Pages

Saturday 31 December 2016

گستاخ رسول کی سزا قرآن کی روشنی میں

#دلیل_نمبر1
جس طرح اللہ رب العزت شرک کو برداشت نہیں کرتا اسی طرح گستاخی واہانت رسول کو کسی صورت برداشت نہیں کرتا اللہ تعالی نےشاتمان رسول کی سزاکولفظ لعنت یعنی رحمت سے محرومی پر ہی محصور نہیں کیا بلکہ انہیں ذلیل ورسوا کرنےوالےشدید عذاب کی وعیدبھی سنائی ہے ارشاد فرمایا
وَاَعد لَهُم عَذَاباً مُهِيناٌ
ترجمہ : اوران کےلیےاس نے ذلت کاعذاب تیار کررکھاہے ( #الاحزاب '٥٧:٣٣)
#فائدہ
مذکورہ بالا آیہ کریمہ میں "واعد لھم" (ان کےلیےعذاب تیارکررکھاہے) کاکلمہ ارشاد فرمایا گیاہے یہ کلمہ بذات خودایک تاکید ہےاس لیے جب کوئی آقااپنے غلام کو حالت غیض و غضب میں بغیر کسی تیاری کے عذاب دیتاہےتو ممکن ہے یہ اس عذاب سے کم ہوجوپہلے سےتیاری کے ساتھ دیا جاۓپس جونہی غضب وخفگی زائل ہوگی توں ہی عذاب وسزاکابھی ازالہ ہوگا مگر جوعذاب پوری تیاری وآمادگی کےساتھ دیاجاۓگا اسکے اثرات ونقوش انمٹ ہونگےاور کبھی ختم نہ ہونگے اسی وجہ سے اللہ تعالی نےگستاخانِ رسول کےلیے پہلے سے عذاب تیار کررکھاہےبات صرف عذاب تک ہی نہیں بلکہ یہ تاکیدبھی فرمائی ہے کہ وہ عذاب #مھین ہے،
عذاب مھین بڑی ہی اذیت رساں اور دردانگیز سزاکوکہتےہیں جو مجرم کوہرجگہ ذلیل وخوار کرکے رکھ دےاوراسکےوجود کواتنی تکلیف پہنچاۓکہ دوسرے بھی عبرت حاصل کریں، یہ ایک عام لفظ ہے جوقرآن میں جگہ جگہ استعمال ہواہےاسکامعنی ومفہوم ہرجگہ کتاب وسنت کےسیاق وسباق کےحوالےسےمتعین کیاجاتاہے‫.جہاں بھی یہ استعمال ہوتواس سے ماہیت کےاعتبارسےاور کمیت کےاعتبارسےایک ہی طرح کی سزا مراد لی جاۓگی بلکہ اسکا مفہوم اوراطلاق سیاق وسباق کےحوالےسےمتعین ہوگااوراس جرم میں سنگینی اوراسکی سطح کوپیش نظررکھاجاۓگا-
لیکن یہ امرقطعی اورطےشدہ ہےکہ جب یہ لفظ اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزاکےسلسلےمیں بولاجاۓگاتواس سےفقط سزاۓموت capital punishment ہی مراد ہوگی___
#دلیل_نمبر2
#سورۃقلم_ترجمہ
پس عنقریب آپ (بھی) دیکھ لیں گے اور وہ (بھی) دیکھ لیں گے، (5) کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے، (6) بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے، اور وہ ان کو (بھی) خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں، (7) سو آپ جھٹلانے والوں کی بات نہ مانیں، (8) وہ تو چاہتے ہیں کہ (دین کے معاملے میں) آپ (بے جا) نرمی اِختیار کر لیں تو وہ بھی نرم پڑ جائیں گے، (9) اور آپ کسی ایسے شخص کی بات نہ مانیں جو بہت قَسمیں کھانے والا اِنتہائی ذلیل ہے، (10) (جو) طعنہ زَن، عیب جُو (ہے اور) لوگوں میں فساد انگیزی کے لئے چغل خوری کرتا پھرتا ہے، (11) (جو) بھلائی کے کام سے بہت روکنے والا بخیل، حد سے بڑھنے والا سرکش (اور) سخت گنہگار ہے، (12) (جو) بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہے(نطفہءحرام)
