Pages

Tuesday 25 June 2019

سوال :, دعوت اسلامی کےمبلغین اسلامی بھائیوں کواکثر دیکھا سنا ہے کہ یہ لوگ جماعت کےلیے اقامت پڑھنے سےپہلے "الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ" صیغہ درود و سلام پڑھتےہیں. کیااقامت سے پہلے صلٰوۃ و سلام پڑھنےکی ہمارے اسلاف میں سے کسی نےانکو اجازت دی ہے یہ دعوت اسلامی والو کی ایک خود ساختہ ایجاد ہے؟؟؟

سوال :, دعوت اسلامی کےمبلغین اسلامی بھائیوں کواکثر دیکھا سنا ہے کہ یہ لوگ جماعت کےلیے اقامت پڑھنے سےپہلے "الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ" صیغہ درود و سلام پڑھتےہیں.
کیااقامت سے پہلے صلٰوۃ و سلام پڑھنےکی ہمارے اسلاف میں سے کسی نےانکو اجازت دی ہے
یہ دعوت اسلامی والو کی ایک خود ساختہ ایجاد ہے؟؟؟
الجواب:,

#پہلےرواج تھا.
جب جماعت کھڑی ہونےلگتی تھی تو خلیفہ وقت پہ سلام بھیجاجاتاتھا.
" #السلام علیک یا امیرالمومنین "  تاکہ اسےپتاچلےکہ جماعت کھڑی ہونےوالی ہے اور وہ فوراً آئے.دفتری کام چھوڑ کےحاضر ہو باجماعت نماز پڑھے.
#حضرت۰سلطان۰صلاح۰الدین۰ایوبی علیہ الرحمہ کادور آیا.آپ نےسوچا ہم کمینےکون ہیں کہ مسجدوں میں ہم پہ سلام بھیجاجائےہماری کیاحثیت ہے.

یہاں کیوں نہ #نبی۰پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پہ درود و سلام پڑھ دیا جائے تاکہ ہمیں پتہ بھی چل جائےکہ جماعت کھڑی ہونےوالی ہے اور بارگاہ رسالت  مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صلٰوۃ و سلام بھی پیش ہو جائے.
تو اسوقت کےعلماء سے فتوی پوچھا گیاکہ یہاں درود وسلام رکھ دیاجائے.
"الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ "
تاکہ اطلاع بھی ہوجائےکہ جماعت تیار ہےاور خلیفہ وقت کی بجائے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام بھیجو تو ٹھیک ہے تو علامہ سخاوی فرماتےہیں کہ اسوقت کےعلماء نےفتوی دیا کہ یہ درود پڑھنا کارِ ثواب  ہےکیوں! اس لیےکہ اللہ فرماتا ہے.(وافعلوا الخیرا) نیکی کاکام کرو اور درود سےبڑی نیکی کیاہے.؟
#پس معلوم ہوا کہ اقامت سے پہلے درود و سلام  پڑھنا دعوت اسلامی والوں کی خود ساختہ ایجاد نہیں بلکہ یہ ہمارے اسلاف کی ہی تربیت کاثمر ہے
#مزید یہ کہ اس مندرجہ بالا واقعہ سے یہ بھی سبق ملا کہ جب دنیا اسلام کےمسلمان یکجان تھے .کوئی آجکل کےدیوبندی 'وہابی وغیرہ فرقہ پرستی کانام و نشان تک نہیں تھا .
تو تب ہمارے اسلاف علماء کس قدر محتاط اور رسالت مآب کےعاشق تھے.
بجائے اس امر کو بدعت کہنےکہ جو دور حاضر کےمفتیوں کےنزدیک بدعت و گمراہی ہے.
انہوں نےاسکو سب سےبڑھی نیکی اور فلاح قرار دیا.اللہ عزوجل کی ان پہ رحمت ہو اور انکےصدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو.
صلو علی الحبیب
صلی اللہ تعالی علی محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
تحریر:,
خادم العلم و العلماء داعی امر باالمعروف و نہی عن المنکر⬅#محمدساجداعوان
واٹس اپ نمبر⬅03065005165
آفیشل فیسبک پیج⬅ѕajιdoғғιcιal92
ٹیوٹر آفیشل⬅ѕajιdoғғιcιal11

