Pages

Monday 22 February 2021

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےعادل ہونےاور گمراہ فاسق منافق نہ ہونے پے40سےزائدحوالہ جات

*سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےعادل ہونےاور گمراہ فاسق منافق نہ ہونے پے40سےزائدحوالہ جات
نیز
صحابہ و سیدنا معاویہ رضی اللہ عنھم اجمعین کے متعلق سیدنا علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کے چند اقوال و حکم، شیعہ کتب سے...........!!*
.
تعدیل صحابہ , تعدیل سیدنا معاویہ پے سینکڑوں حوالہ جات نقل کیے جاسکتے ہیں مگر ہم ان میں سےتقریبا چالیس کو ذکر کر رہے ہیں کیونکہ یہاں اختصار مقصود اور عدد چالیس اسلاف کو محبوب
.
الحدیث: 
لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ»
حضرت معاویہ کا تذکرہ خیر کےساتھ ہی کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی وعلیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! اسے(ہدایت یافتہ بنا کر اسے)ذریعہ ہدایت بنا۔
(سنن الترمذي ت شاكر ,5/687حدیث3843)
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا سیدنا معاویہ اور ان کا گروہ فاسق منافق نہ تھےہدایت یافتہ تھے اگرچہ اجتہادی خطا پر تھے کیونکہ اجتہادی خطا پر بھی ایک ثواب ملتا ہے 
.
الحدیث:
جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اسْتَوْصِ مُعَاوِيَةَ ; فَإِنَّهُ أَمِينٌ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، وَنِعْمَ الْأَمِينُ هُوَ
جناب جبریل رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! معاویہ سے خیر خواہی کرو کیونکہ وہ اللہ کی کتاب پر امین ہیں اور وہ کیا ہی اچھے امین ہیں۔
(الطبراني ,المعجم الأوسط ,4/175حدیث3902)
(جامع الأحاديث ,1/200حدیث321)
حضرت جبرائیل علیہ السلام کا حضرت معاویہ کو امین کہنا  اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا انکار نا فرمانا بلکہ سیدنا معاویہ کو کاتب رکھ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ آمین ایماندار تھے فاسق منافق نہ تھے 
.
.
 أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا لِمُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ «اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ، وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ»
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت معاویہ بن سفیان کیلئے دعا فرمائی،اے اللہ اسے لکھنا اور حساب سکھا اور اسے عذاب سے محفوظ فرما۔
(السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/459 حدیث712)
(فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل حدیث1749)۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اللہ تعالی سیدنا معاویہ کو عذاب سے بچائے اور نبی پاک کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا سیدنا امیر معاویہ جنتی ہیں فاسق منافق نہیں, انہیں عذاب نہ ہوگا جب کہ فاسق منافق کو عذاب ہوتا ہے 
.
النبي صلى الله عليه وسلم انه قال لمعاوية: " اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به
صحابی رسول عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا: ”اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے
(ترمذی حدیث3842)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا حضرت امیر معاویہ ہدایت یافتہ تھے فاسق منافق نہیں۔۔۔بلکہ اکثر معاملات میں ہدایت دینے والے مجتہد تھے اکا دکا معاملات میں اجتہادی خطا ان سے ہوئی جس پر ایک اجر ملے گا  
.
۔
رباح بن الجراح الموصلي قال : سمعت رجلاً يسأل المعافى بن عمران فقال : يا أبا مسعود، أين عمر بن عبد العزيز من معاوية بن أبي سفيان ؟ فغضب من ذلك غضباً شديداً وقال : لا يقاس بأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أحد، معاوية صاحبه وصهره وكاتبه وأمينه على وحي الله عز وجل
سیدنا ابومسعود سے کسی نے پوچھا کہ عمر بن عبدالعزیز بہتر ہیں یا معاویہ ابو مسعود شدید غصے میں آ گئے اور فرمایا کہ صحابہ کرام کے ساتھ کسی کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا معاویہ صحابی ہیں نبی پاک کے رشتے دار ہیں ان کے کاتب ہیں اور امین ہیں(فاسق و منافق نہیں ہیں )
(تاريخ بغداد ( 1/2099 )
.
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ: أَنَّ أَصْحَابَ عَلِيٍّ سَأَلُوهُ عَمَّنْ قُتِلَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاوِيَةَ مَا هُمْ؟ قَالَ: هُمْ مُؤْمِنُونَ
ترجمہ:
اصحاب علی نے سیدنا علی سے سوال کیا گیا مقتولینِ گروہ معاویہ کے متعلق تو سیدنا علی نے فرمایا کہ وہ سب مومن ہیں(فاسق منافق نہیں)
(5/245منہاج السنۃ)
.
.
سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نےجب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کی اس وقت سے سیدنا معاویہ برحق "امیر المومنین" قرار پائے، اور آپکی حکومت اچھی(برحق.و.عادلہ)قرار پائی
(دیکھیے بخاری روایت3765, بدایہ نہایہ11/143، تاریخ الخلفاء ص256وغیرہ)
حکومت عادلہ وہ ہوتی ہے جو فاسق منافق ظالم کی نہ ہو 
.
قَالَ الْجُمْهُورُ: إِنَّ الصَّحَابَةَ كُلُّهُمْ عُدُولٌ
جمہور اکثریت نے کہا ہے تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ١٠٢/١]
.
الصحابة زكاهم النبي صلى الله عليه وسلم، ولأجل ذلك عدلهم أئمة الحديث، فكلهم عدول
صحابہ کرام کی پاکیزگی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی اسی وجہ سے ائمہ حدیث نے صحابہ کرام کو عادل قرار دیا ہے تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
[ اعتقاد أهل السنة، ٦/١]

قال حجة الإسلام الغزالي رحمه الله يحرم على الواعظ وغيره......وما جرى بين الصحابة من التشاجر والتخاصم فانه يهيج بغض الصحابة والطعن فيهم وهم اعلام الدين وما وقع بينهم من المنازعات فيحمل على محامل صحيحة فلعل ذالك لخطأ في الاجتهاد لا لطلب الرياسة او الدنيا كما لا يخفى وقال في شرح الترغيب والترهيب المسمى بفتح القريب والحذر ثم الحذر من التعرض لما شجر بين الصحابة فانهم كلهم عدول خير القرون مجتهدون مصيبهم له أجران ومخطئهم له أجر واحد
۔
حجة الاسلام امام غزالی نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئےان کو بیان کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے خدشہ ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق بغض بغض اور طعن پیدا ہو۔ ۔۔۔۔۔صحابہ کرام میں جو مشاجرات ہوئے ان کی اچھی تاویل کی جائے گی کہا جائے گا کہ ان سے اجتہادی خطا ہوئی انہیں حکومت و دنیا کی طلب نہ تھی
ترغیب وترہیب کی شرح میں ہے کہ
مشاجرات صحابہ میں پڑنے سے بچو بے شک تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)تمام صحابہ کرام خیرالقرون ہیں مجتہد ہیں مجتہد میں سے جو درستگی کو پہنچا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر 
[روح البيان، ٤٣٧/٩]
۔

الَّذِي عَلَيْهِ سلف  الْأمة وَجُمْهُور الْخلف أَن الصَّحَابَة - رَضِي الله
 عَنْهُم - عدُول بتعديل الله تَعَالَى لَهُم
جمہوریت متقدمین علماء و اسلاف اور جمہور متاخرین علماء  و اسلاف کا اتفاق ہے کہ  تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)اللہ نے صحابہ کرام کو عادل قرار دیا ہے 
(تحبير4/1990)
.
الصحابة كلهم عدول
تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ١٧٨/١٠]
۔
صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم كلهم عدول بتعديل الله تعالى لهم وثنائه عليهم وثناء رسوله صلى  الله عليه وسلم.
اللہ عزوجل نے صحابہ کرام کی تعدیل کی ہے اللہ عزوجل نے صحابہ کرام کی تعریف و ثنا کی ہے اور نبی پاک نے تعریف و ثنا کی ہے لیھذا تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)
عقيدة أهل السنة ص14
.
والصحابة رضي الله عنهم كلهم عدول؛ سواء من لابس الفتن منهم أم لا، وهذا بإجماع من يعتدُّ به،
تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
وہ صحابہ بھی عادل ہیں جو فتنوں جنگوں میں پڑے اور جو نہ پڑے سب صحابہ عادل ہیں اور اس پر سب کا اجماع ہے 
[ تيسير مصطلح الحديث، صفحة ٢٤٤]

الصحابة، وهم كلهم عدول.
تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
[ابن حجر العسقلاني، النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر، ١٥٤/١]
.
واعلم أن الصحابة رضي اللَّه عنهم كلهم عدول
جان لو کہ تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
(لوائح الأنوار السنية ولواقح الأفكار السنية، ٩٠/٢]
.
قَالَ الخَطِيْبُ البَغْدَادِيُّ رَحِمَهُ اللهُ (463) بَعْدَ أنْ ذَكَرَ الأدِلَّةَ مِنْ كِتَابِ اللهِ، وسُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -، الَّتِي دَلَّتْ على عَدَالَةِ الصَّحَابَةِ وأنَّهُم كُلُّهُم عُدُوْلٌ، قَالَ: «هَذَا مَذْهَبُ كَافَّةِ العُلَمَاءِ، ومَنْ يَعْتَدُّ بِقَوْلِهِم مِنَ الفُقَهَاءِ
خطیب بغدادی نے قرآن سے دلاءل ذکر کیے، رسول اللہ کی سنت سے دلائل ذکر کیے اور پھر فرمایا کہ ان سب دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم  منافق نہیں)اور یہی مذہب ہے تمام علماء کا اور یہی مذہب ہے معتد فقہاء کا 
الكفاية ص67

الصحابة كلهم عدول
تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
[شرح أبي داود للعيني، ٥٠٩/٤]
.

أجْمَعَ أهْلُ السُّنَّةِ والجَمَاعَةِ على: أنَّ الصَّحَابَةَ جَمِيْعَهُم عُدُوْلٌ بِلاَ اسْتِثْنَاءٍ
اہل سنت و الجماعت کا اجماع ہے کہ بغیر کسی استثناء کےتمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
[تسديد الإصابة فيما شجر بين الصحابة، صفحة ١١٩]
.

جَمِيعَ الصَّحَابَةِ عُدُولٌ بِتَعْدِيلِ اللَّهِ إِيَّاهُمْ
تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
اللہ نے ان کو عادل قرار دیا ہے 
[اشرح الزرقاني على الموطأ، ١٠/٤]
.

الصحابة كلهم عدول من لابس الفتن وغيرهم بإجماع من يعتد به
 تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
وہ صحابہ کرام بھی عادل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اور دوسرے بھی عادل ہیں اور اس پر معتدبہ امت کا اجماع ہے 
التدريب (204)

[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ٢١١/١]
.
والصحابة كلهم ثقات عدول بإجماع أهل السنة،
تمام صحابہ کرام عادل ہیں ثقہ ہیں ( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)اس پر اہل سنت کا اجماع ہے 
[شرح نخبة الفكر، ٣١/٢]
.
قال ابن الصّلاح: «ثم إن الأمة مجمعة على تعديل جميع الصّحابة ومن لابس الفتن منهم، فكذلك بإجماع العلماء الذين يعتدّ بهم في الإجماع
قال الخطيب البغداديّ في الكفاية» مبوبا على عدالتهم:
 عدالة الصحابة ثابتة معلومة بتعديل اللَّه لهم، وإخباره عن طهارتهم واختياره لهم في نص القرآن.
محقق عظیم علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
وہ صحابہ کرام بھی عدل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اس پر معتدبہ علماء کا اجماع ہے
محقق عظیم واعظ اور علامہ خطیب بغدادی فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)صحابہ کرام کی تعدیل اللہ نے فرمائی ہے اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی ہے 
[ابن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ٢٢/١]
.
۔
فالصحابة جميعاً عدول بتعديل الله
 تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
اللہ تعالی نے انہیں عادل قرار دیا ہے 
[التنوير شرح الجامع الصغير، ٩٠/١]

وَالصَّحَابَةُ كُلُّهُمْ عُدُولٌ
تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)
[ابن حجر العسقلاني، فتح الباري لابن حجر، ١٨١/٢]
.
.
وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ
سیدنا معاویہ عادل فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا
[النووي ,شرح النووي على مسلم ,15/149]
.
.
كلهم عدول رضي الله تعالى عنهم
تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
[الملا على القاري، شرح الشفا، ٥٤٤/١]
.

 الصحابة وهم عدول
تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
[منهج الإمام أحمد في إعلال الأحاديث، ١١٠/١]
.

وَمن خَصَائِصه أَن أَصْحَابه كلهم عدُول بِإِجْمَاع من يعْتد بِهِ
اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کےتمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)اس پر معتد بہ علماء و امت کا اجماع ہے 
[السيوطي، الخصائص الكبرى، ٤٦٨/٢]
.

- أن الصحابة كلهم عدول من لابس منهم الفتنة ومن لم يلابس
تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 
وہ بھی عدل ہیں جو فتنوں جنگوں میں پڑے اور وہ بھی عادل ہیں جو نہ پڑے 
[تفسير الألوسي = روح المعاني، ١٤٠/٦]

إنهم كلهم عدول، كبيرهم وصغيرهم، من لابس الفتن وغيرهم بإجماع من يعتد بهم.
چھوٹے بڑے تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)وہ بھی عادل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اور وہ بھی عادل ہیں جو جنگوں میں نہ پڑے اس پر معتدبہ علماء اور امت کا اجماع ہے 
[مجمع بحار الأنوار، ٢٧٦/٥]
.
وأنَّ لَهُ أجْرَيْنِ أجْرَ الاجْتِهَادِ، وأجْرَ الإصَابَةِ، وقَطَعْنا أنَّ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ومَنْ مَعَهُ مُخْطِئُوْنَ مُجْتَهِدُوْنَ مَأجُوْرُوْنَ أجْرًا واحِدًا
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اجتہاد میں درستگی پر تھے اس لیے انہیں دو اجر ملیں گے اور یہ بات بھی قطعی ہے کہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کا گروہ اجتہادی خطا پر تھا اس لیے انہیں ایک اجر ملے گا 
الفِصَلُ في المِلَلِ والنِّحَلِ» لابنِ حَزْمٍ (4/ 159 - 161)
 «تَفْسِيْرُ بنِ كَثِيْرٍ (4/ 306)
[تسديد الإصابة فيما شجر بين الصحابة، صفحة ٧٠]
.
 وَإِنْ كَانُوا بُغَاةً فِي نَفْسِ الْأَمْرِ فَإِنَّهُمْ كَانُوا مُجْتَهِدِينَ فِيمَا تَعَاطَوْهُ مِنَ الْقِتَالِ، وَلَيْسَ كُلُّ مُجْتَهِدٍ مُصِيبًا، بَلِ الْمُصِيب لَهُ أَجْرَانِ والمخطئ لَهُ أجر.
سیدنا معاویہ کا گروہ باغی تھا لیکن وہ مجتہد تھے لہذا انہیں ایک اجر ملے گا اور جو درستگی پر ہوگا اسے دو اجر ملے گے 
[ابن كثير، السيرة النبوية لابن كثير، ٣٠٨/٢]
.
«إذا حكم الحاكم فاجتهد فاصاب فله أجران وإذا حكم فاجتهد فاخطأ فله أجر واحد» رواه البخاري ومسلم وأحمد وأبو داود والنسائي والترمذي عن أبي هريرة، والبخاري وأحمد والنسائي وأبو داود وابن ماجة عن عبد الله بن عمرو بن العاص، والبخاري عن أبي سلمة..فالأجران للاجتهاد والإصابة والأجر الواحد للاجتهاد وحده. والصحابة الأربعة مجتهدون في الحرب مخطئون فيه وعلي رضي الله عنه مجتهد مصيب. وقد تقرر في الأصول أنه يجب على المجتهد أن يعمل بما ادى إليه اجتهاده ولا لوم عليه ولا على مقلده. فالقاتل والمقتول من الفريقين في الجنة
بخاری مسلم احمد ابو داؤد نسائی ترمذی وغیرہ کی حدیث ہیں کہ مجتہد اگر درستگی پالے تو اسے دو اجر اور مجتہد خطا کرے تو اسے ایک اجر ملے گا صحابہ کرام نے جو جنگیں ہوئیں وہ اسی اجتہاد کی وجہ سے ہوئی تو ان میں سے جو درستگی کو تھا اس کو دو اجر ملیں گے اور جو خطاء پر تھا اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا معاویہ اور سیدنا علی و غیرہ دونوں گروہ جنتی ہیں 
[الناهية عن طعن أمير المؤمنين معاوية، صفحة ٢٧]
.
أن أصحاب علي أدنى الطائفتين إلى الحق وهذا هو مذهب أهل السنة والجماعة أن علياً هو المصيب وإن كان معاوية مجتهداً وهو مأجور إن شاء الله ولكن علي هو الإمام فله أجران كما ثبت في صحيح البخاري من حديث عمرو بن العاص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا اجتهد الحاكم فأصاب فله أجران وإذا اجتهد فأخطأ فله أجر
حدیث بات میں ہے کہ مجتہد درستگی کو پالے تو اسے دو اجر اور اگر خطا کرے تو اسے ایک اجر اس کے مطابق حضرت علی کا گروہ درستگی پر تھا اسے دو اجر ملے گے اور معاویہ اجتہاد میں خطا پر تھے اس لیے اسے ایک اجر ملے گا یہی اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے 
(عقيدة أهل السنة في الصحابة لناصر بن علي، ٧٢٨/٢]
.
.

أجمعت الأمة على وجوب الكف عن الكلام في الفتن التي حدثت بين الصحابة..ونقول: كل الصحابة عدول، وكل منهم اجتهد، فمنهم من اجتهد فأصاب كـ علي فله أجران، ومنهم من اجتهد فأخطأ كـ معاوية فله أجر، فكل منهم مأجور، القاتل والمقتول، حتى الطائفة الباغية لها أجر واحد لا أجران، يعني: ليس فيهم مأزور بفضل الله سبحانه وتعالى.

امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام میں جو فتنے جنگ ہوئی ان میں نہ پڑنا واجب ہے تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور جو مجتہد حق کو پا لے جیسے کہ سیدنا علی تو اسے دو اجر ہیں اور جو مجتہد خطاء پر ہو جیسے سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا علی اور معاویہ کے قاتل مقتول سب جنتی ہیں حتیٰ کہ سیدنا معاویہ کا باغی گروہ بھی جنتی ہے اسے بھی ایک اجر ملے گایعنی تمام صحابہ میں سے کوئی بھی گناہ گار و فاسق نہیں  
[شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي ١٣/٦٢]
.

