Pages

Saturday 4 March 2017

علم غیب نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم اور اس پرکچھ اعتراضات کے مختصر جوابات

علم غیب نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم اور اس پرکچھ اعتراضات کے مختصر جوابات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کو علم غیب سے نوازا اور ماکان و مایکون کا بتدریج علم عطا فرمایا ۔ اس عقیدہ پر قرآن و حدیث کی کثیر نصوص موجود ہیں ۔ اور یہی عقیدہ صحابہ کرام سے لیکر آج تک مسلمانوں کا رہا ہے اس عقیدہ پر دلائل میں سے بعض یہ ہیں۔

قرآن کریم سے ثبوت

عٰلم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدًا الا من ارتضی من رسول ( سورہ جن آیت ٢٧، ٦ب٢ )
ترجمہ :- غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔

وماکان لیطلعکم علی الغیب ولکن اﷲ یجتبی من رسلہ من یشاء [سورہ آل عمران آیت نمبر١٧٩ ] '' اور اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ اے عام لوگوں تمہیں غیب کا علم دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے ''۔

وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اﷲ علیک عظیما [ سورۃ نساء آیت ١١٣ ] 'ـ' اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے''۔

وما ھو علی الغیب بضنین [ سورۃ تکویر آیت ٢٤ ] '' اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں '' ۔

آیت نمبر٥: ذلک من انباء الغیب نوحیہ الیک [ سورہ یوسف آیت ١٠٢ ] '' یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں ''۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

احادیث مبارکہ سے ثبوت

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی فرمایا ایک مرتبہ نبی کریم ؐ ہم لوگوں میں کھڑے تھے تو آپ ؐنے ہمیں مخلوق کی پیدائش سے بتانا شروع کیا حتی کہ جنتی اپنے منازل پر جنت میں داخل ہوگئے اور جہنمی اپنے ٹھکانے پر جھنم میں پہنچ گئے ۔ جس نے اس بیان کو یادر رکھا اس نے یادرکھا جو بھول گیا سو بھول گیا ( بخاری جلد ١ صفحہ ٤٥٣ )

حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐنے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین سمیٹ دی تو میں نے مشرق سے مغرب تک زمین کا تمام حصہ دیکھ لیا اور عنقریب میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک کہ زمین میرے لئے سمیٹی گئی ۔ ( مسلم شریف جلد اول صفحہ ٣٩٠ )

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐ نے نماز کسوف ادا فرمائی فراغت کے بعد اللہ کی حمد وثنا کی پھر فرمایا '' مامن شیئ کنت لم ارہ الا و قد رایتہ، فی مقامی ھذا حتی الجنۃ والنار '' یعنی ہر وہ شے جسکو میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا اسے میں نے اس مقام پر دیکھ لیا حتی کہ جنت و دوزخ کو بھی دیکھ لیا (بخاری جلد اول صفحہ ١٤٤ )

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے نبی کریم ؐ نے نماز کسوف ادا فرمائی جب نمازسے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام ثنے عرض کی رائیناک تناولت شیأاً فی مقامک ثم رایناک تکعکعت فقال انی رایت الجنۃ وتناولت عنقوداً ولو اصبتہ، لاکلتم منہ مابقیت الدنیا واریت النار فلم ار منظرا کالیوم قط افظع ورایت اکثر اھلھا النساء یعنی ہم نے آپکو کسی چیز کے پکڑنے کا ارادہ کرتے دیکھا پھر ہم نے دیکھا کہ آپ ؐ پیچھے ہٹ گئے ( یہ سن کر ) نبی کریم ؐ نے فرمایا میں نے جنت دیکھی اور انگور کا خوشہ اٹھانے کا ارادہ فرمایا اور اگر میں اسے اٹھا لیتا تو جب تک دنیا قائم رہتی تم اسے کھاتے رہتے اور مجھے دوزخ دکھائی گئی پس میں نے اس سے زیادہ ہولناک منظر آج تک نہ دیکھا تھا اور میں نے دیکھا کہ اسمیں اکثر عورتیں ہیں '' (بخاری جلد اول صفحہ ١٤٤ )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے مرالنبی ؐ بقبرین یعذبان فقال انھما لیعذبان یعنی نبی کریم ؐ دو قبروں کے قریب سے گذرے۔ جنہیں عذاب ہورہا تھا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ انہیں عذاب ہورہا ہے اور انکو عذاب کسی ایسی شے کی وجہ سے نہیں دیا جارہا جس سے بچنا بہت مشکل ہو بہر حال ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا
(بخاری جلد اول صفحہ١٨٢ )

