Pages

Wednesday 8 March 2017

شفاعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قرآن و حدیث کی روشنی میں

شفاعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قرآن و حدیث کی روشنی میں

------------------------------------
شفاعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم قرآن و حدیث اور دیگر دلائل کی روشنی میں : اللہ تبارک وتعالی نے سرور عالم شفیع اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو منصب شفاعت کبری مرحمت فرمایا، جس پر قران و حدیث شاهد؛ چنانچہ ارشاد رب کریم هے ، قریب هے کہ تمہیں تمهارا رب ایسی جگہ کهڑا کرے گا جہاں سب تمهاری حمد کریں ۔ ( پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل آیت 79)  مقام محمود سے مراد شفاعت هے۔

سیدعالم ﷺ  کی بارگاہ میں عرض کی گئی کہ یارسول اللہ ﷺ  مقام محمود سے مراد کیا هے ؟  فرمایا شفاعت ۔  ( ترمذی ابواب التفسیرالقران)

تفسیر جلالین میں هے کہ مقام محمود سے مراد شفاعت هے۔  ( تفسیر جلالین صفحہ 490) ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنهما فرماتے هیں کہ لوگ گروہ بناکر اپنے اپنے نبی کی خدمت میں حاضر هونگے، اور عرض کریں گے کہ هماری شفاعت فرمائیے۔ یہاں تک کہ بات سرور عالم ﷺ  تک آ پہنچے گی۔  پس اس روز ( شفاعت کےلئے) اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر کهڑا کریگا۔( صحیح بخاری کتاب التفسیر)

یہی مضمون مسند امام اعظم باب الشفاعتہ ، مشکوٰۃ  باب الحوض و الشفاعتہ فصل اول میں موجود هے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنهما سے مروی کہ حضور اقدس ﷺ  نے ارشاد فرمایا  ” اللہ تعالی نے مجهے اختیار دیا کہ یا تو شفاعت لو  یا کہ تمهاری آدهی امت جنت میں جائے، میں نے شفاعت لی کہ وہ زیادہ تمام اور زیادہ کام آنے والی هے ، کیا تم یہ سمجهتے هو کہ میری شفاعت پاکیزہ لوگوں کےلئے هے؟ نہیں بلکہ وہ ( شفاعت) ان گناہ گاروں کےلئے هے جو گناهوں میں آلودہ اور سخت خطا کار ہیں”۔
(سنن ابن ماجہ ابواب الزهد باب ذکرالشفاعتہ عن ابوموسیٰ اشعری، مسند احمد بن حنبل جلد 2 ، الترغیب والترهیب للمنذری فصل فی الشفاعتہ وغیرها جلد4 صفحہ 235)

سرور عالم  ﷺ نے ارشاد فرمایا ”  میری شفاعت میری امت میں ان کےلئے هے جو کبیرہ گناہ والے ہیں”۔( سنن ابن ماجہ ابواب الزهد باب ذکرالشفاعہ۔  سنن ابوداؤد کتاب السنۃ باب فی الشفاعہ؛ جامع الترمذی ابواب صفتہ القیمہ باب ماجآء فی الشفاعہ؛)