وأما ما شجر بينهم بعده عليه الصلاة والسلام، فمنه ما وقع عن غير قصد، كيوم الجمل، ومنه ما كان عن اجتهاد، كيوم صفين. والاجتهار يخطئ ويصيب، ولكن صاحبه معذور وإن أخطأ، ومأجور أيضاً، وأما المصيب فله أجران اثنان، وكان علي وأصحابه أقرب إلى الحق من معاوية وأصحابه رضي الله عنهم أجمعين
صحابہ کرام میں کچھ جنگی تو ایسی ہیں جو بغیر قصد کے ہوئیں جیسے کہ جنگ جمل اور کچھ جنگیں ایسی ہیں جو اجتہاد کی بنیاد پر ہوئی جیسے کہ صفین....جس نے درستگی کو پایا جیسے کہ سیدنا علی تو ان کو دو اجر ملیں گے اور جس نے اجتہاد میں خطا کی جیسے کہ سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا 
[ابن كثير، الباعث الحثيث إلى اختصار علوم الحديث، صفحة ١٨٢]
.
وَالْجَوَاب الصَّحِيح فِي هَذَا أَنهم كَانُوا مجتهدين ظانين أَنهم يَدعُونَهُ إِلَى الْجنَّة، وَإِن كَانَ فِي نفس الْأَمر خلاف ذَلِك، فَلَا لوم عَلَيْهِم فِي اتِّبَاع ظنونهم، فَإِن قلت: الْمُجْتَهد إِذا أصَاب فَلهُ أَجْرَانِ، وَإِذا أَخطَأ فَلهُ أجر، فَكيف الْأَمر هَهُنَا. قلت: الَّذِي قُلْنَا جَوَاب إقناعي فَلَا يَلِيق أَن يُذكر فِي حق الصَّحَابَة خلاف ذَلِك، لِأَن اتعالى أثنى عَلَيْهِم وَشهد لَهُم بِالْفَضْلِ
اللہ تعالی نے صحابہ کرام پر تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت بیان کی ہے تو یہ سب مجتہد تھے جنگوں اور فتنوں میں اجتہاد کیا جس نے درستگی کو پایا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر یہی جواب صحیح ہے اور یہی جواب صحابہ کرام کے لائق ہے 
[بدر الدين العيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ٢٠٩/٤]
 
.
 وَغَايَة اجْتِهَاده أَنه كَانَ لَهُ أجر وَاحِد علىاجْتِهَاده وَأما عَليّ رَضِي الله عَنهُ فَكَانَ لَهُ أَجْرَان
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیدنا معاویہ کو ایک اجر ملے گا اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دو اجر ملے گے 
[ابن حجر الهيتمي، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ٦٢٤/٢]
۔
.
امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں:
فان معاویة واحزابه بغوا عن طاعته مع اعترافهم بانه افضل اھل زمانه وانه الاحق بالامامة بشبهه هی ترک القصاص عن قتله عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنه ونقل فی حاشیة کمال القری عن علی کرم اللہ تعالیٰ وجهه انہ قال اخواننا بغوا علینا ولیسوا کفرة ولا فسقة لما لھم من التاویل وشک نیست کہ خطاء اجتہادی از ملامت دور است واز طعن وتشنیع مرفوع ." 
ترجمہ:
بے شک معاویہ اور اس کے لشکر نے اس(حضرت علی  سے)بغاوت کی، باوجودیکہ کہ وہ مانتے تھے کہ وہ یعنی سیدنا علی تمام اہل زمانہ سے افضل ہے اور وہ اس سے زیادہ امامت کا مستحق ہے ازروئے شبہ کے اور وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے قصاص کا ترک کرنا ہے ۔ اور حاشیہ کمال القری میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی حالانکہ نہ ہی وہ کافر ہیں اور نہ ہی فاسق کیونکہ ان کے لیے تاویل ہے
اور شک نہیں کہ خطائے اجتہادی ملامت سے دور ہے اور طعن وتشنیع سے مرفوع ہے
(مکتوبات امام ربانی 331:1) 
.
عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ هُوَ الْمُصِيبَ الْمُحِقَّ وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانُوا بُغَاةً مُتَأَوِّلِينَ وَفِيهِ التَّصْرِيحُ بِأَنَّ الطَّائِفَتَيْنِ مُؤْمِنُونَ لَا يَخْرُجُونَ بِالْقِتَالِ عَنِ الْإِيمَانِ وَلَا يَفْسُقُونَ وَهَذَا مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ مُوَافِقِينَا
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ درستگی پر تھے حق پر تھے اور دوسرا گروہ یعنی سیدنا معاویہ کا گروہ وہ باغی تھے لیکن تاویل کرنے والے تھے دونوں گروہ مومنین ہیں دونوں گروہ ایمان سے نہیں نکلتے اور دونوں گروہ فاسق نہیں ہیں یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی مذہب ہمارے(عقائد میں)موافقین(حنفی حنبلی مالکی وغیرہ تمام اہل سنت)کا مذہب ہے 
(شرح مسلم للنووی7/168)
.
.=======================
شیعوں کی معتبر ترین کتاب نہج البلاغۃ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم موجود ہے کہ:
ومن كلام له عليه السلام وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إني أكره لكم أن  تكونوا سبابين، ولكنكم لو وصفتم أعمالهم وذكرتم حالهم كان أصوب في القول
ترجمہ:
جنگ صفین کے موقعے پر اصحابِ علی میں سے ایک قوم اہل الشام (سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) کو برا کہہ رہے تھے، لعن طعن کر رہے تھے
تو
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:
تمہارا (اہل شام، معاویہ ، عائشہ صحابہ وغیرہ کو) برا کہنا لعن طعن کرنا مجھے سخت ناپسند ہے ، درست یہ ہے تم ان کے اعمال کی صفت بیان کرو...(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص437)
.
ثابت ہوا سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ صحابہ کرام کی تعریف و توصیف کی جائے، شان بیان کی جائے....یہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پسند ہے....ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہھما صحابہ کرام پر لعن طعن گالی و مذمت کرنے والے شیعہ ذاکرین ماکرین  رافضی نیم راضی محبانِ اہلِ بیت نہیں بلکہ نافرمان و مردود ہیں،انکےکردار کرتوت حضرت علی کو ناپسند ہیں..سخت ناپسند
.
ان عليا لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكنه كان يقول: هم إخواننا بغوا علينا
ترجمہ:
بےشک سیدنا علی اپنےاہل حرب(سیدنا معاویہ،سیدہ عائشہ اور انکےگروہ)کو نہ تو مشرک کہتےتھےنہ منافق…بلکہ فرمایا کرتےتھےکہ وہ سب ہمارےبھائی ہیں مگر(مجتہد)باغی ہیں(شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)
(شیعہ کتاب وسائل الشیعۃ15/83)
(شیعہ کتاب قرب الاسناد ص94)
سیدنا ابوبکر و عمر، سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام کو کھلےعام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں منافق بلکہ کافر تک بکنے والے،توہین و گستاخی کرنےوالےرافضی نیم رافضی اپنےایمان کی فکر کریں…یہ محبانِ علی و اہلبیت نہیں بلکہ نافرمانِ علی ہیں،نافرمانِ اہلبیت ہیں
.
شیعہ کتب جھوٹ و تضاد سے بھری ہوئی ہوتی ہیں،کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے فرقوں میں سب سے زیادہ جھوٹے مکار شیعہ ہیں
مگر
جھوٹے مکار شیعہ طبرسی کے قلم سے کیا ہی عمدہ سچ نکل ہی گیا، لکھتا ہے
أن رسول الله صلى الله عليه وآله قال: ما  وجدتم في كتاب الله عز وجل فالعمل لكم به، ولا عذر لكم في تركه، وما لم يكن في كتاب الله عز وجل وكانت في سنة مني فلا عذر لكم في ترك سنتي، وما لم يكن فيه سنة مني فما قال أصحابي فقولوا، إنما مثل أصحابي فيكم كمثل النجوم، بأيها أخذ اهتدي، وبأي أقاويل أصحابي أخذتم اهتديتم، واختلاف أصحابي لكم رحمة.
ترجمہ:
بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کہ جو کچھ قرآن میں ہے اس پر عمل لازم ، اس کے ترک پر کوئی عذر مقبول نہیں…پس اگر کتاب اللہ میں نہ ملے تو میرے سنت میں ڈھنڈو سنت میں مل جائے تو عمل لازم ، جس کے ترک پر کوئی عذر مسموع نہ ہوگا
اور
اگر قرآن و سنت میں نہ پاؤ تو میرے صحابہ کے اقوال میں تلاش کرو، میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کے قول کو بھی اختیار کرو گے ہدایت پاؤ گے اور سنو میرے اصحاب(صحابہ اہلبیت) کا اختلاف رحمت ہے
(احتجاج طبرسی2/105)
.
وقال عليه السلام:يهلك في رجلان: محب مفرط، وباهت مفتر.
قال الرضى رحمه الله تعالى: وهذا مثل قوله عليه السلام: يهلك في اثنان:محب غال، ومبغض قال.الشرح:قد تقدم شرح مثل هذا الكلام، وخلاصة هذا القول: إن الهالك فيه المفرط، والمفرط أما المفرط فالغلاة، ومن قال بتكفير أعيان الصحابة ونفاقهم أو فسقهم
یعنی
حضرت علی نے فرمایا کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاکت میں ہیں ایک وہ جو مجھ سے حد سے زیادہ محبت کرے دوسرا وہ جو مجھ سے بغض رکھے مجھ پر بہتان باندھے
یعنی
جو اعیان صحابہ کو کافر کہے یا منافق کہے یا فاسق کہے وہ ہلاکت میں ہے
(شرح نہج البلاغۃ 20/220)
شیعہ رافضی نیم رافضی میں یہ دونوں بری عادتیں بھری پڑی ہیں کوٹ کوٹ کے....اللہ ہدایت دے، مکاروں گمراہوں کے مکر و گمراہی عیاری مکاری سے بچائے....ضدی فسادی کو تباہ و برباد فرمائے
.
بأصحاب نبيكم لا تسبوهم الذين لم يحدثوا بعده حدثا ولم يؤووا محدثا، فإن رسول الله (صلى الله عليه وآله) أوصى بهم
ترجمہ:
حضرت علی وصیت و نصیحت فرماتے ہیں کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق میں تمھیں نصیحت و وصیت کرتا ہوں کہ انکی برائی نہ کرنا ، گالی لعن طعن نہ کرنا(کفر منافقت تو دور کی بات) انہوں نے نہ کوئی بدعت نکالی نہ بدعتی کو جگہ دی،بےشک رسول کریم نے بھی صحابہ کرام کے متعلق ایسی نصیحت و وصیت کی ہے.(بحار الانوار22/306)
.

حضرت علی رض اللہ عنہ نے شیعوں سے فرمایا:
رأيت أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فما أرى أحداً يشبههم منكم لقد كانوا يصبحون شعثاً غبراً وقد باتوا سجداً وقياماً
ترجمہ:
میں(علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے اصحاب محمد یعنی صحابہ کرام(صلی اللہ علیہ وسلم، و رضی اللہ عنھم) کو دیکھا ہے، وہ بہت عجر و انکساری والے، بہت نیک و عبادت گذار تھے
تم(شیعوں)میں سے کوئی بھی انکی مثل نہیں...
(تمام شیعوں کے مطابق صحیح و معتبر ترین کتاب نہج البلاغہ ص181)
.
نوٹ:
ویسے تو ہم کتب شیعہ کے متعلق کہتے ہیں کہ جھوٹ تضاد گستاخی سے بھری پڑی ہیں مگر کچھ سچ بھی لکھا ہے انہون نے لیھذا کتب شیعہ کی بات قرآن و سنت معتبر کتب اہلسنت کے موافق ہوگی تو وہی معتبر...مذکورہ حوالہ جات موافق قرآن و سنت ہیں، موافق کتب اہلسنت ہین لیھذا معتبر
کیونکہ
قَدْ يَصْدُقُ الْكَذُوبَ
ترجمہ:
بہت بڑا جھوٹا کبھی سچ بول دیتا ہے
(فتح الباری9/56، شیعہ کتاب شرح اصول کافی2/25)
اور
امام جعفر صادق نے فرمایا:
الناس ﺃﻭﻟﻌﻮﺍ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﻋﻠﻴﻨﺎ، ﻭﻻ ﺗﻘﺒﻠﻮﺍ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﻣﺎ ﺧﺎﻟﻒ ﻗﻮﻝ ﺭﺑﻨﺎ ﻭﺳﻨﺔ ﻧﺒﻴﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ
ترجمہ:
امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ لوگ جو(بظاہر)ہم اہلبیت کے محب کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے باتیں، حدیثیں گھڑ لی ہیں اور ہم اہلبیت کی طرف منسوب کر دی ہیں جوکہ جھوٹ ہیں،
تو
ہم اہل بیت کی طرف نسبت کرکے جو کچھ کہا جائے تو اسے دیکھو کہ اگر وہ قرآن اور ہمارے نبی حضرت محمد کی سنت کے خلاف ہو تو اسے ہرگز قبول نہ کرو
(شیعہ کتاب رجال کشی ﺹ135, 195، بحار الانوار 2/246,....2/250)
.
دوستو، بھائیو ، اور احباب ذی وقار خاص کر سوشل میڈیا چلانے والے حضرات......خوب ذہن نشین کر لیجیے کہ کسی بھی کتاب یا تحریر یا تقریر یا پوسٹ میں کوئی بات کوئی حدیث لکھی اور اور اہلبیت بی بی فاطمہ ، حضرت علی یا امام جعفر صادق یا کسی بھی اہلبیت کا نام لکھا ہو یا کسی صحابی یا ولی صوفی کا نام لکھا ہو
تو
اسے فورا سچ مت تسلیم کیجیے،فورا جھوٹ بھی مت سمجھیے اگرچہ بظاہر اچھی بات ہو یا بظاہر نامعقول ہو
کیونکہ
اچھی بری بہت سی باتیں شیعوں نے، لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ لی ہیں اور نام اہلبیت و صحابہ اولیاء اسلاف میں سے کسی کا ڈال دیا ہے....اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے...لیھذا تحقیق کیجیے معتبر ذرائع سے تصدیق کراٰلئیے پھر سچ یا جھوٹ کہیے
ویسے تو ہربات کی تصدیق معتمد عالم سے کرائیے مگر بالخصوص جب اہلبیت کے نام سے لکھا ہوا ہو تو اب شدید لازم ہے کہ اسکی تصدیق کرائیے پھر بےشک پھیلائیے
کیونکہ
امام جعفر صادق نے متنبہ کر دیا تھا کہ نام نہاد جھوٹے محبانِ اہلبیت نے اہلبیت کی طرف ایسی باتیں منسوب کر رکھی ہیں جو اہلبیت نے ہرگز نہیں کہیں...رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین
.
نوٹ:
امت میں تفرقہ ڈالنےوالےایجنٹ…متعہ فحاشی حلال…دین کی بنیادصحابہ کو کافرکہنےوالےتحریف قرآن کےقائل،گستاخ مرتد شیعہ ہمدردی کےلائق نہیں ایسے کافر مرتد زندیق شیعہ کے کفر کی ایک جھلک...................!!
بایعوا ابابکر......أن الناس ارتدوا إلا ثلاثة
ترجمہ:
صحابہ نے ابوبکر کی بیعت کی.....بےشک سارے صحابہ مرتد ہوگئے سوائے تین کے
(شیعہ کتاب بحار الانوار28/255)
.
.
ارتد الناس بعد الرسول صلى الله عليه وآله إلا أربعة
ترجمہ:
رسول کی وفات کے بعد سارے لوگ(بشمول صحابہ) مرتد ہوگئے سوائے چار لوگوں کے
(شیعہ کتاب کتاب سلیم بن قیس ص162)
.
.
ارتد الناس إلا ثلاثة نفر: سلمان وأبو ذر، و المقداد. قال: فقلت: فعمار؟فقال: قد كان جاض جيضة ثم رجع
تمام لوگ(صحابہ)مرتد ہوگئے سوائے تین کے سلمان فارسی ابوذر اور مقداد، عمار کفر کی طرف مائل ہوئے پھر واپس مسلمان ہوئے(کل ملا کر مذکورہ چار صحابہ مسلمان بچے نعوذ باللہ)
(شیعہ کتاب الاختصاص ص10)
.
.
" إن الذين آمنوا ثم كفروا ثم آمنوا ثم كفروا ثم ازدادوا كفرا  لن تقبل توبتهم" قال: نزلت في فلان وفلان وفلان، آمنوا بالنبي صلى الله عليه وآله في أول الأمر وكفروا حيث عرضت عليهم الولاية، حين قال النبي صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فهذا علي مولاه، ثم آمنوا بالبيعة لأمير المؤمنين عليه السلام ثم كفروا حيث مضى رسول الله صلى الله عليه وآله، فلم يقروا بالبيعة، ثم ازدادوا كفرا بأخذهم من بايعه بالبيعة لهم فهؤلاء لم يبق فيهم من الايمان شئ.
خلاصہ:
آیت مین جو ہے کہ اسلام کے بعد مرتد ہوءے پھر مسلمان ہوءے پھر مرتد ہوئے پھر کفر پے ڈٹ گئے یہ
ایت صحابہ کے متعلق نازل ہوئی ان میں ایمان ذرا برابر بھی نہ بچا..(شیعہ کتاب الکافی 1/420)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,bip nmbr
00923468392475
03468392475
مکمل تحریر >>

