار داد کے اصل محرک مولانا شاہ احمد نورانی ہیں،باقی قرار داد پر دستخط کرکے مولانا نورانی کے موقف کی حمایت کرنے والے ”مویدین“ یعنی تائید کرنے والے ،مدد گار و معاون ہیں،چنانچہ اصولی طور پراِنہیں محرکین ِ قرار داد قرار دینا درست نہیں ہے ۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اِس مخصوص مکتبہ فکر کے تمام نام نہاد محقق اور اہل قلم اِس اہم اور بنیادی نکتہ کو دانستاً گول کر جاتے ہیں کہ قرار داد کااصل محرک کون ہے،آپ کواِس موضوع پر شائع شدہ کسی بھی کتاب میںاِس سوال کا جواب نہیں ملے گا،نہ ہی یہ لوگ قرار داد پیش کرنے والوں کے ناموں کی درست ترتیب سامنے لاتے ہیں،آپ کو تحریک ختم نبوت،جلد سوم“صفحہ 467سے لے کر ”پارلیمنٹ میں قادیانی شکست“صفحہ 30“،”قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف“مرتبہ مفتی محمد تقی عثمانی و مولانا سمیع الحق،ادارہ المعارف کراچی،صفحہ29اور تاریخی دستاویز“ مرتبہ مولانا عبدالقیوم مہاجر مدنی کے صفحہ538تک ایک ہی ترتیب ملے گی،سب نے اصل فہرست میں ردوبدل کرکے مولانا مفتی محمود کا نام سرفہرست یعنی پہلے نمبر اور مولانا شاہ احمد نورانی کا نام تیسرے نمبر پر لکھا ہے،سب کے سب 22ارکان کو قرار داد کا محرک قرار دیتے ہیں اور مولانا شاہ احمد نورانی جو کہ قرار داد کو تیار کرنے والے اور اصل محرک ہیں،کو ترتیب میں تیسرے نمبر پر رکھتے ہیں،جبکہ قومی اسمبلی ریکارڈ کے مطابق مولانا شاہ احمد نورانی کا نام پہلے نمبر اور مولانا مفتی محمود کا نام تیسرے نمبر پر ہے۔
اِس ریکارڈ کے مطابق 30جون 1974ءبروز اتوار،اسٹیٹ بینک بلڈنگ اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس وقفے کے بعد اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان کی زیر صدارت شروع ہوتا ہے، جس میں اسپیکر قومی اسمبلی مولانا نورانی کو قرار داد پیش کرنے کیلئے کہتے ہیں،مولانا شاہ احمد نورانی اسپیکر کی اجازت سے قرار داد اسمبلی میں پیش کرتے ہیں،جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا جاتا ہے،اُس قرار دادپر 22اسمبلی ممبران کے دستخط مندرجہ ذیل ترتیب سے ہیں۔
1۔مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی،
2۔مولوی مفتی محمود،
3۔مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری،
4۔پروفیسر غفور احمد،
5۔مولانا سید محمد علی رضوی،
6۔مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک،
7۔چوہدری ظہورالٰہی،
8۔سردار شیر باز مزاری،
9۔مولانا ظفر احمد انصاری،
10۔مولانا صدر الشہید،
11۔صاحبزادہ احمد رضا قصوری،
12۔جناب محمود اعظم فاروقی،
13۔مولانا نعمت اللہ صاحب،
14۔جناب عمرا خان،
15۔ جناب غلام فاروق،
16۔سردار مولا بخش سومرو،
17۔جناب رئیس عطا محمد مری،
18۔مخدوم نور محمد ہاشمی،
19۔سردار شوکت حیات خان،
20۔جناب علی احمد تالپور،
21۔جناب عبدالحمید جتوئی،
22۔راؤ خورشید خان
 کچھ لوگ اصل حقائق کو مسخ کرتے ہیں اور اپنے مکتبہ فکر کے افراد کو اِس قرار داد کا سرخیل بناکر پیش کرتے ہیں،ہماری بات کی تائید مولانا عبدالقیوم مہاجر مدنی کی مرتب کردہ کتاب”تاریخی دستاویز“ کے اِس اقتباس سے ہوتی ہے،جس میں بڑی خوبصورتی سے حقائق کو توڑمروڑ کرکے پیش کیا گیا ہے،مولانا عبدالقیوم مہاجر مدنی لکھتے ہیں
”اللہ ربّ العزت کا فضل واحسان کے بموجب1970ءمیں جمعیت علمائے اسلام کی مثالی جدوجہد سے مفکر اسلام مولانا مفتی محمود،شیراسلام مولانا غلام غوث ہزاروی،شیخ الحدیث مولانا عبدالحق،مولانا عبدالحکیم،مولانا صدر الشہیداور دیگر حضرات قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے،جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم برسراقتدار آئے،قادیانیوں نے 1970ءمیں پیپلز پارٹی کی دامے،درمے اور افرادی مدد کی،قادیانیوں نے پھر پَر پرزے نکالے،29مئی 1974 ءکو چناب نگر ربوہ ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباءپر قاتلانہ حملہ کیا،اِس کے نتیجے میں تحریک چلی،اسلامیان پاکستان ایک پلیٹ فارم مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان پر جمع ہوئے،جس کی قیادت دیوبند کے مردِ جلیل محدث ِکبیر مولانا سید محمد یوسف بنوری نے فرمائی اور قومی اسمبلی میں اُمت ِمسلمہ کی نمائندگی کا شرف حق تعالیٰ نے دیوبند کے عظیم سپوت مفکر ِاسلام مولانا مفتی محمود کوبخشا،یوں قادیانی قانونی طور پر اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور اُن کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔“
(تاریخی دستاویز،مرتبہ مولانا عبدالقیوم مہاجر مدنی،ص 501
اِس اقتباس میں مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولانا عبدالحکیم جنھوں نے قرار داد کی تائید کرنے سے بھی انکار کردیا تھا،کی شان میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیںاور کس ڈھٹائی سے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے مولانا مفتی محمود کو قومی اسمبلی میں اُمت ِمسلمہ کی نمائندگی کا اعزاز بخشا جارہا ہے،قارئین محترم !اِس مکتبہ فکر کیلئے یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے،اِن کی تو ساری تاریخ ہی اِس قسم کے جھوٹ اور فریب سے بھری پڑی ہے،اِس طرح کا طرز عمل آپ کو اِن کے یہاں جابجا نظرآئے گا،آج یہ لوگ تحریک ختم نبوت 1974 ءکی عظیم الشان کامیابی کا تمام تر کریڈٹ اور سہرا مولانا یوسف بنوری ،مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی کی مرتب کردہ قرار داد پر دستخط نہ کرنے والے مولانا غلام غوث ہزاروی،”جو 7ستمبر 1974ءکو قرارداد کی منظوری کے بعد اِس فیصلے کا کریڈٹ بھٹو حکومت کو دیتے ہیں“

(The National Assembly Of Pakistan Debates Saturday.7th September,1974 (Third Session of 1974)Vol.V Contains Nos.27 to39

اپنی اِس کوشش میں یہ نام نہاد محققین بڑی دور کی کوڑیاں لاتے ہیں،اخبارات کے پورے کے پورے صفحات سیاہ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تحریک ختم نبوت 1974 ءکی کامیابی اِن متذکرہ افراد کی کوششوں اور کاوشوں کی مرہون منت ہے،لیکن حقیقت اِس کے برعکس ہے،اِس میں کوئی شک نہیں مولانا یوسف بنوری،مولانا مفتی محمود،مولانا عبدالحق وغیرہ بھی تحریک ختم نبوت 1974 ءمیں شامل تھے اور انہوں نے دیگر مکتبہ فکر کے ساتھ مل کر اِس تحریک میں حصہ لیا،لیکن اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک ختم نبوت 1974 ءکو اُس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں اصل کردار علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے ہی ادا کیا،آپ نے جس فہم و فراست اور حسن تدبر سے اِس تحریک کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر عوامی سطح پرمنظم کیا اور پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی سمیت تمام اراکین قومی اسمبلی اور ملک کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرار داد کے حق میں قائل کیا،وہ صرف اور صرف آپ کا ہی کارنامہ ہے۔
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن صاحب اِس کارنامے کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”علماءاُس سے پہلے بھی اسمبلیوں میں موجود تھے۔مثلاً شیخ شبیر احمد عثمانی ،مفتی محمود اور غلام غوث ہزاروی وغیرہما،مگر یہ سعادت ماضی میں کسی کے حصے میں بھی نہیں آئی،تاریخ پاکستان میں پہلی بار ایک مرد حق ،پیکر صدق و صفا ،کوہ استقامت اور حاصل جرات و شجاعت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی اسمبلی میں پہنچے اور فتنہ انکار ختم نبوت یعنی قادیانیت کو کفر و ارتداد قرار دینے کی بابت قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ،تاریخ اسلام میں ریاست و مملکت کی سطح پر فتنہ_ انکار ختم نبوت کو کفروارتداد قرار دینے اور اُن کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کا اعزاز جانشین رسول خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا اور اُن کے بعد یہ اعزاز انہی کی اولاد امجاد میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو نصیب ہوا۔“(ماہنامہ کاروان قمر کراچی امام نورانی نمبر نومبر دسمبر 2004ءص 20)اصل حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ اعزاز مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی  کو حاصل ہے،قومی اسمبلی کا ریکارڈ شاہد ہے کہ تحریک ارتداد قادیانیت کے محرک صرف اور صرف مولانا شاہ احمد نورانی  ہیں،مولانا نورانی عصر حاضر میں عاشقان مصطفی  کے سردار اور تحریک ختم نبوت کے سرگرم مجاہد و قافلہ سالار ہیں اوررب کریم نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے آپ کو منتخب فرمایا ۔قارئین محترم! یہ وہ تاریخی سچائی ہے ،جسے مخالفین نے خضاب لگاکر جھوٹ کے پردوں میں چھپانے کی پوری کوشش کی اوراِس کاسہرا اپنے لوگوں کے سر باندھا ،چنانچہ اِس تناظر آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مخالفین کی جانب سے ڈالے گئے جھوٹ اور مکروفریب کے دبیز پردوں ہٹا کرتاریخی حقیقت کو سامنے لایا جائے اور نئی نسل کے اذہان میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کو دور کرکے انہیں بتایا جائے کہ سچ وہ نہیں جو بیان کیا گیا بلکہ وہ ہے جو چھپایاجارہا ہے
مکمل تحریر >>

ایمانِ ابو طالب کتبِ شعیہ کی روشنی میں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایمانِ ابو طالب کتبِ شعیہ کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : تعجب کی بات ہے کہ ایمان ابو طالب پر شیعہ کتب میں ایک ضعیف ترین روایت بھی موجود نہیں ہے ۔ تاریخ اسلام ، اہلسنت کتب حتی کہ شیعہ کتب کی کسی بھی روایت میں وہ اہم واقعہ بیان ہی نہیں ہوا کہ : جنابِ ابوطالب نے فلاں موقعہ پر توحید و رسالت کی گواہی دی ۔ جنابِ ابوطالب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ جنابِ ابوطالب نے اسلامی شریعت پر عمل کیا ۔ جنابِ ابوطالب نے اپنے ایمان کا اعلان کیا ۔

جن آیات قرآنی سے شیعہ استدلال کرتے ہیں ان سے جنابِ ابو طالب کا ایمان ثابت ہی نہیں ہوتا اور کچھ احکامات تو جنابِ ابوطالب کی وفات کے بعد نازل ہوئے ۔

شیعوں کے ہاں کھینچ کھانچ کے اقوال معصومین پر ایمان ابوطالب تسلیم کیا جاتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیعہ کی اصول اربعہ کی اوّل نمبر کتاب اصول کافی میں ایک صحیح السند قول حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا موجود ہے جو ان تمام اقوال معصومین کی نفی بیان کرتا ہے ، جو شیعہ حضرت ابوطالب کے ایمان کی تائید میں پیش کرتے ہیں :

