Pages

Friday 14 July 2017

سواد اعظم۔اہل سنت والجماعت کا فکری و عصری المیہ

سواد اعظم۔اہل سنت والجماعت کا فکری و عصری المیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت الشاہ احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ جماعت اہل سنت کے ایسے عالم دین گزرے ہیں جن کے وسعت علم و مہارت کی گواہی خود مخالفین دیتے ہیں۔۔آپ علم و تقویٰ اور عشق رسولﷺ کا ایسا مرکب تھے  کہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب جیسے عالم دین جن کی کفریہ عبارات پر اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ تکفیرکرچکے تھے فرماتے ہیں:
"میرے دل میں احمد رضا کے لئے بے حد احترام ہے۔ وہ ہمیں کافر کہتا ہے لیکن عشق رسول کی بناء پر کہتا ہے کسی اور غرض سے تو نہیں کہتا۔ "  (ہفت روزہ چٹان لاہور 23، اپریل 1962ء)
لیکن ہماری عوام اہلسنت نے اعلیٰ حضرت ؒ کو اپنی نفرتوں اور عداوتوں کی تبلیغ کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا۔۔وہ فتاویٰ جو اعلی حضرتؒ نے حد درجہ احتیاط، عرف عام اور حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر خالص نیک نیتی سے دیئے تھے انہیں تکفیری تلوار بناکر مسلمان نہیں اسلام کی جڑیں کاٹی گئیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان فتاویٰ کی تشریح میں بھی کوئی سنی عالم کلام کرے تو اسے جھٹ سے اٹھا کر سنیت سے الگ کردیا جاتا ہے  گویا اعلیٰ حضرتؒ کے فتاویٰ ان نصوص کا درجہ حاصل کرچکے ہیں جنہیں ہم کلام الہیٰ  کے سواکہیں نہیں پاتے۔امت کے عام افراد تو کجاء اپنے سروں پر دستار فضیلت بندھوا کر نکلنے والے علما نے بھی یہی سمجھ رکھا ہے کہ دین میں غوروفکر اور فہم شریعت کے جملہ حقوق بحق اکابر اور قدما محفوظ تھے، یا پھر موجودہ عہد میں یہ گراں بار منصب   ہمارے دو تین علما کا ہے۔ ۔لیکن یہ تکفیری مے تو اس قدر چڑھی ہے کہ  اب یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ آج اعلیٰ حضرت ؒ خود بھی آکر ان لوگوں کو اس التزامی کفر کے اطلاق کی تشریح کرتے ہوئے پوری جماعت دیوبندکو کافر گستاخ قرار دینے میں پس و پیش سے کام لیں تو ہمارے لوگ انہیں بھی جماعت اہل سنت سے خارج قرار دینے میں ذرا بھر توقف نہیں کریں گے۔ العیاذباللہ
اہل سنت والجماعت کے فکری زوال سے قبل میں ضروری سمجھتا  ہوں ان عوامل کو دیکھ لیا جائے جو اس المیہ کی بنیاد ہیں۔۔سب  سے پہلے اعلیٰ حضرتؒ کے فتاویٰ میں علمائے دیوبند کی تکفیر التزامی  پر کلام کرلیا جائے، اس کے لیے ضروری ہے پہلے  کفر لزومی و التزامی کو سمجھ لیا جائے۔
صدرالشریْعہ حضرتِ علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اقوال کفریہ دو قسم کے ہیں (1) ایک وہ جس میں کسی معنئ صحیح کا بھی احتِمال ہو(2)دوسرے وہ کہ اس میں کوئی ایسے معنیٰ نہیں بنتے جو قائل کو کفر سے بچاوے ۔ اِس میں اوّل کو لُزُومِ کُفْر کہا جاتا ہے اور قسم دو م کواِلْتِزامِ کُفر۔لُزُومِ کفرکی صورت میں بھی فُقَہائے کرام حکم کفر دیا مگر مُتَکَلِّمِین اس سے سکوت کرتےہیں۔