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ نبی کریم ؐ احد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ ؐ کے ساتھ ابو بکر وعمر و عثمان ث بھی تھے تو پہاڑ لرزنے لگا آپ ؐ نے فرمایا اثبت احد فانما علیک نبی وصدیق و شھیدان یعنی اے احد ٹھہر جا کہ تجھ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں (بخاری جلد اول صفحہ٥١٩)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐ کی بعض ازواج مطہرات نے عرض کی کہ ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ ؐ سے ملے گا ( یعنی موت کے بعد ) نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا تم میں سے جسکا ہاتھ سب سے لمبا ہو تو انہوں نے ایک زکل (لکڑی کو ) لیا اور اسکے ساتھ اپنے ہاتھوں کی پیمائش کی تو حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ سب سے لمبا تھا تو بعد میں ہمیں پتا چلا کہ لمبے ہاتھ سے مراد صدقہ کرنا ہے اور حضرت زینب رضی ا للہ تعالیٰ عنہا سب سے پہلے ملنے والی تھیں اور انہیں صدقہ کرنے سے بڑی محبت تھی (بخاری جلد اول صفحہ١٩١)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے اسی مرض میں بلا یا جس میں آپ ؐ کا وصال مبارک ہوا آپ ؐنے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ کچھ سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں آپ ؐ نے پھر بلایا پھر سرگوشی فرمائی تو وہ ہنس پڑیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں میں نے ان سے سرگوشی کے متعلق پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ نبی کریم ؐ نے مجھے بتایا تھا کہ آپ کا اس مرض میں وصال ہوجائیگا میں یہ سنکر روپڑی پھر آپ ؐ نے مجھے خبر دی کہ اہل بیت میںسب سے پہلے میں ہی آپ ؐ کے پیچھے آؤں گی پس میں ہنس پڑی (بخاری جلد اول صفحہ٥٣٢ )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی کہ نبی کریم ؐنے فرمایا کہ اللہ نے مجھ سے ایک سوال کیا میں نے عرض کی اے میرے رب مجھے معلوم نہیں فوضع یدہ بین کتفی حتی وجدت بردھا بین ثدی فعلمت مابین المشرق والمغرب یعنی اللہ عزوجل نے اپنا دست قدرت میرے کاندھوں کے درمیان رکھا حتی کہ میں نے اسکی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی پھر میں نے جان لیا جو کچھ مشرق ومغرب کے درمیان ہے( ترمذی جز٢ صفحہ ١٥٦ )

ان آیات واحادیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ نبی کریم ؐ غیب جانتے ہیں نیز آپ ؐ نے ابتدائے آفرینش سے لیکر دخول جنت و نار تک صحابہ کرام کو خبریں بھی دیں۔ بعداز وصال کی آپ ؐ نے خبریں دیں کون کب مرے گا ؟ کل کیا ہوگا مشرق و مغرب کا علم آپ  صلی اللہ علیہ وسلّم کو عطا کیا گیا۔ ان آیات و احادیث کے ہوتے ہوئے کیسے کہا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ؐکو غیب کا علم نہیںدیا گیا۔ جب علم غیب کی نفی کرنے والی اور اثبات کرنے والی دونوں قسم کی آیات موجود ہیں تو دونوں کا علیحدہ علیحدہ محمل بیان کیا جائے تاکہ دونوں قسم کی آیتوں پر ایمان لایا جائے ۔ یہ نہیں کہ نفی کی آیتیں تو مان لی جائیں اور اثبات کی آیتوں کا انکار کردیا جائے ۔ کیونکہ قرآن مجید کی ایک آیت کا انکار بھی کفر ہے ۔ اسی وجہ سے علمائے کرام اور ائمہ دین نے دونوں آیتوں کے جداجدا محمل بیان فرمائے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جن آیتوں میں علم غیب کا اِثبات ہے وہاں مراد ہے اللہ کی عطا سے غیب جاننا اور جہاں علم غیب کی نفی ہے وہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر کوئی غیب نہیں جانتا ۔ جیسے قرآن مجید میں ایسی بہت سی صفات ہیں کہ جن کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر بھی ہے اور بندوں پر بھی مثلاً فرمایا :