جمعہ کے دن کی مبارک باد دینا کیسا ہے ؟

*سوال نمبر 19 :*
جمعہ کے دن کی مبارک باد دینا کیسا ہے ؟
سائل : محمدجنیدرضاعطاری عیسیٰ خیل میانوالی
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
جمعہ کے دن کی مبارک باد دینا بالکل جائز ہے کیونکہ :
*پہلی بات :*
تو یہ ہے کہ شریعت نے اس سے منع نہیں کیا اور جس کام سے شریعت منع نہ کرے، وہ کام بالکل جائز ہوتا ہے۔
چنانچہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
*"اَلْحَلاَلُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ، و مَا سَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہٗ"*
یعنی حلال وہ ہے جسے اللہ پاک نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ پاک نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی اختیار فرمائی (یعنی منع نہ فرمایا) تو وہ معاف ہے (یعنی اس کے کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے)۔
*(سنن ترمذی، کتاب اللباس، باب ماجاء فِی لُبْسِ الْفِرَاءِ، صفحہ 434، رقم الحدیث : 1726، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*
*دوسری بات :*
 یہ ہے کہ جمعہ کا دن ہمارے لیے  مبارک اور اچھا ہے اور مبارک و اچھی بات کی مبارک باد دینے کی اصل صحیح حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے.
چنانچہ معراج کی رات جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر آسمانوں سے ہوا تو انبیاءِ کرام علیٰ نبینا و عليهم الصلاة و السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج پر مبارک باد پیش کی۔
چنانچہ حضرت مالک بن صعصہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
*"أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدثهمْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ... فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ. قَالَ: نَعَمْ. قيل: مرْحَبًا بِهِ فَنعم الْمَجِيء جَاءَ ففُتح فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ فَقَالَ: هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَام ثمَّ قَالَ: مرْحَبًا بالابن الصَّالح وَالنَّبِيّ الصَّالح ثمَّ صعد بِي حَتَّى السَّماءَ الثانيةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ. فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا خَالَةٍ. قَالَ: هَذَا يَحْيَى وَهَذَا عِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ. ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ففُتح فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ قَالَ: هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ. ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِدْرِيسُ فَقَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفتح فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ: هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَهل أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى قَالَ: هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالح فَلَمَّا جَاوَزت بَكَى قيل: مَا بيكيك؟ قَالَ: أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرَ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ: هَذَا أَبُوكَ إِبْرَاهِيمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرد السَّلَام ثمَّ قَالَ: مرْحَبًا بالابن الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ"* 
یعنی نبی صلی الله علیہ و سلم نے انہیں اس رات کے متعلق خبر دی جس میں حضور کو معراج کرائی گئی۔۔۔۔۔۔پھر مجھے جبرئیل علیہ السلام لے چلے حتی کہ وہ دنیا کے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا کہا گیا کون فرمایا جبریل، کہا گیا تمہارے ساتھ کون ہے، فرمایا حضور محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کہا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہےکہا ہاں ان کی خوش آمدید ہو وہ خوب آئے پھر دروازہ کھول دیا گیا،جب میں داخل ہوا تو وہاں جناب آدم علیہ السلام تھے کہا یہ تمہارے والد آدم علیہ السلام ہیں انہیں سلام کرو میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا،پھر فرمایا صالح فرزند صالح نبی تم خوب تشریف لائے پھر مجھے جبرئیل علیہ السلام اوپر لے گئے حتی کہ دوسرے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا،کہا گیا کون بولے میں ہوں جبریل، کہا گیا تمہارے ساتھ کون ہیں، کہا حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، کہا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے کہا ہاں، کہا خوش آمدید تم بہت ہی اچھا آنا آئے، پھر دروازہ کھول دیا گیا تو جب میں اندر پہنچا تو ناگہاں وہاں حضرت یحیی علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام تھے وہ دونوں خالہ زاد ہیں جبریل علیہ السلام نے کہا یہ یحیی علیہ السلام ہیں یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں انہیں سلام کرو میں نے سلام کیا ان دونوں نے جواب دیا پھر کہا صالح بھائی صالح نبی آپ خوب آئے،پھر جبریل علیہ السلام مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے گئے دروازہ کھلوایا،کہا گیا کون وہ بولے جبریل علیہ السلام ہوں،کہا گیا تمہارے ساتھ کون ہے،کہا حضور محمد صلی اللہ  علیہ وسلم ہیں،کہا گیا انہیں بلایا گیا ہے کہا ہاں خوش آمدید تم خوب ہی آئے پھر دروازہ کھول دیا گیا جب میں داخل ہوا تو وہاں حضرت یوسف علیہ السلام تھے جبریل علیہ السلام نے کہا یہ یوسف علیہ السلام ہیں انہیں سلام کرو میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا پھر کہا صالح بھائی صالح نبی آپ خوب آئے پھر مجھے اوپر لے گئے حتی کہ چوتھے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا گیا، کہا گیا کون ہیں فرمایا میں جبریل ہوں، کہا گیا تمھارے ساتھ کون ہے کہا حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، کہا گیا کیا انہیں بولایا گیا ہے  کہا ہاں  کہا گیا خوش آمدید اچھا آنا  آپ آئےدروازہ کھو لا گیا جب ہم اندر داخل ہوئے تو وہاں حضرت ادریس علیہ السلام تھے جبریل علیہ السلام نے کہا یہ ادریس علیہ السلام ہیں آپ انہیں اسلام کریں میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا کہا خوش آمدید اے صالح بھائی صالح نبی پھر مجھے اوپر چڑھایا گیا حتی کہ پانچویں آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا، کہا گیا کون ہے کہا میں جبریل علیہ السلام ہوں، کہا گیا تمہارے ساتھ کون ہے کہا حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،کہا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے کہا ہاں بلایا گیا ہے، کہا گیا خوش آمدید آپ اچھا آنا آئے دروازہ کھولا گیا جب میں اندر گیا تو وہاں حضرت ہارون علیہ السلام تھے جبریل علیہ السلام نے کہا یہ ہارون علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا پھر کہا خوش آمدید اے صالح بھائی صالح نبی پھر مجھے اوپر لے گئے حتی کہ چھٹے آسمان  پر پہنچے دروازہ کھلوایا، کہا گیا کون ہے کہا میں جبریل علیہ السلام ہوں، کہا گیا تمہارے ساتھ کون ہے کہا حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کہا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے کہا ہاں، کہا گیا خوش آمدید آپ اچھا آنا آئے دروازہ کھولا گیا میں جب اندر پہنچا تو وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے جبریل علیہ السلام نے کہا یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا  پھر کہا خوش آمدید اے صالح بھائی  صالح نبی جب وہاں سے آگے بڑھے تو وہ رونے لگے ان سے کہا گیا کیا چیز آپ کو رُلا رہی ہے فرمایا اس لیے کہ ایک فرزند میرے بعد نبی بنائے گئے ان کی امت میری امت سے زیادہ جنت میں جائے گی پھر مجھے ساتویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، کہا گیا کون ہے کہا میں جبریل علیہ السلام ہوں، کہا گیا تمہارے ساتھ کون ہے،کہا حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کہا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے کہا ہاں تو کہا گیا خوش آمدید آپ بہت اچھا آنا آئے، پھر جب میں وہاں داخل ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں تھے جبرئیل علیہ السلام نے کہا یہ آپ کے والد ابراہیم علیہ السلام ہیں آپ انہیں سلام کریں میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا پھر کہا خوب آئے اے صالح فرزند صالح نبی۔
*(مشکوۃ المصابیح، کتاب الفضائل و الشمائل، باب فی المعراج، المجلد الثانی، صفحہ 423، 424، 425 رقم الحدیث : 5861، ملتقطاً المکتبۃ البشریٰ کراچی پاکستان، صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب کیف فرضت الصلوات فی الاسراء، صفحہ 81، رقم الحدیث : 349 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، صحیح مسلم)*
*تیسری بات :*
یہ ہے کہ امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب *"وصول الامانی"* میں درج ذیل عبارت سے بھی اس کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے۔
چنانچہ امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا :
*"قال القمولي في الجواهر: لم أر لأصحابنا كلاما في التهنئة بالعيدين والأعوام والأشهر كما يفعله الناس ورأيت فيما نقل من فوائد الشيخ زكي الدين عبد العظيم المنذري أن الحافظ أبا الحسن المقدسي سئل عن التهنئة في أوائل الشهور والسنين أهو بدعة أم لا؟*
*فأجاب بأن الناس لم يزالوا مختلفين في ذلك.*
*قال: والذي أراه أنه مباح ليس بسنة ولا بدعة."*
*ونقلہ الشرف الغزی فی شرح المنھاج ولم یزد علیہ*
یعنی (احمد بن محمد) قمولی (شافعی) رحمۃ اللہ علیہ نے *"جواہر"* میں فرمایا :
میں نے عیدین، سالوں اور مہینوں کی مبارکباد دینے کے بارے میں اپنے اصحاب کا کوئی کلام نہیں دیکھا جیساکہ لوگ اسے کرتے ہیں (یعنی مبارکباد دیتے ہیں)  اور میں نے اس میں دیکھا جس میں شیخ زکی الدین عبدالعظیم منذری کے فوائد سے نقل کیا گیا کہ بیشک حافظ ابوالحسن مقدسی رحمۃ اللہ علیہ سے مہینوں اور سالوں کی مبارکباد دینے کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا وہ بدعت ہے یا نہیں ؟
تو جواب دیا کہ لوگ ہمیشہ اس بارے میں مختلف رہیں ہیں، (اور) فرمایا : اور وہ جسے میں خیال کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ (مبارکباد دینا) مباح (جائز) ہے، نہ سنت ہے اور نہ بدعت ہے. 
اور اس کو شرف غزی نے *"شرح المنہاج"* نقل فرمایا ہے اور اس پر زیادتی نہیں کی.
*(وصول الامانی باصول التھانی صفحہ 51، 52)*
لہذا ثابت ہوا کہ جمعہ کے دن کی مبارک باد دینا بالکل درست و جائز ہے اور اس سے روکنے والا جاہل و احمق ہے۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
22/01/2019
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحيح، 
*فقط محمد عطاء الله النعيمي غفرله خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (باكستان) كراتشي*
مکمل تحریر >>

کسی بھی خوشی کے موقع پر مبارک باد دینا کیسا ہے؟🌹*

*🌹کسی بھی خوشی کے موقع پر مبارک باد دینا کیسا ہے؟🌹* 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سوال- *جمعہ کی یا کسی بھی خوشی کے موقع پر مبارکباد دینا کیسا ہے؟*
عمدہ جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں حضرت

*♥سائل، ناظم رضا♥*
ــــــــــــــــــــــــــــــ

*وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ* 

*📝الجواب بعون الملک الوہاب اللھم ہدایتہ الحق والصوابــــــــــــــ!!!*

*صورت مستفسرہ میں عرض ہے کہ ،  یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ:*
*" الاصل فی الاشیاء الاباحتہ "*
*یعنی،  " ہر چیزوں کی اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہے،  جائز ہےاور حلال ہے - "*

*ہاں ..!!! اگر شریعت سے کسی چیز کی ممانعت ثابت ہو جائے ، تو وہ چیز منع ہے،  ناجائز ہے -*
*کسی بھی چیز سے روکنے کے لئے دلیل شرعی کی ضرورت ہے - کسی کے صرف منع کرنے سے وہ چیز ناجائز نہیں  ہو جائے گی -* 
*ماننے والوں کے لئے مذکورہ قاعدہ کلیہ ہی کافی ہے - نہ ماننے والوں کے دفتر کے دفتر بے کار -*

*یہ تو اسلامی تہذیب ہے کہ اگر کسی کو کوئی کامیابی حاصل ہوئی ،  کوئی نعمت ملی،  تو مبارک باد دو ..!!! کوئی نعمت چھن گئی ہے،  تعزیت کرو ..!!! بیمار ہو گیا ہے ،  تیمار داری کرو ..!!! وغیرہ،  وغیرہ -*
*ہمارے یہاں عادت عام ہو گئی ہے کہ خوشی کے موقع پر مثلا عید الفطر و قربانی اور عید  میلادالنبی و جشن معراج شریف و اعراس مشائخ عظام،  شب براءت مواقع خوشی پر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے ہیں،  اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟*
 
*🌹حضرت امام سیوطی علیہ الرحمہ کا ایک رسالہ مسمی بہ " وصول الامافی باصول التہانی " ان سے اس کے متعلق سوال ہوا تو یہ رسالہ آپ نے تحریر فرمایا - چنانچہ خودفرماتےہیں:*
*" فقد طال السوال عن ما اعتادہ الناس من التھنئتہ بالعید والعام والشھر والولایات و نحو ذالک ھل لہ فی السنتہ الخ -"*

*یعنی،  " میرے سے سوال ہوا کہ عوام میں رواج ہے کہ عید اور نئے مہ و سال و دیگر مختلف مواقع پر ایک دوسرے کو مبارک باد کہتے ہیں ،  کیا اس کے متعلق  کسی حدیث  شریف میں تصریح ملتا ہے کہ نہیں؟  - "* 
*تواس کے جواز پر  اپ  نے دلائل شرعی سے خوب واضح فرمایا ہے -*
 
*اپنے موقف میں احباب کی تسلی و تشفی کے لئے مندرجہ ذیل کچھ دلائل نقل کرتا ہوں ملاحظہ ہوں...!!!*
https://chat.whatsapp.com/GxfFojhtjsqFl3Qb3sHVJ6
*۱- حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ،*
*حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایت :*
*" لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر "*
*( 📘پارہ ۲۶ سورہ فتح آیت ۲)*

*ترجمہ کنز الایمان شریف  " تاکہ اللہ تمھارے سبب سے گناہ بخشے تمھارے اگلوں کے اور تمھارےپچھلوں کے -"* 
*کا نزول ہوا جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حدیبیہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اپ نے اس آیت کی خوشخبری سنائی ،  تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو مبارک باد پیش کی -"*
 *(📘 رواہ البخاری و مسلم)*  

*۲- حضرت براء ابن عازب و زید ابن ارقم رضی اللہ تعالی عنہما فرماتےہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت علی المر تضی رضی اللہ تعالی عنہ کو " من کنت مولاہ فعلی مولاہ " فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو فرمایا کہ اے علی ..! رضی اللہ تعالی عنہ آپ ...!!! ہر مؤمن مرد اور عورت کے محبوب ہو گئے...!!! - آپ کو مبارک ہو..!!! -"*
*( 📘رواہ احمد)*
 
*۳- حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ:*
*" حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے* *عبداللہ ..!!! تمھیں مبارک ہو ..!!! کہ تم میری طینت سے پیدا کئے گئے ہو اورتیرا باپ آسمان پر ملائکہ کے ساتھ اڑ رہا ہے -"*
*(📕 ابن عساکر)* 

*۴- حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نےفرمایا :*
*"اے ابن کعب ..!!! کون سی سورہ اعظم ہے؟  انھوں نے عرض کیا آیتہ الکرسی - آپ نے فرمایا تمھیں علم کی فراوانی مبارک ہو ..!!! -"*
 *(📗 احمد و مسلم)* 

*حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی جب تو بہ قبول ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم جوق در جوق آکر توبہ کی قبولیت کی مبارک باد دے رہے تھے -"*
*( 📙بخاری و مسلم)*
  
*'۵- حضرت خوات بن جبیر رضی اللہ تعالی جب بیماری سے صحتیاب ہو ئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " صح جسمک یا خوات ..!!! -" اے*
 *خوات ...!!! خدا کرے تیرا جسم تندرست ہو -"*
*( 📙حاکم)*
 
*۶- حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ بدر سے بخیر و عافیت واپس تشریف لائے تو مدینہ منورہ کے لوگ روحاء مقام  پر پہنچ کر مبارک باد پیش کرتے رہے -"*
*(📕 اخرجہ الحاکم فی المستدرک مرسلا )*

*۷- حضور صلی اللہ تعالی جسے دیکھتے کہ اس کانکاح ہوا ہے تو اسے یوں دعا سے نوازتے " بارک اللہ و بارک علیک و جمع بینکما  فی خیر -"*
*(📗 رواہ الترمذی و ابو داؤد و ابن ماجہ)*
  
*۸- حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کی آمد آمد پر شعبان المعظم کے آخری جمعہ مبارک باد دینے کے طورپر فرمایا :*
*" اے لوگو..!!! وہ مہینہ آرہا ہےجو نہایت برکت والا ہے - اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار ماہ سے بہتر ہے -"*
*(📗 اخرجہ الاصبہانی فی الترغیب)*
https://chat.whatsapp.com/GxfFojhtjsqFl3Qb3sHVJ6
*۹- حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  نے فرمایا کہ:*
*" کیا تمھیں معلوم ہے کہ ہمسایہ کا حق کیا ہے؟  پھر فرمایا کہ کسی کام کی مدد چاہے تو اس کی مدد کرو..!!! اگر قرض مانگے تو قرض دو...!!! اگر اسے کوئی خیر و بھلائی حاصل ہو تو اسے مبارک باد دو ...!!! اگر اسے مصیبت پہنچے تو ا س سے مصیبت دفع کرنے کی کوشش کرو ..!!! -"*
*(📙 رواہ الطبرانی)*

*۱۰ - حضرت امام سیوطی علیہ الرحمہ  نے فرمایا کہ:*
*" قمولی الجواہر میں لکھتے ہیں کہ یہ جو لوگ عیدوں اور نئے سالوں اور نئے مہینوں پر مبارک باد دیتے ہیں میں نے ائمہ سے کسی کو منکر نہیں پایا -"*

*۱۱- حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ :*
*" جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے - اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ اللہ کے نزدیک عید اضحی و عید الفطر سے بڑا ہے - -"*
*( 📕ابن ماجہ شریف )*

*جمعہ کا دن جب اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک  عیدین سے بھی عظمت والا ہے تو جمعہ کی مبارک باد دینے میں کون سی شرعی قباحت آرہی ہے.....؟؟؟ جمعہ کی مبارک باد دینا بالکل جائز ہے کوئی شرعی ممانعت و قباحت نہیں -"*

*🌹واللہ تعالیٰ اعلم۔۔۔!!!🌹*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
 *📝کتبــــــــہ؛* 
 *حضرت علامہ مفتی محمد جعفر علی صدیقی رضوی صاحب قبلہ؛  (مدظلہ العالی و النورانی)؛ کرلوسکرواڑی سانگلی مہاراشٹر* 
 *تاریخ؛ 9 /فروری ؛ 2019ء*
 *رابطـہ؛📞 8530587825* 
ــــــــــــــــــــــــــــــ

 *🌴المشتہـــر محــــمد امتیــازالقــادری🌴* 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

https://chat.whatsapp.com/GxfFojhtjsqFl3Qb3sHVJ6

🌹 *توجہ فرمائیے*  ✍ 

*_دار المطالعہ مدنی  آپ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دار الافتاء اھلسنت کے فتاوٰی جات ، علماء اھلسنت کا علمی ، ادبی ، فکری ، درسی ، تحقیقی مواد سینڈ کرنے ، علمِ فقہ و عقائد پر مشتمل کتب اور جدید مسائل سے آگاہ کرنے مذید شوقِ مطالعہ بڑھانے کیلئے بنایا گیا ہے لھذا ضرور جوئن کریں اور علم دین سے زندگی کو روشن کریں_*

*ثواب کی نیت سے لنک شیئر ضرور کریں*
مکمل تحریر >>

دیوبندیوں کے شرکیہ عقاٸد فتوے دوسروں پر اور کرتے خود ہیں آخر یہ منافقت کیوں؟*

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=108529197836564&id=100060384526365

*دیوبندیوں  کے شرکیہ عقاٸد فتوے دوسروں پر اور کرتے خود ہیں آخر یہ منافقت کیوں؟*
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

*محترم قارٸینِ کرام :*. 