مکمل تحریر >>

Monday 24 June 2019

نَحنُ اھلُ السُّنَّۃِ دُونَ البَرَیلوِیۃ ✍️فقیرالمصطفی

نَحنُ اھلُ السُّنَّۃِ دُونَ البَرَیلوِیۃ
✍️فقیرالمصطفی

مسلکِ اہلِ حق یعنی اہلسنت کی ایک پہچان لفظ ’’بریلوی‘‘ بھی ہے لیکن فی زمانہ مسلک حقہ کیلیے اس اصطلاح کا استعمال کرنا ہم اہلسنت کے حق میں نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے ، ہاں یہ بات درست ہے کہ حق و باطل میں امتیاز کرنے کیلیے کسی فَصلِ ممیز کی ضرورت و حاجت پڑتی ہے جس کی بنا پر ہم ایسے الفاظ وضع کرتے ہیں جو صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے میں مُمِدّ و مُعَاوِن ہوتے ہیں ، جیسا کہ ماضی بعید میں جب کئی فتنے اٹھے جو سرکار دوعالم ﷺ کی خبرِ غیب کے مطابق کئی فرقوں کے وجود میں آنے کا سبب بنے تو اکابرینِ امت نے اہل حق کے گروہ کی نشاندہی کرنے اور اسے نمایاں کرنے کیلیے بطور علامت ’’اہلسنت و جماعت‘‘ کے لفظ کا انتخاب کیا اور اس لفظ کے انتخاب کی ایک وجہ اسکا بعض احادیث میں صریحا اور بعض میں مفھوما موجود ہونا ہے۔۔۔
👈لیکن لفظِ بریلوی اور لفظِ اہلسنت و جماعت کے فصل ممیز ہونے میں کئی وجوہ کی بنا پر فرق ہے،
ایک تو یہ کہ لفظِ ’’اہلسنت‘‘ کا انتخاب اکابرینِ امت نے کیا کہ جسکا اشارہ بعض نصوص میں بھی ملتا تھا جبکہ لفظِ بریلوی کا مسلک حقہ کیلیے استعمال اعلی حضرت سے لے کر اب تک کے اکابر علماء نے نہیں کیا بلکہ یہ نام اغیار نے ہمارے سر تھوپا ہے اور یہ لفظ انہی کا عطیہ ہے جیسا کہ ہمارے اکابرین کے ارشادات سے واضح ہے جو کہ ذیل میں مذکور ہیں، ثانیا یہ کہ لفظِ بریلوی کا تعلق جغرافیائی لحاظ سے خاص ملک کے خاص شہر سے ہے کہ جس سے پوری دنیا کے اہلسنت کی واقفیت ہونا ضروری امر نہیں اور اس لفظ کی اسی عدم مقبولیت کی بنا پر ہمارے مخالفین ہمارے متعلق اکثریت سے اقلیت میں ہونے کا تاثر دینا چاہتے ہیں اور دے بھی رہے ہیں اور یوں خود کیلیے صرف اہلسنت کا ٹائیٹل استعمال کر کے عالمی سطح پر اپنا اکثریت میں ہونے کا تاثر بھی دے رہے ہیں اور اہلسنت کے اکابرین سے اصولی اختلاف ہونے کے باوجود اس لفظ پر قبضہ کرنے میں بھی کامیاب ثابت ہو رہے ہیں۔
میں یہاں پر ایک اور بات کرنا چاہتا ہوں کہ فصل ممیز کے طور پر لفظ بریلوی استعمال کرنے کی بجائے آپ مخالفین کیلیے فقط دیوبندی یا وہابی یا پھر کوئی مخصوص نام استعمال کریں  نہ کہ اپنے لیے کسی ایسے لفظ کا انتخاب کریں جس کے برے نتائج پوری اہلسنت کو بھگتنا پرے، یوں آپ کو فِرَقِ باطلہ سے امتیاز کا فائدہ بھی حاصل ہو جائے گا اور اس نقصان سے بھی محفوظ رہیں گے جو اب ہم اٹھا رہے ہیں۔
ٹھیک ہے لفظ بریلوی کے استعمال کے قائلین اگر  منطقی لحاظ سے سبقت بھی لے جائیں تو کم از کم وہ ذیل میں اکابرینِ اہلسنت کے 12 ارشادات کو ایک بار ضرور پڑھ لیں ، انہیں پڑھ کر آپ جان جائیں گے کہ آپ غیروں کی سازش کا خود شکار بن رہے ہیں اور اپنے پاؤوں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں ورنہ یہ کوئی ضروریاتِ دین یا ضروریاتِ مذھب اہلسنت کا مسئلہ نہیں کہ جس کی بنا پر ہمیں طعن کیا جائے اور طعن ہم آپ کو بھی نہیں کر رہے صرف اس کے نقصان دہ نتائج سے محفوظ کرنے کیلیے خیر خواہانہ عرض کر رہے ہیں۔

