Pages

Wednesday 2 November 2022

خواب میں دیدار الہٰی

*خواب میں دیدارِ الٰہی:*
جُمہور علما رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک دنیا میں خواب کی حالت میں دیدارِ الٰہی ممکن ہے ، محال نہیں ، بلکہ واقع ہے جیساکہ بہت سے اَسلاف سے منقول ہے۔چنانچہ

(1)شیخ عبدُ الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں خواب میں دیدارِ الٰہی ہوسکتا ہے بلکہ ہوا بھی ہے ، ہمارے امامِ اعظم بھی اس نعمت سے مشرف ہوئے ہیں۔ (اشعۃا للمعات ، 4 / 449)

(2)علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حکیم ترمذی ، شمسُ الائمہ علامہ کردری اور حمزہ الزیات وغیرہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خواب میں اللہ پاک کے دیدار سے مشرف ہوئے ہیں۔ ([منح الروض الازھر ، ص151)

(3)امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ حمزہ الزیات کہتے تھے : میں نے اپنے رب کے سامنے سورۂ یٰسٓ اور طٰہٰ کی قراءت کی ہے۔ ([الیواقیت و الجواہر ، ص162ماخوذاً)

(4)حضرتِ سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں خواب میں دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوا ، میں نے عرض کی : اے رب! تیرے نزدیک کون سا عمل افضل ہے جس کے ذریعے مقربین تیرا قرب حاصل کرتے ہیں؟ ارشاد فرمایا : اے احمد! وہ میرا پاک کلام(قراٰنِ پاک) ہے۔ میں نے عرض کی : اے رب! اسے سمجھ کر پڑھےیا بغیرسمجھے پڑھے۔ ارشاد فرمایا : سمجھ کر پڑھےیا بغیر سمجھے۔ ([احیاء العلوم ، 1 / 364)
مکمل تحریر >>

وحی کسے کہتے ہین

وَحی کسے کہتے ہیں لُغَت(Dictionary) کے مطابق وَحی کا معنی خفیہ طریقے سے خبر دینا، اشارہ کرنا، پیغام دینا وغیرہ ہے جبکہ شریعت کی اِصطلاح میں انبیائے کرام علیہمُ الصّلٰوۃ والسَّلام پر اللہ پاک کی طرف سے نازل ہونے والے کلام کو ”وَحی“ کہتے ہیں۔

وَحی کی اقسام انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے حق میں وحی کی تین قسمیں ہیں: (1)فرشتے کے واسطے کے بغیر براہِ راست (Direct) اللہ کریم کا کلام سننا جیسے کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السَّلام نے جبکہ شبِ معراج ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سنا (2)فرشتے کے واسطے سے اللہ کا پیغام آنا (3)انبیا کے دل میں کسی بات کا ڈالا جانا۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں.

کشف کے معنیٰ ہیں کسی بات یا واقعہ کا کھل جانا یا کسی پر غیبی چیز کا منکشف ہو جانا۔
الہام کے معنی ہیں دل میں کسی بات کا القا ہوجانا اور وحی کہتےہیں اللہ تعالی کی جانب سے نبی کی طرف بھیجا جانے والا پیغام۔ الہام کی حقیقت یہ ہے کہ بغیر نظر واستدلال کے اﷲ تعالیٰ کوئی حقیقت بندے کے قلب میں القاء فرمادیں ، یا کسی غیبی مخلوق کے ذریعہ اطلاع بخش دیں جیسا کہ اس حدیث میں ہے :
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ انَّ اللّٰہ تَعَالٰی جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِہٖ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ مَانَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ فَقَالُوْا فِیْہِ وَقَالَ فِیْہِ عُمَرُ الَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ فِیْہِ عَلٰی نَحْوِمَا قَالَ عُمَرُ (
جامع ترمذی - حدیث 3682 )
ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حق بات کو (الہام کے ذریعہ سے) عمر کی زبان اور قلب پر جاری کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب کبھی لوگوں کو کوئی (نئی) بات پیش آئی پھر اس کے بارے میں لوگوں نے بھی اپنی رائے دی اور حضرت عمر نے بھی اپنی رائے دی تو قرآن (ہمیشہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے موافق ہی نازل ہوا۔
اسی طرح بخاری شریف میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل میں مرقوم ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنْ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ زَادَ زَكَرِيَّاءُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ فَإِنْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدث (صاحب الہام) ہواکرتے تھے ، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں ۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود ان سے کلام کیا جاتا تھا اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں ۔
محدث وہ جس پر خدا کی طرف سے الہام ہو اور حق اس کی زبان پر جاری ہوجائے یا فرشتے اس سے بات کریں یا وہ جس کی رائے بالکل صحیح ثابت ہو، محدث وہ بھی ہوسکتا ہے جو صاحب کشف ہو جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت میں حضرت یوحنا حواری گزرے ہیں جن کے مکاشفات مشہور ہیں، یقینا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں ۔


معلوم ہواکہ الہام اور کشف اور وحی تینوں چیزیں اللہ تعالی کے چاہنے سے ہی ہوتی ہیں ،انکا منبع ایک ہی ہےلیکن ان میں بنیادی فرق ہے کہ وحی نبی کے ساتھ خاص ہوتی ہے اور الہام اور کشف غیر بنی کو ہوتے ہیں۔ وحی تو نبوت کے ساتھ ختم ہو گئی ۔ اب اگرکوئی اس کادعوی کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے۔کشف والہام کا حکم یہ ہے کہ ان سے علم ظنی حاصل ہوتا ہے ، اگر شرعی قواعد کے مطابق ہے تو قابل عمل ہے ورنہ واجب الترک ہے۔ان دونوں کی رو اسے اگر کوئی حقائق ومعارف کادعوی کرے تو صرف وہی حقائق ومعارف مقبول ہیں جن کو شریعت مسترد نہ کرے.
مکمل تحریر >>

*قرآن و حدیث میں کشف و کرامات و تصرفات اولیاء اللہ کا بیان*

*قرآن و حدیث میں کشف و کرامات و تصرفات اولیاء اللہ کا بیان*

 اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورہ نمل  میں ارشاد فرماتا ہے. 
قَالَ يَآ اَيُّـهَا الْمَلَاُ اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِىْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ يَّاْتُوْنِىْ مُسْلِمِيْنَ (38) 
کہا اے دربار والو! تم میں کوئی ہے کہ میرے پاس اس کا تخت لے آئے اس سے پہلے کہ وہ میرے پاس فرمانبردار ہو کر آئیں۔

قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ ۖ وَاِنِّىْ عَلَيْهِ لَقَوِىٌّ اَمِيْنٌ (39) 
جنوں میں سے ایک دیو نے کہا میں تمہیں وہ لا دیتا ہوں اس سے پہلے کہ تو اپنی جگہ سے اٹھے، اور میں اس کے لیے طاقتور امانت دار ہوں۔

قَالَ الَّـذِىْ عِنْدَهٝ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٝ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْۖ لِيَبْلُوَنِـىٓ ءَاَشْكُـرُ اَمْ اَكْفُرُ ۖ وَمَنْ شَكَـرَ فَاِنَّمَا يَشْكُـرُ لِنَفْسِهٖ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّىْ غَنِىٌّ كَرِيْـمٌ (40) 
اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے تیری آنکھ جھپکنے سے پہلے لا دیتا ہوں، پھر جب اسے اپنے روبرو رکھا دیکھا تو کہنے لگا یہ میرے رب کا ایک فضل ہے، تاکہ میری آزمائش کرے کیا میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری، اور جو شخص شکر کرتا ہے اپنے ہی نفع کے لیے شکر کرتا ہے، اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بھی بے پروا عزت والا ہے۔

قرآن کریم کے ایک ولی اللہ کے تصرف کو اس طرح واضح بیان کرنے کے بعد بھی کوئی تصرف ولی کو شرک کہے تو پھر یا عقل سے فارغ ہے یا ایمان سے یا شاید دونوں سے. 

حضرت مریم رضی اللہ عنھا کی کرامت
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا موقع آیاتوآپ کی والدۂ ماجدہ حضرت مریم رضی اللہ عنھا ایک درخت کے تنے کے پاس آئیں، جوسوکھاتھا، اُس پر کھجورنہ تھے ، اللہ تعالی نے فرمایا:
وَهُزِّیْ إِلَيْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْکِ رُطَبًا جَنِيًّا-
ترجمہ:اور کھجور کے درخت کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ، یہ تم پر تازہ اور پکے کھجور گرادے گا۔(سورۃمریم ۔25)

     آیتِ مذکورہ میں بتایا گیا کہ حضرت مریم رضی اللہ عنھا نے کھجور کے درخت کو ہاتھ لگایا تو وہ اسی وقت تروتازہ کھجور آپ کی گود میں ڈالنے لگا ، ظاہر ہے سوکھا ہوا درخت تروتازہ ہوتاہے تواُس کے لئے وقت درکار ہے ، مختصر لمحات یا چند گھنٹوں میں بے پھل درخت پھلدار نہیں ہوتا‘ خشک درخت سرسبز نہیں ہوتا‘ سوکھے ہوئے درخت پر پھل نظر نہیں آتے ، سوکھے درخت کا لمحہ بھرمیں تروتازہ اور پھلدار ہوجانا اور وہ بھی مریم کے فرمان پر یقیناخداکی اس محبوب ولیہ کی کرامت ہے ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ رضی اللہ عنھا کی کرامت
قرآن کریم میں بیان کی جا نیوالی غیر انبیاء کی کرامتو ں میں سے ایک حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ رضی اللہ عنھا کو غیبی خبر کا الہام کیا جانا ہے :

وَاَوْحَيْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِيْهِۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَاَ لْقِيْهِ فِى الْيَمِّ وَلَا تَخَافِىْ وَلَا تَحْزَنِىْۚ اِنَّا رَاۤدُّوْهُ اِلَيْكِ وَجٰعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ
سورہ القصص آيت 7
یعنی اللہ کی جانب سے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے پاس وحی (الہام) ہوئی کہ تم اس بچے کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا ئے نیل میں ڈال دو اور یہ خوش خبری بھی دیدی گئی کہ ہم اس کو پھر تمہارے پاس پہنچادیں گے اور اس کو (اپنا رسول )بنائیں گے۔
 یہ سب مستقبل اور غیب کی خبریں ہیں جو ام موسی علیہ السلام کو دی گئیں مگر کچھ بیوقوف انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی کو کشف یا الہام کے ذریعے غیبی خبریں ملنے کو شرک تصور کرتے ہیں. 

*بخاری و مسلم میں کشف و کرامت اور تصرف ولی کا بیان*

 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی لڑکا جھولے میں (یعنی شیرخوارگی میں) نہیں بولا: مگر تین لڑکے۔ ایک تو عیسی علیہ السلام، دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج کا قصہ یہ ہے کہ وہ ایک عابد شخص تھا سو اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اسی میں رہتا تھا۔ اس کی ماں آئی وہ نماز پڑھ رہا تھا، ماں نے پکارا: اے جریج! وہ بولا: اے رب! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز ہی میں رہا اس کی ماں پھر گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہو ا، پھر آئی اور پکارا: اے جریج! وہ بولا: یا اللہ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز ہی میں رہا۔ اس کی ماں بولی: یا اللہ! اس کو مت مارنا جب تک بدکار عورتوں کا منہ نہ دیکھے۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا۔ اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے۔ وہ بولی: اگر تم کہو تو میں جریج کو بلا میں ڈال دوں، پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی، لیکن جریج نے اس طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چروا ہے کے پاس آئی جو جریج کے عبادت خانہ کے پاس ٹھہرا کرتا تھا اور اجازت دی اس کو اپنے سے صبحت کرنے کی، اس نے صبحت کی وہ پیٹ سے ہوئی اور جب بچہ جنا تو بولی: کہ یہ بچہ جریج کا ہے لوگ یہ سن کر جریج کے پاس آئے اور اس سے کہا: اتر اور اس کا عبادت خانہ گرا دیا اور اس کو مارنے لگے وہ بولا: کیا ہو ا تم کو؟ انہوں نے کہا: تو نے زنا کیا اس بدکار عورت سے، وہ ایک بچہ بھی جنی ہے تجھ سے۔ جریجنے کہا: وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے،جریج نے کہا: ذرا مجھ کو چھوڑو میں نماز پڑھ لوں، پھر نماز پڑھی اور آیا اس بچہ کے پاس اور اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا: اے بچے! تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا: فلانا چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ دوڑے جریج کی طرف اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے تیرا عبادت خانہ ہم سونے سے بنا دیتے ہیں۔ وہ بولا: نہیں مٹی سے پھر بنا دو جیسا تھا۔ لوگوں نے بنا دیا۔ تیسرا ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا اتنے میں ایک سوار نکلا عمدہ جانور پر ستھری پوشاک والا۔ اس کی ماں نے کہا:: یا اللہ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا۔ بچے نے یہ سن کر چھاتی چھوڑ دی اور اس سوار کی طرف دیکھا اور کہا: یا اللہ! مجھ کو ایسا نہ کرنا، پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔“سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہو ں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کے دودھ پینے کی نقل کرتے تھے اس طرح پر کہ کلمہ کی انگلی اپنے منہ میں ڈال کر چوستے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر لوگ ایک لونڈی کو لے کر نکلےجس کو مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے: تو نے زنا کرایا اور چوری کی۔ وہ کہتی تھی: اللہ مجھے کفایت کرتا ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ بچے کی ماں بولی: یا اللہ! میرے بچہ کو اس لونڈی کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس لونڈی کی طرف دیکھا اور کہنے لگا: یا اللہ! مجھ کو اس لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی۔ ماں نے کہا: او سر منڈے! جب ایک شخص اچھی صورت والا نکلا اور میں نے کہا: یا اللہ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا: یا اللہ! مجھ کو ایسا نہ کرنا اور یہ لونڈی کو لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں تو نے زنا کیا، چوری کی، تو میں نے کہا: یا اللہ! میرے بچے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ تو کہتا ہے: یا اللہ! مجھ کو اس کی طرح کرنا (یہ کیا بات ہے؟)۔ بچہ بولا: وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی یا اللہ! مجھ کو اس کی طرح نہ کرنا اور لونڈی پر لوگ تہمت کرتے ہیں، کہتے ہیں تو نے زنا کیا، چوری کی، حالانکہ نہ اس نے زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے، تو میں نے کہا: یا اللہ! مجھ کو اس کے مثل بنا۔“
(صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ، باب تَقْدِيمِ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى التَّطَوُّعِ بِالصَّلاَةِ وَغَيْرِهَا:
حدیث نمبر: 6509)
جریج کا یہ واقعہ بخاری شریف میں حدیث نمبر: 1206 میں بھی موجود ہے
 بخاری و مسلم کی اس روایت میں جریج نہ تو کوئی نبی تھا نہ فرشتہ.. نیک آدمی (اللہ کا ولی) تھا لیکن بچہ اسکے کہنے پر بولنے لگ گیا..
اور ایک دودھ پیتا بچہ اللہ کے حکم سے غیب کی باتیں جان  سکتا ہے تو اب اس طرح کی کرامات کا انکار کر کے اسے کفر و شرک کہنے والے کون سے دین یا بخاری مسلم کا درس دیتے ہیں ؟

