Pages

Tuesday 28 February 2017

حضرت آدم علیہ السلام کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء کرنا

حضرت آدم علیہ السلام کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء کرنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے: فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ-

ترجمہ:پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے-(سورۃ البقرہ،37)

مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق " مستدرک علی الصحیحین  ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد،  كنز العمال، تفسير در منثور, تفسیر روح البیان، میں  روایت مذکور ہے :

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :  لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك  هذا حديث صحيح الإسناد- (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی  تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا:ائے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر " لا إله إلا الله محمد رسول الله " لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک  ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا:اےآدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا- اس  حدیث کی سندصحیح  ہے۔

(مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194- معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690-)(دلائل النبوة للبيهقي، حدیث نمبر: 2243 )(مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917 دار الفکر بیروت )(كنز العمال، كتاب الفضائل حديث نمبر: 32138 -)(تفسير در منثور, سورة البقرة:37مکتبۃ الرشد )

سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے

سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے: فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ-
ترجمہ:پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے-(سورۃ البقرہ،37)

مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق حدیث پاک میں ہے :

(مستدرک علی الصحیحین ،معجم صغیر طبرانی ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، جامع الاحاديث والمراسيل، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسير الكشف والبيان للثعلبی، تفسیر روح البیان، الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه۔) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، المواهب اللدنية ، شرح المواهب للزرقاني, خصائص كبرى ، سبل الهدى والرشاد، السيرة النبوية لابن كثير، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،البداية والنهاية لابن كثير ،حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. ، تاريخ دمشق لابن عساكر،اور موسوعہ فقهيہ كويتيہ) (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك » هذا حديث صحيح الإسناد-

ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا:ائے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر ۔" لا إله إلا الله محمد رسول الله "لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا-

٭ مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194-

٭ معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690-

٭ معجم صغیر طبرانی، باب الميم، من اسمه محمد، حدیث نمبر: 989 –

٭ دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب غزوة تبوك،اب ما جاء في تحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه عز وجل، حدیث نمبر: 2243 –

- ٭ مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917–

- ٭ جامع الاحاديث والمراسيل ,مسند علي بن ابي طالب، حديث نمبر:33457-

٭ كنز العمال، كتاب الفضائل من قسم الأفعال ،الفصل الثالث في فضائل متفرقة تنبيء عن التحدث بالنعم، حديث نمبر: 32138 -

- ٭ تفسير در منثور, سورة البقرة:37-

- ٭ تفسير الكشف والبيان للثعلبي، سورة البقرة :37-

- ٭ تفسیر روح البیان،ج،2،ص:376،سورۃ المائدۃ:16-

- ٭ الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه۔) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، حديث نمبر:938-

٭ المواهب اللدنية ,ج,1,ص,82-

٭ شرح المواهب للزرقاني,ج,1,ص,119-

- ٭ خصائص كبرى ،باب خصوصيته صلى الله عليه وسلم بكتابة اسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش وسائر ما في الملكوت- (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

- ٭ سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد, جماع أبواب بعض الفضائل والآيات الواقعة قبل مولده صلى الله عليه وسلم, الباب الخامس في كتابة أسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش ،ج1ص85-

٭ السيرة النبوية لابن كثير، ج،1 ص،320-

- ٭ خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم , الفصل الثاني " في توسل الزائر به صلى الله عليه وسلم إلى ربه تعالى-

- ٭ البداية والنهاية لابن كثير باب خلق آدم عليه السلام -

٭حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،23-

٭ الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. مطلب في حماعة يصلون على النبي، النبي صلى الله عليه وسلم-

٭ تاريخ دمشق لابن عساكر، حرف الألف،

٭ موسوعہ فقهيہ كويتيہ،"التوسل"-واللہ اعلم بالصواب

مکمل تحریر >>

Monday 27 February 2017

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریمﷺ کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آیا قبر انور کی خاک سر پر ڈال کر فریاد کی تو آپﷺ کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ ( تفسیر بحر المحیط جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 296)عقیدہ حق وسیلہ کا شرعی مفہوم و جواز قرآن و حدیث اور دیگر مستند حوالہ جات

