Pages

Saturday 16 October 2021

وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو دیابنہ اور وہابیہ کے اعتراض کا جواب ٭٭٭٭

وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو دیابنہ اور وہابیہ کے اعتراض کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : دیابنہ اور وہابیہ ہر نیا کام خود کرتے ہیں مگر انہیں بغض و عداوت صرف میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے اسی لیے نت جاہلانہ اعتراضات کرکے اپنے بغض کا اظہار کرتے رہتے ہیں انہیں میں سے ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو حقیقت یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخ وصال نہیں ہے ۔ اگر بالفرض اس بات کو تسلیم کربھی لیا جائے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال شریف ہوا تھا تو وفات کا غم وفات سے تین دن کے بعد منانا قطعا جائز نہیں ۔ اسلام میں سوگ صرف تین دن ہے اگر تین دن سے زیادہ سوگ کا کہیں حکم ہے تو کوئی دیوبندی وہابی ثبوت دے اب حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں ۔

حضرت اُمِّ حبیبہ اور حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں : ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم کسی وفات یافتہ پر تین روز کے بعد غم نہ منائیں مگر شوہر پرچار ماہ دس دن تک بیوی غم منائے گی ۔ (صحیح بخاری مترجم جلد اوّل صفحہ663)۔(مسلم جلد اول صفحہ نمبر 486،چشتی)۔(صحیح بخاری کتاب الجنایزحدیث نمبر 1280 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ثابت ہوا کہ تین دن کے بعد وفات کا سوگ منانا ناجائز ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کا غم منانے کا حکم ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر جمعہ (یوم ولادت حضرت آدم علیہ السلام) منانے کے بجائے یوم سوگ منانے کا حکم دیتے چنانچہ حدیث ملاحظہ ہو ۔

حضرت اوس بن اوس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فضیلت جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے اس میں حضرت آدم علیہ السلا کو پیدا کیا اور اسی میں ان کا وصال ہوا ۔ (ابو داؤد شریف، ابن ماجہ، نسائی شریف،چشتی)

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کرام علیہم السّلام ، شہداء اور صالحین علیہم الرّحمہ اپنی قبور میں جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات ہیں تو پھر سوگ اور غم کیسا ؟ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں چنانچہ حدیث شریف ملاحظہ ہو :

حضرت عبدﷲ ابن مسعود رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : حیاتی خیرلکم و مماتی خیر لکم ۔
ترجمہ : میری ظاہری حیات اور وصال دونوں تمہارے لئے باعث خیر ہے ۔ (کتاب الشفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ)

الزام لگانے والو ذرا سوچو اور یاد کرو بخاری شریف کی پہلی حدیث ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ لہٰذا ہم جشن ولادت کی خوشی کی نیت سے میلاد مناتے ہیں نہ کہ وصال کی خوشی پر جشن مناتے ہیں ۔

دیابنہ اور وہابیہ ، سادہ لوح مسلمانوں کو یہ کہہ کر ان کے ایمان افروز جذبات کو مجروح کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں کہ ۱۲ ربیع الا ول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات شریف کا دن ہے۔ اس لیے اس روز خوشی منانے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ تو غم افسوس اور سوگ کا دن ہے ۔چنانچہ قاضی محمد سلیمان اپنی کتاب رحمۃ اللعالمین میں رقمطرازہیں کہ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ یوم دو شنبہ وقت چاشت تھا کہ جسم ا طہر سے روح انور نے پرواز کیا۔اس وقت عمر مبارک ۶۳ سال قمری پر ۴ دن تھی۔ ’’ اِنّٰا للّٰہ وَاِ ناَّ اِلَےْہِ رَاجِعُوْن۔‘‘ (رحمۃ اللعالمین جلد اول صفحہ ۳۲۳)

۱۲ ربیع الاول بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ہے۔اس روز خوشیاں منانے والے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات پر خوشیاں مناتے ہیں۔ان کا ضمیرو ایمان مردہ ہے۔ان کو نہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا پاس ہے نہ ان سے حیا۔یہ لوگ روز قیامت خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے۔محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کیا منہ دکھائیں گے۔

کیا ۱۲ ربیع الاول بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ہے ؟ نہیں نہیں ہرگز نہیں ۔اس موضوع پر مورخین ومحققین اسلام کا نکتہ نظر اختصاراً پیش خدمت ہے ۔

پیر کا دن : اگرچہ یہ بات طے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت با سعادت اور وفات شریف پیر کے دن ہوئی ۔ لیکن وفات شریف کےلیے ۱۲ ربیع الاول کی تاریخ کو خاص کرنا کسی معتبر دلیل سے ثابت نہیں۔یہ بات نہ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ثابت ہے نہ ہی تابعین سے۔ لہذا بعد میں کسی کا ۱۲ ربیع لاول کو تاریخ وفات قرار دینا ہرگز درست نہیں۔

روایت شریف سے استدلال : معترضین ۱۲ ربیع الاول کو وفات شریف ثابت کرنے کے لئے ایک روایت جو کہ حضرت عائشہ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے منسوب ہے سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر اس موقع پر اس روایت کے راوی کی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرتے ۔ حالا نکہ اہل علم حضرات پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اس روایت کی سند محمد بن عمرو اقدی ایک ایسا راوی ہے ۔ جس کے بارے میں اسحاق بن راہویہ ،امام علی بن مدین،امام ابو حاتم الرازی اور نسائی نے متفقہ طور کہا ہے کہ واقدی اپنی طرف سے درپیش گھڑ لیا کرتا تھا۔امام یحیےٰ بن معین کے نزدیک واقدی ثقہ یعنی قابل اعتبار نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا واقدی کذاب ہے۔حدیثوں میں تبدیلی کر دیتا تھا۔بخاری شریف اور ابو حاتم رازی نے کہا کہ واقدی کی حدیثیں تحریف سے محفوظ نہیں۔امام زہبی نے فرمایا کہ واقدی کے سخت ضعیف ہونے پر آئمہ جرح وتبدیل کا اجماع ہے ۔ (میزان الاعتدال جلد ۲ ،ص،۳۶-۴۲۵ مطبوعہ ہند قدیم،چشتی)

معلوم ہوا کہ اس روایت کے سخت ضعیف ہونے پر محدثین ومحقیقین اسلام کا اجماع ہے ۔لہذا اس روایت سے استدلال کرنا باطل ہے۔ بفضلہ تعالیٰ! اگر ہم ۱۲ ربیع الاول کو تاریخ ولادت ثابت کرنے کیلئے دلائل اکٹھا کرنا شروع کریں تو اس موضوع پر پوری کتاب تیار ہو سکتی ہے لیکن اختصار کے پیش نظر زیر قلم مضمون میں فقط یہ ثابت کریں گے کہ ۱۲ ربیع الاول حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یوم وصال نہیں ہے۔

۱۲ ربیع الا ول کا تاریخ وفات نہ ہونے پر ناقابلِ تردید دلیل : ⬇

مورّخِ اسلام امام ابو القاسم عبد الرحمن السّہیلی ارشاد فرماتے ہیں:’’وکیف ما دار الحال علی ھذا الحساب فلم یکن الثانی عشر من ربیع الاول یوم الاثنین بوجہ ۔‘‘ (الروض الا نف جلد ۲ ،ص ۳۷۲) ، یعنی اس حساب پر کسی طرح بھی حال دائر ہو مگر ۱۲ ربیع الاول کو یوم وفات سوموار کسی صورت میں نہیں آسکتا۔یہی مضمون امام شمس الدین الذھبی،ابن کثیر ،امام نور الدین علی بن احمد السمہوری بن برہان الدین الحلبی وغیرہ سے بھی منقول ہے۔ (تاریخ اسلام للذہبی جزارلسیرۃ النبویہ ص ۴۰۰-۳۹۹، وفاء الوفاء جلد ۱ص ۳۱۸، البدایہ والنہایہ جلد ۵ ص ۲۵۶ سیرۃ حلبیہ جلد ۳ ص ۴۷۳،چشتی )

محقیقین ومورخین اسلام کی مذکورہ دلیل کو پرکھنے کےلیے تاریخ اسلام کی کسی پختہ تاریخ و یوم کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ اس مقصد کیلئے یوم عرفہ ۱۰ ھ کو ۹ ذی الحج کی تاریخ اور جمعۃ المبارک کا دن ہونے پر مختصر دلائل پیش کرتے ہیں ۔تا کہ اس تاریخ سے تقویم کی رو سے نتیجہ سامنے آ سکے۔ یوم عرفہ کو تاریخ سے تقویم کی رو سے نتیجہ سامنے آ سکے۔ یوم عرفہ کو تاریخ ۹ ذی الحجہ ۱۰ ھ ؁ اور دن جمعۃ المبارک کا تھا۔۹ ذی الحجہ ۱۰ھ ؁ کو حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا اسی روزیہ آیت نازل ہوئی۔’’الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الا سلام دیناً ۔‘ل (المائدہ ،آیت نمبر۳) ’’ یعنی آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا ۔ یہ آیت حجۃ الوداع میں عرفہ کے روز جو جمعہ کو تھا ،بعد عصر نازل ہوئی۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا اے امیر المومنین ! آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے ۔اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم روز نزول کو عید مناتے۔فرمایا کون سی آیت؟ اس نے یہی آیت ’’الیوم اکملت لکم——پڑھی۔ آپؓ نے ارشاد فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی۔اور اس کے مقام نزول کو بھی پہچانتا ہوں۔وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا ۔ (خزائن العرفان)

ترمذی شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا ۔آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن ۲ عیدیں تھیں۔جمعہ، عرفہ۔ (خزائن العرفان)

یہ آیت جیسا کہ شیخین نے حضر ت عمرؓ سے روایت کیا ،عصر کے وقت جمعہ کے روز ذوالحجہ کی نویں تاریخ ،حجۃ الوداع میں جو کہ ۱۰ھ ؁میں تھا۔

نازل ہوئی ہے۔ (حاشیہ القرآن الحکیم مع ترجمعہ شاہ رفیع الدین دہلوی ومولانا اشر ف علی تھانوی ف۱۰ ص ۱۱۹ مطبوعہ تاج آرٹ پر یس کراچی)

جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مکہ معظمہ میں حجۃ الوداع کے مبارک موقع پر عرفہ کے دن، جمعہ کے روز عضباء ناقہ پر سوار تھے ۔ (ترجمعہ مولانا محمود الحسن مع حاشیہ و فوائد القرآن صفحہ نمبر ۱۷۲،چشتی)

یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ کے روز جمعہ کے دن عصر کے وقت نازل ہوئی جبکہ میدان عرفات میں حضرت خیر الانام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اونٹنی کے گرد چالیس ہزار سے زائد اتقیاء ابرار رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مجمع تھا ۔ ( ترجمعہ مولانا محمود الحسن مع حاشیہ و فوائد القرآن ص ۱۷۳)

نویں ذی الحجہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم طلوع آفتاب کے بعد وادی نمرہ میں آکر اترے۔دن ڈھلنے کے بعد یہاں سے روانہ ہو کر عرفات میں تشریف لائے ۔ (رحمۃ اللعالمین جلد اول ص نمبر ۲۹۹)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو اسی جگہ اس آیت کا نزول ہوا۔ الیوم اکملت لکم دینکم ۔ (رحمۃ اللعالمین جلد اول ص ۳۰۵ بحوالہ صحیح بخاری عن عمر بن الخطاب)

اس مختصر سی وضاحت سے واضح ہوا کہ یوم عرفہ کو تاریخ ۹ ذی الحجہ ۱۰ھ اور دن جمعۃ المبارک کا تھا۔ اس تاریخ سے حساب شروع کر کے چاند کے طلوع وغروب ہونے کی نسبت سے ذی الحجہ ،محرم اور صفر کے ایام کی تعداد انتیس ۲۹ اور تیس۳۰ متصور کر کے ہر اسلامی مہینہ تقومی نظام کے آئینے میں دیکھتے ہیں کہ آیا ۱۲ ربیع الاول شریف کا دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یوم وصال ہے یا نہیں ؟

۹ ذی الحجہ تا ۱۳ ربیع الاول تک تقومی نظام کی رو سے ربیع الاول شریف کو ۱،۲،۶،۷،۸،۹،۱۳ میں سے کوئی ایک تاریخ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخ وفات قرار پاتی ہے جبکہ منکرین میلاد کے دعوی کے برعکس ۱۲ ربیع الاول کو سوموار کا دن نہیں آتا ہے۔چنانچہ کتب تواریخ وسیر میں بھی وفات شریف کی تاریخ سے متعلق مختلف روایات موجود ہیں۔اجلۂ تابعین ابن شہاب زہری ،سلیمان بن طرخان اور سعد بن ابراہیم زہری سے اسناد کے سا تھ یکم۱،دو ۲ ربیع الاول کو وفات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منقول ہے۔

علامہ شبلی نعمانی نے بھی یکم ربیع الاول کو یوم وفات قرار دیا ہے۔(سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔جلد ۲)محمد بن عبدالوہاب کے بیٹے شیخ عبد اللہ نے آٹھ ربیع الاول کو یوم وفات قرار دیا ہے۔ (مختصر سیرۃ الر سول ﷺ)

دعوتِ فکر وعمل : ⬇

وہ جن کو دعوی ہے کہ ۱۲ ربیع الاول ہی سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یوم وصال ہے ۔ معتبر حقائق و دلائل کی روشنی میں ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ ؁ کو سوموار کا دن ثابت کریں ۔مذکورہ دلائل کا رد بلیغ کریں۔لیکن سوموار شریف کا دن نہ کر سکیں یا پیش کردہ دلائل کا معقول جواب نہ دے سکیں تو ہم عرض کریں گے کہ (۱) ۱۲ ربیع الاول کو غم اور سوگ کی بجائے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد کی خوشیاں منایا کریں۔ (۲) محبوبان و مقبولان خدا کی تنقیص کی بجائے توقیر و عظمت کے پہلوجات بیان فرمائے جائیں اور ہر ممکن ادب واحترام کا خیال رکھاجائے۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ⬇
مکمل تحریر >>

تاریخِ وصالُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم 12 ربیع الاوّل ہرگز نہیں ہے ٭٭٭٭

تاریخِ وصالُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم 12 ربیع الاوّل ہرگز نہیں ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : دراصل اسے بارہ وفات کہنا ہی نہیں چاہیے بلکہ اسے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم “بارھویں شریف“ “عیدوں کی عید“ یا “عاشقوں کی عید“ کہنا چاہئیے کیونکہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو محبوب کبریا سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تھے اس لئے اسے بارھویں شریف کہتے ہیں ، اور چونکہ لغوی اعتبار سے عید وہ دن ہوتا ہے کہ جس میں کسی صاحب فضل یا کسی بڑے واقعے کی یادگار منائی جاتی ہو ۔ (مصباح اللغات) ۔ اور یقیناً ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت سے زیادہ صاحب فضل شخصیت اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارکہ سے زیادہ اہم واقعہ اور کون سا ہو گا ؟ لٰہذا اسے “عید میلادالنبی“ یا “عیدوں کی عید“ یا “عاشقوں کی عید“ بھی کہہ  دیتے ہیں ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال شریف بارہ ربیع الاول کو ہوا چنانچہ اس اعتبار سے اسے بارہ وفات کہہ دیتے ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ تایخ وصال “دو ربیع الاول“ ہے جیسا کہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بخاری شریف کی شرح “فتح الباری“ میں طویل بحث کے بعد ثابت کیا ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہئیے کہ خود بھی اسے بارہ وفات کہنے سے پرہیز کریں اور اس عظیم الشان خوشی کے موقع کا یہ نام رکھنے سے دوسروں کو بھی محبت و شفقت کے ساتھ روکیں ۔ کم از کم اپنے گھر والوں کو تو اس بارے میں ضرور سمجھانا چاہئیے ۔

ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 1 ﺻﻔﺤﮧ 11۔ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 662۔ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 420۔ﺟﺎﻣﻊ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 129 (ﺣﺴﻦ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ) ﮐﮧ ﺣﺠﺘﮧ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ ﮐﮯ ﺳﺎﻝ ﯾﻮﻡِ ﻋﺮﻓﮧ (9 ﺫﻭاﻟﺤﺠﮧ) ﺟﻤﻌﮧ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 1 ﺻﻔﺤﮧ 93,94 ﭘﺮ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﺻﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮨﻮﺍ ﻟﮩﺬﺍ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﯾﮑﻢ ﯾﺎ ﺩﻭ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﮐﻮ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ۔ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﭘﯿﺮ ﮐﺎ ﺩﻥ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ ۔ﺧﻮﺍﮦ ﺫﻭﺍﻟﺤﺠﮧ ، ﻣﺤﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺻﻔﺮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻣﮩﯿﻨﮯ 30,30 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎ 29,29 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎﺩﻭ ﻣﮩﯿﻨﮯ 30,30 ﺩﻥ ﮐﮯ ﯾﺎ ﺍﯾﮏ 29 ﺩﻥ ﮐﺎ ﯾﺎ ﺩﻭ ﻣﮩﯿﻨﮯ 29,29 ﺩﻥ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮧ 30ﺩﻥ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮﯾﮟ ۔ ﺩﻭ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺑﺮﻭﺯ ﭘﯿﺮ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀﺍﺳﻼﻡ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﻣﺘﻮﻓﯽ 230 ﮪ۔ﺍﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ ﺟﻠﺪ
2 ﺻﻔﺤﮧ 208,209 ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﯿﮩﻘﯽ 458 ﮪ۔ ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﮦ ﺟﻠﺪ 7 ﺻﻔﺤﮧ 235
ﺣﺎﻓﻆ ﻣﻐﻠﻄﺎﺋﯽ 762 ﮪ۔ ﺍﻻﺷﺎﺭﮦ ﺍﻟﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻤﺼﻄﻔﯽ ﺻﻔﺤﮧ 351 ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ (ﺍﺑﻦِ ﮐﺜﯿﺮ) 774 ﮪ۔ ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﮧ ﻭﺍﻟﻨﮩﺎﯾﮧ ﺟﻠﺪ 4ﺻﻔﺤﮧ 228 ﺣﺎﻓﻆ ﺷﮩﺎﺏ ﺍﻟﺪﯾﻦ (ﺍﺑﻦِ ﺣﺠﺮ ) 852 ﮪ۔ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 8 ﺻﻔﺤﮧ 473 ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﯾﻮﺳﻒ ﺍﻟﺼﺎﻟﺤﯽ 942 ﮪ۔چشتی۔ﺳﺒﻞ ﺍﻟﮭﺪﯼ ﻭﺍﻟﺮﺷﺎﺩ ﺟﻠﺪ 12 ﺻﻔﺤﮧ 305 ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﺩﮨﻠﻮﯼ 1052 ﮪ۔ﺍﺷﻌﺘﮧ ﺍﻟﻠﻤﻌﺎﺕ ﺟﻠﺪ 4 ﺻﻔﺤﮧ 604 ﻋﻼﻣﮧ ﺑﺪﺭ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﯿﻨﯽ 855 ﮪ۔ﻋﻤﺪﺓ ﺍﻟﻘﺎﺭﯼ ﺟﺰ 18 ﺻﻔﺤﮧ 60 ﻋﻼﻣﮧ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﻟﻘﺎﺭ ﯼ 1014 ﮪ۔ﺍﻟﻤﺮﻗﺎﺕ ﺟﻠﺪ 11 ﺻﻔﺤﮧ 238 ﻋﻼﻣﮧ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺳﮩﯿﻠﯽ 581 ﮪ۔ﺍﻟﺮﻭﺽ ﺍﻻﻧﻒ ﻣﻊ ﺍﻟﺴﯿﺮﺓ ﺍﻟﻨﺒﻮﯾﮧ ﺟﻠﺪ 4 ﺻﻔﺤﮧ440 ۔

ﯾﮑﻢ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺑﺮﻭﺯ ﭘﯿﺮ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀ

ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ 571 ﮪ۔ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺩﻣﺸﻖ ﺟﻠﺪ2 ﺻﻔﺤﮧ 387 ﻋﻼﻣﮧ ﺟﻼﻝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﯿﻮﻃﯽ 911 ﮪ۔ﺍﻟﺘﻮﺷﯿﺢ ﺟﻠﺪ 4 ﺻﻔﺤﮧ 143 ﻋﻼﻣﮧ ﻋﻠﯽ ﺣﺒﻠﯽ 1044 ﮪ۔ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻟﻌﯿﻮﻥ ﺟﻠﺪ3 ﺻﻔﺤﮧ 473 ﻋﻼﻣﮧ ﺷﺒﻠﯽ ﻧﻌﻤﺎﻧﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﺟﻠﺪ 2 ﺻﻔﺤﮧ 106,107 ﻋﻼﻣﮧ ﻧﻮﺭ ﺑﺨﺶ ﺗﻮﮐﻠﯽ1367 ﮪ۔ ﺳﯿﺮﺕ ﺭﺳﻮﻝ ﻋﺮﺑﯽ 226 ﻋﻼﻣﮧ ﻏﻼﻡ ﺭﺳﻮﻝ ﺳﻌﯿﺪﯼ ﺗﺒﯿﺎﻥ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﺟﻠﺪ 7 ﺻﻔﺤﮧ 576 ۔

ﺷﯿﺦ ﺍﺷﺮﻑ ﻋﻠﯽ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ دیوبندی 1364 ﮪ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ : ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﺟﻮ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺣﺴﺎﺏ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮐﯽ ﻧﻮﯾﮟ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﯽ ﺗﮭﯽطﺍﻭﺭ ﯾﻮﻡِ ﻭﻓﺎﺕ ﺩﻭ ﺷﻨﺒﮧ (ﭘﯿﺮ) ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ۔ ﭘﺲ ﺟﻤﻌﮧ ﻧﻮﯾﮟ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﺩﻭ ﺷﻨﺒﮧ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ۔ (ﻧﺸﺮﺍﻟﻄﯿﺐ ﺻﻔﺤﮧ 241)

ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﻭﻓﺎﺕ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﯾﮧ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺛﺎﻧﯽ ( 2 ) ﮐﻮ ﺛﺎﻧﯽ ﻋﺸﺮ ( 12 ) ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ ۔ (ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ ﺟﻠﺪ 8 ﺻﻔﺤﮧ نمبر 473,474۔چشتی)

ﺍﮨﻞِ ﺳﻨﺖ ﭘﺮ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮ ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ حضور پُر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخ وفات شریف کے بارے میں ایک استفتا کے جواب میں رقم طراز ہیں : قول مشہور و معتمد جمہور دواز دہم (12 ۔ بارہ) ربیع الاول شریف ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد نمبر 26 صفحہ نمبر 415)
دیابنہ اور وہابیہ نے اِس قول کو بھی اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہہ دیا حالانکہ اعلیٰ حضرت یہ فرما رہے ہیں کہ یہ قول مشہور ہے اور جمہور یعنی اکثر علما نے اِسی قول پر اعتماد کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات اقدس 12ربیع الاول ہے ۔ لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے نزدیک 13ربیع الاول ہے اور جمہور کے قول 12 ربیع الاول کی 13 ربیع الاول کے ساتھ یوں تطبیق فرماتے ہیں : اور تحقیق یہ ہے کہ حقیقتاً بحسب رؤیتِ مکۂ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی ۔ مدینۂ طیبہ میں رؤیت نہ ہوئی (یعنی چاند نظر نہیں آیا) لہٰذا اُن کے حساب سے بارہویں ٹھہری وہی رُواۃ (یعنی روایت کرنے والوں) نے اپنے حساب کی بناہ پر روایت کی اور مشہور و مقبول جمہور ہوئی یہ حاصل تحقیق امام بارزی و امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ و غیرھم محدثین و محققین ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 417۔چشتی) ۔ اعلیٰ حضرت نے اِس اقتباس میں امام بارزی ، امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ وغیرھم ایسے بڑے محدثین و محققین کی تحقیق کا حاصل یہ بتایا کہ مکۂ معظمہ میں مدینۂ طیبہ سے ایک دن پہلے چاند نظر آگیا تھا لہٰذا مکۂ معظمہ میں چاند نظر آنے کے اعتبار سے تیرہ تاریخ تھی اور مدینۂ طیبہ میں چونکہ ایک دن بعد میں چاند نظر آیا اِس لحاظ سے راویوں نے اپنے حساب کی بناء پر بارہ ربیع الاول کی روایت کردی اور اِس طرح سے وفات اقدس کی تاریخ بارہ ربیع الاول مشہور ہوگئی اور جمہور نے اِن مشہور روایت پر اعتماد کر لیا لیکن حقیقت میں ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی اور اِسی کے لیے اعلیٰ حضرت نے فرمایا "اور تحقیق یہ ہے ۔" وہ حضرات جو یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کی تحقیق یہ ہے کہ وفات شریف کی تاریخ بارہ ربیع الاول ہے اب ذرا اعلیٰ حضرت کی درج ذیل واقعی اور حقیقی تحقیق ملاحظہ فرمائیں کہ وفات شریف بارہ ربیع الاول کو نہیں ہوئی : ⬇
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : تفصیل و مقام توضیح مرام یہ ہے کہ وفاتِ اقدس ماہِ ربیع الاول شریف روز دو شنبہ میں واقع ہوئی اِس قدر ثابت و مستحکم و یقینی ہے جس میں اصلاً جائے نزاع نہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 418) ۔ یعنی وفات شریف ربیع الاول کے مہینے میں پیر کے دن ہوئی اِس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں (حتّٰی کے دیوبندی اور وہابی بھی اس سے متفق ہیں) ۔

آگے چل کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ادھر یہ بلاشبہ ثابت ہے کہ اِس ربیع الاول سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی روز پنجشنبہ تھی کہ حجۃ الوداع شریف بالا جماع روزِ جمعہ ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 26، صفحہ،418،چشتی)
یعنی جس ربیع الاول شریف میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ہوا اُس سے تین مہینے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کیونکہ حجۃ الوداع شریف کے روز جمعہ (جمعہ کا دن) ہونے پر اجماع (یعنی سب کا اتفاق) ہے، یعنی 9 ذی الحجہ کو جمعہ کا دن تھا لازمًا ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو تھی ۔ اس حساب سے 29 ذی الحجہ کو جمعرات ہوئی۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : "اور جب ذی الحجہ 10ھء کی 29 روز پنجشنبہ تھی تو ربیع الاول 11ھ ء کی 12 کسی طرح روز ِ دو شنبہ نہیں آتی) کہ اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے 30کے لیے جائیں تو غرّہ ربیع الاول روز چار شنبہ ہوتا ہے اور پیر کی چھٹی اور تیرھویں، اور اگر تینوں 29 کے لیں تو غرّہ اور روزِ یکشنبہ پڑتا ہے اور پیر کی دوسری اور نویں، اور اگر اُن میں کوئی سا ایک ناقص اور باقی دو کامل لیجیے تو پہلی سہ شنبہ کی ہوتی ہے اور پیر کی ساتویں اور چوھویں، اور اگر ایک کامل دو ناقص مانیے تو پہلی پیر کی ہوتی ہے پھر پیر کی آٹھویں اور پندرھویں ، غرض بارہویں کسی حساب سے نہیں آتی، اور ان چار کے سوا پانچویں کوئی صورت نہیں، قولِ جمہور پر یہ اشکال پہلے امام سہیلی کے خیال میں آیا اور اسے لاحل سمجھ کر انھوں نے قول یکم اور امام ابن حجر عسقلانی نے دوم کی طرف عدول فرمایا ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحات 418تا 419۔چشتی)
خلاصہ یہ ہے کہ دو باتوں میں کسی کا اختلاف نہیں ہے پہلی بات یہ کہ وصال مبارک سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کہ وقوف، عرفہ (9ذی الحجہ) بروز جمعہ ہونے پر سب متفق ہیں دوسری بات یہ کہ وفات اقدس ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی۔ تو ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ حساب لگانا ہوگا کہ آنے والے ربیع الاول شریف میں پیر کس کس تاریخ میں آیا۔ تو اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے تیس کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ بدھ کو ہوگی اور پیر کو 6، 13، 20 اور 27 تاریخیں ہوں گی اگر تینوں مہینے 29 کے لیے جائیں تو یکم ربیع الاول اتوار کو ہوگی اور پیر کے دن 2، 9، 16، 23 (اور 30 بھی ممکن ہے) تاریخیں ہوں گی اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا ایک مہینہ 29 کا اور باقی دو مہینے 30 کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ منگل کی ہوگی اور پیر کو 7، 14، 21، 28 اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا بھی ایک 30 کا لیجیے اور باقی دو 29 کے سمجھیں تو یکم ربیع الاول پیر کو ہوگی اوراِس طرح پیر کے دن 1، 8، 15، 29 تاریخیں ہوں گی یعنی چاروں صورتوں میں پیر کے دن ممکنہ تاریخیں یہ ہوئیں: 1، 2، 6، 7، 8، 9، 13، 14، 15، 16، 20، 22، 23، 27، 28، 29 اور 30۔ اِن چاروں صورتوں میں ربیع الاول کی 12تاریخ پیر کے دن کسی حساب سے نہیں آتی اور ان چار کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں۔ اِن ممکنہ تاریخوں میں سے یکم ربیع الاول اور 2ربیع الاول کے اقوال بھی ملتے ہیں اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اِن دونوں اقوال کو علم ہیات وزیجات کے حساب سے غلط ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں، "وہ دونوں قول (یکم اور دوم ربیع الاول کے) قطعاً باطل ہیں اور حق و صواب وہی قولِ جمہور بمعنی مذکو رہے یعنی واقع میں تیرھویں اور بوجہ مسطور تعبیر میں بارہویں ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد نمبر 26 صفحہ نمبر 426،چشتی)
یعنی مدینۂ طیبہ میں چاند نظر نہیں آیا تو اُن کے حساب سے بارہ ہوئی۔ اور راویوں نے وہی مشہور کردی لیکن چونکہ مکۂ معظمہ میں چاند نظر آگیا تھا واقع میں (یعنی حقیقت میں) تیرہ ربیع الاول۔ اور حقیقتاً 12ربیع الاول کسی حساب سے نہیں آتی، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔
یہ ہے اعلیٰ حضرت کی تحقیق۔ علم ہیاٴت و زیج کے حساب بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی تحقیق یہی ہے کہ وفات شریف 12 نہیں بلکہ 13 تاریخ کو ہے چنانچہ میلاد شریف پر ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر ہیاٴت و زیج کا حساب لیتا ہے تو تاریخِ وفات شریف بھی بارہ نہیں بلکہ تیرہ ربیع الاول (ہے) کَمَا حَقَّقْنَاہُ فِیْ فَتَاوٰ نَا (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کردی ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 428۔چشتی)
اور اگر بارہ ربیع الاول ہی تاریخِ وفات شریف ہو تو بھی میلاد شریف منانے سے روکنے کی کوئی دلیل نہیں۔ شریعت میں تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں صرف بیوہ کو شوہر کے لیے چار ماہ دس دن سوگ کرنے کا حکم ہے۔ غم پر صبر کرنا اور نعمت کا چرچا کرنا ہی مومن کی شان ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بھی جمعہ کے دن ہے اور وفات شریف بھی لیکن حدیث شریف میں جمعہ کے دن کو عید کا دن قرار دیا گیا ہے بلکہ مشکوٰۃ شریف باب الجمعۃ مین ابن ماجہ کے حوالے سے ایک حدیث روایت کی جس میں جمعہ کو عید الاضحی اور عید الفطر سے بھی عظیم دن فرمایاگیا۔ حالانکہ اسی دن ایک نبی کی وفات بھی ہے، تو معلوم ہوا کہ غم پر صبر کرنا چاہیے اور پیدائش کا اعتبار کرتے ہوئے اس دن عید (خوشی) منانا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"اگر مشہور کا اعتبار کرتا ہے تو ولادت شریف اور وفات شریف دونوں کی تاریخ بارہ ہے ہمیں شریعت نے نعمتِ الٰہی کا چرچا کرنے اور غم پر صبر کرنے کا حکم دیا، لہٰذا اس تاریخ کو روزِ ماتمِ وفات (وفات کے ماتم کا دن) نہ کیا روزِ سُرورِ ولادتِ شریفہ (ولادت شریف کی خوشی کا دن) کیا ۔ کما فی مجمع البحار الانوار (جیسا کہ مجمع البحار الانوار میں ہے)۔(فتاوٰی رضویہ جلد نمبر 26 صفحہ نمبر 428)