اسی طرح صحیح مسلم میں اصحاب الاخدود کا واقعہ مرقوم ہے جس میں ایک راہب اور اسکے شاگرد کی کرامات، کشف، الہام اور مستقبل بینی کا تفصیلی تذکرہ ہے. حدیث کیونکہ طویل ہے اسکی ساری روایت بیان کرنا چھوٹے مضمون میں ممکن نہیں. جسے مکمل حدیث پڑھنی ہو وہ صحیح مسلم میں نے كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ کا باب اصحاب الاخدود کا قصہ
حدیث نمبر: 7511 تفصیل سے پڑھ سکتا ہے. 

بخاری کتاب التفسیر میں حضرت خضر علیہ السلام کا تصرف بیان کیا گیا ہے کہ 
"آپ نے گرتی دیوار کو فقط ہاتھ سے مس کر کے دوبارہ صحیح حالت میں لوٹا دیا" 
صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ البَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا)  حدیث نمبر 4725
فقط مس کر کے قابل تعمیر دیوار کو صحیح سالم کر دینا واضح  تصرف ہے. 
حضرت خضر علیہ السلام کے نبی یا غیر نبی ہونے میں علماء کرام کا اختلاف ہے اور کسی کے پاس بھی اپنی یا تفہیم کے علاوہ قطعی دلیل موجود نہیں. حضرت خضر علیہ السلام کے کشف و الہام، تصرفات کا بیان سورہ کہف میں تفصیل سے موجود ہے. 

 *کرامات ِ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ*

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور  تابعین رحمہم اللہ اور دیگر صالحین کی کرامات تو بہت زیادہ ملتی ہیں مگر اختصار سے چند ایک کا بیان کیا جاتا ہے تا کہ کرامات کو جھوٹی کہانیاں کہنے والوں کا جھوٹ و فریب آشکار ہو سکے. 

نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابی حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ کا کشف یعنی علمِ غیب دیکھئے کہ اپنی مَوت، نَوعِیَتِ مَوت، حُسنِ خاتِمَہ وغیرہ سب کی خبر پہلے سے دے دی۔ چنانچہ حضرت سیّدُنا جابِر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب غَزْوَۂ اُحُد ہوا میرے والد نے مجھے رات میں بُلا کر فرمایا: میں اپنے متعلق خیال کرتا ہوں کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ میں پہلا شہید میں ہوں گا۔میرے نزدیک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد تم سب سے زیادہ پیارے ہو۔ مجھ پر قرض ہے تم ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے لئے بھلائی کی وَصِیَّت قبول کرو۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم نے دیکھا صبح سب سے پہلے شہید وہی تھے۔(بخاری،ج1،ص454،حدیث:1351مختصراً)

اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سورۂ کہف پڑھ رہے تھے تو آسمان سے ایسی چیز اتری تھی جو بادل کا سیاہ سائبان معلوم ہوتا تھا اور جس میں گویا چراغ روشن تھے۔ یہ فرشتے تھے جو کہ ان کی قرأت سننے کے لیے آئے تھے۔
(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، رقم: 3614، مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب نزول السکینۃ رقم: 1859، ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فی سورۃ الکہف، رقم: 2885، مسند احمد4؍281۔)

سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو فرشتے سلام کیا کرتے تھے۔
(مسلم کتاب الحج، باب التمتع، رقم: 2974۔)

سیدناسلمان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہما جس طشتری میں کھانا کھا رہے تھے کہ وہ طشتری یا وہ چیزیں جو کہ اس میں تھیں، تسبیح پڑھنے لگیں۔ سیدناعباد بن بشر رضی اللہ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے پاس سے اندھیری رات میں نکلے تھے اور تازیانہ کے کنارے کی شکل کا ایک نور ان کے لیے روشنی کرتا تھا۔ جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو وہ روشنی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک حصہ ایک کے ساتھ اور ایک حصہ دوسرے کے ساتھ ہوگیا۔
(بخاری، 3805، کتاب مناقب الانصار، باب منقبہ، اُسید بن حضیر و عباد بن بشر، مسند احمد3؍131)

بخاری و مسلم میں سیدناصدیق رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے کہ جب وہ تین مہمانوں کے ہمراہ اپنے گھر کی طرف گئے۔ جو لقمہ کھاتے تھے، اس کے نیچے کھانا بڑھ کر اس سے زیادہ ہو جاتا تھا چنانچہ سب نے پیٹ بھر کر کھا بھی لیا اور کھانا بھی پہلے کی نسبت زیادہ ہوگیا۔ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ کھانا پہلے سے زیادہ ہے تو سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اس کھانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے پاس لے گئے۔ وہاں بہت سے لوگ آئے سب نے کھانا کھایا اور سب سیر ہوگئے۔
(بخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب السمر مع الضیف والاھل رقم: 602، مسلم کتاب الاشربہ، باب اکرام الضیف، رقم: 5365)

سیدناخبیب بن عدی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں مشرکین کے پاس قیدی تھے اور ان کے پاس انگور لائے جاتے تھے جنہیں آپ کھایا کرتے تھے، حالانکہ مکہ میں انگور نہیں ہوتے۔
(بخاری ، کتاب الجہاد باب ھل یستاثر الرجل ومن لم یستاثر، 3045)

سیدناعامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔ لوگوں نے ان کی نعش کو ڈھونڈا لیکن نہ ملی۔ بات یوں ہوئی کہ نعش قتل ہوتے ہی اٹھا لی گئی تھی، عامر بن طفیل نے نعش کو ہوا میں اٹھتے ہوئے دیکھا۔ عروہ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں فرشتوں نے اٹھا لیا تھا۔
سیدہ اُم ایمنrہجرت کر کے نکلیں تو ان کے پاس راستے کا خرچ تھا اور نہ پانی، قریب تھا کہ پیاس سے ہلاک ہو جاتیں۔ روزہ دار بھی تھیں، جب افطار کا وقت قریب آیا تو ان کو اپنے سر پر کوئی آہٹ سنائی دی۔ سر اٹھایا تو کیا دیکھتی ہیں کہ ایک ڈول لٹک رہا ہے۔ چنانچہ آپ نے اس ڈول سے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور زندگی بھر ان کو کبھی پیاس نہیں لگی۔
(ابن سعد 8/224۔ الاصابہ۔ باسناد رجالہ ثقات ولکنہ منقطع)

حضرت سیّدُنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی کرامت بھی بہت مشہور ہے کہ یہ رُوم کی سَرزمین میں دورانِ سفر اسلامی لشکر سے بِچَھڑ گئے۔ لشکر کی تلاش میں جارہے تھے کہ اچانک جنگل سے ایک شیر نکل کر ان کے سامنے آگیا۔حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو مخاطب کر کے کہا: اے شیر! اَنَامَولٰی رَسُولِ اللہِ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم یعنی میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا غلام ہوں، میرا معاملہ اِس اِس طرح ہے۔ یہ سُن کر شیر دُم ہِلاتا ہُوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا۔ جب کوئی آواز سنتا تو اُدھر چلا جاتا، پھر آپ کے بَرابَر چلنے لگتا حتّٰی کہ آپ لشکر تک پہنچ گئے پھر شیر واپس چلا گیا
(مستدرک حاکم3؍606، مجمع الزوائد9؍366، والبیہقی فی الدلائل6؍46)

براء بن مالک رضی اللہ عنہ جب اللہ کو قسم دیتے تھے تو ان کی قسم سچی کر دی جاتی تھی۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب براء بن مالک، رقم: 3854)

جب جہاد میں جنگ کا زور مسلمانوں پر آپڑتا تھا تو صحابہ رضی اللہ عنہم فرمایا کرتے تھے، اے براء رضی اللہ عنہ اپنے پروردگار کو قسم دو۔ آپ کہا کرتے تھے ''اے میرے پروردگار میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے۔ (یعنی ان کی مشکیں باندھ کر ہمارے حوالے کر دے) تو پھر دشمن کو شکست ہوجاتی تھی چنانچہ جب یوم قادسیہ میں آپ نے کہا کہ اے میرے پروردگار! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے اور مجھے پہلا شہید بنا تو کفار کو شکست ہوگئی اور سیدنابراء رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔
سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب ایک مستحکم قلعہ کا محاصرہ کر لیا، تو کفار سے کہاکہ اسلام قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک اسلام نہیں لائیں گے جب تک تو زہر نہ پی لے۔ سیدناخالد رضی اللہ عنہ نے زہر پی لیا لیکن انہیں کچھ نقصان نہ ہوا۔
(مجمع الزوائد، 9؍350، طبرانی)

سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس درجہ مستجاب الدعوات تھے کہ جو دعا بھی کرتے تھے، منظور ہوجاتی تھی۔ آپ ہی نے کسریٰ کی فوجوں کو ہزیمت دی اور عراق فتح کیا۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب سعد بن ابی وقاص، رقم: 3751)

امیرالمؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کا سپہ سالاربنا کر نہاوند کی سرزمین میں جہاد کے لیے روانہ فرمادیا۔ آپ جہاد میں مصروف تھے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجدنبوی کے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ناگہاں یہ ارشاد فرمایا کہ یَاسَارِیَۃُ الْجَبَل (یعنی اے ساریہ!پہاڑکی طرف اپنی پیٹھ کرلو) حاضرین مسجد حیران رہ گئے کہ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو سرزمین نہاوند میں مصروف جہاد ہیں اورمدینہ منورہ سے سینکڑوں میل کی دوری پر ہیں۔آج امیر المؤمنین نے انہیں کیونکر اورکیسے پکارا ؟ لیکن نہاوند سے جب حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاصد آیا تو اس نے یہ خبر دی کہ میدان جنگ میں جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی اتنے میں ناگہاں ایک چیخنے والے کی آواز آئی جو چلا چلا کریہ کہہ رہا تھا کہ اے ساریہ ! تم پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو ۔ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز ہے، یہ کہا اورفوراً ہی انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کر کے صف بندی کا حکم دیا اور اس کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو ایک دم اچانک جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اوردم زدن میں اسلامی لشکرنے کفار کی فوجوں کو روندڈالا اورعساکر اسلامیہ کے قاہرانہ حملوں کی تاب نہ لاکر کفار کا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا۔ (مشکوٰۃ باب الکرامات ، بیہقی دلائل النبوۃ6؍370  طبرانی ،ابو نعیم وتاریخ الخلاء,  الاصابہ لابن حجر قال الالبانی وقد خرجۃ فی الصحیحہ 1110۔)

