Pages

Wednesday 31 July 2019

سبز عمامہ پر کچه تحقیق* *دیوبندی مولوی ابوایوب اور الیاس گھمن کے مطابق سبز عمامہ پہننے والے علماےدیوبندکیا تھے

*سبز عمامہ پر کچه تحقیق*
*دیوبندی مولوی ابوایوب اور الیاس گھمن کے مطابق سبز عمامہ پہننے والے علماےدیوبندکیا تھے*؟

⚫ دیوبندی سخی داد خوستی سبز عمامہ شریف کے متعلق لکھتے ہیں کہ
‛‛ *عمامہ کا سیاہ سفید اور سبز رنگ تو مستحب ہے*
(الحجتہ التامہ فی لبس العمامہ یعنی پگڑی کا مکمل ومدلل بیان ص 54 ‛‛مقالات وخوستی 2 ص 67)

مزید سخی داد خوستی نے صحابہ سے سبز عمامہ باندھنا ثابت کیا ہے چنانچہ لکھا
‛‛ *صحابہ سے سبز عمامہ باندھنا منقول ہے جیسا کہ ایک اثر میں آیا ہے         ترجمہ‛‛‛ مہاجرین اولین صحابہ کو سوت کے سیاہ سرخ اور سبز عمامے باندھتے پایا*
(مقالات خوستی 2 ص 63)
⚫دیوبندی شارح ترمذی محمد سعید پالن پوری کہتے ہیں کہ

*نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ پگڑی بھی باندھی ہے ہری (سبز)بھی اور سفید بھی*

(تحفتہ اللامعی شرح سنن ترمذی 5 ص 70)

⚫  مفتی محمد تقی عثمانی دیوبندی نے لکھا کہ
‛‛   *حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ----- بعض روایات میں سبز عمامہ پہننا بھی ثابت ہے*
(اصلاحی خطبات 5 ص 307)

⚫ مولوی طارق جمیل نے کہا کہ
‛‛ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفید سیاہ اور سبز تینوں پگڑیاں باندھتے تھے*
(خطبات جمیل 2 ص 103)

⚫ مصنف تذکرتہ الخلیل نے لکھا کہ
*حسین احمد مدنی دیوبندی کا عمامہ سبز یا کالا ہی ہوتا تھا*
(تذکرتہ الخلیل ص 362)

⚫  انور شاہ کشمیری دیوبندی
‛‛  اکثر سبز عمامہ باندھتے
(بزرگوں کے ایمان افروز قصے ص 80)

⚫ دیوبندی مولوی علی شیر حیدری کہتے ہیں کہ
‛‛     *تم (سنی بریلوی)ہری (سبز)پگڑی کو ہاتھ ہی نہ لگاؤ یہ تو دارالعلوم دیوبند کی نشانی ہے اور میرے ہر فاضل دیوبند کے پاس ہری پگڑی رکھی ہوئ ھے جو اپنے اساتذہ نے اپنے ہاتھ سے انہیں بندھوائ تھی*

(حق نواز جھنگوی  سے علی شیر حیدری تک ص 420 ‛ مولوی ثناءاللہ سعد شجاع آبادی)
اسکے علاوہ بھی متعدد حوالے علماےدیوبند کے موجود ہیں جن میں علماے دیوبند کا سبز پگڑی پہننا ثابت ہے
*
تفصیل کے لئے علامہ کاشف اقبال مدنی کی کتاب ‛‛ سبز عمامے کاجواز اور علامہ میثم عباس رضوی کا مضمون ‛‛ مجلہ کلمہ حق لاہور شمارہ 13 ص 37 کا مطالعہ کریں
👆🏻👆🏻👆🏻👆🏻👆🏻👆🏻👆🏻👆🏻
اب سبز عمامے پر دیوبندی مولوی ابو ایوب اور الیاس گھمن کی بھی سن لیں
⬅ابو ایوب دیوبندی اپنی کتاب میں ‛‛ سبز عمامے کے خلاف لکھتے ہیں
‛‛  *یہاں الفت محبت کا انداز ہی ہے کہ محبوب سفید  پگڑی باندھیں اور سبز زندگی بھر نہ باندھیں یہ محب کہلوانے والے سفید سے احتراز کرکے سبز کو اختیار کریں*
(دست وگریباں 2 ص 22)
⬅  اسی طرح الیاس گھمن کی زیر نگرانی شائع ہونے والا دیویندی مجلہ ‛‛‛‛ راہ سنت ‛‛‛لاہور کے نائب مدیر فیاض طارق سبز عمامے کے خلاف لکھتے ہیں کہ

‛‛ *سبز پگڑی کی شریعت اور سنت میں کوئ اصل نہیں اور نہ ہی یہ زمانہ قدیم میں تھی بلکہ بعد میں گڑھ لی گئ ہے*
(دوماہی دیوبندی مجلہ ‛ راہ سنت‛‛ لاہور ص 33 رمضان المبارک و شوال المکرم 1430 بحوالہ کلمہ حق شمارہ  13 ص 38)
🔴 واضح ہوا کہ سبز عمامہ پہننا حضور سے ثابت نہیں یعنی اصول وہابیہ کے مطابق بدعت ہے
🔴 سبز عمامہ پہننا محبت کے تقاضوں کے منافی ھے
🔴 دیوبندیوں کے نزدیک سبز پگڑی کی شریعت وسنت میں کوئ اصل نہیں
🔴 دیوبندیوں کے مطابق سبز پگڑی  زمانہ قدیم میں نہ تھی بلکہ بعد میں گڑھ لی گئ ہے
ماخوذ‛‛ قہر خداوندی برفرقہ دیوبندی ص 147
اب دیابنہ سے میرا سوال ہے کہ