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریمﷺ کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آیا قبر انور کی خاک سر پر ڈال کر فریاد کی تو آپﷺ کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ ( تفسیر بحر المحیط  جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 296)عقیدہ حق
وسیلہ کا شرعی مفہوم و جواز قرآن و حدیث اور دیگر مستند حوالہ جات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (سورة النساء 64)

ترجمہ: اگر یہ لوگ اپنی جانوں  پر ظلم کرکے آپﷺ کے آستانہ پر آجائیں  اوراللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں  اور آپ بھی اے رسول  ان کی سفارش کریں  توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔ ''

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں  یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں  مسلمانوں  کاوسیلہ عظمیٰ ہیں  ان کی ذات اورنام وسیلہ اور  ان سے منسوب چیزیں  وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔

اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور ﷺ ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں  ظلموں میں  کوئی قید نہیں  اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو۔ ( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة المائدہ ، 35) ۔

ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں  جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو۔''

اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں  کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں  آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ  (سورة التوبہ، 103)

ترجمہ: اے محبوب ! ان مسلمانوں  کے مالوں  کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں  پاک وصاف کریں  اور ان کے حق میں  دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے''( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں  ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات ﷺکے کرم سے حاصل ہوتی ہے۔

وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا (سورة البقرہ، 89) ۔

مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیںکہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات ﷺکی تشریف آوری سے پہلے حضور ﷺ کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں  میں  دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیابلکہ تائید کی اور فرمایا کہ'' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں  مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں  نہیں  لاتے۔ معلوم ہوا کہ حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ (سورة البقرہ، 37) ''

آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی''۔

بہت سے مفسرین کرام فرماتے ہیں  کہ وہ کلمہ حضور ﷺ معلم و مقصود کائنات کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہواکہ حضور علیہ الصلاة والسلام انبیائے کرام کابھی وسیلہ ہیں ۔( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (سورة النساء 64)

ترجمہ: اگر یہ لوگ اپنی جانوں  پر ظلم کرکے آپﷺ کے آستانہ پر آجائیں  اوراللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں  اور آپ بھی اے رسول  ان کی سفارش کریں  توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔ ''

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں  یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں  مسلمانوں  کاوسیلہ عظمیٰ ہیں  ان کی ذات اورنام وسیلہ اور  ان سے منسوب چیزیں  وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔

اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور ﷺ ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں  ظلموں میں  کوئی قید نہیں  اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو۔

أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة المائدہ ، 35) ۔

ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں  جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو۔''

اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں  کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں  آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ  (سورة التوبہ، 103)

ترجمہ: اے محبوب ! ان مسلمانوں  کے مالوں  کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں  پاک وصاف کریں  اور ان کے حق میں  دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے''( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں  ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات ﷺکے کرم سے حاصل ہوتی ہے۔

وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا (سورة البقرہ، 89) ۔

مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیںکہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات ﷺکی تشریف آوری سے پہلے حضور ﷺ کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں  میں  دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیابلکہ تائید کی اور فرمایا کہ'' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں  مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں  نہیں  لاتے۔ معلوم ہوا کہ حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ (سورة البقرہ، 37) ''

آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی''۔

بہت سے مفسرین کرام فرماتے ہیں  کہ وہ کلمہ حضور ﷺ معلم و مقصود کائنات کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہواکہ حضور علیہ الصلاة والسلام انبیائے کرام کابھی وسیلہ ہیں ۔( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ (سورة البقرہ، 144) ۔

ہم آپﷺ کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں  اچھاہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیردیتے ہیں  جس سے آپ راضی ہیں ۔

معلوم ہواکہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لئے ہوئی کہ حضورﷺ کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ معلم و مقصود کائنات کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔جب کعبہ حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ کے وسیلہ کامحتاج ہے تودوسروں کاکیاپوچھنا ہے۔

احادیث مبارکہ اور وسیلہ

مسندامام احمدبن حنبل میں  حضرت شریح ابن عبید سے بروایت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ نے چالیس (40)ابدال کے متعلق فرمایا۔ ان چالیس(40) ابدال کے وسیلہ سے بارش ہوگی دشمنوں  پر فتح حاصل کی جائے گی اور شام والوں  سے عذاب دورہوگا۔ معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں  کے وسیلہ سے بارش فتح ونصرت ملتی ہے اوربلادفع ہوتی ہے۔(مشکوٰة باب ذکریمن وشام)۔