حضرت امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرزمین روم میں مجاہدین اسلام کا ایک لشکر بھیجا ۔ پھر کچھ دنوں کے بعد بالکل ہی اچانک مدینہ منورہ میں نہایت ہی بلندآواز سے آپ نے دو مرتبہ یہ فرمایا : یَالَبَّیْکَاہُ!یَالَبَّیْکَاہُ!  (یعنی اے شخص! میں تیری پکار پر حاضر ہوں)اہل مدینہ حیران رہ گئے اوران کی سمجھ میں کچھ بھی  آیا کہ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس فریاد کرنے والے کی پکار کا جواب دے رہے ہیں؟ لیکن جب کچھ دنوں کے بعد وہ لشکر مدینہ منورہ واپس آیا اوراس لشکر کا سپہ سالاراپنی فتوحات اور اپنے جنگی کارناموں کاذکر کر نے لگا تو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان باتوں کو چھوڑدو! پہلے یہ بتاؤ کہ جس مجاہد کو تم نے زبردستی دریا میں اتاراتھا اوراس نے یَاعُمَرَاہُ! یَاعُمَرَاہُ!  (اے میرے عمر!میری خبرلیجئے ) پکارا تھا اس کا کیا واقعہ تھا. سپہ سالارنے فاروقی جلال سے سہم کر کانپتے ہوئے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اپنی  دریا کے پار اتارنا تھا اس لئے میں نے پانی کی گہرائی کا اندازہ کرنے کے لیے اس کو دریا میں اترنے کا حکم دیا ،چونکہ موسم بہت ہی سرد تھا اور زور دار ہوائیں چل رہی تھیں اس لئے اس کو سردی لگ گئی اوراس نے دو مرتبہ زور زور سے  یَا عُمَرَاہُ! یَاعُمَرَاہُ! کہہ کر آپ کو پکارا،پھر یکایک اس کی روح پرواز کر گئی ۔ خدا گواہ ہے کہ میں نے ہرگز ہرگز اس کو ہلاک کرنے کے ارادہ سے دریا میں اترنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ جب اہل مدینہ نے سپہ سالارکی زبانی یہ قصہ سناتو ان لوگوں کی سمجھ میں آگیا کہ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن جو دو مرتبہ یَالَبَّیْکَاہُ! یَالَبَّیْکَاہُ! فرمایا تھا درحقیقت یہ اسی مظلوم مجاہد کی فریاد وپکارکا جواب تھا ۔ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سپہ سالارکا بیان سن کر غیظ وغضب میں بھر گئے اورفرمایاکہ سر دموسم اور ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں میں اس مجاہد کودریا کی گہرائی میں اتارنا یہ قتل خطا کے حکم میں ہے ،لہٰذا تم اپنے مال میں سے اس کے وارثوں کو اس کا خون بہا ادا کرواورخبردار! خبردار!آئندہ کسی سپاہی سے ہرگز ہرگز کبھی کوئی ایسا کام نہ لینا جس میں اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہوکیونکہ میرے نزدیک ایک مسلمان کا ہلاک ہوجانا بڑی سے بڑی ہلاکتوں سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر ہلاکت ہے۔( ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء للشاہ ولی اللہ)۔

زنیرہ رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے کی وجہ سے عذاب دیا گیا لیکن اس نے اسلام نہ چھوڑا اور اس کی بینائی جاتی رہی۔ مشرکوں نے کہا، اس کی بینائی لات و عزیٰ لے گئے۔ زنیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ''واللہ ہرگز نہیں'' اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔
(الاصابہ: 6/312۔)

سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے ارویٰ بنت حکم کے خلاف بددعا کی اور وہ اندھی ہوگئی۔ واقعہ یوں ہے جب کہ ارویٰ نے سعید پر کوئی جھوٹا الزام لگایا تو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! اگر وہ جھوٹی ہے تو اسے آنکھ سے اندھی کر دے یا اسے اسی زمین میں ہلاک کر دے، چنانچہ وہ اندھی ہوگئی۔ اور اپنی زمین کے ایک گڑھے میں گر کر مر گئی۔
(مسلم کتاب المساقاۃ، باب تحریم الظلم، وغصب الارض وغیرھا، رقم: 1610)

علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی طرف سے بحرین کے حاکم تھے اور اپنی دعا میں کہا کرتے تھے۔ یاعلیم، یا حلیم، یا علی، یاعظیم، تو ان کی دعا قبول ہوجایا کرتی تھی۔ایک مرتبہ ان کے کچھ آدمیوں کو پینے اور وضو کرنے کے لیے پانی نہ ملا تو آپ نے دعا کی اور قبول ہوگئی۔ ایک دفعہ سمندر ان کے سامنے آگیا اور وہ گھوڑوں کے ذریعہ اسے عبور کرنے پر قادر نہ تھے۔ آپ نے دعا کی تو ساری جماعت پانی پر سے گزر گئی اور ان کے گھوڑوں کی زینیں بھی تر نہ ہوئیں۔ پھر آپ نے دعا کی کہ میں مرجائوں تو یہ لوگ میری نعش نہ دیکھنے پائیں۔ چنانچہ ان کی نعش لحد میں نہ پائی گئی۔
(الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ)

 حضرتِ سیِّدُنا امام مالک بن اَنس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے مشہورِ زمانہ مجموعہ احادیث'' مُوَئطّاامام مالِک'' میں فرماتے ہیں،حضرتِ سیِّدُنا عُر وہ بن زُبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ا ُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا،خلیفۃُ الرَّسول حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہنے اپنے مرضِ وفات میں انہیں وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، میری پیاری بیٹی ! آج تک میرے پاس جو میرا مال تھا ، وہ آج مِیراث کا مال ہے تمہارے دو بھائی( عبدالرحمٰن ا ور محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) اور تمہاری دو بہنیں (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) ہیں لہٰذا تم لوگ میرے مال کو قراٰنِ مجید کے حکم کے مطابِق تقسیم کر لینا ۔ یہ سُن کر حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی، ابّا جان! میری توایک ہی بہن'' بی بی اَسمائ'' ہیں، یہ میری دوسری بہن کون ہے؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے ارشاد فرمایا ، وہ (تمہاری سَوتیلی والِدہ)'' حبیبہ بنتِ خَارِجَہ'' (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)کے پیٹ میں ہے، میرے خیال میں وہ لڑکی ہے ۔
( المُؤطّالِلامامِ مالک ج 2 ص 270 حدیث 1503 )

اِس حدیث کے تَحت حضرتِ سیِّدُنا علّامہ محمد بن عبدُالْباقی زُرْقانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَّانی تحریر فرماتے ہیں ، چُنانچِہ ایسا ہی ہوا کہ لڑکی پیدا ہوئی جن کا نام'' اُمِّ کُلثُوم'' رکھا گیا۔( شرحُ الزُّرقانی علی المُؤَطّا ج4ص61)
محترم قارئین!ا ِس حدیث مبارَک کے بارے میں حضرتِ علّامہ تاجُ ا لدّین سُبکی علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ القوی حجۃ اللہ علی العالمین میں بیان فرماتے ہیں کہ اس حدیث سےخلیفۃُ الرَّسول حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو کرامتیں ثابِت ہوتی ہیں:
(1) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبل از وفات ہی یہ علم ہو گیا تھا کہ میں اِس مرض میں دنیا سے رِحلَت( یعنی کُوچ) کرجاؤں گا ، اسی لیے توبوقتِ وصیّت فرمایا، میرے پاس جو میرا مال تھا ، وہ آج میراث کا مال ہے'' (2) جو بچّہ پیدا ہوگا وہ لڑکی ہے۔
( حُجَّۃُاللّٰہِ علَی العالَمِین ص612)
 
جو لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور اولیاءاللہ رحمہم اللہ کی کرامات میں انکا اپنا کچھ عمل دخل نہیں ہوتا اور انہیں کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ "سورہ ص" کی ان آیات مبارکہ کو بغور پڑھ کر اپنے عقیدہ کی اصلاح کر لیں۔
فَسَخَّرْنَا لَـهُ الرِّيْحَ تَجْرِىْ بِاَمْرِهٖ رُخَـآءً حَيْثُ اَصَابَ (36)
ترجمہ: پھر ہم نے ہوا کو اس کے تابع کر دیا کہ وہ اس کے حکم سے بڑی نرمی سے چلتی تھی جہاں اسے پہنچنا ہوتا
وَالشَّيَاطِيْنَ كُلَّ بَنَّـآءٍ وَّغَوَّاصٍ (37
اور شیطانوں کو جو سب معمار اور غوطہ زن تھے۔
وَاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِى الْاَصْفَادِ(38)
اور دوسروں کو جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔
هٰذَا عَطَـآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ بِغَيْـرِ حِسَابٍ (39)
یہ ہماری بخشش ہے پس احسان کر یا اپنے پاس رکھ کوئی حساب نہیں۔

*غیر مقلدین کے امام ابن تیمیہ کا کرامات و تصرفات کا اقرار*

علامہ ابن تیمیہ  فرماتے لکھتے ہیں کہ : بہت سے لوگ ولی اسے سمجھتے ہیں جس کے ہاتھ میں خوارقِ عادت چیزوں کا ظہور ہو، اور اس سے کشف کا ظہور ہو، اس سے بعض خارقِ عادت تصرفات کا ظہور ہو، مَثَلاً : وہ کسی کی طرف اشارہ کرے تو وہ مرجاۓ یا وہ ہوا میں اڑ کر مکہ یا دوسرے شہر پہنچ جاۓ یا وہ پانی پر چلے یا وہ ہوا سے لوٹا بھردے یا اس کے پاس کچھ نہیں مگر وہ غیب سے خرچ کرتا ہے، یا وہ نگاہوں سے غائب ہوجاتا ہے، یا جب کوئی اس سے مدد چاہتا ہے اور وہ اس کے پاس نہیں ہے، یا وہ اپنی قبر میں ہے تو وہ اس کے پاس آتا ہے اور وہ اس کی مدد کرتا ہے، یا چوری شدہ مال کی خبر دیتا ہے یا غائب آدمی کا حال بتلادیتا ہے، یا مریض کے احوال سے آگاہ کردیتا ہے ان خوارق عادت باتوں کا صدور اگرچہ کبھی الله کے ولی سے ہوتا ہے مگر کبھی اس طرح کی باتیں الله کے دشمنوں سے بھی ظاہر ہوتی ہیں  بلکہ ولی الله ہونے کا اعتبار ان کی صفات، افعال اور احوال سے ہوگا کہ وہ کتاب الله اور سنّت کے مطابق ہیں؟  (مجموع الفتاوى : 11 / 214)
مکمل تحریر >>

Wednesday 7 September 2022

تحریک ختم ‏نبوت ‏اور ‏نورانی ‏ڈاکٹرائن

*تحریک ختم ‏نبوت ‏اور ‏نورانی ‏ڈاکٹرائن*


*تحریر: ‏ابو رفیع سید محمد احمد کاظمی*

اللہ رب العزت نے اپنی ربوبیت الوہیت اور وحدانیت کو ہمیشہ مخفی رکھا، اور جب اس کو ظاہر کرنا چاہا تو مکمل اور منظم تدبیر کے ساتھ اس عظیم کائنات کو شرف تخلیق بخشا، جہاں جنات اور انسان سب کو رہنے کا موقع عطاء فرمایا۔ اپنی ربوبیت براہ راست نہیں ظاہر کی کیونکہ دیدار الٰہی کے عتاب کی تاب لانا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اللہ پاک نے اپنی ربوبیت کو ظاہر کرنا چاہا تو اپنے مظہر کو اس دنیا کے اندر بھیجا انسانیت کے پردے میں۔چاور اس رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا شرف عظیمت بخشا کہ خود ہی "لو لاک کما خلقت الافلاک" فرماکر ثقلان وغلمات پر یہ آشکار کردیا کہ یہ اب کچھ جو تخلیق کیا گیا صرف اور صرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان دکھانے کے لئیے پیدا فرمایا۔ یہاں پر امام احمد رضا نے ترجمانی کی اور فرمایا:

زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لیے

چنین و چناں تمہارے لئے ، بنے دو جہاں تمہارے لیے

اصالتِ کُل امامتِ کُل سیادتِ کُل امارتِ کُل

حکومتِ کُل ولایتِ کُل خدا کے یہاں تمہارے لیے


تمہاری چمک تمہاری دمک تمہاری جھلک تمہاری مہک

زمین و فلک سماک و سمک میں سکہ نشاں تمہارے لیے


اللہ پاک نے اس عظیم رسول کو سب سے آخر میں مبعوث فرمایا تاکہ تاکہ اس کے بعد پھر اس مسند پر کوئی نا آئے تا قیامت پھر اگر نام رہے گا تو اس پاک عظیم ہستی ہی کا رہے گا۔ اسی لئیے قرآن پاک میں علی الاعلان فرمایا:

سورۃ الأحزاب
آیت نمبر 40

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِكُمۡ وَلٰـكِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا  ۞

ترجمہ:
محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ‘ لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ‘ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔


اہل ایمان اس عقیدے کی ہمیشہ حفاظت کرتے آئے، چائے سیدنا ابوبکر صدیق کے دور میں اسود عنسی آیا تو قتل ہوا، مسلمہ کذاب آیا تو واصل جہنم ہوا. اس کے بعد جب بھی ختم نبوت پر کسی نے انگلی اٹھانے کا تصور بھی کیا تو اس کی انگلی ہی نہیں سر بھی دھڑ سے الگ کردیا گیا۔ جس کی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں۔

