Pages

Friday 31 March 2017

نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کی پہچان احادیث مبارکہ کی روشنی میں

نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کی پہچان احادیث مبارکہ کی روشنی میں
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ یقول: بعث علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ الی رسول اللہ ﷺ من الیمن بذھیبۃ فی ادیم مقروظ لم تحصل من ترابھا ۔قال:فقسمہا بین اربعۃ نفر بین عیینۃ ابن بدر و اقرع بن حابس و زید الخیل والرابع اما علقمۃ و اما عامر بن الطفیل ،فقال رجل من اصحابہ:کنا نحن احق بھذا من ھٰؤلاء قال:فبلغ ذلک النبی ﷺ فقال: ألا تأ منونی وانا امین من فی السماء یاتینی خبر السماء صباحا و مسائََ ، قال:فقام رجل غائر العینین ،مشرف الوجنتین،ناشز الجبھۃ ،کث اللحیۃ ،محلوق الرأس ،مشمر الازار ،فقال :یارسول اللہ !اتق اللہ ،قال:ویلک أو لست أحق اھل الارض ان یتقی اللہ؟قال: ثم ولی الرجل،قال: خالد بن الولید:یارسول اللہ!ألا اضرب عنقہ قال:لا،لعلہ ان یکون یصلی ،فقال خالد:وکم من مصل یقول بلسانہ مالیس فی قلبہ،قال رسول اللہ ﷺ:انی لم اومر ان انقب عن قلوب الناس ،ولا اشق بطونھم ، قال: ثم نظر الیہ وھو مقف ،فقال: انہ یخرج من ضئضیء ھذا قوم یتلون کتاب اللہ رطبا لایجاوز حناجرھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ۔و اظنہ قال: لئن ادرکتھم لأقتلنھم قتل ثمود۔(بخاری ،کتاب المغازی،باب بعث علی بن ابی طالب وخالد بن ولید الی الیمن قبل حجۃ الوداع،حدیث:۴۳۵۱، مسلم،حدیث:۱۰۶۳)و فی روایۃ ابی داود،یقتلون اھل الاسلام ویدعون اھل الاوثان۔(سنن ابی داود،حدیث:۴۷۶۳)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا ،جس سے ابھی مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔حضور ﷺنے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فر مادیا، عیینہ بن بدر،اقرع بن حابس ،زید بن خیل،اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔اس پر آپ ﷺ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا:ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔جب یہ بات حضور نبی کریم ﷺتک پہونچی تو آپ ﷺنے فرمایا:کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے ؟حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں ،اس کی خبریں تو میرے پاس صبح وشام آتی رہتی ہیں ،راوی بیان کرتے ہیں کہ :پھر ایک آدمی کھڑا ہوگیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں ،چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئیں ،اونچی پیشانی،گھنی داڑھی ،سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا،وہ کہنے لگا:یارسول اللہ !اللہ سے ڈرئیے،آپ ﷺنے فر مایا: تو ہلاک ہو،کیا میں تمام اھل زمین سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کا حقدار نہیں ہوں ؟پھر جب وہ آدمی جانے کے لئے پلٹا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا:یا رسول اللہ میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟آپ ﷺنے فر مایا:ایسا نہ کرو ،شاید یہ نمازی ہو،حضرت خالد بن ولید نے عرض کیا:بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا،رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے دلوں میں نقب لگائوں اور ان کے پیٹ چاک کروں ۔راوی کا بیان ہے کہ: وہ پلٹا تو آپ ﷺ نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فر مایا:اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب سے زبان تر رکھیں گے ،لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا ۔دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے،راوی کہتے ہیں :میرا خیال ہے کہ آ پ ﷺنے یہ بھی فر مایاکہ:اگر میں ان لوگوں کو پائوں تو
قوم ثمود کی طرح قتل کردوں۔اور ابوداود کی روایت میں ہے کہ:وہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بتوں کو پوجنے والوں کو چھوڑیں گے۔