#وضاحت
یہ آیات ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جتنے ذِلت آمیز اَلقاب باری تعالیٰ نے اس بدبخت کو دئیے آج تک کلامِ اِلٰہی میں کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اَقدس میں گستاخی کی، جس پر غضبِ اِلٰہی بھڑک اٹھا۔ ولید نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ایک کلمہ بولا تھا، جواباً باری تعالیٰ نے اُس کے دس رذائل بیان کیے اور آخر میں نطفۂ حرام ہونا بھی ظاہر کر دیا، اور اس کی ماں نے بعد ازاں اِس اَمر کی بھی تصدیق کر دی۔ (تفسیر قرطبی، رازی، نسفی وغیرھم)
#دلیل_نمبر3
ترجمہ: اوراللہ کاتویہی دستور ہےان (منافقین اور کفار) کےبارےمیں بھی جوان سےپہلے گزر چکےہیں (چلاآرہاہے)اور آپ اللہ کے کسی دستور میں کوئی تبدیلی نا پائیں گے(نہ وہ اللہ کےعذاب سےبچ سکے نہ یہ بچ سکیں گے)
الاحزاب ۲۶:۳۳
#گستاخ_رسول_کا_قتل_سنت_الٰہیہ
ابتداءسے ہی نیکی و بدی حق و باطل باہم متصادم رہےہیں،باطل نے حق کودبانے کےلیے گھٹیاسےگھٹیا طریقہ اپنایاہے لیکن حق غالب ہی رہتاہے،انبیاءکرام اپنا فرض ہردور میں بخوبی اداکرتےآئےہیں،اس ضمن میں انبیاءکرام علیھم السلام کو بہت سی مزاحمت کا سامنابھی کرناپڑاہے،انبیاءعلیھم السلام کوحق کی راہ سے ہٹانے کےلیےدشمنوں نےبہت سےحربےاستعمال کیئےہیں انبیاء کو بےشمار تکالیف سےگزرنا پڑا اور بعض اوقات انبیاء کرام کی کردار کشی بھی کی گئی،طرح طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں کےباوجود دشمن اپنے مقصد میں ناکام رہے،" امم سابقہ" میں سے جب بھی کسی نے انبیاء کرام علیھم السلام کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا اور انبیاءکرام کو اذیت پہنچائی اللہ رب العزت نے ناصرف اسکو دنیامیں ذلیل ورسوا کیابلکہ انکا نام و نشان صفحہء ہستی سے مٹادیا،اورآخرت میں بھی شدید عذاب کی وعید سنائی، گویا یہ سنت الہیہ ازل سے جاری ہے اورتاابد جاری رہےگی،ا عصر حاضرمیں گستاخی رسول کےمرتکب کو چن چن کرقتل کرنا اورانکا نام و نشان تک مٹادینا یہ سنت الہیہ کا تسلسل ہے،سلمان تاثیر ملعون کا قتل بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی تھی ، مزکورہ آیت کریمہ سےبھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ اللہ کا وضع کردہ اٹل و حتمی قانون اوروہ دستور ہے جوہردور میں رائج رہا اور ان شاءاللہ رہےگا، اسکو کوئی بھی ضیاء کاقانون کہہ کر بدل نہیں سکتا-