اکابرین دیوبند کے مطابق حضورصلی اللہ علیہ وسلم  سے سبز عمامہ پہننا ثابت
ابوایوب اور گھمن کے مطابق شریعت وسنت میں نہیں دونوں میں صحیح کیا ہے ؟
    سچ کہا
خدا جب دین لیتا ہے
    تو عقلیں چھین لیتا ہے
                   *قارئین*
وہابیہ ودیابنہ کی خانہ جنگی جاننے کے لئے
ان کتابوں کا ضرور مطالعہ کریں
1)خون کے آنسو (2)زلزلہ(3)زیروزبر
4)قہرخداوندی بر فرقہ دیوبندی
5)دیوبندیت کے بطلان کا انکشاف
6)اکابر دیوبندکا تکفیری افسانہ
7)اس گھر کوآگ لگ گئ گھر کے چراغ سے
8)زبان میری ہے بات انکی
9)کڑوا سچ(10)شیشے کا گھر
11)دیوبند کا نیا دین
12)دین کس نے بگاڑا
13)نجدی صیاد اپنے جال میں
14)وہابیت اپنے جال

مکمل تحریر >>

Monday 29 July 2019

غلام غوث من گھڑت واقعہ

گلفام بھائی یہ واقعہ من گھڑت ہے اور موصوف مولوی غلام غوث ہزاروی 1970 کے الیکشن میں مفتی محمود جو کہ والد ہیں مولوی فضل الرحمن کے کی پارٹی JUI سے منتخب ہوکرقومی اسمبلی کے رکن بنے۔موصوف دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اکثر سنی ان کے نام غلام غوث سے دھوکہ کھاجاتے ہیں۔ 74 میں قادیانی کافرقرار دئیے گئے یہ اس وقت MNA تھے مگر حیران کن امر یہ کہ موصوف غلام غوث ہزاروی اس قرار داد سے دور رہے جن اراکین اسمبلی نے قایانیوں کو کافر قراردینے والی قرار داد پر دستخط کئے اس میں موصوف کا نام تک نہیں ہے ان صاحب نے دستخط سے انکار کردیا تھا۔ اس حوالے سے دیوبندی بودی دلیلیں و گھن چکر قسم کی تاویلیں پیش کرتے ہیں یہ سب میں پوری ذمہ داری سے تحقیق کرکے عرض کررہا ہوں۔ یہ مشکوک کردار کا بندہ غلام غوث آج کیسے گمنام لوگوں کی جذباتی جھوٹی تحریروں سے قادیانیت کا فاتح اور قربانیاں دینے والا بنایا جارہاہے ایسی تحریروں سے پہلے اس میں مذکورہ شخصیات کی تحقیق کرلیا کریں بھائی جی اس تحریر کو کہیں شئیر مت فرمائیں جزاک اللہ ہاں ایک بات اور یہ اتنا متعصب دیوبندی تھا کہ اس نے اپنے دیوبندی اکابر رشید گنگوہی کے فتوے کہ زاغ معروفہ مطلب کالا معروف کوا حلال ہے پر عمل کرتے ہوئے کوا پکواکردعوت تک کی تھی اہلسنت اکابرین نے اس کی اس حرکت کا اظہار بھی فرمارکھا ہے بلکہ یہ واقعہ ان دنوں اخبار میں بھی آچکا ہے ناچیز نے خود اخبار کی کٹنگ دیکھ رکھی ہے جس میں یہ خبر تھی ۔