حضور شفیع اعظم ﷺ نے ارشاد فرمایا ” میں روز قیامت تمام آدمیوں کا سردار هوں ، اور یہ کچھ فخر سے نہیں فرماتا، میں سب سے پہلے قیامت کے دن قبر انور سے باهر تشریف لاؤں گا اور یہ بطور فخر نہیں فرماتا، اور میں سب سے پہلا شفیع ہوں اور وہ جسکی سب سے پہلے شفاعت  قبول ہوگی اور اس پر مجهے افتخار نہیں ، اور میرے ہاتهوں میں لوائے حمد هوگا اور یہ براہِ فخر نہیں فرماتا “۔( صحیح مسلم کتاب الفضائل باب تفضیل نبینا ﷺ علی جمیع الخلائق؛ عن ابی هریرہ ؛  سنن ابن ماجہ باب ذکرالشفاعہ عن ابی سعید الخدری؛ مشکوٰۃ باب الحوض و الشفاعہ فصل اول).(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک طویل حدیث پاک مروی، جس میں قیامت کی  ہولناکیوں، ہر ایک کا اپنی نجات کی فکر میں مبتلا ہونا اور سیدنا آدم تا  سیدنا عیسی علی نبینا الکریم وعلیهم السلام کی بارگاهوں میں حاضری اور ان جلیل القدر عالی مرتبت ہستیوں کا” اذهبو الی غیری “فرمانا مذکور، اور سید العالمینﷺ کی بارگاه ناز میں حاضری هوگی، پهر کیا هوگا ؟  چلئے اس منظر کی خوبیوں کا لطف پاتے ہیں، فرمایا، پهر لوگ حاضر هوکر عرض کریں گے یارسول اللہ ﷺ آپ انبیائے کرام میں سب سے آخری ہیں؛ اور  اللہ تعالیٰ نے آپ کے تصدق آپ کے اگلوں اور پچهلوں کے گناہ معاف فرمادئیے، لہٰذا اپنے رب کے حضور  ہماری شفاعت فرمائیے،  کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ ہم کس حال کو پہنچ گئےہیں، پس میں اس کام (شفاعت) کےلئے چل پڑونگا اور عرش اعظم کے تلے آکر اپنے رب تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوجاوں گا، پهر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی ایسی حمدیں اور حسن ثنا ء ظاہر فرمائے گا جو مجھ سے پہلے کسی پر ظاہر نہیں فرمائی  ہو ں گی، پهر مجھ سے فرمایا جائے گا اے( حبیب) محمدﷺ  اپنا سر انور اٹهاؤ  مانگو  کہ تمہیں دیا جائے گا، شفاعت کرو کہ تمهاری شفاعت قبول فرمائی جائے گی، پس میں اپنا سر ( مبارک) اٹها کر عرض کرونگا، اے رب: میری امت ، میری امت ؛ پهر فرمایا جائے گا اے ( حبیب مکرم) محمد ﷺ ، اپنی امت کے ان لوگوں کو جن کو ہمیں حساب نہیں لینا  ہے  باب ایمن سے داخل کردو جو جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ هے اور وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ جنت میں دوسرے دروازوں سے بهی جاسکتے هیں”۔

( صحیح بخاری کتاب التفسیر  تفسیر سورہ بنی اسرائیل).

امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے  اس سارے واقعے کی کیا خوب منظر کشی کی ہے کہ

خلیل ونجی مسیح و صفی سبهی سے کہی کہیں بهی بنی؟

یہ بے خبری کہ خلق پهری کہاں سے کہاں تمهارے لئے

حضور اکرم الاولین والاخرین سید الشافعین ﷺ  نے ارشاد فرمایا ”  مجهے ایسی پانچ چیزیں عطا فرمائی گئیں ، جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ،  اور ان پانچ میں سے ایک بارے فرمایا، واعطیت الشفاعہ  مجهے شفاعت عطا کی گئی “۔( صحیح بخاری کتاب التیمم ، صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ، سنن نسائی کتاب الغسل والتیمم ).

  سرور عالم ﷺ  نے ارشاد فرمایا، قیامت کے دن میں تمام انبیاء کرام علیهم السلام کا امام اور ان کا خطیب اور ان کا شفاعت والا هونگا اور یہ بطور فخر نہیں فرماتا۔(سنن ترمذی ابواب المناقب ؛ سن ابن ماجہ کتاب الزهد باب ذکرالشفاعت؛ المستدرک للحاکم کتاب الایمان رقم الحدیث 241 ، المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الفضائل باب ما اعطی اللہ تعالی محمدﷺ ).

حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا،  میں وہ وہ پہلا هوں جو جنت میں جانے کےلئے شفاعت کرونگا اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے زیادہ میرے پیروکار هونگے۔ ( صحیح مسلم کتاب الایمان  باب اثبات الشفاعت).