دیوبندیوں کے نزدیک 👈 *ایصال ثواب جائز*

👈 دیوبندی پیروں کے *وسیلہ سے دعا بحرمت کہہ کر کرنا جائز*
*👈 دیوبندی پیر دستگیر بھی ہیں اور مشکل کشاء بھی ۔* 

(فیوضات حسینی صفحہ نمبر 68 دیوبندی علماء)

دیوبندیوں کا اقرار ہم بزرگوں کی ارواح سے امداد کے منکر نہیں ہیں

*محترم قارئین کرام :*

ہم سوانح قاسمی کے اصل اسکینز دونوں ایڈیشن کے دے رہے ہیں جن میں ایک واقعہ بیان ہوا کہ بانی دیوبند قبر سے آ کر ایک مولوی صاحب کی مدد کرتے ہیں اس طرح دیوبندی علماء اپنے خود ساختہ شرک کے فتوؤں میں جب پھنس گئے تو اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے خود ہی اقرار کر لیا کہ ہم بزرگوں کی قبروں اور ان کی ارواح سے مدد کے منکر نہیں ہیں بلکہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور ہم اسے مانتے ہیں ہم پر انکار کا الزام لگانے والے جاہل ہیں پہلے یہ پڑھیئے :

*دیوبندی عالم جناب مناظر احسن گیلانی اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے لکھتے ہیں مجبورا :*
پس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں ہمارا بھی ارواح صالحین سے مدد کے متعلق وہی عقیدہ ہے جو اہلسنت وجماعت کا ہے اور یہ سب قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔
(حاشیہ سوانح قاسمی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 332 قدیم ایڈیشن و صفحہ نمبر 211 جدید ایڈیشن مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)

اب ہمارا سوال موجودہ وہابیت کی راہ پر چل کر مسلمانانِ اہلسنت پر یہی عقیدہ و نظریہ رکھنے کی وجہ سے شرک کے فتوے لگانے والے دیوبندی جواب دیں بانی دیوبند ، شیخ الہند دیوبند اور مناظر احسن گیلانی صاحبان مشرک ہوئے کہ نہیں ؟

اور وہ لکھ رہے ہیں ارواح صالحین سے مدد کے انکار کا ہم پر الزام لگانے والے جاہل ہیں اور بہتان لگانے والے ہیں اب بتایئے آپ لوگ بہتان تراش اور جاہل ہیں کہ نہیں جو ارواح صالحین علیہم الرّحمہ سے امداد کے منکر بن کر اسے دیوبند کی طرف منسوب کرتے ہیں ؟

*قطب العالم دیوبند غوث اعظم ہے (سب سے بڑا فریاد رس) قطب العام دیوبند نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ثانی ہے*
( مرثیہ گنگوہی صفحہ 4 از قلم شیخ الہند دیوبند محمود حسن )

دیوبندیوں کا سب سے بڑا مددگار غوث اعظم گنگوہی ہے،بانی اسلام کا ثانی گنگوہی ہے، اللہ کا فیض تقسیم کرنے والا،ابر رحمت،اللہ کا سایہ،قطب ہے گنگوہی،
*( مرثیہ گنگوہی صفحہ نمبر 4 )*

اے مسلمانو
دیوبندیوں نے اپنے گنگوہی کو پیغمبر اسلام رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا ثانی قرار دیا ھے سوال ھے آپ کی غیرت ایمانی سے کیا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی نہیں ہے فرقہ واریت ست ھٹ کر ایک مسلمان کی حیثیت سے جواب دیجیئے ؟
اور یہ گنگوہی کو اللہ کا فیض تقسیم کرنے والا ، غوث اعظم ، اللہ کا سایہ اور اللہ کی رحمت کہیں تو کوئی شرک نہیں اور مسلمانان اہلسنت پر شرک کے فتوے کیوں جناب عالی کیوں ؟

*دیوبندیوں کا حاجت روا مشکل کشاء :*
اب ہم اپنی دین و دنیا کی حاجتیں کہاں لے جائیں وہ ہمارا قبلہ حاجات  روحانی و جسمانی  گیا۔
*(مرثیہ گنگوہی صفحہ 7 شیخ الہند دیوبند محمود حسن)*

دیوبندیوں کا قطب العالم ، غوث زماں گنج عرفاں دستگیر بیکساں مولوی رشید احمد گنگوہی ہے ۔ +
*(تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ 136۔چشتی)*

ہم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی اپنے گنگوہی کو غوث الاعظم لکھیں تو جائز۔ 
*(تذکرۃ الرشید جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 2)*

دیوبندیوں کا مشکل کشاء حاجت روا رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں گنگوہی صاحب کا ایسا مرتبہ تھا کہ گنگوہی کے نام کے وسیلے سے حاجتیں پوری ہوتی تھیں ۔ 
*(تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ297۔چشتی)*

دیوبندیوں کا غوث (یعنی فریاسننے والا) رشید احمد گنگوہی ہے جس کے وسیلے سے ہزاروں لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں
*(تذکرۃُ الرّشید جلد دوم صفحہ نمبر 305)*

دیوبندیوں کا سب سے بڑا فریاد رس غوثُ الاعظم رشید احمد گنگوہی ہے

*عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی لکھتا ہے :*
 رشید احمد گنگوہی قُطبُ العالم اور غوثُ الاعظم ہیں
*(تذ کرۃُ الرّشید جلد اوّل قدیم ایڈیشن صفحہ نمبر 2)*

کوئی دیوبندی قطب العالم اور غوثُ الاعظم کے معنیٰ بتائے گا ؟

*مسلمانانِ اہلسنّت حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوثُ الاعظم کہیں تو شرک کے فتوے* اور تم اپنے مولوی کو غوثُ الاعظم کہو لکھو تو عین توحید اور ایمان ہو جائے کیوں جناب من یہاں شرک کے فتویٰ کہاں گیا ؟

یا مان لو کہ مسلمانانِ اہلسنت کے عقائد و نظریات حق ہیں یا اپنے مولویوں پر فتویٰ لگاؤ شرک ؟

اپنے لیئے شریعت اور دوسروں کےلیئے اور یہ دہرا معیار چھوڑ کر فتنہ فساد اور تفرقہ پھیلانا چھوڑ دو ۔

دیوبندیوں کا مولوی مظہرِ نورِ ذاتِ خدا ، رنج و غم ٹالنے والا اور چارہ ساز بھی ہے جو اٹھ گیا اب کون رنج و غم مٹائے گا اور چارہ سازی کرے گا چارہ ساز جو اٹھ گیا
*(مرثیہ شیخ مدنی صفحہ 24 مطبوعہ راشد کمپنی دیوبند یوپی)*

یہی الفاظ مسلمانانِ اہلسنّت کہیں تو شرک مگریہاں جائز ؟

*گنج بخش فیض عالم مظہرِ نورِ خدا پر شرک کے فتوے لگانے والے دیوبندی مفتیو اب لگاؤ نا یہاں شرک کے فتوے ؟*

جس نے اللہ کا دیدار کرنا ہو وہ دیوبندیوں کے مولوی کی قبر کی زیارت کرے

دیوبندیوں کے مولوی کی قبر کو دیکھنا اللہ کو دیکھنا ہے ، انوار و برکات ہیں ، دیوبندی مولوی دیوبندیوں کا مولا ہے ، دیوبندی مردہ مولوی کی قبر کی زیارت سے اسرار عیاں ہوتے ہیں ۔ دیوبندی مولوی کی قبر کی زیارت سے دیدار رب العالمین ہوگا ، قبر کو اونچا کرنا چاہا تو قبر والے دیوبندی مولوی کو علم ہو گیا کہا نہ کرو خلافِ سنت ہے  اور دیوبندی مولوی کا لوہاری عورت سے عشق ۔
*(تاریخ مشائخ چشت صفحہ  235 ، 236 علامہ محمد زکریا کاندھلویدیوبندی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)*

دیوبندیوں کا مولوی جانتا ہے کون حلال خرید کر لایا ہے اور کون حرام حلال کے پیسوں کے سیب الگ  کردیئے اور حرام کے پیسوں کے الگ کر دیئے ۔ 
*(خوشبو والا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ نمبر 87 ، 88۔چشتی)*

یہاں شرک نہیں ہوا جناب ؟

اگر یہی الفاظ مسلمانانِ اہلسنت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کےلیئے استعمال کرتے ہیں تو شرک کے فتوے مگر اہنے مردہ مٹی میں مل جانے اور گل سڑ جانے والے مولوی کےلیئے یہ سب کچھ جائز ہے آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے ؟
اور اب تک کسی دیوبندی عالم اور پر جوش موحد نے اس کتاب پر اور لکھنے والے پر نہ کوئی فتویٰ لگایا اور نہ ہی رد لکھا آخر یہ دہرا معیار کیوں جناب اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر وہی افعال خود اپنا کر منافقت دیکھا کر تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے آخر کیوں ؟
اصل اسکن پیش خدمت ہیں فیصلہ اہل ایمان خود کریں مسلمانان اہلسنت یہ نظریات رکھیں اور کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی خود سب کچھ کریں تو جائز آخر یہ دہرا معیار و منافقت اپنا کر امت مسلمہ میں تفرقہ و انتشارکیوں پھیلایاجاتا ہے ؟ ۔ 

(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

کونڈے_اور_مختلف_رسومات

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=594875784576164&id=100021612426957

*#کونڈے_اور_مختلف_رسومات*

ہمارے یہاں کونڈوں کا بڑا مسئلہ بنا رہتا تھا اور بعض لوگ ایصال ثواب کی اس قسم پر یہ کہا کرتے تھے کہ یہ شیعہ روافض کی رسم ہے جو وہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے بغض میں کرتے ہیں

اتنی بات انکی ٹھیک سمجھیں کہ روافض سے کچھ بعید نہیں

اس دور میں دعوتِ اسلامی کو یہ اعزاز ملا کہ اسنے کونڈے نامی ایصالِ ثواب کے معاملے کو سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہ عنہ ہی تک نہ رکھا بلکہ اس ایصالِ ثواب میں جَلی حروف سے سیدنا امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کو بھی شامل فرمالیا تاکہ روافض سے تشبہ کا شبہ بھی زائل ہو اور رافضیوں کی نیندیں بھی حرام ہو
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس طریقہ کو دیکھ کونڈوں کے معاملے میں کون خوارج کا طریقہ اپناتا ہے اور حق بول کر باطل مراد لینا واضح کرتا ہے

اب آیئے کونڈوں میں رافضیانہ رسم پر کچھ مزیدار باتیں عرض کرتا ہوں

رافضی اپنے کونڈے چھپا کر کرتے ہیں اور یہ گھر کی چار دیواری ہی میں کرتے ہیں
توھم پرست رافضی کو چار دیواری میں چار کا لفظ دیکھ کر بخار آنا چاہیئے اور اسے سَرعام کرنا چاہیئے
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جنکا مذہب ہی تقیہ ہو اور جنکی قائم حجت ہی چھپی ہو تو پھر وہ اپنے سب سے بڑے دشمن سمجھے جانے والے کے وصال پر خوشی کیونکر چھپ کے نہ کریں
اس ہی چھپن چھپائی میں انہوں نے یہ وضع کررکھا ہے کہ کونڈے گھر سے باہر نہ جائیں بلکہ کونڈوں کا کھانا کھا کر ہاتھ بھی وہیں دھوئیں کہ کہیں کوئی ایسے ہی باہر نہ چلاجائے اور انکی رسمِ بد ظاہر نہ ہو

دیکھو رافضیوں ہم گج وج کر یہ لنگر کرتے ہیں اور سیدنا امام جعفر صادق کے ساتھ ان سے افضل سیدنا امیر معاویہ کا بھی نام لیتے ہیں
ہمارے خوف سے تم میں غیرت پیدا نہ ہوگی اور تم چھپ ہی کر کونڈے کروگے جیسے تم میں 313 غیرت مند پیدا نہیں ہوتے اور تمہارا امام غائب چھپے رہنے پر مجبور رہتا ہے

غلامانِ صحابہ کا خوف تمہارے اندر 313 تو دور 12/13 غیرت مند بھی پیدا نہیں ہونے دیگا

نوٹ: ان شاءاللّٰہ میرے گھر بھی لنگرِ جعفری و معاویائی کا سلسلہ جاری ہے، اطعام الطعام کا معاملہ ہوگیا اب دیگر صورتوں میں بھی ایصالِ ثواب ہوتا رہے گا

سڑ رافضی سڑ
جَل خارجی جَل

#نظام_امیر
مکمل تحریر >>

رجب کے کونڈے ایصال ثواب اور جائز ہیں :* ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1335458843211537&id=752625121494915

*رجب کے کونڈے ایصال ثواب اور جائز ہیں :*
ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

*کونڈوں کی اصل ایصال ثواب ہے اور ایصال ثواب کے جواز پر بےشمار دلائل ہیں*

یہ ایصالِ ثواب امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ کے لیے کیا جاتا ہے جوکہ جائز ہے۔
22 رجب کو جو کونڈے پکائے اور بھرے جاتے ہیں ان کی بعض باتیں درست ہیں اور بعض غلط

*ہمارے ہاں بعض جہلاء نے کونڈوں کے بارے میں جو بیہودہ قیدیں اپنی طرف سے لگا رکھی ہیں وہ درست نہیں۔*

مثلاً اس موقع پر ایک چھوٹی کتاب بی بی فاطمہ کا معجزہ یا کونڈوں کے متعلق عجیب و غریب حکایتیں جو پڑھی اور بیان کی جاتی ہیں سب غلط اور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

22 رجب کو جو کونڈے پکائے اور بھرے جاتے ہیں ان کی بعض باتیں درست ہیں اور بعض غلط
*شرعی مسئلہ یہ ہے کہ*
کوئی نیک کام کر کے آپ اس کا ثواب کسی زندہ یا مرحوم مسلمان کو پہنچا سکتے ہیں۔
فقہائے اسلام فرماتے ہیں:

الاصل فی هذا الاباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره صلوة او صوما او صدقه او غيرها عند اهل السنه والجماعه، لما روی عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم انه ضحی بکبشين املحين احدهما عن نفسه و الاخر عن امته ممن اقربو حدانية الله تعالیٰ
.(فتح القدير، ج : 3، ص : 65)

اس مسئلہ کی اصل یہ ہے کہ انسان اپنے نیک عمل کا ثواب نماز ہو، روزہ ہو، صدقہ ہو یا کچھ اور، اہل سنت و جماعت کے نزدیک دوسرے کو پہنچا سکتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے دو چتکبر مینڈھے قربانی دیئے
ایک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی مسلمان امت کی طرف سے۔

ایصال ثواب کے ثبوت میں بے شمار دلائل ہیں مگر اختصار کے پیش نظر ایک حوالے پر اکتفا کرتا ہوں۔
کونڈے بھی ایک صدقہ ہے جس کا ثواب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو پہنچایا جاتا ہے لہذا کار ثواب ہے۔
ہاں ہمارے جہلاء نے جو بیہودہ قیدیں اپنی طرف سے لگا رکھی ہیں وہ درست نہیں
مثلاً اس موقع پر ایک چھوٹی کتاب بی بی فاطمہ کا معجزہ یا کونڈوں کے متعلق عجیب و غریب حکایتیں جو پڑھی اور بیان کی جاتی ہیں سب غلط اور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔
اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

عوام میں یہ مشہور ہے کہ کونڈے گھرے سے باہر نہ نکالے جائیں، اس جگہ کھائیں۔
یہ بھی غلط ہے کہ صرف حلوہ پوری اور کونڈوں کو ضروری سمجھیں تو یہ بھی غلط ہے۔
خواہ حلوہ پوری ہو یا کچھ اور، یونہی کونڈوں میں رکھیں یا کسی برتن میں سب جائز ہے۔ جو چاہے کھائے۔
مسلم، غیر مسلم سب کو دیں، ثواب مل جائے گا۔

بعض لوگ کہتے ہیں اس دن یعنی بائیس (22) رجب کو امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی وفات نہیں
بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ہے اور اہلِ تشیع دراصل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر خوشی مناتے ہیں۔ یہ الزام چند وجوہ کی بنا پر باطل ہے:

اولاً اس الزام کا شرعی ثبوت کیا ہے؟
محض الزام لگانا کافی نہیں۔

دوم:
کسی کے مرنے پر کوئی مخالف حلوہ پوری پکا کر ختم نہیں دلواتا اور ایصال ثواب نہیں کرتا۔
پھر شیعہ کیا پاگل ہیں کہ اپنے مخالف کا ختم دلاتے اور ایصال ثواب کرتے ہیں۔

سوم :
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تقریبا چالیس سال تک حکومت کر کے، آسودگی کی زندگی بسر کر کے، اپنے اہل و عیال میں طبعی موت کی صورت میں فوت ہوئے۔
اس میں دشمن کی خوشی کی کیا بات ہو گی؟
اس پر مخالفین کا بغلیں بجانا چہ معنی دارد؟
کیا کبھی انہوں نے معاذ اللہ نہ مرنے کا دعویٰ کیا تھا کہ ان کی وفات پر خوشیاں منائی جائیں۔
چہارم :
ہم نے کسی شیعہ کو کبھی خوشیاں مناتے نہیں دیکھا، ختم دلانا اور بات ھے

*آیئے رجب کے کونڈوں کے متعلق مزید جانتے ہیں :*
مٹی کے برتن میں میٹھی چیز تیار کرکے اس پر فاتحہ کرکے اس کا ثواب حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کو ایصال کرنا کونڈے کی نیاز کہلاتی ہے۔

عرصہ دراز سے مسلمانوں کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ 22 رجب المرجب کو حضرت امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے کھیر، پوری پکاکر اس پر فاتحہ پڑھ کر مسلمانوں کو کھلایا جاتا ہے۔

 اس کی کوئی پابندی نہیں (سونے اور چاندی کے برتن کے علاوہ) کسی بھی برتن میں کھلا سکتے ہیں
مٹی کے برتن کی کوئی قید نہیں۔

اس نیاز کو گھر سے باہر بھی اپنے عزیزوں، رشتے داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کے گھروں میں بھیج سکتے ہیں
 یہ سمجھنا کہ گھر سے باہر اس نیاز کو نہیں لے جاسکتے۔
گھر ہی میں کھلانی چاہئے، غلط فہمی ہے۔

کونڈوں کی نیاز 22 رجب المرجب کو ہی کرنا ضروری نہیں۔
یہ ایصال ثواب ھے کسی بھی ماہ میں کسی بھی تاریخ کو کرسکتے ہیں۔

*نذر و نیاز ایک مستحب عمل ھے* کریں تو ثواب، نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں لہذا یہ فرض و واجب نہیں ھے۔

ﷲ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو بےشمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت حلال اور طیب رزق ہے، جسے رب کریم اپنے بندوں کو محنت کرکے حلال ذرائع سے حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ بندے حرام سے بچ کر حلال طیب رزق حاصل کرکے اپنی زندگی گزاریں۔
انہی حلال و طیب رزق میں سے ایک بابرکت چیز نذرونیاز ہے جوکہ رب کریم کی بارگاہ میں پیش کرکے اس کا ثواب نیک و صالح مسلمانوں کو ایصال کیا جاتا ہے۔
چنانچہ اس مضمون میں نذرونیاز کی حقیقت اور اسے حرام کہنے والوں کی اصلاح کی جائے گی
(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

نذرونیاز کو حرام کہنے والے یہ آیت پیش کرتے ہیں
القرآن:
 انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اہل بہ لغیر ﷲ O 
(سورۂ بقرہ، رکوع 5، پارہ 2 ، آیت 173)
ترجمہ:
درحقیقت (ہم نے) تم پر حرام کیا مردار اور خون سور کا گوشت اور جس پر اﷲ کے سوا (کسی اور کا نام) پکارا گیا ہو۔

*القرآن:*
حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ومااہل لغیر ﷲ بہ O
(سورۂ مائدہ، رکوع 5، پارہ 6، آیت 3)
ترجمہ:
حرام کردیا گیا تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر ﷲ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔
ان آیات میں
’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘
سے کیا مراد ہے:

1۔ تفسیر وسیط علامہ واحدی میں ہے کہ
’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کا مطلب ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔

2۔ شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ترجمان القرآن میں ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ سے مراد لکھا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔

3۔ تفسیر روح البیان میں علامہ اسمٰعیل حقی علیہ الرحمہ نے
’’ مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ سے مراد یہی لیا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔

4۔ تفسیر بیضاوی پارہ 2 رکوع نمبر 5 میں ہے کہ
’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ جانور کے ذبح کے وقت بجائے خدا کے بت کا نام لیا جائے۔

5۔ تفسیر جلالین میں
’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ
وہ جانور جو غیر ﷲ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، بلند آواز سے بتوں کا نام لے کر وہ حرام کیا گیا۔
ان تمام معتبر تفاسیر کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ یہ تمام آیات بتوں کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں، لہذا اسے مسلمانوں پر چسپا کرنا کھلی گمراہی ہے۔
مسلمانوں کا نذرونیاز کرنا
مسلمان ﷲ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک جانتے ہیں اور جانور ذبح کرنے سے پہلے
’’بسم ﷲ ﷲ اکبر‘'
پڑھ کر ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں پھر کھانا پکوا کر ﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے لہذا اس میں کوئی شک والی بات نہیں بلکہ اچھا اور جائز عمل ہے۔
ایصال ثواب کیلئے بزرگوں کی طرف منسوب کرنا

الحدیث:
ترجمہ…
سیدنا حضرت سعد بن عبادہ رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ
حضرت نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا یا رسول ﷲﷺ !
میری والدہ فوت ہوگئی ہے۔
کیا میں ان کی طرف سے کچھ خیرات اور صدقہ کروں۔
آپﷺ نے فرمایا!
ہاں کیجئے
حضرت سعد بن عبادہ رضی ﷲ عنہ نے دریافت فرمایا۔
ثواب کے لحاظ سے کون سا صدقہ افضل ہے؟
آپﷺ نے فرمایا ’’پانی پلانا‘‘ تو ابھی تک مدینہ منورہ میں حضرت سعد رضی ﷲ عنہ ہی کی سبیل ہے
(بحوالہ: سنن نسائی جلد دوم، رقم الحدیث3698،ص 577، مطبوعہ فرید بک لاہور)

صاحب تفسیر خازن و مدارک فرماتے ہیں:
اگر فوت شدہ کا نام پانی پر آنا اس پانی کے حرام ہونے کا سبب بنتا تو حضرت سعد رضی ﷲ عنہ اس کنویں پر اُم سعد کا نام نہ آنے دیتے، ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بوقت ذبح جانور پر غیر ﷲ کا نام نہ آئے، جان کا نکالنا خالق ہی کے نام پر ہو
(تفسیر خازن و مدارک، جلد اول، ص 103)

الحدیث:
 ترجمہ…
حضرت عروہ بن زبیر رضی ﷲ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول ﷲﷺ نے سینگوں والے مینڈھے کے لئے حکم فرمایا جس کے سینگ سیاہ آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا سیاہ ہوں
پس وہ لایا گیا تو اس کی قربانی دینے لگے۔
فرمایا کہ اے عائشہ! چھری تو لائو، پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر تیز کرلینا۔
پس میں نے ایسا ہی کیا تو مجھ سے لے لی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے لگے تو کہا۔
ﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔
اے ﷲ تعالیٰ!
اسے قبول فرما محمدﷺ کی طرف سے آل محمدﷺ کی طرف سے اور امت محمدﷺ کی طرف سے پھر اس کی قربانی پیش کر دی
(بحوالہ: ابودائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1019، ص 392، مطبوعہ فرید بک لاہور)

الحدیث:
 ترجمہ…
حنش کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا، یہ کیا بات ہے؟
 انہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی، اپنی طرف سے قربانی کرنے کی۔
چنانچہ (ارشاد عالی کے تحت) ایک قربانی میں حضورﷺ کی طرف سے پیش کررہا ہوں۔
(بحوالہ: ابو دائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1017، ص 391، مطبوعہ فرید بک لاہور )

حضرت علامہ مولانا مُلّا جیون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:ذبح سے پہلے یا ذبح کے بعد بغرض ملکیت یا بغرض ایصال ثواب وغیرہ کسی جانور وغیرہ پر آنا یہ سبب حرمت نہیں، مثلا یوں کہا جاتا ہے۔
مولوی صاحب کی گائے، خان صاحب کا دنبہ، ملک صاحب کی بکری، عقیقہ کا جانور، قربانی کا جانور، ولیمہ کی بھینس، ان جانور پر جو غیر اﷲ کا نام پکارا گیا تو کیا یہ حرام اور منت ہوگئے؟
ہرگز نہیں! یہی حکم ہے گیارہویں کے دودھ، حضور غوث الثقلین رضی ﷲ عنہ کی طرف منسوب بکری اور منت والے جانوروں کا‘‘
(بحوالہ: تفسیرات احمدیہ)
(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

تیرہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

’’واگر مالیدہ و شیر برنج بنا برفاتحہ بزرگ بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخورند مضائقہ نیست جائز است
‘‘یعنی اگر مالیدہ اور شیرینی کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے پکاکر کھلا دے تو جائز ہے، کوئی مضائقہ نہیں
(بحوالہ : تفسیر عزیزی، جلد اول ،ص 39)
آگے فرماتے ہیں:
’’طعام کہ ثواب آں نیاز حضرت امامین نمایندو وبرآں فاتحہ و قل ودرود خواندن تبرک میشود خوردن بسیار خوب است‘‘یعنی جس کھانے پر حضرات امامین حسنین کی نیاز کریں اس پر قُل اور فاتحہ اور درود پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے
(بحوالہ: فتاویٰ عزیزی، جلد اول، ص 71)

*مسلک اہلسنت، دیوبندی مکتبہ فکر اور اہلحدیث مکتبہ فکر کی مسلمہ شخصیت شاہ ولی ﷲ علیہ الرحمہ کی کتابوں سے نذر و نیاز کا ثبوت :'*

1… اقوال امام الطائفہ کے بزرگان و عمائد اور اساتذہ و مشائخ کے نقل کرتے ہیں تاکہ ان بے باکوں کو پتہ چلے کہ شریعت سے ممانعت کے بغیر فاتحہ کو حرام بتانے پر زبان کھولنا اور فاتحہ کے کھانے، بزرگوں کی نیاز کی شیرینی کو حرام و مردار کہنا کیسی سخت سزائیں چکھاتا ہے اور کیسے برے دن دکھاتا ہے
(انفاس العارفین (اردو) حضورﷺ کی نیاز کی اشیاء کی مقبولیت، صفحہ نمبر 106، مطبوعہ المعارف گنج بخش روڈ لاہور)
(فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9 صفحہ نمبر 574، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

2… الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین میں شاہ ولی ﷲ علیہ الرحمہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم علیہ الرحمہ کی بات کو نقل کرتے ہیں
’’بائیسویں حدیث:
مجھے سیدی والد ماجد نے بتایا کہ حضور کریمﷺ کی نیاز کے لئے کچھ کھانا تیار کراتا تھا۔ ایک سال کچھ کشائش نہ ہوئی تو کھانا پکوائوں، صرف بھنے ہوئے چنے میسر آئے۔
وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کئے۔ میں نے سید عالم نور مجسمﷺ کو خوبا میں دیکھا کہ ان کے سامنے یہ چنے موجود ہیں اور حضورﷺ مسرور و شادماں ہیں‘‘
(الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین، صفحہ نمبر 40، کتب خانہ علویہ رضویہ فیصل آباد)

3… شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب انتباہ فی سلاسل الاولیاء میں لکھتے ہیں۔
تھوڑی شیرینی پر عموماً خواجگان چشت کے نام فاتحہ پڑھیں اور خدائے تعالیٰ سے حاجت طلب کریں۔
اسی طرح روز پڑھتے رہیں
(الانتباہ فی سلاسل الاولیائ، ذکر طریقہ ختم خواجگان چشم صفحہ 100 مطبوعہ برقی پریس دہلی) 
(فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

4 … شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ ’’ہمعات‘‘ میں فرماتے ہیں۔
یہیں سے ثابت ہے اعراس مشائخ کی نگہداشت اور ان کے مزارات کی زیارت پر مداومت اور ان کے لئے فاتحہ پڑھنے اور صدقہ دینے کا التزام ۔
( ہمعات، ہمعہ 11، 1 کا دیمیۃ الشاہ ولی ﷲ حیدرآباد سندھ صفحہ 58) 
(فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

5… شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’زبدۃ النصائح‘‘ میں مندرج فتویٰ میں لکھتے ہیں۔ اگر کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ان کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے قصد سے ملیدہ اور کھیر پکائیں اور کھلائیں تو مضائقہ نہیں، جائز ہگے اور خدا کی نذر کا کھانا اغنیاء کے لئے حلال نہیں۔ لیکن اگر کسی بزرگ کے نام کی فاتحہ دی جائے تو اس میں اغنیاء کو کھانا بھی جائز ہے
(زبدۃ النصائح)
(فتاویٰ رضویہ (جدید)، جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

سرور کونینﷺ کا ارشاد ہے جو کہ بخاری شریف کی سب سے پہلی حدیث ہے۔

حدیث شریف:
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
شیعہ حضرات کی جو بھی نیت ہو، وہ اپنی نیت کے ذمہ دار ہیں۔
ہم اہلسنت و جماعت کی نیت صرف اور صرف امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے ایصال ثواب کی ہے جسے ہم اہلسنت عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں
عقلی دلیل: 
18 ذی الحجہ کو تمام مسلمان یوم شہادت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ مناتے ہیں جبکہ پوری دنیا کے شیعہ اس دن عید غدیر مناتے ہیں۔
نئے کپڑے پہنتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ اس دن شیعہ عید مناتے ہیں ، ہم حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کا یوم شہات منانا چھوڑ دیں؟
 نہیں ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس لئے کہ ہماری نیت یوم شہادت منانے کی ہے۔

عقلی دلیل:
شیعہ حضرات دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کا سوگ مناتے ہیں اور ماتم کرتے ہیںجبکہ پوری دنیا کے مسلمان دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہیں۔
 ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ وہ سوگ و ماتم کرتے ہیں۔
 ہم یوم شہادت منانا چھوڑ دیں؟ ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرنا چھوڑدیں؟ نہیں، ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔
اس لئے کہ ہماری نیت شہدائے کربلا کے ایصال ثواب کی ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں حضرت امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے وصال کی تاریخ مورخین کے نزدیک 15 رجب المرجب ہے اور حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے وصال کی تاریخ 22 رجب المرجب ہے؟
اس کا جواب :
جس طرح حضرت امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کی وصال کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح حضرت امیرمعاویہ رضی ﷲ عنہ کی وصال کی تاریخ میں مختلف اقوال ہیں۔ کسی کے نزدیک 22 رجب، کسی کے نزدیک 24 رجب اور کسی کے نزدیک 26 رجب ہے۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ 22 رجب المرجب ہی حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کا یوم وصال ہے پھر تو ہمارے لئے اور بھی فیوض و برکات حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ 
وہ اس طرح کہ جب ہم 22 رجب المرجب کو نذرونیاز پر فاتحہ پڑھیں گے تو اس کا ثواب امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے ساتھ ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بھی ایصال کردیں گے۔

بعض جگہ  یہ رواج ہے کہ گھر کی چند خواتین ایک جگہ جمع ہوکر ’’لکڑ ہارے کی کہانی، داستان عجیب، دس بیبیوں کی کہانی، جناب سیدہ کی کہانی اور شہزادے کا سر نامی من گھڑت قصے اور کہانیاں پڑھ کر سناتی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سب کہانیاں ہی ہیں۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے تو سورۂ فاتحہ اور دیگر سورتوں کی تلاوت کرکے بھی نیاز تقسیم کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کو واقعی سچے واقعات سنانے ہیں تو علمائے اہلسنت کی کتابوں سے پڑھ کر سنائیں تاکہ لوگوں تک صحیح معلومات پہنچے
(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

معراج کی رات دیدار باری تعالیٰ :
حدیث شریف=
حضرت عکرمہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا۔ حضورﷺ نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت عکرمہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا، کیا ﷲ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ’’لاتدرکہ الابصار وہو یدرک الابصار‘‘ حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما نے فرمایا۔ تم پر افسوس ہے۔ یہ تو اس وقت ہے جب وہ اپنے ذاتی نور سے جلوہ گر ہو۔ رسول پاکﷺ نے اپنے رب جل جلالہ کو دو مرتبہ دیکھا 
(ترمذی، جلد دوم، ابواب تفسیر القرآن، حدیث 1205، ص 518، مطبوعہ فرید بک لاہور)

حدیث شریف:
حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے ارشاد باری تعالیٰ ’’ولقد راہ نزلتہ اخری‘‘ کے بارے میں روایت ہے کہ رسول ﷲﷺ نے ﷲ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ یہ حدیث حسن ہے
(ترمذی جلد دوم، ابواب تفسیر القرآن، حدیث 1206، ص 519، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)
حدیث شریف:
حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائناتﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے رب کریم کو دیکھا
( بحوالہ: مسند احمد از کتاب دیدار الٰہی)
اس حدیث کے بارے میں امام سیوطی علیہ الرحمہ خصائص کبریٰ اور علامہ عبدالرئوف مناوی علیہ الرحمہ شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

حدیث شریف: حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونینﷺ فرماتے ہیں کہ بے شک ﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دولت کلام بخشی اور مجھے اپنا دیدار عطا فرمایا۔ مجھ کو شفاعت کبریٰ و حوض کوثر سے فضیلت بخشی (ابن عساکر)
اسلامی عقیدہ: حضورﷺ کے خصائص سے معراج ہے کہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور وہاں سے ساتوں آسمان اور کرسی و عرش تک بلکہ بالائی عرش رات کے ایک خفیف حصہ میں مع جسم شریف کے تشریف لے گئے اور وہ قرب خاص حاصل ہوا کہ کسی بشر و ملک کو کبھی نہ حاصل ہوا، نہ ہوگا اور جمال الٰہی اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھا اور کلام الٰہی بلاواسطہ سنا اور تمام ملکوت السمٰوٰت والارض کو بالتفضیل ذرہ ذرہ ملاحظہ فرمایا
(بہار شریعت، حصہ اول)
شب معراج اور ستائیس رجب کی فضیلت
شب معراج کو ﷲ تعالیٰ کے محبوبﷺ سے نسبت ہے۔ اس لئے اس رات اور اس دن کی بڑی فضیلتیں ہیں۔ عبادت و ریاضت ہر رات میں باعث ثواب ہے مگر متبرک اور مقدس راتوں میں عبادات کی فضیلت نہایت مختلف ہے۔
حدیث شریف: حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائناتﷺ نے ارشاد فرمایا۔
رجب کی ستائیسویں رات میں عبادت کرنے والوں کو سو سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے
(بحوالہ: احیاء العلوم، مصنف: امام غزالی علیہ الرحمہ، جلد اول، ص 546، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)
روایت: امام بیہقی علیہ الرحمہ نے شعب الایمان میں لکھا ہے کہ ماہ رجب میں ایک دن اور ایک رات بہت ہی افضل اور برتر ہے جس نے اس دن روزہ رکھا اور اس رات عبادت کی تو گویا اس نے سو سال کے روزے رکھے اور سو سال تک عبادت کی۔ یہ افضل رات رجب شریف کی ستائیسویں شب ہے
(بحوالہ: ماثبت من السنہ، مصنف: شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ، ص 171)

(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

بائیس ( 22 ) رجب المرجب کی رسم پر محض پردہ پوشی کے لئے اسے امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے ورنہ حقیقت میں یہ رسم حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کی خوشی میں شیعہ حضرات نے جاری کی ہے ؟* کا جواب

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1690502354373849&id=752625121494915

*بائیس ( 22 ) رجب المرجب کی رسم پر محض پردہ پوشی کے لئے اسے امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے ورنہ حقیقت میں یہ رسم حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کی خوشی میں شیعہ حضرات نے جاری کی ہے ؟*
کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

*اس اعتراض کا جواب :*

سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا ارشاد ہے جو کہ بخاری شریف کی سب سے پہلی حدیث ہے :
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔

*رافضی شیعہ حضرات کی جو بھی نیت ہو، وہ اپنی نیت کے ذمہ دار ہیں ۔*
ہم اہلسنت وجماعت کی نیت صرف اور صرف امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے ایصال ثواب کی ہے جسے ہم اہلسنت عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں ۔

*عقلی دلیل نمبر 1 :*

18 ذی الحجہ کو تمام مسلمان یوم شہادت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ مناتے ہیں جبکہ پوری دنیا کے شیعہ اس دن عید غدیر مناتے ہیں ۔
نئے کپڑے پہنتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ اس دن شیعہ عید مناتے ہیں ، ہم حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کا یوم شہات منانا چھوڑ دیں ؟
نہیں ہرگز نہیں چھوڑیں گے ۔ 
اس لئے کہ ہماری نیت یوم شہادت منانے کی ہے ۔

*عقلی دلیل نمبر 2 :*

شیعہ حضرات دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کا سوگ مناتے ہیں اور ماتم کرتے ہیں 
*جبکہ پوری دنیا کے مسلمان دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہیں ۔* ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ وہ سوگ و ماتم کرتے ہیں ۔
ہم یوم شہادت منانا چھوڑ دیں ؟ 
ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرنا چھوڑدیں ؟
نہیں ، ہرگز نہیں چھوڑیں گے ۔ 
اس لئے کہ ہماری نیت شہدائے کربلا کے ایصال ثواب کی ہے ۔

(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

کونڈوں کی شرعی حیثیت

*✿-•°✧بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم✧-•°✿*
*✿✧اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه‌✧✿*
*کونڈوں کی شرعی حیثیت*
⬅️(سوال) کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کونڈوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب ہمارے ہاں اسلامیانِ پاک و ہند میں 22؍رجب المرجب کو ائمۂ اہلِ بیت بالخصوص حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ کی فاتحہ کے لیے کونڈوں کا اہتمام کیا جاتا ہے،جو بلا شبہ جائز و مباح مستحسن امر ہے اور اس کا انکار محض جہالت و عناد ہے۔کونڈے کی فاتحہ جو در اصل ایصالِ ثواب ہی کی ایک شاخ ہے اور ایصالِ ثواب قرآن و سنّت اور ائمہ کرام کے اقوالِ مبارکہ سے ثابت ہے اور مشائخ کرام کا اس پر عمل ہے۔جو حضرات کونڈوں کو ناجائز و بدعت سمجھتے ہیں ان کو چاہیے اس پر کوئی دلیل پیش کریں کیوں کہ شریعتِ مطہرہ کا قاعدہ ہے الاصل فی الاشیاء الا باحۃ کہ اشیا میں اصل اباحت ہے تو جو اس کو درست نہیں سمجھتے دلیل دینا ان کو لازم ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو حضرات اس کو ناجائز و بدعت سمجھتے ہیں وہ محض عناد و جہالت کی وجہ سے ایسا کہتے ہیں ان کے پاس اس کے ناجائز و بدعت ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس کے اثبات کے لیے چند دلائل پیشِ خدمت ہیں۔
⬅️1= *وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْا مِنْ بَعْدِ ھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ*
[پارہ ض28،حشر10] 
(ترجمہ) اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کر تے ہیں اےہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔(کنز الایمان)
حضرت علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی 1117ھ، 1137ھ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں وفی الایۃ دلیل علی ان الترحم والاستغفار واجب علی المؤمنین الاخرین للسابقین منھم لاسیما لابائھم ومعلمیھم امور الدین.
[روح البیان،ج2،ص210]
یعنی اس آیت میں اس امر پر دلیل ہے کہ گذشتہ مسلمانوں کے لیے رحمت کی دعا کرنا اور مغفرت چاہنا پچھلےمسلمانوں پر واجب ہے خصوصاً اپنے آبا و اجداد اور دینی علوم کے استاذوں کے لیے۔حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں نعیمی علیہ الرحمۃ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ صرف اپنے لیے دعا نہ کرے سلف کے لیے بھی کرے۔دوسرے یہ کہ بزرگانِ دین خصوصاً صحابۂ کرام واہلِ بیت کے عرس،ختم،نیاز فاتحہ اعلیٰ چیزیں ہیں کہ ان میں ان بزرگوں کے لیے دعا ہے۔
[نور العرفان مع کنز الایمان،حشر 10]

