Pages

Monday 31 July 2017

ابدال اور قطب احادیث مبارکہ کی روشنی میں

ابدال اور قطب احادیث مبارکہ کی روشنی میں

ابدال کا وجود، حدیث مبارکہ کی روشنی میں ۔ علامہ اللہ یار خان دیوبندی کی زبانی

ابو نعیم نے حلیہ میں ذکر کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں ہر زمانہ میں پانچسو خیار ہوں گے اور چالیس ابدال، ان دونوں میں کمی نہ ہوگی، ان میں سے جو فوت ہوگا، ان پانچسو میں سے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے شخص کو ان چالیس میں داخل کردے گا۔

امام احمد کی حدیث۔ اس امت میں ابدال تیس ہوں گے جن کے قلوب حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے قلوب پر ہوں گے، ان میں سے جو فوت ہوگا اللہ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔

حدیث طبرانی۔ میری امت میں تیس ابدال ہوں گے، ان کے سبب سے زمین قائم رہے گی۔ ان کی وجہ سے بارش کی جائے گی، اور ان کی وجہ سے مدد دی جائے گی۔

ابدال شام میں ہوتے ہیں اور وہ چالیس مرد ہیں، ان کے سبب سے تمہیں بارش دی جاتی ہے، اور ان کی وجہ سے تمہیں دشمنوں پر فتح دی جاتی ہے، اور ان کے سبب سے اہل زمین سے تکالیف اور مصائب دور کئے جاتے ہیں۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ابدال شام میں ہیں اور وہ چالیس مرد ہیں، جو ان میں سے فوت ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دیتا ہے، ان کے سبب سے تمہیں بارش دی جاتی ہے اور دشمنوں کے مقابلہ میں امداددی جاتی ہے اور اہل شام سے ان کے سبب سے عذاب دور کیا جاتا ہے۔

خلال کی حدیث جو اس نے کرامات اولیاء میں بیان کی ہے، اور دیلمی نے مسند فردوس میں۔ ابدال چالیس مرد اور عورتیں ہیں جب ان میں سے کوئی مرد مر جاتا ہے، اللہ اس کی جگہ دوسرا مرد بدل دیتا ہے اور جب عورت مر جاتی ہے، تو اس کی جگہ دوسری عورت بدل دیتا ہے۔

ابن ابی الدنیا۔ میری امت کے ابدالوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ کسی چیز پر لعن طعن نہیں کرتے۔

ابن حبان۔ تیس اور اسی مردوں سے زمین خالی نہ رہے گی جو مثل ابراہیم خلیل اللہ کے ہوں گے، جن کے سبب سے تمہاری فریادرسی ہوگی، ان کے سبب سے تمہیں رزق دیا جائے گا اور بارش برسائی جائیگی۔

بیہقی۔ میری امت کے ابدال اپنے اعمال کے سبب سے جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ بلکہ اللہ کی رحمت سے نفسوں کی سخاوت سے اور سینوں کی سلامتی سے داخل ہوں گے۔

ابن عدی۔ ابدال چالیس ہیں، بائیس شام میں ہوتے ہیں اور اٹھارہ عراق میں۔ ان میں سے جو فوت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دیتا ہے، اور جب اللہ کا حکم آجائے گا سب فوت ہو جائیں گے، اس وقت قیامت آئے گی۔

حدیث طبرانی چالیس مرد جو مثل خلیل اللہ کے ہیں، ان سے زمین کبھی خالی نہ ہوگی، ان کی وجہ سے تمہیں بارش دی جائیگی۔ اور تمہیں مدد دی جائے گی، جب ان میں سے کوئی فوت ہوا اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔

حدیث ابی نعیم۔ میری امت میں چالیس مرد ہمیشہ ایسے رہیں گے جن کے قلوب، قلب ابراہیم علیہ السلام کی مانند ہوں گے۔ ان کی وجہ سے اہل زمین سے تکالیف دور کی جائیں گی۔ ان کو ابدال کہا جاتا ہے۔
(دلائل السلوک ، علامہ اللہ یار خان دیوبندی)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مکمل تحریر >>

