Pages

Monday 24 July 2017

مووی کا شرعی حکم

*مووی کا شرعی حکم*

سوال:کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ مووی بنانا اور بنوانا کیسا ہے ؟ بہت سے علماء سے اس کے بارے میں سنا تھا کہ یہ ناجائز ہے لیکن اس وقت کثیر تعداد میں علماء ٹی، وی پر آتے ہیں یا اپنے جلسوں ، محفلوں، نعت خوانیوں کی مووی بنواتے ہیں او ریہ موویز بازار میں عام ملتی ہیں۔ آپ اس مسئلے کے بارے میں اپنی تحقیق سے مطلع فرمائیں ۔
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم O
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

ٹی وی ، ویڈیو کے مسئلے میں علماء کی آراء میں اختلاف ہے چنانچہ بعض نے اسے تصویرپرقیاس کرتے ہوئے ناجائز قرار دیا اوربعض نے تصویر ہونے کی نفی کی اوراسے آئینے کے عکس کی مثل قراردیتے ہوئے جائز قرار دیا کہ جیسے آئینے میں نظرآنے والاعکس تصویرکے حکم میں نہیں بلکہ وہاں اصلاًتصویرہی نہیں تو یہاں بھی یہی حکم ہے۔ چنانچہ ٹی وی اسکرین پرشعاعوں سے بننے والے عکس پر تصویرکاحکم دیاجاناغلط ہے۔بہرحال اگریہ ثابت ہوجائے کہ ٹی وی اسکرین پرنظرآنے والا عکس تصویرہی ہے توازروئے قیاس اس پرحکم حرمت ہی ہوگا۔ اوراگراس کے برعکس تصویر ثابت نہ ہوتوجائزامورکی مووی فلم جائزہوگی۔اور امام اہل سنت مجدددین وملت امام احمد رضا خان و صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمہمااللہ تعالیٰ کی کتب سے یہی ظاہرہے کہ شعاعوں سے بننے والے عکوس تصویرنہیں ہیں۔
سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت علامہ مولانا الشاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں : '' سئلت عمن صلی وامامہ مرآۃ فأجبت بالجوازآخذامماھھنا اِذالمرآۃ لم تعبدولاالشبح المنطبع فیھاولاھومن صنیع الکفارنعم ان کان بحیث یبدولہ فیہ صورتہ وافعالہ رکوعاوسجوداوقیاماوقعودا وظن ان ذلک یشغلہ فاذن لاینبغی قطعا''۔  (جدالممتار ج۱ ص۳۱۱۔۳۱۲ ادارہ تحقیقات امام احمد رضاکراچی)
       مجھ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیاگیاکہ جس نے آئینے کے سامنے نمازپڑھی تومیں نے یہاں بیان کردہ(شرح منیہ کے) قول سے اخذکرتے ہوئے جواز کافتوی دیا۔کیونکہ نہ توآئینے کی عبادت کی جاتی ہے اورنہ اس میں کوئی صورت چھپی ہوتی ہے اورنہ یہ کفارکی مصنوعات (یعنی کفارکے شعائر) سے ہے ۔ ہاں اگرنمازپڑھنے کے دوران اسے اپنی حرکات مثل رکوع وسجودوقیام وقعودنظرآتی ہواوریہ خیال کرتاہے کہ یہ اسے نمازسے مشغول اورغافل کردیں گی تواسے آئینے کے سامنے ہرگزنمازنہیں پڑھنی چاہیے۔
یونہی صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے جب اسی قسم کاسوال کیاگیاتوآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ ،''آئینہ سامنے ہوتونمازمیں کراہت نہیں ہے کہ سبب کراہت تصویراوروہ یہاں موجودنہیں ۔اوراگراسے تصویرکاحکم دیں توآئینے کارکھنابھی مثل تصویرناجائزہوجائے حالانکہ بالاجماع جائز ہے ۔ اورحقیقت امریہ ہے کہ وہاں تصویر ہوتی ہی نہیں بلکہ خطوط شعاعی آئینہ کی صقالت کی وجہ سے لوٹ کرچہرے پرآتے ہیں گویایہ شخص اپنے کودیکھتاہے نہ یہ کہ آئینہ میں اس کی صورت چھپتی ہے۔ ''