صرف 12 ربیع الاوّل کے دن ہی نہیں بلکہ ربیع النور کی پہلی تاریخ سے لے کر بارہ تک ان بارہ دنوں میں جتنا اور جس طرح بھی ممکن ہو ہر امتی کو چاہئیے کہ نور مجسم فخر بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوشنودی کیلئے خوشی کے اظہار کے مختلف طریقے اپنائے مثلاً آپس میں مبارک باد دیں اپنے گھر دکان گلی محلہ اور مسجد کو قمقموں اور جھنڈوں سے سجائیں ، اپنی سائیکل یا موٹر سائیکل یا کار وغیرہ پر بھی جھنڈے لگائیں ، مٹھائیاں تقسیم کریں ، دودھ شربت پلائیں ، کھانا کھلائیں، دوردپاک کی کثرت کریں، اجتماعات منعقد کریں جس میں مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات و معجزات اور ولادت مبارکہ ، کے واقعات بیان کیے جائیں ، خوب خوب نعتیہ محافل قائم کریں ، ہر قسم کے صغیرہ کبیرہ گناہ سے بچیں اور نیک اعمال کی کثرت کی کوشش کریں اور خصوصاً بارہ تاریخ کو گھر کو خوب صاف ستھرا رکھیں ، تازہ غسل کریں ہو سکے تو نئے کپڑے اور اگر استطاعت نہ ہو تو پرانے ہی مگر اچھی طرح دھو کر پہنیں ، آنکھوں میں سرمہ لگائیں ، خوب اچھی طرح عطر ملیں ، طاقت اور قدرت ہو تو روزہ رکھیں اور اپنے علاقے میں نکلنے والے جلوس میں شرکت کرکے اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل ہونے والی بےشمار رحمتوں اور برکتوں سے حصہ طلب فرمائیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

Friday 15 October 2021

جنازہِ رسول کریمﷺو تدفین.........؟؟ سوال:

جنازہِ رسول کریمﷺو تدفین.........؟؟
سوال:
علامہ صاحب ایک شیعہ بار بار اعتراض کر رہا ہے کہ بتاؤ رسول اللہ کے جنازے میں صرف گیارہ لوگ کیوں تھے باقی لاکھوں صحابہ کہاں تھے…؟؟ ایک اور بھائی نے بار بار وڈیو بھیجی اور کہا کہ اسکا جواب دیجیے، وڈیو میں ایک شخص کہہ رہا ہے کہ رسول کریم کی تدفین میں صحابہ شامل نہ تھے ابوبکر و عمر شامل نہ تھے ایسا اہلسنت کی کتب میں لکھا ہے دیکھو المصنف لابن ابی شیبہ
.
جواب:
دونوں جھوٹ و بہتان و مردود ہیں، شیعہ و رافضی و نیم رافضیوں کا ایک طرح سے صحابہ کرام پر طعن و اعتراض ہیں....صحابہ کرام بالخصوص خلفاء راشدین نماز جنازہ اور تدفین میں شامل تھے بلکہ نبی پاک کی نماز جنازہ سکھانے والے، مدفن بتانے والے سیدنا صدیق اکبر تھے
دَخَلَ أبو بكرٍ -رضي الله عنه- على رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- حينَ ماتَ.....ويُصَلَّى عَلَيهِ؟ وكَيفَ يُصَلِّى عَلَيهِ؟ قال: تَجيئونَ عُصَبًا عُصَبًا فيُصَلُّونَ فعَلِموا أنَّه كما قال، فقالوا: هَل يُدفَنُ؟ وأَينَ؟ فقالَ: حَيثُ قَبَضَ اللهُ روحَه
ترجمہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہو گئی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی تو سیدنا صدیق اکبر نے جواب دیا جی ہاں ۔صحابہ کرام نے عرض کیا کیسے نماز جنازہ پڑھیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم گروہ در گروہ آتے جاؤ اور نماز جنازہ پڑھتے جاؤ... پھر صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو دفن کیا جائے گا اور کہاں دفن کیا جائے گا ؟ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو وہاں دفن کیا جائے گا جہاں ان کی روح قبض ہوئی 
(السنن الكبرى للبيهقي ت التركي ,7/362روایت6987بحذف)
.
سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے بھی نماز جنازہ پڑھی، دوٹوک تصریح پڑھیے:
ووضع على سريره دخل أبو بكر وعمر فقالا السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته ومعهما نفر من المهاجرين والأنصار قدر ما يسع البيت فسلموا كما سلم أبو بكر وعمر وصفوا صفوفا لا يؤمهم عليه أحد
ترجمہ:
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جسد مبارک کو تخت پر لٹایا گیا تو ابوبکر اور عمر دونوں داخل ہوئے اور دونوں نے عرض کیا السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته... سیدنا ابو بکر صدیق اور عمر کے ساتھ مہاجرین اور انصار میں سے صحابہ کرام تھے کہ جتنا گھر میں جگہ تھی پھر سب نے سلام عرض کیا جیسے کہ ابوبکر اور عمر نے سلام عرض کیا اور یہ سب صف باندھے کھڑے ہوئے تھے کوئی امام نہ تھا
(جامع الأحاديث روایت27941)
(كتاب الطبقات الكبرى ط دار صادر2/290)
.
سب صحابہ و تابعین نے نماز جنازہ پڑھی:
وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ دَخَلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَالًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ، حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا النِّسَاءَ، حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا الصِّبْيَانَ، وَلَمْ يَؤُمَّ النَّاسَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ
ترجمہ:
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جسد مبارک کو تخت پر لٹایا گیا ان کے گھر میں ہی.....پھر لوگ داخل ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گروہ در گروہ آپ پر نماز جنازہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ مرد صحابہ کرام و تابعین وغیرہ نماز جنازہ سے  فارغ ہوگئے تو عورتوں کو داخل کیا گیا تاکہ وہ بھی رسول کریم کی نماز جنازہ پڑھ سکیں... جب عورتوں نے نماز جنازہ پڑھ لیا تو بچوں کو داخل کیا گیا تھا کہ وہ نماز جنازہ پڑھیں اور ان سب نے نماز جنازہ پڑھی، کسی نے کسی کی امامت نہ کی  
(سنن ابن ماجه ,1/520روایت1628)
.
 لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ , فَكَانَ النَّاسُ يَدْخُلُونَ زُمَرًا زُمَرًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ وَيَخْرُجُونَ وَلَمْ يَؤُمَّهُمْ أَحَدٌ
ترجمہ:
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو آپ کے جسم مبارک کو تخت پر لٹایا گیا تو لوگ(تمام صحابہ کرام و تابعین و اہل اسلام)گروہ در گروہ حاضر ہوتے اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھتے اور پھر نکل جاتے کوئی بھی امام نہ ہوتا 
(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,7/430روایت37041)
.
ثُمَّ أُضْجِعَ عَلَى السَّرِيرِ، ثُمَّ أَذِنُوا لِلنَّاسِ ; فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَوْجًا فَوْجًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ بِغَيْرِ إِمَامٍ، حَتَّى لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ بِالْمَدِينَةِ - حُرٌّ وَلَا عَبْدٌ - إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ
ترجمہ:
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مبارک کو تخت پر لٹایا گیا اور پھر لوگوں(تمام صحابہ کرام و تابعین و اہل اسلام) کو اجازت دی گئی کہ وہ نماز جنازہ پڑھیں... تو وہ گروہ در گروہ حاضر ہوتے اور نماز جنازہ پڑھے بغیر امام کے... تو مدینے پاک میں آزاد یا غلام(مرد یا عورت،  بچہ یا بوڑھا) کوئی بھی ایسا شخص نہ بچا کہ جس نے نماز جنازہ نہ پڑھی ہو 
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/33روایت14254)
.
.
*#تدفین کے متعلق چند روایات*
وڈیو میں جس روایت کا ذکر ہے وہ یہ ہے
ابْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ أَبَا بَكْرٍ , وَعُمَرَ §لَمْ يَشْهَدَا دَفْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر نبی پاک کے دفنانے میں شریک نہ تھے
(مصنف ابن أبي شيبة7/432)
.
اس روایت میں آخری راوی عروہ بن زبیر ہے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کے سال پیدا ہی نہیں ہوا تھا تو وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ابوبکر و عمر حاضر نہ ہوئے....؟؟مزید یہ کہ مذکورہ روایت صحیح روایت کے خلاف بھی ہے تو مقطوع و منکر ہے...مردود و باطل ہے
شیعہ سنی نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ
فحديثه منكر مردود
ترجمہ:
اس(غیرثقہ)کی حدیث.و.روایت(بلامتابع بلاتائید ہو تو)منکر و مردود ہے
(شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185)
(اہلسنت کتاب المقنع في علوم الحديث1/188)
.
ولد عروة سنة ثلاث وعشرين . فهذا قول قوي ، وقيل : مولده بعد ذلك
عروہ بن زبیر 23ھجری میں پیدا ہوئے یہ قول قوی ہے اور کہا گیا ہے کہ 23ھجری کے بھی بعد پیدا ہوئے(جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 11ھجری میں ہوئی)
(سیر اعلام النبلاء4/423)
.

جب تدفین کا وقت آیا تو صحابہ کرام میں اختلاف ہوا کہ کہاں دفنایا جائے تو سیدنا صدیق اکبر نے حدیث پاک سنا کر مسلہ حل کر دیا:
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ، قَالَ: «مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي المَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ»، ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ
ترجمہ:
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو صحابہ کرام میں اختلاف ہو گیا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو کہاں دفن کیا جائے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس متعلق  ایک حدیث پاک سنی ہے کہ جس کو میں کبھی نہیں بھولا...نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ کوئی بھی نبی اسی جگہ وفات پاتا ہے کہ جس جگہ پر اس کا دفن ہونا محبوب ہوتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وفات کی جگہ پر دفن کیا جائے گا 
(سنن الترمذي ت شاكر ,3/329 روایت1018)
.
لما فرغ من جهاز رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يوم الثلاثاء وضع على سريره فى بيته وكان المسلمون قد اختلفوا فى دفنه فقال قائل ادفنوه فى مسجده وقال قائل ادفنوه مع أصحابه بالبقيع قال أبو بكر سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول ما مات نبى إلا دفن حيث يقبض فرفع فراش النبى - صلى الله عليه وسلم - الذى توفى عليه ثم حفر له تحتہ
ترجمہ:
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک دفن کرنے کا وقت آیا تو اسے تخت پر لٹایا گیا، مسلمانوں میں اختلاف ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے تو ایک کہنے والے نے کہا کہ مسجد میں دفن کیجیے اور ایک کہنے والے نے کہا کہ دفن کیجیے جنت البقیع میں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ نبی پاک کو وہاں دفن کیا جاتا ہے جہاں اس کی روح قبض ہوتی ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ دفن کیا گیا 
(جامع الأحاديث ,25/236روایت27897)
.
 أَنَّهُمْ شَكُّوا فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ يَدْفِنُونَهُ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ النَّبِيَّ لَا يُحَوَّلُ عَنْ مَكَانِهِ , يُدْفَنُ حَيْثُ يَمُوتُ» فَنَحَّوْا فِرَاشَهُ فَحَفَرُوا لَهُ مَوْضِعَ فِرَاشِهِ
ترجمہ:
صحابہ کرام میں اختلاف ہو گیا کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی قبر مبارک کہاں کی جائے،کہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کریں؟... سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ نبی پاک کو اس جگہ سے نہیں ہٹایا جاتا جہاں اس کی وفات  ہوئی ہو تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو اسی جگہ پر دفن کیا گیا  
(استادِ بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,7/427 روایت37022)
.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574
مکمل تحریر >>

Thursday 14 October 2021

*🥀پیارے آقا کی پیاری پیاری ادائیں🥀*

*محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہمارے بڑی شان والے*

*🌴بسلسلہ شانِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم🌴*

*🔻۔۔۔۔

*🥀پیارے آقا کی پیاری پیاری ادائیں🥀*

*✍️

رسولِ محتشم، نبیِّ مُکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پاکیزہ اور مبارَک سیرت رہتی دنیا تک کے لئے مَشعلِ راہ ہے۔ آپ کی ہر ہر ادا میں ڈھیروں حکمتیں چُھپی ہیں، عاشقانِ رسول ان اداؤں کو بجا لانا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے ہیں اور اسے دِین و دنیا کا سَرمایہ جانتے ہیں۔ ایک عاشقِ رسول اپنے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اداؤں کو بجا لانے کے لیے گویا کہ موقع تلاش کرتا رہتا ہے، آئیے! پیارے مُصطفیٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری اداؤں کے بارے میں جانتے ہیں:

(1) *رَفتار مبارَک:*

پیارے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چلتے تو پاؤں جما کر چلتے گویا آپ بلندی سے نیچے اُترتے معلوم ہوتے۔
(📗وسائل الوصول الی شمائل الرسول،ص60)

ایک روایت میں ہے کہ جب آقا کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چلتے تھے تو پوری قُوّت سے چلتے تھے اور کاہل کی طرح نہیں چلتے تھے۔
( 📗سبل الہدیٰ والرشاد،الباب الثالث فی مشیہ،۷/۱۵۹)

(2) *چھینکنے کا انداز:*

سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بلند آواز سے چھینکنے کو نا پسند فرماتے تھے۔ جب چھینک آتی تو منہ مبارَک کو کپڑے یا ہاتھ مبارک سے ڈھانپ لیتے۔
(📗وسائل الوصول الی شمائل الرسول، ص99)

(3) *آرام فرمانے کا انداز:*

رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سوتے وقت اپنا دایاں ہاتھ مبارک رُخسار کے نیچے رکھتے۔
(📗سبل الہدیٰ والرشاد،7/253)

اور یہ دُعا پڑھتے: *اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ اَمُوتُ وَ اَحْيَا* یعنی اے اللہ میں تیرے نام کے ساتھ ہی مرتا اور جیتا ہوں (یعنی سوتا اور جاگتا ہوں) اور جب بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: *اَلْحَمْدُلِلَّهِ الَّذِي اَحْيَانَابَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَيْهِ النُّشُور* یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہمیں مر جانے کے بعد زندہ کیا اور اُسی کی طرف اُٹھنا ہے۔
(📗شمائل محمدیہ، ص157، حدیث:243)

(4) *پانی پینےکا انداز:*

سرکارِ مکۂ مکرمہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پانی تین(3) سانس میں نوش فرماتے۔
(📗مسلم، ص863،حدیث:5287)


(5) *خُوشبو کااستعمال:*

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خوشبو پسند تھی، خوشبو کا تحفہ رَد نہ فرماتے، مُشک و عنبر خوشبو استعمال فرماتے۔
(📗مواہبِ لدنیہ،2/70)