اور فرماتے ہیں جب تک التزام کی صُورت نہ ہو قائل کو کافِرکہنے سے سکوت کیا جائیگا اور اَحوط یہ ِہی مذہبِ مُتَکَلِّمِین ہے۔ واللہ اعلم. (فتاوٰی امجدیہ ج4 ص 512،513) لُزُومِ کُفْر کی تعریف کا خُلاصہ یہ ہے کہ وہ بات عین کفْر نہیں مگر کفْرتک پہنچانے والی ہے اوراِلْتِزَام کُفْر یہ ہے کہ ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا صَراحتاًخِلاف کرے۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرّحمٰن لُزُوم  فرماتے ہیں:''سَیِّدُالْعٰلَمینَ مُحمَّدُصلی اللہ تعالیٰ عليہ واٰلہ وسلَّم جو کچھ اپنے رب (عَزَّوَجَلَّ)کے پاس سے لائے ان سب میں ان کی تصدِیق کرنا اور سچےّ دل سے ان کی ایک ایک بات پر یقین لانا ایمان ہے اور مَعَاذاللہ (عَزَّوَجَلَّ)ان میں سے کسی بات کا جُھٹلانا اور اس میں ادنیٰ شک لانا کُفْر (ہے )۔ پھر یہ انکار جس سے خدا مجھے اور سب مسلمانوں کو پناہ دے ،دو طرح ہوتا ہے(1)لُزُومی و(2)اِلْتِزَامی۔ اِلتِزَامی یہ کہ ضروریاتِ دین سے کسی شئے کا تَصرِیحاً (یعنی صاف صاف )خِلاف کرے یہ قَطْعاً اِجماعاً کُفر ہے اگرچِہ(خِلاف کرنے والا)نامِ کُفْر سے چِڑے اور کمالِ اسلام کا دعوٰی کرے ۔۔۔۔۔۔۔ اور لُزُومی یہ کہ جو بات اس نے کہی عین کفرنہیں مگرمُنْجِربِکُفر (یعنی کُفْر کی طرف لے جانے والی ) ہوتی ہے، یعنی مَآلِ سُخَن ولازِمِ حُکْم کوترتیبِ مُقدَّمات و تَتْمِیم ِتَقریبات کرتے لے چلئے تو انجامِ کار اس سے کسی ضَرورئ دین کا انکار لازِم آئے۔"
(فتاوٰی رضویہ ج 15 ص 4311)
اس اہم تفریق سے  متکلمین نے تکفیر کے باب عام کو بند کیا ۔ پھر آخر میں کلام، تکلم اور متکلم میں تاویل کے مختلف پہلو بتا کر تکفیر کو مشکل ترین بنادیا۔فقہا اور متکلمین نے یہ اصول وضح کیا کہ  جب تک  احوال کفر کے قائلین کے بارے میں  واقعہ کی پوری تحقیق و تفتیش نہ کر لی جائے ان اقوال و اعمال کی بنیاد پر شخصی تکفیر نہیں کی جا ئے گی ۔متکلمین نے مسئلہ تکفیر کو یہ کہہ کر اور مشکل کر دیا کہ اگر ایک قول میں ننانوے پہلو کفر کے ہوں اور ایک ضعیف سے ضعیف  پہلو،خواہ وہ دوسرے امام کے مسلک پر ہی کیوں نہ ہو،ایمان کا ہو ، تو قائل کی تکفیر میں سکوت سے کام لیا جائے گا ۔لیکن ہمارے برصغیر میں متشددانہ رویوں نے اس تکفیری سوچ کا پیچھا پھر بھی نہ چھوڑا۔۔جہاں وہابیت نے دنیا کے ننانوے فیصد  سے زیادہ عوام کو ایک ہی تلوار سے مشرک اور بدعتی قرار دے دیا وہیں اہل سنت والجماعت سے بھی کچھ لوگوں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے الگ رستہ اختیار کیا  اور خود بھی تکفیر کا شکار ہوئے۔اہل سنت والجماعت میں یہ تکفیری آزار جب خواص سے عوام میں منتقل ہوا اس کا بدترین استعمال دیکھنے میں آیا۔ پھر  یہ تکفیری مرض کا اس قدر پھیلا کہ مسلکیت کی حدود پھلانگتا ہوا خود اہل سنت والجماعت کی صفوں میں گھس گیا۔۔بعض جگہ پیری مریدی  کے سلسلے کو استحکام دینے کی خاطر، کہیں ذاتی مخاصمت یا علمی حسد نے یہ صورت حال پیدا کردی ہے کہ اب تقریباًہر سنی بریلوی عالم کسی نہ کسی سنی بریلوی عالم کے ہی فتوےکی زد پر ہے، اور گمراہ، کافر ،گستاخ کی بازگشت خود اپنے مسلک میں سنائی دینے لگی ہیں۔