دارمی شریف میں  ہے کہ ایک دفعہ مدینہ شریف میں  بارش بندہوگئی اور قحط پڑگیا لوگوں  نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیاآپ نے فرمایاکہ روضۂ رسول پاک ﷺ کی چھت کھولدوکہ قبرانور اورآسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے تولوگوں  نے ایساہی کیاتو فوراً بارش ہوئی یہاں تک کہ چارہ اُگااونٹ موٹے ہوگئے گویا چربی سے بھرگئے ۔(مشکوٰة ،باب الکرامات)

مشکوٰ شریف باب المعراج میں  ہے حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں  کہ ہم واپسی میں  حضرت موسیٰ علیہ السلام پرگذرے توآپ نے پوچھا کہ آپ کو کیاحکم ملا؟ فرمایا ہردن پچاس (50) نمازوں  کافرمایا۔حضور آپﷺ کی امت میں  اتنی طاقت نہیں  میں  بنی اسرائیل کوآزماچکا ہوں ۔ اپنی امت کیلئے رب سے رعایت مانگئے غرضیکہ کئی بار عرض کرنے پر پانچ رہیں معلوم ہواکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے یہ رعایت اوررحمت ملی کہ پچاس(50) نمازوں  کی صرف پانچ باقی رہیں  یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں  کاوسیلہ ان کی وفات کے بعد بھی فائدہ مند ہے۔( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

مسلم وبخاری میں  ہے کہ حضور نے فرمایا ''انما اناقاسم واللہ ےُعطی'' (مشکوٰة ،کتاب العلم) ۔

ہم تقسیم فرمانے والے ہیں  اور اللہ تعالیٰ دیتاہے

معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی نعتمیں  حضورپرنورﷺ تقسیم فرمانے والے ہیں  اور تقسیم فرمانے والا وسیلہ ہوتاہے لہٰذا نبی پاک ﷺ خالق کی ہرنعمت کاوسیلہ ہیں ۔

شرح سنہ میں  ہےکہ ایک دفعہ حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے ایک اونٹ نے جوکھیت میں  کام کررہاتھا حضور علیہ الصلاة والسلام کودیکھا اور منھ اپنازانوئے مبارک پررکھ کرفریاد ی ہواسرکاردوعالم ﷺنے اس کے مالک کوبلاکر فرمایا یہ اونٹ شکایت کرتاہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہواورچارہ کم دیتے ہو۔اس کے ساتھ بھلائی کرو۔ معلوم ہواکہ بے عقل جانور بھی حضور ﷺکورفع حاجات کیلئے وسیلہ جانتے ہیں  ۔جو انسان ہوکرانکے وسیلہ کامنکر ہووہ اونٹ سے زیادہ بے عقل ہے۔

حضور علیہ الصلاة والسلام کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں  کچھ تخفیف ہوئی ۔کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور سرکاردوعالم ﷺ کودودھ پلایاتھا۔(بخاری شریف ،کتاب الرضاع)

معلوم ہوانبی کاوسیلہ ایسی نعمت ہے جس کافائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان توان کابندۂ بے دام ہے۔

اشیاء کا وسیلہ : مسلم شریف میں  ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس حضور ﷺ کاجُبہّ شریف تھا۔ یہ جُبّہ شریف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا ان کی وفات کے بعد میں  نے اسے لے لیا اس جُبّہ شریف کونبی پاک ﷺ پہنتے تھے اور اب ہم یہ کرتے ہیں  کہ مدینہ میں  جوبیمار ہوجاتا ہے اسے دھوکر پلاتے ہیں  اس سے شفا ہوجاتی ہے۔(مشکوٰة، کتاب اللباس)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام حضور علیہ الصلاة والسلام کے بدن شریف سے مس کئے ہوئے کوشفاکاوسیلہ سمجھ کر اسے دھوکر پیتے تھے ۔