حضور شفیع اعظم ﷺ نے ارشاد فرمایا، ہر نبی کےلئے ایک خاص دعا هے جو وہ اپنی امت کے بارے کرچکے؛ میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کےلئے بچا رکها ہے۔  ( صحیح بخاری کتاب الدعوات؛ صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعت)۔

شیر خدا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے مروی جان عالم نور مجسمﷺ نے ارشاد فرمایا،  میں اپنی امت کی شفاعت کرونگا یہاں تک کہ میرا رب عزوجل فرمائے گا اے ( حبیب مکرم) محمد ﷺ تم راضی ہوئے؟ میں عرض کرونگا؛ اے رب (عزوجل) میرے ؛ میں راضی ہوا۔( تفسیر در منثور سورہ الضحی زیر آیت نمبر 4″”” الترغیب والترهیب فصل فی الشفاعتہ وغیرها جلد4 صفحہ 241 “” امام منذری نے اس حدیث کے حوالے ذکر کرتے هوا لکها، رواہ البزار والطبرانی واسنادہ حسن ان شآاللہ تعالی).

حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رحمت عالم ﷺ  نے ارشاد فرمایا  ” روئے زمین پر جتنے  پیڑ پتهر ہیں ،  میں  ان سب سے زیادہ آدمیوں کی شفاعت فرماوں گا”۔( مسند احمد بن حنبل ، حدیث بریدہ اسلمی جلد 6 صفحہ 476،  کنزالعمال  کتاب القیامہ رقم الحدیث 39056 ).

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنهما سے مروی “مالک جنت قاسم نعمت ﷺ  نے ارشاد فرمایا، انبیاء (کرام) کےلئے سونے کے منبر بچهائیں جائیں گے، وہ ان پر بیٹهیں گے، اور میرا منبر باقی رهے گا میں اس پر جلوس نہ فرماوں گا بلکہ اپنے رب عزوجل کے حضور  سروقد کهڑا رہوں گا؛ اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ هو مجهے جنت میں بهیج دے اور میری امت میرے بعد رہ جائے؛ پهر عرض کرونگا اے رب میرے، میری امت ، میری امت،  اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ( محبوب معظم) محمد ﷺ   تیری کیا مرضی ہے؟ میں تیری امت کے ساتھ کیا کروں؟ عرض کرونگا اے رب میرے، ان کا حساب جلد فرمادے، پس میں شفاعت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ مجهے ان کی رہائی چٹهیاں ملیں گی  جنہیں فوزخ بهیج چکے تهے  یہاں تک کہ مالک داروغہ دوزخ عرض کریگا،  یارسول اللہﷺ ، آپ نے اپنی امت میں رب العزت کا غضب نام کو نہ چهوڑا۔( المستدرک للحاکم  کتاب الایمان  باب الانبیاء منابر من ذهب،  الترغیب والترهیب کتاب البعث فصل فی الشفاعت وغیرها جلد4  کنزالعمال کتاب القیامہ رقم الحدیث 39111 )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنهما سے مروی ہے “حضور رحمت عالم ﷺ  نے ارشاد فرمایا،  میں جن و انس اور سرخ و سیاہ کی طرف رسول بھیجا گیا، اور سب انبیاء کرام علیهم السلام سے الگ میرے ہی  لئے غنیمتیں حلال کی گئیں،  اور میرے لئے ساری زمین پاک کرنے والی اور مسجد ٹھہری،  اور میرے آگے ایک مہینہ راہ تک رعب سے میری مدد کی گئی ،  اور مجھے سورہ بقرہ کی آخری آیات خزانہ ہائے عرش سے تھیں عطا ہوئیں،  یہ خاص میرا حصہ تھا   سب انبیاء کرام علیہم السلام  سے جدا،  اور مجھے  تورات کے بدلے قران کی وہ سورتیں ملیں جن میں سو سے کم آیتیں ہیں،   اور انجیل کی جگہ سو سو آیتوں  والی،  اور زبور کے عوض “حٰم “کی سورتیں (عطا ہوئیں) اور مجھے  مفصل سے تفضیل دی گئی کہ سورہ حجرات سے آخر قران تک هے،   اور دنیا و آخرت میں میں تمام بنی آدم کا سردار هوں،  اور کچھ فخر نہیں،  اور سب سے  پہلے میں اور میری امت قبور سے نکلے گی اور کچھ فخر نہیں،   اور قیامت کے دن میرے ہی ہاتھ ”  لوائے حمد”  ہوگا اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام   اس کے نیچے ہوں گے ،  اور کچھ فخر نہیں،   اور میرے ہی اختیار میں جنت کی کنجیاں ہوں گی،  اور کچھ فخر نہیں،  اور مجھ ہی  سے شفاعت کی پہل ہوگی ،  اور کچھ فخر نہیں، اور میں روز قیامت تمام مخلوق سے پہلے جنت میں تشریف لے جاؤں گا ، اور کچھ فخر نہیں ،  میں ان سب کے آگے ہوں گا اور میری امت میرے پیچھے”۔