اعلیٰ حضرتؒ تکفیر کے معاملے میں انتہا درجے کی احتیاط کے قائل تھے۔آپ نے اس کی مزید تشریح کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
مانی ہوئی باتیں چار (4) قسم کی ہوتی ہیں:
: 1۔ضروریاتِ دین
ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع قطعیات الدلالات واضحۃ الافادات سے ہوتا ہی جن میں نہ شبہے کی گنجائش نہ تاویل کو راہ۔اور ان کا منکر یا ان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے۔
2۔ضروریاتِ مذہبِ اہلسنت و جماعت:
ان کا ثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے۔ مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوعِ شبہہ اور تاویل کا احتمال ہوتا ہے اسی لیی ان کا منکر کافر نہیں بلکہ گمراہ ، بذمذہب ، بددین کہلاتا ہے۔
3۔ثابتات محکمہ:
ان کے ثبوت کو دلیل ظنی کافی، جب کہ اس کا مفاد اکبر رائے ہو کہ جانب خلاف کو مطروح و مضمحل اور التفاتِ خاص کے ناقابل بنادے۔ اس کے ثبوت کے لیے حدیث احاد، صحیح یا حسن کافی ، اور قول سوادِ اعظم و جمہور علماء کا سندِ وافی ،فانّ ید ﷲ علی الجماعۃ( ﷲ تعالٰی کا دستِ قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ت)
ان کا منکر وضوحِ امر کے بعد خاطی و آثم خطاکارو گناہگار قرار پاتا ہے، نہ بددین و گمراہ نہ کافر و خارج از اسلام-
4۔ظنّیات محتملہ:
ان کے ثبوت کے لیے ایسی دلیل ظنّی بھی کافی، جس نے جانبِ خلاف کے لیے بھی گنجائش رکھی ہو، ان کے منکر کو صرف مخطی و قصور وارکہا جائے گا نہ گنہگار ، چہ جائیکہ گمراہ ، چہ جائیکہ کافر۔
(فتاوی رضویہ:۲۹/۳۸۵)
اعلیٰ حضرت ؒ سے  جب تکفیر  وہابیت کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ ان کا یہ عقیدہ کیساہے اورا ن کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے، یہ پوچھا کہ امام وماموم پر ایک جماعت ائمہ کے نزدیک کتنی وجہ سے کفرآتاہے تو فرمایا:
"حاش للہ حاش للہ ہزار ہزار بار حاش للہ میں ہر گز ان کی تکفیر پسند نہیں کرتا ان مقتدیوں یعنی مدعیان جدید کوتو ابھی تک مسلمان ہی جانتاہوں اگرچہ ان کی بدعت وضلالت میں شک نہیں اور امام الطائفہ (شاہ اسماعیل) کے کفر پر بھی ہم حکم نہیں کرتے کہ ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اہل لا الہ الا ﷲ کی تکفیر سے منع فرمایا ہے، جب تک وہ وجہ کفر آفتاب سے زیادہ روشن وجلی نہ ہوجائے اور حکم اسلام کے لئے کوئی ضعیف ساضعیف محمل بھی نہ رہے فان السلام یعلو ولایعلی (اسلام غالب ہے مغلوب نہیں )۔
(فتاوی رضویہ:۱۵/۴۲۹)
اس ساری بحث کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ گستاخانہ باتوں کو صرف نظر کردیا جائے ۔ مقصود یہ دکھانا ہے کہ مسئلہ تکفیر کس قدر نازک ہے، اس کی ابحاث کتنی عمیق اور اطلاق کتنا مشکل اور مہارت والا کام ہے جس میں اعلیٰ حضرت عظیم البرکتؒ جیسے عالم دین اور مجدد بھی کس قدر  احتیاط سے کام لیتے تھے ۔ آج المیہ یہ ہے کہ ہر عام و خاص مسئلہ تکفیر کا اس قدر بے دردی سے استعمال کرتا ہے کہ اگر اس کا حقیقتاً اطلاق کردیا جائے تو روئے زمین پر کوئی مسلمان نہیں بچتا۔۔