شیخ الکینی نے اپنی کتاب الکافی میں ایک روایت نقل کی ہے جو اس طرح ہے : علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن ابي عبدالله (عليه السلام) قال: إن مثل أبي طالب مثل أصحاب الكهف أسروا الايمان وأظهروا الشرك فآتاهم الله أجرهم مرتين ۔
ترجمہ : حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ابو طالب علیہ السلام کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے ، انہوں نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاھر کیا ، پس خدا نے انکو دو اجر دئے ۔ (الاصول الكافي – شیخ یعقوب الکینی ( اردو ترجمہ ) / جلد٣ / کتاب الحجت / باب :مولد النبي (صلى الله عليه وآله) ووفاته/ صفحہ: ٢٢ / رقم ٢٨ / طبع الھند،چشتی)

تحقیق السند : علي بن إبراهيم : یہ بالاتفاق ثقہ ہے ۔ شیخ نجاشی نے فرمایا : ” علي بن إبراهيم بن هاشم أبو الحسن القمي، ثقة ۔

ابراهيم بن هاشم : سيد الخوئی انکے بارے میں کہتے ہے : إبراهيم بن هاشم أبو إسحاق القمّى، أصله كوفي انتقل إلى قم، قال أبو عمرو الكشّى: تلميذ يونس بن عبدالرحمان، من أصحاب الرضا عليه السلام، وهذا قول الكشّى، وفيه نظر، …۔۔ تنظّر النجاشي في محلّه، بل لايبعد دعوى الجزم بعدم صحّة ماذكره الكشّي والشيخ۔ والوجه في ذلك إن إبراهيم بن هاشم مع كثرة رواياته،أقول: لاينبغي الشكّ في وثاقة إبراهيم بن هاشم، ويدلّ على ذلك عدّة أمور: : أنّ السيّد ابن طاووس إدّعى الاتفاق على وثاقته، حيث قال عند ذكره رواية عن أمالي الصدوق في سندها إبراهيم بن هاشم: (ورواة الحديث ثقات بالاتفاق)

ابن أبي عمیر : یہ بھی ثقہ الامامی ہے ۔

هشام بن سالم : یہ بھی ثقہ الامامی ہی ہے ۔

لہذا یہ روایت بلکل صحیح ہے ، اس میں کسی باشعور اہل علم شخص کو شک نہیں ہونا چاھیے ۔ اس روایت کو ان علماء نے بھی صحیح یا حسن قرار دیا ہے : الشيخ هادي النجفي نے اپنی کتاب موسوعته ج٥ ص٣٢١ میں اس کے بارے میں فرمایا : الرواية صحيحة الإسناد ۔ (اس روایت کی سند صحیح ہے )

السيد محمد علي الابطحي نے تهذيب المقال ج٥- ص٤٥٢ میں کہا : صحيح ۔

العلامة المجلسي نے الکافی کی شرح مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، جلد 5، ص: 253 میں اس روایت کے بارے میں فرمایا : الحديث حسن ۔ ( یہ حسن حدیث ہے )

کم و بیش یہی روایت کئی اور شیعہ کتب میں بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر ۔ (البرهان في تفسير القرآن الجزء الثاني تأليف السيد هاشم بن سليمان البحراني)(وسائل الشیعہ جلد 16 صفحہ نمبر 225)

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ روایت اہل تشیع کے اصولوں کے مطابق ایک صحیح السند روایت ہے ۔ اس روایت میں دو نکات غور طلب ہیں ۔ جنابِ ابوطالب کی مثال اصحاب کہف جیسی ہے۔
جنابِ ابوطالب نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاہر کیا ۔

قرآن کریم میں اصحاب کہف کا قصہ سورت الکھف میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے : نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّہُمۡ فِتۡیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمۡ وَ زِدۡنٰہُمۡ ہُدًی (13) وَّ رَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَنۡ نَّدۡعُوَا۠ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلٰـہًا لَّقَدۡ قُلۡنَاۤ اِذًا شَطَطًا (14) ہٰۤؤُلَآءِ قَوۡمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ لَوۡ لَا یَاۡتُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِسُلۡطٰنٍۭ بَیِّنٍ ؕ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ؕ(15) ۔
ترجمہ : ہم اُن کے حالات تم سے صحیح صحیح بیان کرتے ہیں۔ وہ کئی جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی تھی ۔ (13) ۔ اور ان کے دلوں کو مربوط (یعنی مضبوط) کردیا۔ جب وہ (اُٹھ) کھڑے ہوئے تو کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اس کے سوا کسی کو معبود (سمجھ کر) نہ پکاریں گے (اگر ایسا کیا) تو اس وقت ہم نے بعید از عقل بات کہی ۔ (14) ۔ ان ہماری قوم کے لوگوں نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ۔ بھلا یہ ان (کے خدا ہونے) پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے ۔ تو اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے ۔

ان آیات کے مطابق اصحاب کہف نے اپنے ایمان کو ہرگز نہیں چھپایا تھا بلکہ اللہ عزوجل پر ایمان کا برملا اظہار کرتے ہوئے بتوں سے بیزاری ظاہر کی تھی ۔ اسی لیے تو بادشاہ دقیانوس کے خوف سے غار میں چھپ گئے تھے ۔ اگر اصحاب کھف اپنا ایمان ظاہر نہ کرتے تو پھر انہیں غار میں چھپنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ؟

جنابِ ابوطالب نے بھی اگر اصحاب کہف کی طرح ایمان کا اظہار کیا ہوتا اور بتوں سے بیزاری ظاہر کی ہوتی تو اس روایت میں ان کے ایمان کو ظاہر کرنا ضرور بیان کیا گیا ہوتا ، لیکن اس کے بجائے روایت میں واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ جنابِ ابوطالب نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاہر کیا ۔

یعنی روایت کے دونوں حصے نہ صرف ایک دوسرے سے متعارض ہیں بلکہ شیعہ کے عقیدے ایمان ابو طالب کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیتے ہیں ۔ اہلسنت کے نزدیک یہ جھوٹی روایت ہے اور اس سے شان حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بھی بری طرح مجروح ہوتی ہے۔کیا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو اتنا علم بھی نہ تھا کہ اصحاب کہف نے اپنا ایمان ظاہر کیا تھا اور اسی وجہ سے غار میں چھپ گئے تھے ، اور یہ مثال جنابِ ابو طالب کی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتی ۔

روایت کے دوسرے حصے کے مطابق اہل تشیع کے ہاں جنابِ ابو طالب پوری زندگی شرک کرتے رہے یعنی بت پرستی کرتے رہے جبکہ اہلسنت کے ہاں جنابِ ابو طالب کو مشرک نہیں بیان کیا گیا بلکہ ان کا آخری گھڑی تک دین ابراہیمی پر قائم رہنا بیان ہوا ہے ۔

ایک طرف شیعہ اہلسنت پر جنابِ ابو طالب کی توہین کا الزام لگاتے ہیں تو دوسری طرف خود ان کی اوّل درجہ کی کتاب میں امام کے نام سے ایسی روایت موجود ہے جو جنابِ ابوطالب کو پوری زندگی شرک اور بت پرستی کرتے رہنا بیان کر رہی ہے ۔ حد تو یہ بھی ہے کہ شیعہ جیّد علماء امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس جھوٹی روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور اس کی توثیق کر کے نہ صرف حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بلکہ حضرت ابو طالب کی بھی توہین کرتے آ رہے ہیں ۔

آخری اہم بات : اہل تشیع کی صحیح السند روایت سے اہل سنت کا مؤقف ثابت ہوتا ہے کہ
جنابِ ابو طالب کا اسلام قبول کرنا ، اعلان کرنا ، اسلامی شریعت پر عمل کرنا وغیرہ کسی صحیح السند روایت سے ثابت نہیں ہے ۔ اس روایت میں اصحاب کہف کی مثال غلط دی گئی ہے ، کیونکہ قرآن سے متعارض ہے ۔

اب اہل تشیع کے پاس دو راستے ہیں ۔ اصحاب کہف کی طرح جنابِ ابوطالب کا ایمان قبول کرنا اور بتوں سے بیزاری ظاہر کرنا ثابت کریں ۔
یا روایت کے دوسرے حصہ کو تسلیم کریں کہ جنابِ ابوطالب نے پوری زندگی اسلام قبول نہیں کیا تھا جوکہ اہلسنت کا مؤقف ہے ۔

شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی متوفی ٠٦٤ ھ القصص : ٦٥ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہما) ‘ مجاہد ‘ حسن اور قتادہ وغیر ہم سے مروی ہے کہ یہ آیت ( القصص : ٦٥) ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ اور ابو عبداللہ اور ابو جعفر سے مروی ہے کہ ابو طالب مسلمان تھے اور اسی پر امامیہ کا اجماع ہے اور ان کا اس میں اختلاف نہیں ہے اور ان کے اس پر دلائل قاطعہ ہیں ‘ یہاں ان کو ذکر کا موقی نہیں ہے ۔ (البتیان ج ٨ ص ٤٦١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)

شیعہ عالم ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی (من علماء القرن السادس) الانعم : ٦٢ کی تفسیر ہیں لکھتے ہیں : ابو طالب کے ایمان پر اہل بیت کا اجماع ہے اور ان کا اجماع حجت ہے کیونکہ وہ اس ثقلین میں سے ایک ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے ‘ آپ نے فرمایا اگر تم ان کے ساتھ تمسک کرو گے تو گمراہ نہیں ہو گے ‘ اور اس پر یہ بھی دلیل ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فتح مکہ کے دن اپنے والد ابو قحافہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر گئے ‘ وہ اسلام لے آئے ‘ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اس بوڑھے کو کیوں لے کر آئے ‘ وہ نابینا تھے ‘ میں خود ان کے پاس آجاتا ‘ حضرت ابوبکر نے کہا میرا ارادہ تھا اللہ تعالیٰ ان کو اجر عطا فرمائے گا ‘ اور اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے زیادہ خوشی ابوطالب کے اسلام لانے سے ہوئی تھی جس کے اسلام لانے سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئی تھیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے سچ کہا۔ ابوطالب کے وہ اقوال اور اشعار جن سے ان کے اسلام کا پتا چلتا ہے بہت زیادہ ہیں ‘ بعض اشعار یہ ہیں :
الم تعلموا اناوجد نا محمدا نبیا کموسی خط فی اول الکتب ۔
کیا تم کو معلوم نہیں کہ ہم نے محمد کو موسیٰ کی طرح نبی پایا ان کا ذکر پہلی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ۔
الاان احمد قد جاء ھم بحق ولم یاتھم بالکذب ۔
سنو بیشک احمد ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں اور وہ جھوٹ نہیں لائے ۔ (مجمع البیان جز ٤ ص ٥٤٤۔ ٤٤٤‘ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت)

شیعہ عالم محمد حسین الطباطبائی القصص : ٦٥ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ابوطالب کے ایمان کے متعلق ائمہ اہل بیت کی روایات مشہور ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق اور آپ کے دین کے برحق ہونے کے متعلق ان کے اشعار بہت زیادہ ہیں ‘ اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کمسن تھے توا نہوں نے ہی آپ کو پناہ دی تھی ‘ اور بعثت کے بعد ہجرت سے پہلے انہوں نے ہی آپ کی حفاظت کی تھی اور مہاجرین اور انصار نے ہجرت کے بعد دس سال تک جو آپ کی نصرت اور حفاظت کی ہے اس کے برابر ہجرت سے پہلے دس سال تک ابوطالب نے آپ کی حفاظت کی ۔ (المیزان ج ٦١ ص ٧٥‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ا ایران ‘ ٢٦٣١ ھ،چشتی)

شیخ طبرسی نے جو روایت پیش کی ہے اس کا کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا ‘ اور نہ ان اشعار کی کوئی سند ہے ۔