مکمل تحریر >>

بدعت بدعت کی رٹ لگانے والوں سے چشتی کے چند سوال اب تک ہیں جواب کے منتظر

بدعت بدعت کی رٹ لگانے والوں سے چشتی کے چند سوال اب تک ہیں جواب کے منتظر
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال ۱: بدعت کس کوکہتے ہیں؟

سوال۲: کیا بدعت کی ایک ہی قسم ہے یا فقہا کے نزدیک اس کی چند قسمیں ہیں؟

سوال ۳: کیا بدعت سیۂ کا کرنا ہی حرام ہے یا ہر بدعت کا یہی حکم ہے؟

سوال ۴: کیا ہر وہ کام جس پر بدعت کا اطلاق ہوگا وہ حرام ہوگا یا نہیں؟

سوال ۵: حدیث مبارکہ میں من سن سنۃ حسنۃ الخ (مشکوٰۃ شریف) کا کیا مطلب ہے؟

سوال ۶: حدیث مبارکہ کل محدث بدعتہ وکل بدعتہ ضلالۃ اور سوال نمبر ۵ کی ذکر کردہ حدیث میں کیا فرق ہے؟ اس احداث (نئے کام) سے کون سا احداث مراد ہے؟

ہر احداث (نیا کام) مراد ہے یا کوئی خاص احداث (نیا کام)؟

سوال ۷: کیا ہر وہ کام جو حضور اکرمﷺ کے زمانہ اقدس میں نہ ہو آپ کے زمانہ اقدس کے بعد نکالا جائے وہ کل محدث کے تحت میں داخل ہوگا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟

سوال ۸: کیا حضور اکرمﷺ کے زمانہ مبارکہ میں ختم حدیث شریف کے بعد طلباء کو پگڑیاں پہنائی جاتی تھیں جیسے کہ آپ مدارس میں طلباء کو ختم حدیث شریف کے بعد پگڑیاں بندھوائیں جاتی ہیں یا نہیں؟

سوال ۹: کیا زمانہ مبارکہ حضور اکرمﷺ میں ختم حدیث کے بعد جبہ مبارک بھی دیا جاتا تھا؟ جیسا کہ آپ کے مدارس میں رواج ہے؟

سوال ۱۰: کیا زمانہ اقدس میں حدیث شریف کے ختم ہونے پر سالانہ امتحان لیا جاتا تھا؟ جیسا کہ آپ کے مدارس میں نہایت اہتمام سے لیا جاتا ہے؟

سوال ۱۱: اپنے مدرسہ میں ۷ دن پڑھا کہ آٹھویں دن جمعہ کی چھٹی دینا کیا یہ طریقہ زمانہ اقدس حضور اکرمﷺ میں بھی تھا؟

سوال ۱۲: ختم حدیث شریف کے بعد آپ کے مدارس میں جو اسناد تقسیم کی جاتی ہیں، کیا یہ طریقہ حضور اکرمﷺ کے زمانہ مبارک میں تھا یا نہیں؟

سوال ۱۳: ہر سال شعبان کے مہینہ میں جلسہ کرنا اور علماء کو جمع کرنا، یہ طریقہ جلسے وغیرہ کا خاص سرکار مدینہ درود شریف کے زمانہ مبارک میں تھا یا نہیں؟

سوال ۱۴: نکاح کے لئے خاص دن مقرر کرنا، تاریخ مقرر کرنا، اور خطوط بھیج کر لوگوں کو بلانا، کیا یہ طریقہ زمانہ نبوی درود شریف میں تھا یا نہیں؟ اور ایسی سنت جس میں بدعت شامل ہوجائے، اس کا کیا حکم ہے؟

سوال ۱۵: علماء کے آنے پر بڑے بڑے اخبارات اور اشتہارات شائع کرنا اور ان میں ’’حد سے زیادہ بڑھا کر‘‘ علماء کے القاب لکھنا کیا یہ باتیں ان پابندیوں اور اہتمام سے زمانہ نبوی میں تھیں یا نہیں؟ اگر تھیں تو ثبوت دیجئے کیونکہ آپ صاحبان کا دعویٰ ہے کہ ہم وہی کام کرتے ہیں جو زمانہ مبارک میں ہوا ہو اور ہم بغیر سنت کے قدم نہیں اٹھاتے۔ اگر یہ باتیں زمانہ اقدس میں نہ تھیں اور بعد میں نکالی گئی ہیں تو فرمایئے کہ یہ طریقے آپ کے استدلال کل محدث بدعت کے تحت میں داخل ہوئے یا نہیں؟ اس دعوے سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ کے یہ جتنے کام جو اوپر بیان ہوچکے ہیں کل محدث بدعۃ کے تحت میں داخل ہیں۔ اس کے باوجود ان کو کرنا جن کی اصل کسی زمانہ میں بھی موجود نہیں تھی، بدعت ضلالۃ ہے یا نہیں اور اگر ان کاموں کا حدیث شریف میں الستثغا ہوتو وہ فرمادیجئے اور اگر بعض داخل اور بعض خارج ہیں تو پھر اہل سنت و جماعت کے ہر کام پر آپ کااس حدیث شریف کو پیش کردینا درست ہے یا نہیں؟