اعلیٰ حضرت ؒ نے تکفیر چند لوگوں کی تھی جو اس وقت کے مطابق انتہائی ضروری تھی، لیکن ہم ان فتاویٰ کا اطلاق پوری پوری جماعتوں پر کردیتے ہیں جن کی تعداد ایک تہائی کو پہنچ چکی ہے۔کیا ممکن ہے کہ اعلیٰ حضرت ؒ یوں غیر اہلسنت والجماعت طبقات کو بہ حیثیت مجموعی کافر گستاخ قرار دے دیتے؟؟ امام اہلسنت ؒ پر اس سے بڑا بوجھ اور بہتان باندھنا کیا ہوگا۔پھر ہمارے بعض علمائے کرام کا رویہ انتہائی قابل مذمت ہے جو اپنے تلامذہ میں ان مسائل کو اس قدر بے احتیاطی سے استعمال کرتے ہیں  کہ وہ اس مسلکی عصبیت میں   منہ تلک ڈوب جاتے ہیں جس کے آفٹرشاکس مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ہمارے علمائے کرام کی ایک ایسی نفری تیار ہوتی رہی جو مسلکی ابحاث میں تو  ید طولیٰ رکھتے تھے ، مناظرانہ طبیعت کے حامل اور قاطع کفر و سب وشتم ، تحریریں لکھیں تو مخالف کیمپ میں زلزلے برپا کردیں اور  مخالف دلائل کو زیر و زبر کرکے رکھ دیں لیکن  ایسےتحقیقی موضوعات پر ان کی صلاحیتیں زنگ آلود ہوتی چلی گئیں جو اہل سنت والجماعت کا خاصا تھا۔۔محققین وماہرین علوم کا کال پڑنے لگا۔ چنانچہ آج آپ کو اپنے مدارس میں بھی  درس نظامی کی ساری کتب دوسرے مکاتب فکر کی نظر آتی ہیں ، اسلام کے خلاف عالمی تحریکوں میں بھی وہ ہی مصروف عمل نظر آتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں یہ کام انفرادی سطح پر ہوتا رہا ہے۔اب بجائے اس پر  سوچ و بچار اور فکر کا رویہ اپنایا جاتا ہمارے پاس ان ہی چند ہیروز کی مثالیں موجود ہیں، کوئی پوچھے کہ ختم نبوت کے حوالے سے آپ کیا کر رہے ہیں تو جھٹ سے عرض کردیں کہ صاحب پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت شاہ احمد نورانی رحمتہ اللہ علیہ نے ختم نبوت کا کتنا کام کیا ہے آپ نہیں جانتے کیا؟ اللہ کے بندو یہ تو بتاؤ کہ عام سنی کو تم نے فتنہ قادیانیت کے حوالے سے کتنا تربیت یافتہ کیا ہے؟  الحادی یلغار کے لیے کونسا  ٹریننگ سیشن منعقد کیا ہے؟
2۔ ضروریات دین  کے مطالعہ کا ذوق محدود ہوتا چلا گیا۔۔مسلکی مواد ذاتی لائبریریوں کا زینت بننے لگا۔جس کا نقصان یہ ہوا کہ عملی زندگی میں عامی لوگوں کے روزمرہ کے معاملات میں ہمارے خواص کی اثر پذیری دم توڑتی گئی۔۔نوجوان اپنے مسائل کےحل کے لیے وہابیت و دیوبندیت کا رخ کرنے لگے اور یوں ہماری ایک کثیر تعداد وہیں کی ہو کر رہ گئی۔۔
3۔اختلافی معاملات کو اس قدر ہوا ملی کہ ہم بحث کرتے کرتے عرس، گیارہویں شریف، محفل نعت،تیجہ، چالیسواں اور تعظیم اولیائے کرام ؒ کو اس مقام تک لے آئے جہاں صرف فرائض کو ہونا چاہیئے تھا۔ کیا اس بات میں اختلاف ممکن ہے کہ آج ہمارے لوگ ان معاملات  کی بجا آوری فرائض سے زیادہ کرتے ہیں۔فرض نمازوں کو تسلسل سے چھوڑنے والوں کی جانب سے محافل نعت کا انعقاد کرلیا جاتا ہے ، جب تلقین کی جائے تو  کہا جاتا ہے یہ عشق کی باتیں ہیں۔یہ کس سے عشق کی باتیں کی جارہی ہیں جن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہی نماز تھی؟۔۔کیا علمائے اہل سنت نہیں جانتے  کہ اگر کوئی چیز فرائض  سے متصادم ہونے لگ جائے اس کی اباحت کا کیا حکم ہے؟  