بخاری شریف کتاب المساجد میں  ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کوحج کوجاتے ہوئے ہراس جگہ نماز پڑھتے تھے جہاں  نبی پاک ﷺنے اپنے حج کے موقع پر نمازپڑھی تھی ۔یہ مقامات بخاری نے بتائے بھی ہیں  معلوم ہواکہ جس جگہ بزرگ عبادت کریں  وہ جگہ قبولیت کاوسیلہ بن جاتی ہے۔( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی کو دے کر کہا تھا کی یہ چادرمیرے بعد  اویس قرنی کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لےدعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا۔

یہ  اولیاء سے وسیلہ کا ثبوت حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ سے ہی ثابت ہوتا ہے۔

بزرگانِ دین علیہم الرّحمہ کے اقوال :  صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم سے لیکر آج تک کے تمام مسلمانوں  کا متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ نبی پاکﷺ مخلوق کیلئے وسیلہ ٔ عظمیٰ ہیں  اورحضور علیہ الصلاة والسلام کے صدقہ سے اولیاء اللہ اورعلماء بھی وسیلہ ہیں ۔

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ ٔ نعمان میں  فرماتے ہیں ۔

اناطامع بالجود منک ولم یکن

لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک

یارسو ل اللہ میں  حضور کی عطا کاامیدوار ہوں  اورمخلوق میں  ابوحنیفہ کیلئے آپ کے سواکوئی نہیں  ۔معلوم ہواکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور علیہ الصلاة والسلام کواپناوسیلہ مانتے ہیں ۔

امام حضور غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے قصیدہ ٔ غوثیہ میں  اپنے خداد اد اختیارات بیان فرماکر ارشادفرماتے ہیں ۔

وکل ولی لہُ قدم وانی

علیٰ قدم النبی بدرالکمال

میں  جودنیا پرراج کررہا ہوں  اورمیرے قبضہ میں  زمین وزمان ،مکین ومکان ہیں  اس کی وجہ یہ ہے کہ ہرولی کسی نہ کسی نبی کے نقش قدم پرہوتاہے میں  نبیوں  کے چاند  اور رسولوں  کے سورج حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ کے قدموں  پرہوں ۔ معلوم ہواکہ حضورغوثِ پاک کی نگاہ میں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ ایسی اہم خلقت ہیں  کہ انہیں  سارے مراتب عالیہ اسی سرکار سے میسرہوئے۔( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

امام بوصیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ بردہ شریف میں  فرماتے ہیں  اوریہ مقبول بارگاہ مصطفی ﷺہوچکا ہے۔

ومن تکن برسول اللہ نصرتہ

ان تلقہ الاسدفی احامھابجم

یعنی جس کی مدد رسول اللہ ﷺ فرمادیں  وہ شیروں  سے بھی بچ جاتا ہے ۔معلوم ہواکہ ہربزرگ بھی حضور ﷺکوہرمصیبت کے دفع کاوسیلہ مانتے ہیں ۔

مولانا جلال الدین رومی قدس سرة العزیز اپنی مثنوی شریف میں  فرماتے ہیں ۔

اے بسادرگوخفتہ خاک دار

بہ ز صداحیاء بنفع وابتشار

سایہ اوبورخاکش سایہ مند

صدہزاراں  زندہ درسایہ دے اند

بہت سے قبروں  میں  سونے والے بندے ہزاروں  زندوں  سے زیادہ نفع پہونچاتے ہیں  ان کی قبر کی خاک بھی لوگوں  پر سایہ فگن ہے لاکھوں  زندے ان قبروالوں  کے سایہ میں  ہیں  ۔معلوم ہواکہ مولانا قدس سرہ ' اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں  کوبعدوفات زندوں  کاوسیلہ مانتے ہیں ۔

عقلی دلائل اور وسیلہ : عقل کابھی تقاضہ یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں  کاوسیلہ پکڑناجائز ہے حسب ذیل دلائل سے (١) ''رب تعالیٰ غنی اور ہم سب فقیر''جیسا کہ ارشاد تبارک وتعالیٰ ہے ''اللہ غنی وّ انتم الفقراء ُ  '' اوروہ غنی ہمیں  بغیروسیلہ کے کوئی نعمت نہیں  دیتا۔ ماں  باپ کے وسیلہ سے جسم دیتاہے ۔استادکے ذریعہ علم، پیرکے ذریعہ شکل ،ملک الموت کے ذریعہ موت، غرضیکہ کوئی نعمت بغیروسیلہ نہیں  دیتا توہم فقیر ومحتاج ہوکربغیروسیلہ اس سے کیسے لے سکتے ہیں  ۔ اگر اس کو سب کچھ خود کنت ہوتا تو وہ رسول کو کیوں بھیجتا۔ بلکہ خود ہی سب کو ہدایت دے دیتا ۔معاذ اللہ ۔