👈وہ 12 اقوال یہ ہیں:

1۔ مفتی اعظم ھند حضرت مولانا الشاہ مصطفی رضا خان نوری رحمہ اللہ1960 کی دہائی کے آغاز میں اپنے ایک فتوی میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’ہم وہی قدیم چودہ سو سالہ اہلسنت و جماعت ہیں اور وہابیہ،دیابنہ ملاعنہ اہلسنت کو بریلوی کہتے ہیں۔ اگر کوئی تم کو بریلوی کہے تو شدت سے انکار کرو‘‘
(عرفان مسلک و مذھب صفحہ 47 بحوالہ مطبوعہ ماہنامہ پاسبان الہ باد )

2۔ اہلسنت و جماعت  کو بریلوی کہنا  ہندوستانی  دیوبندیوں کا طریقہ ہے ۔ (الحق المبین عربی صفحہ نمبر 3 از تاج الشریعہ  حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب )

3۔ حضرت علامہ مولانا مفتی اختررضاخاں الازہری مدظلہ عالیہ نے ایک انٹرویو میں فرمایا: ’’ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری 1988، ص 14)

4۔ سعودی عرب میں گرفتاری کے بعد سی آئی ڈی سے گفتگو کے دوران تاج الشریعہ اختر رضا خان الازہری حفظہ اللہ نے فرمایا:
ہم پر کچھ لوگ یہ تہمت لگاتے ہیں کہ ہم اور قادیانی ایک ہیں ۔ یہ غلط ہے۔ اور وہی لوگ ہمیں بریلوی بھی کہتے ہیں، جس سے وہم ہوتا ہے کہ ’’بریلوی‘‘ کسی نئے مذھب کا نام ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ ہم اہلسنت و جماعت ہیں۔
(حیات تاج الشریعہ صفحہ 42 بحوالہ عرفان مسلک و مذھب صفحہ 45)
اسی کتاب حیات تاج الشریعہ میں یہ بھی درج ہے اقرار نامہ میں تاج الشریعہ نے ان الفاظ کا اضافہ کروایا:
’’بریلویت کوئی نیا مذھب نہیں ہے، ہم لوگ اپنے آپ کو اہلسنت و جماعت کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں‘‘

5۔ ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے۔‘‘ (آئینہ رضویات، ص 300)

6۔  آستانہ عالیہ شاہ آبادشریف کے سجادہ نشین صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛
"اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں۔‘‘
(فاضلِ بریلی اور امورِ بدعت، ص 69)

7۔ سیالکوٹ کے مشھور عالم دین مفتی حافظ محمد عالم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسے مخالفین کی سازش قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بریلوی ہمارا مسلک نہیں ہے‘‘
کچھ آگے چل کر یوں رقمطراز ہوتے ہیں: ’’اگر لوگ ہمیں بریلوی کہ دیتےہیں تو ہمیں خود کو بریلویت کے تنگ حصار میں بند نہیں کرنا چاہیے، یہ ہمارے خلاف ایک سازش ہے کہ ہم اجماع امت کے مسلک حقہ اہلسنت کی وسیع شناخت کھو کر بریلویت کا لیبل اور بقیہ فرقہ وارانہ جماعتیں خود کو اہلسنت کہلوائیں۔ ‘‘
(ماہنامہ العلماء، صفحہ 52، لاہور، دسمبر جنوری 1995-1996)