(دلائل النبوہ لابی نعیم فصل رابع صفحہ 69،  سنن دارمی باب ما اعطی النبی ﷺ من الفضل جلد1)

امام المسلمین الشاہ امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز نے اس حدیث پاک کو اپنی شہرہ آفاق کتاب”تجلی الیقین بان نبینا سیدالمرسلین” میں نقل فرمایا اور محبت سے بھرپور عشق سے معمور مشورہ عنایت فرمایا،   لکھتے  ہیں کہ ” فقیر کہتا ہے  مسلمان پر لازم ہے  کہ اس نفیس حدیث شریف کو حفظ کر لے تاکہ اپنے آقائے نامدار ﷺ  کے فضائل و خصائص پر مطلع رہے؛

چلیں اس مشورہ پر عمل کریں اور فرط محبت میں یہ پڑھتے چلیں!

عرش حق ہے مسند رفعت رسول اللہ کی

دیکھنی  ہے حشر میں عزت رسول اللہ کی (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم)

حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے  حضور سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا  ” میں سب سے پہلے ( مزار انور) سے باہر تشریف لاؤں گا  جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے،  اور میں سب کا ہوں گا  جب اللہ تعالٰی  کے حضور چلیں گے   اور میں ان کا  خطیب ہوں گا جب وہ دم بخود رہ جائیں گے، اور میں ان کا شفیع ہوں گا جب عرصہ محشر میں روکے جائیں گے،  اور میں انهیں بشارت دوں گا جب وہ نا امید ہو جائیں گے  ،  عزت اور خزائن رحمت کی کنجیاں اس دن میرے ہاتھ  ہوں گی، اور “لواءالحمد”  اس دن میرے هاتھ  میں ہوگا،  میں تمام آدمیوں سے زیادہ اپنے رب تعالیٰ کے نزدیک اعزاز رکھتا ہوں،  میرے گرد و پیش ہزار خادم دوڑتے ہوں  گے، گویا وہ انڈے ہیں حفاظت سے رکھے ہوئے یا موتی ہیں بکھرے ہوئے”۔( دلائل النبوہ لابی نعیم فصل رابع:  دلائل النبوہ للبیہقی، باب ماجاء فی تحدث رسول اللہﷺ،  جلد5 : سنن دارمی باب ما اعطی النبی ﷺ:  اسی مضمون کی سنن ترمذی ابواب المناقب باب ماجاء فی فضل النبیﷺ)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اس حدیث پاک کی لذت سے اگر آپ بہرہ مند ہوچکے تو پھر محرمِ رموزِ محبت کی بولی میں خوب لطف اندوز  ہو کر پڑھئیے؛

فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانیں

خُسرُوَا  عرش پہ اڑتا ہے  پھریرا تیرا

صلی  اللہ علیہ والہ واصحابہ وبارک وسلم

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے؛حضور سید المرسلین ﷺ  نے ارشاد فرمایا ”   میری شفاعت روز قیامت حق ہے ،  جو اس پر ایمان نہ لائے گا  اس ( شفاعت) کے قابل نہ ہوگا۔( جامع الصغیر للسیوطی جلد 2 حدیث نمبر 4896 صفحہ 301:  کنزالعمال کتاب القیامہ جلد 14 حدیث نمبر 3953 صفحہ 171)۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے،  حضور اکرم الاولین والاخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” میری شفاعت سے ایک قوم جہنم سے نکالی جائے گی ،  جس کا نام جهنمین  ہوگا”۔( ابن ماجہ ابواب الزهد باب ذکرالشفاعہ:  ترمذی ابواب صفتہ جہنم : مجمع الزوائد کتاب البعث ؛ باب منہ فی الشفاعتہ جلد 10 صفحہ 502 :  جامع الصغیر للسیوطی جلد 2 حدیث نمبر 7552 )۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے ؛   رحمت عالم رسول مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا”  میری شفاعت میرے گناہ گار امتیوں کےلئے ہے، حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی ، اگرچہ زانی ہو ،  اگرچہ چور ہو؟   حضور راحت عالمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ  اگرچہ زانی ہو،  اگرچہ چور ہو، برخلاف خواہش ابودرداء ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) کے “۔( تاریخ بغداد جلد 1: جامع الصغیر للسیوطی جلد 2 حدیث نمبر 4893 صفحہ 301)بیہقی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور قاضی عیاض رحمہ  اللہ نے ابن وهب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا؛(الفاظ کتاب الشفا کے ہیں)

شب معراج اللہ تعالیٰ نے سیدعالمﷺ   سے فرمایا مانگو؛  عرض کی اے میرے رب تعالیٰ تونے (حضرت) ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا، (حضرت) موسیٰ علیہ السلام کو کلام سے نوازا،  (حضرت) نوح علیہ السلام کو برگزیدہ کیا، (حضرت) سلیمان علیہ السلام کو وہ ملک عطا فرمایا جو ان کے بعد کسی کو لائق نہیں، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا، میں نے تجهے جو عطا فرمایا وہ ان سب سے بہتر ہے، میں نے تمہیں کوثر عطا فرمایا، اور تیرے ذکر کو اپنی یاد سے ملایا کہ اس کے ساتھ آسمان کے درمیان پکارا جاتا ہے،  اور تمہارے لئے اور تمہاری امت کے لئے زمین کو پاک بنایا، اور تمہارے سبب سے اگلوں اور پچهلوں کے گناہ معاف کئے، لوگوں میں مغفور چلتے ہیں،  یہ باتیں میں نے تم سے پہلوں کےلئے نہیں کیں،  تمہاری امت کے دلوں کو مصاحف بنایا ( کہ وہ قران کریم کو حفظ کرتے ہیں) میں نے تیرے لئے شفاعت پردے میں رکهی اور تیرے سوا دوسرے کو نہ دی” ۔

( الشفاء بتعریف حقوق المصطفے باب ثالث فصل اول:  دلائل النبوہ للبیہقی   جلد 2 صفحہ 402)

تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری

حیراں  ہو میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجهے

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنهما سے مروی ہے؛

سرورِ عالم ﷺ  نے ارشاد فرمایا،  جس نے اذان سن کر کہا”  اے اللہ (عزوجل) اس دعوت کاملہ کے رب اور دائمی قائم ہونے والی نماز کے رب، (سیدنا) محمد ﷺ  کو جنت میں بلند مقام عطا فرما اور فضیلت عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود پر فائز فرما جس کا تونے ان سے وعدہ فرمایا ہے؛  اس کےلئے قیامت کے دن  میری شفاعت حلال ہو جائے گی”۔( صحیح بخاری کتاب الاذان:  سنن ابن ماجہ ابواب الاذان والسنتہ فیها: ترمذی ابواب الصلوٰۃ)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی  ہے؛