سوال ۱۶: آپ (دیوبندی وہابی) کہتے ہیں کہ جو کام زمانہ نبوی میں جیسے تھا، ویسے ہی کرنا چاہے اس کو نئے اور مخصوص طریقے سے کرنا ناجائز ہے چنانچہ میلاد شریف اس کے باوجود کہ اس کی اصل زمانہ اقدس میں موجود تھی مگر مخصوص نہ تھی آپ نے اس کے باوجود کہ اﷲ کے ذکر کے بعد ذکر رسول کا درج ہہے بہت کم امور کی وجہ سے اس کو ناجائز کردیا جن امور کی وجہ سے اسے ناجائز کیا وہ یہ ہیں (۱) وقت مخصوص کرنا (۲) فرش وغیرہ بچھانا (۳) ہار اور پھول لاکر مجلس میں رکھنا (۴) محفل میلاد میں روشنی کرنا (۵) لڑکوں کا نعتیں پڑھنا (۶) یہ وہ کام ہیں جن کی وجہ سے محفل میلاد کو حرام کہا گیا حتی کہ یہاں تک بے ادبی کی کہ اس کو کنھیا (ہندو) کے جنم دن منانے کی طرح کہا حالانکہ (دیوبندی، وہابی) اس سے زیادہ کاموں کو مخصوص کرکے انجام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ علم زمانہ نبویﷺ سید پڑھنے یا پڑھانے کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں تھا لیکن دیوبندیوں نے اس علم کو اتنی قیدیوں میں مقید کیا کہ چار دیواریاں پکی بنوانا جس میں لاکھوں روپیہ خرچ ہوتا ہے جو بالکل سراسر فضول خرچی ہے اس کے اندر چند کمرے بنوانا اس میں قالین وغیرہ بچھانا پھر چند مولویوں کو چندہ جمع کرکے اس میں پڑھانے کے لئے مقرر کرنا پھر اس کو کسی زمانہ کے مخصوص کرنا صبح مثلا ۱۰ بجے سے لے کر ۲ بجے سے شام تک پڑھانا۔ غرض یہ ساری باتیں آپ نے اس علم کے ساتھ مخصوص کی ہیں۔ یہ زمانہ حضور اقدس میں انہیں پابندیوں اور اہتمام کے ساتھ تھیں یا نہیں؟ لہذا یہ پابندیاں اور اہتمام آپ کے نزدیک بدعت ہوئیں یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ پابندیان آپ کے قاعدے کے مطابق سخت بدعت ہوئیں اور بدعت کرنا آپ کے نزدیک حرام ہے یا نہیں؟ تو فرمایئے کہ آپ کے مدارس بدعت ہوئے یا نہیں؟ اگر یہ پابندیاں اور اہتمام آپ کے مدارس میں جائز ہیں تو میلاد شریف ان امور کی وجہ سے کیوں ناجائز اور حرام ہے؟ ان دونوں میں فرق اور وجہ ترجیح تفصیل سے بیان کریں۔