8۔ شرف ملت حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری رحمہ اللہ بھی بریلوی نام کو مخالفین کا عطیہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’امام احمد رضا بریولی کے افکار و نظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہو کر مخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء و مشائخ کو بریلوی کا نام دے دیا۔ ‘‘
(البریلویہ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ)

9۔ جناب سید صابر حسین شاہ بخاری لکھتے ہیں:
’’دشمنوں نے (اعلی حضرت اور انکے ہم مسلک علماء کو) اہل سنت سے الگ کرنے کیلیے ’فرقہ بریلویہ‘‘ مشھور کر دیا۔‘‘
(امام احمد رضا کاملین کی نظر میں صفحہ 29)

10۔ دیوبندی مولوی سرفراز گکھڑوی کی کتابوں کا مدلل اور باکمال رد لکھنے والے حضرت مفتی غلام فرید ہزاروی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’وہابی دیوبندی اس دور میں یہ پراپگنڈہ زور شور سے کر رہے ہیں کہ بریلوی کہلانے والے اب پیدہ ہوئے ہیں‘‘
النجدیت بجواب بریلویت صفحہ 49،50

11۔ مناظر اہلسنت مولانا سعید احمد اسعد لکھتے ہیں:
’’مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تابناک مساعی سے گھبرا کر مخالفین نے اعلی حضرت اور انکے مریدین، متوسلین اور شاگردوں کو بدنام کرنے کیلیے کہیں ’’رضا خانی فرقہ‘‘ کے نام سے یاد کرنا شروع کیا اور کہیں ’’بریلوی فرقہ‘‘ کے نام سے اور اس نام کو خوب اچھالا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بے علم حضرات کو یہ تاثر دیا جائے کہ یہ نیا فرقہ ہے۔‘‘
(وہابیت و بریلویت بجواب بریلویت صفحہ 45،46)

12۔ اہلسنت کے موجودہ بڑے علماء میں سے ایک نام شاگرد حکیم الامت مفتی کبیر علامہ اشرف القادری حفظہ اللہ ہے ، آپ ایک بیان میں فرماتے ہیں:
’’میں تو عرصہ دراز سے ہمارے اپنے احباب کو عرض کرتا رہا ہوں کہ بریلوی نہ کہلوایا کرو ٹھیک ہے فاضل بریولی ہمارے بہت بڑے عالم اور ہمارے امام ہیں، بریلوی   تو تب ہم کہلائیں کہ جب انہوں نے نیا عقیدہ ایجاد کیا ہو اور ہم اس عقیدے میں انکی پیروی کرتے ہوں انہوں نے تو کوئی عقیدہ ہی ایجاد نہیں کیا  انہوں نے تو اسی اہلسنت و جماعت کے پرانے مذھب پر پہرا دیا ہے اس پر جو اعتراض تھے اس کا جواب دی اہے اسکے مخالفین کا رد کیا ہے ہمارے لوگ جو ہیں وہ بریلوی بن گئے اور بریلوی کہلوانا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ بریلوی کہلوانے سے زیادہ فرق محسوس ہوتا ہے اور اس سے strenth آتی ہے اور اہلسنت و جماعت کا آدھا میدان خالی دیکھ کر اس پر انہوں نے قبضہ کر لیا ‘‘

مکمل تحریر >>

Thursday 20 June 2019

کیاا اللہ کے سوا کسی کو الہ (معبود) جانے بغیر پکارنا بھی شرک ہے؟*

*کیاا اللہ کے سوا کسی کو الہ (معبود) جانے بغیر پکارنا بھی شرک ہے؟*

قرآن کریم ارشاد ہے

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ۔ المائدة،( 5 : 55

’’بیشک تمہارا ولی (دوست، مددگار) تو اﷲ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی ہے اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں۔‘‘                         