ابدال کا وجود، حدیث مبارکہ کی روشنی میں ۔ علامہ اللہ یار خان دیوبندی کی زبانی

ابدال کا وجود، حدیث مبارکہ کی روشنی میں ۔ علامہ اللہ یار خان دیوبندی کی زبانی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ابو نعیم نے حلیہ میں ذکر کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں ہر زمانہ میں پانچسو خیار ہوں گے اور چالیس ابدال، ان دونوں میں کمی نہ ہوگی، ان میں سے جو فوت ہوگا، ان پانچسو میں سے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے شخص کو ان چالیس میں داخل کردے گا۔

امام احمد کی حدیث۔ اس امت میں ابدال تیس ہوں گے جن کے قلوب حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے قلوب پر ہوں گے، ان میں سے جو فوت ہوگا اللہ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔

حدیث طبرانی۔ میری امت میں تیس ابدال ہوں گے، ان کے سبب سے زمین قائم رہے گی۔ ان کی وجہ سے بارش کی جائے گی، اور ان کی وجہ سے مدد دی جائے گی۔

ابدال شام میں ہوتے ہیں اور وہ چالیس مرد ہیں، ان کے سبب سے تمہیں بارش دی جاتی ہے، اور ان کی وجہ سے تمہیں دشمنوں پر فتح دی جاتی ہے، اور ان کے سبب سے اہل زمین سے تکالیف اور مصائب دور کئے جاتے ہیں۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ابدال شام میں ہیں اور وہ چالیس مرد ہیں، جو ان میں سے فوت ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دیتا ہے، ان کے سبب سے تمہیں بارش دی جاتی ہے اور دشمنوں کے مقابلہ میں امداددی جاتی ہے اور اہل شام سے ان کے سبب سے عذاب دور کیا جاتا ہے۔

خلال کی حدیث جو اس نے کرامات اولیاء میں بیان کی ہے، اور دیلمی نے مسند فردوس میں۔ ابدال چالیس مرد اور عورتیں ہیں جب ان میں سے کوئی مرد مر جاتا ہے، اللہ اس کی جگہ دوسرا مرد بدل دیتا ہے اور جب عورت مر جاتی ہے، تو اس کی جگہ دوسری عورت بدل دیتا ہے۔

ابن ابی الدنیا۔ میری امت کے ابدالوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ کسی چیز پر لعن طعن نہیں کرتے۔

ابن حبان۔ تیس اور اسی مردوں سے زمین خالی نہ رہے گی جو مثل ابراہیم خلیل اللہ کے ہوں گے، جن کے سبب سے تمہاری فریادرسی ہوگی، ان کے سبب سے تمہیں رزق دیا جائے گا اور بارش برسائی جائیگی۔

بیہقی۔ میری امت کے ابدال اپنے اعمال کے سبب سے جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ بلکہ اللہ کی رحمت سے نفسوں کی سخاوت سے اور سینوں کی سلامتی سے داخل ہوں گے۔

ابن عدی۔ ابدال چالیس ہیں، بائیس شام میں ہوتے ہیں اور اٹھارہ عراق میں۔ ان میں سے جو فوت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دیتا ہے، اور جب اللہ کا حکم آجائے گا سب فوت ہو جائیں گے، اس وقت قیامت آئے گی۔

حدیث طبرانی چالیس مرد جو مثل خلیل اللہ کے ہیں، ان سے زمین کبھی خالی نہ ہوگی، ان کی وجہ سے تمہیں بارش دی جائیگی۔ اور تمہیں مدد دی جائے گی، جب ان میں سے کوئی فوت ہوا اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔

حدیث ابی نعیم۔ میری امت میں چالیس مرد ہمیشہ ایسے رہیں گے جن کے قلوب، قلب ابراہیم علیہ السلام کی مانند ہوں گے۔ ان کی وجہ سے اہل زمین سے تکالیف دور کی جائیں گی۔ ان کو ابدال کہا جاتا ہے۔
(دلائل السلوک ، علامہ اللہ یار خان دیوبندی)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مکمل تحریر >>