ایمانِ ابو طالب کے متعلق ایک حدیث کی تحقیق

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : فلما رأی حرص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیه قال :یا ابن أخي! والله، لو لا مخافة السبة علیك وعلی بني أبیک من بعدي، وأن تظن قریش أني إنما قلتھا جزعا من الموت لقلتھا، لا أقولھا إلا لإسرک بھا ، قال: فلما تقارب من أبي طالب الموت قال: نظر العباس إلیه یحرک شفتیه، قال: فأصغی إلیه بأذنه، قال: فقال: یا ابن أخي ! واللہ، لقد قال أخي الکلمة التي أمرته أن یقولھا، قال: فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : لم أسمع ۔
ترجمہ : جب ابو طالب نے اپنے (ایمان کے) بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرص دیکھی تو کہا : اے بھتیجے ! اللہ کی قسم ، اگر مجھے اپنے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائیوں پر طعن و تشنیع کا خطرہ نہ ہوتا ، نیز قریش یہ نہ سمجھتے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ پڑھا ہے تو میں کلمہ پڑھ لیتا ۔ میں صرف آپ کو خوش کرنے کیلئے ایسا کروں گا ۔ پھر جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو عباس نے ان کو ہونٹ ہلاتے ہوئے دیکھا ۔ انہوں نے اپنا کان لگایا اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ) کہا : اےبھتیجے ! یقیناً میرے بھائی نے وہ بات کہہ دی ہے جس کے کہنے کا آپ نے اُنہیں حکم دیا تھا ۔ (السیرۃ لابن ھشام: ۴۱۷/۱، ۴۱۸،چشتی)(المغازي لیونس بن بکیر: ص ۲۳۸)(دلائل النبوۃ للبیھقي: ۳۴۶/۲)

یہ روایت ضعیف ہے

امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس حدیث کی سند کا ایک راوی نا معلوم ہے ۔ اس کے برعکس صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوئے ۔ (تاریخ ابن عساکر: ۳۳/۶۶)

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ھٰذا إسنادمنقطع ۔۔۔۔"الخ ، یہ سند منقطع ہے ۔۔۔۔۔ (تاریخ الاسلام: ۱۵۱/۲)

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : إن في السند مبھما لا یعرف حاله ، وھو قول عن بعض أھله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد........ و الخبر عندي ما صح لضعف في سندہ" ۔
ترجمہ : اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے ، جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے ، نیز یہ اُس کے بعض اہل کی بات ہے جو کہ نام اور حالات دونوں میں ابہام ہے ۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے ۔۔۔ میرے نزدیک یہ روایت سند کے ضعیف ہونے کی بنا پر صحیح نہیں ۔ (البدایة و النھایة لابن کثیر: ۱۲۳/۳ ۔ ۱۲۵)

امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بسند فیه لم یسم ...... و ھذا الحدیث لو کان طریقه صحیحا لعارضه ھذا الحدیث الذی ھو أصح منه فضلا عن أنه لا یصح ۔
ترجمہ : یہ روایت ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں ایک راوی کا نام ہی بیان نہیں کیا گیا .... اس حدیث کی سند اگر صحیح بھی ہو تو یہ اپنے سے زیادہ صحیح حدیث کے معارض ہے ۔ اس کا صحیح نہ ہونا مستزاد ہے ۔ (فتح الباری لابن حجر: ۱۸۴/۷)

امام بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : في سند ھذا الحدیث مبھم لا یعرف حاله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد ۔
ترجمہ : اس حدیث کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔ نام اور حالات دونوں مجہول ہیں۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے ۔ (شرح ابي داؤد للعیني الحنفي: ۱۷۲/۶)

محترم قارئینِ کرام : ان تمام دلائل کے باوجود بعض ناہنجاروں کی طرف سے صرف اکابرین اہلسنت میں سے بعض کو تنقید کا نشانہ بنانا ، سوقیانہ جملے کسنا اُن کے بغض باطن کی دلیل نہیں تو کیا ہے ؟ کبھی ان لوگوں نے سوچا کہ اِن کی نفرت و غلاظت کی زد میں کون کون آرہا ہے ؟ اللہ تعالیٰ جملہ اہلسنّت کو اِن فتنہ پروروں اور فتنوں سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

فقہ جعفری کے اندر خواتین زمینی جائیداد کی وارث نہیں بن سکتیں ))

((فقہ جعفری کے اندر خواتین زمینی جائیداد کی وارث نہیں بن سکتیں ))

 کلینی صاحب نے (الکافی) کے اندر باقاعدہ اس حوالے سے عنوان قائم کیا ہے(( النساء لايرثن  من العقار شيئا)) یعنی عورتیں زمینی جائیداد کی وارث نہیں بن سکتیں پھر بطور دلیل کئی روایات پیش کی ہیں ہم فقط دو کا تذکرہ کرتے ہیں۔ 
عن ابي جعفر عليه السلام قال : النساء لايرثن من الارض ولا من العقار شيئا
 الكافي ج7ص127.
ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا : عورتیں زمین اور جائیداد کی وارث نہیں بن سکتیں۔
عن ابي جعفر عليه السلام قال: لا ترث النساء من عقار الارض شيئا .
الکافی ج7 ص128.
عورتیں زمینی جائیداد  میں سے ذرہ کی بھی وارث نہیں بن سکتیں۔

کاش شیعہ حضرات اپنی مذہب کا مطالعہ کرتے  تو پھر بھی مسئلہ فدک میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذات پر اعتراض نہ کرتے۔
کتبہ/ محب اھل بیت عبدالرزاق دل الرحمانی۔
مکمل تحریر >>

درسِ قرآن موضوع آیت : وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ سورہ نمل آیت 16 ۔ حصّہ دوم ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

درسِ قرآن موضوع آیت : وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ سورہ نمل آیت 16 ۔ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : امید ہے اس موضوع کا حصّہ اوّل آپ پڑھ چکے ہونگے آیئے اب اس موضوع کا دوسرا حصّہ پڑھتے ہیں :

وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍؕ - اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ۔ (سورہ نمل آیت نمبر 16)
ترجمہ : اور سلیمان داؤد کا جانشین ہوا اور کہا اے لوگو ہمیں  پرندوں  کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں  سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہر فضل ہے ۔

وراثت کا لغوی اور اصطلاحی معنی 

امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی متوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں : الایراث : الا بقاء للشئی کسی چیز کو باقی رکھنا ‘ یورث ای یبقی میراثا کسی چیز کو بہ طور میراث باقی رکھنا ‘ کہا جاتا ہے اور ثہ العشق ھما عشقنی اس کو غم کا وارث بنادیا ‘ اور ثتہ الحمی ضعفا بخار نے اس کو کمزوری کا وارث بنادیا۔ (کتاب العین ج ٣ ص ٢٤٩١‘ مطبوعہ ایران ‘ ٤١٤١ ھ)

علامہ جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور افریقی مصری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١١٧ ھ لکھتے ہیں : الوارث اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اس کا معنی ہے باقی اور دائم ‘ وانت خیر الوارثین (الانبیا : ٩٨‘ یعنی تمام مخلوق کے فنا ہونے کے بعد تو باقی رہنے والا ہے ‘ کہا جاتا ہے ورثت فلا نا مالا میں فلاں کے مال کا وارث ہوا ‘ قرآن مجید میں ہے : فھب لی من لدنک ولیا۔ یرثنی و یرث من ال یعقوب۔ (مریم : ٦۔ ٥) تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میرا (بھی) وارث ہو اور یعقوب کی آل کا (بھی) وارث ہو ۔

ابن سیدہ نے یہ کہا کہ وہ ان کا اور آل یعقوب کی نبوت کا وارث ہو اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ حضرت زکریا کو یہ خوف تھا کہ انکے رشتہ دار انکے مال کے وارث ہوجائیں گے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو کچھ بھی چھوڑا وہ صدقہ ہے ‘ اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وورث سلیمان داود (النمل : ٦١) اور سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ الزجاج نے کہا وہ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث ہوئے ‘ روایت ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے ‘ ان میں سے صرف حضرت سلیمان ان کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے اور حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعاہ ہے :

اللھم متعنی بسمعی و بصری واجعلھا الوارث منی : اے اللہ کانوں اور میری آنکھوں سے مجھ کو نفع دے اور ان کو میرا وارث بنا دے ۔ (المستدرک ج ١ ص ٣٢٥‘ مجمع الزوائد ج ٠١ ص ٨٧١)

ابن شمیل نے کہا اس کا معنی ہے میرے کانوں اور میری آنکھوں کو تاحیات صحیح اور سلامت رکھ ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بڑھاپے میں قویٰ نفسانیہ مضمحل ہوجاتے ہیں تو میری سماعت اور بصارت کو باقی رکھنا پس سماعت اور بصارت تمام قوتوں کے بعد باقی رہیں اور ان کی وارث ہوجائیں ۔ (لسان العرب ج ٢ ص ١٠٢۔ ٩٩١‘ مطبوعہ نشر ادب احلوذۃ ایران : ٥٠٤١ ھ،چشتی)

علامہ الحسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : وراثت کی تعریف یہ ہے : انتقال قنیۃ الیک عن غیرک من غیر عقد ولا مایجری العقد۔ غیر کی کمائی کا تمہاری طرف بغیر کسی عقد یا قائم مقام عقد کے تمہاری طرف منتقل ہونا۔

اسی وجہ سے میت کی جو کمائی وارثوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اس کو میراث کہتے ہیں ۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اثبتوا علی مشاعر کم فانکم علی ارث ابیکم۔ تم اپنے مشاعر (میدان عرفات) پر ثابت قدم رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم کے وارث ہو ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٩١٩١‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١٠٣‘ المستدرک ج ١ ص ٦٤ )

قرآن مجید میں ہے ویرث من ال یعقوب (مریم : ٦) یعنی وہ نبوت ‘ علم اور فضلیت کا وارث ہوگا نہ کہ مال کا ‘ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے نزدیک مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے حتیٰ کہ وہ اس میں رغبت کریں ‘ وہ بہت کم مال جمع کرتے ہیں اور اس کے مالک ہوتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٠٤ ( اور آپ کا ارشاد ہے : علماء انبیاء کے وارث ہیں (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٦٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٦٩١) اور اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی وارث فرمایا ہے کیونکہ تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہیں وللہ میراث السموات والارض (آل عمران : ٠٨١) ” اللہ ہی کے لیے تمام آسمانوں اور زمینوں کی میراث ہے “ اور کوئی شخص جب کسی سے علم کا استفادہ کرے تو کہا جاتا ہے میں اس سے وارث ہوا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ورثوالکتب (الاعراف : ٩٦١) ” بعد کے لوگوں نے اس کتاب کو حاصل کیا ورثو الکتب من بعدھم (الشوری : ٤١) ” بیشک جو لوگ انکے عبد کتاب کے وارث ہوئے “ ثم اوثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا (فاطر : ٢٣) ” پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا “ کیونکہ وراثت حقیقیہ یہ ہے کہ انسان کو کوئی ایسی چیز حاصل ہو جس میں اس کے ذمہ نہ کوئی معاوضہ ہو نہ اس میں اس کا کوئی محاسبہ ہو اور جو اس طریقہ سے اس دنیا کو حاصل کرے گا اس سے نہ کوئی حساب لیا جائے گا نہ اس کو کوئی سزا دی جائے گی بلکہ اس کے لیے اس میں معافی اور در گزر ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے : قیامت کے دن اس شخص پر حساب آسان ہوگا جو دنیا میں اپنا حساب کرے گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٩٥٤٢)،(المفردات ج ٢ ص ٣٧٦۔ ٢٧٦‘ ملخصا ‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ٨١٤١ ھ،چشتی)

خلاصہ یہ ہے کہ وراثت کا لغوی معنی ہے کسی کا کسی کے بعد باقی رہنا ‘ اور اصطلاحی معنی ہے کسی چیز کا ایک شخص سے دوسرے شخص طرف منتقل ہونا ‘ خواہ مال کا انتقال ہو یا ملک کا یا علم اور نبوت کا انتقال ہو یا فضائل اور محاسن کا ‘ اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں ان تمام معانی کے اعتبار سے وراثت کا استعمال کیا گیا ہے ۔

