Pages

Saturday 29 July 2017

اگر شوہر بیوی کو تین طلاق دے دے تو جب تک بیوی دوسرا نکاح نہ کرے اس کےلیئے حلال نہیں ،(صحیح بخاری کتاب الطلاق حدیث نمبر 242، 243 )مترجم

اگر شوہر بیوی کو تین طلاق دے دے تو جب تک بیوی دوسرا نکاح نہ کرے اس کےلیئے حلال نہیں ،(صحیح بخاری کتاب الطلاق حدیث نمبر 242، 243 )مترجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پر اجماع امت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قَدْ قَالَ الْاِمَامُ أَبُوْبَکْرِ ابْنُ الْمُنْذِرِ النِّیْشَابُوْرِیُّ: وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَاطَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَا جَائَ بِہ حَدِیْثُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:أَوْ اَجْمَعُوْاعَلٰی أَنَّہُ اِنْ قَالَ لَھَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً اِلَّا ثَلاَثاً اَنَّھَا اُطْلِقَ ثَلاَ ثًا۔(کتاب الاجماع لابن المنذر ص92)
ترجمہ: امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا :’’فقہاء اورمحدثین امت نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی۔ ہاں! جب وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تواب حلال ہو جاتی ہے کیونکہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وارد ہوئی ہے ۔ ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ فقہاء ومحدثین کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو کہا اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً اِلَّا ثَلَاثاً (تجھے تین طلاقیں ہیں مگر تین طلاق) تو تین ہی واقع ہوں گی۔‘‘

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ أَبُوْجَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّ فِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ…فَخَاطَبَ عُمَرُ بِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْعَلِمُوْامَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِرٌوَلَمْ یَدْفَعْہُ دَافِعٌ فَکَاَنَّ ذٰلِکَ اَکْبَرُ الْحُجَّۃِ فِیْ نَسْخٍ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ لِاَنَّہُ لَمَّاکَانَ فِعْلُ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیْعاً فِعْلاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ کَانَ کَذٰلِکَ اَیْضاً اِجْمَاعُھُمْ عَلَی الْقَوْلِ اِجْمَاعاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ۔(سنن الطحاوی ج2ص34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا،ونحوہ فی مسلم ج1 ص477 )؛
ترجمہ: محدث کبیر امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اورتینوں کو طلاق کے وقت واقع بھی کردیا تو اس سے لازم ہو جائیں گی (دلیل اس کی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اس چیز کے متعلق خطاب فرمایا کہ تین طلاقیں تین ہی ہوں گی اوران لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بھی موجود تھے جو حضور علیہ السلام کے عہد مبارک میں اس معاملہ سے بخوبی واقف تھے لیکن کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا انکار نہ کیا اورنہ ہی کسی نے اسے رد کیا۔ تو یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ معاملہ رہا، منسوخ ہے۔ اس لیے کہ جس طرح تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا فعل اتنی قوت رکھتا ہے کہ اس سے دلیل پکڑنا واجب ہے اسی طرح حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کاکسی بات پر اجماع کرنا بھی حجت ہے (جیساکہ اس مسئلہ طلاق میں ہے ).(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُ الْقَاضِیُّ ثَنَائُ اللّٰہِ الْعُثْمَانِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ{أَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ}لَاَنَّ قَوْلَہُ أَلطَّلَاَقُ عَلٰی ھٰذَا التَّاوِیْلِ یُشْمِلُ الطَّلَقَاتِ الثَّلاَثَ اَیْضاً…لٰکِنَّھُمْ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌ بِالْاِجْمَاعِ ۔
(تفسیر مظہری ج2ص300)
ترجمہ: مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ آیت {اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ} کی ت فسیر میں فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اَلطَّلَاقُ‘‘اس تفسیر کے مطابق (جو پہلے ذکر کی ہے) تین طلاقوں کو بھی شامل ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ فقہاء ومحدثین نے اس بات پر اجماع کیاہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کوکہا’’اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً ‘‘(تجھے تین طلاقیں ہیں) تو بالاجماع تین ہی واقع ہوجائیں گی۔