امت مسلمہ ایک اتحاد میں یک جسم ہوکر اپنا عروج بڑھاتی جارہی تھی مگر افسوس کسی کالی نظر کو ۔ کفر اور طاغوتی قوتوں کو یہ کہاں گوار گزرتا اس نے امت محمدیہ کے اندر اس عشق کو عقیدے کو ختم کرنے کے لئیے "فتنئہ قادیانیت" کو داخل کردیا۔ ہندوستان کی سرزمین سے غلام احمد نامی شخص جو کم وبیش 20بیماروں میں مبتلا تھا، اس کو کئی انجیکشن لگائے جاتے اور دماغی طور پر اس کو متذبذب کیا جاتا جس کے نتیجے میں کم۔وبیش 50 بیماروں کا وجود اس سے ثابت ہے۔ اس کو دماغی مرض بھی تھا ایسا مرض تھا جس کی تشخیص ڈاکٹرز نے ایسے کی کہ اس مرض میں انسان کسی بڑی چیز کا دعویٰ کرتا ہے پوزیشن اور عہدے کا اور ایسا ہی ہوا کہ اس بدبخت نے 11مراحل ہے کرتے ہوئے بالآخر خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے خلاف علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ جیسی شخصیات۔ پیر مہر علی جیسی شخصیات اسی وقت میدان عمل میں آئیں تو امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی کیسے چپ رہتے لیکن ان کو امام اعظم کا فرمان یاد آگیا کہ جو شخص دعوی کرے نبوت کا اس سے دلیل مانگنا بھی کفر ہے۔ الغرض آپ نے اس ذلیل کے واصل جہنم ہونے کے بعد بتایا سب کو اور لکھا بھی۔ لیکن یہ فتنہ ختم نہیں ہوا چونکہ انگریز اس کو مکمل پال پوس رہے تھے تو پاکستان بننے کے فورا بعد ان جاسوسوں نے پاکستان کی سیاست کو (ہائی جیک) کرلیا، قائد اعظم جیسی شخصیات کو راتسے سے زہر دے کر ہٹادیا گیا اور پاکستان کو مکمل قادیانی ملک بنانے کے اپنے دیکھے جانے لگے۔ لیکن اس وقت قربان جاؤں لیاقت علی خان جیسے عظیم لیڈرز پر۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسے لوگ، علامہ سید ابوالحسنات قادری جیسے لوگوں پر۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے علمائے کرام۔ جنہوں نے اس فتنے کے خلاف آواز اٹھائی اور قوم کو بیدار کیا۔ اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ ظفراللہ خان قادیانی اس فتنے کو پال رہے تھے۔ اس نے آہستہ آہستہ نشریات اطلاعات پر بھی قادیانی لوگوں کو طعینات کردیا۔ پاک فوج کے اندر پلید قادیانیوں کو بھارتی کیا جانے لگا۔


*تحریک ختم نبوت 1953ء*
بالآخر جب علمائے کرام نے محسوس کیا کہ اب پاکستان اپنی نظریاتی ساکھ ہی کھو رہا ہے۔ لیاقت علی خان جیسے راہنماؤں کو قتل کیا جارہا ہے۔ ملک کا وزیر اعظم ناظم الدین جیسے غدار آچکے ہیں۔ فوج کے اندر جنرل عاصم جیسے ڈاکو بیٹھے ہیں۔ اور حکومت کے اندر اسکندر مرزا جیسے ختم نبوت کے غدار بیٹھے ہیں۔ تو علمائے کرام نے اس "قادیانی انقلاب" کا راستہ روکنے کی مکمل تگ ودو کی۔ اور باقاعدہ "تحریک ختم نبوت" چلائی۔ جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ اور علماء شامل تھے۔ عوام اہلسنت ہر ہر شہر میں جلوس کی شکل اختیار کرکے "ختم نبوت زندہ باد" کے نعرے لگاتی کوئی احتجاج کی شکل میں تحریک چلاتی۔ اور علمائے کرام کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا "ختم نبوت پر جان بھی قربان" اس وقت ان تمام اکابرین اور علماء کے تین مطالبات تھے:

1__ ظفراللہ خان کو فی الفور وزارت خارجہ سے ہٹادیا جائے کیونکہ وہ سرے عام قادیانیت کی تبلیغ کررہا تھا،

2__ کوئی بھی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک ختم نبوت پر ایمان نا رکھے۔

3__ پاکستان میں حکومت اور بڑے عہدوں پر غیر مسلم نہیں آسکتا یہ قانون بنایا جائے۔


ان تین مطالبات پر جو نتیجے میں ضرورت پیش آئی وہ یہ تھی کہ:

1__ مسلمان کی تعریف کیا ہے
2__ قادیانیت کو اسلام سے خارج قرار دیا جائے
3__ ظفراللہ خان کو ہٹادیا جائے اور اہم عہدوں پر غیر مسلم کی تقرری پر پابندی لگائی جائے۔

یہ سارے وزراء اور حاکمان کو پیش کردئیے گئے اس وقت مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ نے وفد کے ساتھ یہ مطالبات جا کر کراچی میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے سامنے پیش کئیے تو اس نے کہا ہم آٹے اور دال تک کو ترس جائیں گے امریکہ ہمیں کچھ نہیں دے گا۔ اس کے بعد علمائے کرام نے وہی تحریک ختم نبوت شروع کی۔ مولانا عبدالستار خان ابھی تحریک چلا ہی رہے تھے کہ سارے قائدین کو گرفتار کرلیا گیا۔ جس میں تمام مکاتب فکر کے بڑے بڑے علماء علامہ ابوالحسنات قادری صاحب، سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب۔ ماسٹر تاج الدین انصاری صاحب۔ مولانا عبد الحامد بدایونی صاحب اور کافی اکابرین وعلماء کو گرفتار کرلیا گیا۔ اور عوام کو اس وقت فوج پولیس کے حوالے چھوڑ دیا گیا۔ جو علماء گرفتار نا تھے ان کو مولانا خلیل، علامہ غوث ہزاروی، مولانا عبدالستار خان نیازی جیسے بہادر علماء نے جمع کرنا شروع کیا اور ایک بار پھر سے اسی زور سے شروع ہوئی۔ لیکن اس بار ہر ہر جگہ فوج اور پولیس تعینات تھی جس جگہ سے جلوس گزرتا کئی جنازے ببی ساتھ ملاتے جاتے کئی عنفوان شباب کے نوجوان اپنی سانسیں نعرہ ختم نبوت پر نچھاور کرتے جاتے۔ پاک فوج میں موجود قادیانی جنرل عاصم جیسے بدبخت لوگوں نے اسکندر مرزا سے مل کر خون کی ہولی کھیلنا شروع کی ہزاروں علماء کو شہید کیا اور عوام کو گرفتار کرکے جنگلوں میں چھوڑ دیا گیا۔ اور کئی ہزار کارکنان اور قائدین کو یا تو زنندہ درغور کردیا گیا بے نام ونشان اجتماعی قبروں میں یا غریق آب کردیا گیا یا ان کو آگ لگادی گئی زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں علماء پر مقدمات دائر کردئیے گئے اور مولانا مودودی جیسے غلامی کو سزائے موت تک کے آرڈر جاری ہوگئے۔ اس وقت آن رکارڈ بات ہے کہ ایک فقیر سا بندہ بھی گرفتار تھا جس کو گرفتار اسی وجہ سے کیا گیا کہ نعرہ لگا رہا تھا ختم نبوت زندہ باد پولیس نے پکڑ کر گاڑی میں ڈالا اس وقت بھی اس کی زبان پر وہی نعرہ جاری تھا۔ اس کو بولا گیا کہ اس کی سزا موت ہے لیکن اس نے اور تیزی لگانا شروع کردیا بالآخر اس کو عدالت میں پیش کیا گیا جج نے ایک سال کی سزا دی تو وہ درویش چلا کر نعرہ بلند کرنے لگا "ختم نبوت زندہ باد" اس کے بعد جج نے ایک سال اور بڑھادی اس نے پھر نعرہ لگایا تو جج نے مزید بڑھادی ۔ بالآخر یہی بنتا رہا تو جج نے آرڈر دیا اس کو اسی وقت باہر لے جا کر گولی مار دی جائے یہ سن کو وہ درویش خوشی سے چلا اٹھا "ختم نبوت پر جان بھی قربان ہے" جج نے بالآخر حکم دیا کہ اس کو رہا کرو اس کے بعد بھی اس نے نعرہ لگایا "ختم نبوت زندہ باد" جج نے آرڈر جاری کردیا یہ دیوانہ ہے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

لاہور میں ایک جگہ جلوس نکلا تو اندھا دھند فائرنگ کردی گئی سینکڑوں شہادتیں ہوئیں لیکن ختم نبوت کے وہ نعرے جاری رہے۔ بالآخر جلوس اس ریڈ لائن تک پہنچ گیا جو پاک فوج نے لگائی تھی کہ اس سے آگے کوئی بڑھا تو گولی مار دی جائے گی۔ اس وقت ایک نوجوان آگے بڑھا اور جام شہادت نوش کرگیا۔ اسی کے بعد اس جیسا دوسرا آیا اس نے بھی اپنی جان قربان کردی۔ بعد میں پتہ چلا یہ دونوں سگے بھائی تھے۔ اسی طرح کئی لاشیں یہاں برتی گئیں بالآخر سارے مل کر نکلے اور ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگانے والی عوام اہلسنت کو بےدردی سے قتل کردیا گیا۔ لاہور اور کراچی کی سڑکیں کئی مہینوں تک خون سے لت پت رہیں بالآخر طاقت کے زور پر تمام علمائے کرام کو گرفتار کرلیا گیا۔ سید ابوالحسنات۔ عطاء اللہ شاہ بخاری۔ ماسٹر تاج الدین۔ شیخ حسان الدین۔ مولانا احمد لاہوری۔ سید نورالحسن شاہ۔ مولانا لال حسین۔ مولانا محمد حیات۔ خواجہ قمرالدین سیالوی۔ مولانا عبدالستار خان نیازی۔ مولانا غلام غوث ہزاروی۔ مولانا خلیل احمد۔ مولانا کفایت حسین نائب امیر تحریک شیعہ تھے اور گرفتار ہوئے۔ مولانا مظفر علی شمسی شیعہ گرفتار ہوئے۔ کافی کو شہید کردیا گیا۔ عوام کا منتشر کیا گیا۔ ہزاروں اکابرین اور مجاہدین اپنی کا۔ نچھاور کرگئے۔ لیکن یہ تحریک بالآخر دب گئی۔

*"امام احمد نورانی علیہ الرحمہ اور تحریک ختم نبوت"*

نواسہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ۔ صاحبزادہ شاہ عبد العلیم صدیقی نوراللہ مرقدہ امام انقلاب بصیرت کے سمندر سیاست کے شہنشاہ افق پر روشن ستارے نے اس تحریک میں دوبارہ جام ڈالی۔ سرے مکاتب فکر کو جمع کرنا شروع کیا۔ اور قادیانی انقلاب کا راستہ روکنے کی کوششیں تیز کردیں۔ "تحریک ختم نبوت" کای ابتداء ہوئی اور اس کا سربراہ دیوبندی عالم دین مولانا یوسف لدھیانوی کو مقرر کردیا گیا۔ یہ تحریک اس قلندر کی قیادت میں چل رہی تھی جس کے بابا نے اپنی خلافت میں اسود عنسی، سجاعہ اور مسلمہ کذاب جیسے بدبختوں کو واصل جہنم کردیا تھا۔ ان کا ہی خون شامل تھا نا کسی کی پرواہ کی نا خوف قید وبند، مولانا محمد شفیع اوکاڑوی جیسے علماء علامہ عبد المصطفیٰ ہزاروی جیسے علماء کو الیکشن میں کھڑا کروایا اور الیکشن میں کئی سیٹیں حاصل کیں۔ مولانا مفتی محمود بھی موجود تھے۔ بالآخر وہی پرانے مطالبات پیش کردئیے گئے کہ قادیانیت کا خارج از اسلام قرار دیا جائے۔ لیکن اس بار کے جو حالات تھے وہ بھی کم نہ تھے خون آشام حالات ہوچکے تھے ہر طرف شہادتیں ہوئیں۔ لیکن علمائے حق اتحاد پر ڈھٹے رہے بالآخر قادیانیت جیسے فتنے کو 7ستمبر 1974ء کو قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی گئی۔ اور اس انقلاب کا راستہ مکمل روک دیا گیا۔ پھر 1984ء میں ایک بار پھر قادیانیوں نے مذہبی آزادی کی اپیل کی لیکن علمائے کرام نے اس وقت بھی ان کو دلائل دے کر ہرا دیا اور عدالت نے ان کی اپیل خارج کردی۔ کم وبیش 10ہزار قربانیوں کے بعد پاکستان کا انظام ان قادیانی پلید کتوں سے پاک ہوگیا۔