دیابنہ اور وہابیہ سے کچھ سوال ہمارے بھی ہیں اب تک جواب کے منتظر ؟

دیابنہ اور وہابیہ سے کچھ سوال ہمارے بھی ہیں اب تک جواب کے منتظر ؟

مکمل تحریر >>

قربانی تین (3) دن ہے اور غیر مقلد وہابی حضرات سے ثبوت ایام قربانی تین دن ہیں

قربانی تین (3) دن ہے اور غیر مقلد وہابی حضرات سے ثبوت ایام قربانی تین دن ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قربانی تین دن متعین ہونے کی نسبت کنز العمال میں روایت موجود ہے : عن علی انہ کا ن یقول ایام النحرثلاثۃ وافضلھن اولھن۔ ابن ابی الدنیا۔ ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ آپ فرمایاکرتے تھے: قربانی کے دن تین ہیں اور ان میں افضل پہلا دن ہے۔ (کنزالعمال ،کتاب الحج،باب فی واجبات الحج ومندوباتہ، حدیث نمبر 12676) مذکورہ حدیث پاک کی بنا پر فقہاء احناف نے فرمایا ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں:10، 11،12 ذی الحجہ، قربانی کاوقت 10 ذی الحجہ نماز عیدالاضحی کے بعد سے 12 ذی الحجہ کی غروب آفتاب تک ہے۔ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : (ذبح حیوان مخصوص بنیۃ القربۃ فی وقت مخصوص۔ ۔ ۔ ) (تنویر الابصار مع الدرالمختار ،ج5، ص219)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات…فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِ وَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ
(تفسیر ابن ابی حاتم رازی ج6 ص261)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:ایام معلومات۔چنانچہ ایام معلوم یوم نحر (دسویں ذی الحجہ)اور اس کے بعد دو دن (11،12ذی الحجہ) ہیں۔

عَنْ عَلِیٍّ اَلنَّحْرُ ثَلَاثَۃُ اَیَّامٍ
(احکام القرآن امام طحاوی ج2ص205)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’کہ قربانی تین دن ہے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ۔
(سنن کبریٰ بیہقی ج9ص297باب من قال الاضحی یوم النحر)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’قربانی(دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے ۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قربانی کے تین دن کے متعلق غیر مقلدین سے ثبوت

حافظ زبیر علی زئی(غیر مقلد) لکھتے ہیں:قول راجح میں قربانی تین ہیں۔
( مقالات علی زئی ج2 ص219 الحدیث44 ص6تا11)
نیز لکھتے ہیں: ’’سیدنا علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ )اور جمہور صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم ) کا یہی قول ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں ایک عید الاضحی اور دو دن بعد میں تو ہماری تحقیق میں راجح ہے اور امام مالک (رحمہ اللہ) نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔(فتاوی علی زئی ج2 ص181)

علامہ عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں:تین دن قربانی کے قائلین کا مذہب راجح اور قرین صواب ہے۔(قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص 137)

عید کے چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں

علامہ عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں : بعض لوگ قصداً قربانی میں تاخیر کر کے تیرہ ذوالحجہ کو ذبح کرتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دن بھی ایام قربانی میں شامل ہے اور اس دن لوگوں نے قربانی ترک کر دی ہے لہٰذا ہم یہ عمل سنت متروکہ کہ احیاء کی خاطر کرتے ہیں لیکن چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت ہی نہیں تو متروکہ سنت کیسے ہوئی ؟بلکہ ایام قربانی تین دن (10،11،12 ذوالحجہ) ہیں ، تیرہ ذوالحجہ کا دن ایام قربانی میں شامل ہی نہیں۔
( قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص141)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مکمل تحریر >>