(6) *آئینہ دیکھنے کا انداز:*

شہنشاہِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آئینہ دیکھتے وقت اللہ پاک کا شکر ادا کرتے اور یہ دعا پڑھتے: *اَللّٰہُمَّ کَمَا اَحْسَنْتَ خَلْقِي فَحَسِّن خُلُقِي* یعنی اے اللہ جس طرح تُو نے میری تخلیق کو حسین کیا ایسے ہی میرے خُلْق کو بھی اچھا کردے۔

(7) *سُرمہ لگانے کا انداز:*

مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِثْمد سُرمہ لگایا کرتے۔(📗ترمذی، 3/294، حدیث:1763)

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مقدس آنکھوں میں سُرمہ کی تین تین سلائیاں استعمال فرماتے تھے اور بعض اوقات دو دو سلائیاں سُرمہ کی ڈالتے اور ایک سلائی کو دونوں مبارک آنکھوں میں لگاتے۔
(📗وسائل الوصول الی شمائل الرسول،ص77)

*مصطفےٰ کی اداؤں پہ لاکھوں سلام*

اسی طرح آپ کی اداؤں میں یہ بھی ہے کہ :

(1) آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر وقت اپنی زبان کی حفاظت فرماتے اور صرف کام ہی کی بات کرتے۔

(2) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آنے والوں کو محبت دیتے اور ایسا کوئی عمل اِختیار نہ فرماتے جس سے نفرت پیدا ہو۔

(3) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کی اچھی باتوں کی اچھائی بیان کرتے اور اس کی تقویت فرماتے، بُری چیز کو بُری بتاتے اور اس پر عمل سے روکتے۔

(4) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر معاملے میں اِعتِدَال (یعنی میانہ روی) سے کام لیتے۔

(5) ہمارے پیارے آقا،مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جہاں کہیں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ مل جاتی وہیں بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔

(6) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے پاس بیٹھنے والوں کے حقوق کا لحاظ رکھتے۔

(7) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر رہنے والے ہر فرد کو یہی محسوس (Feel) ہوتا کہ سرکار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔

(8) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سخاوت و خوش خُلقی(یعنی اچھے اخلاق،اچھی عادات) ہر کسی کے لیے عام تھی۔

(9)ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس میں کسی سے بھُول ہوجاتی تو نہ اس کو شہرت دی جاتی نہ ہی اس کا مذاق اڑایا جاتا۔

(10) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نگاہیں حیا سے جھکی رہتیں۔

(11) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہ لیتے۔

 (12) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بُرائی کا بدلہ بُرائی سے دینے کے بجائے معاف فرمادیا کرتے۔

(13) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نہ کسی کی بات کو کاٹتے نہ ہی بیچ میں بولتے۔

 (14) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سخت گفتگو نہ فرماتے۔

(15) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی کا عیب تلاش نہ کرتے۔

(16) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صرف وہی بات کرتے جو (آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں) باعثِ ثواب ہو۔

(17) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسافر یا اجنبی آدمی کے سخت کلامی بھرے سوال پر بھی صبر فرماتے۔

 (18) ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی کی بات نہ کاٹتے ،البتہ اگر کوئی حد سے تجاوز کرنے لگتا تو اس کو منع فرماتے یا وہاں سے اُٹھ جاتے۔

(19) ہمارے پیارے آقا،مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کبھی قہقہہ (یعنی اتنی آواز سے ہنسنا کہ دوسرے لوگ ہوں تو سُن لیں)نہ لگاتے۔

(20) صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان فرماتے ہیں:آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے (یعنی موقع کی مناسبت سے) حضرت عبداللہ بن حارث رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: میں نے رَسُولُاللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔ 

(📗احترامِ مسلم ، ص۲۷، ۲۸ ملتقطاً)

*تری صورت تری سیرت زمانے  سے نِرالی ہے*

*تری ہر ہر ادا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے*

(📗ذوقِ نعت، ص۲۳۰)



والسلام علیکم بالخیر
مکمل تحریر >>

صحابہ اور میلاد النی صلی اللہ علیہ وسلّم

صحابہ اور میلاد النی صلی اللہ علیہ وسلّم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی حضور پرُنور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا میلاد منایا اور سرور کونین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے سامنے منعقد کیا ۔ میرے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے منع کرنے کے بجائے خوشی کا اظہار فرمایا ۔ صحابہ کرام کا میلاد بیان کرنے پر حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں : غزوہ تبوک سے جب سب لوگ واپس آئے تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی تعریف کروں۔ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو اللہ تمہارے منہ کو ہر آفت سے بچائے ۔ اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی پیدائش کا حال بیان کیا ۔ ( دلائل النبوہ جلد 5، صفحہ 47، 48)

آپ غور نہیں فرماتے کیا کہ یہاں حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔ حکم ہوا ۔۔۔ اور دعا فرمائی کہ منہ کو ہر آفت سے بچائے۔ اور اللہ عزوجل نے دعا قبول فرما کر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان پر ذکرِ خیر جاری فرمایا میلاد یعنی پیدائش/ولادت کے بیان کو جاری فرما دیا۔ تو مقصد بیان کرنے والے کون ہیں؟ صحابی ہوئے یا تابعی؟ اور جیسے میں نے گزشتہ پوسٹ میں عرض کی تھی کہ ہمارے میلاد منانے میں وہی طریقہ رائج ہے بس فرق آپ نہیں دیکھ پا رہے کیوں کہ اس دور میں صحابہ کرام ہر وقت ہے جھرمٹ کی طرح جمع رہا کرتے جیسے ہم آج صرف ۱۲ ربیع الاول اور جمعہ و نماز کے وقت جمع ہوتے ہیں اور ہر وقت درود و سلام و تعریف کیا کرتے تھے ۔ ولادت کے دن پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوموار شریف کا روزہ رکھ کر اضافی عمل پیش کیا وگرنہ روزانہ کی طرح حمد و ثناء، تعریف، درود و سلام ۱۲ ربیع الاول کو بھی جاری رہا کرتیں ۔

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے میلاد کا ذکر میرے پاس ہوا ۔ (المعجم الکبیر مترجم اردو جلد اوّل صفحہ 96،چشتی) ۔ معلوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میلاد کی محافل سجایا کرتے تھے اور ذکرِ میلاد النبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کرتے تھے ۔

جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں قصیدہ پڑھ کر جشن ولادت منایا کرتے تھے۔

حدیث: سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم خود حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے لئے منبر رکھا کرتے تھے تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تعریف میں فخریہ اشعارپڑھیں ۔ سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے فرماتے اﷲ تعالیٰ روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کے ذریعہ حسان کی مدد فرمائے (بحوالہ: بخاری شریف جلد اول صفحہ نمبر 65،چشتی)

حدیث: حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اﷲ عنہ کے گھر گیا۔ وہ اپنی اولاد کوحضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کے واقعات سکھلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج کا دن ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اس وقت فرمایا اﷲ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے رحمت کا دروازہ کھول دیا اور سب فرشتے تم لوگوں کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہیں جو شخص تمہاری طرح واقعہ میلاد بیان کرے اس کو نجات ملے گی ۔ (رضیہ التنویر فی مولد سراج المنیر)

صحابہ کرام کا میلاد بیان کرنے پر حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں : غزوہ تبوک سے جب سب لوگ واپس آئے تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی تعریف کروں۔ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیان کرو اللہ تمہارے منہ کو ہر آفت سے بچائے۔اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی پیدائش کا حال بیان کیا۔( دلائل النبوہ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 47، 48،چشتی)
آپ غور نہیں فرماتے کیا کہ یہاں حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔ حکم ہوا۔۔۔ اور دعا فرمائی کہ منہ کو ہر آفت سے بچائے۔ اور اللہ عزوجل نے دعا قبول فرما کر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان پر ذکرِ خیر جاری فرمایا میلاد یعنی پیدائش/ولادت کے بیان کو جاری فرما دیا۔ تو مقصد بیان کرنے والے کون ہیں؟ صحابی ہوئے یا تابعی؟ اور جیسے میں نے گزشتہ پوسٹ میں عرض کی تھی کہ ہمارے میلاد منانے میں وہی طریقہ رائج ہے بس فرق آپ نہیں دیکھ پا رہے کیوں کہ اس دور میں صحابہ کرام ہر وقت ہے جھرمٹ کی طرح جمع رہا کرتے جیسے ہم آج صرف ۱۲ ربیع الاول اور جمعہ و نماز کے وقت جمع ہوتے ہیں اور ہر وقت درود و سلام و تعریف کیا کرتے تھے۔ ولادت کے دن پر صحابہ کرام نے سوموار شریف کا روزہ رکھ کر اضافی عمل پیش کیا وگرنہ روزانہ کی طرح حمد و ثناء، تعریف، درود و سلام ۱۲ ربیع الاول کو بھی جاری رہا کرتی۔

اب مندرجہ ذیل ایک سو سولہ (116)اَئمہ و شیوخ کی ایک سو پچیس(125)سے زائد تالیفات و شروحات کا ذکر ہے جن سے تمہاری جھوٹی اور عقل کی مکاری ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان 116 کتابوں میں صحاستہ کا بھی ذکر ہے۔

یہ کتب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد ناموں اور واقعاتِ ولادت کے قصص پر مشتمل ہیں ۔ جب کہ اَمرِ واقعہ یہ ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے واقعات اور جشنِ میلاد کی کیفیت کی حامل تالیفات و مولود ناموں کی تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہے ، اور ایسی کتب اُردو، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، ہندی، فارسی، انگریزی الغرض دنیا کی ہر اُس زبان میں پائی جاتی ہیں جو مومنین بولتے ہیں ۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھی جانے والی گراں قدر تصانیف

قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک اَئمہ و محدّثین اور علماء و شیوخ نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر قلم اٹھایا اور نظم و نثر میں ہزاروں کی تعداد میں گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ ان میں سے بعض مختصر اور بعض ضخیم ہیں ۔

اکثر اَئمہ و محدّثین اور اَکابر علماء نے اَحادیث، سیرت و فضائل اور تاریخ کی کتب میں میلاد شریف کے موضوع پر باقاعدہ اَبواب باندھے ہیں۔ مثلاً اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) نے الجامع الصحیح میں کتاب المناقب کا دوسرا باب ہی ’’ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ قائم کیا ہے۔

ابن اِسحاق (85۔ 151ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں،

ابن ہشام (م 213ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں،

ابن سعد (168۔ 230ھ) نے الطبقات الکبری میں،

ابو نعیم (336۔ 430ھ) نے دلائل النبوۃ میں،

بیہقی (384۔ 458ھ) نے دلائل النبوۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃ میں،

ابو سعد خرکوشی نیشاپوری (م 406ھ) نے کتاب شرف المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں،

ابن اثیر (555۔ 630ھ) نے الکامل فی التاریخ میں،

طبری (224۔ 310ھ) نے تاریخ الامم والملوک میں،

ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے البدایۃ والنھایۃ میں،

ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے تاریخ دمشق الکبیر میں،

الغرض تمام اَجل اَئمہ و علماء نے اپنی اپنی کتب میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔
نیز

اِمام محمد بن یوسف صالحی شامی (م 942ھ) نے ’’سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں بہت تفصیل سے لکھا اور جواز میں علمی دلائل کے اَنبار لگا دیئے ہیں۔

اِمام ابو عبد اﷲ بن الحاج مالکی (م 737ھ) نے ’’المدخل الی تنمیۃ الاعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ‘‘ میں مفصل بحث کی ہے۔

اِمام زرقانی (1055۔ 1122ء) نے ’’المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ‘‘ میں،

شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ،چشتی) نے ’’ما ثَبَت مِن السُّنّۃ فی ایّام السَّنَۃ‘‘ میں
اور
اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی (1265۔ 1350ھ) نے ’’حجۃ اﷲ العالمین فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ اور ’’جواھر البحار فی فضائل النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں میلاد شریف کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

ذیل میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر لکھی جانے والی چند معروف کتب درج کی جارہی ہیں :

1۔ ابو العباس احمد اقلیشی (م 550ھ)
ابو العباس احمد بن معد بن عیسی اقلیشی اندلسی (م 550ھ) نے الدر المنظم فی مولد النبی الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے کتاب تالیف کی ہے۔ اِس میں اُنہوں نے دس فصول قائم کی ہیں۔ باشا بغدادي، ايضاح المکنون : 451

2۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 597ھ)
عبدالرحمان بن علی بن محمود بن علی بن عبد اللہ بن حمادی قرشی حنبلی جن کا لقب جمال الدین ہے۔ 510ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے اور 597 ہجری میں اسی شہر میں انتقال فرمایا۔ ابتدائی علوم پر صغر سنی میں ہی دسترس حاصل کر کے وعظ و تبلیغ میں لگ گئے۔ پھر حدیث میں مہارت اور پختگی حاصل کی تو حافظ اور محدّث کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ نے 159 سے زائد کتب تصنیف کیں جن میں سے اکثر حدیث، تاریخ اور مواعظ پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو مستقل کتب لکھیں :
1. بيان الميلاد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. مولد العروس

3۔ اِبن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ)
ابو خطاب عمر بن حسن بن علی بن محمد بن دحیہ کلبی اندلس میں پیدا ہوئے۔ آپ نے حصولِ علم کے لیے شام، عراق، خراسان وغیرہ کے سفر کیے اور مصر میں قیام فرما رہے۔ آپ مشہور محدّث، معتمد مؤرّخ اور مایہ ناز ادیب تھے۔ بہت سی کتب لکھیں اور شاندار علمی ورثہ چھوڑا۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر آپ کی تصنیف ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ بھی ہے۔

4۔ حافظ شمس الدین جزری (م 660ھ)
ابو الخیر شمس الدین محمد بن عبد اللہ جزری شافعی (م 1262ء) اپنے وقت کے امام القراء اور محدّث تھے۔ مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کی ایک کتاب ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ ہے۔

5۔ شیخ ابو بکر جزائری (م 707ھ)
شیخ ابو بکر محمد بن عبد اﷲ بن محمد بن محمد بن احمد عطار جزائری نے ’’المورد العذب المعین فی مولد سید الخلق اجمعین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔

6۔ اِمام کمال الدین الادفوی (85۔ 6۔ 748ھ)
اِمام کمال الدین ابو الفضل جعفر بن ثعلب بن جعفر اَدفوی نے اپنے ملک مراکش میں جشنِ میلاد کی تقریبات کے حوالے سے بہت سی تفصیلات اپنی کتاب ’’الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید‘‘ میں جمع کی ہیں۔

7۔ سعید الدین الکازرونی (م 758ھ)
محمد بن مسعود بن محمد سعید الدین الکازرونی نے ’’مناسک الحجز المنتقی من سیر مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔

8۔ ابو سعید خلیل بن کیکلدی (694۔ 761ھ)
ابو سعید خلیل بن کیکلدی بن عبد اﷲ لاعلائی دمشقی شافعی نے الدرۃ السنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

9۔ امام عماد الدین بن کثیر (701۔ 774ھ)
میلاد نگاروں میں صاحبِ ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘۔ اِمام حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر۔ کا نام بھی شامل ہے۔ اِمام ابن کثیر نے ’’ذکر مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورضاعہ‘‘ کے نام سے میلاد شریف کے موضوع پر کتاب لکھی ہے۔

10۔ سلیمان برسوی حنفی
سلیمان بن عوض باشا بن محمود برسوی حنفی 780ھ کے قریب فوت ہوئے۔ آپ سلطان بایزید عثمانی کے دور میں بہت بڑے امام تھے۔ اُنہوں نے ’’وسیلۃ النجاۃ‘‘ کے نام سے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