واﷲ غفور رحیم '' اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے '' واﷲ رؤوف بالعباد '' اور اللہ بندوں پر بڑھ مہربان ہے '' اور نبی کریم ؐکے لئے فرمایا بالمومنین رؤوف رحیم '' مومنوں پر مہربان رحم والے ''۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : انہ ھو السمیع البصیر '' بے شک اللہ ہی سننے والا دیکھنے والا ہے '' اور عام انسانوں کے بارے میں فرمایا فجعلناہ سمیعا بصیرا ( سورۃ الدھر آیت ٢ ) '' پس ہم نے انسان کوسننے والابنایا ''

اللہ تعالیٰ نے فرمایا اﷲ یتوفی الانفس '' اللہ جانوں کو فوت کرتا ہے '' اور حضرت عزرائیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم '' اے محبوب تم فرمادو تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرتاہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ۔''

ان آیات میں واضح طور پر مخلوق کے لئے وہی صفات بتائی گئی ہیں جو خالق کے لئے بتائی گئیں لیکن خالق و مخلوق کےلئے ایک صفت ماننا کفر و شرک ہرگز نہیں جبکہ درمیان میں مختلف قسم کے فرق ہوں مثلاً اللہ تعالیٰ رووف رحیم اور سمیع و بصیر ہے ذاتی طور پر اور مخلوق کے لئے یہ صفت ہے اللہ تعالیٰ کی عطا سے ۔ اللہ تعالیٰ فوت کرتا ہے ذاتی طورپراور عزرائیل علیہ السلام فوت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عطا سے ۔ یونہی اللہ تعالیٰ غیب جانتا ہے ذاتی طور پر اور نبی کریم ؐ غیب جانتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عطاء سے ۔ جب دوسرے اوصاف میں یہ فرق درست ہے اور علم غیب میں آکر یہ فرق کیونکر غلط ہوجاتا ہے اور جہاں تک آیات میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں یا اسی کے پاس چیزوں کا علم ہے توا سکا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کسی کودیتا بھی نہیں مثلاً قرآن مجید میں ہے انہ ھو السمیع البصیر ( سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ١ ) بیشک اللہ تعالیٰ ہی سنتا دیکھتا ہے '' تو کیا اسکا یہ مطلب ہے ساری دنیا اندھوں بہروں سے بھری پڑی ہے اور اللہ تعالیٰ نے سننے دیکھنے کی طاقت کسی کو نہیں دی ؟ ہرگز نہیں بلکہ مراد یہی ہے کہ ذاتی طور پر سنتا او ردیکھتا اللہ ہی ہے باقی سب کی اسکی عطا سے سنتے دیکھتے ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایاان العزۃ ﷲ جمیعا '' سب عزتوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے '' کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ باقی سب ذلیل اور کمینے ہیں ؟ ہرگز نہیں بلکہ ذاتی طورپر عزت والا اللہ تعالیٰ ہے اور اسکی عطا سے انبیاء و اولیاء اور مومنین عزت والے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا واﷲ عندہ حسن الثواب '' اور اللہ ہی کے پاس ہے اچھا ثواب '' کیا اسکا یہ مطلب لیں گے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو ثواب دیتا بھی نہیں ؟ ہرگز نہیں یقینا اللہ تعالیٰ نیک کاموں پر ثواب عطا فرماتا ہے اسی طرح علم غیب اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو علم غیب دیتا بھی نہیں بلکہ دیتا ہے جیسا کہ مذکورۃ الصدر آیات و احادیث سے ثابت ہے ۔