ایام قربانی تین دن ہیں

ایام قربانی تین دن ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قربانی تین دن متعین ہونے کی نسبت کنز العمال میں روایت موجود ہے : عن علی انہ کا ن یقول ایام النحرثلاثۃ وافضلھن اولھن۔ ابن ابی الدنیا۔ ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ آپ فرمایاکرتے تھے: قربانی کے دن تین ہیں اور ان میں افضل پہلا دن ہے۔ (کنزالعمال ،کتاب الحج،باب فی واجبات الحج ومندوباتہ، حدیث نمبر 12676) مذکورہ حدیث پاک کی بنا پر فقہاء احناف نے فرمایا ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں:10، 11،12 ذی الحجہ، قربانی کاوقت 10 ذی الحجہ نماز عیدالاضحی کے بعد سے 12 ذی الحجہ کی غروب آفتاب تک ہے۔ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : (ذبح حیوان مخصوص بنیۃ القربۃ فی وقت مخصوص۔ ۔ ۔ ) (تنویر الابصار مع الدرالمختار ،ج5، ص219)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات…فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِ وَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ
(تفسیر ابن ابی حاتم رازی ج6 ص261)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:ایام معلومات۔چنانچہ ایام معلوم یوم نحر (دسویں ذی الحجہ)اور اس کے بعد دو دن (11،12ذی الحجہ) ہیں۔

عَنْ عَلِیٍّ اَلنَّحْرُ ثَلَاثَۃُ اَیَّامٍ
(احکام القرآن امام طحاوی ج2ص205)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’کہ قربانی تین دن ہے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ۔
(سنن کبریٰ بیہقی ج9ص297باب من قال الاضحی یوم النحر)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’قربانی(دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے ۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قربانی کے تین دن کے متعلق غیر مقلدین سے ثبوت

حافظ زبیر علی زئی(غیر مقلد) لکھتے ہیں:قول راجح میں قربانی تین ہیں۔
( مقالات علی زئی ج2 ص219 الحدیث44 ص6تا11)
نیز لکھتے ہیں: ’’سیدنا علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ )اور جمہور صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم ) کا یہی قول ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں ایک عید الاضحی اور دو دن بعد میں تو ہماری تحقیق میں راجح ہے اور امام مالک (رحمہ اللہ) نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔(فتاوی علی زئی ج2 ص181)

علامہ عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں:تین دن قربانی کے قائلین کا مذہب راجح اور قرین صواب ہے۔(قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص 137)

عید کے چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں

علامہ عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں : بعض لوگ قصداً قربانی میں تاخیر کر کے تیرہ ذوالحجہ کو ذبح کرتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دن بھی ایام قربانی میں شامل ہے اور اس دن لوگوں نے قربانی ترک کر دی ہے لہٰذا ہم یہ عمل سنت متروکہ کہ احیاء کی خاطر کرتے ہیں لیکن چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت ہی نہیں تو متروکہ سنت کیسے ہوئی ؟بلکہ ایام قربانی تین دن (10،11،12 ذوالحجہ) ہیں ، تیرہ ذوالحجہ کا دن ایام قربانی میں شامل ہی نہیں۔
( قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص141)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مکمل تحریر >>

مسائل قربانی سوال و جواب

مسائل قربانی سوال و جواب

مکمل تحریر >>

غیر مقلدین نام نہاد اہلحدیثوں کا اپنے ہی اکابرین کے موقف سے اختلاف و بغاوت

غیر مقلدین نام نہاد اہلحدیثوں کا اپنے ہی اکابرین کے موقف سے اختلاف و بغاوت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غیر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں : پچیس برس کے تجربہ سے ہم کویہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جولوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کوسلام کربیٹھتے ہیں ۔(اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)
پھرآپ یہ بھی لکھتے ہیں : اگروہ اہلِ حدیث میں جو بے علم یاکم علم ہوکر ترکِ تقلید کے مدعی ہیں وہ اِن نتائج سے ڈریں، اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوئے جاتے ہیں ۔ (اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)