ایک ساتھ تین طلاق دینے کا حکم

کیا فرماتے علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ : میں نے اپنی بیوی کو ۱۲/مارچ ۲۰۰۹ء کو تین طلاقیں دیں اور کچھ دن بعد عدالت سے بھی طلاق کے کاغذات لئے، جس پر میری طرف سے تحریری طلاق درج تھی، طلاق کے بعد میری بیوی اپنے والدین کے گھر چلی گئی، انہوں نے گھر سے نکالا تو وہ نانی ، نانا کے ہاں گئی، اس کے نانا نے لڑکی کو اور مجھے محمدی مسجد لے گئے، جہاں سے انہوں فتویٰ دیا کہ یہ طلاق رجعی ہے اورہمارا دوبارہ تجدید نکاح کرایا۔ اب کیا ہمارا یہ نکاح تھا یا نہیں؟

الجواب بعون الوہاب : واضح رہے کہ از روئے قرآن وحدیث وجمہور صحابہ کرام، تابعین وتبع تابعین، ائمہ مجتہدین بالخصوص چاروں ائمہ کرام امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل علیہم الرّحمہ ان تمام حضرات کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ”الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان“ (بقرہ:۲۲۹)

اور اگلی آیت میں ہے : فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ…“ (بقرہ:۲۳۰)
یعنی دو طلاق دینے تک تو مرد کو رجوع کا اختیار ہے، لیکن جب تیسری طلاق بھی دیدی تو اب مرد کے لئے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا، عورت اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے۔

چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی فرماتے ہیں:”ترجم البخاری علی ہذہ الایة باب من اجاز الطلاق الثلاث بقولہ تعالیٰ الطلاق مرتان، فامساک بمعروف او تسریح باحسان، وہذا اشارة الی ان ہذہ التعدید انما ہو فسخة لہم فمن ضیق علی نفسہ لزمہ قال علمائنا: واتفق ائمة الفتویٰ علی لزوم ایقاع الطلاق الثلاث فی کلمة واحدة وہو قول جمہور السلف… المشہور عن الحجاج بن ارطاة وجمہور السلف والائمة انہ لازم واقع ثلاثاً ولافرق بین ان یوقع ثلاثًا مجتمعة فی کلمة او متفرقة فی کلمات…“ (الجامع لاحکام القرآن ج:۳/۱۲۹)

اسی طرح احکام القرآن للجصاص میں ہے:”قال ابوبکر: قولہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان الایة: یدل علی وقوع الثلاث معاً مع کونہ منہیاً عنہا…“ (ج:۱/۴۶۷)

اسی طرح حدیث میں ہے:حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، " أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ ، فَطَلَّقَ ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ ؟ قَالَ : لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ " .
محمد بن بشار، یحیی ، عبیداللہ ، قاسم، بن محمد، حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو "تین طلاق"  دیدیں تو اس عورت نے (دوسرا) نکاح کرلیا پھر اس نے (صحبت کئے بغیر) بھی طلاق دے دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا کہ کیا وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں جب تک کہ اس کا شوہر اس سے لطف اندوز نہ ہو لے جس طرح پہلا شوہر لطف اندوز ہوا تھا۔ (صحيح البخاري»كِتَاب الطَّلَاقِ» بَاب مَنْ أَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ,رقم الحديث:4885(5261))اس حدیث میں ”طلق امراتہ ثلاثًا“ کا جملہ اس کا مقتضی ہے کہ تین طلاق اکھٹی اور دفعة دی گئیں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے تین طلاقیں اکٹھی واقع ہوجانے پر استدلال ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:”وہی بایقاع الثلاث اعم من ان تکون مجمعةً او متفرقةً“(فتح الباری ج:۹/۳۶۲ ط ادارة بحوث العلمیة)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