مکمل تحریر >>

Wednesday 24 July 2019

پاکستان میں امتناع قادیانیت آرڈینینس اور قانون حرمت رسول کے لئے خطرات

پاکستان میں امتناع قادیانیت آرڈینینس اور قانون حرمت رسول کے لئے خطرات
مرزا قادیانی جس نے ختم نبوت پر نقب زنی کی کوشش کرنے کے علاوہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک،  انیباء اکرم، صحابہ و اہلبیت رسول کی بارگاہوں میں بد ترین گستاخیوں کا بھی ارتکاب کیا جو اس کے پیروکاروں کے عقائد کا بھی حصہ ہے، ان عقائد ونظریات کی وجہ سے قادیانیوں کی کافر قرار دینے کے حوالے سے ایک مکمل تاریخ ہے جو مسلمان ہند کی قربانیوں سے مزین تحریک سے عبارت، جس میں تقریبا دس ہزار اہل ایمان نے جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں، تب کہیں جاکر آئین پاکستان میں ترمیم کرکے  1974ء میں انھیں کافر قرار  دینے کا سنگ میل عبور ہوا ہے۔ اور اسکے ساتھ تعزیرات پاکستان میں ترمیم انبیاء کرام و صحابہ و اہلبیت کی توہین کرنے پر سزا کی دفعات کا اضافہ کیا گیا ہے اور امتناع قادیانیت آرڈینینس کے تحت قادیانوں کی شر انگیزی کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ان دونوں قوانین کے بن جانے کے بعد ہمیشہ سے قادیانی طبقہ اور نام نہاد لبرل مغربی ممالک کی آشیرباد  و تعاون کے ساتھ اس کو ختم کرنے کے درپے رہے ہیں، اور ماضی میں اس حوالے سے کئی بار کوششیں بھی کئی گیں، جن میں انھیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی لیکن حالیہ دنوں میں قادیانی قیادت اور ان کی سرپرستی کرنے والے لبرلز جن میں سابقہ گورنر کی اولاد پیش پیش ہے اپنے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے  ختم نبوت اور حرمت رسول کے قوانین کو ختم کرنے کے لئے ٹرمپ کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کو  اقوام متحدہ کے اکتالیسویں سیشن  24 جون تا 12 جولائی 2019 کے اٹھا ئے جانے کی بھی اطلاعات ہیں ،جس کے ذریعہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جائیگا، ان حالات میں اسلام مخالف قوتیں پوری قوت و استعداد کے ساتھ جہاں ان قوانین کے خاتمے کی کوشش کریں گی وہیں ان قوانین کی حمایت کرنے والے مسلمانوں کو بھی دیوار کے ساتھ لگانے کا بھی مطالبہ ہوگا. یقینا ماضی کی مقابلے میں سخت یلغار کے خدشات ہیں۔ ان معاملات میں ہمارے ارباب اقتدار اس دباؤ کو کتنا برداشت کرسکتے ہیں ان کے بھی ایمان کا امتحان ہوگا۔  اہل ایمان کو جہاں اس معا ملے میں ان کے لئے ہدایت و استقامت کی دعا کرنی چاہئے وہیں اسلام مخالف قوتوں کے  شر سے بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔اور ذہنی طور پر قوم کو تیار بھی رہنا چاہئے کہ اگر ان قوانین کو چھیڑا جاتا ہے تو متحد ہو کر آئین پاکستان کی حفاظت کرتے ہوئے ان کی سازش کو ناکام بنانا ہے۔
آئین پاکستان کی اور تعزیرات پاکستان کی دفعات کی موجودہ ہیت اور پس منظر درج ذیل ہے۔
پاکستان میں قانون ِ حرمت رسول ﷺ
پس منظر:
ریاست مدینہ طیبہ کے قیام سے گستاخان رسول کے لئے صرف سزائے موت مقرر رہی ہے۔ خلفائے راشدین وخلفائے اسلامیہ کے دور میں بھی اسی پر عمل ہوتا رہا۔ اگر کہیں مسلمانوں کی حکومت نہیں رہی یا حکمران طبقہ نے دینی وملی کمزوری کی وجہ سے لیت ولعل سے کام لیا وہاں پر رسول اﷲ کے دیوانوں نے خطرات مول لیکر گستاخان رسول کو کیفرکردار تک پہنچایا۔ چاہے اس کی پاداش میں انہیں پھانسی کا پھندا ہی کیوں نہ چومنا پڑے۔
برصغیرمیں مغلوں کے دور حکومت میں بھی یہی قانون نافذالعمل رہا یہاں تک کہ مغل بادشاہ اکبر کے دور میں جب دین الٰہی جیسی خرافات کا زور تھا مگر اس دور میں بھی گستاخ رسول کو اس قانون کے تحت واصل جہنم کیا گیا۔ لیکن انگریز کے غلبہ کے ساتھ ہی اسلامی قانون کو ختم کر دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود اس دور میں بھی جب کوئی شقی القلب دیدہ درہنی کا مظاہرہ کرتا جانثاران مصطفیٰﷺ انگریزی قانون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہنستے مسکراتے تختہ دار پر جھول جاتے ۔