11۔ اِمام عبد الرحیم برعی (م 803ھ)
اِمام عبد الرحیم بن اَحمد برعی یمانی (م 1400ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر رسالہ تالیف کیا ہے جو کہ ’’مولد البرعي‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

12۔ حافظ زین الدین عراقی (725۔ 808ھ)
حافظ ابو الفضل زین الدین عبد الرحیم بن حسین بن عبد الرحمٰن مصری عراقی یکتائے زمانہ، نابغہ روزگار، محافظ اسلام، مرجع خلائق اور دانش وَر محقق تھے۔ انہوں نے حدیث، اسناد اور ضبط روایات میں کمال رسوخ حاصل کیا۔ علم حدیث سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والا ہر شخص ان کے علم و فضل سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس جلیل القدر امام نے جشنِ میلاد کے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا جس کا نام ’’المورد الھنی فی المولد السنی‘‘ رکھا۔

13۔ سلیمان برسونی
حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (2 : 1910)‘‘ میں لکھا ہے کہ سلیمان برسونی 808ھ کے بعد فوت ہوئے۔ اُنہوں نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا جو کہ روم کی مجالسِ میلاد میں پڑھا جاتا ہے۔

14۔ اِمام محمد بن یعقوب فیروزآبادی (729۔ 817ھ،چشتی)
اِمام ابو طاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم فیروزآبادی ایک بہت بڑے اِمام ہو گزرے ہیں۔ آپ نے بے شمار کتب لکھیں، جن میں تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس، الصلات والبشر فی الصلاۃ علیٰ خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لغت کی معروف کتاب القاموس المحیط شامل ہیں۔ آپ نے میلاد شریف پر النفحۃ العنبریۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔

15۔ امام شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ)
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھنے والے جلیل القدر آئمہ میں سے ایک حافظ شمس الدین محمد بن ابی بکر بن عبد اللہ قیسی شافعی المعروف حافظ ابن ناصر الدین دمشقی ہیں۔ آپ اعلیٰ پائے کے مؤرّخ تھے۔ لاتعداد کتب ان کی نوک قلم سے نکلیں، بے شمار حواشی تحریر کیے اور مختلف علوم و فنون میں طبع آزمائی کی۔ آپ دمشق کے الشرفیہ دار الحدیث کے شیخ الحدیث بنے۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کئی کتب تحریر کیں۔ حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (2 : 1910)‘‘ میں ان کی درج ذیل تین کتب کا تذکرہ کیا ہے جو صرف اِسی موضوع پر ہیں :

1. جامع الآثار في مولد النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم (تين جلدوں پر مشتمل ہے)

2. اللفظ الرائق في مولد خير الخلائق صلي الله عليه وآله وسلم
3. مورد الصادي في مولد الهادي صلي الله عليه وآله وسلم

16۔ شیخ عفیف الدین التبریزی (م 855ھ)

شیخ عفیف الدین محمد بن سید محمد بن عبد اﷲ حسینی تبریزی شافعی نے مدینہ منورہ میں 855ھ میں وفات پائی۔ آپ نے اِمام نووی (631۔ 677ھ) کی الاربعین اور اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) کی الشمائل المحمدیۃ کا حاشیہ لکھا۔ آپ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی۔

17۔ شیخ محمد بن فخر الدین (م 867ھ)

شیخ شمس الدین ابو القاسم محمد بن فخر الدین عثمان لؤلؤی دمشقی حنبلی ’’اللؤلؤ ابن الفخر‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ اُنہوں نے میلاد شریف کے موضوع پر الدر المنظم فی مولد النبی المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔ بعد ازاں اُنہوں نے اللفظ الجمیل بمولد النبی الجلیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے اس کی تلخیص کی۔

18۔ سید اصیل الدین ہروی (م 883ھ)

سید اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمٰن ہروی نے درج الدرر فی میلاد سید البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

19۔ اِمام عبد اللہ حسینی شیرازی (م 884ھ)

اِمام اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمٰن حسینی شیرازی نے میلاد کے موضوع پر ایک کتاب بہ عنوان ’’درج الدرر فی میلاد سید البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔ اِس کا ذکر حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون (1 : 745)‘‘ میں کیا ہے۔

20۔ شیخ علاء الدین المرداوی (م 885ھ)

ابو الحسن علاء الدین علی بن سلیمان بن احمد بن محمد مرداوی دمشق میں حنبلی فقہ کے بہت بڑے شیخ ہو گزرے ہیں۔ آپ نے میلاد شریف پر المنھل العذب القریر فی مولد الھادی البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی کتاب تالیف کی۔

21۔ برہان الدین ابو الصفاء (م 887ھ)

برہان الدین ابو الصفاء ابن ابی الوفاء نے فتح اﷲ حسبی وکفی فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

22۔ شیخ عمر بن عبد الرحمان باعلوی (م 889ھ)

شیخ عمر بن عبد الرحمان بن محمد بن علی بن محمد بن احمد باعلوی حضرمی نے ’’کتاب مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔

23۔ امام شمس الدین السخاوی (831۔ 902ھ)

امام شمس الدین محمد بن عبد الرحمان بن محمد قاہری سخاوی کا شمار اکابر اَئمہ میں ہوتا ہے۔ ایک عالم نے کہا کہ ’’حافظ ذہبی کے بعد ان جیسے ماہر علوم و فنونِ حدیث شخص کا وجود نہیں ملتا اور انہی پر فنِ حدیث ختم ہو گیا۔‘‘ امام شوکانی کا کہنا ہے کہ اگر حافظ سخاوی کی ’’الضوء اللامع‘‘ کے علاوہ کوئی اور تصنیف نہ بھی ہوتی تو یہی ایک کتاب ان کی امامت پر بڑی دلیل تھی۔

آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب ’’الفخر العلوی فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ تصنیف کی، اور اس کا ذکراپنی کتاب ’’الضوء اللامع (8 : 18)‘‘ میں بھی کیا ہے۔ اِس کے علاوہ آپ نے الضوء اللامع میں اُن اَئمہ کرام کی فہرست بھی دی ہے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے بارے میں کتب و رسائل تالیف کیے ہیں۔

حاجي خليفه، کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون، 2 : 1910

24۔ اِمام نور الدین سمہودی (844۔ 911ھ)

میلاد کے موضوع پر لکھی جانے والی ایک اور کتاب ’’المورد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے۔ اِس کے مصنف اِمام نور الدین ابو الحسن علی بن عبد اﷲ بن احمد حسینی شافعی سمہودی ہیں جنہیں تاریخِ مدینہ کے لکھنے والوں میں مستند درجہ حاصل ہے۔

25۔ امام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ)

امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر سیوطی کا علمی مقام آفتاب کی طرح ہر خاص و عام پر واضح ہے۔ آپ کے تذکروں میں لکھا ہے کہ آپ کی تصانیف کی تعداد سات سو (700) کے قریب پہنچتی ہے۔ آپ نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز میں ’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ کے نام سے رسالہ لکھاجو پوری دنیا میں مقبول ہوا۔ یہ رسالہ آپ کی تصنیف ’’الحاوی للفتاوي‘‘ میں بھی شامل ہے۔

26۔ عائشہ بنت یوسف باعونیہ (م 922ھ)

عائشہ بنت یوسف باعونیہ دمشقیہ شافعیہ مشہور عالمہ و صوفیہ اور کثیر التصانیف محققہ تھیں۔ اُنہوں نے منظوم ’’مولود النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ تصنیف کیا۔

27۔ ابو بکر بن محمد حلبی (م 930ھ)

ابو بکر بن محمد بن ابی بکر حبیشی حلبی نے الکواکب الدریۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب رقم کی۔

28۔ ملا عرب الواعظ (م 938ھ)

ملا عرب الواعظ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کی۔

29۔ ابن دیبع الشیبانی (866۔ 944ھ)

حافظ وجیہ الدین عبد الرحمٰن بن علی بن محمد شیبانی شافعی، ابن دیبع کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ نے ایک سو (100) سے زیادہ مرتبہ بخاری شریف کا درس دیا اور ایک مرتبہ چھ روز میں بخاری شریف کو ختم کیا۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بھی کتاب لکھی ہے۔

30۔ شیخ عبد الکریم الادرنتوی (م 965ھ)

شیخ عبد الکریم ادرنتوی خلوتی نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا تھا۔

31۔ اِمام ابن حجر ہیتمی مکی (909۔ 973ھ)

امام الحرمین، ابو العباس احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی مکی شافعی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ ’’الفتاویٰ الحدیثیۃ،‘‘ ’’الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان،‘‘ ’’الصواعق المحرقۃ فی الرد علی اھل البدع والزندقۃ‘‘ اور ’’الجوہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبوی المکرم المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ جیسی مشہورِ زمانہ کتب آپ کے علمی شاہکار ہیں۔ آپ علومِ حدیث میں شیخ الاسلام زکریا مصری کے شاگردِ خاص تھے۔ شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی آپ کے دادا استاد تھے۔ علامہ ملا علی قاری اور بر صغیر پاک و ہند کے مایہ ناز فرزند علاؤ الدین علی متقی ہندی (صاحبِ کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال) آپ ہی کی مسند اِرشاد و تدریس کے فیض یافتہ تھے۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر مندرجہ ذیل کتب تصنیف کیں:
1. تحرير الکلام في القيام عند ذکر مولد سيد الأنام صلي الله عليه وآله وسلم
2. تحفة الأخيار في مولد المختار صلي الله عليه وآله وسلم
3. اتمام النعمة علي العالم بمولد سيد ولد آدم صلي الله عليه وآله وسلم
4. مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم
علاوہ ازیں انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’الفتاویٰ الحدیثیۃ‘‘ میں بھی اس موضوع کا تفصیلی تذکرہ کیاہے۔

32۔ اِمام خطیب شربینی (م 977ھ)
اِمام شمس الدین محمد بن احمد خطیب شربینی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پچاس (50) صفحات کا محظوطہ تحریر کیا ہے۔

33۔ ابو الثناء احمد الحنفی (م 1006ء)
ابو الثناء احمد بن محمد بن عارف زیلی رومی حنفی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے کتاب تالیف کی۔

34۔ ملا علی القاری (م 1014ھ،چشتی)
جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھنے والوں میں حافظِ حدیث، مجتہد الزمان امام ملا علی قاری بن سلطان بن محمد ہروی بھی ہیں۔ امام شوکانی نے ’’البدر الطالع‘‘ میں ان کے حالات نقل کرتے ہوئے لکھاہے کہ وہ علوم نقلیہ کے جامع، سنت نبوی میں دسترس رکھنے والے، عالم اسلام کے بطلِ جلیل اور قوتِ حفط و فہم میں نام وَر تھے۔ اُنہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام ’’المورد الروی فی مولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ونسبہ الطاھر‘‘ ہے۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے میلاد شریف کے بارے میں مختلف علماء کے اَقوال اور مختلف اِسلامی ممالک میں جشنِ میلاد کی تقریبات کا حال بیان کیا ہے۔

35۔ اِمام عبد الرؤف المناوی (952۔ 1031ھ)
’’فیض القدیر شرح الجامع الصغیر‘‘اور ’’شرح الشمائل علی جمع الوسائل‘‘ کے مصنف و نام وَر اِمام عبد الرؤف بن تاج العارفین بن علی بن زین العابدین مناوی (1545۔ 1621ء) نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رِسالہ تالیف کیا ہے، جو کہ ’’مولد المناوي‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

36۔ محی الدین عبد القادر عیدروسی (987۔ 1038ھ)
محی الدین عبد القادر بن شیخ بن عبد اﷲ عیدروسی نے المنتخب المصفی فی اخبار مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

37۔ اِمام علی بن اِبراہیم الحلبی (975۔ 1044ھ)
سیرتِ طیبہ کی مشہور کتاب۔ ’’انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون‘‘ جو کہ ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ کے مصنف اِمام نور الدین علی بن ابراہیم بن احمد بن علی حلبی قاہری شافعی نے میلاد شریف کے موضوع پر کتاب ’’الکواکب المنیر فی مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی ہے۔ اُنہوں نے ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف منانے پر دلائل دیتے ہوئے اِس کا جائز اور مستحب ہونا ثابت کیا ہے۔

38۔ اِمام محمد بن علان صدیقی (996۔ 1057ھ)
اِمام محمد علی بن محمد بن علان بکری صدیقی علوی (1588۔ 1647ء) نام وَر مفسر و محدّث تھے۔ اُنہوں نے ’’مورد الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ نامی مولود نامہ تالیف کیا۔

39۔ شیخ زین العابدین خلیفتی (م 1130ھ)
شیخ زین العابدین محمد بن عبد اﷲ عباسی مدینہ منورہ کے نام وَر خطیب تھے۔ آپ خلیفتی کے لقب سے معروف تھے۔ آپ نے میلاد شریف پر الجمع الزاھر المنیر فی ذکر مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی کتاب لکھی۔

40۔ اِمام عبد الغنی نابلسی (م 1143ھ)
شیخ عبد الغنی نابلسی بڑے جلیل القدر اِمام تھے۔ آپ نے ’’المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے مختصر اور جامع مولود نامہ لکھا ہے۔

41۔ شیخ جمال الدین بن عقیلہ المکی الظاہر (م 1130ھ)
شیخ جمال الدین ابو عبد اﷲ محمد بن احمد بن سعید بن مسعود المکی الظاہر نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی۔

42۔ سلیمان نحیفی رومی (م 1151ھ)
سلیمان بن عبد الرحمان بن صالح نحیفی رومی۔ جنہوں نے مولانا روم (604۔ 672ھ) کی ’’مثنوی مولوی معنوی‘‘ کا ترکی زبان میں منظوم ترجمہ کیا تھا۔ نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ بھی لکھا۔

43۔ یوسف زادہ رومی (1085۔ 1167ھ)
عبد اﷲ حلمی بن محمد بن یوسف بن عبد المنان رو می حنفی مقری ایک نام وَر محدث تھے۔ آپ ’’یوسف زادہ شیخ القرائ‘‘ کے لقب سے معروف تھے۔ اُنہوں نے اِختلافِ قرات پر الائتلاف فی وجود الاختلاف فی القراء ۃ کے نام سے کتاب لکھی۔ میلاد شریف کے موضوع پر ان کی کتاب کا نام الکلام السنی المصفی فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

44۔ حسن بن علی مدابغی (م 1170ھ)
علامہ حسن بن علی بن احمد بن عبد اللہ منطاوی جوکہ مدابغی کے نام سے معروف تھے، اُنہوں نے 1170 ہجری میں مصر میں وفات پائی۔ اُنہوں نے رسالۃ فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے ایک رِسالہ تالیف کیا۔

45۔ عبد اﷲ کاشغری (م 1174ھ)
عبد اﷲ بن محمد کاشغری بندائی نقشبندی زاہدی قسطنطنیہ میں درس و تدریس کرتے تھے۔ آپ وہاں سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ آپ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی ہے۔

46۔ احمد بن عثمان حنفی (1100۔ 1174ھ)
احمد بن عثمان دیاربکری آمدی حنفی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