(فتاوی امجدیہ ج۱ ص ۱۸۴ مطبوعہ : مکتبہ رضویہ کراچی)

امام اہل سنت مجدددین وملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اور صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمھماللہ تعالیٰ کی عبارات سے یہ بالکل واضح ہے کہ شعاعوں سے بننے والے عکوس تصویرنہیں ہیں ۔ لہٰذاٹی وی اوروڈیوفلم کاجائزاستعمال بھی جائزہواکہ ان میں نظرآنےوالے پیکربھی شعاعوں ہی پرمشتمل ہوتے ہیں۔ خصوصا صدر الشریعہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے فتوی سے درج ذیل امور ظاہرہوئے ۔
(اول) آئینے میں نظرآنے والاعکس تصویرکے حکم میں نہیں بلکہ وہاں اصلاً تصویر ہی نہیں ۔
(دوم): شعاعوں سے بننے والے پیکرکانام تصویرنہیں ہے بلکہ عکس ہے اگرچہ وہ ظاہری طورپرتصویرکے مثل ہی کیوں نہ ہو۔
(سوم):جب شعاعوں سے بننے والاپیکرتصویرنہیں توخواہ آئینے میں ایساپیکربنے یاخارجِ آئینہ کسی اورچیزپر، وہ تصویرنہیں کیونکہ آئینے میں بننے والے پیکرسے تصویرکی نفی آئینہ کی وجہ سے نہیں بلکہ شعاع ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی پراورچمکدارشے مثلا اسٹیل اورپالش کئے ہوئے فرش پربننے والے واضح عکس کونہ توتصویرسمجھاجاتاہے اورنہ ہی اس پرتصویرکااطلاق کرکے اسے حرام کہاجاتاہے بلکہ اسے آئینے کے عکس کے مثل سمجھاجاتاہے۔
حالانکہ آئینے اوران اشیاء کے اجزائے ترکیبی کافرق کسی ذی عقل سے ہرگز پوشیدہ نہیں ہے۔ لہذاظاہرہواکہ ان اشیاء میں بننے والے عکوس کوتصویرکے حکم میں صرف اس لئے نہیں داخل کیاجاتاکہ یہ شعاعوں سے بنتے ہیں ۔ جیساکہ صدرالشریعہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی عبارت سے ظاہرہے۔