دنیاادنی اور تھوڑی ہے آخرت اعلیٰ اورزیادہ ہے''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''قل متاع الدنیا قلیل ''اورفرماتاہے ''والاٰ خرة خیروّ ابقیٰ '' جب دنیاجیسی حقیر بغیروسیلہ نہیں  ملتی توآخرت جودنیاسے اعلیٰ ہے بغیر وسیلہ کیوں کر مل سکتی ہے۔ اس لئے قرآن وایمان دینے کیلئے پیغمبر ﷺکومبعوث فرمایا۔

ہمارے اعمال کی مقبولیت مشکوک ہے اور نبی پاکﷺ واولیاء اللہ کی مقبولیت یقینی ہے۔ جب مشکوک اعمال وسیلہ بن سکتے ہیں  تو یقینی مقبول بندے بدرجۂ اولیٰ وسیلہ ہیں ۔

اعمال صالحہ وسیلہ ہیں  رب سے ملنے کااور اعمال کاوسیلہ انبیاء ،اولیاء ،علما ء تویہ حضرات وسیلہ کے وسیلہ ہوئے اور وسیلہ کابھی وسیلہ ہے لہٰذا یہ حضرات بھی وسیلہ ہیں ۔

حضور اقدس ﷺ سے پہلے تین سوسال تک خانۂ کعبہ میں  بت رکھےگے تھے۔ حضور علیہ الصلاة والسلام کے دست اقدس سے کعبہ پاک صاف کیاگیا تاکہ معلوم ہوکہ کعبہ معظمہ جوخداتعالیٰ کاگھرہے وہ بھی بغیر وسیلہ مصطفےٰ ﷺ پاک نہ ہوسکا توتمہارے دل بغیر اس ذاتِ کریم کے وسیلہ سے ہرگز پاک نہیں  ہوسکتے۔( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

رب فرماتاہے: '' وکونوامع الصادقین '' سچوں  کے ساتھ رہو ۔اور سارے سچے اولیاء علماء وسیلہ کے قائل رہے۔ لہٰذا وسیلہ کامانناہی سچاراستہ ہے۔

شیطان نے ہزاروں  برس بغیر وسیلہ والی عبادت کیں  مگروہ وسیلہ والا ایک سجدہ نہ کیاتو مردودہوگیا ملائکہ نے وسیلہ والا سجدہ کرکے محبوبیت پائی۔ معلوم ہوا کہ وسیلہ والی عبادت تھوڑی بھی ہوتو مقبول بارگاہِ الٰہی ہے۔

قبرمیں  مردہ سے تین سوال ہوتے ہیں  پہلاسوال توحیدکا اوردوسرا دین کا۔ مگر ان دونوں  سوالوں  کے جواب درست دینے پربھی بندہ کامیاب نہیں  ہوتا اور جنت کی کھڑکی نہیں  کھلتی۔ سوال تیسرا یہ ہوتا ہے'' ماکنت تقول فی حق ہذاالرجل '' تواس کالی زلفوں  والے ہرے گنبد والے محبوب کوکیاکہتاتھا ۔دیکھ یہ تیرے سامنے جلوہ گرہیں ۔ حضور کافرماں  بردار بندہ جواب دیتاہے یہ میرے رسول میرے نبی ہیں  اور میں  ان کا امتی ہوں ۔

مسجد نبوی شریف میں  ایک نماز کاثواب پچاس ہزار ہے ۔کیوں  ؟ کیادوسری مسجدیں  خداکاگھرنہیں  ہیں ؟۔ صرف اسی لئے یہ ثواب بڑھاکہ ا س میں  حضور محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ سرکار دوعالم ﷺآرام فرمارہے ہیں  اسی طرح بیت المقدس میں  کئی ہزارپیغمبر جلوہ گرہیں ۔ کعبہ وہاں  بھی ایک نیکی کاثواب ایک لاکھ اس لئے کہ وہ حضور پُرنورﷺکامقام پیدائش ہے اور وہاں  بیت اللہ چاہ ِ زم زم اورمقام ِ ابراہیم ہے۔ ان کے وسیلہ سے ثواب زیادہ ہوگا ۔وسیلہ والی عبادت کادرجہ زیادہ ہے۔ معلوم ہواکہ وسیلۂ انبیاء واولیاء اعلیٰ چیزہے۔۔