47۔ عبد الکریم برزنجی (م 1177ھ)
سید جعفر بن حسن بن عبد الکریم برزنجی شافعی مدینہ منورہ کے مفتی اعظم اور مشہور محدث تھے۔ عربی لغت کی مشہور کتاب۔ تاج العروس من جواھر القاموس۔ کے مصنف سید مرتضیٰ زبیدی (1145۔ 1205ھ) نے آپ سے ملاقات کی اور مسجد نبوی میں ہونے والے آپ کے دروس میں حاضر ہوئے۔ آپ کی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشہور و معروف کتاب ’’عقد الجوھر فی مولد النبی الازھر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ہے، جوکہ ’’مولود البرزنجی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اِس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ عرب و عجم میں اکثر لوگ اس رسالہ کو حفظ کرتے ہیں اور دینی اجتماعات کی مناسبت کے اعتبار سے اسے پڑھتے ہیں۔ یہ میلاد نامہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مختصر سیرت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت و ہجرت، اَخلاق و غزوات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک کے ذکر پر مشتمل ہے۔ آپ نے اس میلاد نامہ کے ابتداء میں یہ تحریر کیا ہے : أبتدئ الإملاء باسم الذات العلية، مستدرّا فيض البرکات علي ما أناله وأولاه.
’’میں (ﷲ تعالیٰ کی) بزرگ و برتر ذات کے نام سے لکھنا شروع کرتا ہوں، اُس سے برکتوں کے فیض کے نزول کا طلب گار ہوں ان نعمتوں پر جو اس نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔‘‘
اس کتاب کی شرح شیخ ابو عبد اللہ محمد بن احمد علیش (م 1299ھ) نے کی ہے اور یہ شرح بہت ہی جامع اور مفید ہے اس کا نام ’’القول المنجی علی مولد البرزنجی‘‘ ہے۔ یہ مصر سے کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے۔ اس شرح کو ان کے پوتے علامہ فقیہ و مورخ سید جعفر بن اسماعیل بن زین العابدین برزنجی (م 1317ھ)۔ جوکہ مدینہ منورہ میں مفتی تھے۔ نے منظوماً تحریر کر کے 198 ابیات میں بیان کیا ہے۔ اِس کے شروع میں وہ فرماتے ہیں :

بدأت باسم الذات عالية الشأن
بها مستدراً فيض جود وإحسان

اس منظوم میلاد نامہ کا نام ’’الکوکب الانوار علی عقد الجوھر فی مولد النبی الازھر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے۔

48۔ سید محمد بن حسین حنفی جعفری (1149۔ 1186ھ)
سید محمد بن حسین مدنی علوی حنفی جعفری نے خلفاء راشدین اور اہلِ بیتِ اَطہار کے مناقب پر کافی کتب لکھیں، جن میں الفتح والبشری فی مناقب سیدۃ فاطمۃ الزھراء، قرۃ العین فی بعض مناقب سیدنا الحسین، مناقب الخلفاء الاربعۃ، المواھب العزار فی مناقب سیدنا علی الکرار شامل ہیں۔ آپ نے میلاد شریف کے موضوع پر مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

49۔ شیخ محمد بن احمد عدوی (م 1201ھ)
شیخ احمد بن محمد بن احمد عدوی مالکی مصری ’’دردیر‘‘ کے لقب سے معروف ہیں۔ آپ کا مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مختصر رسالہ مصر سے شائع ہوا جو ’’مولد الدردیر‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ آپ کے علمی مرتبہ کے پیش نظر جامعہ اَزہر کے علماء و مدرسین یہ مولود نامہ درساً پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ الجامعۃ الازہر ابراہیم بن محمد بن احمد بیجوری (م 1198۔ 1277ھ) نے اِس کے اوپر بہت مفید حاشیہ بھی لکھا ہے۔

50۔ اشرف زادہ برسوی (م 1202ھ)
عبد القادر نجیب الدین بن شیخ عز الدین احمد ’’اشرف زادہ برسوی حنفی‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ ان کا ترکی زبان میں شعری دیوان ہے۔ ان کی تصوف پر لکھی گئی کتاب کا نام ’’سر الدوران فی التصوف‘‘ ہے۔ آپ نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

51۔ محمد شاکر عقاد السالمی (م 1202ھ)
محمد شاکر بن علی بن حسن عقاد السالمی نے تذکرۃ اہل الخیر فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا۔

52۔ عبد الرحمان بن محمد مقری (م 1210ھ)
عبد الرحمان بن محمد نحراوی مصری مقری نے حسن بن علی مدابغی (م 1170ھ) کے رسالۃ فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرح لکھی، جس کا عنوان حاشیۃ علی مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للمدابغی ہے۔

53۔ سلامی الازمیری (م 1228ھ)
مصطفیٰ بن اِسماعیل شرحی اَزمیری سلامی نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

54۔ محمد بن علی شنوانی (م 1233ھ)
محمد بن علی مصری اَزہری شافعی شنوانی نے میلاد شریف کے موضوع پر الجواھر السنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے ایک رسالہ تالیف کیا۔

55۔ عبد ﷲ سویدان (م 1234ھ،چشتی)
عبد ﷲ بن علی بن عبد الرحمان دملیجی ضریر مصری شاذلی جو کہ سویدان کے لقب سے معروف تھے، اُنہوں نے مطالع الانوار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔

56۔ ابن صلاح الامیر
سید علی بن ابراہیم بن محمد بن اسماعیل بن صلاح الامیر صنعانی 1171ھ میں پیدا ہوئے اور 1236ھ کے لگ بھگ فوت ہوئے۔ اُنہوں نے تانیس ارباب الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے میلاد نامہ لکھا۔

57۔ اِمام محمد مغربی (م 1240ھ)
اِمام محمد مغربی نام وَر محقق و صوفی اور اکابر اَولیاء میں سے تھے۔ اُنہوں نے ’’المولد النبوي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے مولود نامہ تصنیف کیا ہے جو محدثین کی روایات اور صوفیاء کے اَقوال سے مزین ہے۔

58۔ شیخ ابراہیم بن محمد باجوری (م 1276ھ)
شیخ ابراہیم بن محمد باجوری شافعی مصری نے تحفۃ البشر علی مولد ابن حجر تالیف کیا۔

59۔ شاہ احمد سعید مجددی دہلوی (م 1277ھ)
ہندوستان کی معروف علمی و روحانی شخصیت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی (م 1860ء) نے جشنِ میلاد شریف کے جواز پر ’’اثبات المولد والقیام‘‘ نامی ایک رسالہ تالیف کیا ہے۔

60۔ سید احمد مرزوقی
سید ابو الفوز احمد بن محمد بن رمضان مکی مالکی مرزوقی حرمِ مکہ کے مدرّس تھے۔ آپ نے 1281ھ میں ’’بلوغ المرام لبیان الفاظ مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی شرح مولد احمد البخاری‘‘ تالیف کیا۔ علاوہ ازیں ’’عقیدۃ العوام‘‘ کے نام سے ایک مولود نامہ بھی تحریر کیا، جس کی شرح بھی آپ نے خود ’’تحصیل نیل المرام‘‘ کے نام سے کی۔

61۔ شیخ محمد مظہر بن احمد سعید (م 1301ھ)
شیخ محمد مظہر بن احمد سعید (م 1884ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رسالہ تالیف کیا ہے، جو کہ ’’الرسالۃ السعیدیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

62۔ عبد الہادی اَبیاری (م 1305ھ)
شیخ عبد الہادی اَبیاری مصری نے ’’مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ پر ایک مختصر رسالہ تحریر کیا ہے۔

63۔ عبد الفتاح بن عبد القادر دمشقی (1250۔ 1305ھ)
عبد الفتاح بن عبد القادر بن صالح دمشقی شافعی نے میلاد شریف کے موضوع پر سرور الابرار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کیا۔

64۔ نواب صدیق حسن خان بھوپالی (م 1307ھ)
غیر مقلدین کے نام وَر عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے میلاد شریف کے موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جس کا عنوان ہے : ’’الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔‘‘

65۔ ابراہیم طرابلسی حنفی (م 1308ھ)
ابراہیم بن سید علی طرابلسی حنفی منظوم میلاد نامہ لکھا جس کا عنوان ہے : منظومۃ فی مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

66۔ ہبۃ ﷲ محمد بن عبد القادر دمشقی (م 1311ھ)
ہبۃ ﷲ ابو الفرح محمد بن عبد القادر بن محمد صالح دمشقی شافعی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے رسالہ تالیف کیا۔

67۔ ابو عبد المعطی محمد نویر جاوی (م 1315ھ)
ابو عبد المعطی محمد نویر بن عمر بن عربی بن علی نووی جاوی نے بغیۃ العوام فی شرح مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

68۔ مفتی اَدرنہ محمد فوزی رومی (م 1318ھ)
مفتی اَدرنہ محمد فوزی بن عبد اﷲ رومی نے اثبات المحسنات فی تلاوۃ مولد سید السادات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے میلاد نامہ لکھا۔

69۔ سید اَحمد بن عبد الغنی دمشقی (م 1320ھ)
سید اَحمد بن عبد الغنی بن عمر عابدین دمشقی فقہ حنفی کے نام وَر عالم و محقق اور ’’رد المحتار علی در المختار علی تنویر الابصار‘‘ کے مؤلّف اِمام محمد بن محمد امین بن عابدین شامی دمشقی (1198۔ 1252ھ) کے بھانجے تھے۔ اُنہوں نے اِمام ابن حجر ہیتمی مکی (909۔ 973ھ) کی میلاد شریف کے موضوع پر لکھی کتاب کی ضخیم شرح ’’نثر الدرر علی مولد ابن حجر‘‘ کے عنوان سے لکھی۔

70۔ اِمام احمد رضا خان (1272۔ 1340ھ)
اِمام احمد رضا بن نقی علی خاں قادری بریلوی (1886۔ 1921ء) میلاد شریف کے موضوع پر درج ذیل دو کتب تالیف کی ہیں :
1. نطق الهلال بارخ ولادة الحبيب والوصال
2. إقامة القيامة علي طاعن القيام لنبي تهامة صلي الله عليه وآله وسلم

71۔ محمدبن جعفر کتانی (م 1345ھ)
عارف باللہ سید شریف محمد بن جعفر کتانی بہت بڑے محدث اور معتمد تھے۔ آپ کا مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک رسالہ ’’الیمن والاسعاد بمولد خیر العباد‘‘ ہے۔ یہ ساٹھ (60) صفحات پر مشتمل اور جدید و تاریخی تحقیقات سے بھرپور رسالہ ہے۔

72۔ اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی (1265۔ 1350ھ)
عالم عرب کے معروف محدّث و سیرت نگار اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ’’جواہر النظم البدیع فی مولد الشفیع صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے منظوم کتاب لکھی ہے۔

73۔ مولانا اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ)
حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی (1863۔ 1943ء) نام وَر دیوبندی عالم تھے۔ سیرتِ طیبہ پر آپ کی کتاب۔ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ کے آغاز میں ہی تخلیقِ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور واقعاتِ ولادت بالتفصیل ذکر کیے گئے ہیں۔ آپ نے ’’طریقۂ مولود‘‘ بھی ترتیب دیا ہے۔

74۔ شیخ محمود عطار دمشقی (1284۔ 1362ھ)
شیخ محمود بن محمد رشید عطار حنفی دمشق کے نام وَر عالم و محدّث تھے۔ آپ نے اپنے وقت کے کبار اساتذہ وشیوخ سے علم حاصل کیا اور دمشق کے علماء کا شمار آپ کے شاگردوں یا آپ کے شاگردوں کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رسالہ ’’استحاب القیام عند ذکر ولادتہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ تالیف کیا ہے۔

75۔ اِمام محمد زاہد کوثری (1296۔ 1371ھ)
عالم عرب کی معروف علمی شخصیت علامہ مجدد اِمام محمد زاہد کوثری نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز پر مختلف مقالہ جات لکھے ہیں۔

76۔ عبد اﷲ بن محمد ہرری (م 1389ھ)
عبد ﷲ بن محمد شیبی عبدری ہرری حبشی (م 1969ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت دو رسائل تالیف کیے ہیں:
1. کتاب المولد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. الروائح الزکية في مولد خير البرية صلي الله عليه وآله وسلم

77۔ شیخ محمد رشید رضا مصری
مصر کے معروف مؤرّخ، مشہور محقق، محدث، مفسر اور تاریخ دان شیخ محمد رشید رضا نے میلاد پر ایک کتاب تحریر کی جس کا نام ہے : ’’ذکر المولد وخلاصۃ السیرۃ النبویۃ وحقیقۃ الدعوۃ الاسلامیۃ۔‘‘

78۔ شیخ محمد بن علوی مالکی مکی (م 1425ھ)
مکہ مکرمہ کے نام وَر محدث اور عالم شیخ محمد بن علوی مالکی مکی (م 2004ء) نے میلاد شریف کی بابت اجل اَئمہ کرام کے درج ذیل تین رسائل کامجموعہ تالیف کرکے طبع کرایا ہے :
1۔ ابن کثیر، ذکر مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و رضاعہ
2۔ ملا علی قاری، المورد الروی فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اِس رسالہ پر اِمام علوی مالکی کی تعلیقات و تحقیق بھی شامل ہے۔)
3۔ ابن حجر ہیتمی مکی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اُنہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ایک رسالہ بہ عنوان ’’حول الاحتفال بذکری المولد النبوی الشریف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ بھی تالیف کیا ہے۔ علاوہ ازیں جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز پر مختلف ائمہ و علماء کے فتاوی جات کا مجموعہ بھی ترتیب دیا ہے، جس کا عنوان ہے : ’’الاعلام بفتاوی ائمۃ الاسلام حول مولدہ علیہ الصلاۃ والسلام۔‘‘

79۔ شیخ عبد العزیز بن محمد
شیخ عبد العزیز بن محمد ایک عظیم محقق اور وزارت ’’الامر بالمعروف والنہی عن المنکر‘‘ کے رئیس العام تھے۔ انہوں نے جشنِ میلاد پر ایک کتاب بہ عنوان’’بعثۃ المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔

80۔ سید ماضی ابو العزائم
آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ’’بشائر الاخیار فی مولد المختار‘‘ لکھی ہے۔ اِس میں اُنہوں نے نورِ نبوت کی تخلیق اور ظہور کا ذکر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعت، نبوت اور دیگر انبیائے کرام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کے بیان کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد شریف منانے پر بھی دلائل دیے ہیں۔

81۔ سید محمد عثمان میرغنی
آپ نے میلاد کے موضوع پر ایک رسالہ بہ عنوان ’’الاسرار الربانیۃ المعروف ب : مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے بیان پر مشتمل اِس رسالہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب و ولادت اور حیاتِ طیبہ کے دیگر پہلؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

محمد بن محمد منصوری شافعی خیاط نے ابن حجر ہیتمی کی میلاد شریف کے موضوع پر تالیف کردہ کتاب کی شرح اقتناص الشوارد من موارد الموارد کے نام سے لکھی۔
احمد بن قاسم مالکی بخاری حریری، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو حسن بکری، الانوار فی مولد النبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابراہیم اَبیاری، مولد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
صلاح الدین ہواری، المولد النبوی الشریف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو محمد ویلتوری، ابتغاء الوصول لحب اﷲ بمدح الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
زین الدین مخدوم فنانی، البنیان المرصوص فی شرح المولد المنقوص
عبد ﷲ عفیفی، المولد النبوی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عبد ﷲ حمصی شاذلی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ خالد بن والدی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد وفا صیادی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمود محفوظ دمشقی شافعی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ عبد ﷲ بن محمد مناوی شاذلی، مولد الجلیل حسن الشکل الجمیل
حافظ عبد الرحمٰن بن علی شیبانی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سید عبد القادر اسکندرانی، الحقائق فی قراء ۃ مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محمد بن محمد دمیاطی، مولد العزب
شیخ محمد ہاشم رفاعی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد ہشام قبانی، المولد فی الاسلام بین البدعۃ والایمان
سعید بن مسعود بن محمد کازرونی، تعریب المتقی فی سیر مولد النبی المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد نوری بن عمر بن عربی بن علی نووی شافعی، الابریز الدانی فی مولد سیدنا محمد العدنانی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد نوری بن عمر بن عربی بن علی نووی شافعی، بغیۃ العوام فی شرح مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
زین العابدین محمد عباسی، الجمع الزاہر المنیر فی ذکر مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو شاکر عبد اﷲ شلبی، الدر المنظم شرح الکنز المطلسم فی مولد النبی المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،(چشتی)۔
سیف الدین ابو جعفر عمر بن ایوب بن عمر حمیری ترکمانی دمشقی حنفی، الدر النظیم فی مولد النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو ہاشم محمد شریف النوری، احراز المزیۃ فی مولد النبی خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بدر الدین یوسف المغربی، فتح القدیر فی شرح مولد الدردیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو الفتوح الحلبی، الفوائد البہیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سویدان عبد اللہ بن علی الدملیجی المصری، مطالع الانوار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابن علان محمد علی الصدیقی المکی، مورد الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سید محمد بن خلیل الطرابلسی المعروف بالقاوقجی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن محمد العطار الجزائری، الورد العذب المبین فی مولد سید الخلق اجمعین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو الحسن احمد بن عبد ﷲ البکری، کتاب الانوار ومفتاح السرور والافکار فی مولد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
احمد بن علی بن سعید، طل الغمامۃ فی مولد سید تہامۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابن الشیخ آق شمس دین حمد اللہ، المولد الجسمانی والمورد الروحانی
محمد بن حسن بن محمد بن احمد بن جمال الدین خلوتی سمنودی، الدر الثمین فی مولد سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