*"نورانی ڈاکٹرائن ماضی اور حال"*

جس وقت کرام نے تحریک چلائی تو اس وقت کے غدار ختم نبوت جسٹس منیر نے ایک گناؤنی سازش کی۔ جو بھی علامہ دین جس مسلک کا جیل میں آتا اس سے سوال کرتا مسلمان کی تعریف کیا ہے؟؟ وہ اپنے نظریات کے مطابق جواب دیتا اس طرح اس کمبخت نے علمائے کرام ک مختلف تعریفات کو ملا کر "منیر انکوائری کمیشن رپورٹ" شائع کردی اور کہا کہ اگر صرف قادیانیوں کو کافر قرار دیا جائے تو بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ ان میں سے ہر ایک مکتبہ فکر دوسرے کی تعریف کے مطابق کافر ٹھہرتا ہے۔ اسمبلی میں تقریر چل رہی تھی کہ اس نے چیلنج دے دی کہ آپ لوگ ایک متفقہ تعریف لے آئیں ان شاءاللہ تعالیٰ عزوجل اس پر عمل ہوگا۔ جمیعت علمائے پاکستان کے علماء (مولانا شجاعت علی) نے ترجمانی کرتے ہوئے چیلنج قبول کیا۔

سارے مکتبہ فکر کے علماء کو جمع کردیا گیا اور ایک متفقہ تعریف پر زور دیا گیا تاکہ قادیانیت کو کسی بھی طرح نکال دیا جائے ۔ اس پر سارے اختلافات عقائد نظریات کو دیکھنے سے پہلے دین کی اصل اور ماخذ قرآن پاک کی طرف رجوع کیا گیا اس کی چند آیات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تعریف کی گئی کہ:

*"مسلمان ہر وہ شخص ہے جو ضروریات دین اور قرآن وسنت پر یقین رکھتا ہو،اور حضور نبی اکرم علیہ السلام کو آخری نبی مانتا اور قرآن وسنت کی تعبیر جو سلف صالحین سے اجماعا منقول ہے صحیح جانتا ہو"۔*

اسی تعریف کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ اور پھر اس کو دیکھ آئین پاکستان کے باب:5، آرٹیکل:260 دفعہ:3 کے تحت مسلمان اور کافر کی تعریف شامل کردیا گئی۔

امام احمد نورانی نے اس وقت سیاسی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے عظیم کارنہ انجام دیا۔ اور اس کے بعد گروپ وارانہ مواد میں کمی نظر آئی۔ کیونکہ جو مرتبہ اجماعی تعریف شائع کردی گئی اس کے مطابق کوئی فرقہ بنیادی طور پر کافر نہیں ٹھہرتا تھا۔ جس کے اندر کفر ہوگا وہ چائے کا جماعت کا ہو کافر ٹھہرے گا۔ اس پر اتفاق ہوا اور قادیانیت کو بالکل نامراد قرار دے دیا گیا۔ لیکن ان کو شک تھا کہ یہ لوگ گاؤں دیہاتوں میں حملہ آور یوں گے کیسے کی لالچ دے کر ان کو قادیانی بنادیں گے۔ تو آپ نے تبلیغ دین کے لئیے 8جماعتوں کے علاؤہ ایک جماعت بنائی اور فیصلہ کیا کہ یہ صرف اور صرف تبلیغ دین کا کام کرے گی اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاست ہم سنبھال لیں گے۔ لہذا "دعوت اسلامی" کی بنیاد رکھی اور اس طرح قادیانی لابیوں کا مکمل راستہ بند کردیا۔

مولانا شاہ احمد نورانی مذہبی علماء کا اتحاد چاہتے تھے ۔ اور پاکستان میں ایک اسلامی حکومت کا خواب دیکھ رہے تھے جس پر انہوں نے پہلے جمیعت علمائے پاکستان کی بنیاد رکھی پھر متحدہ مجلس عمل بنائی گئی جس میں تمام مکاتب فکر نے حصہ لیا اور کافی سیٹیں حاصل کیں۔

اس ساری کوشش کے بعد ایک اور پھر سے امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کے زریعے پاکستان میں قادیانیت کو مضبوط کرنا شروع کردیا۔ اور مشرف جیسے قادیانی جرنیلز آگئے جس نے پورے ملک میں فوجی طاقت کے بل بوتے پر قادیانیت لابیز کو شامل کردیا۔ علماء کو قتل کروادیا۔ آواز اٹھانے نہیں دیتا تھا کسی کو۔ اور پاکستان میں قادیانیت پھر جھنڈے گاڑنے لگی۔ علمائے کرام کے اندر پھر وہی پرانی بحث ومباحثہ شروع کروادیا گیا۔ ایک دوسر پر کفر کے فتوے آنا شروع ہوگئے۔ اور اس طرح پاکستان میں آج پھر سے 79-80٪ نظام مکمل قادیانیت کے حوالے ہے۔ آج اگر ہمارے اوپر فرض ہے تو وہی تعریف اور نورانی ڈاکٹرائن ہے۔ سب نے مل کر اس آئے ہوئے سیلاب اور فتنے کو روکنا ہے۔ مگر افسوس کہ آج دوسروں کو کیا ملاتے اپنوں کی ٹانگیں کھینچنے لگے پڑے ہیں۔ اگر پاکستان کو اس ناسور مرض سے بچانا ہے تو قادیانیت کے خلاف ایک پھر سے تحریک ختم نبوت چلانا ہوگی علماء کرام نے۔


اگر آج ہم نے اپنی ماضی کی قربانیوں کو یاد نہیں کیا۔ اپنی عوام اہلسنت کے خون علمائے کرام کی قربانیوں کو یاد نہیں کیا۔ مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی گرفتاری کو یاد نہیں کیا۔ قاضی احسان احمد شجاع آبادی کی کوششوں کو یاد نہیں کیا۔ مولانا جالندھری ہو ہونے والے ظلم کو یاد نہیں کیا۔ سید ابوالحسنات کی قید وبند کو یاد نہیں کیا۔ مولانا لال حسین اختر جیسے مرد سپاس کو یاد نہیں کیا۔ مولانا یوسف بنوری جیسے علماء کرام کی خدمات کو یاد نہیں کیا۔ علامہ صاحبزادہ افتخار الحان کی گرفتاری کو یاد نہیں کیا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کی درناک داستان کو یاد نہیں کیا جو جیل کے اندر ان پر ظلم وستم ہوا اس کو یاد نہیں کیا علامہ غلام غوث ہزاروی کی اولاد کی قربانیوں کو یاد نہیں کیا۔ مولانا یوسف لدھیانوی کی شہادت کو یاد نہیں کیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری کو ہم نے بلا دیا۔ خواجہ محمد ابراہیم کی کوششوں کو پس پشت ڈال دیا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی شہادت کی قدر نہیں کی۔ حضرت شاہ صافی سلیمان کو بلادیا۔ حضرت میاں میر شرقپوری کی خدمات کو نہیں پڑھا۔ مولانا سید شمس الدین کی شہادت کی قدر نا کی۔ خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی کی قربانیقں کو رائے گاں جانے دیا۔ مولانا عتیق الرحمن چنیوٹی کی عظیم قربانیوں کو اوراقوں میں دفن کردیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کو بلادیا۔ مولانا مودودی کی کاوشوں کو بلایا ۔۔مجاہد ختم نبوت آغا شورش کاشمیری کو بلادیا۔ مولانا تاج محمود پر ہونے والے ظلم وجبر کو بھول بیٹھے۔ محبوب علی شمسی (شیعہ) کی قربانیوں کو بھول گئے۔ مولانا کفایت حسین اور جعفر حسین شیعہ کو ہم نے کافر کہہ کر ٹھکرادیا۔ قائد انقلاب امام شاہ احمد نورانی کی عظیم قربانیوں کی قدر نہیں کی۔۔۔۔۔ تو یاد رکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن نہ آئے کہ پھر آپ کو خون میں لت پت ہونا پڑے۔ شہروں کی دیواریں خون سے رنگین ہوجائیں۔ ملک خدادا د پر مکمل قادیانی قابض ہوجائیں۔ اپنے اپنے امیر اپنے اپنے قائد سب کو مبارک مگر اس وقت وہ وقت نہیں کہ ہر کوئی اپنا قائد لے کر نکلے اگر مولانا نورانی دیوبندی عالم کو تحریک تحفظ ختم نبوت کا امیر مقرر کرسکتا ہے۔ اگر مولانا نورانی شیعہ عالم مولانا شمسی کا نائب امیر مقرر کرسکتا ہے۔ اگر جنرل سیکریٹری علمائے اہلسنت اور علمائے اہلحدیث میں سے کسی کو رکھ سکتا ہے تو وہ جزبہ آپ کو پیدا کرنا ہوگا قربانی دینی ہوگی ورنہ اللہ نا کرے آگے علماء کرام کا مکمل کردار ختم کرنے کا منصوبہ چل رہا ہے۔ صدارتی نظام لایا جائے گا جس میں ووٹ جیتنا بہت مشکل کام ہے چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بناکر۔ آپ کو اتحاد کرنا پڑے گا۔ شاہ احمد نورانی جیسا نا کوئی سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا سے محبت کرنے والا ہوگا۔ نا ہی مولنا شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ جیسا کوئی امیر معاویہ کا داعی ہوگا۔ نا ہی کوئی علمائے اہلسنت جیسا مولا علی کا محب ہوگا۔ نا ہی کوئی علمائے دیوبند جیسا کٹر حنفی ہوگا۔ وہ سب حالات کو سمجھ گئے اور متفقہ تعریف بھی شائع کروائی۔ آج پھر ہمیں ایک ہونا پڑے گا۔۔۔۔

اللہ پاک اس وطن عظیم کا حامی وناصر ہو۔ اللہ پاک تحریکی ختم نبوت کے مجاہدین کے درجات بلند فرمائے ۔ جس جس نے غداری کی کی آپ کے سامنے ذلیل ہوا۔ اور جلد ان شاءاللہ تعالیٰ عزوجل جو کو غدار ہے ذلیل اور رسوا ہوگا۔
مکمل تحریر >>

Saturday 6 August 2022

*شیعہ کی طرف سے ماتم کے تمام دلائل اور ان کے جوابات*♦️

♦️ *شیعہ کی طرف سے ماتم کے تمام دلائل اور ان کے جوابات*♦️

*ماتم کے حق میں دی گئی دلیلوں کے آسان اور عام فہم شافی جوابات نوجوان حضرات پڑھ کر رٹ لیں شيعوں کا منہ بند کرنے کے کام آئیں گی*

🔸  *شیعہ دلیل نمبر1* 🔸
حضرت یعقوبؑ بھی تو یوسفؓ کے غم میں روئے تھے یہاں تک کہ رو رو کر ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی، چنانچہ قرآن پاک میں آتا ہے کہ:
*’’وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ ‘‘:* (سورة یوسف آیت 84)
''اور اس نے منہ پھیر لیا اور کہنے لگا ہائے افسوس! یوسف پر اور غم واندوہ کی وجہ سے اس کی دونوں آنکھیں سفید ہوگئیں۔''
تو جب ایک نبی دوسرے نبی کے غم میں رو رو کر آنکھیں سفید کرسکتا ہے تو امام عالی مقام کا غم منانے پر کیا اعتراض ہے؟

🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹
*ماتمی شیعہ نے اس آیت کے لفظ *’’فَهُوَ كَظِيمٌ‘‘*  پر غور نہیں کیا، جس کا ترجمہ ہے کہ *’’وہ اپنے غم کو روکنے والے تھے‘‘*
معلوم ہوا کہ غم لاحق ہوناحضرت یعقوبؑ کا غیر اختیاری فعل تھا اور انہوں نے اپنا ارادہ و اختیار غم منانے پر نہیں بلکہ غم ختم کرنے پر صرف کیا۔ اسی کو صبر جمیل کہتے ہیں جس پر انعامات کی بشارتیں اللہ کا قرآن سناتا ہے۔
 2-آیت میں نہ *''منہ پیٹنے''*  کا لفظ ہے نہ  *''سینہ کوبی''*  اور  *''ماتم''*  کا بلکہ صرف *''حزن''*  کا لفظ ہے جس کا معنی صرف * ''غم واندوہ''*  ہے۔
3-حضرت یوسفؑ کے فراق کا صدمہ حضرت یعقوبؑ کو مسلسل رہا۔ لیکن جب دور فراق ختم ہوا اور آپؑ کو حضرت یوسفؑ کے تخت ِمصر پر متمکن ہونے کی بشارت ملی تو پھر آپؑ کا غم بھی جاتا رہا اور آنکھوں کی روشنی بھی واپس لوٹ آئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب تک کسی محبوب کی مصیبت باقی ہو اور اس کا صدمہ لاحق رہے لیکن صبر کے خلاف کوئی حرکت نہ کرے تو یہ غیر اختیاری ''غم و اندوہ ''گناہ نہیں اور جب وہ مصیبت ختم ہو جائے تو پھر غم بھی ختم ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ میدان کربلا میں حضرت امام عالی مقام اور آپ کے اعزہ واحباب پر جو مصیبت نازل ہوئی وہ وقتی تھی۔ شہادت کا درجہ پانے کے بعد جب آپ کو جنت مل گئی تو پہلی مصیبت ختم ہوگئی۔
اب شہدائے کربلا کی روحوں کو حسبِ آیاتِ قرآنی جنت کا رزق ملتا ہے اور وہ وہاں خوش ہیں تو اب رونے اور ماتم کرنے کا کیا موقعہ ہے؟ ہم تو حضرت یعقوبؑ کی پیروی کرتے ہیں کہ جب تک آپؑ مصیبت میں مبتلا تھے اس وقت بھی صبر کیا اور جب حضرت یوسفؑ کے بلند مقام کی بشارت ملی تو پہلا غم بھی بالکل ختم ہوگیا۔ مصر کے تخت سے جنت کا مقام تو اعلیٰ درجہ رکھتا ہے کیا ماتمیوں کو حضرت حسینؓ کے جنتی ہونے اور وہاں خوشیاں منانے کا یقین نہیں ہے اور اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جنت میں بھی وہ مصیبت میں ہیں۔
4- حضرت یوسفؑ کو مصر کی سلطنت ملنے کے بعد بھی کیا حضرت یعقوبؑ نے اس گزری ہوئی مصیبت کی یادگار میں ہر سال غم کی مجلس منعقد کی تھی؟
5-حضرت حسینؓ کے لیے سانحہ کربلا ایک بہت بڑا ایمانی امتحان تھا۔ جس میں آپؓ اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوئے تو اب  *''واہ واہ حسینؓ''* امام کربلا کی شان کے لیے مناسب ہے یا *''ہائے حسینؓ، ہائے حسینؓ''*  جو امام عالی مقام کو پاس سمجھتا ہے وہ ''واہ واہ'' کرے اور جو نعوذ باللہ فیل سمجھتا ہے وہ ''ہائے ہائے'' کرتا رہے ۔ نگاہ اپنی اپنی، پسند اپنی اپنی.
6- پاکستان میں کتنے ماتمی شیعہ ایسے ہیں جو امام حسینؓ کے غم میں اندھے ہوئے ہیں؟