ہندوستان میں برطانوی راج مسلط ہونے پر یہاں 1860ء میں گورنر جنرل ہند کی منظوری سے "تعزیرات ہند" (The Indian Penal Code) کو نافذ العمل کر دیا گیا۔ تعزیرات ہند کی تدوین لاڈرمیکالے کی سربراہی میں تشکیل شدہ کمیشن نے نپولین کوڈ کو سامنے رکھ کر کی تھی اور اس سلسلہ میں انگلش قوانین اور خاص طور پر انتظامی مصلحتوں کو پیش نظر رکھا گیا تھا۔ لیکن عجیب تربات یہ ہے کہ انگلستان میں اس وقت بھی یعنی 1860ء میں قانون توہین مسیح بطور کامن لاء (Common Law) موجود تھا اور آج بھی بلاس فیمی ایکٹ انگلینڈ کے مجموعہ قوانین میں شامل۔ البتہ ہندوستان میں حکومت برطانیہ کے خلاف منافرت پھیلانے یا توہین حکومت یا حکومت کے خلاف اشتعال انگیزی کے جرم کی سزا کے لئے ایک دفعہ تعزیرات ہند میں شامل کی گئی۔ جسے جرم بغاوت قرار دے کر اس کی سزا  سزائے عمر قید کی گئی جس کی جگہ 1898ء میں "دفعہ 124 الف" کو معمولی ترمیم کے ساتھ شامل تعزیرات کیا گیا۔ مگر سزا اور نوعیت جرم وہی برقرار رہے۔
اسی سال 1898ء میں دفعہ 124 الف کے ساتھ ہی مزید"دفعہ 153 الف" کا اضافہ کیا گیا تاکہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی وجہ سے ملک میں جو فتنہ وفساد پیدا ہو ان کا سد باب کیا جاسکے اور حکومت ان خطرات سے محفوظ رہ سکے۔
دفعہ 153الف :
جوکوئی الفاظ سے بذریعہ تقریر یا تحریر یا اشتہاروں سے یا کسی اور طبقہ سے ہندوستان میں ہر مجسٹی کی رعایا کی مختلف جماعتوں میں دشمنی یا منافرت کے جذبات ابھارے یا انہیں بھڑکانے کی کوشش کرے اسے دوسال قید تک سزا یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
توضیح (Explanation):
ایسا کوئی فعل جو بدنیتی کے بغیر نیک نیتی کے ساتھ ان امور کی نشاندہی کرے جو ہرمیجسٹی کی رعایا کی مختلف جماعتوں کے درمیان دشمنی یا منافرت کے جذبات یا رحجانات پیدا کرنے کا باعث ہوں ختم کرنے کے لئے کیا گیا ہو مذکورہ بالاجرم کی تعریف میں نہیں آئے گا۔
تشریحات (Commentary):
اس دفعہ کے اضافہ کا ایک مقصدیہ بھی بتایا گیا کہ ہرمیجسٹی کی رعایا کے درمیان امن وامان قائم کرنا ہے ۔
جب اس جرم کے ارتکاب میں تسلسل آنے لگا تو محمدعلی جوہر کی تحریک پر 1927ء میں اس وقت کی قانون ساز اسمبلی نے مسلمانوں کی اشک شوئی کیلئے "دفعہ  295  الف" کو تعزیرات ہند میں شامل کیا۔ جس میں توہین مذہب کے جرم کی سزا دوسال تک قید یا جرمانہ مقرر ہوئی مگر یہ توہین رسالت جیسے سنگین جرم کیلئے ناکافی تھی۔
295 الف:
جوکوئی عمداً اور بدنیتی سے تحریری یا تقریری اعلانیہ طور پر ہر میجسٹی رعایا کی کسی جماعت کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرے یا توہین کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس جماعت کے مذہبی جذبات مشتعل ہوں تو اسے دو سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
دفعہ 295 الف میں 23مارچ 1956ء سے صرف "ہرمجسٹی رعایا" کے الفاظ کو "پاکستان کے شہریوں" کے الفاظ میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس طرح اس دفعہ میں سال 1961ء کے ترمیمی آرڈیننس جس کو سال 1956ء سے موثر بہ ماضی کیا گیا تھا کوئی خاص تبدیلی نہ آئی۔
1947ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد مسلمانوں کی توقعات یہ تھیں کہ اسلامی نظام بحال کردیا جائے مگر یہ امید بھر نہ آئی یہاں تک  کہ 1983 میں ایڈووکیٹ ایم راج جو کمیونسٹ نظریات کا داعی تھا اس نے "Heavenly Communism" (آفاقی اشتمالیات) نامی کتاب لکھی جو کہ مفت تقسیم کی گئی اس کتاب میں اﷲ رب العزت، مذاہب، معززومکرم مذہبی شخصیات، انبیاء کرام یہاں تک کہ نبی اکرم  آقا دو جہاں سرور کائنات، فخرالموجودات محمد مصطفیٰﷺ کی شان میں بھی گستاخی کی گئی لیکن پاکستان میں اس کی سزا کا قانون موجود نہ تھا جس کی بناء پر ایڈووکیٹ محمد اسماعیل قریشی نے قانون تحفظ ناموس رسالت کے نفاذ کیلئے فیڈرل شریعت کورٹ میں اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق اور تمام صوبوں کے گورنروں کے خلاف آئین پاکستان کی دفعہ 203 کے تحت شریعت پٹیشن نمبر 1984 L/A دائر کردی جس میں آپ کے معاون تمام مکاتب فکر کے علماء سپریم کورٹ وہائی کورٹ کے جج صاحبان، سابق وزرائے قانون، سابق اٹارنی جنرل اور مختلف بارکونسلز کے صدور تھے۔
کمراہ عدالت اور اس کے باہر علماء اور عاشقان مصطفیٰﷺ کا ہر پیشی پرجم غفیر ہوتا۔ اس دوران ایک خاتون ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر جس کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ اس کا  شوہر ایک بڑا مالدار قادیانی ہے اس نے اسلام آباد میں ایک سیمینار میں نبی اکرم ﷺکی شان میں نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جس کی بناء پر سیمینار میں ہی ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ اس دوران ایک خاتون مرحومہ نثار فاطمہ نے اسماعیل قریشی کی مشاورت سے اسمبلی میں 295-C کا مجموعہ تعزیرات پاکستان میں اضافہ کا بل پیش کیا۔ جس میں گستاخ رسولﷺ کی سزائے موت تجویز کی گئی۔ اس کے بل کی اسمبلی میں کسی نے مخالفت نہ کی۔ مگر وزیر قانون اقبال احمد خان اس بل میں ترمیم کرتے ہوئے گستاخ رسول کی سزا سزائے موت یا عمر قید کردی۔ مگر علماء وغیور وکلاء اور جانثاران مصطفیٰ ﷺ مطمئن نہ ہو سکے جس پر دوبارہ فیڈریل شریعت کورٹ میں 295-C کو چیلنج کر دیا گیا کہ گستاخ رسول کی سزا صرف اور صرف موت ہے عمر قید کی سزا خلاف شریعت ہے۔ اس میں وکلاء وعلماء نے قرآن وسنت سے دلائل پیش کئے جس پر آخر کار  فیڈرل شریعت کورٹ نے متفقہ طور پر توہین رسالت کی متبادل سزا عمر قید کو غیراسلامی قرار دیتے ہوئے "حکومت پاکستان کو 30اپریل 1991ء تک کی مہلت کے ساتھ حکم دیا کہ عمر قید کی سزا کو دفعہ 295-C سے حذف کردیا جائے۔ جس کے بعد یہ قانون کاحصہ بن گیا"۔
اس پٹیشن کی سماعت کرنے والے جسٹس صاحبان کے اسماء گرامی یہ تھے۔ جسٹس گل محمدخان چیف جسٹس ، جسٹس عبدالکریم خان کندی، جسٹس عبادت یارخان، جسٹس عبدالرزاق تھیم اور جناب جسٹس ڈاکٹرفدا محمد خان ۔
مقدس شخصیات کی توہین پر سزائیں:
انبیاء کرام علیہم السلام ، ازواج مطہرات، اہل بیت اطہار، خلفاء راشدین، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی توہین پر دی جانے والی سزائیں حسب ذیل ہیں:
پاکستان پینل کوڈ کا چیپٹر نمبر "XV" مذہب سے متعلق جرائم کو بیان کرتا ہے اس کی درج ذیل سیکشنز ہیں، جومعززومکرم شخصیات جن انبیاء کرام علیہم السلام ، ازواج مطہرات، اہل بیت اطہار، خلفاء راشدین، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں کی توہین کوجرم بیان کرتے ہوئے سزا کا تعین کرتی ہیں ، جو کہ درج ذیل ہیں۔
295، 295 الف، 295 ب، 295 ج، 296، 297، 298، 298الف، 298 ب، 298 ج۔
295.    Injuring or defiling place of worship with intent to insult the religion of any class:
Whoever destroys, damages or defiles any place of worship, or any object held sacred by any class of persons with the intention of thereby insulting the religion of any class of persons or with the knowledge that any class of persons is likely to consider such destruction damage or defilement as an insult to their religion. shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to two years, or with fine or with both.
295 ۔    کسی جماعت کے مذہب کی تذلیل کی نیت سے عبادت گاہ کو نقصان پہنچانا یا نجس کرنا:
جو کوئی شخص کسی عبادت گاہ کو یا کسی ایسی چیز کو جو اشخاص کی کسی جماعت کی طرف سے مقدس سمجھی جاتی ہو اس نیت سے تباہ کرے، نقصان پہنچائے یا ناپاک کرے کہ بایں طور وہ اشخاص کی کسی جماعت کے مذہب کی تزلیل کرے یا اس علم کے ساتھ کہ اشخاص کی کسی جماعت کے مذکورہ تباہی، نقصان یا ناپاکی کو ان کے مذہب کی تذلیل سمجھنے کا احتمال ہے تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو دو سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
295- A.        Deliberate and malicious acts intended to outrage religious feeling of any class by insulting its religion or religious beliefs:
Whoever, with deliberate and malicious intention of outraging the 'religious feelings of any class of the citizens of Pakistan, by words, either spoken or written, or by visible representations insults the religion or the religious beliefs of that class, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to ten years, or with fine, or with both..
295- الف۔     کسی جماعت کے مذہب یا مذہبی اعتقادات کی تذلیل کے ذریعے اس کے مذہبی جذبات کی بے حرمتی کی نیت سے کینہ وارانہ اور ارادی افعال :
جو کوئی شخص ]پاکستان کے شہریوں[ کی کسی جماعت کے مذہبی جذبات کی بے حرمتی کرنے کے ارادی اور کینہ وارانہ مقصد سے الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریر یا دکھائی دینے والے خاکوں کے ذریعہ مذکورہ جماعت کے مذہب یامذہبی اعتقادات کی تزلیل کرے یا تزلیل کرنے کی کوشش کرے تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو ]دس سال [ تک ہو سکتی ہے یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گے۔
295-B.    Defiling, etc., of Holy Qur'an:
Whoever  wilfully defiles, damages or desecrates a copy of the Holy Qur'an or of an extract therefrom or uses it in any derogatory manner or for any unlawful purpose shall be punishable with imprisonment for life.