⬅️2= *قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا*
[پارہ15،بنی اسرائیل24] 
اس آیت کی تفسیر میں علامہ امام خازن  متوفی ۷۴۱ھ فرماتے ہیں ای ادع اللہ ان یرحمھا برحمۃ الباقیۃ
[تفسیر خازن،ج4،ص126]
یعنی اللہ تعالیٰ سے ماں باپ کے لیے دعا کرے کہ وہ اپنی رحمتِ باقیہ کے ساتھ ان دونوں پر رحم کرے۔علامہ  امام ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی متوفّٰی 701ھ  فرماتے ہیں ای لا تکتف برحمتک علیھما التی لا بقاءلھا وادع اللہ بان یرحمھما برحمۃ الباقیۃ واجعلہ ذلک جزاء لرحمتھما علیک فی صغیرک وتربیتھما لک والمراد غیرہ علیہ السلام
[مدارک،ج2،ص24، بحوالۂ فتاوٰی اجملیہ،ج3،ص411]

یعنی تو ماں باپ پر اپنی اس رحمت کے ساتھ اکتفا نہ کر جس کے لیے بقا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کر کہ وہ اپنی رحمتِ باقیہ کے ساتھ ان دونوں پر رحم کرے اور انہوں نے تجھ پر تیرے چُھٹ پنے میں جو رحم  کیا اور تجھے پالا اس کی اس دعا کو جزا دینا اور آیت میں خطاب غیرِ نبی سے ہے۔
🌹 *احادیث سے ثبوت*
⬅️1=حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الامن ثلاثۃ الامن صدقۃ جاریۃ اوعلم ینفع بہ او ولد صالح یدعولہ
[صحیح مسلم،مسند احمد2،ص372،سننِ نسائی،ج2، ص123،ترمذی،ج1،ص256 ابو داؤد ج2،ص42،بیہقی سنن،ج6،ص278]
(ترجمہ) جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اسکے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں،لیکن تین عمل منقطع نہیں ہوتےصدقۂ جاریہ، علمِ نافع اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی  رہے

⬅️2=حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ان اللہ یرفع الدرجۃ للعبد الصالح فی الجنۃ فیقول یا رب انی لی ھذہ فیقول باستغفار ولدک۔
[ادب المفرد للبخاری،ص30،ابنِ ماجہ268،مسندِ احمد، ص509،طبرانی اوسط،ج5، ص349،بغوی،شرح السنۃ،5،ص197] 
اللہ تعالیٰ جنّت میں کسی نیک آدمی کے درجات  بلند کرتا ہے تو بندہ عرض کرتا ہے اے میرے رب مرا درجہ کیسے بلند ہوا تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تیرے بیٹے نے تیرے لیے استغفار کیا ہے۔
⬅️3=حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ما المیت فی القبر الا کالغریق المتغوث ینتظر دعوۃ  لحقہ من اب او ام او اخ او صدیق فاذا الحقتہ کان احب الیہ من الدنیا وما فیھا وان اللہ تعالٰی لیدخل علی اھل  القبو ومن دعاء اھل الارض امثال الجبال وان ھدیۃ الاحیاء الی الاموات
[بیہقی،شعب الایمان،ج6،ص 203،دیلمی4،ص391، مشکوٰۃ،ص206] 

میت قبر میں اس حالت میں ہوتی ہے جس طرح کوئی ڈوبتا ہوا آدمی،اسے انتظار ہوتا ہے کہ کوئی اسے دعا پہنچے ماں باپ یا بھائی  یا کسی دوست کی طرف سے تو جب اس کو دعا پہنچ جاتی ہے تو وہ دعا اسے  دنیا ومافیہا سے محبوب ہوتی ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ زمین والوں کی دعا سے اہلِ قبور  کو پہاڑوں کے برابر ثواب عطا  کرتا ہے اور بے شک اہلِ قبور کے لیے زندوں کا ہدیہ ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا ہے۔

⬅️4=حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا امتی امۃ مرحومۃ تدخل قبورھا بذنوبھا وتخرج من قبورھا لا ذنوبھا علیھا تمحص عنھا باستغفار المؤمنین [طبرانی اوسط،ج2،ص 290،دیلمی،ج1،ص498]

میری امّت امّتِ مرحومہ ہے کہ اپنی قبروں میں گناہوں کے ساتھ داخل ہوگی اور جب قبروں سے نکلے گی تو بے گناہ ہوگی مومنین کے استغفار کی وجہ سے۔

⬅️5=عن سعد بن عبادۃ سے روایت ہے انہ قال یارسول اللہﷺ ان ام سعد ماتت  فای الصدقۃ افضل قال الماء فحفرا بئرا وقال ھذہ لام سعد. 
[سنن ابو داؤد، ج1،ص236،مسندِِ احمد،ج5،ص275بیہقیِ سننِ کبریٰ،ج4،ص185]

انہوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ سعد کی ماں فوت ہوگئی، کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا پانی۔حضرت سعد نے کنواں کھدوایا اور کہا یہ کنواں سعد کی ماں کے لیے ہے۔

⬅️6=حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ عاص بن وائل نے وصیت کی کہ میری طرف سے سو غلام آزاد کیے جائیں چناں چہ اس کے بیٹے  ہشام  نے اسکی طرف سے  پچاس غلام آزاد کردیے پھر اس کے بیٹے عمرو نے اسکی طرف سے پچاس غلام آزاد کرنے کا ارادہ کیا تو کہا کہ میں رسول اللہﷺسے پوچھ لوں تو وہ بارگاہِ  نبوتﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہﷺ میرے باپ نے وصیت کی تھی اس کی طرف سے سو غلام آزد کیے جائیں اور ہشام نے اس کی طرف سے پچاس غلام آزاد کردیے اور میرے ذمے پچاس باقی ہیں تو کیا میں اس کی طرف سے بقیہ پچاس غلام آزاد کردوں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا انہ لو کان مسلما فاعتقتم عنہ او تصدقتم عنہ او حججتم عنہ بلغہ ذلک
[سنن ابو داؤد،ج2،ص43،سنن کبریٰ6،ص279،مصنّف عبدالرزاق،ج9،ص،61،62]

اگر وہ مسلمان ہوتا تو پھر تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا صدقہ کرتے یا حج کرتے تو اس کو ان اعمال کا ثواب پہنچتا۔کونڈوں کے متعلق علمائے کرام کے فتاوٰی

⬅️ *مضامین 1=* صد رالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں اسی طرح ماہِ رجب میں بعض جگہ حضرت سیّدنا امام جعفر صادق کو ایصالِ ثواب کے لیے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ بھی جائز ہے مگر اس میں اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کر رکھی ہے، یہ بے جا پابندی ہے۔
[کونڈوں کی فضیلت،ص7] 

⬅️ 2= محدثِ اعظمِ پاکستان حضرت علامہ مولانا سردار احمد چشتی قادری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں سیّدنا امام جعفر صادق کی فاتحہ کے لیے 22 رجب المرجب کو کونڈے بھی شرعاً جائز وباعثِ خیر و برکت ہے۔مخالفینِ اہلِ سنّت  اس کو بلا دلیل بدعت و حرام قرار دیتے ہیں۔
[کونڈوں کی فضیلت،ص8] 

⬅️3= مفتیِ اعظمِ پاکستان خلیفۂ اعلیٰ حضرت حضرت علامہ ابو البرکات سیّد احمد قادری رضوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں گیارھویں شریف،شبِ براءت،عرس و چہلم کی طرح 22 رجب المرجب کو حضرت امام جعفر صادق کی نیاز کے لیے کونڈے بھرنا بھی اہلِ سنّت کے معمولات میں سے ہے اور اس کے جواز کے وہی دلائل ہیں جو فاتحہ ایصالِ ثواب وغیرہ کے ہیں۔
[کونڈوں کی فضیلت،ص8] 

⬅️4= حکیم الامت مفسر شہیر حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں رجب شریف کے مہینےکی 22؍تاریخ کو یوپی میں کونڈے ہوتے ہیں یعنی نئے کونڈے منگائے جاتے ہیں اور سوا سیر میدہ،سوا پاؤ شکر، سوا پاؤ گھی کی پوریاں بناکر حضرت امام جعفر صادق کی فاتحہ کرتے ہیں،فاتحہ ہر برتن میں اور ہر کونڈے پر ہوجائے گی۔اگر صرف زیادہ صفائی کے لیے نئے کونڈے منگالیں تو حرج نہیں،دوسری فاتحہ کے کھانوں کی طرح اس کو بھی باہر بھیجا  جاسکتا ہے۔بائیس22 رجب کو حضرت امام جعفر صادق کی فاتحہ کرنے سے بہت اَڑی ہوئی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔
[کتاب اسلامی زندگی،ص69، 127 کونڈوں کی فضیلت، ص8، 9]

⬅️5= شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی فرماتے ہیں ماہِ رجب میں حضرت امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ کو ایصالِ ثواب کرنے کے لیے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں۔ فاتحہ کے وقت ایک کتاب داستانِ عجیب بعض لوگ پڑھتے ہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔فاتحہ دلانا چاہیے،یہ جائز اور ثواب کا کام ہے۔
[جنتی زیور،ص389، 390 کونڈوں کی فضیلت،ص9] 

⬅️6= خلیل العلما حضرت علامہ مفتی محمد خلیل خاں قادری برکاتی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ماہِ رجب میں بعض جگہ حضرت سیّدنا امام جعفر صادق کو ایصالِ ثواب کے لیے  کھیر پوری (حلوہ) پکا کر کونڈے بھرے جاتے ہیں اور فاتحہ دلاکر لوگوں کو کھلائے جاتے ہیں۔یہ بھی جائز ہے۔
[سنّی بہشتی زیور،حصّۂ دوم،ص176] 

پاسبانِ مسلکِ رضا،نباضِ قوم حضرت علامہ مولانا الحاج ابو داؤد محمدصادق رضوی  فرماتے ہیں 22؍رجب کا ختم شریف سیّدنا امام جعفر صادق کی یاد میں 22؍رجب شریف وایصالِ ثواب اہلِ سنّت وجماعت میں معمول و معروف ہے۔مخالفینِ اہلِ سنّت ومنکرینِ گیارھویں چوں کہ محبوبانِ خدا و بزرگانِ دین کی یاد منانے اور ختم شریف دلانے کے شروع ہی سے خلاف ہیں اس لیے وہ میلاد و عرس،گیارھویں کی طرح 22؍رجب کے (فاتحہ کے) خلاف بھی بلا وجہ وایلا کرتے ہیں۔
[ماہنامہ رضائے  مصطفیٰ،شعبان 1402ھ،ص 22؛ کونڈوں کی فضیلت،ص9، 10]
*کونڈوں کی شرعی حیثیت از مفتی محمد اکرام المحسن فیضی*
واللہ تعالٰی اعلم ورسولہ الاعلٰی اعلم۔
*•●◉✿صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب✿◉●•*
*●✿صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد✿●*
مکمل تحریر >>

Friday 19 February 2021

قبر پر اذان والے كلمات

قبر پر اذان والے کلمات

1۔ بریلوی اور دیوبندی مساجد و مدارس میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے، نفرت اسلئے پائی جاتی ہے کہ بریلوی عالم جناب احمد رضا خاں صاحب نے دیوبندی علماء کی چار عبارتوں پر کُفر کا فتوی خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) سے لگوایا۔

2۔ البتہ مندرجہ ذیل اعمال پر لڑائی اُسی وقت ختم ہو جائے گی جب بریلوی اور دیوبندی اعلان کر دیں گے یا عوام سمجھ جائے گی کہ بریلوی یا دیوبندی ہونا لازمی نہیں بلکہ قرآن و سنت پر ہونا لازمی ہے:

اعمال: اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، توسل، استمداد، استغاثہ، ایصالِ ثواب، عُرس، میلاد، پیری مریدی، قبر پر اذان والے کلمات، انگوٹھے چومنا، 15 شعبان اور 27 رجب کی عبادت، چاند رات کی عبادت، 22 رجب کے کُونڈے وغیرہ

سوال: کیا اگر یہ سب اعمال وقتی طور پر بند کر دئے جائیں تو دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث کی لڑائی ختم ہو کر رافضیت بے نقاب نہیں ہو جائے گی؟ البتہ جناب احمد رضا خاں صاحب نے قبر پر اذان والے کلمات کہنے کے متعلق یہ فتوی دیا ہے:

استفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دفن کے وقت جو قبر پر اذان کہی جاتی ہے۔ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟بینوا توجروا۔

الجواب:بعض علمائے دین نے میت کو قبر میں اتارتے وقت اذان کہنے کو سنت فرمایا۔ امام ابن حجر مکی وعلامہ خیر الملۃ والدین رَملی استاذِ صاحب درمختار علیہم رحمۃ الغفار نے ان کا یہ قول نقل کیا: مکی نے اپنے فتاوٰی اور شرح العباب میں نقل کیا اور اس نے معارضہ کیا، رملی نے حاشیہ بحرالرائق میں نقل کیا اور اسے کمزور کہا)۔ حق یہ ہے کہ اذان مذکور فی السوال کا جواز یقینی ہے۔ ہرگز شرع مطہر سے اس کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں اور جس امر سے شرع منع نہ فرمائے اصلاً ممنوع نہیں ہو سکتا۔ قائلانِ جواز کے لئے اسی قدر کافی۔ جو مدعی ممانعت ہو دلائل شرعیہ سے اپنا دعویٰ ثابت کرے پھر بھی مقام تبرع میں آکر فقیر غفر ﷲ تعالیٰ بدلائل کثیرہ اس کی اصل شرعِ مطہر سے نکال سکتا ہے جنہیں بقانون مناظرہ اسانید سوال تصور کیجئے فاقول وباﷲ التوفیق وبہٖ الوصول الٰی ذری التحقیق۔

دلیل اول: جب بندہ قبر میں رکھا جاتا اور سوال نکیرین ہوتا ہے شیطانِ رجیم وہاں بھی خلل انداز ہوتا اور جواب میں بہکاتا ہے۔ امامِ ترمذی محمد بن علی نوادر الاصول میں امام اجل سفیانِ ثوری رحمۃ ﷲ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں: جب مردے سے سوال ہوتا ہے کہ تیرارب کون ہے۔ شیطان اس پر ظاہر ہوتا ہے اور اپنی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میں تیرا رب ہوں۔ اس لئے حکم آیا کہ میت کے لئے ثابت قدم رہنے کی دعا کریں۔

امام ترمذی فرماتے ہیں: وہ حدیثیں اس کی مؤید ہیں جن میں وارد کہ حضور ﷺ میت کو دفن کرتے وقت دعا فرماتے: الٰہی اسے شیطان سے بچا اگر وہاں شیطان کا کچھ دخل نہ ہوتا تو حضور اقدس حضور ﷺ یہ دعا کیوں فرماتے اور صحیح حدیثوں سے ثابت کہ اذان شیطان کو دفع کرتی ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہما میں حضرت ابوہریرہ رضیﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی حضور اقدس حضور ﷺ فرماتے ہیں: جب مؤذن اذان کہتا ہے۔ شیطان پیٹھ پھیر کر گوز زناں بھاگتا ہے‘‘۔ صحیح مسلم کی حدیث جابر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے واضح کہ چھتیس میل تک بھاگ جاتا ہے اور خود حدیث میں حکم آیا کہ جب شیطان کا کھٹکا ہو، فوراً اذان کہو کہ وہ دفع ہوجائے گا۔ اخرجہ الامام ابوالقاسم سلیمٰن بن احمد الطبرانی فی اوسط معاجیمہٖ عن ابی ھریرۃ رضیﷲ تعالٰی عنہ ہم نے اپنے رسالے ’’نسیم الصبا فی ان الاذان یحول الوبا‘‘ میں اس مطلب پر بہت احادیث نقل کیں اور جب ثابت ہو لیا کہ وہ وقت عیاذًا باﷲ مداخلت شیطان لعین کا ہے اور ارشاد ہوا کہ شیطان اذان سے بھاگتا ہے اور ہمیں حکم آیا کہ اس کے دفع کو اذان کہو تو یہ اذان خاص حدیثوں سے مستنبط بلکہ عین ارشادِ شارع کے مطابق اور مسلمان بھائی کی عمدہ امداد واعانت ہوئی جس کی خوبیوں سے قرآن و حدیث مالامال۔

دلیل دوم: جب سعد بن معاذ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ‘ دفن ہو چکے اور قبر درست کردی گئی نبی ﷺ دیر تک سبحان ﷲ، سبحان ﷲ فرماتے رہے اور صحابہ کرام بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے۔ پھر حضور ﷲ اکبر ﷲ اکبر فرماتے رہے اور صحابہ بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے، پھر صحابہ نے عرض کی یا رسول ﷲ حضور اول تسبیح پھر تکبیر کیوں فرماتے رہے؟ ارشاد فرمایا اس نیک مرد پر اس کی قبر تنگ ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے وہ تکلیف اس سے دور کی اور قبر کشادہ فرمادی۔ (احمدو طبرانی و بیہقی)

علامہ طیبی شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں: حدیث کے معنی یہ ہیں کہ برابر میں اور تم ﷲ اکبر ﷲ اکبر سبحٰن ﷲ سبحٰن ﷲ کہتے رہے یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے اس تنگی سے انہیں نجات بخشی۔