علامہ سیدعبد الحیی صاحب نزہتہ الخواطر کی آٹھویں جلد میں غہر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی کے ذکر میں لکھتے ہیں : وشدد النکیر علی مقلدی الائمۃ الاربعۃ لاسیما الاحناف وتعصب فی ذلک تعصباً غیرمحمود فثارت بہ الفتن وازدادت المخالفۃ بین الاحناف واھل الحدیث ورجعت المناظرہ الی المکابرۃ والمجادلۃ والمقاتلۃ لماکبرت سنہ ورای ان ھذہ المنازعۃ کانت سبباً لوھن الاسلام ورجع المسلمون الیٰ غایۃ من النکبۃ والمذلۃ رجع الی ماھواصلح لھم فی ھذہ الحالۃــــــ واماماکان علیہ من المعتقد والعمل فھو علی ماقال فی بعض الرسائل ان معتقدہ معتقد السلف الصالح مماورد بہ الاخبار وجاءفی صحاج الاخبار ولایخرج مماعلیہ اھل السنۃ والجماعۃ ومذہبہ فی الفروع مذہب اہل الحدیث التمسکین بظواھر النصوص ۔(تقدمہ علی الاجوبۃ الفاضلۃ لاسئلۃ العشرۃ الکاملۃ للشیخ عبدالفتاح ابی غذ:۸، مطبوع:بحلب)
ترجمہ: مولانا بٹالوی نے مقلدین ائمہ اربعہ خصوصاً احناف کے خلاف شدت اختیار کی اور اس میں ایسے تعصب سے چلے کہ اسے اچھا نہیں کہاجاسکتا؛ پس اس سے بھڑک اُٹھے اور احناف اور فرقہ اہلِ حدیث کے مابین مخالفت زیادہ ہوگئی مناظرے، مکابرہ، مجادلہ؛ بلکہ مقاتلہ تک پہنچے؛ پھرجب آپ بڑی عمرکو پہنچے اور آپ نے دیکھا کہ مقلدین سے یہ کھچاؤ ضعف اسلام کا سبب ہوگیا ہے اور مسلمان رسوائی اور بدبختی کے گڑھے میں جارہے ہیں، آپ پھر اس طرف لوٹے جومسلمانوں کے لئے اس حالت میں بہتر تھاــــــہاں جہاں تک آپ کے اعتقاد اور عمل کا تعلق ہے وہ اس پر تھے جیسا کہ آپ نے اپنے بعض رسالوں میں کہا ہے کہ ان کا اعتقاد سلف صالحین کا سا ہے جو اخبار اور صحیح احادیث میں آیا ہے اور وہ اس حد سے نہیں نکلیں گے جواہلِ السنۃ والجماعت کی راہ ہے، رہیں فروعات تواس میں وہ ان اہلِ حدیث کے طریقے پر رہیں گے جونصوص کے ظواہر سے تمسک کرتے ہیں۔(ترتیب و پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
علامہ محمدحسین صاحب بٹالوی غیر مقلد کی فکری کروٹ پرپوری جماعت اہلِ حدیث کی روش بدل جانی چاہیے تھی؛ لیکن افسوس کہ وہ لفظ حنفی اور شافعی وغیرہ سے اسی طرح سیخ پارہے کہ کسی درجہ میں وہ فقہ کے قریب آنے کے لئے تیار نہ ہوئے، یہ شیخ الکل غیر مقلدین میاں نذیر حسین صاحب دہلوی اور محمدحسین بٹالوی کے مسلک کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت کی ایک لہر تھی جو جماعت کے بیشتر علماء کولے ڈوبی، بہت کم تھے جومعتدل مزاج رہے اور اہلِ السنۃ والجماعت کے دائرہ کے اندر رہے، غالباً سنہ۱۳۲۶ھ کا واقعہ ہے کہ جماعت اہلِ حدیث کے اعیان وارکان  لاہور میں جمع ہوئے اور انجمن اہلِ حدیث کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے صدر مولانا محمدحسین بٹالوی قرار پائے، مولانا بٹالوی مرزا غلام احمد قادیانی  کاحال دیکھ کر ضرور سمجھتے تھے کہ غیرمقلدین فقہ اور مقلدین سے جونفرت بڑھا رہے ہیں، اس سے اندیشہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت یہ لوگ (غیرمقلدین) پورے اسلام سے ہی منحرف نہ ہوجائیں، انہوں نے اہلِ حدیث کے ساتھ اپنے کوحنفی کہنے کی بھی راہ نکالی ۔