295-ب۔    قرآن پاک کے نسخے کی بے حرمتی وغیرہ کرنا:
جو کوئی قرآن پاک کے نسخے یا اس کے کسی اقتباس کی عمداً بے حرمتی کرے، اسے نقصان یا اس کے بے ادبی کرے یا اسے توہین آمیز طریقے سے یا کسی غیرقانونی مقصد کے لئے استعمال کرے تو وہ عمر قید کی سزا کا مستوجب ہوگا۔
295-C:    Use of derogatory remarks, etc., in respect of the Holy Prophet:
Whoever by words, either spoken or written, or by visible representation or by any imputation, innuendo, or insinuation, directly or indirectly, defiles the sacred name of the
Holy Prophet Muhammad (peace be upon him) shall be punished with death, or imprisonment for life, and shall also be liable to fine.

295-ج۔      پیغمبر اسلام کی شان میں توہین آمیز الفاظ وغیرہ استعمال کرنا:
جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریر یا مرئی نقوش کے ذریعے یا کسی تہمت، کنایہ یا درپردہ تعریض کے ذریعے، بلاواسطہ یا بالواسطہ رسول پاک حضرت محمدﷺ کے پاک نام کی توہین کرے گا تو اسے موت، یا عمر قید کی سزا دی جائے گی، اور وہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہوگا۔
296.    Disturbing religious assembly:
Whoever voluntarily causes disturbance to any assembly lawfully engaged in the performance of religious worship, or religious ceremonies, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to one year, or with fine, or with both.
296۔    مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا:
جو کوئی شخص کسی ایسے مذہبی اجتماع میں جو جائز طریقہ پر مذہبی عبادت یا مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مصروف ہو عمداً خلل ڈالے تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کیلئے دی جائے گی جو ایک سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
297.    Trespassing on burial place, etc:
Whoever, with the intention of wounding the feelings of any person, or of insulting the religion of any person, or with the knowledge that the feelings of any person are likely to be wounded, or that the religion of any person is likely to be insulted thereby, commits any trespass in any place of worship or on any place of sculpture, or any place set apart for the performance of funeral rites or as a, depository for the remains of the dead, or offers any indignity to any human corpse or causes disturbance to any persons assembled for the performance of funeral ceremonies, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to one year, or with fine, or with both.
297۔    مقامات تدفین وغیرہ میں مداخلت بے جا کرنا :
جوکوئی شخص کسی کے جذبات کو مجروح کرنے یا کسی شخص کے مذہب کی تزلیل کرنے کی نیت سے یا اس علم سے کہ اس طرح سے کسی شخص کے جذبات مجروح ہونے یا کسی شخص کے مذہب کی تذلیل ہونے کا احتمال ہے۔ کسی عبادت گاہ میں یا کسی دفن کرنے کی جگہ پر یا کسی ایسی جگہ پر جو رسومات تدفین کی انجام دہی کے لئے یا متوفی کی لاش کے محافظ خانہ کے طور پر مخصوض کر دی گئی ہو۔ مداخلت بے جا کا ارتکاب کرے یا کسی انسانی لاش کی بے حرمتی کرے یا ان اشخاص سے فساد کرے جو مراسم تدفین کی انجام دہی کے لئے جمع ہوئے ہوں تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو ایک سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانہ کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
298.    Uttering words, etc., with deliberate intent to wound religious feelings:
Whoever, with the deliberate intention of wounding the religious feelings of any person, utters any word or makes any sound in the hearing of that person or makes any gesture in the sight of that person or places any object in the sight of that person, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to one year or with fine, or with both.
298۔    مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادی مقصد سے الفاظ وغیرہ کہنا:
جو شخص کسی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادی مقصد سے مذکورہ شخص کی سماعت کی حد تک کوئی لفظ کہے یا کوئی آواز پیدا کرے یا مذکورہ شخص کی نظروں کے سامنے کوئی اشارہ کرے یا مذکورہ شخص کی نظروں کے سامنے کوئی شے رکھ دے تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو ایک سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانہ کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
298-A.    Use of derogatory remarks, etc., in respect of holy personages:
Whoever by words, either spoken or written, or by visible representation, or by any imputation, innuendo or insinuation, directly or indirectly, defiles the sacred name of any wife (Ummul Mumineen), or members of the family (Ahle-bait), of the Holy Prophet (peace be upon him), or any of the righteous Caliphs (Khulafa-e-Rashideen) or companions (Sahaaba) of the Holy Prophet (peace be upon him) shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years, or with fine, or with both.
298-الف۔         مقدس شخصیات کے بارے میں توہین آمیز الفاظ وغیرہ کا استعمال کرنا:
جو کوئی الفاظ کے ذریعے، خواہ زبانی ہوں یا تحریر، یا مرئی نقوش کے ذریعے یا کسی تہمت، کنایہ یا درپردہ تعریض کے ذریعے، بلاواسطہ رسول پاک حضرت محمدﷺ کی کسی زوجہ مطہرہ (ام المؤمنین) یا رسول پاکﷺ کے خاندان کے کسی فرد (اہل بیت) یا رسول پاکﷺ کے خلفائے راشدین یا ساتھیوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) میں سے کسی کے متبرک نام کی توہین کرے گا۔ تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانے کی سزا، یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