عن ابی سعید رضی اللہ عنہ قال:بینا النبی ﷺ یقسم جاء عبد اللہ بن ذی الخویصرہ التمیمی فقال: اعدل یا رسول اللہ !قال:ویحک ،ومن یعدل اذا لم اعدل ۔قال عمر بن الخطاب :دعنی اضرب عنقہ ،قال:دعہ فان لہ اصحا با یحقر احدکم صلاتہ مع صلاتہ و صیامہ مع صیامہ یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ ۔(بخاری،کتاب المنا قب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،حدیث:۳۶۱۰،و کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین و قتالھم ،حدیث : ۶۹۳۳،مسلم،حدیث:۱۰۶۴)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: حضور نبی اکرم ﷺمال غنیمت تقسیم فر مارہے تھے کہ عبد اللہ بن ذو الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا :یارسول اللہ !انصاف سے تقسیم کیجئے ،حضور نبی کریم ﷺ نے فر مایا:کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون انصاف کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:یارسول اللہ !اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑادوں ،فر مایا:رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے)کہ ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانوگے ۔لیکن وہ لوگ دین سے اس طر ح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔

عن علی رضی اللہ عنہ قال: انی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: یاتی فی آخر الزمان قوم حدثاء الاسنان، سفھاء الاحلام،یقولون من خیر قول البریۃ ،یمرقون من الاسلام کما یمرق السھم من الرمیۃ ،لا یجاوز ایمانھم حنا جرھم ،فاینما لقیتموھم فاقتلوھم فان فی قتلھم اجرا لمن قتلھم یوم القیامۃ ۔(بخاری،کتاب المنا قب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،حدیث :۳۶۱۱،مسلم،حدیث:۱۰۶۶،ترمذی ، حدیث:۲۱۸۸،سنن نسائی،حدیث:۴۱۰۲،ابن ماجہ،حدیث:۱۶۸)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:میں نے رسول اللہ ﷺکو فر ماتے ہوئے سنا کہ:آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو نو عمر،عقل سے کورے ہوں گے،وہ حضور نبی اکرم ﷺکی حدیث بیان کریں گے ،مگراسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ایمان ان کے حلق سے نیچے نہ اُترے گا ،پس تم انہیں جہاں کہیں پائو تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن بڑا ثواب ملے گا۔

عن ابی سعید الخدری وانس بن مالک عن رسول اللہ ﷺ قال: سیکون فی امتی اختلاف و فر قۃ ،قوم یحسنون القیل و یسیئون الفعل و یقرئو ن القرآن لا یجاوز تراقیھم ،یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیۃ ،لایر جعون حتی یرتد علی فوقہ ،ھم شر الخلق و الخلیقۃ ،طوبی لمن قتلھم و قتلوہ ،یدعون الی کتاب اللہ و لیسوا منہ فی شیی ء ،من قاتلھم کان اولی باللہ منھم ،قالوا : یارسول اللہ ! ماسیماھم ؟قال:التحلیق۔(سنن ابی داود، کتاب السنۃ،حدیث: ۴۷۶۵)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت ابو سعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفر قہ بازی ہوگی ،ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ بات کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے ،قرآن پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا ،وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے اور وہ واپس نہیں آئیں گے جب تک کہ تیر کمان میں واپس نہ آجائے ،وہ لوگ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے ،خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کریں گے اور جسے وہ قتل کریں ،وہ اللہ کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا ،ان کا قاتل ان کی بہ نسبت اللہ تعالی کے زیادہ قریب ہوگا ،صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ !ان کی نشانی کیا ہے؟فر مایا:سر منڈوانا ۔

عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ:ان ما اتخوف علیکم رجل قرأ القرآن حتی اذا رُئیت بھجتہ علیہ وکان رِدئا للأسلام غیرہ الی ما شاء اللہ فانسلخ منہ و نبذہ وراء ظھرہ وسعی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک ،قال:قلت ُ یا نبی اللہ !ایھما اولی بالشرک المرمی ام الرامی؟ قال: بل الرامی۔(مسند البزار،جلد :۷،ص :۲۲۰،حدیث:۲۷۹۳)
تر جمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:بے شک جس چیز کا مجھے تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اللہ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا رہا ،پھر وہ اس قرآن سے دور ہوگیا اور اس کو اپنی پشت کے پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا ،راوی بیان کرتے ہیں کہ :میں نے عرض کیا :ائے اللہ کے نبی ﷺ!ان دونوں میں کون زیادہ شرک کے قریب تھا ،شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا،آپ ﷺنے فرمایا:شرک کا الزام لگانے والا۔