علامہ محمدحسین بٹالوی غیر مقلد لکھتے ہیں : لاہور میں ایک مجلس اہلحدیث کے نام سے نامزد ہوکر قائم ہوئی ہے (یہ مجلس نامزد ہوکر قائم ہوئی تھی حکومت برطانیہ سے یہ نام اہلِ حدیث انہیں الاٹ کیا گیا ) صدر ہونے کی عزت اس ناچیز کوبخشی گئی ہے، اس میں یہ امربحث میں آیا تھا کہ اہلِ حدیث (جس کی طرف یہ انجمن منسوب ہوئی ہے) کی کیا تعریف ہے اور اہلِ حدیث سے کون شخص موسوم ہوسکتا ہے (جواس انجمن کے ارکان اور مجلس منتظمہ میں داخل ہونے کا استحقاق رکھتا ہو) اس کا تصفیہ رسالہ اشاعۃ السنۃ، جلد:۲۰کے صفحہ نمبر۱۵۹ (جواہلِ حدیث کی قوم کا اور گورنمنٹ میںمہتمم ایڈوکیٹ Representative ریپریزنٹیٹیو ہے) کے اس بیان سے ہوگیا کہ اہلِ حدیث وہ ہے جواپنا دستور العمل والاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کوبنادے (احادیث کے ساتھ آثار سلفیہ کوماننے کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کے ارشادات کوبھی اپنے لیے سمجھے) اور جب اس کے نزدیک ثابت ومحقق ہوجائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یااس سے قوی پایا نہیں جاتا تووہ ان احادیث وآثار پرعمل کرنے کومستعد ہوجاوے اور اس عمل سے اس کوکسی امام یامجتہدکا قول بلادلیل مانع نہ ہو ۔ ازآنجا کہ اس تعریف کی رُو سے بے تعصب ومنصف مزاج مقلدین مذاہب اربعہ حنفیہ وغیرہ جوعمل بالحدیث کوجائزرکھتے اور سعادت سمجھتے، تقلید مذہب ان کواس عمل بالحدیث سے مانع نہ ہوتی، داخل ہوسکتے ہیں، نظر برآں اس انجمن کے صدر خاکسار کی یہ رائے قرار پائی کہ اس انجمن کے نام میں ایسی تعمیم وتوسیع ہوجانی چاہیے کہ اس کا نام سنتے ہی وہ مقلدین جوعمل بالحدیث کوسعادت سمجھتے ہیں داخل سمجھے جائیں بناءً علیہ اس کے تجویز یہ ہوئی کہ لفظ انجمن اہلِ حدیث کے ساتھ بریکٹ میں حنفیہ وغیرہ بڑھادیا جائے۔(ماہنامہ الہدی، بابت ماہ ذیقعدہ، سنہ۱۳۲۷ھ، باہتمام مولوی کریم بخش، مہتمم ومالک اسلامیہ اسٹیم پریس، لاہور)
پھر محمدحسین صاحب بٹالوی کی اپنی رائے ملاحظہ کیجئے : صدرانجمن خاکسار چونکہ باوجود اہلِ حدیث ہونے کے حنفی بھی کہلانا جائز رکھتا تھا؛ لہٰذا اس امر کا اظہار اپنے ماہوار رسالہ  اشاعۃ السنۃ اورد"سراج الاخبارد" کے ذریعہ کردیا، یہ امرہمارے رُوحانی فرزند (مولانا ثناء اللہ امرتسری جوان دنوں پرچہ اہلِ حدیث کے ایڈیٹر تھے) نوجوانوں کوجوصرف اہلِ حدیث کہلاتے ہیں اور وہ حنفی وغیرہ کہلانا پسند نہیں کرتے ناگوار گزرا اور انہوں نے خاکسار کے اس اظہار کے خلاف اپنے اخبار اہلِ حدیث میں یہ نوٹ شائع کرادیا....الخ ۔