علم غیب کی نفی میں پیش کی جانے والی حدیثوں میں پہلی حدیث کا جواب یہ ہے کہ بچیوں نے مطلقا علم غیب کی نسبت سرکار ؐکی طرف کی تھی تو سرکار ؐ نے ان کے ذہنوں کا خیال فرماتے ہوئے منع کردیا کہ ذاتی عطائی کا فرق اس عمر میں عمومامعلوم نہیں ہوتا یا دَُف بجاکر گانے کی صورت میں اپنا ذکر ناپسند کیا بصورت دیگر علمِ غیب کی نسبت سرکار ؐ کی طرف کرنا اگر غلط تھا تو سرکار ؐ نے صرف روکنے پر کیوں اکتفافرمایا بلکہ وضاحت و صراحت سے فرمادیتے کہ میں غیب نہیں جانتا لہٰذا یہ اشعار لکھنے والے صحابہ توبہ کریں لیکن ایسا ہرگز نہ ہوا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کی خبر پرپریشان ہونا اور پھر اس خبر کا جھوٹا ہونا بیان نہ کرنا بہت سی حکمتوں کی وجہ سے تھا ۔ پریشان ہونا فطری امر ہے اگر کسی آدمی پر چوری کی تہمت لگادی جائے اور وہ خبر لوگوں میں مشہور ہوجائے تو یقینی قطعی طور پر اپنے چور نہ ہونے کو جانتے ہوئے بھی وہ آدمی پریشان ہوجائیگا اسی طرح حضرت عائشہ رضی للہ عنہا کی خبر لوگوں میں مشہور ہوگئی اسی وجہ سے آپ ؐ قطعی یقینی طورپر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت کو جانتے ہوئے بھی پریشان ہوگئے اور نہ بتانا بھی پر از حکمت ہے اور لا علمی کی دلیل ہرگز نہیں مثلاً سرکار ؐخود بتادیتے تو حدیث ہوتی لیکن انتظار فرمانے پر قرآن کی آیات اتریں نیز نہ بتانے کی صورت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی نیز نہ بتانے سے قذف کے احکام نازل ہوئے نیز نہ بتانے سے بہت سے منافقین کا نفاق کھل گیا نیز بتانے کی صورت میں ممکن تھا کہ کوئی مسلمان سن کر انکار کردیتا اور یہ بہت سخت بات ہے لہٰذا اس سے بچانے کے لئے خود اظہار نہ فرمایا بلکہ وحی کا انتظار فرمایا اس قسم کی بہت سی حکمتیں ہیں عقلمند اور صحیح القعیدہ مسلمان تو حکمتیں تلاش کرے گا جبکہ بد عقیدہ کو سوائے خامیوں کے اور کچھ نہ ملے گا۔

سورۃ النحل کی آیت اولیاء و انبیاء علیہم السلام کیلئے نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ آیت ان بتوں کے حق میں نازل ہوئی جن کی کفار پوجا کیا کرتے تھے اور اِس بات پر دین اسلام کے مفسرین کا اتفاق ہے جیسا کہ تفسیر خازن جلد نمبر ٤ صفحہ نمبر ٧٠ پر ہے ، والذین تدعون من دون اﷲ یعنی الاصنام التی تدعونھا الھۃً من دون اﷲ ترجمہ ـ:- وہ لوگ جن کو پکارتے ہو سوائے اللہ یعنی بتوں کو جن کو تم معبود پکارتے ہو اللہ کے سوائے۔
اس طرح تفسیر معالم التنزیل جلد نمبر ٤ صفحہ نمبر٧٠ پر ہی ہے ، (والذین تدعون من دون اﷲ) یعنی الاصنام ( لا یخلقون شیأا و ھم یخلقون اموات ) ای الاصنام ( غیر احیاء ومایشعرون ) یعنی الاصنام ( ایان ) متی ( یبعثون ) والقرآن یدل ان الاصنام تبعث و تجعل فیھا الحیوۃ ترجمہ: وہ لوگ جو پکارتے ہیں سوائے اللہ کے یعنی بتوں کو نہیں پیدا کرسکتے وہ کچھ حالانکہ وہ خود گھڑے ہوئے مردہ ہیں ۔ یعنی بت زندہ نہیں اور نہیں سمجھے وہ یعنی بت کب اٹھائے جائینگے وہ اور قرآن دلالت کرتا ہے کہ بت اٹھائے جائیں گے اور انکو زندگی دی جائے گی۔