اہل سنت کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کسی کو مال وارث نہیں بناتے کیونکہ انبیاء کے نزدیک مال کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے اور نہ وہ مال کو جمع کرتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام علم کا وارث کرتے ہیں اور ان کی جو اولاد ان کی وارث ہوتی ہے ‘ وہ علم اور نبوت میں ان کی وارث ہوتی ہے ‘ اور اہل تشیع کے نزدیک چونکہ حضرت سید تنا فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چھوڑے ہوئے باغ فدک کی وارثہ تھیں اس لیے وہ کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام مال جمع کرتے ہیں اور مال کا وارث بناتے ہیں ‘ اس لیے سنی مفسرین کے نزدیک وورث سلیمن داود (النمل : 61) کا معنی ہے حضرت سلیمان علیہ السّلام حضرت داؤد علیہ السلام کے مال کے وارث ہوئے ۔ سو ہم اس آیت کی تفسیر پہلے سنی مفسرین سے نقل کریں گے پھر شیعہ مفسرین سے نقل کریں گے پھر اس مسئلہ میں سنی ائمہ کی اور شیعہ ائمہ کی روایات احادیث پیش کریں گے پھر اخیر میں شیعہ مفسرین کے دلائل کے جوابات کا ذکر کریں گے ۔ فنقول وباللہ التوفیق ۔

سنی مفسرین کے نزدیک حضرت سلیمان ‘ حضرت داؤد کی نبوت اور علم کے وارث تھے نہ کہ مال کے

شیعہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال ہوتی ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ اگر مال وراثت ہوتا تو  حضرت داؤد علیہ السّلام کے انیس بیٹے تھے سب وارث بنتے۔(تفسیر مظہری  مترجم اردوجلد ہفتم صفحہ نمبر 153 ،154)

حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کی کس چیز کے وارث ہوئے ‘ اس کے متعلق علامہ علی بن محمد ماوردی متوفی 054 ھ لکھتے ہیں :

(1) قتادہ نے کہا حضرت سلیمان ‘ حضرت دائود کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے ‘ کلبی نے کہا حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے ‘ اور صرف حضرت سلیمان کو ان کی وارثت کے ساتھ خاص کیا گیا کیونکہ یہ نبوت اور ملک کی وراثت تھی اگر یہ مال کی وراثت ہوتی تو اس وراثت میں ان کی تمام اولاد برابر کی شریک ہوتی ۔

(2) ربیع نے کہا حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے بھی جنات اور ہوائوں کو مسخر کردیا گیا تھا ۔

(3) ضحاک نے کہا حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی زندگی میں حضرت سلیمان کو بنی اسرائیل پر خلیفہ بنادیا تھا ‘ اور اس وراثت سے مراد ان کی یہی ولایت ہے اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ علماء دین میں انبیاء کے قائم مقام ہیں ۔

یہاں آیت میں  نبوت ، علم اور ملک میں  جانشینی مراد ہے مال کی وراثت مراد نہیں ۔ چنانچہ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نبوت، علم اور ان کے ملک کے وارث بنے۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک عطا ہوا اور مزید انہیں  ہواؤں  اور جِنّات کی تسخیر بھی عطا کی گئی ۔ (تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۳۵۰،چشتی)

حضرت علامہ اسماعیل حقی  رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں  کہ : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وصال کے بعد علم ، نبوت اور ملک صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے ، ان کی باقی اولاد کو نہ ملے ۔ اسے یہاں  مجازاً میراث سے تعبیر کیا گیا کیونکہ میراث در حقیقت مال میں  ہوتی ہے جبکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روحانی کمالات کا وارث بناتے ہیں  ان کے نزدیک مال کی کوئی حیثیت نہیں  ہوتی ۔(روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶/۳۲۷)

ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی  رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انیس بیٹے تھے ، ان میں  سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت اور ملک کے وارث ہوئے، اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب بیٹے اس میں  برابر کے شریک ہوتے ۔ (تفسیرقرطبی النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷/۱۲۵، الجزء الثالث عشر)

 ان کے علاوہ تفسیر طبری ، تفسیر بیضاوی،تفسیر ابو سعود، تفسیر کبیر،تفسیر البحر المحیط اور تفسیر جلالین وغیرہ میں  بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم، نبوت اور ملک کے وارث ہوئے۔ لہٰذا اس آیت کو اس بات کی دلیل نہیں  بنایا جا سکتا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے مال کی وارث بنتی ہے۔اس کی مزید صراحت درج ذیل حدیث پاک میں  موجود ہے، چنانچہ حضرت ابو درداء  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی کو دینارو درہم کا وارث نہ بنایا بلکہ انہوں  نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا ۔ (ترمذی ، کتاب العلم عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، ۴ / ۳۱۲ ، الحدیث: ۲۶۹۱،چشتی)

وَ قَالَ : اورفرمایا ۔ یعنی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں  سے فرمایا: اے لوگو!ہمیں  پرندوں  کی بولی سکھائی گئی ہے اور دنیا و آخرت کی بکثرت نعمتیں  ہمیں  عطا کی گئی ہیں ، بیشک یہی اللہ تعالٰی کاکھلا فضل ہے ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اللہ تعالٰی کی نعمتیں : مروی ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالٰی نے زمین کے مشرقوں  اور مغربوں  کی مملکت عطا فرمائی۔ چالیس سال آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے مالک ر ہے۔ پھر پوری دنیا کی مملکت عطا فرمائی، جن و اِنس، شیطان، پرندے، چوپائے، درندے سب پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حکومت تھی اور ہر ایک شے کی زبان آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کو عطا فرمائی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں  عجیب و غریب صنعتیں  ایجاد ہوئیں ۔ (خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۴۰۴)

امام الحسین بن مسعود بغوی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 215 ھ لکھتے ہیں : حضرت سلیمان حضرت دائود کی نبوت ‘ ان کے علم اور ان کے ملک کے وارث ہوئے ‘ نہ کہ ان کی باقی اولاد ‘ حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے ‘ حضرت سلیمان کو حضرت دائود کا ملک عطا کیا گیا اور ہوائوں اور جنات کی تسخیر ان کو زیادہ دی گئی ‘ مقاتل نے کہا حضرت سلیمان کا ملک حضرت دائود کے ملک سے زیادہ تھا اور وہ ان سے اچھا فیصلہ کرنے والے تھے۔ حضرت دائود ‘ حضرت سلیمان سے زیادہ عبادت گزار تھے اور حضرت سلیمان ان سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ (معالم التنزیل ج 3 ص 494‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ 0241 ھ)

امام محمد بن عمر رازی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 606 ھ نے اس پر دلائل قائم کیے ہیں کہ اس آیت میں مال کی وراثت مراد نہیں ہے بلکہ اس میں علم اور نبوت کی وراثت مراد ہے وہ فرماتے ہیں : اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو پھر اس کے بعد یا یھا الناس علمنا منطق الطیر کا کوئی فائدہ نہ تھا اور جب اس سے مراد نبوت اور ملک کی وراثت ہو تو یہ کلام عمدہ ہے کیونکہ پرندوں کی بولی کا سکھانا بھی علوم نبوت کے ساتھ مربوط اور متصل ہوگا جبکہمال کے وارث کا پرندوں کی بولی کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے ‘ اس فضل کا تعلق بھی علم اور نبوت کی وراثت سے ظاہر ہے اور مال کے وارث کا فضیلت والا ہونا ظاہر نہیں ہے کیونکہ مال کا وارث تو کامل شخص بھی ہوتا ہے اور ناقص بھی ‘ نیک بھی اور بدکار ‘ اسی طرح اس کے بعد جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کا ذکر کیا گیا اس کا ربط اور تعلق بھی اسی صورت میں ظاہر ہوگا جب اس وراثت سے مراد علم ‘ نبوت اور ملک کی وراثت ہو نہ کہ مال کی وراثت مراد ہو ۔ (تفسیر کبیر ج 8 ص 745‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ 5141 ھ)

امام عبدالرحمن علی بن محمد جوزی جنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 795 ھ ‘ علامہ ابو عبد اللہ قرطبی مالکی متوفی 866 ھ ‘ حافظ ابن شافعی متوفی 477 ھ ‘ علامہ اسماعیل حقی متوقی ‘ 7311 ھ ‘ علامہ محمودآلوسی حنفی متوفی 0721 ھ ‘ ان سب نے یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ‘ نبوت اور ملک میں حضرت دائود (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور اس آیت میں مال کی وراثت مراد نہیں ہے ‘ کیونکہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے اور مال کی وراثت میں یہ سب برابر کے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے شریک تھے ‘ اور اس آیت میں صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حضرت دائود (علیہ السلام) کا وارث قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی نبوت ‘ انکے علم اور ان کے ملک کے وارث تھے۔ (زادالمسیر ج 6 ص 951‘ الجامع لاحکام القرآن جز 31 ص 351،چشتی)(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 493‘ دارالفکر ‘ 8141 ھ )(روح البیان ج 6 ص 024‘ داراحیاء التراث العربی ‘ 1241 ھ )(روح المعانی جز 91 ص 552‘ دارالفکر ‘ 7141 ھ)

شیعہ مفسرین کے نزدیک حضرت سلیمان ‘ حضرت دائود کے مال کے وارث تھے نہ کہ نبوت اور علم کے

شیعہ مفسر ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی المتوفی 064 ھ لکھتا ہے : اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ حضرت سلیمان حضرت دائود کے وارث ہوئے ‘ اب اس میں اختلاف ہے کہ وہ کس چیز کے وارث ہوئے ‘ ہمارے اصحاب نے کہا کہ وہ مال اور علم کے وارث ہوئے اور ہمارے مخالفین نے کہا وہ علم کے وارث ہوئے ‘ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے ‘ ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ اور میراث کی حقیقت یہ ہے کہ گزرنے والے کی موت کے بعد اس کا ترکہ اس کے رشتہ داروں میں سے کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل کردیا جائے اور اس کا حقیقی معنی یہ ہے کہ اعیان (ٹھوس مادی چیزوں مثلاً مال و دولت ‘ زمین اور سازوسامان وغیرہ) کو منتقل کیا جائے اور میراث کا لفظ جب علم کے معنی میں استعمال کیا جائے گا تو وہ مجاز ہوگا اور انہوں نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ خبر واحد ہے اور خبر واحد سے قرآن کے عام کو خاص کرنا جائز ہے اور نہ اس کو منسوخ کرنا جائز ہے ‘ اور بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے اور انمیں سے صرف حضرت سلیمان کو وارث بنایا گیا اگر اس آیت میں مال کی وراثت مراد ہوتی تو اس میں تمام بیٹے شریک ہوتے نہ کہ صرف حضرت سلیمان ‘ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں علم اور نبوت کی وراثت مراد ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چیز بھی خبر واحد سے ثابت ہے سو اس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا ۔ (التبیان فی تفسیر القرآن ج 8 ص 38۔ 28‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)

شیعہ مفسرین کے دلائل کے جوابات

شیخ طوسی کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ میراث کا لفظ عام ہے اور اہل سنت نے اس کو علم ‘ نبوت اور ملک کی وراثت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ‘ اور قرآن مجید کے عام کو خاص کرنا جائز نہیں ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دلیل علماء شیعہ کے بھی خلاف ہے کیونکہ انہوں نے اس وراثت کو مال کے ساتھ خاصل کرلیا ہے جبکہ وراثت عام ہے خواہ اس سے مال کا نتقال ہو یا علم ‘ نبوت اور فضائل کا انتقال ہو ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ جب مخصص عقل یا عرف ہو تو عام کی تخصیص جائز ہے جیسے قرآن مجید میں ہے : قل نفس ذآئقۃ الموت ط۔ (الانبیائ : 53) ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے ۔ اس آیت کے عموم میں اللہ تعالیٰ شامل نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر موت کا آنا محال ہے ‘ اور اس کا مخصص عقل ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید میں ہے ؟ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : واو تینا من کل شیء ط۔ (النمل : 61) اور ہمیں ہر چیز سے عطا کیا گیا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ٹینک ‘ طیارے اور میزائل نہیں عطا کیے گئے تھے ‘ اس کے لیے یہاں پر ” ہر چیز “ سے مراد ان کے زمانہ کی تمام چیزیں ہیں اور اس کا مخصص عرف ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید میں ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا : انی فضلتکم علی العلمین۔ (البقرہ : 74) بیشک میں نے تم کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ہے۔
 اور ظاہر ہے بنی اسرائیل کو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کی امت پر فضیلت نہیں دی گئی تھی ‘ سو یہاں بھی عرف اور عقل اس کا مخصص ہے اور مرد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو انکے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت دی گئی تھی ۔
اسی طرح قرآن مجید میں یہ آیت ہے : انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین امنوا لذین یقیمون الصلوۃ ویؤ تون الزکوۃ وھم رکعون۔ (المائدہ : 55) تمہارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں ۔ اس آیت میں تمام ایمان والوں کو مسلمانوں کا ولی فرمایا ہے ‘ لیکن علماء شیعہ نے اس آیت کو حضرت علی کی ولایت اور امامت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ۔ خود شیخ طوسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے : یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد امیر المومنین علیہ السلام کی امامت بلا فصل پر واضح دلیل ہے ۔ (التبیان ج 2 ص 955‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)