      حضرت غزالی دوراں علامہ سیداحمد سعیدکاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جائز وڈیوفلم کے جوازکے قائل تھے ۔ اور آپ علیہ الرحمۃ نے ٹی، وی اور مووی کے جواز پر لکھی گئی کتاب کی زور دار انداز میں تصدیق فرمائی۔ چنانچہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف شہزادہ محدث اعظم ہند کچھوچھوی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)حضرت علامہ محمد مَدَنی میاں اشرفی مدظلہ العالیٰ کی وڈیواورٹی وی کے شرعی استعمال سے متعلق تحقیق کی تصدیق فرمائی بلکہ اس تحقیق پرانھیں رئیس المحققین کے شاندارلقب سے بھی نوازا۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
''رئیس المحققین حضرت علامہ سیدمحمدمَدَنی الاشرفی الجیلانی دامت معالیہم وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ۔ مزاج اقدس؟
حضرت کامقدورگرامی شرف صدورلایا۔یادفرمائی کابے حد شکریہ ۔جناب کے ارسال کردہ استفتاء وفتاویٰ کوبغورسنا،تینوں فتاویٰ حضرت کی فہم وذکاء اورتحقیق وجستجوکامنہ بولتاشاہکارہیں۔بے شک جناب کی ذہانت اوراستنباط لائق صدستائش اورقابل تحسین اورآفرین ہیں۔آپ نے جس آسانی سے ایسے مشکل مسائل کوعام فہم اندازمیں ڈھال کرحل فرمایاہے وہ آپ ہی کاحصہ ہے۔بزرگان دین اورعلماء امت کے مختلف اقوال کوجس عمدگی سے بیان فرمایاہے اورجس حسن وخوبی سے نبھایاہے وہ آپ کی انشراح صدراورعُلومِ عقلی اورنقلی میں مہارت تامہ کامظہراتم ہے۔خصوصاًطرزِاستدلال اور اندازِ تحریرباعث رشک ہیں۔
میں ہرسہ فتاویٰ میں آپ سے متفق ہوں۔خصوصاوڈیوکیسٹ، ٹی وی اورفلم کے بارے میں جس قدرعرق ریزی سے جناب نے تحقیق فرمائی اورپھرجس خوبصورتی سے ان حقائق کی روشنی میں جائزوناجائزصورتوں میں امتیاز کرتے ہوئے فتویٰ قلمبند فرمایاوہ قابل تقلید ہے۔ ''    ( وڈیو، ٹی وی کاشرعی استعمال ص۱۰)
الحمدللہ عَزَّوَجَلَّ علماء اَہلسنّت کے اقوال سے ظاہرہے کہ مووی فلم تصویرکے حکم میں نہیں ہے اورازروئے شرع جائزامورکی مووی فلم دیکھنا، بنانااوربنواناجائزہے۔
دورحاضرمیں وڈیوکامسئلہ اتناعام ہوچکاہے کہ اگر کسی بڑے اسٹورمیں سامان خریدنے کیلئے جاناپڑے تووڈیو کاسامناکرناپڑتاہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک یاجہاں پیسے کی ریل پیل ہوتی ہے وہاں تو عموماً ہراسٹورہی میں وڈیوکیمرے لگے ہوتے ہیں۔
اسی طرح تقریبا ہرحساس جگہ پرحفاظت (Security)کے پیش نظر وڈیوکیمرے نصب کئے جاتے ہیں۔ اورآنے جانے والے کوکئی زاویوں سے دیکھنے کے لئے ایک سے زائد وڈیوکیمرے نصب کئے جاتے ہیں۔سرکاری تنصیبات پرخصوصی انتظام کیاجاتاہے۔ یونہی ہوائی جہازسے سفرکیاجائے توہوائی اڈے میں داخل ہونے سے لیکر ہوائی جہازمیں بیٹھنے تک اوراسی طرح جہازمیں بیٹھنے کے بعدسے ہوائی جہازسے اترنے تک بلکہ اسکے بعدبھی ائیرپورٹ سے نکلنے تک مسلسل وڈیوکیمرے چلتے رہتے ہیں اورآدمی کی وڈیوفلم بنتی رہتی ہے۔
یونہی زیارت حرمین شریفین کے لئے اگربذریعہ ہوائی جہازجایاجائے توعمومااپنے ملک کے ائیرپورٹ سے لے کرعرب شریف کے ائیرپورٹ تک مسلسل کیمرے کی زدمیں رہناپڑتاہے۔پھرمعاملہ یہاں تک ہی نہیں رہتابلکہ مسجدین کریمین میں داخل ہونے کے بعدسے نکلنے تک مسلسل کیمرے کے ذریعے سے کئی اطراف سے نگاہوں میں رکھاجاتاہے۔
مذکورہ امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات پر غور فرمائیں کہ عرب وعجم ، مشرق ومغرب کے سینکڑوں علماء و مشائخ جہازوں میں سفرکرتے ہیں، یورپ وامریکاوانگلینڈ وافریقہ میں آئے دن تبلیغ دین کے لئے آتے جاتے رہتے ہیں۔ ہندوپاک سے چند مشاہیر کے نام لکھے جاتے ہیں جونفلی حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرنے اورتبلیغ دین کے لئے دنیاکے مختلف ممالک میں آتے جاتے رہے ہیں اور ان میں بہت سے اب بھی آتے جاتے ہیں۔