منکرین وسیلہ کی سوچ  کا جواب : وسیلہ کے معانی جو کہ لغت میں بیان کیے گۓ ہیں وہ یہ ہیں۔ " ذریعہ، واسطہ، شفاعت، دستگیری، حمایت"

یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کی قران میں وسیلہ علیہدہ سے کیوں بیان کیا گیا ہے۔ حالنکہ پورے قران میں نیک اعمال کیا ہیں تفسیل سے بیان کیے گۓ ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ نیک اعمال ہی وسیلہ ہیں- اگر ایسا ہے تو پھر تلاش کیا کرنا ہے۔ اسی ایت میں جہاد بھی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اگر صرف وسیلہ کو نیک عمل ہی سمجھا جاۓ تو جہاد بھی تو نیک عمل ہے تو ایک ہی ایت میں یہ علیہدہ سے کیوں  بیان کیا گیا۔ علیہدہ آیت میں بھی تو جہاد کا ذکر ہو سکتا تھا- اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وسیلہ نیک عمل کرنے میں جو چیز مدد فراہم کرے وہ وسیلہ ہے اور جب نیک عمل ہو جاۓ گا تو اللہ کا قرب ملے گا-

یہ ایسا ہی ہے کہ آپ لاہور سے اسلام اباد میلاد شریف کی محفل کے لۓ جا رہے ہوں تو اس میں سواری وسیلہ ہے اور آب کا ارادہ اور سفر نیک عمل۔ اس میں سواری اور پیٹرول نیک عمل نہیں ہیں بلکہ ذریعہ یا وسیلہ ہیں۔( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

اسی طرح انبیاء اور صالحین جو کہ نیک عمل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔۔ یہ سب وسیلہ ہیں-

نیچے دی گی مثال میں نسبت بھی ایک بہت بڑا وسیلہ ہے کا ثبوت بخاری شریف سے پیش ہے۔

حضور علیہ الصلاة والسلام کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور سرکاردوعالم ﷺ کودودھ پلایاتھا۔(بخاری شریف ،کتاب الرضاع)
معلوم ہوانبی کاوسیلہ ایسی نعمت ہے جس کافائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان توان کابندۂ بے دام ہے۔

حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی کو دے کر کہا تھا کی یہ چادرمیرے بعد اویس قرنی کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لےدعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا۔
یہ اولیاء سے وسیلہ کا ثبوت حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ سے ہی ثابت ہوتا ہے۔

یاد رہے جو سوچ آپ بیان کر رہے ہیں وہ ہجرت کے 700 سال بعد کی ہے۔ یہ ہم سب ماننتے ہیں کہ جتنا زمانہ حضور ﷺ کے نزدیک ہو گا اتنا صحیح ہو گا۔ آپ کی دی گئی تفصیل میں جن تفاسیر کا بیان ہے ان کے بارے میں دیکھیں کہ تفسیر الجلالین 864ھ 1459ع کی ہے تفسير الخازن 741ھ کے قریب ہے۔ تفسیر حافظ ابن کثیر 774ھ سے ذرا پہلے کی ہے-

اب حضورﷺ کے نزدیک کے زمانہ کو سوچ پڑھیں-

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ ٔ نعمان میں  فرماتے ہیں ۔ ( 80ھ تا 150ھ  تابعین)

اناطامع بالجود منک ولم یکن

لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک

یارسو ل اللہ میں  حضور کی عطا کاامیدوار ہوں  اورمخلوق میں  ابوحنیفہ کیلئے آپ کے سواکوئی نہیں  ۔معلوم ہواکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور علیہ الصلاة والسلام کواپناوسیلہ مانتے ہیں ۔

پہلی مثال سے یہ ثابت ہے کہ حضور ارکرمﷺ کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے اور مثال نمبر دو سے نیک لوگوں کووسیلہ   کرناحضورﷺ معلم و مقصود کائینات سے ثابت ہے۔

مکمل تحریر >>