علامہ ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا : کسی کا ہو رہے کوئی نبی کے ہو رہیں گے ہم ۔

مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے اس کے جواب میں لکھا : نبی کے ہیں سبھی حنفی نہ مرزائی نہ چکڑالی نہ معتزلی جوجاحظ کی کرتے ہیں شاگردی ۔

لفظ اہلِ حدیث ماضی میں ایک علمی شان رکھتا تھا، فرقہ اہلِ حدیث میں جب جاہل بھی اہلِ حدیث کہلانے لگے توپوری کی پوری جماعت نت نئے اُٹھنے والے فتنوں کا دروازہ بن گئی، مرزا غلام احمد کے پہلے جانشین حکیم نورالدین بھی پہلے اہلِ حدیث بنے تھے (تاریخ احمدیت، جلد چہارم، صفحہ:۶۹،۷۰، حرمین سے واپسی پر نورالدین نے وہابیت اختیار کی اور ترکِ تقلید پروعظ کیئے اور عدم جوازِ تقلید پرکتابیں تصنیف کیں، بھیرہ میں ہیجانِ عظیم پیدا ہوگیا ـ چودھری ظفراللہ خان قادیانی بھی اپنے دادا چودھری سکندرخان کے بارے میں لکھتے ہیں: د"جہاں تک مجھے معلوم ہوسکا ہے وہ اہلِ حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھےد" تحدیثِ نعمت:۳) پھرمرزائی بنے۔

قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری غیر مقلد کی رائے : ان خیالات سے متأثر ہوکر جماعت اہلِ حدیث کے مقتدر عالم قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری نے اپنی جماعت کوجھنجھوڑا اور کہا : اس زمانہ کے جھوٹے اہلِ حدیث مبتدعین، مخالفین، سلفِ صالحین جوحقیقت ماجاء بہ الرسول سے جاہل ہیں وہ اس صفت میں وارث اور خلیفہ ہوئے شیعہ وروافض کے ـ جس طرح شیعہ پہلے زمانوں میں باب ودہلیز کفرونفاق کے تھے اور مدخل ملاحدہ اور زنادقہ کا تھے؛ اسی طرح یہ جاہل، بدعتی اہلِ حدیث اس زمانہ میں باب اور دہلیز اور مدخل ہیں ملاحدہ اور زنادقہ منافقین کے بعینہ مثل اہل التشیع کے"۔(کتاب التوحید والسنۃ فی رد اہل الالحاد والبدعۃ:۲۶۲)(ترتیب و پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس عبارت سے واضح ہے کہ اَن پڑھ جاہلوں کا اہلِ حدیث کہلانا کس طرح آئیندہ دینی فتنوں کی اساس بنتا رہا ہے اور یہ بھی عیاں ہے کہ اس جماعت غیرمقلدین کے اعتدال پسند علماء کتنی دردمندی سے ترکِ تقلید کے کڑوے پھل چکھتے رہے ہیں اور ان کا ذائقہ بھی ساتھ ساتھ بتاتے رہے ہیں، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے اچھا کیا جواپے آپ کواہلِ حدیث حنفی کہنے لگے، یہ کسی نہ کسی دائرہ میں فقہ کی طرف لوٹنے کا ایک قدم تھا، اس پر دیگرعلماء فرقہ ہذا بہت سیخ پا ہوئے؛ تاہم مرزا غلام احمد کے انجام کا یہ ایک طبعی اثر تھا، جواس کے پرانے دوست غیر مقلد عالم محمدحسین صاحب پر اس تبدیلی کی شکل میں ظاہر ہوا، مشہور غیرمقلد عالم مولانا عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں : اربابِ فہم وذکاء اصحاب صدق وصفا کی خدمت میں عرض ہے کہ کچھ عرصہ سے جناب مولوی ابوسعید محمدحسین بٹالوی نے اپنے آپ کواہلِ حدیث حنفی لکھا ہے، آپ کے اس لقب پرمولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اخبار اہلِ حدیث نے ایک نوٹ لکھا ہے ۔ (الانصاف رفع الاختلاف:۱، مصنفہ مولانا عبدالحق، مطبوعہ سنہ۱۹۱۰ء رفاہِ عام اسٹیم پریس، لاہور)
اس سے واضح ہے کہ  محمدحسین بٹالوی غیر مقلد میں یہ تبدیلی بعد میں آئی، اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی دینی تباہی آنکھوں سے دیکھی تھی ۔