مثلاہند سے فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ شریف الحق امجدی رحمہ اللہ تعالیٰ، محدث کبیرعلامہ ضیاء المصطفی اعظمی ،تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختررضا ازہری ، ابوالبرکات حضرت علامہ امین میاں برکاتی مارہروی متعنااللہ تعالیٰ بفیوضھم اسی طرح اوردیگرعلماء ومشائخ اورپاکستان سے حضرت علامہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ، کثیرالتصانیف جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ فیض احمد اویسی ، مناظراسلام شیخ الحدیث والتفسیرصاحب'' مقام رسول '' صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت علامہ منظوراحمد فیضی، استاذالاساتذہ حضرت علامہ محمد حسن حقانی ، مفتی احمد میاں برکاتی ،مفتی عبدالعزیزحنفی، حضرت مولاناشاہ تراب الحق صاحب،علامہ مولانا عبدالحکیم شرف قادری وغیرھم دامت برکاتہم العالیہ ۔ اب کوئی عقل سے پیدل ہی ہوگاجومعاذاللہ ان مذکورہ مشاہیراوردیگرعلماء پرفسق کافتوی لگانے کی جرأت کریگا۔ اللہ تعالیٰ ایسی الٹی عقل کے شرسے ساری امت کومحفوظ فرمائے۔
آج کفاربداطواراسلحے کی جنگ کے ساتھ ساتھ ٹی وی اوروڈیوکے ذریعے سے مسلمانوں کے گھروں میں پہنچ کراسلام کے خلاف زہراگل رہے ہیں۔ معاذاللہ ثم معاذاللہ اپنے باطل دلائل کے ذریعے سے اسلام اورپیغمبراسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بے عیب شان میں گستاخیاں کررہے ہیں۔ یونہی تمام اقسام کے گمراہ مذاہب نے ٹی وی اوروڈیوکواپنے عقائد باطلہ کی ترویج کاذریعہ بنالیاہے۔جس کاجو دل چاہے بکتاہے۔ ان لوگوں نے مختلف ٹی وی چینلزکے اوقات خریدرکھے ہیں بلکہ قادیانیوں نے توایک عرصے سے پوراچینل شروع کیاہواہے جس پر وہ باقاعدگی سے روزانہ کئی گھنٹے اپنے گمراہ کن عقائد کاپرچارکرتے ہیں۔
اورفی زمانہ ہمارے معاشرے کایہ حال ہے کہ ٹی وی اوروڈیونئی نسل کی گُھٹی میں پڑے ہوئے ہيں۔ ٹی وی اوروڈیو معاشرے کے افرادکے لئے تفریح کاسامان بھی ہے اورحصولِ معلومات کاعُمومی ذریعہ بھی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اکثر اوقات ٹی وی کے سامنے ہی گزارتے ہیں۔ لہذاجوکچھ ٹی وی میں دیکھتے ہیں خواہ برادیکھیں یابھلادیکھیں ۔اس سے متاثرہوجاتے ہیں اوررفتہ رفتہ اسے اپنالیتے ہیں اور تہذیب کاحصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ان تمام امور کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مووی بنوانا جائز ہے ۔
    کتب فقہیہ میں اس قسم کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں کہ علماء نے حالات زمانہ کودیکھتے ہوئے راجح اقوال کوچھوڑ کرمرجوح اقوال پر بھی فتوے دیے جیساکہ خاتم الفقہاء علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ،''فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے میں تین باتوں کی ممانعت کافتوی دیاکرتاتھااوراب ان کے جوازکافتوی دیتاہوں۔پہلے میں فتوی دیتاتھاکہ تعلیم قرآن پراجرت لیناحلال نہیں، اسی طرح فتوی دیتاتھاکہ عالم کے لئے جائزنہیں کہ وہ سلطان (بادشاہ)کی صحبت اختیارکرے اورعالم کے لئے جائزنہیں کہ وہ دیہاتوں میں اجرت پر وعظ کرنے جائے۔ مگراب تعلیمِ قرآن کے ضیاع کے خوف ، لوگوں کی حاجت کی اوردیہاتیوں کی جہالت کی وجہ سے میں نے ان سے رجوع کرلیا۔''  (رسائل ابن عابدین جلد ۱صفحہ ۱۵۷ سہیل اکیڈمی لاہور)

     لیکن اس کے ساتھ اس بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ یہ حکم جائز و حلال پروگراموں کے بارے میں ہے، جیسے علمائے اَہلسنّت کے بیانات، تلاوت قرآن اور نعت کی مووی اورشادی کے موقع پر جو عورتوں کی بے پردہ موویاں یونہی فلموں، ڈراموں، گانوں، باجوں کی موویاں بنائی جاتی ہیں وہ سب ناجائز و حرام ہیں۔
وَاللہ ورسولہ اعلم عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم

الجواب صحیح         کتبــــــــــــــــــــہ

ابوالصالح محمد قاسم القادری      ا لمتخصص فی الفقہ الاسلامی
۲۶ شعبان ۱۴۲۶ہ یکم اکتوبر۲۰۰۵ء      محمد عقیل رضاالعطاری المَدَنی
۲۴ شعبان ۱۴۲۶ہ ۲۹ستمبر۲۰۰۵

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