ایک مقام پر ارشاد ہے

سورہ التحريم،( 66:4)فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ

’’بیشک اللہ اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد فرشتے بھی مددگار ہیں۔‘‘

ایک دوسری جگہ ارشاد

وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ

"ان کو اللہ اور رسول نے غنی یعنی مالدار کر دیا. "( 9 : 74)

نبی پاک علیہ السلام نے اپنے ِصحابی ربیعہ بن کعب رضی اللّٰہ عنہ سے خوش ہو کر فرمایا " مانگو کیا مانگتے ہو؟ انہوں نے عرض کی (اسئلک)  آپ سے مانگتا ہوں جنت میں آپ کی رفاقت. فرمایا کچھ اور مانگنا ہے؟ عرض کی بس یہی.  فرمایا کثرت نوافل سے میری مدد کر. (مسلم شریف کتاب الصلاۃ)

مشکوۃ شریف کے دونوں شارحین ملا علی قاری اور شیخ عبدالحق محدث دھلوی اد حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی علیہ السلام  جس کو جو چاہیں اللہ کے حکم سے عطا فرما دیں. (آج تک کسی نے دونوں بزرگوں کو شرک کہا ہو تو ہمارے علم میں بھی لایا جائے جبکہ سنی اور وہابیوں کے دونوں گروہ یعنی دیوبندی اور اہلحدیث ان کی کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔)

ام المومنین حضرت میمونہ بنت ہارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک صبح رسول اللہ ﷺ تہجد کی نماز کے لئے وضو فرما رہے تھے کہ اچانک آپ نے لبیک لبیک لبیک فرمایا اور اس کے فوراً بعد نصرت نصرت نصرت فرمایا، میں نے عرض کی یا رسول اللہ اس کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ”عمر بن سالم رضی اللہ عنہ اپنے سفر سے مدینہ کی جانب واپس آرہے ہیں اور راستے میں انہیں قریش مکہ سے حملہ کا خطرہ محسوس ہوا اور انہوں نے مجھے مدد کے لئے پکارا اور کہا کہ یارسول اللہ میری مدد فرمایئے اور میں جواب میں یہ کہہ رہا تھا لبیک لبیک لبیک (میں نے تمہاری مدد کردی)“ ۔( معجم صغیر لطبرانی،جلد دوم)

یہ روایت بانیء فرقہ وہابیہ محمد بن عبدالوھاب نجدی کے بیٹے عبداللہ بن محمد بن عبدالوھاب نجدی نے اپنی کتاب "مختصر سیرت الرسول " میں بھی لکھی ہے جو مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور میں صفحہ 333 پر اور جامعہ العلوم الاثریہ جہلم  سے چھپنے والی کتاب کے صفحہ 528 پر بھی موجود ہے۔ یاد رہے کہ تین دن کی مسافت سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو فریاد کی گئی اور آپ علیہ السلام نے سماعت فرمائی

حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں قحط پڑھ گیا.  حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللّٰہ عنہ حضور علیہ السلام کی قبر انور پر حاضر ہوئے اور عرض کی.  یا رسول اللہ اپنی امت کے لیے بارش کی دعا مانگیے کیونکہ ہم لوگ ھلاک ہوئے جا رہے ہیں. خواب میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا.  عمر رضی اللّٰہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ لوگوں کے لیے بارش کی دعا مانگے.  انہیں بارش دی جائے گی اور انہیں کہو کے اِحتیاط کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہیں.  وہ صحابی رضی اللّٰہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ماجرا سنایا.  حضرت عمر رو دئیے.  اور کہا یا اللہ : میں اپنی بساط بھر کوتاہی نہیں کرتا. (الاستیعاب علامہ قرطبی)                   