ختم نبوت وامتناع قادیانیت آرڈیننس
فتنہ قادیانیت جس پر 25اگست 1900ء کو حضرت پیرمہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ علیہ نے کاری ضرب لگاتے ہوئے نبوت کے جھوٹے دعویدار کاپردہ چاک کردیا۔ مگر اس گروہ کی مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری اور سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے گمراہ کرتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی قادیانیت کی ریشہ دوانیوں کے خلاف مسلمان تحریک چلاتے رہے۔ خاص طور پر 1953ء میں بڑی تعداد میں علماء وعاشقان مصطفیٰﷺ نے گرفتاریاں اور شہادتیں پیش کیں۔ یہاں تک کہ 1974ء میں اس تحریک کو ایک نئے ولولہ اور جوش کے ساتھ آگے بڑھایا گیا اور مولانا شاہ احمد نورانی صاحب کی قیادت میں تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں نے قومی اسمبلی میں منکرین ختم نبوت کے غیر مسلم ہونے کی قرارداد پیش کی جس میں کئی دن دلائل دیئے جاتے رہے۔ ان دلائل کی تیاری میں جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی کے اساتذہ نے بھرپور حصہ لیا اور جامعہ کی لائبریری سے خوب استفادہ کیا جاتا رہا۔ 7ستمبر 1974ء وہ یوم سعید ہے جب قومی اسمبلی نے آئین میں ترمیم کرکے مسلمان کی تعریف بیان کی جس میں ختم نبوت پر ایمان لانا اور قادیانیت سے برات کو شامل کیا گیا اور یوں آئین پاکستان کی دفعہ 106کی شق 3 اور دفعہ 260کی شق 2 میں ترمیم کرکے منکرین ختم نبوت کو غیرمسلم قرار دیاگیا۔
آئین پاکستان میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کے متعلق ترمیم:
دستور کا آرٹیکل 106 ب: شق (۱) :
        کے تحت متعلقہ صوبوں کے لئے تعین کردہ خواتین اور غیرمسلموں کے لئے مخصوص تمام نشستوں کے لئے ہر ایک صوبہ واحد انتخابی حلقہ ہوگا۔
(ج) شق (۱) کے تحت کسی صوبہ کے لئے تعین کردہ خواتین اور غیرمسلموں کے لئے مخصوص نشستوں کو پُر کرنے کے لئے ارکان قانون کے مطابق سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی فہرست سے متناسب نمائندگی کے نظام کے ذریعہ صوبائی اسمبلی میں ہر ایک سیاسی جماعت کی طرف سے حاصل کردہ اہم نشستوں کی کل تعداد کی بنیاد پر منتخب کی جائیں گی۔
دستور کا آرٹیکل260شق 3:
دستور اور تمام وضع شدہ قوانین اور دیگر قانونی دستاویزات میں تاوقتیکہ موضوع یا سیاق وسباق میں کوئی امر اس کے منافی نہ ہو۔
الف:    "مسلم" سے کوئی ایسا شخص مراد ہے۔ جو وحدت وتوحید، قادر مطلق اﷲ تبارک وتعالیٰ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط طور پر ایمان رکھتا اور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر ایمان نہ رکھتا ہو نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمدﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا کرے ۔
ب:    غیر مسلم سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو مسلم نہ ہو اور اس میں عیسائی ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی فرقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص، قادیانی گروپ یا لاہور گروپ کا(جو خود کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخص یا کوئی بہائی اور جدولی ذاتوں میں سے کسی سے تعلق رکھے کوئی شخص شامل ہے۔
نوٹ:     فرمان دستور (ترمیم سوم) 1985ء (فرمان صدر نمبر NN مجریہ 1985ء) کے آرٹیکل 6 کی رو سے شق نمبر (N) کی بجائے تبدیل کی گئی جس کا اضافہ قبل ازیں دستور (ترمیم ثانی) ایکٹ 1974ء (نمبر 49 بابت 1974ء) کی دفعہ نمبر 4 (نفاذ پذیر از 17 ستمبر 1974ء) کی رو سے کیا گیا تھا۔
لیکن اس کے باوجود قادیانیوں نے شعار اسلامی اور اسلامی القابات کا استعمال ترک نہ کیا، کیونکہ اس کے لئے مطلوبہ قانون سازی نہ کی گئی تھی۔ لہذا وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور ظاہر کرتے رہے ۔ علماء کرام کی تحریک پر ستمبر 1980ء میں آرڈیننس پاس کیا گیا جس کے ذریعہ مجموعہ تعزیرات پاکستان میں دفعہ "298-الف" کا اضافہ کیا گیا۔ تاکہ قادیانیوں کو ان القابات سے روکا جا سکے جو کہ مسلمان نبی کریمﷺ کے ازواج وخاندان اور آپ کے خلفاء کے لئے چودہ سو سال سے استعمال کررہے تھے۔ اس دفعہ کی خلاف ورزی کرنے والے کے لئے 3 سال تک قید کی سزا بیان کی گئی۔
مگر اس دفعہ میں بھی مطلوبہ مقاصد کو پورا نہ کیا گیا ۔یہاں تک کہ علماء کے اصرار وتحریک پر 26 اپریل 1984ء کو صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے Anti Islamic activities of the Quadiani Group, Lahori Group and Ahmadis and Prohibition and Punishment Ordinance 1984 (امتناع قادیانیت آرڈیننس) جاری کیا۔ جس کی رو سے کوئی قادیانی اپنے مذہب کی شخصیات کے لئے اسلامی القابات اور شعائر اسلامی استعمال نہیں کر سکتا۔ خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اس آرڈیننس سے مجموعہ تعزیرات پاکستان میں دفعہ "298-ب" اور "298-ج" کا اضافہ کیا گیا۔
298-B.    Misuse of epithets, descriptions and titles, etc., reserved for certain holy personages or places:
(1) Any person of the Quadiani group or the Lahori group (who call themselves 'Ahmadis' or by any other name who by words, either spoken or written, or by visible representation-
refers to or addresses, any person, other than a Caliph or companion of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him), as "Ameer-ul-Mumineen", "Khalifatul- Mumineen", Khalifa-tul-Muslimeen", "Sahaabi" or "Razi Allah Anho";
refers to, or addresses, any person, other than a wife of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him), as "Ummul-Mumineen";