سوال ۱۷: جب کوئی آپ پر اعتراض کرتا ہے تو اس کے جواب میں آپ کا آخری جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم ان باتوں کو عادتاً کرتے ہیں اور تم میلاد شریف عبادتاً کرتے ہو لہذا ہمارے کام جائز اور تمہارے ناجائز ہیں لہذا آپ کے اس جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب محض مسلمانوں کو دکھانے کے لئے گڑھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ بات ثابت نہ ہو کہ دیوبندی وہابی لاجواب ہوگئے ہیں۔ تمہارے اس جواب میں چند اعتراضات لازم آتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ اس جواب سے معلوم ہوتا ہ ے کہ آپ کے نزدیک جو کام عادتاً کیا جائے اگرچہ وہ شریعت میں منع ہو تب بھی اس کا کرنا جائز ہے لہذا اگر کوئی شخص زنار (یعنی وہ دھاگا جو ہندو گلے اور بغل کے درمیان ڈالے رہتے ہیں) پہنے اور آپ سے فتویٰ طلب کرے کہ میں ان چیزوں کو عادتاً کرتا ہوں میرے لئے جائز ہے یا نہیں؟ تو آپ اس کو جائز کہیں گے؟ اگرآپ کے نزدیک یہ کام بصورت فتویٰ جائز ہوسکتے ہیں، تب تو پھر ایک اور نئی شریعت بنانی پڑے گی اور پہلے علماء کے تمام فتاویٰ جات آپ کو دریا میں پھینکنے پڑیں گے چنانچہ آپ نے ایک نئی شریعت اور نیا دین تعظیم رسول اکرمﷺ کے خلاف کھینچ تان کر نکال ہی لیا کیونکہ جن کی تعظیم تمام انبیاء اور رسل اور ملائکہ حتی کہ تمام کائنات نے کی تھی۔ ان کی تعظیم تو آپ کے نزدیک فضول کام ہے اور جو کام شریعت میں منع ہو پھر اس کو عادتاً کرنا کیسے جائز ہے؟ اس واسطے کہ جیسے پکڑ عبادت میں ہے، ویسے ہی عادت میں بھی ہے دوسری بات یہ کہ حدیث کل محدث بدعۃ (ہر نیا کام بدعت ہے) کا مطلب عام ہے اس میں تمام نئے کام (خواہ وہ عادتاً ہوں یا عبادتاً) شامل ہیں۔ حدیث پاک جوکہ واضح ہو اس میں اپنی رائے سے پابندی لگانا باطل ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر آپ کہیں کہ اس کے برعکس عبادت اور عادت میں یہ فرق ہے کہ عبادت میں ثواب ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس عادت میں ثواب نہیں ہوتا تو مجھے بتایئے کہ اگر کوئی آدمی اپنے بچوں کے کانوں میں کوئی زیور پہنا دے اور کہے کہ میں عادتاً اس کو پہناتا ہوں تو کیا اس کا یہ کام آپ کے نزدیک جائز ہوگا؟ چوتھی بات یہ کہ اگر آپ کی مراد عادت اور عبادت سے یہ ہے کہ ان کاموں کو ہم رسماً کرتے ہیں تو جواب دیجئے کہ آپ کے بیان سے کیا رسموں کا کرنایا ان کی پیروی کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ حالانکہ آپ کی کتابوں میں رسموں کاکرنا اوران کی پیروی کرنا بالکل ناجائز اور حرام ہے پھر یہاں کیوں ان رسموں کا کرنا یا ان کی پیروی جائز ہوئی؟ اگر آپ اس کا جواب یوں دیں کہ ہمارے یہاں رسوم جاہلیت کا کرنا اور ان کی پیروی کرنا منع ہے، بزرگوں کی رسم کی پیروی کرنا ہمارے یہاں منع نہیں، ان کاموں میں ہم رسم بزرگان کی پیروی کرتے ہیں، حالانکہ کسی کام میں پابندی اور اہتمام بدعت ہے۔ اس کے باوجود رسم صالحین پابندیوں اور اہتمام کے باوجود درست ہے۔ تو بتایئے کہ میلاد شریف (جوکہ اصل میں ذکر رسولﷺ ہے اس سے زائد کون سا کارخیر ہے اور کون سی رسم صالحین ہوسکتی ہے جس پر تمام حرمین شریفین کے علماء اور تمام امت متفق ہے) کو کیوں حرام کردیا؟ آپکے نزدیک تلک ہندو کی برسی میں شامل ہونا(جوکہ اﷲ و رسول اور دین اسلام کا بدترین دشمن تھا) اور ہندوئوں کے لیڈروں کی دہلی کی جامع مسجد کے ممبروں پر چڑھ کر تعریفیں کرنا جائز ہے اور میلاد رسول آپ کے نزدیک ایک فضول کام ہے (نعوذ باﷲ) یہ فقیر کہتا ہے کہ جومولوی صاحبان دین فروش ہیں ایسے علماء کا مسلمانوں کو خطاب سننا اور ان کی پیروی کرنی حرام ہے، ایسے ہی ہر اس عالم کا ذکر ہے جو کسی کافر سے ملے۔

