Pages

Friday 24 March 2017

قبر کی زندگی قبر والے سنتے پہچانتے اور جواب دیتے ہیں احادیث مبارکہ کی روشنی میں

قبر کی زندگی قبر والے سنتے پہچانتے اور جواب دیتے ہیں احادیث مبارکہ کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال:کان النبی ﷺ یقول:اذا وضعت الجنازۃ فاحتملھا الرجال علی اعناقھم ،فان کانت صالحۃ ، قالت :قدمونی ،وان کانت غیر صالحۃ ،قالت لاھلھا :یا ویلھا ،این یذھبون بہ ،یسمع صوتھا کل شیی ء الاالانسان ولو سمع الانسان لصعق۔

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور سید عالم ﷺفر ماتے تھے کہ:جب جنازہ رکھا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنی گردنوں پر اٹھاتے ہیں ،اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے:مجھے آگے بڑھائو ،اور اگر بُرا ہوتا ہے تو اپنے گھر والوں سے کہتا ہے: ہائے خرابی! کہاں لئے جاتے ہو؟انسان کے سوا ہر چیز اس کی آواز کو سنتی ہے اور اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہوجائے۔( بخاری،کتاب الجنائز،باب قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی،حدیث:۱۳۱۶)

عن انس رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال:العبد اذا وضع فی قبرہ وتولی وذھب اصحابہ ،حتی انہ لیسمع قرع نعالھم ،اتاہ ملکان فاقعداہ ، فیقولان لہ:ماکنت تقول فی ھذاالرجل محمدﷺ؟فیقول :اشھد انہ عبد اللہ ورسولہ ،فیقال:انظر الی مقعد ک من النار ،ابدلک اللہ بہ مقعدا من الجنۃ ،قال النبی ﷺ:فیراھما جمیعا ،واما الکافر او المنافق،فیقول:لاادری،کنت اقول ما یقول الناس ،فیقالان لادریت ولا تلیت ثم یضرب بمطرقۃ من حدید ضربۃ بین اذنیہ فیصیح صیحۃ یسمعھا من یلیہ الاالثقلین۔

تر جمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:جب مردے کو قبر میں رکھ دیا جاتاہے،اور اس کے ساتھی واپس جانے لگتے ہیں تو بے شک وہ ان کی جوتیوں کی آواز کا سنتا ہے،اس کے پاس دو فر شتے آتے ہیں اور اس کو بیٹھاتے ہیں ،دونوں اس سے کہتے ہیں :تو اس شخص(محمد ﷺ)کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتا تھا؟تو وہ کہتا ہے :میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔تو اسے کہا جاتا ہے جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھو۔اللہ تعالی نے اسے تیرے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔حضور ﷺنے فر مایا:تو اسے جنت وجہنم کے دونوں ٹھکانے دیکھایا جاتا ہے۔اور رہا کافر اور منافق تو وہ کہتا ہے:میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہا کرتے تھے،دونوں فر شتے کہتے ہیں کہ:نہ تو نے سمجھا اور نہ ہی نیک لوگوں کی پیروی کی،پھر اسے لوہے کے ہتھوڑے سے اس کے کانوں کے درمیان مارتے ہیں ،تو وہ ایسے بھیانک انداز سے چیختا ہے کہ آس پاس کی ساری مخلوقات اس کی چیخ کو سنتی ہے سوائے انسان اور جنات کے۔(بخاری،کتاب الجنائز،باب المیت یسمع خفق النعال،حدیث:۱۳۳۸)

عن ابی طلحۃ ان نبی اللہ ﷺ امر یوم بدر(فساق الحدیث الی ان قال)حتی قام علی شفۃ الرکی ،فجعل ینادیھم باسمائھم اسماء آباء ھم :یا فلان بن فلان ،ویا فلان بن فلان ،ایسر کم انکم اطعنتم اللہ ورسولہ ؟فانا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا ،فھل وجدتم ما وعد ربکم حقا ،قال:فقال عمر :یا رسول اللہ !ما تکلم من اجساد لا ارواح لھا ،فقال رسول اللہ ﷺ:والذی نفس محمد بیدہ،ما انتم باسمع لما اقول منھم۔

ترجمہ : حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :اللہ کے رسول ﷺ بدر کے میدان میں قتل کئے گئے کافروں کے لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے اور ان کو ان کے باپوں کے نام کے ساتھ پکارا۔ائے فلاں بن فلاں!اور ائے فلاں بن فلاں!ہم نے تو اس کو پا لیا جس کا وعدہ ہم سے ہمارے رب نے کیا (یعنی فتح و نصرت)تو کیا تم لو گوں نے بھی اس کو پا لیا جس کا وعدہ تم سے تمہارے رب نے کیا تھا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ بے جان جسموں سے بات کر تے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فر مایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ء قدرت میں محمد(ﷺ)کی جان ہے۔میری باتوں کو تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔(بخاری، کتاب المغازی،باب قتل ابی جھل۔حدیث:۳۹۷۶)