علامہ وحیدالزماں غیر مقلد کی رائے : غیرمقلدین کا گروہ جواپنے تئیں اہلِ حدیث کہلاتے ہیں، اُنھوں نے ایسی آزادی اختیار کی ہے کہ مسائل اجماعی کی پرواہ نہیں کرتے نہ سلفِ صالحین اور صحابہؓ اور تابعین کی، قرآن کی تفسیر صرف لغت سے  اپنی من مانی کرلیتے ہیں، حدیث شریف میں جوتفسیر آچکی ہے اس کوبھی نہیں مانتے۔(وحیداللغات ماوہشعب، حیات وحیدالزماں:۱۰۲)

علامہ عبدالعزیز سیکرٹری جمعیت مرکزیہ اہلِ حدیث ہند : اہلِ حدیث جواپنے ایمانیات وعقائد کی پختگی میں ضرب المثل تھے معتزلہ اور متکلمین کی شریعت کودوبارہ زندہ کرنے والے حضرات ہم میں پیدا ہوگئے او راُن کی حوصلہ افزائی کی گئی نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج جمعیت اہلِ حدیث ایک جسم بلاروح رہ گئی؛ بلکہ جسم کہتے ہوئے بھی قلم رُکتا ہے، آج ہم میں تفرق وتشتت کی یہ حالت ہے کہ شاید ہی کسی جماعت میں اس قدر اختلاف وافتراق ہو ۔ (فیصلہ مکہ:۳،۲)

ترکِ تقلید کا یہ نتیجہ ان حضرات کے اپنے قلم سے آپ کے سامنے ہے، کاش کہ یہ حضرات مولانا محمدحسین بٹالوی کی بات مان لیتے، علامہ ثناء اللہ صاحب امرتسری غیر مقلد نے اس وقت تواپنے استاد محمد حسین بٹالوی غیر مقلد کی مخالفت کی؛ لیکن ترکِ فقہ کے نتیجہ میں جب ترکِ حدیث کی اُٹھتی ہوئی لہردیکھی تواُن کے ذہن نے بھی پھرپلٹا کھایا، مرزا غلام احمد کے ترکِ تقلید نے علامہ محمدحسین بٹالوی غیر مقلد میں فکری تبدیلی پیدا کی تومولوی عبداللہ چکڑالوی کی تحریک ترکِ حدیث نے علامہ ثناء اللہ صاحب امرتسری غیر مقلد کوسوچنے پرمجبور کیا کہ ترکِ حدیث کی ان لہروں کا پسِ منظرکیا ہے؟علامہ ثناء اللہ صاحب امرتسری، مولوی عبداللہ چکڑالوی امام مسجد چینیاں والی لاہور کے بارے میں رقمطراز ہیں : جب انہوں نے دیکھا کہ اب لوگ فقہ کی بندش سے تقریباً آزاد ہوگئے ہیں توانہوں نے احادیث پرنکتہ چینی شروع کردی اور جب کچھ دنوں میں یہ مرحلہ بھی طے ہوجائے گا تووہ جمع وتدوینِ قرآن میں رخنے نکالنا شروع کردیں گے اور جب تک لوگوں کواس عیاری کا پتہ نہ چلے گا وہ عوام اور نئے تعلیم یافتہ طبقے کے ودماغ کواتنا مسموم کرچکے ہوں گے کہ ان کا تدارک کسی سے نہ ہوسکے گا ۔ (فتاویٰ ثنائیہ:۱/۲۸۰)(ترتیب و پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مکمل تحریر >>