سیدعالم ﷺ  نے ارشاد فرمایا، “جب تم موذن کی آواز سنو تو وہی کہو جو وہ کہتا ہے ، پهر مجھ پر درود بهیجو ، کیونکہ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، پهر میرے لئے وسیلہ کا سوال کرو کیونکہ وہ جنت میں ایک اعلی مقام ہے، جو اللہ تعالیٰ کے بندوں سے ایک ہی بندے کے لائق ہے، اور مجهے امید ہے کہ وہ میں ہوں؛ پس جو میرے لئے وسیلہ مانگے گا اس کےلئے میری شفاعت حلال ہو گئی”۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰہ  باب استحباب القول مثل قول الموذن:  سنن ابوداؤد کتاب الصلوٰہ باب مایقول اذا سمع الموذن)

شافع روز جزا تم پہ کروڑوں درود

دافع جملہ بلا تم پہ کروڑوں درود

یاد رہے کہ بخاری شریف کے حوالے سے بیان کردہ حدیث پاک کہ جس میں اذان کے بعد دعا کے کلمات ذکر ہوئے اس میں ” ورزقنا شفاعتہ یا وجعلنا فی شفاعتہ” کے الفاظ مذکور نہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ کلمات حدیث میں موجود ہی نہیں، ان کلمات کا ذکر و ثبوت دیگر کتب احادیث میں موجود ہے، حافظ الحدیث نورالدین علی بن ابی بکر بن سلیمان الهیثمی المصری ( متوفی 807 ھ) نے مجمع الزوائد کتاب الصلوٰہ باب اجابتہ الموذن ،  جلد 2، صفحہ68 پر دو حدیثیں  امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد الطبرانی (  متوفی 360 ھ) کی معجم کبیر کے حوالے سے نقل فرمائیں؛(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

پہلی حدیث کے راوی حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں جب کہ   دوسری حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنهما ہیں؛

حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حدیث پاک میں  الفاظ یہ ہیں ”  واجعلنا فی شفاعتہ یوم القیامہ” اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنهما سے مروی حدیث پاک میں بهی یہی الفاظ ہیں۔( مجمع الزوائد للهیثمی کتاب الصلوٰہ باب اجابتہ الموذن وما یقول عندالاذان والاقامتہ جلد 2 صفحہ 69: معجم کبیر للطبرانی حدیث نمبر 12554)

حصول شفاعت کےلئے دعا کے سوا ہم سیاہ کاروں کے پاس اور چارہ بهی کیا ہے؛

اہلِ عمل کو ان کے عمل کام آئیں گے

میرا ہے کون تیرے سوا لے خبر

صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وصحبہ وبارک وسلم

حضرت رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے ،  قاسم نعمت صاحب شفاعتﷺ  نے ارشاد فرمایا”  جو یہ پڑهے ؛ اللھم صل علٰی  محمد وانزلہ المقعد المقرب عندک یوم القیامہ؛   تو اس پر میری شفاعت واجب ہوگئی”۔( مسندِ امام احمد، حدیث رویفع بن ثابت انصاری جلد 5 صفحہ 80 : معجم کبیر للطبرانی حدیث نمبر 4480 جلاء الافهام للابن قیم باب اول صفحہ 57)

جس کے ماتهے شفاعت کا سہرا رہا

اس جبین سعادت پہ لاکهوں سلام

حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے   سرکار دوجہاں شفیع مجرماں سیاح لا مکاں ﷺ نے ارشاد فرمایا”  جو دس مرتبہ صبح کو اور دس مرتبہ شام کو مجھ پر درود پاک بهیجے وہ قیامت کے دن میری شفاعت کو پا لے گا”۔
( مجمع الزوائد للهیثمی کتاب الاذکار باب مایقول اذا اصبح و اذا امسی جلد10 صفحہ 120 :حافظ الحدیث هیثمی رحمہ اللہ  نے اسے طبرانی کے حوالہ سے لکها اور کہا کہ دو سندوں سے مروی ہے،  سند جید اور رجال ثقہ ہیں،  جامع الصغیر للسیوطی جلد 2 حدیث نمبر 8811 صفحہ 532 امام سیوطی رحمہ اللہ  نے فرمایا یہ حدیث حسن ہے:  جلاء الافهام للابن قیم الجوزیہ باب اول صفحہ 66)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