🔸 *شیعہ دلیل نمبر 2*🔸
*ماتمی شیعہ حضرات اپنے ماتم کی حمایت میں پارہ 7المائدہ آیت 83 بھی پیش کرتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے:*
*"اور جب وہ سنتے ہیں اس کو جو رسول ﷺ کی طرف اتارا گیا تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے حق پہچان لیا۔" الخ۔*

🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹
1- یہ آیت ان عیسائیوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو ملک حبشہ سے حضرت جعفر بن ابی طالب کے ساتھ مدینے شریف پہنچے تھے اور جب رسول خدا ﷺ کی زبان مبارک سے انہوں نے قرآن مجید سنا تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ مسلمان ہوگئے۔ یہاں تو صرف آنکھوں سے آنسو جاری ہونے کا ذکر ہے اور وہ بھی قرآن سننے پر۔ اس کو تمہارے ماتم سے کیا تعلق ہے؟ 
 2-اگر ماتمیوں کے نزدیک اس آیت کا مطلب ماتم کرنا ہے تو پھر قرآن سننے پر ماتم کیوں نہیں کرتے؟

🔸 *شیعہ دلیل نمبر 3*🔸
*ماتمی شیعہ حضرات کا ایک استدلال یہ بھی ہے کہ فرعون کے غرق ہونے کے واقعے کے دوران اللہ جل شانہ فرماتے ہیں کہ*:
*’’فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ۠‘‘:*
*''نہ ان پر آسمان رویا نہ زمین نے گریہ کیا۔ اور نہ انہیں اللہ کی طرف سے مہلت دی گئی۔''*
معلوم ہوا کہ جو برے لوگ ہیں وہ اس قابل نہیں کہ ان پر رویا جائے، اس کے بالمقابل ثابت ہوتا ہے کہ اچھے لوگوں پر روناچاہئیے۔'

🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹
1- اس آیت میں نہ شہادت کا ذکر ہے نہ ماتم کا تو اس سے مروجہ ماتم کیسے ثابت ہوگیا۔
2- اس آیت میں کوئی حکم نہیں ہے کہ نیک لوگوں پر رونا چاہیے۔
3- کیا ماتمی لوگ زمین وآسمان کے مذہب کے پیروکار ہیں؟
4- اگر اللہ کے مقبول اور صالح بندے مستحق گریہ ہیں تو پھر حضرت امام حسنؓ اور دیگر صلحائے امت کی وفات پر ہر سال کیوں گریہ وماتم کی مجلس بپا نہیں کرتے؟
5- نیک لوگوں کی وفات پر طبعاً انسان کو افسوس ہوتا ہے اور غیر اختیاری طور پر رونا بھی آتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں، اعتراض تو سال بسال اس دن کی یادگار منانے اور بے صبری و نوحے کے اعمال کرنے پر ہے جن کے کسی ثبوت کا اشارہ بھی اس آیت سے نہیں نکلتا.

🔸 *شیعہ دلیل نمبر 4*🔸
*بعض ماتمی تفسیر ابن کثیر کے ایک حوالے سے بھی اپنے مروجہ ماتم کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تفسیر ابن کثیر میں ہابیل و قابیل کے واقعہ کے تحت لکھا ہے کہ:*
*''کہتے ہیں کہ اس صدمہ سے حضرت آدمؑ بہت غمگین ہوئے اور سال بھر تک انہیں ہنسی نہ آئی۔ آخر فرشتوں نے ان کے غم دور ہونے اور ہنسی آنے کی دعا کی۔''الخ*
*(تفسیر ابن کثیر مترجم جلد اول صفحہ86)*

🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹
1- فرمائیے! کیا اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ حضرت آدمؑ ہر سال''غم کی مجلس'' قائم کرتے تھے یا یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرشتوں نے ان کے غم کو دور کرنے کی دعا کی تھی؟ اس سے معلوم ہوا کہ غم دور کرنا ضروری ہے نہ کہ باقی رکھنا۔
2-حضرت آدم علیہ السلام نے ''منہ پیٹا'' اور نہ ''سینہ کوبی'' کی اور نہ کالے کپڑے پہنے تو ماتمی لوگ یہ کام کر کے کس کی سنت کی پیروی کرتے ہیں؟

🔸 *شیعہ دلیل نمبر 5*🔸
*''حضرت نوحؑ کا اصلی نام عبد الغفار تھا اور نوحہ کرنے کی وجہ سے نوح کہلاتے ہیں۔ ''(الصاوی علی الجلالین، جلد دوم صفحہ 133مطبوعہ مصر)*

🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹
1- حضرت نوحؑ کسی مقبول بندے کی مصیبت،بشارت کی وجہ سے سے نہیں روئے بلکہ اس کی وجہ سے خود صاوی حاشیہ جلالین میں یہ لکھی ہے :
*''لقب نوح لکثرة نوحة علی نفسہ حیث دعا علی قومہ فھلکوا ۔وقیل لمراجعتہ ربہ فی شان ولدہ کنعان۔*
"آپؑ کا لقب نوح اس لیے ہوا کہ آپ اس بنا پر زیادہ روتے رہے کہ آپؑ نے اپنی قوم کے لیے بددعا کی تھی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئی تھی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کے رونے کی وجہ یہ تھی کہ اپنے بیٹے کے بارے میں آپؑ نے اپنے رب تعالیٰ سے سوال کیا تھا۔"
2- اس نوحہ (رونے) سے منہ پیٹنا اور سینہ کوبی کرنا کیسے ثابت ہوگیا؟

🔸 *شیعہ دلیل نمبر 06*🔸
*حضرت ابراہیم بن محمد ﷺ کے انتقال کی آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی تو عبد الرحمن بن عوفؓ کے ساتھ تشریف لائے۔ نزع کی حالت تھی گود میں اٹھا لیا۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ (سیرت النبیؐ حصہ اول صفحہ 728)*

🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹
1-اس کے بعد یہ الفاظ بھی ہیں کہ:
''عبد الرحمن بن عوفؓ نے کہا یا رسول اللہﷺ ! آپ کی یہ حالت؟ آپ نے فرمایا یہ رحمت ہے۔''
اس سے ثابت ہوا کہ اپنے فرزندحضرت ابراہیم کے انتقال پر رحمت کی وجہ سے حضورﷺ کی آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے تھے لیکن اس سے ماتم مروّجہ کیسے ثابت ہوا۔؟
2-اور اس گریہ کی بھی کیا ہر سال ابراہیم کی وفات کے دن رسول اللہﷺ نے کوئی مجلس بپا کیا تھی؟
3-حضرت حسینؓ کے ماتمیوں نے بھی کبھی حضرت ابراہیم بن محمد ﷺ کے ماتم کی مجلس بپا کی ہے؟ عجیب بات ہے کہ جس چیز سے استدلال کرتے ہیں خود اسی پر عمل نہیں۔

🔸 *شیعہ دلیل نمبر 7*🔸
*حضرت حمزہؓ کی شہادت پر حضرت رسول اکرم ﷺ روئے اور فرمایا۔ ہائے آج حمزہ کا ماتم کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس پر صحابہؓ نے اپنی عورتوں سے کہا کہ تم حضرت حمزہؓ کا ماتم کرو اور عورتوں نے گریہ کیا اور صف ماتم بچھائی۔ آنحضرت ﷺ نے عورتوں کا گریہ سن کر خود گریہ کیا اور عورتوں کو ماتم کرنے کی وجہ سے دعائے خیر دی۔ (کتاب مغازی فتوح الشام صفحہ 108، سیرة ابن ہشام ،سیرة النبی شبلی نعمانی جلد اول)*

🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹
1- اس عبارت میں بھی منہ پیٹنا اور سینہ کوبی کرنا ثابت نہیں جس سے مروجہ ماتم ثابت ہوتا ہے۔
2-سیرة النبی شبلی نعمانی حصہ اول 387میں تو یہ الفاظ ہیں۔
''آنحضرت ﷺ نے دیکھا تو دروازہ پر پردہ نشینان انصار کی بھیڑ تھی اور حضرت حمزہؓ کا ماتم بلند تھا۔ ان کے حق میں دعائے خیر کی اور فرمایا تمہارے ہمدردی کا شکرگزار ہوں لیکن مُردوں پر نوحہ کرنا جائز نہیں''
اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حمزہؓ کے ماتم میں عورتوں نے رواج کے تحت نوحہ (بین کرکے رونا)شروع کر دیا تھا جس سے رحمة للعالمین ﷺ نے ان کو منع فرمادیا۔
4- کیا پھر ہر سال حضرت حمزہؓ کی شہادت کے دن ماتم و گریہ کی مجلس بھی قائم کی گئی تھی؟
 *5-* کیا آج کل کے ماتمیوں نے بھی کبھی حضرت حمزہؓ کی مجالسِ ماتم بپا کی ہیں۔اگر نہیں تو کیوں؟*
🔸 *شیعہ دلیل نمبر 8* 🔸
 "حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ  کی وفات کے سال کو آنحضرتﷺ نے "عام الحزن " یعنی غم کا سال کے نام سے یاد کیا ہے۔
  🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹
 اگر اس سال کو عام الحزن کا نام دینے کا مطلب یہی ہے کہ ہر سال ان کی وفات کے دن ماتم کی مجالس قائم کی جائیں تو کیا حضرت علی المرتضیٰؓ ،حضرت فاطمۃ الزھراءؓ،حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ نے ہر سال کوئی مجلس غم بپا کئ تھی؟اور کیا رحمۃ للعالمینﷺ نے بھی اپنے مہربان چچا ابو طالب اور اپنی پیاری بیوی خدیجۃ الکبریٰؓ کی وفات کا دن ہر سال مجلس ماتم کی طرح منایا تھا؟اگر نہیں تو پھر کس کی پیروی کرتے ہو؟

🔸 *شیعہ دلیل نمبر 9* 🔸
 جنگ احد میں رسول اللہﷺ  کا دانت مبارک شہید ہوگیا جس کی خبر سن کر خواجہ اویس قرنی نے اپنے دانت توڑ دیے آنحضرت ﷺ نے اس فعل کو پسند فرمایا اور خواجہ کے لیے دعا دی۔

 🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹

 *1۔* یہ روایت بلاسند اور بلا حوالہ پیش کی گئی ہے اس لیے اس کو حجت نہیں بنایا جاسکتا۔
*2۔* اگر اسی طرح اپنے دانت توڑنا صحیح اور کارِ ثواب ہوتا تو پھر حضرت علی مرتضیٰؓ  بھی اپنے دانت توڑ دیتے کیا ماتمیوں کے نزدیک خواجہ اویس قرنی کا عشقِ رسالتﷺ حضرت علیؓ سے زیادہ تھا؟
 *3* ۔اگر خواجہ اویس قرنی کی یہ سنت ماتمیوں کو پسند ہے تو پھر سرکارِ دو عالمﷺ کے دانت شہید ہونے کی یادگار میں اپنے دانت کیوں نہیں توڑ دیتے *سارا قصہ ہی ختم ہو جائے نا مرثیہ خواں رہیں نا سوز خواں  "نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری"۔* 
 🔸 *شیعہ دلیل نمبر 10*🔸
 اسلام دینِ فطرت ہے اور رونا فطرتِ انسانی ہے بچہ پیدائش کے بعد زندگی کا آغاز رونے سے کرتا ہے۔ الخ
             
 🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹
*1۔* پیدائش کے بعد رونا مروجہ ماتم کی دلیل کیسے بن گیا؟بچہ کس کے ماتم میں روتا ہے؟۔ 
*2۔* اگر بچہ روتا ہے تو پیشاب پاخانہ بھی کرتا ہے تو اس فطرت انسانی کے پیش نظر پیشاب پاخانہ کی مجالس بھی قائم ہونی چاہییں واہ کیا خوب عقل ہے سبحان اللہ۔

 🔸 *شیعہ دلیل نمبر 11* 🔸
 
سانحہ کربلا کے وقت اسلام میں کوئی فرقہ بندی نا تھی قاتلانِ امام دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے تھے آج امام حسینؓ کا ذکر اور ان کی حمایت کرنا گویا امام مظلوم کا ساتھ دینا ہے۔ الخ 
    
 🔹 *الجواب اہلسنّت*🔹
*1۔* ماتم کرنے کو امام حسینؓ کی حمایت سے کیا تعلق ہے؟ حسینیت تو یہ کہ امام حسینؓ نے جس شریعت اور سنت مقدسہ کے لیے اپنی جان قربان کی تھی اس کی اتباع کی جائے اور اعمال صالحہ کو رائج کیا جائے شرک و بدعت اور بت پرستی کے مظاہر کو مٹایا جائے۔
    *امام عالی مقام کو دعوت دینے والے بھی کوفی ہیں اور یزیدیت کی حمایت میں شہید کرنے والے غدار بھی کوفی لوگ ہیں جو ماتم امام حسینؓ نے ساری عمر نہیں کیا اس کا ارتکاب حسینیت کی حمایت ہے یا مخالفت؟* 
*2۔* اخبار ماتم ص 967 میں ہے کہ سب سے پہلے شہادت حسینؓ کا ماتم یزید کے گھر میں اس کی بیوی ہندہ نے بپا کیا تھا اب یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ حسینیت کیا ہے اور یزیدیت کیا؟ 

   *🔸شیعہ دلیل نمبر 12*🔸
 فریقین کی معتبر روایتوں میں ان المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ حضرت جابر بن عبداللؓہ اور حضرت انسؓ وغیرہ سے منقول ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ نے فرمایا جو شخص کربلا میں امام حسینؓ کی زیارت کرے اس حال میں کہ ان کے حق کو پہچانتا ہو تو اس پر بہشت واجب ہو جاتی ہے۔  

🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹
                           
 *1* ۔فریقین (یعنی سنی اور شیعہ) کی کتابوں کا حوالہ نہیں لکھا گیا تاکہ معلوم ہو کہ یہ روایت کیسی ہے۔
 *2۔* امام حسینؓ کے مزار کی زیارت کرنے سے ماتم کا عبادت ہونا کیسے ثابت ہوگیا؟۔
 *3۔* جو شخص امام حسینؓ کے صبر اور نماز کی پیروی نہیں کرتا اور سنت کو ترک کرتا ہے اور بدعات کا مرتکب ہے وہ امام حسینؓ کا حق پہچاننے والوں میں شامل ہی نہیں ہوسکتا پھر جنت کا مستحق کیسے ہوگیا۔؟

 🔸 *شیعہ دلیل نمبر 13* 🔸  
 حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حضرت حسینؓ پر ان کا حق پہچانتے ہوئے روئے اس پر جنت واجب ہے۔
                
🔹 *الجواب اہلسنّت*🔹 
 *1۔* اس روایت کا بھی حوالہ پیش نہیں کیا گیا۔              
*2* ۔پھر اس میں ماتم مروجہ کا تو کوئی ذکر نہیں.                
*3۔* اگر صرف رونے سے جنت ملتی ہے پھر شریعت کی کیا ضرورت ہے۔
*4* ۔آئمہ اہل بیت امام زین العابدینؒ ,امام محمد باقؒر اور امام جعفرؒ صادقؒ نے ایسی مجالس ماتم کیوں نہیں قائم کیں؟بلکہ ان امور کوحرام قرار دیا ہے جیسا کہ آئندہ حوالہ جات میں پیش کیا جائے گا۔

 🔸 *شیعہ دلیل نمبر 14*🔸
      حضرت حسینؓ کا غم تو وہ غم ہے جس پر انسان تو کجا جن و ملک, چرند و پرند, آسمان و درخت سب نے گریہ کیا چناچہ لکھا ہے آسمان حضرت حسین ؓپر  40 دن تک روتا رہا. (ینابیع المودات از علامہ شیخ سلیمان حنفی قندوزی مطبوعہ قسطنطنیہ ص 39)               ثابت ہوا کہ مرثیہ پڑھنا, رونا اور ماتم کرنا انبیاء کی سنت اور اصحاب رسول اکرم ﷺ ہے۔
🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹        
 *1* ۔"ینابیع المودات "حنفیوں کی کوئی مستند کتاب نہیں پھر قرآن و حدیث کے صریح ارشادات کے خلاف ایسی روایات کیونکر قابل قبول ہو سکتی ہیں۔
   *2* ۔اس عبارت میں بھی منہ پیٹنے اور سینہ کوبی کا کوئی ذکر تک نہیں۔
  *3* ۔کیا فرشتوں کی فطرت بھی رونا اور ماتم کرنا ہے.؟العیاذباللہ!
4۔کیا ہر سال زمین آسمان ماتم کرتے ہیں ؟ 
 🔸 *شیعہ دلیل نمبر 15* 🔸  
   اے منکر غم گر میرے پیر ناہوتے, مسمارمحل دین کے تعمیر نا ہوتے, حسینؓ کی قربانی سے زندہ ہے یہ اسلام,  مٹ جاتا اگر دنیا میں شبیر نا ہوتے۔

     🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹 

  *1۔* ان اشعار میں تو دعویٰ ہے نہ کہ دلیل۔                       
 *2* ۔اس کو ماتم سےکیاتعلق؟
 *3* ۔کیا دین کے محل میں رحمت للعالمین حضرت محمد ﷺنے کوئی ماتم کی اینٹ بھی لگائی ہے یا دین کا محل نماز، روزہ،صبرورضا جیسے اعمال صالحہ سے تعمیر کیا گیا ہے؟
🔸 *شیعہ دلیل نمبر 16* 🔸
🔸 *شیعہ دلیل نمبر 17* 🔸
🔸 *شیعہ دلیل نمبر 18*🔸 
دلیل نمبر 16 ،17، 18  میں
 *تورات* کی عبارتیں پیش کی گئی ہیں جن میں گریہ،ماتم رونے کے الفاظ ہیں۔

🔹 *الجواب اہلسنّت* 🔹

 *1-* ان عبارتوں میں بھی *منہ پیٹنے* اور *سینہ کوبی* کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے *مروّجہ ماتم* کیونکر ثابت ہوا۔

 *2-* قرآن کے بعد تورات انجیل وغیرہ آسمانی کتابیں منسوخ ہوچکی ہیں ،جن کی عبارتیں مسلمانوں کے لئے حجت نہیں ہیں۔کیوں کہ اصلی آسمانی کتابوں میں تبدیلی ہو گئی ہے۔

 *3-* اگر تورات انجیل کے مذہب کی پیروی کرنی ہے تو کیا اس پر بھی ایمان لاؤگے جو تورات میں لکھا ہے کہ:
 *(ا) حضرت یعقوبؑ نے خدا کے ساتھ کُشتی کی تھی۔نعوذ باللہ (پیدائش صفحہ 46)* 

 *(ب) حضرت لوطؑ نے اپنی بیٹیوں سے بدکاری کی تھی. استغفراللہ (پیدائش صفحہ 24)*


  🔹 *خلاصہ جوابات* 🔹
 *یہ ہے کہ مذکورہ 18 دلائل میں سے کسی ایک دلیل سے بھی مروجہ ماتم ثابت نہیں ہوسکتا اور اگر یہ ماتم عبادت ہوتا تو اولاً قرآن میں اس کا صریح حکم ہوتا اور ثانیاً احادیث مبارکہ میں اس کی تصریح ہوتی اور نعوذ باللہ خود رسول ﷺ ماتم کی مجالس بپا کرتے جیسا کہ نماز روزہ وغیر عبادات پہلے خودحضورﷺ نےادا کی ہیں۔*
مکمل تحریر >>

Sunday 17 July 2022

ووٹ/سیاست/ جمہوری/ بادشاہی/ مارشل لاء/ اسلام

ووٹ/ سیاست/ جمہوری/ بادشاہی/ مارشل لاء/ اسلام
🇵🇰🇹🇷🇵🇰🇸🇦🇵🇰🇸🇦🇵🇰🇸🇦🇵🇰🇸🇦🇹🇷🇵🇰🇸🇦🇹🇷🇵🇰🇸🇦

سیاست عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب بہترین تدبیر ، حکمت عملی ہے بھگڑے ہوئے کو ٹھیک کرنا اور اُردو زبان میں ریاست کے علم کو سیاست کہا جاتاہے اور جمہوریت کے لغوی معنی لوگوں کی حکمرانی( میں یوں کہوں گا عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعے، عوام پر)

ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

علامہ صاحب فرماتے ہیں جب دین کو سیاست سے الگ کر دیا جاتا ہے تو وہ سیاست محض ظلم و ستم والی چیز( چنگیزخانی) بن کے رہے جاتی ہے پھر ہر طرف ظلم و ستم ہوجاتا ہے پھر اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نظام حکومت کیا اور کس شکل میں ہے بادشاہت یا جمہوری:

پاکستان نہ تو مارشل کےلیے نہ بادشاہت کےلیےاور نہ جمہوریت کےلیے پاکستان صرف اور صرف بس اسلام کےلیے بنایا ہیں
اسلام کے نام پر جمہوریت کا قیام دراصل اسلام و جمہوریت دونوں سے مزاق ہے اسلام صداقت پر مبنی ہے اور اکثرہت دین سے بزار ہے آج تک اسلام کا نافز نہ ہونے کی وجہ یہی ہے جمہوریت سابقہ حکومت کا جھوٹ موٹ ، توڑ پھوڑ اود مقدار کی قائل ہے معیار کی نہیں جمہوریت کے زریعے کوئی قابل نیک ایماندار عالم دین دانش وار سر اقتدار نہیں آسکتا جمہوریت امام حق کو زہر پلاتی ہے غازیِ اسلام کو سولی چڑھاتی ہے دین داروں کا احترام نہیں کرتی

سیاست دو طرح کی ہوتی ہیں ایک رحمانی اور دوسری شیطانی ہے رحمانی وہ ہے جو حضرت موسی، ابراہیم، یوسف، سلیمان علیہ سلام تمام انبیاء اکرم اور حضور پاکﷺ کے خلفائے راشیدین حضرت ابو بکر، عمر، عثمان، علی، حسن، حسین سمیت تا قیامت تک جو بھی قرآن و سنت اللہ رسولﷺ احکامات کے مطابق چلے چلائے گا اور وہ شیطانی ہے جو فرعون، نمرود، ابو جہل و لہب، یزید اور جو تاقیامت تک نظام مصطفیﷺ قرآن و سنت کو الگ کر کے سیاست کرے گا

اس بات کا علم ہونا لازم ہے کہ ووٹ کی شرعی حثیت کیا ہے ووٹ کوئی عام پرچی نہیں شریعت کے نقطہ نظر سے ووٹ( شفارش، امانت، بیعت، شہادت، گواہی، وکالت ہے)قرآن و حدیث کی روح سے واضح ہے کہ نااہل، ظالم، فاسق، شرابی، زانی، بےحیا غلط آدمی اور قرآن و سنت نظام مصطفیٰ ﷺ کے خلاف چلنے والوں کو ووٹ دینا گناہِ کبیرہ ہے، اسی طرح ایک اچھے نیک دین دار و ایماندار قابل آدمی کو ووٹ دینا ثواب عظیم بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے، قرآن کریم میں جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے اسی طرح سچی شہادت کو واجب اور لازم فرمایا ہے، ارشاد باری ہے کُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّہِ شُہَدَاء َ بِالْقِسْطِ اور دوسری جگہ ہے کُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء َ لِلَّہِ ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا کہ سچی شہادت سے جان نہ چرائیں، اللہ کے لیے ادائیگی شہادت کے لیے کھڑے ہوجائیں، تیسری جگہ سورہٴ طلاق میں ارشاد ہے وَأَقِیمُوا الشَّہَادَةَ لِلَّہِ یعنی اللہ کے لیے سچی شہادت قائم کرو، ایک آیت میں ارشاد فرمایا کہ سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ ہے، ارشاد ہے: وَلَا تَکْتُمُوا الشَّہَادَةَ وَمَنْ یَکْتُمْہَا فَإِنَّہُ آَثِمٌ قَلْبُہُ یعنی شہادت کو نہ چھپاوٴ اور جو چھپائے گا اسکا دل گنہ گار ہے۔ حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو ووٹ ضرور ڈالنا چاہیے، البتہ ووٹ ڈالنے جس امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال رہا ہے اس کے حق میں گویا یہ خود ہی گواہی دے رہا ہے کہ یہ امیدوار میرے علم کے مطابق سب سے زیادہ مستحق اور دیانت دار ہے