میرے دادا جان حضرت چادر والی سرکار ؒ کے مرید تھے، اس لیے ان کے عرس پر دادا  جان کو لے کر مزار پر جانا ہوتا تھا۔۔میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ چادر پوشی کی رسم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی لیکن ظہر کی نماز میں پہلی صف بہ مشکل مکمل ہوئی جبکہ گدی نشین صاحب خود بھی اپنے خاص مریدین کو لے کر رخصت ہوچکے تھے۔اب ظاہر ہے جب پیر صاحب کی ترجیح نماز نہیں چادر پوشی کی رسم تھی تو مریدین نماز پڑھنے کی گستاخی کیسے کرسکتے تھے۔۔
4۔عام لوگوں میں مسئلہ تکفیر ایک کھلونا بن کر رہ گیا۔۔یہ تو بتا دیا گیا کہ ایسا بولنے والا کافر ہوتا ہے لیکن اس کے لیے تمام ضروریات اور شہادتوں سے اسے بے خبر رکھا گیا۔۔کسی عام مناظرانہ ذہن رکھنے والے سنی سے پوچھ کر تو دیکھیں کہ کفر لزومی اور کفر التزامی میں کیا فرق ہے  اس کی لاعلمی کا اندازہ ہوجائے گا۔۔اس سے ہوا کیا ان عبارتوں کو معیار بنا لیا گیا اور یوں جو اس قسم کی باتوں میں ملوث پایا گیا کفر  اس کا مقدر ٹھہرا۔۔کفر و شرک اور گمراہی کے فیصلے منبر پر بیٹھ کر فی البدیع ہونے لگے۔
5۔چونکہ یہ تکفیری سوچ اعلیٰ حضرت ؒ کو بنیاد بنا کر پھیلائی اور اپنائی گئی چنانچہ  اس میں شدت لاتے لاتے ہم اہل سنت الجماعت سے بریلوی جماعت بن کر رہ گئے۔۔جس کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ ہم دین کی  موجودہ تشریح میں بھی بریلی کے محتاج ہوگئے۔۔ایسے ایسے علمائے اہل سنت جو عرف عام کے مطابق مسائل کا استنباط  کرسکتے تھے غیر بریلی ہوکر  محدود و لاچار ہوگئے۔ہم ایک نہ ختم ہونے والے جمود کا شکار ہوگئے  جو  جماعت اہل سنت کی فکری اور علمی پسماندگی میں صاف دکھائی دیتا ہے۔۔ پاکستان میں تقریباً 60 فیصد سے زیادہ بریلوی، 15-18 فیصد دیوبندی، 15-20 فیصد شیعہ اور باقی اہلِ حدیث ہیں۔مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان میں 65 فیصد مدرسے دیوبندی، 25 فیصد بریلوی، 6 فیصد اہلِ حدیث اور 3 فیصد اہلِ تشیع کے ہیں۔۔ اعلیٰ حضرتؒ نے جو تکفیری مسائل اس دور کے حوالے سے وضح کیے تھے انہیں فلٹر بنا لیا گیا ہے اب اس حوالے سے ہر فتویٰ اس فلٹر سے گزرنا ضروری قرار پایا ہے۔بے شک سنیوں کے اتنے برانڈز آجانے کے بعد اعلیٰ حضرتؒ ہی مسلک حق کی پہچان اور راستہ ہیں لیکن ان کے حوالے سے ایسی باتیں باندھ دینا جن کے وہ خود بھی قائل نہ تھے  ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔
ان معاملات کے علاوہ بھی کئی باتیں ہیں جن کا ذکر طوالت کے ڈر سے ممکن نہیں۔اصل بات ہے کہ ہونا  کیا چاہییے؟ اس کا ذکر اگلے مضمون میں کیا جائے گا ۔۔تاہم قارئین  اہل سنت سےگزارش ہے کہ لائحہ عمل کے حوالے سے اپنی قیمتی تجاویز ضرور دیں  کہ مسلک اہل سنت کو کیسے آگے لایا جاسکتا ہے اور حقیقی معنوں میں اس کا کام کیسے ممکن ہے۔مندرجہ بالا ساری باتیں مسلک اہل سنت والجماعت  کے درد میں لکھی گئی ہیں انہیں بطور تنقید یا بغاوت کے نہ لیا جائے۔۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