اقول اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خود حضور اقدس صلی ﷺ نے میت پر آسانی کے لئے بعد دفن کے قبر پر ﷲ اکبر، ﷲ اکبر بار بار فرمایا ہے۔ اور یہی کلمہ مبارکہ اذان میں چھ بار ہے تو عین سنت ہوا۔ غایت یہ کہ اذان میں اس کے ساتھ اور کلمات طیبات زائد ہیں سو ان کی زیادت نہ معاذ ﷲ مضر، نہ اس امر مسنون کے منافی بلکہ زیادہ مفید ومؤید مقصود ہے کہ رحمت الٰہی اتارنے کے لئے ذکرِ خدا کرنا تھا، دیکھو یہ بعینہٖ وہ مسلک نفیس ہے جو دربارہ تلبیہ اجلہ صحابۂ عظام مثل حضرت امیر المومنین عمر و حضرت عبدﷲ بن عمر و حضرت عبد ﷲ بن مسعود و حضرت امام حسن مجتبیٰ و غیرہم رضی ﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین کو ملحوظ ہوا اور ہمارے ائمہ کرام نے اختیار فرمایا۔ ہدایہ میں ہے:ان کلمات میں کمی نہ چاہیئے کہ یہی نبی ﷺ سے منقول ہیں تو ان سے گھٹائے نہیں اور اگر بڑھائے تو جائز ہے کہ مقصود ﷲ تعالیٰ کی تعریف اور اپنی بندگی کا ظاہر کرنا ہے تو اور کلمے زیادہ کرنے سے ممانعت نہیں۔ فقیر غفر ﷲ تعالیٰ لہ نے اپنے رسالہ ’’صفائح للجین فی کون التصافح بکفی الیدین(۱۳۰۶)‘‘وغیرہا رسائل میں اس مطلب کی قدرے تفصیل کی۔

دلیل سوم: بالاتفاق سنت اور حدیثوں سے ثابت اور فقہ میں مثبت کہ میت کے پاس حالت نزع میں کلمۂ طیبہ لا الہ الا ﷲ کہتے رہیں کہ اسے سن کر یاد ہو۔ حدیث متواتر میں ہے حضورِ اقدس ﷺ فرماتے ہیں: اپنے مردوں کو لا الٰہ الا ﷲ سکھائو رواہ احمد و مسلم و ابوداؤد و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ

اب جو نزع میں ہے وہ مجازاً مردہ ہے اور اسے کلمہ سکھانے کی حاجت کہ بعون ﷲ تعالیٰ خاتمہ اسی پاک کلمے پر ہو اور شیطانِ لعین کے بہلانے میں نہ آئے اور جو دفن ہو چکا حقیقۃً مردہ ہے اور اسے بھی کلمہ پاک سکھانے کی حاجت کہ بعون ﷲ تعالیٰ جواب یاد ہوجائے اور شیطانِ رجیم کے بہکانے میں نہ آئے اور بے شک اذان میں یہی کلمہ لا الٰہ الا ﷲ تین جگہ موجود بلکہ اس کے تمام کلمات جوابِ نکیرین بتاتے ہیں۔ ان کے سوال تین ہیں من ربک تیرا رب کون ہے؟ ما دینک تیرا دین کیا ہے؟ ما کنت تقول فی ھذا الرجل تو اس مرد یعنی نبی ﷺ کے باب میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ اب اذان کی ابتداء میں ﷲ اکبر ﷲ اکبر ﷲ اکبر ﷲ اکبر اشھدان لا الٰہ الا ﷲ اشھدان لا الٰہ الا ﷲ اور آخر میں ﷲ اکبر ﷲ اکبر لا الٰہ الا ﷲ سوال من ربک کا جواب سکھائیں گے ان کے سننے سے یاد آئے گا کہ میرارب ﷲ ہے اور اشھد ان محمدًا رسول ﷲ اشھد ان محمدًا رسول ﷲ سوال ماکنت تقول فی ھٰذا الرجل کا جواب تعلیم کریں گے کہ میں انہیں ﷲ کا رسول جانتا تھا اور حی علیٰ الصلٰوۃ حی علی الفلاح جواب ما دینک کی طرف اشارہ کریں گے کہ میرا دین وہ تھا جس میں نماز رکن و ستون ہے کہ الصلٰوۃ عماد الدین تو بعد دفن اذان دینا عین ارشاد کی تعلیم ہے جو نبیﷺنے حدیث صحیح متواتر مذکورمیں فرمایا۔

دلیل چہارم: حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں: آگ کو تکبیر سے بجھائو۔ ابن عدی حضرت عبد ﷲ بن عباس وہ اور ابن السنی و ابن عساکر حضرت عبد ﷲ بن عمروبن عاص رضی ﷲ تعالیٰ عنہم سے راوی حضور ﷺ فرماتے ہیں: جب آگ دیکھو ﷲ اکبر ﷲ اکبر کی بکثرت تکرار کرو وہ آگ کو بجھادیتا ہے۔

علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں: ’’فکبروا‘‘ سے مراد یہ ہے کہﷲ اکبر ﷲ اکبر کثرت کے ساتھ بار بار کہو)۔ مولانا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری اس حدیث کی شرح میں کہ حضور ﷺ قبر کے پاس دیر تک ﷲ اکبر ﷲ اکبر فرماتے رہے، لکھتے ہیں:اب یہ ﷲ اکبر ﷲ اکبر کہنا غضبِ الٰہی کے بجھانے کو ہے ولہٰذا آگ لگی دیکھ کر دیر تک تکبیر مستحب ٹھہری‘‘۔

وسیلۃ النجاۃ میں حیرۃ الفقہ سے منقول ہے: اہل قبرستان پر تکبیر کہنے میں حکمت یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی جگہ آگ بھڑکتی ہوئی دیکھو اور تم اسے بجھانے کی طاقت نہ رکھتے ہو، تو تکبیر کہو کہ اس تکبیر کی برکت سے وہ آگ ٹھنڈی پڑجائے گی چونکہ عذاب قبر بھی آگ کے ساتھ ہوتا ہے اور اسے تم اپنے ہاتھ سے بجھانے کی طاقت نہیں رکھتے لہٰذا ﷲ کا نام لو تاکہ فوت ہونے والے لوگ دوزخ کی آگ سے خلاصی پائیں گے)۔ یہاں سے بھی ثابت کہ قبر مسلم پر تکبیر کہنا فرد سنت ہے تو یہ اذان بھی قطعاً سنت پر مشتمل اور زیادات مفیدہ کا مانعِ سنیت نہ ہونا تقریر دلیل دوم سے ظاہر ہے۔

دلیل پنجم: ابن ماجہ و بیہقی میں حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کے ساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا۔ حضرت عبد ﷲ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے جب اسے لحد میں رکھا کہا۔ بسم ﷲ وفی سبیل ﷲ، جب لحد برابر کرنے لگے کہا الٰہی اسے شیطان سے بچا اور عذاب قبر سے امان دے پھر فرمایا میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ امام تر مذی حکیم قدس سرہ الکریم بسند جید عمرو بن مرۃ تا بعی سے روایت کرتے ہیں: صحابہ کرام یا تابعین عظام مستحب جانتے تھے کہ جب میت کو لحد میں رکھا جائے تو دعا کریں الٰہی اسے شیطان رجیم سے پناہ دے۔

ابن ابی شیبہ مستحب جانتے تھے کہ جب میت کو دفن کریں یوں کہیں اللہ کے نام سے اور اللہ کی راہ میں اور رسول اللہ ﷺ کی ملت پر، الٰہی اسے عذاب قبر وعذاب ِدوزخ و شیطان ملعون کے شرسے پناہ بخش۔ ان حدیثوں سے جس طرح یہ ثابت ہوا کہ اس وقت عیاذا بااللہ شیطان رجیم کا دخل ہوتا ہے یونہی یہ بھی واضح ہوا کہ اس کے دفع کی تدبیر سنت ہے کہ دعا نہیں مگر ایک تدبیر اور احادیث سابقہ دلیل اول سے واضح کہ اذان دفع شیطان کی ایک عمدہ تدبیر ہے تو یہ بھی مقصودشارع کے مطابق اور اپنی نظیر شرعی سے موافق ہوئی۔

دلیل ششم: ابو داؤد و حاکم و بیہقی: حضور اقدس ﷺ جب دفن میت سے فارغ ہو تے قبر پر وقوف فرماتے اور ارشاد کرتے اپنے بھائی کیلئے استغفار کرو اور اس کے لیے جواب نکیرین میں ثابت قدم رہنے کی دعا مانگو کہ اب اس سے سوال ہو گا‘‘۔ سعید بن منصور اپنے سنن میں:’’جب مردہ دفن ہو کر قبر درست ہو جاتی تو حضور سید عالم ﷺ قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرتے الٰہی ہمارا ساتھی تیرا مہمان ہوا اور دنیا اپنے پس پشت چھوڑ آیا۔ الٰہی سوال کے وقت اسکی زبان درست رکھ اور قبر میں اس پر وہ بلا نہ ڈال جس کی اسے طاقت نہ ہو‘‘۔

ان حدیثوں اور احادیثِ دلیل پنجم و غیرہ سے ثابت کہ دفن کے بعد دعا سنت ہے۔ امام محمد بن علی حکیم ترمذی قدس سرہ دعا بعد دفن کی حکمت میں فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ بجماعت مسلمین ایک لشکر تھا کہ آستانۂ شاہی پر میت کی شفاعت و عذر خواہی کیلئے حاضر ہوا اور اب قبر پر کھڑے ہو کر دعا یہ اس لشکر کی مدد ہے کہ یہ وقت میت کی مشغولی کا ہے اسے اس نئی جگہ کا ہول اور نکیرین کا سوال پیش آنے والا ہے، نقلہ المولی جلال الملۃ والدین السیوطی رحمہ ﷲ تعالیٰ فی شرح الصدور اور میں گمان نہیں کرتا کہ یہاں استحباب دعا کا عالم میں کوئی عالم منکر ہو۔

امام آجری فرماتے ہیں: مستحب ہے کہ دفن کے بعد کچھ دیر کھڑے رہیں اور میت کیلئے دعا کریں‘‘۔ اسی طرح اذکار امام نووی و جوہرہ نیرہ و در مختار وفتاوی عالمگیریہ و غیرہا اسفار میں ہے طرفہ یہ کہ امام ثانی منکرین مولوی اسحق صاحب دہلوی نے مائۃ مسائل میں اسی سوال کے جواب میں کہ بعد دفن قبر پر اذان کیسی ہے؟ فتح القدیر وبحر الرائق و نہر الفائق و فتاوی عالمگیریہ سے نقل کیا کہ قبر کے پاس کھڑے ہو کر دعا سنت سے ثابت ہے اور براہ بزرگی اتنا نہ جانا کہ اذان خود دعا بلکہ بہترین دعا سے ہے کہ وہ ذکرالٰہی ہے اور ہر ذکر الٰہی دعا تو وہ بھی اسی سنت ثابتہ کی ایک فرد ہوئی پھر سنیت مطلق سے کراہت فرد پر استدلال عجب تماشا ہے۔ مولانا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری مرقاۃ شرح مشکوۃمیں فرماتے ہیں کل دعا ذکرٌ و کل ذکر دعائٌ ہر دعا ذکر ہے اور ہر ذکر دعا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں افضل الدعاء الحمد للہ سب دعاؤں سے افضل دعا الحمدللہ ہے‘‘اخرجہ التر مذی و حسنہ و النسائی و ابن ماجۃ و ابن حبان و الحاکم و صححہ عن جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ تعالٰی عنہما۔

صحیحین میں ہے ایک سفر میں لوگوں نے بآواز بلند اللہ اکبر اللہ اکبر کہنا شروع کیا نبی ﷺ نے فرمایا اے لوگو اپنی جانوں پر نرمی کر و ’’تم کسی بہرے یا غائب سے دعا نہیں کرتے سمیع بصیر سے دعا کرتے ہو‘‘۔ دیکھو حضور اقدس ﷺ اللہ تعالیٰ کی تعریف اور خاص کلمہ اللہ اکبر کو دعا فرمایا تو اذان کا بھی ایک دعا اور فرد مسنون ہو نے میں کیا شک رہا۔

دلیل ہفتم: یہ تو واضح ہو لیا کہ بعد دفن میت کے لیے دعا سنت ہے اور علماء فرماتے ہیں آداب دعا سے ہے کہ اس سے پہلے کوئی عمل صالح کرے ۔امام شمس الدین محمد بن الجزری کی حصن حصین شریف میں ہے: آداب دعا میں سے ہے کہ اس سے پہلے عمل صالح ہو اور ذکر الٰہی مشکل وقت میں ضرور کرنا چاہیئے۔

علامہ علی قاری حرز ثمین میں فرماتے ہیں یہ ادب حدیث ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ ابو داؤد و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ و ابن حبان نے روایت کی ثابت ہے اور شک نہیں کہ اذان بھی عمل صالح ہے تو دعا پر اس کی تقدیم مطابق مقصودِ سنت ہوئی۔

دلیل ہشتم: رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: دو دعائیں رد نہیں ہوتیں ایک اذان کے وقت اور ایک جہاد میں جب کفار سے لڑائی شروع ہو‘‘۔ اخرجہ ابو داؤد و ابن حبان و الحاکم بسند صحیح عن سھل بن سعد الساعدی رضی ﷲ تعالٰی عنہ اور فرماتے ہیں حضور ﷺ: جب اذان دینے والا اذان دیتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دعا قبول ہوتی ہے۔ اخرجہ ابو یعلی و الحاکم عن ابی امامۃ الباھلی و ابو داؤد الطیالسی وابو یعلی و الضیاء فی المختارۃ بسند حسن عن انس ابن مالک رضی ﷲ تعالیٰ عنہما ان حدیثوں سے ثابت ہوا کہ اذان اسباب اجابت دعا سے ہے۔ اور یہاں دعا شارع جل و علا کو مقصود تو اس کے اسباب اجابت کی تحصیل قطعا ًمحمود۔

دلیل نہم: حضور سید عالم ﷺ فرماتے ہیں: اذان کی آواز جہاں تک جاتی ہے مؤذن کیلئے اتنی ہی وسیع مغفرت آتی ہے اور جس تر و خشک چیز کو اس کی آواز پہنچتی ہے اذان دینے والے کیلئے استغفار کرتی ہے۔ اخرجہ الامام احمد بسند صحیح و اللفظ لہ و البزار و الطبرانی فی الکبیر عن عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنھما و نحوہ عند احمد وابی داؤد والنسائی و ابن ماجۃ وابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث ابی ھریرۃ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ و صدرہ عند احمد و النسائی بسند حسن جید عن البرآء بن عازب و الطبرانی فی الکبیر عن ابی امامۃ و لہ فی الاوسط عن انس بن مالک رضی ﷲ تعالیٰ عنہم۔ یہ پانچ حدیثیں ارشاد فرماتی ہیں کہ اذان باعث مغفرت ہے اور بیشک مغفور کی دعا زیادہ قابل قبول و اقرب باجابت ہے اور خود حدیث میں وارد کہ مغفوروں سے دعا منگوانی چاہیئے۔ امام احمد مسند میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں: ’’جب تو حاجی سے ملے اسے سلام اور مصافحہ کر اور قبل اس کے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اس سے اپنے لئے استغفار کرا کہ وہ مغفور ہے‘‘۔ پس اگر اہل اسلام بعد دفن میت اپنے میں کسی بندہ صالح سے اذان کہلوئیں تا کہ بحکم احادیث صحیحہ انشاء اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کی مغفرت ہو پھر میت کیلئے دعا کرے کہ مغفور کی دعا میں زیادہ رجائے اجابت ہو تو کیا گناہ ہوا بلکہ عین مقاصد شرع سے مطابق ہوا۔

دلیل دہم: اذان ذکر الٰہی ہے اور ذکر الٰہی دافع عذاب۔ رسول ﷲ ﷺ فرماتے ہیں:کوئی چیز ذکر خدا سے زیادہ عذاب خدا سے نجات بخشنے والی نہیں رواہ الامام احمد عن معاذ بن جبل و ابن ابی الدنیا و البیھقی عن ابن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما اور خود اذان کی نسبت وارِد جہاں کہی جاتی ہے وہ جگہ اس دن عذاب سے مامون ہو جاتی ہے۔

طبرانی: حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں: جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو ﷲ تعالیٰ اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہے اور اس کی شاہد وہ روایت ہے جو معجم کبیر میں حضرت معقل بن یسار رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے) اور بے شک اپنے بھائی مسلمان کیلئے ایسا عمل کرنا جو عذاب سے منجی ہو شارع جل و علا کو محبوب و مرغوب، مولانا علی قاری رحمہ الباری شرح عین العلم میں قبر کے پاس قرآن پڑھنے اور تسبیح و دعائے رحمت و مغفرت کرنے کی وصیت فرما کر لکھتے ہیں: ذکر جس قدر ہیں سب میت کو قبرمیں نفع بخشتے ہیں۔ امام بدرالدین محمود عینی شرح صحیح بخاری میں زیر باب ’’موعظۃ المحدث عند القبر‘‘ فرماتے ہیں! میت کے لیے اس میں مصلحت ہے کہ مسلمان اس کی قبر کے پاس جمع ہو کر قرآن پڑھیں ذکر کریں کہ میت کو اس سے نفع ہو تا ہے۔ یارب مگر اذان ذکر محبوب نہیں یا مسلمان بھائی کو نفع ملنا شرعا ً مرغوب نہیں۔

دلیل یازد ہم: اذان ذکر مصطفی ﷺ ہے اور ذکر مصطفی ﷺ باعث نزول رحمت، اولاً حضور کا ذکر عین ذکر خدا ہے امام ابن عطا پھر امام قاضی عیاض و غیر ہما ائمہ کرام تفسیر قولہ تعالیٰ ورفعنا لک ذکرک میں فرماتے ہیں: میں نے تمہیں اپنی یاد میں سے ایک یاد کیا۔ جو تمہارا ذکر کرے وہ میرا ذکر کرتا ہے، اور ذکر الٰہی بلا شبہ رحمت اترنے کا باعث۔ سید عالم ﷺ صحیح حدیث میں ذکر کرنے والوں کی نسبت فرماتے ہیں: ’’انہیں ملائکہ گھیر لیتے ہیں اور رحمت الٰہی ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینہ اور چین اترتا ہے رواہ مسلم و الترمذی عن ابی ھریرۃ وابی سعید رضی ﷲ تعالیٰ عنھما۔ ثانیاً ہر محبوبِ خدا کا ذکر محلِ نزولِ رحمت ہے۔ امام سفین بن عیینیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: نیکوں کے ذکر کے وقت رحمت الٰہی اترتی ہے۔ ابو جعفر بن حمدان نے ابو عمرو بن نجید سے اسے بیان کر کے فرمایا: رسول ﷺتو سب صالحین کے سردار ہیں، پس بلاشبہ جہاں اذان ہوگی رحمت الٰہی اترے گی اور بھائی مسلمان کیلئے وہ فعل جو باعث نزول رحمت ہو شرع کو پسند ہے نہ کہ ممنوع۔

دلیل دوازدہم: خود ظاہر اور حدیثوں سے بھی ثابت کہ مردے کو اس نئے مکان تنگ و تار میں سخت وحشت اور گھبراہٹ ہوتی ہے مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے یقیناً میرا رب بخشش فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے) اور اذان دافع دحشت و باعث اطمینانِ خاطر ہے کہ وہ ذکر خدا ہے اور اللہ عز و جل فرماتا ہے: سن لو خدا کے ذکر سے چین پاتے ہیں دل‘‘۔ ابو نعیم و ابن عساکر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی حضور سرور عالم ﷺفرماتے ہیں: ’’جب آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام جنت سے ہندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اتر کر اذان دی‘‘۔ پھر ہم اس غریب کی تسکین خاطر و دفع توحش کو اذان دیں تو کیا برا کریں۔ حاشا بلکہ مسلمان خصوصاً ایسے بیکس کی اعانت حضرت حق عز و جل کو نہایت پسند ہے حضور سید عالم ﷺ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں ہے جب تک بندہ اپنے بھائی مسلمان کی مدد میں ہے۔ رواہ مسلم و ابو داؤد و الترمذی و ابن ماجۃ و الحاکم عن ابی ہریرۃ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور فرماتے ہیں: جو اپنے بھائی مسلمان کے کام میں ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کی حاجت رو ائی میں ہو۔ اور جو کسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ تعالیٰ اس کے عو ض قیامت کی مصیبتوں سے ایک مصیبت اس پر سے دور فرمائے۔ رواہ الیشخان وابو داؤد عن ابن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما۔