کان ابن عمر رضی اللہ عنہما یراھم شرار خلق اللہ وقال:انھم انطلقواالی آیات نزلت فی الکفار فجعلوھا علی المومنین۔(بخاری، باب قتل الخوارج والملحدین بعد اقامۃ الحجۃ علیھم ،ص:۸۲۶)
ترجمہ: امام بخاری نے باب کے عنوان کے طور پر یہ حدیث روایت کی کہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان (خوارج)کو اللہ تعالی کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے(کیونکہ)وہ لوگ اُن آیتوں کو جو کافروں کے بارے میں نازل ہوئیں مسلمانوں پر چسپاں کرتے تھے۔

https://www.facebook.com/sunniaqaid12/

مکمل تحریر >>

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی عظمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی عظمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ:لما اقترف آدم الخطیئۃقال: یارب أسألک بحق محمد لما غفرت لی فقال اللہ :یا ٓدم وکیف عرفت محمد ولم اخلقہ ؟قال: یارب لأنک خلقتنی بیدک ونفخت فی من روحک ورفعت رأسی فرأیت علی قوائم العرش مکتوبا لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ فعلمت انک لم تضف الی اسمک الی أحب الخلق فقال اللہ :صدقت یا آدم انہ لأحب الخلق الی، ادعنی بحقہ فغفرت لک و لو لا محمد ما خلقتک ۔ھذا حدیث صحیح الاسناد ۔( المستدرک علی الصحیحین للحاکم،حدیث:۴۲۲۸)
تر جمہ: حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺنے کہا :جب حضرت آدم سے خطائے اجتہادی سرزد ہوئی تو انہوں نے دعا کیا : ائے میرے رب !میں تجھ سے محمد ﷺکے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما،اس پر اللہ رب العزت نے فر مایا:ائے آدم !تونے محمد ﷺ کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی میں نے انہیں پیدا بھی نہیں کیا،؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا :مولا! جب تونے اپنے دست قدرت سے مجھے پیدا کیا اور اپنی روح میرے اند ر پھونکی میں نے اپنا سر اوپر اٹھایاتو عرش کے پایوں پر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا ہوا ،میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ،اس پر اللہ تعالی نے فر مایا:ائے آدم !تو نے سچ کہا:مجھے ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہی محبوب ہیں ،اب جبکہ تم نے اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہیں کرتا۔یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما: قال: اوحی اللہ الی عیسی علیہ السلام :یا عیسی آمن بمحمد وامر من ادرکہ من امتک ان یومنوبہ فلولا محمد ماخلقت آدم ولولا محمد ما خلقت الجنۃ ولا النار ولقد خلقت العرش علی الماء فا ضطرب فکتبت علیہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ فسکن۔ھذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ۔(المستدرک علی الصحیحین ،باب ومن کتاب آیات رسول اللہ ﷺ التی ھی دلائل النبوۃ۔جلد:۲؍ص:۶۷۱،حدیث:۴۲۲۷)
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:انہوں نے کہاکہ:اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی : ائے عیسی!محمد ﷺپر ایمان رکھ،اور اپنی امت کو حکم دے کہ جو لوگ ان کے زمانے کو پائے ان پر ایمان لائے،کیونکہ اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام)کو پیدا نہ کرتا اور اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں نہ جنت کو پیدا کرتا اور نہ ہی جہنم کو،اور بے شک میں نے عرش کو پانی پر پیدا کیا تو وہ لرزنے لگا تو میں نے اس پر ’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘لکھا تو وہ پُر سکون ہوگیا۔یہ حدیث صحیح ہے۔

عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ،عن رسول اللہ ﷺ،عن جبرئیل علیہ السلام قال: قلبت مشارق الارض و مغاربھا فلم اجد رجلا افضل من محمد ﷺ ولم اربیتا افضل من بیت بنی ہاشم۔(المعجم الاوسط،جلد:۶؍ص:۲۳۷،حدیث: ۲۶۸۵)
تر جمہ: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :رسول اللہ ﷺنے فر مایا کہ:جبر ئیل علیہ السلام نے کہا: میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی ﷺ سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔

عن المطلب بن ابی وداعۃ رضی اللہ عنہ قال: جاء العباس الی رسول اللہ ﷺ فکانہ سمع شیئا ،فقام النبی ﷺ علی المنبر فقال:من انا؟ قالوا:انت رسول اللہ ﷺ علیک السلام،قال: انا محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ،ان اللہ خلق الخلق فجعلنی فی خیرھم فرقۃ ،ثم جعلھم فر قتین فجعلنی فی خیرھم فرقۃ،ثم جعلھم قبائل فجعلنی فی خیرھم قبیلۃ ،ثم جعلھم بیوتا فجعلنی فی خیرھم بیتا و خیرھم نسبا ۔وفی روایۃ آخری:فانا خیرھم بیتا وخیرھم نفسا۔(تر مذی،کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ،حدیث: ۳۵۳۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے وہ اس وقت(کافروں سے کچھ نا شائشتہ کلمات )سن کر (غصہ کی حالت میں تھے،اس واقعہ پر مطلع ہوکر)حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فر ما ہوئے اور فر مایا: میں کون ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا :آپ پر سلامتی ہو،آپ اللہ کے رسول ﷺہیں۔فرمایا: میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔اللہ تعالی نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے بہترین خلق (یعنی انسانو ں)میں پیدا کیا ،پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا (یعنی عرب و عجم)تو مجھے بہترین طبقہ میں رکھا ،پھر ان کے مختلف قبیلے بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ میں رکھا پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانہ میں رکھا اور بہترین نسب والا بنا یا ۔تو میں گھرانے کے اعتبار سے اور ذات کے اعتبار سے بھی سب سے افضل ہوں۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ :قال: قالوا:یارسول اللہ !متی وجبت لک النبوۃ،قال:و آدم بین الروح ولجسد۔(تر مذی،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،باب فضل النبی ﷺ،حدیث: ۳۶۰۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: صحابہ کرام نے عرض کیا :یارسول اللہ !آپ کو نبوت کب عطا کی گئی؟آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا )جبکہ آدم کی تخلیق روح اور جسم کے مرحلہ میں تھی(یعنی یعنی روح اور جسم کا با ہمی تعلق ابھی نہ ہوا تھا)

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال:جلس ناس من اصحاب رسول اللہ ﷺ ینتظرونہ قال: فخرج،حتی اذا دنا منھم سمعھم یتذاکرون فسمع حدیثھم ،فقال بعضھم:عجبا ان اللہ اتخذ من خلقہ خلیلا ،اتخذ ابراہیم خلیلا ،وقال آخر:ماذا باعجب من کلام موسی کلمہ تکلیما ،وقال آخر: فعیسی کلمۃ اللہ وروحہ ،وقال آخر  :آدم اصطفاہ اللہ ،فخرج علیھم فسلم وقال:قد سمعت کلامکم و عجبکم ان ابراھیم خلیل اللہ وھو کذالک و موسی نجی اللہ وھو کذالک و عیسی روح اللہ وکلمتہ وھو کذالک ،وآدم اصطفاہ اللہ وھو کذالک ،الا وانا حبیب اللہ ولا فخر ،وانا حامل لواء الحمد یوم القیامۃ ولا فخر وانا اول شافع واول مشفع یو م القیامۃولا فخروانا اول من یحرک حلق الجنۃ فیفتح اللہ لی فید خلنیھا و معی فقراء المومنین ولا فخر و انا اکرم الاولین والاخرین ولا فخر۔(تر مذی،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،باب فضل النبی ﷺ،حدیث:۳۶۱۶)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:چند صحابہ کرام حضور ﷺ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے ،اتنے میں حضور نبی کریم ﷺتشریف لے آئے جب ان کے قریب پہونچے تو انہیں کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا ۔ان میں سے بعض نے کہا :تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے مخلوق میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا،دوسر ے نے کہا:یہ حضرت موسی علیہ السلام کے کلیم اللہ ہونے زیادہ تعجب خیز تو نہیں ہے،ایک نے کہا: حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کا کلمہ اور روح ہیں ،کسی نے کہا :اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا،حضور نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے ،سلام کیا اور فرمایا:میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہار تعجب سنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں ،بے شک وہ ایسے ہی ہیں حضرت موسی علیہ السلام نجی اللہ ہیں،بے شک وہ ایسے ہی ہیں ،حضرت عیسی علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں ،واقعی وہ اسی طرح ہیں ،حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے چن لیا ،وہ بھی یقینا ایسے ہی ہیں ۔ سن لو!میں اللہ کا حبیب ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے،میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے ،قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا میں ہی ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ہے ،اور سب سے پہلے جنت کی کنڈی کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں اللہ تعالی میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میر ے ساتھ غریب و فقیر مومنین ہوں گے اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے،میں اولین وآخرین میں سب سے زیادہ عزت والا و شرف والا ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے۔