میلاد کے لغوی اور اصطلاحی معنی محافل منعقد کرکے میلاد کا تذکرہ کرنا ہے جو ہم نے مذکورہ احادیث مبارکہ سے ثابت کیا ہے۔ آپ لوگ میلاد کی نفی میں ایک حدیث لاکر دکھادو ، جس میں واضح طور پر یہ لکھا ہو کہ میلاد نہ منایا جائے ۔ حالانکہ کئی ایسے کام ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے نہیں کئے مگر ہم اسے کرتے ہیں کیونکہ اس کام کے کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے لہٰذا وہ کام جائز ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>

میلاد پہ اعتراض بد بختی کی علامت

میلاد پہ اعتراض بد بختی کی علامت

میلاد منانا سنت الٰہیہ،سنت انبیاء کرام ،سنت صحابہ ،طریقہ سلف صالحین ہے اور اس پر اعتراض کرنا شیطان اور اس کی روحانی اولاد کا وطیرہ رہا ہے

علامہ ابنِ کثیر البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں:
شیطان چار بار رویا ہے 
1:جب لعنتی ہوا 2: جب زمین پر اتارا گیا 3: جب رسولِ خدا صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت باسعادت ہوئی 4: جب سورہ فاتحہ نازل کی گئی۔
(البدایہ والنہایہ ٣٦٦/٢)

امام ابن جوزی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
یہ عمل(میلاد منانا) ابلیس کو ذلیل کرنے اور اہل ایمان کے یقین میں اضافہ کرنے کے لئے ہے۔
(انوارِ میلاد النبی،ص55)

امام جزری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
ان امور (محفلِ میلاد کے انتظام) کی بجا آوری سے صرف شیطان کی تذلیل اور اہل ایمان کی مسرت و شادمانی مقصود ہو
(انوارِ میلاد النبی)

حضرت شاہ ابوالحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ربیع الاول کے دن و رات میں محفلِ میلاد کا منعقد کرنا بشرطیکہ ممنوعات شرعیہ سے پاک ہو ،ہزارہا خیر وبرکات کا موجب ہے اور بوقت ولادت شریفہ کے ذکر کے قیام کرنا جائز و درست ہے بلکہ عشق و محبت کی علامت ہے اور اس محفل پاک کا انکار کرنا شقاوت و بدبختی کی علامت ہے۔

(سراج العوارف،ص215)

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سلامتی اور تشریف آوری کی خوشی منانا عبادت مستحبہ ہے لہذامیلاد شریف معراج شریف وغیرہ کی تاریخوں میں عید منانا خوشیاں کرنا عبادت ہے
(مرآة المناجيح ٢٩٠/٨)
مکمل تحریر >>

میلادالنبی پر شیطان کا رونا چیخنا چلانا ٭

میلادالنبی پر شیطان کا رونا چیخنا چلانا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : امام یوسف صالح شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرت خیر العباد  جلد اول باب سوم کا ترجمہ)

امام ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 430 ہجری لکھتے ہیں :ابلیس(شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (حلیۃ الاولیاء جز ثالث صفحہ نمبر 299 عربی)

علامہ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ میں لکھتے ہیں : أَنَّ إِبْلِیسَ رَنَّ أَرْبَعَ رَنَّاتٍ حِینَ لُعِنَ، وَحِینَ أُہْبِطَ، وَحِینَ وُلِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَحِینَ أُنْزِلَتِ الْفَاتِحَۃُ ۔
ترجمہ : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (بحوالہ البدایۃ والنہایۃ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 391،چشتی)

علامہ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ میں لکھتے ہیں : أَنَّ إِبْلِیسَ رَنَّ أَرْبَعَ رَنَّاتٍ حِینَ لُعِنَ، وَحِینَ أُہْبِطَ، وَحِینَ وُلِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَحِینَ أُنْزِلَتِ الْفَاتِحَۃُ ۔
ترجمہ : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (بحوالہ البدایۃ والنہایۃ مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 723)

علامہ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ میں لکھتے ہیں : أَنَّ إِبْلِیسَ رَنَّ أَرْبَعَ رَنَّاتٍ حِینَ لُعِنَ، وَحِینَ أُہْبِطَ، وَحِینَ وُلِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَحِینَ أُنْزِلَتِ الْفَاتِحَۃُ ۔
ترجمہ : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (بحوالہ البدایۃ والنہایۃ مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 166،چشتی)

امام ابو طاہر بن یعقوب فیروز آبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :ابلیس(شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (بصائر ذوی التمیز  فی لطائف کتاب العزیز جلد نمبر 1صفحہ 132)

امام ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابلیس(شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (لطائف المعارف صفحہ نمبر 334،چشتی)

امام محمد بن عبد اللہ شبلی دمشقی  حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (آکام المرجان فی احکام الجان صفحہ نمبر 179)

امام محدث عبد الرّحمٰن سہیلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (الرّوضُ الاُنُف فی شرحالسّیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 149 عربی)

امام المفسرین و مشہور تابعی امام مجاہد المتوفی 122 ھ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد محترم مشہور صحابی رسول مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آپ نے فرمایا : بے شک ابلیس یعنی شیطان چار بار غم اور حزن کی کیفیت کی وجہ سے رویا : پہلی بار اس وقت روہا جب اس پر اللہ کی لعنت ہوئی ۔ دوسری بار اس وقت رویا جب اسے جنت سے نکالا گیا ۔ تیسری بار اس وقت رویا جب حضور خاتم النبیین والمرسلین کی ولادت ہوئی ۔ چوتھی بار اس وقت رویا جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ اس روایت کو مفسرین نے سورۃ الفاتحہ کے شان نزول میں بیان فرمایا ہے ۔ اور امام ابن کثیر نے شب ولادت کے واقعات کے باب میں ذکر فرمایا ہے  (البدایہ والنھایہ لابن کثیر 9/224-225)

اس سے ملتے جلتے الفاظ اور بھی ہیں جسے بحار الانوار میں ملا باقر مجلسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام المتوفی 148ھ سے نقل کیا ہے کہ : ابلیس یعنی شیطان چار بار غم اور حزن کی کیفیت کی وجہ سے روہا ۔ پہلی بار اس وقت روہا جب اس پر اللہ کی لعنت ہوئی ۔ دوسری بار اس وقت رویا جب اسے زمین پر اتارا گیا ۔ تیسری بار اس وقت رویا جب اللہ نے اپنے محبوب حضور خاتم النبیین والمرسلین کو مبعوث فرمایا ۔ چوتھی دفعہ اس وقت رویا جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ اور مزید فرمایا کہ : ابلیس یعنی شیطان دو بار بہت زور سے چلایا ۔ پہلی بار اس وقت جب حضرت آدم علیہ السلام نے شجرہ ممنوعہ سے کھایا ۔ دوسری بار اس وقت حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا گیا (بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار عليهم السلام  : 11 / 204)

شاید اسی لیے مفسر قرآن و شارح الحدیث مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے یہ شعر فرمایا :

نثار تیری چہل پہل پر ، ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں ، سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں

اب جس کا دل چاہے بارہ (12) ربیع الاول کو ابلیس کے ساتھ رہ کرگزارے اور جس کا دل چاہے ، امت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محفل میلاد منعقد کرتے ہوئے اظہار مسرت کرے ۔

خاتم المرسلین رحمۃالعالمین ، شفیع المذنبین ، انیس الغریبن ، سراج السالکین ،محبوب رب العالمین ، جناب صادق و امین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم12 ربیع الاول کو صبح صادق کے وقت جہاں میں تشریف لائے اور آکر بے سہاروں ، غم کے ماروں ، دکھیاروں ۔ دل فگاروں ۔ اور دَر دَرکی ٹھوکریں کھانے والے بیچاروں کی شام غریباں کو صبح بہاراں بنادیا۔

مسلمانوں صبح بہاراںمبارک
وہ برساتے انوا رسرکار آئے

ماہِ میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آتے ہی !کیابچے ،کیا بوڑھے ،کیا جوان سب فکروعُسرت کو بھول کر جشن میں منہمک ہوجاتے ہیں۔ہرلب پرمرحبا یا مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صدائےں ہوتی ہیں ، مسجدوں میں ،گھروںمیں! کثرت عبادت،نوافل کی کثرت، قرآن کریم کی تلاوت امت مسلمہ میںامنڈآنے والی سخاوت اس ماہ کی تعظیم و تکریم کو مزید بزرگی عطا کرتی ہے ۔

قابلِ رشک بات یہ ہے کہ اس ماہ کی آمد ہوتے ہی اس کی تیاری میںعشاق مشغول ہوجاتے ہیں ، معاملات زندگی کو معمول سے قلیل کردیا جاتا ہے۔اورہر گلی ہر محلہ کو رنگ برنگے برقی قمقوں سے سجایا جاتا۔ گزرتے ماہ کے آخری دن نماز مغرب کی ادائیگی کے بعدعشاق کی نگاہ آسمان پر کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے ،کان کچھ سننے کو بیتاب ہوتے ہیں کہ یکایک طلوع ہلال کی نویدچہروں کو مزید چمکادیتی ہے ،قلب جھوم جھوم کر مرحبا ماہ نور پکارتے ہیں، ہاتھ دعا کیلئے بلند ہوجاتے ہیں ،چہرے خوشی سے کھل جاتے ہیں ۔اور ہر سمت تبریک کی فِضا چھاجاتی ہے۔

اس مہینے کو ربیع الاول،ربیع النور،ماہ نوراور ماہ جشن ولادت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جیسے ناموں سے پکارا جاتاہے کیونکہ اسی مہینے کی ١٢ تاریخ کو سرکار مکہ و مدینہ، راحت و قلب و سینہ، فیض گنجینہ، صاحب معطر پسینہ، باعث نزول سکینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ عشاق رسول اس دن کو بڑے ادب و احترام کے ساتھ مناتے ہیں اورہر طر ف جشن ولادت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سماء ہوتا ہے ۔ میلادمصطفی ٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ آئیے اس پر تفصیلی گفتگو کرتے ہیں ۔۔۔ میلاد کیا ہے ؟ ور میلاد منانے کی شرعی حیثیت ؟

میلاد کیا ہے ؟

میلاد عرف عام میں ذکرمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام ہے خواہ دو آدمی مل کر کریں یا ہزاروں اور لاکھوں ۔ اور ذکر حبیب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میلاد کی روح رواں ہے بقیہ چیزیں لوازمات میں سے نہیں البتہ مناسبات سے ہو سکتی ہیں۔ لہذا جو اصلِ ذکر مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہی مُنکِر ہے وہ کافر ہے اور جو مخصوص ہیئت کا منکر ہے وہ جاہل یا گمراہ ۔

میلاد شریف کا جواز بکثرت آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ اگرچہ جواز کے لئے یہ دلیل بھی کافی ہے۔ کہ اس کی ممانعت شرع سے ثابت نہیں ہے۔ اور جس کام سے اللہ تعالیٰ اور رسول پاک ؐ نے منع نہیں فرمایا وہ کسی کے منع کرنے سے منع نہیں ہوسکتا ۔ اس کے علاو ہ میلاد کے جواز و استحسان پر دلائل ملاحظہ فرمائیں

ذکرِ رسول اکرم، نورمجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آیات مبارکہ سے سنیے اللہ عزوجل نے فرمایا آیت نمبر ( ا ) واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب و حکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ و لتنصرنہ قال أ اقررتم واخذتم علی ذلک اصری قالوا اقررنا قال فاشھدوا وانا معکم من الشاھدین ( سورۃ آل عمران آیت نمبر ٨١ ) '' اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمھارے پاس وہ رسول کہ تمھار ی کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اسکی مدد کرنا فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا۔ سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں ''

اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں۔
(١) اللہ تعالیٰ نے حضور پر نورشافع یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر کے لئے سب کو جمع فرمایا۔
(٢) انبیاء کے اجتماع میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماںصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کا تذکرہ فرمایا۔
(٣) انبیاء کے اجتماع میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت و شان مصدق لما معکم کے ساتھ بیان فرمائی۔
(٤) نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت وحمایت و نصرت پر انبیاء علیھم السلام سے عہد لیا۔
(٥) انبیاء کرام علیھم السلام کے اجتماع میں آمدمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور بعثت و رسالت و عظمت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی اور انبیاء کرام علیھم السلام سامعین تھے۔
اب غو رکریں اس سے بڑھ کر میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محفل اور کیا ہوگی ۔ مسلمان بھی تو اپنے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت کے اظہار کے لئے یہی کرتے ہیں۔ اگر ان پر حرمت کافتوی ہے تو مذکورہ محفل کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

آیت نمبر ٢ : لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف رحیم ۔ ( سورۃ التوبہ )
'' بے شک تمھارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمھارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمھاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمالِ مہربان مہربان ''

اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں ۔
(١) (جاء کم) سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیآمد کا تذکرہ ہے۔
(٢) (من انفسکم) سے سرکا ردوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشریت مبارکہ اور نسب مبارکہ کا ذکر ہے۔
(٣) (عزیز علیہ ماعنتم) سے امت پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفقت کا ذکر ہے۔
(٤) (حریص علیکم اور بالمومنین رؤوف رحیم) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عظمت و شان کا تذکرہ ہے ۔ یہ آیت بھی شاندار طریقے سے میلاد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا طریقہ بتارہی ہے۔ کیا تلاوت قرآن کے وقت یہ آیت پڑھنا جائز اور چند لوگوں کے سامنے پڑھنا ناجائز و حرام ہے ۔؟ ہرگز نہیں بلکہ خدا عقل دے تو غور کریں کہ عین نماز میں اگر امام صاحب یہ آیت بلند آواز میں تلاوت کریں تو حالت نماز میں میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر ہوا یا نہیں ؟ اور جب جماعت موجود ہے تو اجتماع و محفل خود بخود پائی گئی ۔ لہذا اسکا انکار نہ کرے گا مگر وہ جو نماز میں تلاوت قرآن کا ہی منکر ہو۔

آیت نمبر (٣) اللہ عزوجل نے فرمایا وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین (سورۃ الانبیاء آیت ١٠٧ )'' اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے ''

آیت نمبر (٤) لقد من اﷲ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین (سورۃ آل عمران ١٦٤ )'' بے شک اللہ کا بڑا اسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اسکی آیتیں پڑھتا ہے۔ اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور لوگ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