چھٹی صدی کے علماء شیعہ میں سے شیخ ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی نے بھی یہی لکھا ہے نیز انہوں نے لکھا ہے : یہ آیت اس پر نص صریح ہے کہ ایمان والوں سے مراد حضرت علی ہیں اور یہ آیت ان کی امامت پر نص ہے اور اس آیت سے عموم مراد نہیں ہے اور یہ آیت حضرت علی کے ساتھ خاص ہے۔ (مجمع البیان ج 3 ص 623‘ مطبوعہ ایران ‘ 6041 ھ)
اسی طرح السید محمد حسین الطبا طبائی متوفی 3921 ھ نے لکھا ہے : انما ولیکم اللہ ورسولہ (المائدہ : 55) اور فان حزب اللہ ھم الغلبون (المائدہ : 651) یہ دونوں آیتیں عام نہیں ہیں ‘ یہ دونوں آیتیں حضرت علی کے ساتھ خاص ہیں اور یہ چیز سنی اور شیعہ کی بہ کثرت روایات سے ثابت ہے۔ (المیز ان ج 6 ص 5‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ طہران ‘ 2631 ھ) 
حالانکہ ان دونوں آیتوں میں الذین امنوا اور حزب اللہ کے الفاظ عام ہیں لیکن علماء شیعہ نے روایات کی بنا پر ان کو خاص کرلیا ہے ‘ اسی طرح قرآن مجید میں ہے :
یایھا الرسول بلغ مآ انزل الیک من ربک ط وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ط واللہ یعصمک من الناس ط۔ (المائدۃ : 76) اے رسول ! آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس کو پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے (بالفرض) ایسانہ کیا تو آپ نے اپنے رب کا پیغام نہیں پہنچایا ‘ اور اللہ آپ کو لوگوں (کے ضرر) سے بچائے گا ۔
اس آیت میں لفظ ” ما “ عام ہے یعنی جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا یعنی تمام احکام شرعیہ اور تمام خبریں آپ پر امت کو پہچانی ضروری ہیں لیکن علماء شیعہ نے اس آیت کو حضرت علی کی خلافت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ۔
شیخ طوسی لکھتا ہے : اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف وحی کی کہ وہ حضرت علی کو خلیفہ بنائیں ‘ اور آپ اس سے ڈرتے تھے کہ آپ کے اصحاب پر یہ دشوار ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تاکہ آپ بہادری سے اللہ کا یہ حکم سنائیں۔ (التبیان ج 3 ص 885‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
شیعہ مفسر طبرسی لکھتا ہے : یہ آیت حضرت علی (علیہ السلام) کے متعلق نازل ہوئی ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ حضرت علی کے متعلق تبلیغ کریں سو آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر کہا میں جس کا مولیٰ ہوں علی اس کے مولیٰ ہیں ‘ اے اللہ ! جو علی سے محبت رکھے اس سے محبت رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے اس سے عداوت رکھ ‘ اور حضرت ابو جعفر اور حضرت ابو عبد اللہ سے مشہور وایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف وحی کی کہ وہ حضرت علی کو خلیفہ بنائیں۔ (مجمع البیان ج 4 ص 443‘ مطبوعہ ایران ‘ 6041 ھ)
ان آیات میں قرآن مجید کے لفظ عام کو خاص کرنے کے باوجود شیخ طبرسی اور شیخ طبا طبائی نے وورث سلیمن داود (النمل : 61) کی تفسیر میں لکھا ہے اس سے مراد حضرت سلیمان کو مال کا وارث بنانا ہے اور علم اور نبوت کا وارث بنانا مراد نہیں ہے ۔ (مجمع البیان ج 7 ص 433‘ المیز ان ج 51 ص 283‘ مطبوعہ طہران ‘ 2631 ھ،چشتی)
قرآن مجید کی بہ کثرت آیات میں کتاب کا وارث بنانے کا ذکر ہے اور وہاں مال کا وارث بنانے کو مراد نہیں لیا جاسکتا : فخلف من بعد ھم خلف ورثوالکتب۔ (الاعراف : 961) پھر ان کے بعد ایسے لوگ جانشین ہوئے جو کتاب کے وارث ہوئے ۔
ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا ج (فاطر : 23) پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا ۔
واورثنا بنی اسرآء یل الکتب۔ (المومن : 35) اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔
ان الذین اور ثوا الکتب من بعد ھم لفی شک منہ مریب۔ (الشوری : 41) بیشک جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا وہ اس کی طرف سے زبردست شک میں ہیں ۔
علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ اہل سنت 
ایک طویل حدیث میں ہے حضرت عمر ؓ نے حضرت عباس اور حضرت علی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہے : ہم مورث نہیں بنائے جاتے ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3304‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : 7571‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : 5692‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : 9171‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 67511‘ مسند احمد رقم الحدیث : 28052)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم کو طلب کرنے کے لیے کسی راستہ پر جاتا ہے اللہ اس کو جنت کے راستہ کی طرف لے جاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لیے اپنے پر رکھتے ہیں اور تمام آسمانوں اور زمینوں کی چیزیں عالم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی ‘ اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے ‘ بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نہ دینار کا وارث کرتے ہیں نہ درھم کا وہ صرف علم کا وارث کرتے ہیں سو جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2862‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : 1463‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 322‘ مسند احمد ج 5 ص 691‘ سنن الداری رقم الحدیث : 943‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 88‘ مسند الشامیین رقم الحدیث : 321‘ شرح السنۃ رقم الحدیث : 921)

علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث نہ بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ شیعہ
 
شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی الرازی المتوفی 823 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتا ہے : ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ علیہالسلام نے فرمایا : بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں ‘ کیونکہ انبیاء نہ درہم کا وارث کرتے ہیں نہ دینار کا ‘ وہ اپنی احادیث میں سے احادیث کا وارث کرتے ہیں ‘ پس جس شخص نے ان سے کسی چیز کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا۔ الحدیث۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 23‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ 8831 ھ)
محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ علم میں وراثت ہوتی ہے ‘ اور جب بھی کوئی عالم فوت ہوتا ہے تو وہ علم میں اپنا جیسا چھوڑ جاتا ہے۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 222‘ مطبوعہ ایران ‘ 8831 ھ)
ابو جعفر (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا بیشک روئے زمین پر سب سے پہلے وصی ھبتہ اللہ بن آدم تھے اور جو نبی بھی گزرے ان کا ایک وصی ہوتا تھا ‘ اور تمام انبیاء ایک لاکھ بیس ہزار تھے ‘ ان میں سے پانچ اولوالعزم نبی تھے ‘ نوح ‘ ابراہیم ‘ موسیٰ ‘ عیسیٰ اور (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ‘ اور بیشک علی بن ابی طالب (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لیے اللہ تعالیٰ کا عطیہ تھے۔ وہ تمام اولیاء کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور اپنے سے پہلوں کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے سے پہلے انبیاء اور مر سلین کے علم کے وارث تھے ۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 422‘ دارالکتب الاسلامیہ ‘ ایران 8831 ھ)
المفصل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سلیمان کے وارث ہوئے اور ہم (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس تورات ‘ انجیل اور زبور کا علم ہے۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 522۔ 422‘ ایران)
ابو بصیر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے فرمایا : بیشک دائود انبیاء (علیہم السلام) کے علم کے وارث تھے ‘ اور بیشک سلیمان دائود کے وارث تھے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سلیمان کے وارث تھے اور بیشک ہم (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس حضرت ابراہیم کے صحائف ہیں اور حضرت موسیٰ کی الواح ہیں ۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 422‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ 8831 ھ)

ان تمام دلائل سے آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام علم کا وارث بناتے ہیں مال کا وارث نہیں بناتے اور حضرت سلیمان علیہ السلام ‘ حضرت داWد علیہ السلام کے علم ‘ ان کے فضائل ‘ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث تھے ‘ اور اس آیت میں اسی وراثت کا ذکر ہے ‘ ان کے مال کی وراثت کا ذکر نہیں ہے ۔ مزید تفصیل حصّہ سوم میں ان شاء اللہ

۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

درسِ قرآن موضوع آیت : وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ سورہ نمل آیت 16 ۔ حصّہ اوّل ٭٭٭٭٭٭٭٭

درسِ قرآن موضوع آیت : وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ سورہ نمل آیت 16 ۔ حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍؕ - اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ۔ (سورہ نمل آیت نمبر 16)
ترجمہ : اور سلیمان داؤد کا جانشین ہوا اور کہا اے لوگو ہمیں  پرندوں  کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں  سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہر فضل ہے ۔

یہاں آیت میں  نبوت ، علم اور ملک میں  جانشینی مراد ہے مال کی وراثت مراد نہیں ۔ چنانچہ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی  رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نبوت ، علم اور ان کے ملک کے وارث بنے ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک عطا ہوا اور مزید انہیں  ہواؤں  اور جِنّات کی تسخیر بھی عطا کی گئی ۔ (تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۳۵۰)

حضرت علامہ اسماعیل حقی  رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں  کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وصال کے بعد علم،نبوت اور ملک صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے ، ان کی باقی اولاد کو نہ ملے ۔ اسے یہاں  مجازاً میراث سے تعبیر کیا گیا کیونکہ میراث در حقیقت مال میں  ہوتی ہے جبکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روحانی کمالات کا وارث بناتے ہیں  ان کے نزدیک مال کی کوئی حیثیت نہیں  ہوتی ۔ (روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶/۳۲۷،چشتی)

ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی  رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انیس بیٹے تھے ، ان میں  سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت اور ملک کے وارث ہوئے ، اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب بیٹے اس میں  برابر کے شریک ہوتے ۔ (تفسیرقرطبی النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷/۱۲۵، الجزء الثالث عشر)

 ان کے علاوہ تفسیر طبری ، تفسیر بیضاوی ، تفسیر ابو سعود، تفسیر کبیر،تفسیر البحر المحیط اور تفسیر جلالین وغیرہ میں  بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم، نبوت اور ملک کے وارث ہوئے ۔ لہٰذا اس آیت کو اس بات کی دلیل نہیں  بنایا جا سکتا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے مال کی وارث بنتی ہے ۔ اس کی مزید صراحت درج ذیل حدیث پاک میں  موجود ہے ، چنانچہ حضرت ابو درداء  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی کو دینارو درہم کا وارث نہ بنایا بلکہ انہوں  نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا ۔ (ترمذی ، کتاب العلم عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ  ، ۴ / ۳۱۲ ، الحدیث: ۲۶۹۱،چشتی)

قرآن مجید کی بہ کثرت آیات میں کتاب کا وارث بنانے کا ذکر ہے اور وہاں مال کا وارث بنانے کو مراد نہیں لیا جاسکتا : فخلف من بعد ھم خلف ورثوالکتب ۔ (الاعراف : ٩٦١) ، پھر ان کے بعد ایسے لوگ جانشین ہوئے جو کتاب کے وارث ہوئے ۔

ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا ج (فاطر : ٢٣) ، پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا ۔