اور تفسیر ابن جریر جلد نمبر ١٤ صفحہ نمبر ٥٩ پر ہے : قال حدثنا سعید بن قتادہ قولہ اموات غیر احیاء و ما یشعرون ایان یبعثون و ھی ھذا الاوثان التی تعبد من دون اﷲ اموات لاارواح فیھا ترجمہ : حضرت سعید بن قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کا فرمان اموات غیر احیاو ما یشعرون ایان یبعثون کا مطلب کیا ہے اور '' اموات '' یہی بت ہیں جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے وہ مردہ ہیں ان میں روح نہیں ۔

تمام مدارس میں داخلِ نصاب تفسیر جلالین کے صفحہ نمبر ١٦٥ پر بھی یہی تحریر ہے ( والذین یدعون ) یعبدون ( من دون اﷲ) وھو الاصنام ( لا یخلقون شیأا و ھم یخلقون ) یصورن من الحجارۃ و غیرھا ( وما یشعرون ) ای الاصنام وہ لوگ جو عبادت کرتے ہیں بتوں کی وہ پیدا نہیں کرسکتے کچھ حالانکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں پتھروں وغیرہ پر تصویر بنائے گئے ہیں اور بت نہیں سمجھـتے ۔

ان باطل فرقوں کے پیدا ہونے سے پہلے کسی کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ ان آیات سے مراد انبیاء و اولیاء ہیں جیسا کہ ان لوگوں نے گمان کیا ۔

سورۃ القصص کی آیت نمبر ٥٦ کا شانِ نزول یہ ہے جو '' مسلم شریف '' میں مذکور ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی نبی اکرم ؐنے ان سے ان کی موت کے وقت ارشاد فرمایا اے چچا کہو لا الہ الا اللہ میں تمہارے لئے بروزِ قیامت شاہد ہوں گا انہوں نے کہا اگر مجھے قریش کے عار دینے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ضرور ایمان لے آتا اور تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کرتا اس کے بعد انہوں نے یہ شعر پڑھے ۔
ولقد علمت بان دین محمد من خیر الادیان البریۃ دیناً
لولا الملامۃ او جذار مسبۃ لو جدتنی سمعاً بذاک مبیناً
ترجمہ : یعنی میں یقین سے جانتا ہوں کہ محمد ؐکا دین تمام دینوں سے بہتر ہے اگر ملامت اور بدگوئی کااندیشہ نہ ہوتا تو میں نہایت صفائی کے ساتھ دین قبول کرتا اِس کے بعد ابو طالب کا انتقال ہوگیا اور یہ آیت نازل ہوئی ۔

اس آیت سے یہ مطلب ہرگز اخد نہیں ہوتا کہ حضور ؐ کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اِس میں تو اِس چیز کا بیان ہے کہ اے حبیب ؐ آپ ؐہر کسی کو جسے چاہیں ہدایت نہیںدے سکتے کیونکہ حضور ؐ تو تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں ان کی چاہت ہی یہی ہے کہ ہر کوئی ہدایت پاجائے اگر حضور ؐ ہدایت نہیں دے سکتے تو ان کا دنیا میں آنا کیا معنی رکھتا ہے لوگوں کی گالیاں سننا طائف کی گلیوں میں پتھر کھاکر کفار کی طرح طرح کی تکالیف کو برداشت کرنا کس لیے تھا کیا کوئی زمین و جائیداد کا جھگڑا نہیں بلکہ ہدایت دینی تھی اس لئے اس راہ میں تمام تکالیف برداشت کیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی ذات گرامی تو ایک طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ترجمہ: میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جسکی اقتدا کرو گے ہدایت پاجاؤ گے جس کے صحبت یافتہ اصحاب ہدایت کے سرچشمے ہیں اُن کا اپنا کیا عالم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی سچی محبت عطاء فرمائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا ادب کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین : دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
https://www.facebook.com/sunniaqaid12/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