عن ابی بن کعب عن النبی ﷺ قال: اذا کان یوم القیامۃ کنت امام النبین ،و خطیبھم ،وصاحب شفاعتھم غیر فخر۔(تر مذی،حدیث: ۳۶۱۳)
تر جمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :حضور نبی اکرم ﷺنے فر مایا:قیامت کے دن میں انبیائے کرام علیھم السلام کا امام ،خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس پر مجھے فخر نہیں۔

عن انس ان النبی ﷺ اتی بالبراق لیلۃ اسری بہ ملجما مسرجا ،فاستصعب علیہ ،فقال لہ جبرئیل ،أ بمحمد تفعل ھذا ؟قال:فما رکبک احد اکرم علی اللہ منہ ۔قال:فارفض عرقا۔(ترمذی،باب ومن سورۃ بنی اسرائیل ،حدیث:۱۳۳۱)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: شب معراج حضور نبی اکرم ﷺکی خدمت میں براق لا یا گیا جس پر زین کسی  ہوئی اور لگا م ڈالی ہوئی تھی،اس براق کی خرمستیوں کی وجہ سے آپ ﷺ کا اس پر چڑھنا دشوار ہوگیا ،تو حضرت جبرئیل نے اسے کہا: کیا تو حضور نبی اکرم ﷺکے ساتھ ایسا کر رہاہے؟حالانکہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ ﷺ سے زیادہ معزز و محترم آج تک تجھ پر کوئی سوار نہ ہوا ،یہ سن کر وہ براق پسینہ پسینہ ہوگیا۔

عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قال: کنت مع النبی ﷺبمکۃ فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھویقول: السلام علیک یارسول اللہ۔(ترمذی ،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،حدیث:۳۶۲۶)
تر جمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :میں مکہ مکر مہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا ،ہم مکہ کے ایک طرف چلے تو جو بھی پہاڑ اور درخت آپ ﷺ کے سامنے آتا وہ ’ السلام علیک یارسول اللہ ‘کہتا۔

عن ابی ہریرۃ عن النبی ﷺ قال:قال رسول اللہ ﷺ:انا اول من تنشق عنہ الارض فأکسی حلۃ من حلل الجنۃ ثم اقوم عن یمین العرش لیس احد من الخلائق یقوم ذالک المقام غیری۔(ترمذی ،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،حدیث:۳۶۱۱)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :نبی اکرم ﷺنے فر مایا:سب سے پہلا شخص میں ہوں جو زمین سے نکلے گا ، پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا ،پھر میں عرش کے دائیں جانب کھڑا ہوں گا ،اس مقام پر مخلوقات میں سے میرے سوا کوئی نہیں کھڑا ہوگا۔

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال:نھی رسول اللہ ﷺ عن الوصال فی الصوم ۔فقال لہ رجل من المسلمین :انک تواصل یا رسول اللہ! قال:وایکم مثلی ،انی ابیت یطعمنی ربی ویسقینِ۔(بخاری،کتاب الصوم،باب التنکیل لمن اکثر الوصال،حدیث :۱۸۶۴،مسلم، حدیث:۱۱۰۳ )وفی روایۃ اخری:انی لست کھیئتکم۔(بخاری،حدیث:۱۸۶۳،مسلم ،حدیث:۱۱۰۵)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺنے وصال کے روزے (یعنی بغیر افطار کئے ہوئے مسلسل روزے رکھنے)سے منع فر مایا:تو صحابہ میں سے ایک نے عرض کیا :یا رسول اللہ ! آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں ۔آپ ﷺ نے فر مایا:تم میں سے میری طرح کون ہے؟اور دوسری روایت میں ہے کہ: فرمایا:میں تم جیسا نہیں ہوں ،بے شک میں رات اس حال میں گزارتا ہوں کہ مجھے میرا رب کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے۔