واورثنا بنی اسرآء یل الکتب ۔ (المومن : ٣٥) ، اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔

ان الذین اور ثوا الکتب من بعد ھم لفی شک منہ مریب ۔ (الشوری : ٤١) ، بیشک جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا وہ اس کی طرف سے زبردست شک میں ہیں ۔

وراثت کا لغوی اور اصطلاحی معنی

امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی متوفی 571 ھ لکھتے ہیں : الایراث : الا بقاء للشئی کسی چیز کو باقی رکھنا ‘ یورث ای یبقی میراثا کسی چیز کو بہ طور میراث باقی رکھنا ‘ کہا جاتا ہے اور ثہ العشق ھما عشقنی اس کو غم کا وارث بنادیا ‘ اور ثتہ الحمی ضعفا بخار نے اس کو کمزوری کا وارث بنادیا۔ (کتاب العین ج 3 ص 2491‘ مطبوعہ ایران ‘ 4141 ھ)

علامہ جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور افریقی مصری متوفی 117 ھ لکھتے ہیں : الوارث اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اس کا معنی ہے باقی اور دائم ‘ وانت خیر الوارثین (الانبیا : 98‘ یعنی تمام مخلوق کے فنا ہونے کے بعد تو باقی رہنے والا ہے ‘ کہا جاتا ہے ورثت فلا نا مالا میں فلاں کے مال کا وارث ہوا ‘ قرآن مجید میں ہے : فھب لی من لدنک ولیا۔ یرثنی و یرث من ال یعقوب۔ (مریم : 6۔ 5) تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میرا (بھی) وارث ہو اور یعقوب کی آل کا (بھی) وارث ہو ۔ ابن سیدہ نے یہ کہا کہ وہ ان کا اور آل یعقوب کی نبوت کا وارث ہو اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ حضرت زکریا کو یہ خوف تھا کہ انکے رشتہ دار انکے مال کے وارث ہوجائیں گے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو کچھ بھی چھوڑا وہ صدقہ ہے ‘ اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وورث سلیمان داود (النمل : 61) اور سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ الزجاج نے کہا وہ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث ہوئے ‘ روایت ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے ‘ ان میں سے صرف حضرت سلیمان ان کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے اور حدیث میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یہ دعاہ ہے : اللھم متعنی بسمعی و بصری واجعلھا الوارث منی : اے اللہ کانوں اور میری آنکھوں سے مجھ کو نفع دے اور ان کو میرا وارث بنا دے ۔ (المستدرک ج 1 ص 325‘ مجمع الزوائد ج 01 ص 871)

 ابن شمیل نے کہا اس کا معنی ہے میرے کانوں اور میری آنکھوں کو تاحیات صحیح اور سلامت رکھ ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بڑھاپے میں قویٰ نفسانیہ مضمحل ہوجاتے ہیں تو میری سماعت اور بصارت کو باقی رکھنا پس سماعت اور بصارت تمام قوتوں کے بعد باقی رہیں اور ان کی وارث ہوجائیں ۔ (لسان العربج 2 ص 102۔ 991‘ ملخصا ‘ مطبوعہ نشر ادب احلوذۃ ایران : 5041 ھ،چشتی)

علامہ الحسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 205 ھ لکھتے ہیں وراثت کی تعریف یہ ہے : انتقال قنیۃ الیک عن غیرک من غیر عقد ولا مایجری العقد۔ غیر کی کمائی کا تمہاری طرف بغیر کسی عقد یا قائم مقام عقد کے تمہاری طرف منتقل ہونا۔
اسی وجہ سے میت کی جو کمائی وارثوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اس کو میراث کہتے ہیں ۔

نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے : اثبتوا علی مشاعر کم فانکم علی ارث ابیکم۔ تم اپنے مشاعر (میدان عرفات) پر ثابت قدم رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم کے وارث ہو ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : 9191‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : 388‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1103‘ المستدرک ج 1 ص 64)

قرآن مجید میں ہے ویرث من ال یعقوب (مریم : 6) یعنی وہ نبوت ‘ علم اور فضلیت کا وارث ہوگا نہ کہ مال کا ‘ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے نزدیک مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے حتیٰ کہ وہ اس میں رغبت کریں ‘ وہ بہت کم مال جمع کرتے ہیں اور اس کے مالک ہوتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث : 304)

اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے : علماء انبیاء کے وارث ہیں (سنن ابودائود رقم الحدیث : 1463‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2862‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 322‘ مسند احمد ج 5 ص 691)

اور اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی وارث فرمایا ہے کیونکہ تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہیں وللہ میراث السموات والارض ۔ (آل عمران : 081) ” اللہ ہی کے لیے تمام آسمانوں اور زمینوں کی میراث ہے “ اور کوئی شخص جب کسی سے علم کا استفادہ کرے تو کہا جاتا ہے میں اس سے وارث ہوا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ورثوالکتب (الاعراف : 961) ” بعد کے لوگوں نے اس کتاب کو حاصل کیا ورثو الکتب من بعدھم (الشوری : 41) ” بیشک جو لوگ انکے عبد کتاب کے وارث ہوئے “ ثم اوثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا (فاطر : 23) ” پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا “ کیونکہ وراثت حقیقیہ یہ ہے کہ انسان کو کوئی ایسی چیز حاصل ہو جس میں اس کے ذمہ نہ کوئی معاوضہ ہو نہ اس میں اس کا کوئی محاسبہ ہو اور جو اس طریقہ سے اس دنیا کو حاصل کرے گا اس سے نہ کوئی حساب لیا جائے گا نہ اس کو کوئی سزا دی جائے گی بلکہ اس کے لیے اس میں معافی اور در گزر ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے : قیامت کے دن اس شخص پر حساب آسان ہوگا جو دنیا میں اپنا حساب کرے گا ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : 9542) (المفردات ج 2 ص 376۔ 276‘ ملخصا ‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ 8141 ھ،چشتی)

خلاصہ یہ ہے کہ وراثت کا لغوی معنی ہے کسی کا کسی کے بعد باقی رہنا ‘ اور اصطلاحی معنی ہے کسی چیز کا ایک شخص سے دوسرے شخص طرف منتقل ہونا ‘ خواہ مال کا انتقال ہو یا ملک کا یا علم اور نبوت کا انتقال ہو یا فضائل اور محاسن کا ‘ اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں ان تمام معانی کے اعتبار سے وراثت کا استعمال کیا گیا ہے ۔

علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ اہل سنت
ایک طویل حدیث میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : ہم مورث نہیں بنائے جاتے ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٠٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٧١‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٦٩٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩١٧١‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٦٧٥١١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٨٠٥٢)

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم کو طلب کرنے کے لیے کسی راستہ پر جاتا ہے اللہ اس کو جنت کے راستہ کی طرف لے جاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لیے اپنے پر رکھتے ہیں اور تمام آسمانوں اور زمینوں کی چیزیں عالم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی ‘ اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے ‘ بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نہ دینار کا وارث کرتے ہیں نہ درھم کا وہ صرف علم کا وارث کرتے ہیں سو جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٢‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٤٦٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٦٩١‘ سنن الداری رقم الحدیث : ٩٤٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٨٨‘ مسند الشامیین رقم الحدیث : ٣٢١‘ شرح السنۃ رقم الحدیث : ٩٢١)

شیعہ محقق و عالم ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی الرازی المتوفی ٨٢٣ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ علیہالسلام نے فرمایا : بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں ‘ کیونکہ انبیاء نہ درہم کا وارث کرتے ہیں نہ دینار کا ‘ وہ اپنی احادیث میں سے احادیث کا وارث کرتے ہیں ‘ پس جس شخص نے ان سے کسی چیز کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا۔ الحدیث۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٢٣‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ)
محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ علم میں وراثت ہوتی ہے ‘ اور جب بھی کوئی عالم فوت ہوتا ہے تو وہ علم میں اپنا جیسا چھوڑ جاتا ہے۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٢٢٢‘ مطبوعہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ،چشتی)
ترجمہ : ابو جعفر (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک روئے زمین پر سب سے پہلے وصی ھبتہ اللہ بن آدم تھے اور جو نبی بھی گزرے ان کا ایک وصی ہوتا تھا ‘ اور تمام انبیاء ایک لاکھ بیس ہزار تھے ‘ ان میں سے پانچ اولوالعزم نبی تھے ‘ نوح ‘ ابراہیم ‘ موسیٰ ‘ عیسیٰ اور (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ اور بیشک علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اللہ تعالیٰ کا عطیہ تھے ۔ وہ تمام اولیاء کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور اپنے سے پہلوں کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سے پہلے انبیاء اور مر سلین کے علم کے وارث تھے ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٤٢٢‘ دارالکتب الاسلامیہ ‘ ایران ٨٨٣١ ھ)

یہی شیعہ محقق و عالم مزید لکھتا ہے کہ : المفصل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلیمان کے وارث ہوئے اور ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس تورات ‘ انجیل اور زبور کا علم ہے ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٥٢٢۔ ٤٢٢‘ ایران)
ترجمہ : ابو بصیر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ (علیہ السلام) نے فرمایا : بیشک دائود انبیاء (علیہم السلام) کے علم کے وارث تھے ‘ اور بیشک سلیمان دائود کے وارث تھے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلیمان کے وارث تھے اور بیشک ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس حضرت ابراہیم کے صحائف ہیں اور حضرت موسیٰ کی الواح ہیں ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٤٢٢‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ)

ان تمام دلائل سے آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام علم کا وارث بناتے ہیں مال کا وارث نہیں بناتے اور حضرت سلیمان علیہ السلام ‘ حضرت دائود علیہ السلام کے علم ‘ ان کے فضائل ‘ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث تھے ‘ اور اس آیت میں اسی وراثت کا ذکر ہے ‘ ان کے مال کی وراثت کا ذکر نہیں ہے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔
 (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

Sunday 5 September 2021

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اور ایمانِ ابو طالب

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اور ایمانِ ابو طالب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اکثر ایک سوال کیا جاتا  ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا جنابِ ابو طالب نے پڑھایا تھا ، اگر جنابِ ابو طالب کافر تھے تو کیا کافر نکاح پڑھا سکتا ہے پھر تم بھی کافر سے نکاح پڑھوایا کرو ؟
جنابِ مَن : پہلی بات یہ ہےکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نکاح اعلانِ نبوت سے پہلے ہوا تھا اس لیے یہ خطبہ پڑھنا ایمان کےلیے دلیل نہیں بن ستا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ نکاح کا خطبہ پڑھنا مستحب ہے ، ضروری نہیں ہے اور بہتر یہ ہے کہ کوئی دیندار اور نیک شخص نکاح کا خطبہ پڑھے ، البتہ اگر کسی کافر نے مسلمان کے نکاح کا خطبہ پڑھا اور دو گواہوں کی موجودگی میں عاقدین نے ایجاب و قبول کرلیا ، تب بھی نکاح منعقد ہوجائے گا، کیونکہ نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں محض ایجاب و قبول کرنے کا نام ہے اور نکاح خواہ کی حیثیت صرف معبر اور سفیر کی ہوتی ہے، لہذا کافر اگر مسلمان کا خطبہ نکاح پڑھ لے، تب بھی نکاح ہوجائے گا، البتہ بہتر یہ ہے کہ کوئی دیندار اور نیک شخص نکاح کا خطبہ پڑھے ۔ ⬇
باب الخطبۃ : وقال الترمذي وقد قال بعض أهل العلم إن النكاح جائز بغير خطبة وهو قول سفيان الثورى وغيره من أهل العلم قلت وأوجبها أهل الظاهر فرضا واحتجوا بأنه خطب عند تزوج فاطمة رضي الله تعالى عنها وأفعاله على الوجوب واستدل الفقهاء على عدم وجوبها بقوله في حديث سهل بن سعد قد زوجتها بما معك من القرآن۔۔الخ ۔ (عمدۃ القاری باب الخطبۃ، ج: 20، ص: 134)
( وينعقد ) ملتبسا ( بإيجاب ) من أحدهما ( وقبول ) من الآخر ۔ (الدر المختار ج: 3، ص: 8، ط:سعید)
فإن عقد الزواج من غير خطبة جاز،فالخطبة مستحبة غير واجبة ۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ ج: 9، ص: 6618، ط: دار الفکر)