refers to, or addresses, any person, other than a member of the family "Ahle-bait" of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him), as "Ahle-bait"; or
refers to, or names, or calls, his place of worship a "Masjid"; shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years, and shall also be liable to fine.
(2) Any person of the Qaudiani group or Lahori group (who call themselves "Ahmadis" or by any other name) who by words, either spoken or written, or by visible representation refers to the mode or form of call to prayers followed by his faith as "Azan", or recites Azan as used by the Muslims, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years, and shall also be liable to fine.
298-ب۔        بعض مقدس شخصیات یا مقامات کے لئے مخصوص القاب اوصاف یا خطابات وغیرہ کا ناجائز استعمال :
۱۔    قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کو ’’احمدی‘‘ یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے، خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے:
الف:    رسول پاک حضرت محمدﷺ کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی شخص کو امیرالمؤمنین خلیفۃ المسلمین، صحابی رضی اللہ عنہ کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے۔
ب:    رسول پاک حضرت محمدﷺ کی کسی زوجہ مطہرہ کے علاوہ کسی ذات کو ام المؤمنین کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے۔
ج:    رسول پاک حضرت محمدﷺ کے خاندان (اہل بیت) کے کسی فرد کے علاوہ کسی شخص کو اہل بیت کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے ۔
د:    اپنی عبادت گا ’’مسجد‘‘ کو طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یاپکارے۔
اسے کسی ایک قسم کی سزائے قیداتنی مدت کیلئے دی جائے گی جو تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کا مستوجب ہوگا۔
۲۔    قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری، یا مرئی نقوش کے ذریعے، اپنے مذہب میں عبادت کے لئے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح کہ مسلمان دیتے ہیں۔ اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کا مستوجب ہوگا۔
298-C.    Person of Quadiani group, etc., calling himself a Muslim or preaching or propagatinghis faith:
Any person of the Quadiani group or the Lahori group (who call themselves 'Ahmadis' or by any other name), who directly or indirectly, poses himself as a Muslim, or calls, or refers to, his faith as Islam, or preaches or propagates his faith, or invites others to accept his faith, by words, either spoken or written, or by visible representations, or in any manner whatsoever outrages the religious feelings of Muslims shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years and shall also be liable to fine.
298-ج۔    قادیانی گروپ وغیرہ کا شخص جو خود کو مسلمان کہے یا اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے:
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخص جو بلاواسطہ یا بالواسطہ، خود کو مسلمان ظاہر کرے یااپنے مذہب کو اسلام کے طور پر موسوم کرے یا منسوب کرے یاالفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری، یا مرئی نقوش کے ذریعے، اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرے، اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا مستوجب ہوگا۔
امتناع قادیانی آرڈیننس کی ترمیم کے ذریعے  "Criminal Procedure Code 1898"کی سیکشن "99-الف" کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی اخبار، کتاب یا جرائد پر پابندی لگانے کے مجاز ہیں۔ جن میں مجموعہ تعزیرات کی متعلقہ سیکشن کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ یونہی "West Pakistan Press and Publication Ordinance1963" کی سیکشن 24 میں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کو یہ اختیار تفویض کیا گیا کہ اگر کوئی پریس قانون کے خلاف مواد چھاپ رہا ہے تو اس کو بھی بند کیا جاسکتا ہے۔
اس قانون کے خلاف سپریم کور    ٹ فل بینچ کا فیصلہ:
1993ء میں قادیانیوں نے اس آرڈیننس کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن فائل کی جس میں سپریم کورٹ کے جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس عبدالقدیر چوہدری، جسٹس محمد افضل لون ، جسٹس سلیم اختر، جسٹس ولی محمد خان پر مشتمل بینچ نے 5دن مسلسل سماعت کی اور ان کی پٹیشن کو خارج کر دیا گیا اور اپنے فیصلہ میں لکھا کہ:
If an Ahmadi is allowed by the administration or the law to display or chant in public the shaeeir e islam it is like creating a Rushadi out of him. Again if this permission is given to a procession or assembly on the street or a public place it is like permitting civil war.
اگر انتظامیہ یا قانون ایک احمدی(قادیانی) کو عوام میں شعائر اسلام کے اظہار یا استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ تو یہ ایسے ہے کہ اس کے اندر سے ایک اور رُشدی تخلیق کرنے کی اجازت دی جائے۔ ایک دفعہ پھر اگر عوامی مقامات یا راستوں پر جلسے جلوس کی اجازت دی گئی تو یہ خانہ جنگی کی اجازت دینا ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق بھی قادیانی نہ صرف غیر مسلم ہیں بلکہ  اپنے عقائد و نظریات میں رشدی کی طرح بدترین گستاخ رسول بھی ہیں، لہذا انھیں کسی صورت بھی اپنے عقائد کی تبلیغ و اشاعت  کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، اس قسم کی اجازت دینا پاکستان کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
حبیب الحق شاہ

مکمل تحریر >>