سوال ۱۸: آپ (دیوبندی و وہابی) کہتے ہیں کہ یہ کام عادتاً اور عبادتاً ناجائز ہیں۔ کسی خاص مہینے یا تاریخوں میں کوئی کام کرنا بدعت ہے چنانچہ میلادشریف کو آپ نے صرف ربیع الاول کے مہینے میں کرنے کی وجہ سے ناجائز قرار دیا اور جس شخص نے اس میں اپنی ذاتی کمائی کے ثند روپے خرچ کئے، اس پر آپ نے فضول خرچی کا حکم دے دیا لہذا یہ دوسری وجہ ہے اس کے حرام ہونے کی، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دیوبندی اس سے زیادہ پابندی اور اہتمام سے فضول خرچی کرتے ہیں مگر وہ تمام کام یا تو مستحب تصور کرتے ہیں یا فعل مسنون جن کو پابندی سے کرتے کئی سال گزر گئے۔ یہ فقیر ان کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ شعبان کے مہینے میں جلسہ کرنا اور طلباء کے لئے چندہ مانگا جاتا ہے اس چندے سے بڑے بڑے اشتہارات چھپوانا جس میں ہزاروں روپیہ فضول خرچ ہوتا ہے۔ ان پیسوں سے جلسہ میں کرایہ کی کرسیاں لاکر ڈالنا، بڑے بڑے شامیانے لگوانا لوگوں کو دکھانے کے لئے، اعلیٰ فرض بچھانا، بجلی کی روشنی کرانا اب آپ ہی بتایئے کہ یہ پابندیاں اور اہتمام ہیں یا نہیں؟ اور یہ سب فضول خرچی ہیں یا نہیں؟ اور یہ بدعات ہیں یا نہیں؟ اب ملاحظہ کریں کہ وہ چندہ جو طلباء کا حق ہے اس سے علماء کو سفر کے لئے پیسے دینا اور علماء کا س خرچ کو لیناجائز ہے یا نہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ مانگا کسی اور کام کے لئے جائے اور خرچ کہیں کیا جائے، کیا یہ خدا کی مخلوق کے سامنے جھوٹ بول کر لینا ہے یا نہیں؟ بتایئے کہ دیوبندیوں، وہابیوں کے جلسوں میں ایسے ناجائز کام جمع ہیں مگر ہمیشہ ان کو نہایت اہتمام سے کیا جاتا ہے۔ ان کے جلسوں میں سب پابندیاں اور اہتمام مستحب ہیں لیکن میلاد شریف میں ایک پابندی بھی آپ کے نزدیک اس قدر حرام ہے کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے اپنے جلسوں اور محافل میلاد میں وجہ فرق بتایئے۔

سوال ۱۹: حدیث شریف پڑھا ذکر رسول ہے یا نہیں؟ اگر آپ کے نزدیک یہ بھی ذکر رسول ہے تو بتایئے کہ اس کے لئے اہتمام کرنا فرش بچھانا، جگہ صاف کرانا، خاص کمرے مخصوص کرنا (جن کو دارالحدیث کہتے ہیں) حرام ہے یا نہیں؟ اگر یہ اہتمامات اس اس ذکر رسول میں کرنا حرام نہیں تو فرمایئے کہ میلاد شریف آپ کے نزدیک اہتمام سے کرنا کیوں حرام ہوا، وجہ فرق بتایئے۔

سوال ۲۰: حدیث شریف پڑھانا ذکر رسولﷺ ہے یا نہیں۔ اس کو آپ صاحبان عبادتاً کرتے ہیں یا عادتاً؟ اگر آپ نے اس کو عادتاً کیا اور اس سے آپ کو ثواب مطلوب نہیں تھا۔ تب بھی بتایئے اور اگر آپ نے اس فعل کو ثواب کی نیت سے کیا تو معلوم ہوا کہ آپ بھی ذکر رسولﷺ بغرض ثواب کرتے ہیں۔ تب تو یہ عبادت بھی شامل ہوا، پوچھنا یہ ہے کہ اگر کسی نے میلاد شریف بغرض ثواب کیا تووہ کیوں عبادت میں شامل ہوکر حرام ہوگیا اور حدیث شریف بھی ذکر رسولﷺ ہے۔ یہ بطور عبادت کیوں جائز کرلیا گیا ہے؟

سوال ۲۱: آپ (دیوبندی، وہابی) صاحبان سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مدارس میں خرچ کیوں کرتے ہو۔ یہ فضول خرچی نہیں ہے؟ تو آپ اس کا جواب دیتے ہیں کہ یہ دین کا کام ہے۔ اس لئے نیک کام کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذکر رسولﷺ آپ کے نزدیک دنیا کا کام ہے اور فضول کام ہے؟ کہ جس میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے، اس کام کو کیا الفاظ دیئے جائیں۔

سوال ۲۲: سوئم کہلواتے اور چالیسویں کے کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

کیا آپ جیسے علماء کوجو ’’صاجی بدعت‘‘ اس کا کھانا جائز ہے؟ اور غرباء کو اس کا کھانا حرام ہے؟ یہ سوال یوں پیدا ہوا کہ اس فقیر نے بچشم خود سوئم اور چالیسویں کا کھانا (ان کو) کھاتے دیکھا ہے جس کا کھانا اغنیاء کو بالکل حرام ہے، تفصیلی جواب دیں۔