عظیم مفسرِ قرآن فخرِ سادات علامہ سید محمود آلوسی رحمة علیہ لکھتے ہیں کہ : جنابِ ابو طالب نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد اور نصرت کی تو وہ دین اسلام کی محبت میں نہیں کی ‘ بلکہ نسب اور قرابت کی وجہ سے کی ‘ اور اعتبار دینی محبت کا ہے ‘ نسبی محبت کا نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شدید اصرار کے بعد بھی ابو طالب نے ایمان نہ لا کر آپ کو سخت اذیت بھی تو پہنچائی ہے ‘ تاہم ابو طالب کے کفر کے باوجود اس کی اس طرح مذمت نہ کی جائے جس طرح ابو جہل اور دیگر کفار کی مذمت کی جاتی ہے ۔ (روح المعانی ‘ جز ١١‘ ص ٣٣۔ ٣٢‘ مطبوعہ بیروت) 

ابو طالب کے ایمان نہ لانے کے متعلق احادیث 

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : سعید بن مسیب کے والد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب ابو طالب کا وقت قریب آپہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت ابو طالب کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بھی موجود تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے چچا ایک بار ” لا الہ الا اللہ “ کہو تو میں تمہارے حق میں اسلام کی گواہی دوں گا ۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے ‘ اے ابو طالب ‘ کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کی ملت کو چھوڑ رہے ہو ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل ابو طالب کو کلمہ پڑھنے کی تلقین کرتے رہے۔ بہرحال ابو طالب نے جو آخری الفاظ کہے ‘ وہ یہ تھے میں اپنے باپ عبدالمطلب کی ملت پر ہوں اور ” لا الہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کردیا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بخدا میں اس وقت تک تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ اس سے روک نہ دے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ترجمہ) نبی اور مسلمانوں کے لیے مشرکین کی مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں۔ خواہ وہ ان کے رشتہ دار کیوں نہ ہوں جبکہ ان کا جہنمی ہونا معلوم ہوچکا ہو ۔ (سورہ التوبہ : ١١٣) اور ابو طالب کے بارے میں یہ آیت بھی نازل فرمائی (ترجمہ) ہر وہ شخص جس کو آپ چاہیں آپ اس میں ہدایت جاری نہیں کرسکتے ۔ البتہ اللہ تعالیٰ جس کے حق میں چاہتا ہے ہدایت پیدا فرما دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے بخوبی واقف ہے ۔ (القصص : ٥٦) (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٩‘ (٢٤) ١٣١‘ صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٧٥‘ سنن النسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠٣٥‘ سنن کبری ‘ للنسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ١١٣٨٣،چشتی) 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا سے فرمایا ” لا الہ الا اللہ “ پڑھیں۔ میں قیامت کے دن آپ کے حق میں اس کی گواہی دوں گا۔ ابو طالب نے کہا اگر مجھے قریش کے عار دلانے کا خوف نہ ہوتا ‘ کہ وہ کہیں گے کہ یہ بےصبری کی وجہ سے مسلمان ہوگیا تو میں کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھ ٹھنڈی کردیتا ‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی بیشک آپ جس کو چاہیں ہدایت یافتہ نہیں کرسکتے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ‘ ہدایت یافتہ کرتا ہے (القصص : ٥٦) (صحیح مسلم الایمان ‘ ٤٢ (٢٥) ١٣٤‘ صحیح البخاری ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٧٢‘ سنن ترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣١٩٩‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٩٦١٦‘ صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٢٧٠‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ٢‘ ص ٣٤٥۔ ٣٤٤) 

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : آپ نے اپنے چچا سے کس عذاب کو دور کیا ؟ وہ آپ کی طرف سے مدافعت کرتے تھے ‘ آپ کی خاطر غضبناک ہوتے تھے ۔ آپ نے فرمایا وہ ٹخنوں تک آگ میں ہے اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ آگ کے آخری طبقہ میں ہوتا ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٨٣‘ صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٥٧‘ (٢٠٩) ٥٠٠) 

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سنا ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ابو طالب کا ذکر کیا گیا۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن میری شفاعت سے اس کو نفع پہنچے گا اس کو تھوڑی سی آگ میں ڈالا جائے گا جو اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی ‘ جس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٨٥‘ صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٠‘ (٢١٠) ٥٠٢) 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے کم دوزخ کا عذاب ابو طالب کو ہوگا ‘ اس کو آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا ۔ (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٢‘ (٢١٤) ٥٠٤‘ صحیح البخاری ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٦١‘ سنن ترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦١٣‘ مسند احمد ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٤١٨‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ١٦‘ رقم الحدیث :‘ ٧٤٧٢،چشتی) 

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ قیامت کے دن دوزخ میں سب سے کم عذاب والا وہ شخص ہوگا جس کے پیروں کے تلووں میں دو انگارے ہوں گے ‘ جس سے اس کا دماغ اس طرح کھول رہا ہوگا جس طرح پیتل کی دیگچی میں پانی کھولتا ہے ۔ (صحیح مسلم ‘ الایمان ‘ ٣٦٣ ‘(٢١٣) ٥٠٥‘ صحیح البخاری ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٦١) 

امام احمد بن شعیب نسائی متوفی ٣٠٣ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا آپ کا بوڑھا گمراہ چچا فوت ہوگیا ‘ اس کو زمین میں کون دفن کرے گا ؟ آپ نے فرمایا جاؤ اپنے باپ کو زمین میں دفن کردو ۔ (سنن النسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٢٠٠٥) 

امام احمد بن حنبل ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابو طالب فوت ہوگیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جا کر اس کو دفن کردو۔ میں نے عرض کیا وہ مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوا ہے ۔ آپ نے فرمایا جا کر اس کو دفن کردو ۔ جب میں دفن کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس واپس آیا تو آپ نے فرمایا غسل کرلو۔ (مسند احمد ‘ ج ١‘ ص ١٣١‘ ١٣٠‘ ٩٧‘ طبع قدیم ‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ٢‘ ص ٣٤٨،چشتی) 

امام ابوبکرعبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥‘ ھ روایت کرتے ہیں : شعبی بیان کرتے ہیں کہ جب ابو طالب فوت ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر کہا آپ کا بوڑھا چچا جو کافر تھا ‘ وہ فوت ہوگیا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ‘ ج ٣‘ ص ٣٤٨‘ مطبوعہ کراچی ‘ ١٤٠٦) 

امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا قرآن مجید کی آیت اور وہ لوگوں کو (انہیں ایذاء پہنچانے سے) منع کرتے ہیں اور خود ان سے دور رہتے ہیں (الانعام : ٢٦) ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی تھی ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء پہنچانے سے مشرکین کو منع کرتا تھا اور آپ کے لائے ہوئے دین سے دور رہتا تھا ۔ (دلائل النبوۃ ‘ ج ٢‘ ص ٣٤١‘ مطبوعہ بیروت) 

ایمانِ ابو طالب اور حضرت سیّد غوثُ الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت سیّدنا غوثُ الاعظم شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب ابوطالب پر موت کا وقت آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا ! اے میر چچا ! لا الٰہ الا اللہ پڑھیے میں اس کلمہ کی وجہ سے اللہ کے پاس آپ کی شفاعت کروں گا ‘ تو ابوطالب نے کہا مجھے علم ہے کہ آپ سچے ہیں لیکن میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ یہ کہا جائے کہ ابوطالب موت سے گھبرا گیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابو طالب کی مغفرت طلب کرنے سے کرنے سے منع فرما دیا ۔ (تفسیر الجیلانی جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 457 مطبوعہ المکتبۃ المعروفیہ کانسی روڈ کوئٹہ پاکستان بحوالہ مسند احمد بن حنبل)

ایمانِ ابو طالب حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نظر میں

تاجدار گولڑہ حضرت سیّد پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچے اور پھوپھیاں حارث ، قثم ، حمزہ ، عباس ، ابوطالب ، عبدالکعبہ ، جحل ، ضرّار ، غیداق ، ابولہب ، صفیہ ، عاتکہ ، اروی ، اُمّ حکیم ، بّرہ ، امیمہ اس جماعت میں سے حضرت حمزہ و عباس و حضرت صفیہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین وعلیھن ایمان لائے ۔ اور حاشیہ میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں تین حضرات کے مشرف با اسلام ہونے کو جمہور علماء کا مذہب قرار دیا ہے ۔ (تحقیق الحق فی کلمة الحق صفحہ نمبر 153 مطبوعہ گولڑہ شریف،چشتی)۔(یعنی ابو طالب ایمان نہیں لائے تھے)

حضرت سیّد میر عبدالواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ اور ایمانِ ابو طالب

محترم قارئینِ کرام : سبع سنابل کے حوالے سے رافضیوں نے یہ دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ ابو طالب کو مسلمان سمجھتے تھے ۔ جب یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ رافضیوں کو بولنے سے پہلے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ سبع سنابل شریف اب بھی چھپ رہی ہے جو چاہے وہ پڑھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ کا وہی موقف ہے جو جمیع اہل سنت و جماعت کے اکابرین کا موقف ہے یعنی ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا ۔ اب آئیے سبع سنابل شریف کی عبارت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ خود فیصلہ کر لیجئے گا ۔

حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں : میرے بھائی اگر چہ مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضائل و شرف کے کمالات اہل معرفت کے دلوں میں نہیں سماں سکتے اور ان کے سچے دوستوں کے نہاں خانوں میں منزل نہیں بنا سکتے اس کے با وجود ان کے ان نسب عالوں میں اپنا کامل اثر نہیں دکھا سکتے خواہ وہ آباؤ اجداد ہوں یا اولاد در اولاد چنانچہ ابو طالب میں اس نسب نے کوئی اثر نہیں کیا حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کے بارے میں بلیغ کوشش فرماتے رہے لیکن چونکہ خدائے قدوس جل و علا نے ان کے دل پر روز اول ہی سے مہر لگا دی تھی لہذا جواب دیا اخرت النار على العار میں عار پر نار کو ترجیح دیتا ہوں جیسا کہ مشہور ہے منقول ہے کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا مولی علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ خبر پہنچائی کہ مات عمك الضال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا بیت کبھی ایسے گوہر پیدا کرنے والے گھرانہ میں ابو طالب جیسے کو (خالق بے نیاز) پتھر پھینکنے والا بنا دیتا ہے ۔ (سبع سنابل صفحہ نمبر 90 مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی اردو بزار لاہور،چشتی)

شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و لہ وسلّم کے سمجھانے کا حضرت ابو طالب پر کچھ اثر نہ ہوا اور حالت کفر میں انتقال ہوا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و لہ وسلّم آپ کے گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و لہ وسلّم نے فرمایا جاؤ انہیں دفن کر دو ۔ (فوائد الفواد مترجم اردو صفحہ نمبر 364 پندرہویں مجلس،چشتی) ۔

شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ابو طالب کی قسمت میں ایمان نہیں تھا اس لیئے اس نعمت سے محروم رہے ۔ (افضل الفوائد ، ہشت بہشت مترجم صفحہ نمبر 73 مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)

خود کو چشتی ، پیر اور سنیوں کا خطیب کہلانے والوں کے نام چشتیوں کے سردار شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام ۔

ایمانِ ابو طالب حضرت سیّد داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں

حضرت سیّد علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : دلائل لانے والوں میں سے ابو طالب سے بڑھ کر کوئی نہ تھا اور حقانیت کی دلیل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بزرگ تر کچھ نہیں ہو سکتی تھی مگر جبکہ جریانِ حکمِ شقاوت ابو طالب پر ہو چکا تھا ۔ لا محالہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ اقدس بھی اُسے فائدہ نہ پہنچا سکی ۔ (یعنی ابو طالب ایمان کی دولت سے محروم رہے) ۔ (کشف المحجوب مترجم صفحہ نمبر 448 مطبوعہ مکتبہ شمس و قمر جامعہ حنفیہ غوثیہ بھاٹی چوک لاہور،چشتی)