ہم اکثر پڑھتے، سنتے، لکھتے اور کہتے ہیں دین دار لوگ پیروں، مشائق، علمائے کرام کو سیاست میں آنا / کرنی نہیں چاہیے دین دار لوگ  پیروں، مشائق، علمائے حق کو مدرسہے، مسجدوں اور خانگاوں میں رہنا چاہئے یہ ایک بیوقوف جاہلانہ سوچ و فقر ہے اور کچھ بڑے بڑے پیر، مشائخ، مولوی خود کہتے ہیں ہم غیر سیاسی ہے ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تو جناب ہم آپ سے پوچھتے ہیں آپ ہے کون کس کی پیروی کر رہے ہوں دین تو ہے ہی اس کا نام گھر سے لئے کر تختِ سلطان تک اسلام کے مطابق چلے پاکستان تو بڑے بڑے علامہ،مشائق، پیر،مولویوں نے سیاست مل کر بنایا تھا اگر آپ دین دار سیاست نہیں کرے گے تو پھر کیا دنیا دار کتے نمرود، فوعون، یزید جیسے ظالم، شرابی، زانی، چھوٹے، چور، سود خور، کرے گے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ روایت کرتے ہیں رسولﷺ نے فرمایا ۔۔

بنی اسرائیل کے انبیاء اُن کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے، جب ان کا کوئی نبی فوت ہوجاتا تو دوسرے ان کی جگہ آ موجود ہوتے. لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا! ہاں، میرے نائب (خلفاء) ہوں گے اور بہت ہوں گے.
بخاری 3455
(مسلم 4773؛ ماجہ 2871؛ مسند احمد 12146؛ مشکوٰۃ 3675)

تین چیزیں ہیں اسلام میں 
شریعت، طریقت، سیاست 
شریعت راستہ ہے جب راستہ ہی نہ ہو تو چلوگے کس طرف؟
طریقت راستے پر چلنے کے اصول کا نام ہے راستہ ہو اور چلنے کا ڈھنگ ہی نہ آئے
سیاست اس راستے پر چلتے ہوئے جو مشکلات سامنے آئیں تو اسے دور کرنے کا نام سیاست ہے
یہ تینوں چیزیں ہونگی تو اعتدال ہوگی

ایک بات ہمیشہ یاد رکھے میدان جنگ ہو یا میدان الیکشن یہ دونوں میدان نظرِے پر ہیں، حق اور ناحق کے ہوتے ہیں حق کی ہار بھی جیت ہوتی ہے اور ناحق کی جیت کر بھی ہار ہوتی ہے تو آپ بس یہ دیکھے کہ ہم حق کے ساتھ ہے یا ناحق کے ساتھ ہے( کربلا حق و ناحق کی جنگ اور بیعت کا میدان ہے برحق امام حسین نے ظالم یزید کی بیعت نہیں کی سب کچھ قربان کر دیا آقا حسین کی قیامت تک جیت ہوئی اور یزید کی ہار) اسی طرح ایک شخص نے صحابیؓ رسولؐ کو شہید کر دیا تو صحابیؓ رسولؐ کے منہ سے نکلا ربِ کعبہ کی قسم میں بازی جیت گیا وہ شخص حضور پاکﷺ کے پاس آیا پوچھا اے محمدﷺ دنیا کا دستور ہے  جنگ میں جو مر گیا وہ ہار گیا جو زندہ بچ گیا وہ جیت گیا مگر میں نے آپﷺ کے غلام کو قتل کیا وہ کہتا ہے میں جیت گیا آپﷺ نے فرمایا تجھے اس طرح سمجھ نہیں آئےگی تُو پہلے کلمہ حق پڑھ )

ڈاکٹر علامہ اقبال فرماتے ہیں

سبق پڑھ پھر#صداقت کا#عدالت کا#سجاعت کا
۔۔۔۔۔لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا

صداقت مطلب دینِ حق، عدالت مطلب حکومت، سجاعت مطلب بہادر مجاہدین، آفواج، 
پتا چلا کہ پوری دنیا پر اسلام کا پرچم لہڑانے والا پوری امت مسلمہ کا سچا لیڑر وہی شخص ہو گا جس میں یہ تینوں خوبیاں موجود ہوں گی پھر آج وہ کون سا شخص ہے جو قرآن و سنت/نظام مصطفیٰﷺ کی بات کرتا ہے وہ کون انبیاء اکرم کا ورث علماء حق ہیں جو سنت انبیاء سیاست میں آکر امامتِ عظمیٰ پڑی امامت حکومت کرنا چاہتا ہے وہ کون ہے جو خود اپنی تحریک سمیت پاکستان میں نظام مصطفیٰ ﷺ قائم کرنے اور پوری دنیا پر دین اسلام کا پرچم لہرانے اور دشمن اسلام یہود انصاریٰ و گستاخ رسولﷺ کے خلاف جہاد کرنے کیلے ہر وقت تیار ہیں

پاکستان میں تین طرح کی سیاست موجود ہیں اور ہو رہی ہے ایک جمہوریت، دوسری فوجی فیلڈ مارشل لاء اور تیسری مزہبی اسلام " ہم نے 75 سال سے جمہوریت ( پیپلزپارٹی/ مسلم ن لیک/ تحریک انصاف/ اور وغیرہ وغیرہ  کو بھی دیکھ لیا اور فوجی فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف مارشل لاء  کو بھی دیکھ لیا 1958سے1971 تک پاک فوج، 1971سے 1977تک پیپلزپارٹی، 1977سے1988تک پھر پاک فوج، 1988سے1990تک پھر پیپلزپارٹی، 1990سے1993تک مسلم ن لیک، 1993سے1996تک تیسری بار پھر پیپلزپارٹی، 1997سے1999تک پھر مسلم ن لیک، 1999سے1908تک تیسری بار پھر پاک فوج، 1908سے1913تک چوتھی بار پھر پیپلزپارٹی، 1913سے1918تک تیسری بار پھر مسلم ن لیگ، 1918سے1922تک تین سال سات ماہ تحریک انصاف، سب کو دیکھ لیا پاکستان نقصان میں گیا اب آئے اس نظام قانون کی طرف جس کے لیے پاکستان بنایا گیا وہ ہے بس 
اسلام( نظام مصطفیٰﷺ، قرآن و سنتﷺ )

 
ہم نظامِ حکومت نہ بادشاہت چاہتے ہیں نہ جمہوریت، نہ فوج مارشل لاء اور نہ مزہبی مولویوں کو صرف ہ پاکستان میں بس اسلام چاہتے ہیں نظام مصطفیٰﷺ،  قرآن وسنتﷺ  کا نظامِ قانون 🇵🇰🇸🇦🇹🇷

🇹🇷 از تحریر قلم @محمد گلفام مصطفائی🇵🇰
مکمل تحریر >>

Saturday 16 July 2022

پولنگ اسٹیشن پر دھاندلی کیسے روکنی ھے

🛑🛑

*پولنگ اسٹیشن پر دھاندلی کیسے روکنی ھے*

*1۔ صبح پولنگ بونے سے پہلے پریزائیڈنگ آفیسر، پولنگ ایجنٹس کے سامنے خالی ڈبے دکھائے گا اور سیل کرے گا، یقینی بنائیں آپ اس موقع پر موجود ہوں ۔*
*پولنگ ایجنٹ ایکٹو اور فعال بندہ ھو ۔ بلکہ ایک سے زائد بندے موجود ھوں بلخصوص خواتین پولنگ ایجنٹ چست اور چالاک ھو جس سے زیادہ دھاندلی لیڈی پولنگ بوتھ ہر ھوتی ھے*

*2۔ پریزائیڈنگ آفیسر ایسے نہیں کرتا تو یقینی بنائیں کہ وہ خالی ڈبے دکھائے اور سیل کرے ۔ وقت بھی ضائع نہ ھو فوری فون ان کریں اور لائیو کریں امیدوار ممکن بنائے پولنگ ایجنٹ اور دیگر کارکنوں کا موبائل پیکج لگا ھونا چاھیے اور بیٹری بھی فل چارج ۔ تمام پولنگ ایجنٹس کے پاس کیمرے والا فون ھو*
*3۔ الیکشن کیمپ پر زرا تیز لوگ بٹھائیں، تاکہ swing voter کو پرچی لیے زیادہ مشکل نہ ہو، کئی لوگ پولنگ اسٹیشن پر پہنچ کر ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرتے ہیں، رونق میلہ لگائی رکھیں، کمزوری کا تاثر نہیں جانا چاہیے ۔ کوشش یہ ھو پولنگ ڈے سے قبل گھرانہ وائز زیادہ سے زیادہ پرچیاں بن جائیں اور لوگ جلد از جلد ووٹ کیلے نکلیں وعٹ کیلے لائن میں کھڑے افراد کیلے پانی کا بندوبست کیا جائے*
*4۔ ووٹوں والی ہر book میں 100 بیلٹ پیپر ہوتے ہیں، پریزائیڈنگ آفیسر کو کہیں کہ جب نئی book لگائی جائے، اس کا نمبر پولنگ ایجنٹس کو نوٹ کرائے.. اس طرح معلوم ہو جائے گا کہ نوئل کاسٹنگ کیا رہی، مثلا تین books لگی ہوں تو 300 ووٹ، نئی book کا سیریل نمبر نوٹ کرتے جائیں، گنتی کے وقت کام آئے گا پریزائیڈنگ آفیسر آپ کو بتائے بغیر نئی book لگائے تو سمجھ لیں آپ مارے گئے ہیں*

*5۔ کھانے کے وقفے وغیرہ میں (دیہاتی حلقوں میں یہ ہوتا ہے) ووٹوں کے ڈیے نگرانی میں ایک کمرے میں بند کرائیں ڈبے خالی نہ چھوڑے جائیں ۔ سرکاری عملہ کوئی فرمائش کرے تو فون کرکے فرمائش پوری کریں اٹھ کر ھرگز نہ جائیں دودھ پلانے والی خاتون پولنگ ایجنٹ نہ ھو اور نہ دوران پولنگ فیس بک یو ٹیوب دیکھا جائے عملہ کو کھانا پلانا پولنگ ایجنٹ کی زمہ داری نھی اور نہ وہ مخالف کیمپ سے بھجوایا گیا کھانا ، پانی اور چائے پیئے ۔*

6۔ اگر آپ جیت رہے ہوں تو مخالف پولنگ ایجنٹس لازما لڑائی کریں گے تا کہ ووٹ ڈالنے کی شرح کم رہے، لڑائی سے گریز کریں، پولنگ ختم ہونے کے بعد لڑ لیں بیشک
7۔ آنکھیں کھول کر ایک ایک ووٹ بغور گنیں

*8۔ فارم 45، جسے ہم پکا نتیجہ بھی کہتے ہیں، وہ لیے بغیر نہ ہلیں، پریزائیڈنگ آفیسر کچی پنسل یا پین سے لکھا نتیجہ دینے کی کوشش کرے تو بلکل بھی نہ لیں، بال پوائنٹ کا بنا نتیجہ لیں ۔ بعض اوقات پولنگ ختم ھونے سے پہلے پولنگ ایجنٹ سے خالی فارم پر دستخظ کروانے کی کوششبکی جاتی ھے نتیجہ مرتب ھونے تک ھرگز کسی فارم ہر دستخظ نہ کریں*
*9۔ نتیجہ ملنے کے فوری بعد اپنے امیدوار کو واٹس ایپ کریں، امیدوار الیکشن کمیشن آفس کو واٹس ایپ ہوئے نتیجے سے ٹیلی کرے جبکہ تمام پو لنگ ایجنٹوں کا وٹس ایپ گروپ ھونا چاھیے یہ کام پولنگ ڈے سے پہلے کر لیا یائے*

*10۔ الیکشن نتائج والے دن امیدوار کو چاہیے اپنے ڈیرے کے بجائے کچہری (آر او آفس) بیٹھے، پولنگ ایجنٹس یقینی بنائیں کہ پولنگ اسمال کو اپنی نگرانی میں آر او آفس تک پہنچائیں، عملہ اور گاڑی کو اکیلا مت چھوڑیں ۔*
*•┈┈┈┈┈••✦TLP✦••┈┈┈┈┈•*
*🤝​اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎​ ہمارے رضوی پاور میڈیا آفیشل یوٹیوب چینل اور ٹویٹر اکاونٹ کو ضرور سبسکرائب کریں اور گھنٹی🔔کے نشان پر پریس کر کے تمام نوٹیفیکیشن آن کرنا مت بھولیں شکریہ🥀*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*🔰Retweet & Follow Account ⤵️*
https://twitter.com/TLPRPM
*🔰YouTube Channel Link⤵️*
https://youtube.com/c/RizviPowerMedia
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
            ⚔️ *مَن٘ سَبَّ نَبِیًّا فَاق٘تُلُو٘ہُ*⚔️
        *⚔آپ کی دعاؤں🤲کا طلبگار⚔* 
*🌺❥🇵🇰𝐑𝐈𝐙𝐕𝐈 𝐏𝐎𝐖𝐄𝐑 𝐌𝐄𝐃𝐈𝐀🇹🇷❥🌺*
مکمل تحریر >>