آیت نمبر ٥ : وبشر المومنین بان لھم من ﷲ فضلا کبیرا (سورۃ الاحزاب آیت ٤٧ ) '' اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لئے اللہ کا بڑا فضل ہے۔''

ان آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ عزوجل کا فضل و احسان اور رحمت ہیں۔ اب فضل و رحمت کے بارے میں فرمان الہی سنئے۔

آیت نمبر ٦ :قل بفضل ﷲ و برحمتہ فبذلک فلیفرحوا ھو خیر مما یجمعون (سورۃ یونس آیت ٥٨،چشتی)
'' تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے ''
اس آیت سے معلوم ہوا کہ فضل و رحمت پر خوشی کرنا چاہیے لہذا مسلمان حضور انور، شافع محشر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فضل ورحمت جان کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر کرکے خوشی مناتے ہیں۔ اور یہ حکم الہی ہے۔

آیت نمبر ٧ :مندرجہ بالا آیات کریمہ سے معلوم ہے کہ نبی کریم ؐ اللہ کی نعمت ہیں اور نعمت الہی پر حکم الہی ہے واما بنعمۃ ربک فحدث
(سورۃ والضحی آیت ١١) '' اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ''

نبی کریم ، رؤوف رحیم، حلیم کریم عظیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہیں اور نعمت الہی کا چرچا کرنا حکم خداوندی ہے۔ لہذا مسلمان حبیب اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو نعمت الہی سمجھتے ہوئے محفل میلاد کی صورت میں اسکا چرچا کرتے ہیں۔

آیت نمبر ٨ : اللہ عزوجل نے فرمایا ورفعنا لک ذکرک (سورۃ الم نشرح آیت ٤ ) '' اور ہم نے تمھارے لئے تمھارا ذکر بلند کردیا '' ۔

اللہ عزوجل نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر پاک کو بلند کیا۔ اور میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی اسی رفعت ذکر کا ایک طریقہ ہے۔ اور سنت خدا عزوجل ہے۔ مسلمان تو محفلوں میں اور جلسوں میں میلاد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کرکے رفعت ذکر اقدس کرتے ہیں ۔ وہابیہ کے نزدیک شاید ذکر اقدس کی آیتوں کو چھپانا مٹانا،ذکر شریف کرنے والوں کو روکنا ، گالیاں دینا، مشرک و بدعتی کہنا ، ان کے خلاف جلسے جلوس کرنا ، ذکر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خلاف کتابیں لکھنا، تقریریں کرنا ہی رفعت ذکر ہے۔ اسی لئے دن رات اسی میں مصروف رہتے ہیں۔

وہ حبیب پیارا تو عمر بھر کرے فیض وجود ہی سر بسر
ارے تجھ کو کھائے تپ سقر تیرے دل میں کس سے بخار ہے
کریں مصطفی کی اہانتیں کھلے بندوں اس پر یہ جرأتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں
ذکر روکے فضل کاٹے نقص کا جویاں رہے
پھر کہے مردک کہ ہوں امت رسول اللہ کی ۔ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

دلیل نمبر ٩ : میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محفل حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمکی تعظیم و محبت کے لئے منعقد کی جاتی ہے۔ اور جان جہاں، جانِ ایمان ، رحمت عالمیاں، محبوب رحمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم ومحبت اصل ایمان ہے تو جو عمل اس تعظیم و محبت کے اضافہ کے لئے کیا جائے وہ یقینا محبوب و مرغوب ہے اور ایسے کام سے بغض نہ رکھے گا مگر وہ جو اصلِ ایمان کا دشمن ہے۔ او راصلِ ایمان کا دشمن نہیں مگر وہ جو تعظیم آدم علیہ السلام نہ کرنے کی وجہ سے زمین پر دھتکارا گیا، اور فاخرج فانک رجیم کے لقب سے سرفراز ہوا یا ایسے لقب والے کے پیروکار۔ اللہ عزوجل نے فرمایا ''
انا ارسلنک شاھدا و مبشراو نذیرا ۔ لتؤمنوا باﷲ و رسولہ وتعزروہ وتوقروہ'' (سورۃ الفتح آیت ٨، ٩ )
'' بے شک ہم نے تمھیں بھیجا حاضر وناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو''

نیز فرمایا قل ان کان ابائکم وابنائکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموھا وتجارۃ تخشون کسادھا ومسکن ترضونھا احب الیکم من ﷲ ورسولہ وجھاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی ﷲبامرہ ( سورۃ التوبۃ ٢٤)
'' تم فرماؤ اگرتمـھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری عورتیں اور تمھارا کنبہ اور تمھاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمھیں ڈر ہے۔ اور تمھارے پسند کا مکان یہ چیزیں اللہ اور اسکے رسول اور اسکی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے ''

ان دو آیتوں سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور محبت کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ اور ہر وہ چیز جو محبت و تعظیم پر دلالت کرے وہ اس آیت کے تحت داخل ہے۔ اور محفل میلاد مصطفیصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چونکہ اسی تعظیم و محبت کی علامت ہے لہذا مستحسن و مستحب ہے۔

دلیل نمبر ١٠ : قال عیسی ابن مریم اللھم ربنا انزل علینا مائدۃ من السماء تکون لنا عیدا لاولنا واخرنا وایۃ منہ ۔ ( سورۃ المائدۃ ١١٤ )
''عیسی بن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ہمارےاگلوں پچھلوں کی اور تیرے طرف سے نشانی ''

اس آیت سے معلوم ہوا کہ خوان اترنا نعمت ہے۔ اور اللہ کی طرف سے نشانی اور لوگوں کے لئے وہ عید کا دن ہے اگر خوان نعمت کا اترنا نعمت تو جان نعمت کا تشریف لانا اس سے کروڑہا گنا بڑی نعمت ہے۔ اور خوان اللہ تعالٰی کی نشانی ہے تو حضور رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے بڑھکر اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے ۔خوان اترنے پر خوشی منانا جائز اور اس دن کو عید بنانا جائز ہے تو سرکار دوعالمصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تشریف لانے پر خوشی منانا جائز اور اس دن کو عید بنانا جائز ہے۔

یہ اختصار وعجلت کے ساتھ دس دلیلیں ہیں۔ اگر کسی میں عقل و فہم کی دولت ہے تو ان کو پڑھ کر میلاد خوانی کا جواز مان لے گا اور بے عقل کے لئے راستے بہت ہیں۔ ہزار دلیل کے بعد بھی کہہ سکتا '' دل نہیں مانتا ''۔

اب ذیل میں دی جانے والی بحث غور سے پڑھئے اور انکار کرنے والوں کے بارے میں سوچیں کہ کس گروہ سے ہیں۔

اللہ عزوجل نے فرمایا ، ان فرعون علا فی الارض وجعل اھلھا شیعا یستضعف طائفۃ منھم یذبح ابنائھم ویستحیٖ نسائھم انہ کان من المفسدین (٤) و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم ائمۃ و نجعلھم الوارلاثین (٥) واوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ فاذا خفت علیہ فالقیہ فی الیم ولا تخافی ولا تحزنی انا رادوہ الیہ وجاعلوہ من المرسلین (٧) فالتقطہ ال فرعون لیکون اھم عدوا و حزنا ان فرعون و ھمن و جنودھماکانوخطئین (٨) وقالت امرئۃ فرعون قرۃ عینی لی ولک لاتقتلوہ عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا و ھم لا یشعرون (٩)
'' بیشک فرعون نے زمین میں غلبہ پایا تھا۔ اور اس نے لوگوں کو اپنا تابع بنایا ان میں ایک گروہ کو کمزور دیکھا ان کے بیٹوں کو ذبح کر تا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا ۔ بے شک وہ فسادی تھا۔ اور ہم چاہتے تھے کہ ان کمزوروں پر احسان فرمائیں اور ان کو پیشوا بنائیں۔ اور ان کے ملک و مال کا انہیں کو وارث بنائیں۔ اور ہم نے موسی کی ماں کو الہام فرمایا کہ اسے دودھ پلا۔ پھر جب تجھے اس سے اندیشہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر اور نہ غم کر بیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں گے اور اسے رسول بنائیں گے۔ تو اسے اٹھالیا فرعون کے گھر والوں نے کہ وہ ان کا دشمن اور ان پر غم ہو۔

بیشک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے اور فرعون کی بی بی نے کہا یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اسے قتل نہ کرو شاید یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ بے خبر تھے ''(سورۃ القصص ترجمہ کنزالایمان )

اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں ۔ (١) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت فرعون بادشاہ وقت تھا (٢) وہ بچوں کو ذبح کرتا اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیتا (٣) اللہ تعالیٰ نے کمزوروں اور مظلوموں پر احسان کرنے کا ارادہ فرمایا (٤) موسی علیہ السلام کی پیدائش ان کٹھن حالاتمیں ہوئی (٥) حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ پریشان ہوئیں (٦) اللہ تعالٰی نے دودھ پلانے کا انہیں الہام فرمایا (٧) اور بصورت خطرہ دریا میں ڈالنے کا حکم دیا (٨) اُمِ دوسی کو حضرت موسی علیہ السلام کے واپس ملنے اور رسول بنانے کی بشارت دی (٩) دریا سے فرعون کی بیوی نےآپ علیہ السلام کو اٹھالیا (١٠) فرعون کی بیوی نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈکقرار دیا (١١) حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا بچپن فرعون کے پاس گذارا (١٢) فرعون نے آپ کے قتل کا ارادہ کیا تو بیوی نے منع کردیا۔

سورۃ القصص پوری پڑھ لیں موسی علیہ السلام کے میلاد سے لیکر نبوت کے بعد تک کے واقعات ہی ملیں گے۔ مزید سنئے اللہ عزوجل نے فرمایا۔ واذکر فی الکتب مریم اذا انتبذت من اھلھا مکانا شرقیا الی ذٰلک عیسی ابن مریم ۔ سورۃ مریم آیت ١٦ سے لیکر آیت نمبر ٣٤ تک پڑھ لیں ۔ مندرجہ ذیل باتیں صراحۃً معلوم ہوجائیں گی (١) حضرت مریم رضی اللہ عنھا اپنے گھر والوں سے مشرق کی طرف چلی گئیں (٢) گھر والوںسے پردہ کرلیا (٣) حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک انسانی جوان صورت میں ان کے پاس آئے (٤) حضرت مریم رضی اللہ عنھا نے ان سے پناہ مانگی (٥) حضرت جبریئل امین علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنھا کو بچے کی خوشخبری دی (٦) حضرت مریم بن باپ کے بچہ پیدا ہونے پر پریشان ہوئیں (٧) حضرت عیسی علیہ السلام حمل میں تشریف لائے (٨) حضرت مریم دوران حمل ایک دور جگہ پر چلی گئیں (٩) درد زہ شروع ہوگیا (١٠) آپ رضی اللہ عنھا ایک کھجور کے درخت کے پاس آگئیں (١١) حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی (١٢) بعد ولادت حضرت مریم رضی اللہ عنھا نے ایک خشک تنے کو ہلایا تو اس سے تروتازہ کھجوریں گرنے لگیں (١٣) اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت مریم رضی اللہ عنھا کو چپ کاروزہ رکھنے کا حکم دیا گیا (١٤) حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش پر لوگوں نے حضرت مریم کو طعنے دیئے (١٥) حضرت عیسی علیہ السلام نے گود میں کلام فرمایا اور اپنے صاحب کتاب اور نبی ہونے اور اپنی والدہ کی طہارت کا اعلان فرمایا ۔

ان دونوں جگہوں کی آیات کو پڑھ کر غور فرمائیں کہ ولادت کی وہ کونسی چیز ہے جو قابل ذکر تھی اور اسے ذکر نہ کیا گیا ۔ اس زمانہ کے حالات ، پیدائش کے حالات، پیدائش کے بعد کے واقعات بالتفصیل مذکور ہیں اب سوال ہے کہ ان آیات کو بمع ترجمہ وتفسیر مجمع عام میں بیان کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ کوئی وہابی دیوبندی اسے ناجائز نہ کہے گا۔ لہذا اگر جائز کہے اور یقینا جائز ہی کہے گا۔ تو سوال ہے ۔ کہ کیا جو حالات و واقعات کی تفصیل حضرت موسی و عیسی علیھما الصلٰوۃ والسلام کے میلاد مبارک کی جائز ہے۔ حضور اکرم سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمکے میلاد مبارک کو اس طرح حالات و واقعات کی تفصیل کے ساتھ بیان کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز مانو تو ہمارا مدّعا ثابت کہ محفل میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمجائز ہے۔ اور اگر ناجائز مانو تو بھی ہمارا مقصد حاصل ہوگیاکہ میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر کرنا مسلمان کا کام ہے غیر کا نہیں اور حضرت موسی و عیسی علیھما الصلٰوۃ والسلام کی میلاد خوانی کو جائز سمجھنا اور سید الانبیاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمکی میلاد خوانی کو ناجائز کہنا یقینا کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں کا یا ان کے ایجنٹوں کا کام ہوسکتا ہے۔

منکرین میلاد پر ایک اور بھاری سوال ابھی باقی ہے۔ وہ بھی سنئے۔

غیر مقلدوہابی اور دیوبندی حضرات سیرت النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جلسے کرتے ہیں اس کی ہیئت کذائیہ یہ ہوتی ہے (١) اشتہار چھاپنا (٢) اسپر مولویوں کے نام لکھنا (٣)ا سپیکر میں جلسے کا اعلان کرنا(٤) وقت مقررہ پر لوگوں کا آنا (٥) معین مولوی صاحب کا معین دن میں معین وقت پرا سپیکر میں منبر پر بیٹھ کر تقریر سے پہلے اسٹیج سیکٹری کا مولوی صاحب کو عجیب و غریب القاب دیکر بلانا جن کا ذکر احادیث و آیات میں کہیں نہیں مثلًاشیخ القرآن ، شیخ الحدیث ، مفسر و فاتحِ فلاں فلاں وغیرہ۔ کیا یہ جلسے جائز ہیں یا نہیں ؟ جائز نہیں تو کیا سب دیوبندی وہابی حرام کے مرتکب ہیں اور اگر جائز ہے تو میلاد خوانی جو انہی امور پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ ناجائز کیوں اور یہ جلسے جائز کیوں ؟

نیز میلاد ، سیرت کا پہلا باب ہے تو کیا وجہ کہ سیرت تو جائز لیکن سیرت کا پہلا باب بیان کرنا ناجائز ؟نیزمیلاد مبارک کی تفصیل محدثین و مؤرخین نے کتب احادیث و سیرت و تاریخ میں جگہ جگہ بیان کی ہے۔ جب کہ ترمذی میں باب ہے۔ باب ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (ترمذی شریف جلد ٢ ص ٢٠١ مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان،چشتی٭ کیا میلاد مبارک کو تحریر کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو محدثین و مؤرخین نے کیا حرام کا ارتکاب کیا ؟ اور اگر میلاد مبارک کو لکھنا جائز ہے تو زبانی بیان کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو مدعا حاصل کہ میلاد خوانی جائز اور اگر جواب نہیں میں ہے تو کیا وجہ ہے کہ تحریرِ میلاد جائز اور تقریر میلاد ناجائز ؟وجہ فرق بیان کریں ۔

الغرض اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جائز قرار دیا جائے ۔

ایک بات واجب الحفظ ہے کہ یہ ساری بحث اس میلاد خوانی کے بارے میں ہے جو خلاف شرع کاموں سے خالی ہو ۔ اور اگر کوئی خلاف شرع کام میلاد خوانی میں پایا جائے تو میلاد خوانی جائز رہی گی اور خلافِ شرع کام ناجائز رہے گا ۔ حیسے شادیوں میں کئی حرام کام شامل ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود شادی کرنا جائز اور ناجائز کام حرام رہیں گے۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مکمل تحریر >>