استدلال میں سے ابو طالب سے بڑھ کر کوئی نہ تھا اور حقانیت کی دلیل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بزرگ تر کچھ نہیں ہو سکتی تھی ، ابو طالب کےلیئے چونکہ بد بختی کا حکم جاری ہو چکا تھا ۔ (توفیق الٰہی اُن کے مقدر میں نہ تھی) ۔ لا محالہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ اقدس بھی اُسے فائدہ نہ پہنچا سکی ۔ (توفیق الٰہی اُن کے مقدر میں نہ تھی) ۔ (یعنی ابو طالب ایمان کی دولت سے محروم رہے) ۔ (کشف المحجوب مترجم قدیم صفحہ نمبر 432 مطبوعہ ناشرانِ قرآن لمیٹڈ اردو بازار لاہور)

امامُ العارفین ، محبوبِ یزدانی حضرت سلطان سیّد مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچاؤں میں سے ابو طالب تھے جن کا انتقال حالتِ کفر میں ہوا ۔ (لطائفِ اشرفی فارسی حصّہ دوم صفحہ نمبر 315 مطبوعہ مکتبہ سمنانی فردوس کالونی کراچی،چشتی)،(لطائفِ اشرفی اردو حصّہ سوئم صفحہ نمبر 499)

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچاؤں میں سے بجز حضرت امیر حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے کوئی مسلمان نہ ہوا ۔ ابو طالب اور ابو لہب نے زمانہ اسلام کا پایا لیکن اس کی توفیق نہ پائی جمہور علماء کا یہی مذہب ہے ۔ (مدارج النبوت مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 576 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور پاکستان،چشتی)

ایمانِ ابو طالب حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں

سلطان التارکین بُرھانُ العاشقین حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مختار ہیں جو کام کیا اللہ عز و جل کی اجازت سے کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بہت کوشش کی میرا چچا ابو طالب ایمان لے آئے مگر ابو طالب نے کہا مجھے شرم آتی ہے لوگ کیا کہیں گے بھتیجے کی اطاعت کر لی میں نے اس عار کی وجہ سے دوزخ کو اختیار کر لیا ہے ۔ اخترت النار علی العار ۔ (نافع السالکین مترجم اردو صفحہ نمبر 357، چشتی)،(نافع السالکین مترجم اردو صفحہ نمبر 365 مطبوعہ شعاع ادب مسلم مسجد چوک انار کلی لاہور)

امام احمد رضا قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس میں شک نہیں کہ ابوطالب تمام عمر حضور سیّد المرسلین سیّدالاولین و الاخرین سیدالابرار صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلی آل وسلم الٰی یوم القرار کی حفظ و حمایت و کفایت و نصرت میں مصروف رہے ۔ اپنی اولاد سے زیادہ حضور کو عزیز رکھا، اور اس وقت میں ساتھ دیا کہ ایک عالم حضور کا دشمنِ جاں ہوگیا تھا ، اور حضور کی محبت میں اپنے تمام عزیزون قریبیوں سے مخالفت گوارا کی ، سب کو چھوڑ دینا قبول کیا ، کوئی دقیقہ غمگساری و جاں نثاری کا نامرعی نہ رکھا ، اور یقیناً جانتے تھے کہ حضور افضل المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اﷲ کے سچے رسول ہیں ، ان پر ایمان لانے میں جنت ابدی اور تکذیب میں جہنم دائمی ہے ، بنوہاشم کو مرتے وقت وصیت کی کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے ، نعت شریف میں قصائدان سے منقول ، اور اُن میں براہ فراست وہ امور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے ۔ بعد بعثت شریف ان کا ظہور ہوا، یہ سب احوال مطالعہ احادیث و مراجعتِ کُتب سیر سے ظاہر ، ایک شعر ان کے قصیدے کا صحیح بخاری شریف میں بھی مروی :

وابیض یستسقی الغمام بوجھہ مال الیتامٰی عصمۃ للارامل
ترجمہ : وہ گورے رنگ والے جن کے رُوئے روشن کے توسّل سے مینہ برستا ہے ، یتیموں کے جائے پناہ بیواؤں کے نگہبان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ ت) ۔ (صحیح البخاری ابواب الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۳۷،چشتی)

محمد بن اسحٰق تابعی صاحبِ سیر و مغازی نے یہ قصیدہ بتما مہما نقل کیا جس میں ایک سو ۱۱۰ دس بیتیں مدحِ جلیل و نعتِ منیع پر مشتمل ہیں ۔ شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ ، شرح سفر السعادۃ میں اس قیصدہ کی نسبت فرماتے ہیں : دلالت صریح داروبرکمال محبت ونہایت نبوت او ، انتہی ۔
ترجمہ : یہ قصیدہ ابوطالب کی رسول ا ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ کمال محبت اور آپ کی نبوت کی انتہائی معرفت پر دلالت کرتا ہے ۔ (ت) ۔ (شرح سفر السعادۃ فصل دربیان عیادت بیماراں مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)

مگر مجردان امور سے ایمان ثابت نہیں ہوتا ۔ کاش یہ افعال واقوال اُن سے حالتِ اسلام میں صادر ہوتے تو سیّدنا عباس بلکہ ظاہراً سیّدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بھی افضل قرار پاتے اور افضل الاعمام حضور افضل الانام علیہ وعلٰی آلہ وافضل الصلوۃ والسلام کہلائے جاتے ۔ تقدیر الہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہیں گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں شمار کیا جانا منظور نہ فرمایا فاعتبروایا اولی الابصار ۔ ( القرآن الکریم ۵۹/ ۲ ) (تو عبر ت لو اے نگاہ والو! ت) ۔ (شرح المطالب فی مبحث ابی طالب(۱۳۱۶ھ،چشتی)،(مطالب کی وضاحت ابُوطالب کی بحث میں)

آج کل بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ : جنابِ ابوطالب پہلا مسلمان اور پہلا صحابی اور کفیل رسول اللہ ہے ہمارے لیے ایمان آزمانے کے لیے ایمان کی کسوٹی ہے ، جو ابوطالب کو "علیہ السلام" کہے گا وہ ہمارا ہے جو ان کے بارے میں گندی زبان ہلائے ، وہ ہمارا نہیں ہے ۔۔۔۔ اس سے دور رہنا چاہیے ۔۔۔۔ جو علی کے باپ کو کافر کہے وہ مومن نہیں ۔۔۔ کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔ وغیرہ ۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے جیسا کہ رافضی و نیم رافضی کہہ رہے ہیں ، تو پھر ائمہ محدثین مفسرین علیہم الرّحمہ سے اتنی بڑی بات کیسے چُھپی رہ گئی اور انہیں علم کیوں نہ ہوسکا ؟

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سوانح و تعارف پہ بڑی بڑی کتابیں محدثین علیہم الرّحمہ نے لکھیں ہیں ، تو جنابِ ابوطالب کا نام کیوں چھوڑ گئے ؟

حضرت سیّدنا غوثُ الاعظم شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جو امام الاولیاء ہیں ، جن کے نام پر آپ کے آستانے چل رہے ہیں ، کیا وہ بھی اس حقیقت سے ناآشنا رہے ؟ ، آخر وہ کون سی وجوہات تھیں ، کہ سلف صالحین علیہم الرّحمہ جناب ابوطالب کے نام کی کانفرنسیں منعقد کرنے کی سعادت سے محروم رہے ؟ ، آخر وہ کیا وجہ تھی کہ اسلاف علیہم الرّحہ آپ کے خود ساختہ معیار پر "علیہ السلام" لکھ کر پورا نہ اتر سکے ؟ ، اس وقت جتنے لوگ ایمان ابی طالب کے مسئلہ کو لے کر انتشار پھیلا رہے ہیں ، ان سب سے گزارش ہے کہ آخر آج وہ کون سی آفت آن پڑی ہے کہ اہل سنت کو روافض کی جھولیوں میں ڈالنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں ، اور ایمان ابی طالب کے مسئلہ پر خاموشی توڑ کر اسے عوام میں یوں بیان کیا جارہا ہے ، جسے سُن کر بڑے بڑے اکابرینِ اہلسنّت پر لوگ انگلیاں اٹھانے لگ پڑے ہیں ؟ ، کیا آپ لوگ خود کو حضرت سیّدنا غوثُ الاعظم شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی بڑے سید اور محب اہل بیت سجھتے ؟ اگر سجھتے تو بھی بتادیں اور اگر نہیں سمجھتے تو پھر کم از کم یہ سمجھنے کی کوشش کریں ، کہ انہوں نے جناب ابوطالب کے بارے میں آپ جیسا عقیدہ و نظریہ کیوں نہ رکھا ؟

صاحبِ روح المعانی لکھتے ہیں کہ : جنابِ ابو طالب کے اسلام کا مسئلہ مختلف فیہ ہے اور یہ کہنا کہ تمام مسلمانوں کا ‘ یا تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ صحیح نہیں ہے کیونکہ علماء شیعہ اور ان کے اکثر مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ ابو طالب اسلام لے آئے تھے اور ان کا دعوی ہے کہ ائمہ اہل بیت کا بھی اس پر اجماع ہے اور ابو طالب کے اکثر قصائد اس پر شاہد ہیں اور جن کا یہ دعوی ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ وہ علماء شیعہ کے اختلاف اور ان کے روایات کا اعتبار نہیں کرتے۔ تاہم ابو طالب کے اسلام نہ لانے کے قول کے باوجود ابو طالب کو برا نہیں کہنا چاہیے اور نہ اس کے حق میں یا وہ گوئی کرنی چاہیے ‘ کیونکہ اس سے علویوں کو ایذاء پہنچتی ہے اور یہ بعید نہیں ہے کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ایذا پہنچے ۔ (تفسیر روح المعانی ‘ جز ٢٠‘ ص ٩٧۔ ٩٦‘ مطبوعہ بیروت)

فقیر چشتی عرض کرتا ہے کہ : مذاہب اربعہ کے معروف علماء ‘ فقہاء ‘ مفسرین اور جمہور اہل سنت کا یہ موقف ہے کہ ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے ۔ فقیر کےلیے یہ کوئی خوشگوار موضوع نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی خواہش تھی کہ جنابِ ابو طالب ایمان لے آتے ۔ لیکن تقدیر کا لکھا پورا ہو کر رہا ۔ یہ بہت نازک مقام ہے ‘ جو لوگ اس مسئلہ میں شدت کرتے ہیں اور ابو طالب کی ابو لہب اور ابو جہل کی طرح مذمت کرتے ہیں ‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل آزاری کے خطرہ میں ہیں ۔ فقیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل بیت رضی اللہ عنہم کی دل آزاری سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ‘ ہم اس بحث میں صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے جنابِ ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے اور یہ چیز ہم پر بھی اتنی ہی گراں اور باعث رنج ہے جتنی ساداتِ کرام کےلیے ہے ۔ اس سے زیادہ فقیر اس بحث میں نہ کچھ لکھنا چاہتا ہے اور نہ اس مسئلہ کی باریکیوں میں الجھنا چاہتا ہے ۔ بعض علماۓ اہل سنت نے جنابِ ابو طالب کے ایمان کو ثابت کیا ہے ۔ ہرچند کہ یہ رائے تحقیق اور جمہور کے موقف کے خلاف ہے ‘ لیکن ان کی نیت محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم ہے ‘ اس لیے ان پر طعن نہیں کرنا چاہیے ۔ ان تمام دلائل کے باوجود بعض ناہنجاروں کی طرف سے صرف اکابرین اہلسنت میں سے بعض کو تنقید کا نشانہ بنانا ، سوقیانہ جملے کسنا اُن کے بغض باطن کی دلیل نہیں تو کیا ہے ؟ کبھی ان لوگوں نے سوچا کہ اِن کی نفرت و غلاظت کی زد میں کون کون آرہا ہے ؟ اللہ تعالیٰ جملہ اہلسنّت کو اِن فتنہ پروروں اور فتنوں سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>