عن عبادہ بن الصامت قال:قال رسول اللہ ﷺ:انا سید الناس یوم القیامۃ ولا فخر مامن احد الا وھو تحت لوائی یو م القیامۃ ینتظر الفرج وان معی لواء الحمد انا امشی و یمشی الناس معی حتی آتی باب الجنۃ فاستفتح فیقال:من ھذا؟فاقول :محمد فیقال: مرحبا بمحمد فاذا رأیت ربی خررت لہ ساجدا انظر الیہ.(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب الایمان، حدیث:۸۲)
تر جمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایاکہ:قیامت کے دن میں تمام لوگوں کا سردار ہوں گااور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ،ہر شخص قیامت کے دن میر ے جھنڈے کے نیچے ہوگا ،کشادگی کا انتظار کرتے ہوئے۔اور بے شک میر ے پاس حمد کا جھنڈا ہوگا ،میں چلوں گا اور لوگ بھی میرے ساتھ چلیں گے یہاں تک کہ میں جنت کے دروازے پر آئوں گا ،تو میں اسے کھولوائوں گا ،کہا جائے گا کون؟ میں کہوں گا :محمد(ﷺ)تو کہا جائے گا خوش آمدیدمحمد(ﷺ)پھر جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو دیکھتے ہی میں سجدہ میں گِر جائوں گا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