دلیل سیز دہم (13): مسند الفر دوس میں سیدنا علی مرتضیٰ سے مروی: ’’مجھے حضور سید عالم ﷺ نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہوں۔ اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے۔ اذان غم و پریشانی کی دافع ہے‘‘ ۔ مولیٰ علی اور مولیٰ علی تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا: ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا ذکرہ ابن حجر کمافی المرقاۃ اور خود معلوم اور حدیثوں سے بھی ثابت کہ میت اس وقت کیسے حزن و غم کی حالت میں ہوتا ہے مگر وہ خاص عباد اللہ اکابر اولیاء اللہ جو مرگ کو دیکھ کر مرحبا بحبیب جآء علیٰ فاقۃٍ (خوش آمدید اس محبوب کو جو بہت دیر سے آیا) فرماتے ہیں تو اس کے دفع غم و الم کے لیے اگر اذان سنائی جائے کیا معذورِ شرعی لازم آئے حاشا للہ! بلکہ مسلمان کا دل خوش کرنے کے برابر اللہ عزوجل کو فرائض کے بعد کوئی عمل محبو ب نہیں۔ طبرانی معجم کبیر، معجم اوسط میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی حضور پر نور ﷺ فرماتے ہیں:بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرضوں کے بعد سب اعمال سے زیادہ مسلمان کا خوش کرنا ہے۔ انہیں دونوں میں حضرت امام ابن الا مام سیدنا حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی حضور سید عالم ﷺ فرماتے ہیں:بے شک موجبات مغفرت سے ہے تیرا اپنے بھائی مسلمان کو خوش کرنا۔

دلیل چہا درہم: قالﷲ تعالیٰ: اے ایمان والو اللہ کا ذکر کرو بکثرت ذکر کرنا، حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں: اللہ کا ذکر اس درجہ بکثرت کرو کہ لوگ مجنون بتائیں۔ اخرجہ احمد و ابویعلی و ابن حبان و الحاکم و البیھقی عن ابی سعید الخدری رضی ﷲ تعالٰی عنہ صححہ الحاکم و حسنہ الحافظ ابن حجر اور فرماتے ہیں: ہر سنگ و شجر کے پاس اللہ کا ذکر کر اخرجہ الامام احمد فی کتاب الزھد و الطبرانی فی الکبیر عن معاذ بن جبل رضی ﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔

عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کوئی فرض مقرر نہ فرمایا مگر یہ کہ اس کے لئے ایک حد معین کر دی۔ پھر عذر کی حالت میں لوگوں کو اس سے معذور رکھا۔ سوائے ذکر کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے کوئی حد مقرر نہ رکھی جس پر انتہا ہو اور نہ کسی کو اس کے ترک میں معذور رکھا مگر وہ جس کی عقل سلامت نہ رہے اور بندوں کو تمام احوال میں ذکر کا حکم دیا۔ ان کے شاگرد امام مجاہد فرماتے ہیں: ذکر کثیر یہ ہے کہ کبھی ختم نہ ہو۔ ذکر الٰہی ہمیشہ ہر جگہ محبوب و مرعوب و مطلوب و مندوب ہے جس سے ہرگز ممانعت نہیں ہو سکتی۔ جب تک خصوصیت خاصہ کوئی شرعی نہ آئی ہو اور اذان بھی قطعاً ذکر خدا ہے۔ پھر خدا جانے کہ ذکر خدا سے ممانعت کی وجہ کیا ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ ہم ہر سنگ و درخت کے پاس ذکر الٰہی کریں۔ قبرِ مومن کے پتھر کیا اس حکم سے خارج ہیں۔ خصوصاً بعد دفن ذکر خدا کرنا تو خود حدیثوں سے ثابت او ر بہ تصر یح ائمہ دین مستحب و لہٰذا امام اجل ابو سلیمان خطابی دربارئہ تلقین فرماتے ہیں: ہم اس میں کوئی حدیث مشہور نہیں پاتے اور اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ اس میں نہیں ہے مگر خدا کا ذکر اور یہ سب کچھ محمود ہے۔

(دلیل پانز دہم): امام اجل ابو زکریا نووی شارح صحیح مسلم کتاب الاذکار میں فرماتے ہیں: مستحب یہ ہے کہ دفن سے فارغ ہو کر ایک ساعت قبر کے پاس بیٹھیں اتنی دیر کہ ایک اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم ہو اور بیٹھنے والے قرآن مجید کی تلاوت اور میت کے لئے دعا اور وعظ و نصیحت اور نیک بندوں کے ذکر و حکایت میں مشغول رہیں۔ شیخ محقق مو لانا عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ لمعات شرح مشکوٰۃ میں زیر حدیث امیر المومنین عثمان غنی اللہ تعالیٰ عنہ کہ فقیر نے دلیل ششم ذکر فرماتے ہیں: بتحقیق میں نے بعض علماء سے سنا کہ دفن کے بعد قبر کے پاس کسی مسئلہ فقہ کا ذکر مستحب ہے‘‘۔ اشعۃ اللعمات شرح فارسی مشکوٰۃ میں اس کی وجہ بیان فرماتے ہیں’’کہ باعث نزول رحمت است ‘‘ (نزول رحمت کا باعث ہے) اور فرماتے ہیں’’مناسب حال ذکر مسئلہ فرائض است ‘‘(ذکر مسئلہ فرائض مناسب حال ہے) اور فرماتے ہیں کہ اگر ’’ختم قرآن کنند اولیٰ وافضل باشد‘‘ (اگر قرآن پاک ختم کریں تو یہ اولیٰ اور بہتر ہے)۔ جب علماء کرام نے حکایت اہل خیر و تذکرہ صالحین و ختم قرآن و بیان مسئلہ فقہیہ و ذکرِ فرائض کو مستحب ٹھہرایا حالانکہ ان میں بالحضوص کو ئی حدیث وارد نہیں بلکہ وجہ صرف وہی کہ میت کو نزول رحمت کی حاجت اور اِن امور میں ا مید نزول رحمت تو اذان کہ بشہادت احادیث مو جب نزول رحمت و دفع عذاب ہے کیو نکر جائز بلکہ مستحب نہ ہوگی۔

بحمد للّٰہ: یہ پندرہ دلیلیں ہیں کہ چند ساعت میں فیض قدیر سے قلب فقیر پر فا ئض ہو ئیں ناظر منصف جانے گا کہ ان میں کثرت تو محض استخراج فقیر ہیں اور باقی کے بعض مقدمات اگرچہ بعض اجلہ علمائے اہل سنت و جماعت رحمہم اللہ تعالیٰ کے کلام میں مذکور مگر فقیر غفر اللہ تعالیٰ لہ نے تکمیل ترتیب و تسجیل تقریب سے ہر مقدمہ منفردہ کو دلیل کامل اور ہر مذکور ضمنی کو مقصود مستقل کر دیا و الحمد للّٰہ رب العالمین

ہم پر ان اکابر کا شکر واجب جنہوں نے اپنی تلاش و کوشش سے بہت کچھ متفرق کو یکجا کر دیا اور اس دشوار کام کو ہم پر آسان کردیا۔

تنبیھات جلیلہ

تنبیہ اول: ہمارے کلام پر مطلع ہو نے والا عظمت رحمت الٰہی پر نظر کرے کہ اذان میں انشا ء اللہ الرحمن اس میت اور ان احیاء کے لئے کتنے منافع ہیں سات فا ئدے میت کیلئے
(۱) بحولہٖ تعالیٰ شیطان رجیم کے شرسے پناہ۔
(۲) بدولت تکبیر عذاب نار سے امان۔
(۳) جواب سوالات کا یاد آجانا۔
(۴) ذکر اذان کے باعث عذاب قبر سے نجات پانا۔
(۵) بہ برکت ذکر مصطفی ﷺ نزول رحمت۔
(۶) بدولت اذان دفع و حشت۔
(۷) زوال غم حصول سرور و فرحت اور پندرہ احیاء کیلئے، سات تو یہی سات منافع اپنے بھائی مسلمان کو پہنچانا کہ ہر نفع رسانی جدا حسنہ ہے اور ہر حسنہ کم از کم دس نیکیاں۔ پھر نفع رسانی مسلم کی منفعتیں خدا ہی جانتا ہے۔
(۸) میت کیلئے تدبیردفع شیطان سے اتباع سنت۔
(۹) تدبیر آسانیٔ جواب سے اتبا ع سنت۔
(۱۰) دعاء عند القبر سے اتباع سنت۔
(۱۱) بقصد نفع میت قبر کے پاس تکبیریں کہہ کر اتباع سنت۔
(۱۲) مطلق ذکر کے فوائد ملنا جن سے قرآن وحدیث مالامال۔
(۱۳) ذکر مصطفی ﷺکے سبب رحمتیں پانا۔
(۱۴) مطلق دعا کے فوائد ہاتھ آنا جسے حدیث میں مغز عبادت فرمایا۔
(۱۵) مطلق اذان کے برکات ملنا جن میں منتہائے آواز تک مغفرت اور ہر تر و خشک کی استغفار و شہادت اور دلوں کو صبر و سکون و راحت ہے۔ اورلطف یہ کہ اذان میں اصل کلمے سات ہی ہیں۔
ﷲ اکبر اشھد ان لا الہ الا ﷲ اشھد ان محمداً رسول ﷲ حی الصلٰوۃ حی علیٰ الفلاح ﷲ اکبر لا الہ الا ﷲ اور مکررات کو گنئے تو پندرہ ہوتے ہیں میت کے لیے وہ سات فائدے اور احیاء کیلئے پندرہ انہی سات اور پندرہ کے برکات ہیں۔ والحمدللہ رب العالمین !تعجب کرتا ہوں کہ حضرات مانعین نے میت و احیاء کو ان فوائد جلیلہ سے محروم رکھنے میں کیا نفع سمجھا ہے؟ ہمیں تو مصطفی ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے: ’’تم میں سے جس سے ہو سکے اپنے بھائی مسلمان کو نفع پہنچائے لازم اور مناسب ہے کہ پہنچائے۔ رواہ احمد و مسلم عن جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ تعالیٰ عنھما ۔پھر خدا جانے اس اجازت کلی کے بعد جب تک خاص جذئیہ کی شرع میں نہی نہ ہو ممانعت کہاں سے کی جاتی ہے واللہ المو افق۔

تنبیہ دوم: حدیث میں ہے نبی ﷺ فرماتے ہیں: مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے رواہ البیھقی عن انس و الطبرانی فی الکبر عن سھل بن سعد رضی ﷲ تعالیٰ عنھما اور بے شک جو علم نیت جانتا ہے ایک ایک فعل کو اپنے لیے کئی کئی نیکیاں کر سکتا ہے مثلاً جب نماز کیلئے مسجد کو چلا اور صرف یہی قصد ہے کہ نماز پڑھوں گا تو بے شک اس کا یہ چلنا محمود ہر قدم پر ایک نیکی لکھیں گے اور دوسرے پر گناہ محوکریں گے۔ مگر عالم نیت اس ایک ہی فعل میں کئی نیتیں کرسکتا ہے۔

(۱) اصل مقصود یعنی نماز کو جاتا ہوں۔
(۲) خانہ خدا کی زیارت کروں گا۔
(۳) شعارِ اسلام ظاہر کرتا ہوں۔
(۴) داعی اللہ کی اجابت کرتا ہوں۔
(۵) تحیۃ المسجد پڑھنے جاتا ہوں۔
(۶) مسجد سے خس و خاشاک وغیرہ دور کروں گا۔
(۷) اعتکاف کرنے جاتا ہوں کہ مذہب مفتی بہ پرا عتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں۔ اور ایک ساعت کا بھی ہو سکتا ہے جب سے داخل ہو باہر آنے تک اعتکاف کی نیت کر لے انتظار نماز و ادائے نماز کے ساتھ اعتکاف کا بھی ثواب پائے گا۔
(۸) امر الٰہی خذوا زینتکم عند کل مسجد (جب مسجد میں جائو) کے امتثال کو جاتا ہوں۔
(۹) جو وہاں علم والا ملے گا اس سے مسائل پوچھوں گا، دین کی باتیں سیکھوں گا۔
(۱۰) جاہلوں کو مسئلے بتاؤں گا، دین سکھاؤنگا۔
(۱۱) جو علم میں میرے بر ابر ہو گا اس سے علم کی تکرار کروں گا۔
(۱۲) علماء کی زیارت۔
(۱۳) نیک مسلمانوں کا دیدار۔
(۱۴) دوستوں سے ملاقات۔
(۱۵) مسلمانوں سے میل۔
(۱۶) جو رشتہ دار ملیں گے ان سے بکشادہ پیشیانی مل کر صلہ ٔ رحم۔
(۱۷) اہل اسلام کو سلام۔
(۱۸) مسلمانوں سے مصافحہ کروں گا۔
(۱۹) ان کے سلام کا جواب دو ں گا۔
(۲۰) نماز جماعت میں مسلمانوں کی برکتیں حاصل کرونگا۔
(۲۱،۲۲) مسجد میں جاتے نکلتے حضور سید عالم ﷺ پر سلام عرض کروں گا۔بسم ﷲ الحمد للّٰہ و السلام علی رسول ﷲ۔
(۲۳، ۲۴) دخول و خرو ج میں حضور و آل حضور و ازواج حضور پر درود بھیجوں گا کہ اللھم صل علی سیدنا محمد و علیٰ ال سیدنا محمد و علی ازواج سیدنا محمد۔
(۲۵) بیمار کی مزاج پرسی کروں گا۔
(۲۶) اگر کوئی غمی والا ملا تعزیت کروں گا۔
(۲۷) جس مسلمان کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للّٰہ کہا اسے ’’یرحمک ﷲ‘‘ کہوں گا۔
(۲۸،۲۹) امر با لمعرف و نہی عن المنکر کروں گا۔
(۳۰) نمازیوں کے وضو کو پانی دوں گا۔
(۳۱،۳۲) خود مؤذن ہے یا مسجد میں کوئی مؤذن مقرر نہیں تو نیت کرے کہ اذان و اقامت کہوں گا۔ اب اگر یہ کہنے نہ پایا۔ دوسرے نے کہہ دی تا ہم اپنی نیت پر اذان و اقامت کا ثواب پا چکا: ﷲ تعالیٰ اسے اجر عطا فرمائے گا)۔
(۳۳) جو راستہ بھو لا ہوگا راستہ بتاؤں گا۔
(۳۴) اندھے کی دستگیری کروں گا۔
(۳۵) جنازہ ملا تو نماز پڑھوں گا۔
(۳۶) موقع پایا تو ساتھ دفن تک جاؤں گا۔
(۳۷) دو مسلمانوں میں نزع ہو ئی توحتی الوسع صلح کراؤں گا۔
(۳۸،۳۹) مسجد میں جاتے وقت داہنے اور نکلتے وقت بائیں پاؤں کی تقدیم سے اتباع سنت کروں گا۔
(۴۰) راہ میں لکھا ہوا کاغذ پاؤں گا اٹھا کر ادب سے رکھ دوں گا۔

الٰی غیر ذالک من نیات کثیرۃ تو دیکھئے جو اِن ارادوں کے ساتھ گھر سے مسجد کو چلا وہ صرف حسنہ نماز کیلئے نہیں جاتا بلکہ ان چالیس حسنات کیلئے جاتا ہے تو گویا اس کا یہ چلنا چالیس طرف چلنا ہے اور ہر قدم چالیس قدم ۔پہلے اگر ہر قدم ایک نیکی تھی اب چالیس نیکیاں ہونگی۔ اسی طرح قبر پر اذان دینے والے کو چا ہیئے کہ ان پندرہ نیتوں کا تفصیلی قصد کرے تاکہ ہر نیت پر جداگانہ ثواب پائے اور ان کے ساتھ یہ بھی ارادہ ہو کہ مجھے میت کیلئے دعا کا حکم ہے۔ اس کی اجابت کا سبب حاصل کرتا ہوں اور اس سے پہلے عمل صالح کو تقدیم چاہیئے یہ ادب دعا بجا لاتا ہوں۔ الٰی غیر ذالک مما یستخرجہ العارف النبیل و ﷲ الھادی الٰی سوآء السبیل بہت لوگ اذان تو دیتے ہیں مگر ان منافع دینیات سے غافل ہیں۔ وہ جو کچھ نیت کر تے ہیں اسی قدر پائیں گے۔ فانما الا عمال بالنیات و انما لکل امریئٍ مانویٰ۔

تنبیہ سوم: جہال منکرین یہاں اعتراض کرتے ہیں کہ اذان تو اعلام نماز کے لیے یہاں کونسی نماز ہو گی جس کیلئے اذان کہی جاتی ہے مگر یہ ان کی جہالت انہیں کو زیب دیتی ہے وہ نہیں جا نتے کہ نماز میں کیا کیا اغراض و منافع ہیں اور شرع مطہر نے نماز کے سوا کن کن مواضع میں اذان مستحب فرمائی ہے از انجملہ گوش مغموم میں اور دفع وحشت کو کہنا تو یہیں گذرا اور بچے کے کان میں اذان دینا سنا ہی ہو گا۔ ان کے سوا اور بہت مواقع ہیں۔

فتوی: جناب احمد رضا خاں صاحب کے اس فتوی کے بعد بریلوی علماء سے ایک سوال ہے کہ ہم چار مصلے والے اہلسنت ہیں مگر اس کے باوجود بھی مستحب اعمال نہ کرنے پر کوئی دیوبندی یا وہابی کہے تو اُس پر کیا فتوی ہے؟

حل: دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ، چار مصلے والے قانون کو بیان کر دیں اور ملکر کہیں کہ فتاوی رضویہ اور دیوبندی علماء کی کتابوں میں حق لکھا ہے سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے، باقی ہمارا عقیدہ ایک ہے تو مسئلہ بہت حد تک حل ہو جائے گا۔

اہلحدیث اُس مجتہد کا نام بتا دیں جس نے کہا تھا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور اب اہلحدیث جماعت قرآن و سنت میں میرے قانون و اصول کے مطابق فتوی دے گی تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔

سعودی عرب اعلان کر دے کہ خلافت عثمانیہ والے محدثین و مفسرین بدعتی و مُشرک نہیں تھے ورنہ یہ بتا دے کہ کس عالم نے بدعت و شرک سکھایا تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ایرانی و سبائی اہلتشیع اپنی کتابوں کو منگھڑت قرار دیں اور حضور ﷺ اور مولا علی پر جھوٹ باندھنے سے توبہ کریں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
مکمل تحریر >>