سوال ۲۳: کیا تعویذ گنڈوں کے بہانے سے لوگوں سے روپیہ لینا جائز ہے یا نہیں؟

سوال ۲۴: جب انبیاء علیہم السلام کو باری تعالیٰ مخلوقات پر بھیجتا ہے تو اس وقت حق تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کو کوئی صلاحیت اور قابلیت ایسی عطا فرمائی جاتی ہے جس سے وہ علوم اور حقائق بغیر فرشتوں کے دریافت کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یا انبیاء علیہم السلام فرشتوں کے رحم پر چھوڑے جاتے ہیں کہ اگر فرشتے ان کے کان میں کچھ کہہ دیں تب تو ان کو خبر ہوجاتی ہے اور بغیر فرشتوں کے بالکل بے خبر اور ہر علم سے مبرا ہوتے ہیں جیسا کہ آپ کے عقائد سے بالکل واضح ہے۔

سوال ۲۵: خاص کر شعبان کے مہینے میں جلسہ معہ اہتمام اور پگڑیاں وغیرہ بندھوانا یہ تمام افعلا آپ صاحبان کے فعل مباح ہیں یا مستحب یا واجب؟ اگر مستحب یا واجب ہیں تو دلیل دیجئے اور اگر فعل مباح ہیں تو ان افعال کوہر سال الترام سے کرنا سنت یا واجب ہونے کا شبہ ڈالتا ہے یا نہیں؟ لہذا ان کا چھوڑنا لازم ہے یا نہیں۔ امید ہے کہ ۲۵ سوالوں کا جواب تفصیل سے تحریر فرمائیں گے۔ جواب کا منتظر : ڈاکٹر فیض احمد چشتی

مکمل تحریر >>

Friday 30 December 2016

بدعت کی حقیقت

بدعت کی حقیقت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ اَجْرُہَا أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَامِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَنْقُصَ ُ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْءٌ وَّمَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃًُکَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَاوَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَیْرِاَنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَیْءٌ ۔
(مشکوۃ المصابیح ،کتاب العلم ، فصل اول ، الحدیث ۲۱۰ ، ج۱ ، ص ۶۱)

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرے اسے اپنے عمل اور ان کے عملوں کا ثواب ہے جو اس پر کاربند ہوں (۱)ان کا ثواب کم ہوئے بغیر اور جو اسلام میں برا طریقہ ایجاد کرے اس پر اپنی بدعملی کا گناہ ہے اور ان کی بدعملیوں کا جو اس کے بعد ان پر کاربند ہوں بغیراس کے ان کے گناہوں سے کچھ کم ہو۔(۲)       
وضاحت :
(۱)یعنی مُوجدِ خیر تمام عمل کرنے والوں کے برابر اجر پائے گا لہٰذا جن لوگوں نے علمِ فقہ، فنِ حدیث، میلادشریف، عرسِ بزرگانِ دین، ذکرِ خیر کی مجلسیں ،اسلامی مدرسے ،طریقت کے سلسلے ایجاد کئے انہیں قیامت تک ثواب ملتا رہے گا ۔یہاں اسلام میں اچھی بدعتیں ایجاد کرنے کا ذکر ہے نہ کہ چھوڑی ہوئی سنتیں زندہ کرنے کا اس حدیث سے بدعت حسنہ کے خیر ہونے کا اعلیٰ ثبوت ہو ا۔
(۲)یہ حدیث ان تمام احادیث کی شرح ہے جن میں بدعت کی برائیاں آئیں صاف
معلوم ہوا کہ بدعت سیئہ بری ہے اور ان احادیث میں یہی مراد ہے یہ حدیث بدعت
کی دو قسمیں فرمارہی ہے بدعت حسنہ اور سیئہ اس میں کسی قسم کی تاویل
نہیں ہوسکتی ان لوگوں پر افسوس ہے جو اس حدیـث سے آنکھیں بند کرکے ہر بدعت کو برا کہتے ہیں حالانکہ خود ہزاروں بدعتیں کرتے ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح ج ۱ص ۱۹۷)

مکمل تحریر >>

سعودی عریبیہ کی هسٹری"