https://www.facebook.com/sunniaqaid12/

مکمل تحریر >>

بریلوی اور بریلویت

ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﯾﻠﻮﯾﺖ
ﺟﻨﻮﺑﯽ ﺍﯾﺸﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﮐﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﻨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺪﯾﺪ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﻭﮐﯿﭙﯿﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ 200 ﻣﻠﯿﻦ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﮨﮯ۔
ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﻭﮐﯿﭙﯿﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺩﮦ ﺍﻋﺪﺍﺩ ﻭ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﭨﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﻣﮑﺘﺒﮧ ﻓﮑﺮ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﯿﺮﯾﭩﯿﺞ ﻓﺎﺅﻧﮉﯾﺸﻦ ، ﭨﺎﺋﻢ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔
ﺳﯿﺎﺳﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﺭﻭﮨﻦ ﺑﯿﺪﯼ ﮐﮯ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ 60 ﻓﯿﺼﺪ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮨﯿﮟ۔
ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼ ﺗﺎﺭﮐﯿﻦ ﻭﻃﻦ ‏( ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ‏) ﮐﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮨﮯ ، ﺟﻮ ﺩﯾﮩﺎﺕ ﺳﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻟﻔﻆ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺦ ﺍﻟﻌﻘﯿﺪﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﺻﻄﻼﺡ ‏( ﭘﮩﭽﺎﻥ ‏) ﮨﮯ۔
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ 1856 ﺀ ﻣﻄﺎﺑﻖ 1272 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻟﻢ ﺩﯾﻦ ﮐﺎ ﻋﻠﻤﯽ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ
❣ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﻥ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺗﮭﺎ
ﻭﮦ ﺑﮭﺎﺭﺕ ‏( ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﮨﻨﺪ ‏) ﮐﮯ ﺷﻤﺎﻟﯽ ﻋﻼﻗﮧ ﺟﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮ ﺑﺮﯾﻠﯽ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ 1921 ﺀ ﻣﻄﺎﺑﻖ 1340 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ .
ﺑﺮﯾﻠﯽ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺁﺑﺎﺋﯽ ﺷﮩﺮ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡِ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺍﻟﻘﺎﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﮐﺜﺮﯾﺘﯽ ﻣﺴﻠﻢ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭼﻮﺩﮬﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﮯ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﻣﺠﺪﺩ ﺗﮭﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﺠﺪﺩ ﺩﯾﻦ ﻭ ﻣﻠﺖ ﮐﮯ ﻟﻘﺐ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺁﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻦ ﺍﻻﻗﻮﺍﻣﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﻮ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﮯ ﻋﻨﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﭘﺮ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻣﺴﺘﺸﺮﻗﯿﻦ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﺷﺮﭘﺴﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﻓﺘﻨﮧ ﭘﺮﻭﺭ ﻓﺮﻗﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﭘﺮﺳﺮِ ﭘﯿﮑﺎﺭ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﺻﻮﻓﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺍﭘﻨﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﺍﯾﺸﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺳﻨﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮦ ﮨﮯ
ﺍﻟﺒﺘﮧ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﭼﻨﺪ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﻨﺪ ﺟﺪﯾﺪ ﻓﺮﻗﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﭘﯿﮕﻨﮉﮮ ﺳﮯ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﻮ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﯾﺎ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﻣﺴﻠﮏ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﺍﻭﺭ ﻃﺮﺯ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻗﺪﯾﻢ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮦ ﮨﮯ۔
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻭﺍﺿﺢ ‏( ﺛﺎﺑﺖ ‏) ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ
ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻭﺭ
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻧﺒﻮﺕ ﭘﺮ ﮐﺎﻣﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ ،
ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺒﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ،
ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﭘﺮ ،
ﻋﺎﻟَﻢ ﺑﺮﺯﺥ ﭘﺮ ،
ﺁﺧﺮﺕ ﭘﺮ ،
ﺟﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺯﺥ ﭘﺮ ،
ﺣﯿﺎﺕ ﺑﻌﺪ ﺍﺯ ﻣﻮﺕ ﭘﺮ ،
ﺗﻘﺪﯾﺮ ﻣﻦ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺮﺍﻭﺭ
ﻋﺎﻟَﻢ ﺍﻣﺮ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟَﻢ ﺧﻠﻖ ﭘﺮ ﮨﮯ۔
ﻭﮦ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﺩﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﭘﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﺳﮯ ﺍﮨﻞ ﺍﺳﻼﻡ ، ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﺍﺟﻤﺎﻉ ﭼﻼ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔
ﻓﻘﮩﯽ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﻭﮦ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺍﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻭﮦ ﺍﺋﻤﮧ ﺍﺭﺑﻌﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﻧﻌﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ،
ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ،
ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ
ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ
ﮐﮯ ﺑﺎﮨﻤﯽ ﻋﻠﻤﯽ ﺗﺤﻘﯿﻘﯽ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩﯼ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮐﻮ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﺮﮐﺖ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻣﺬﺍﮨﺐ
ﺣﻨﻔﯽ ،
ﺷﺎﻓﻌﯽ ،
ﻣﺎﻟﮑﯽ ،
ﺣﻨﺒﻠﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺭﺍﺳﺦ ﺍﻟﻌﻘﯿﺪﮦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺷﻌﺮﯼ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﺎﺗﺮﯾﺪﯼ ﻣﺴﻠﮏ ﮐﺎ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﻮ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮦ ﺗﺼﻮﻑ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺳﻠﺴﻠﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻌﺘﻘﺪ ﮨﯿﮟ۔
ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﻟﻮﮒ
ﻗﺎﺩﺭﯼ ،
ﭼﺸﺘﯽ ،
ﺳﮩﺮﻭﺭﺩﯼ
ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯼ
ﺳﻠﺴﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﻠﺴﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺏ ﺑﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﺯﻭﺭ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﺑﻞ ﺑﻮﺗﮯ ﭘﺮ ﺍﻥ ﺳﺐ ﺳﻼﺳﻞ ﮐﻮ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﻣﮑﺘﺒﮧ ﻓﮑﺮ ﮐﯽ ﺷﺎﺧﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔
ﺷﺎﯾﺪ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﺭﺩﮦ ﻟﻮﮒ ﭘﺎﮎ ﻭ ﮨﻨﺪ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﻠﻂ ﺗﺎﺛﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﻭﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻓﺮﻗﮧ ﻭﺭﺍﻧﮧ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﺟﻤﺎﻋﺘﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻓﺘﻨﮧ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻓﺮﯾﻘﮧ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻢ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺷﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺻﻮﻣﺎﻟﯿﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺍﮐﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺩﮨﺎﺋﯽ ﺗﮏ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ،