عن ابن شماشۃ المھری قال: حضرنا عمرو بن العاص وھو فی سیاقۃ الموت (فساق الحدیث الی ان قال)اذا دفنتمونی فشنوا علی التراب شنا ثم اقیموا حول قبری قدر ما تنحر جزور ویقسم لحمھا حتی استانس بکم وانظر ماذا ارجع بہ رسل ربی۔

تر جمہ: حضرت ابن شماشہ مہری سے روایت ہے کہ:حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے وقت نزاع اپنے صاحبزادے سے کہا:جب مجھے دفن کرچکو،تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا پھر میری قبر کے پاس اتنی دیر ٹہرے رہنا جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتاہے،تاکہ میں تم سے انس حاصل کروں اور جان لو کہ میں اپنے رب کے فر شتوں کو کیا جواب دیتا ہوں ۔(مسلم،کتاب الایمان ،باب کون الاسلام مایھدم ماقبلہ وکذا الھجرۃ والحج،حدیث: ۱۲۱)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ان عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ قال:ما ابالی فی القبور قضیت حاجتیی او فی السوق والناس ینظرون۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ ص:۳۳۹،حدیث:۱۱۹۰۳)

تر جمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے کہا:میں برابر جانتاہوں کہ میں قبرستان میں قضائے حاجت کے لئے بیٹھوں یا بازار میں کہ لوگ دیکھتے رہے۔(یعنی مردے بھی دیکھتے ہیں جیسے زندہ دیکھتا ہے)(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ ص:۳۳۹،حدیث:۱۱۹۰۳)

عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال:أذی المومن فی موتہ کاذاہ فی حیاتہ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ص:۳۶۷،حدیث: ۱۲۱۱۵)
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے ارشاد فر مایا:مون کو مرنے کے بعد تکلیف دینا ایسے ہی جیسے اس کی زندگی میں تکلیف دینا۔

عن ابی ایوب :ان النبی ﷺ سمع صوتا حین غربت الشمس فقال:ھذہ اصوات الیھودتعذب فی قبورھا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ص:۳۷۵،حدیث: ۱۲۱۶۰)
ترجمہ: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی اکرم ﷺنے سورج کے ڈوبنے کے وقت ایک آواز سنی تو فر مایا:یہ یہودیوں کی آواز ہے جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جارہاہے۔

عن عبد اللہ بن عمروبن العاص عن النبی ﷺ قال:ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المومن وانما مثل المومن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی سجن فاخرج منہ فجعل ینقلب فی الارض ویتفسح فیھا۔و لفظ ابی بکر ھکذا:الدنیا سجن المومن و جنۃ الکافر فاذا مات المومن یخلی سر بہ یسرح حیث یشائ۔

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا:بے شک دنیا کافر کی جنت ہے اور مسلمانوں کا قید خانہ،اور ایمان والوں کی جب جان نکلتی ہے تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اور اب اسے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتا اور با فر اغت چلتا پھرتا ہے۔اور ابو بکر بن ابی شیبہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ:دنیا مسلمانوں کا قید خانہ ہے اور کافروں کی جنت ،جب مسلمان مرتا ہے تو اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے۔(کتاب الزھد لابن المبارک،ص:۲۱۱،حدیث:۵۹۷،دارالکتب العلمیہ بیروت،مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الزھد،جلد:۱۳،ص:۳۵۵،حدیث:۳۵۸۶۷)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال: ان المیت یعرف من غسلہ ویحملہ ومن یکفنہ ومن ید لیہ فی حفرتہ۔(مسند احمد بن حنبل،مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ،جلد:۳؍ ص: ۳،حدیث:۱۱۰۱۰)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا:بے شک مردہ اسے پہچانتا ہے جو اس کو غسل دے اور جو اٹھائے اور جو کفن پہنائے اور جو قبر میں اتارے۔

حدیث۱۰:عن ام المومنین عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت:کنت ادخل بیتی الذی فیہ رسول اللہ ﷺ وانی واضع ثوبی واقول انما ھو زوجی و ابی ،فلما دفن عمر ،فواللہ ما دخلتہ الا و انا مشدودۃ علی ثیابی حیاء من عمر۔(مشکوۃ المصابیح،باب زیارۃ القبور،ص:۱۵۴)

تر جمہ: ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :وہ فر ماتی ہیں :میں اس مکان جنت آستاں میں جہاں حضور سید عالم ﷺ کا مزار پُر انوار ہے یوں ہی بے لحاظ ستر و حجاب چلی جاتی ،اور جی میں کہتی وہاں کون ہے،یہی میرے شوہر یا میرے والد پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ دفن ہوئے تو قسم بخدا ،میں عمر سے حیاء کرتے ہوئے کبھی بغیر سراپا بدن چھپائے نہ گئی۔(امام حاکم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔)
https://www.facebook.com/sunniaqaid12/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