"سعودی عریبیہ کی هسٹری"
عرب شریف میں 1922 تک ترکی کی حکومت تهی.
جسے خلافت_عثمانیہ کے نام سے جانا جاتا هے.
جب بهی دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم هوتا تها تو ترکی حکومت اس کا منہ توڑ جواب دیتی.
امریکہ ، برطانیہ ، یورپین ، نصرانی اور یہودیوں کو اگر سب سے زیادہ خوف تها تو وہ خلافت_عثمانیہ حکومت کا تها.
امریکہ ، یورپ جیسوں کو معلوم تها کہ جب تک خلافت_عثمانیہ هے' هم مسلمانوں کا کچهہ بهی نہیں بگاڑ سکتے هیں.
امریکہ و یورپ نے خلافت_عثمانیہ کو ختم کرنے کی سازش شروع کی.
امریکہ یورپ نے سب سے پہلے اک شخص کو کهڑا کیا جو کرسچیئن تها ' ایسی عربی زبان بولتا تها کہ کسی کو اس پر شک تک نہیں آیا
اس نے عرب کے لوگوں کو خلافت_عثمانیہ کے خلاف یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی کہ تم عربی هو اور یہ ترکی عجمی(غیر عربی) هیں
هم عجمی کی حکومت کو کیسے برداشت کر رهے هیں
پر لوگوں نے
(اسوقت کے عرب سنیوں)
اسکی ایک نہ مانی.
یہ شخص "لارنس آف عریبین" کے نام سے مشہور هوا
(آپ لارنس آف عریبین لکهہ کر گوگل پر سرچ کریں)
پهر امریکہ نے ایک شخص کو کهڑا کیا جس کا نام "همفر" تها
(آپ گوگل پر همفر کو سرچ کرکے پڑهہ سکتے هو)
همفر کی ملاقات ابن عبدالوهاب نجدی اور عرب کے ایک ڈاکو سے هوئی
اس ڈاکو کا نام ابن سعود تها
همفر نے ابن سعود کو عرب کا حکمران بنانے کا لالچ دیا
پهر ابن سعود نے مکہ ، مدینہ اور طائف میں ترکی کے خلاف جنگ شروع کر دی
مکہ ، مدینہ شریف اور طائف کے لاکهوں مسلمان ابن سعود کی ڈاکو فوج کے هاتهوں شہید هوئے
جب ترکی نے دیکها کہ ابن سعود همیں عرب سے نکالنے اور خود عرب پر حکومت کرنے کے لیے مکہ ، مدینہ شریف اور طائف کے بے قصور مسلمانوں کو شہید کر رها هے تب ترکی نے عالمی طور پر یہ اعلان کر دیا کہ
"هم اس پاک سرزمین پر قتل و غارت پسند نہیں کرتے"
اس وجہ سے هم خلافت_عثمانیہ کو ختم کر کے اپنے وطن واپس جا رهے هیں
پهر عرب اور کے مسلمانوں کا زوال شروع هوا
حجاز_مقدس کا نام 1400 سال کی تواریخ میں پہلی بار بدلا گیا
ابن سعود نے حجاز_مقدس کا نام اپنے نام پر سعودیہ رکهہ دیا
جنت البقیع اور جنت المعلی میں صحابہ رضوان الله اجمعین اور اهل_بیت علیهم السلام کے مزارات پر بلڈوزر چلایا گیا
حرم شریف کے جن دروازوں کے نام صحابہ اور اهل_بیت کے نام پر تهے
ان کا نام آل_سعود(ڈاکو) کے نام پر رکها گیا
یہود و نصاری کو عرب میں آنے کی اجازت مل گئی
جس دن ابن سعود عرب کا بادشاہ بنا اس دن اک جشن هوا
اس جشن میں امریکہ ، برطانیہ اور دوسرے کافر ملکوں کے پرائم منسٹر ابن سعود کو مبارک باد دینے پہنچ گئے
جس عرب کے نام سے یہود و نصاری کانپتے تهے وه سعودیہ ' امریکہ کے اشارے پر ناچنے لگا
اور آج بهی رندوں کے ساتهہ ناچ رها هے
یہود و نصاری کی اس ناپاک سازش کا ذکر کرتے هوئے
"علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے کلام میں لکها هے"
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدﷺ اسکے دل سے نکال دو
فکر_عرب کو دے کر فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز اور یمن سے نکال دو
(بحوالہ تاریخ_نجد و حجاز)

مکمل تحریر >>