ﺳﻦ 2012 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﻐﺮﺏ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﮐﯽ ﺩﺭﭘﺮﺩﮦ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮔﺴﺘﺎﺧﺎﻧﮧ ﻓﻠﻢ ﻣﻨﻈﺮ ﻋﺎﻡ ﭘﺮ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﻠﮏ ﻣﺼﺮ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﯿﺎ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﻣﺴﻠﻢ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﺭﺩ ﮐﯿﺎ۔
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺗﺤﺮﯾﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﺗﺤﺎﺩ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﻓﻠﻢ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻓﻠﻢ ﮐﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﻣﺬﻣﺖ ﮐﯽ۔
ﺍﺳﯽ ﺟﺬﺑﮧ ﺣﺐ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﺜﺮﺕ ﺳﮯ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﺎﮎ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ،
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﮩﭽﺎﻥ
❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣
ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮏ ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﻋﻠﯽٰ ﺁﻟﮏ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮏ ﯾﺎ ﺣﺒﯿﺐ ﺍﻟﻠﮧ
❣❣❣❣❣❣❣❣❣
ﭘﮍﮬﻨﺎ ﮨﮯ .
ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻧﺒﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻧﺎﺯﯾﺒﺎ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﻨﻨﮯ ﯾﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ .
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺎﺑﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺘﻨﺪ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﻋﻠﻤﯽ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﮨﺮ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﻧﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﯼ ﺭﺳﻮﻝ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺘﯽ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻟﻮﭦ ﺁﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻋﻠﯿﮭﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﺍﺭﻭﺍﺡ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺑﺮﺗﺮ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﻮﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﻧﺪﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﻥ ﻣﻘﺪﺱ ﮨﺴﺘﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻏﯿﺐ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻭ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻧﮯ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻋﻠﯿﮭﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﺍﺕ ﺩﮮ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔
ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﺑﺎﺭﮦ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮐﻮ ﻋﯿﺪ ﻣﯿﻼﺩ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﮐﮯ ﻋﻮﺍﻣﯽ ﺟﺸﻦ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﯿﮏ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﺼﺎﻝ ﺛﻮﺍﺏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭ ﺟﻞ ﺟﺴﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺑﻨﺎﻟﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯽ ﻣﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺟﺐ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮈﺭ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻣﻘﺎﻡ ﺟﻨﺖ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮨﮯ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﯿﮏ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺻﻠﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﮐﺎ ﻭﻋﺪﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﮩﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻋﻠﯿﮭﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ، ﺻﺪﯾﻘﯿﻦ ، ﺷﮩﯿﺪﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺟﻦ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻓﻀﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻓﻀﻞ ﮨﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﯿﮏ ﻟﻮﮒ ﺩﻧﯿﺎ ﻭ ﺁﺧﺮﺕ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺐ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺍﻧﻌﺎﻣﺎﺕ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﺨﺸﺶ ﻭ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺣﻖ ﺩﺍﺭ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻭﺟﻤﺎﻋﺖ ﺍﻥ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﻮﺳﻞ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﮐﻮ ﺟﺎﺋﺰ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﻘﺪﺱ ﮨﺴﺘﯿﺎﮞ ﻣﺪﺩ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﻣﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻗﺎ ﮐﺮﯾﻢ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ، ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﺻﺤﺎﺏ ، ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮭﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﮐﮯﻋﯿﻦ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺰﺍﺭ ، ﺩﺭﺑﺎﺭ ﯾﺎ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﻔﺮﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺗﻌﻈﯿﻤﯽ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻣﺮﺩ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﭩﮭﯽ ﺗﮏ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺎﺭﮎ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭ ﮨﮯ۔
❣ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺧﺎﻥ ﻗﺎﺩﺭﯼ ﻣﺤﺪﺙ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤۃ ﺍﻟﺮﺣﻤﺎﻥ ﻧﮯ 1904 ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻣﻌﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﺑﺮﯾﻠﯽ ﺷﺮﯾﻒ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻠﻤﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﭼﺮﭼﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﺍﯾﺸﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﮐﮯ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﮐﮯ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﮯ ﻟﺌﮯﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻧﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺑﺎﻃﻞ ﻣﮑﺎﺗﺐ ﻓﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﺮﯾﮑﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮈﮬﻮﻝ ﮐﺎ ﭘﻮﻝ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ۔
ﺩﯾﮕﺮ ﺗﺤﺮﯾﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻧﮯ ﻣﻮﮨﻦ ﺩﺍﺱ ﮐﺮﻡ ﭼﻨﺪ ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮨﻨﺪﻭ ﻟﯿﮉﺭ ﮐﯽ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﯽ ﻣﯿﮟ
ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺧﻼﻓﺖ ،
ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺗﺮﮎ ﻣﻮﺍﻻﺕ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﮨﺠﺮﺕ
ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻃﻌﮧ ‏( ﺑﺎﺋﯿﮑﺎﭦ ‏) ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﮐﺎﻓﺮ ﻭ ﻣﺸﺮﮎ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﺷﻤﻦ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ۔
ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺣﺎﻣﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺟﺪﻭﺟﮩﺪ ﮐﯽ۔

https://www.facebook.com/sunniaqaid12/

مکمل تحریر >>