فارق اعظم رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں 18 ھجری میں دوبارہ قحط واقع ہوا. حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللّٰہ عنہ سے انکی قوم بنو مزینہ نے کہا,  ہم  مرے جا رہے ہیں. کوئ بکری ذبح کیجیے.  فرمایا بکریوں میں کچھ نہیں رکھا.  اصرار پر ایک بکری ذبح کی,  جب کھال کھینچی تو نیچے سرخ ہڈی تھی.  یہ دیکھ کر حضرت بلال مزنی رضی اللّٰہ عنہ نے پکارا.       یا محمداہ!  رات ہوئ تو خواب میں دیکھا رسول اللہ علیہ السلام فرما رہے ہیں تمھیں زندگی مبارک ہو.(البدایہ والنہایہ ابن کثیر جلد 7 ص 91)

حضرت اوس بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ شریف میں قحط آیا. لوگوں نے امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے شکایت کی.  آپ رضی اللّٰہ عنہا نے فرمایا. " نبی اکرم علیہ السلام کے مزار مبارک کو دیکھو اور آسمان کی طرف اس کا روشن دان کھول دو تاکہ اس کے اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے.  انہوں نے ایسا ہی کیا.  اتنی بارش ہوئی کہ سبزہ اگا,  اونٹ موٹے ہو گئے حتی کہ چربی سے انکے بدن پھٹنے لگے یعنی بہت فربہ ہو گئے.  چنانچہ اس سال کا نام عام الفتق رکھ دیا گیا. ".(سنن دارامی جلد اول، باب ما اکرم اللہ تعالیٰ نبیہ بعد موتہ، رقم الحدیث 92)

امام طبرانی ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ" حضرت عثمان بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے اس بات کی شکایت کی حضرت عثمان بن حنیف نے اس سے کہا کہ تم وضو خانہ جاکر وضو کرو اور پھر مسجد میں جاو اوردو رکعت نماز اد اکرو پھر یہ کہو کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاوں وہ شخص گیا اور اس نے اس پر عمل کیا پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا دربان نے ان کےلئے دروازہ کھولا اور انہیں حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے گیا حضرت عثمان نے انہیں اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا اور پوچھا کہ تمہارا کیا کام ہے اس نے اپناکام ذکر کردیا حضرت عثمان نے اس کا کام کردیا اور فرمایا کہ تم نے اس سے پہلے اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا کہ جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا پھر وہ حضرت عثمان کے پاس سے چلاگیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خير عطا فرمائے حضرت عمارن میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی حضرت عثمان بن حنیف نے کہا بخدا میں نے ان سے کوئی سفارش نہیں کی لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نےاپنی نابینائی کی شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس پر صبر کرو گے اس نےکہا یا رسول اللہ مجھے راستہ دیکھا نے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم وضو خانے جاؤ اوروضو کرو پھر دورکعت نماز پڑھو پھر ان کلمات سے دعا کرو حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص اس حال میں آیا کہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی۔

(المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 8311

شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام     الباب الثامن فی التوسل صفحہ 371، دار الکتب العلمیۃ

احمد بن حسين البيهقي نے دلائل النبوۃ للبہیقی  میں اور

امام جلال الدین سیوطی نے  الخصائص الکبری میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے 

حافظ زکی الدین عبد العظیم نے الترغیب والترہیب میں او رحافظ الہیثیمی نے مجمع الزوائد میں

اس حدیث کو بیان کرکے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے 

بلکہ ابن تیمیہ نےکہ جو غیر مقلدین کے امام ہیں اس حدیث کی سند کوفتاوی ابن تیمیہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳مطبوعہ با مر فہد بن عبد العزیز آل السعود میں صحيح کہا ہے) 

جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے ساتھ فوج کی تعداد ساٹھ ہزار تھی.  جبکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی.  مقابلہ بہت سخت تھا.  ایک وقت نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان مجاہدین کے پاؤں اکھڑنے لگے.  حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ  سپہ سالار تھے.  انہوں نے یہ حالت دیکھی تو انہوں نے مسلمانوں کی علامت کے ساتھ ندا کی. یا محمداہ اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا. (البدایہ والنہایہ جلد 6 صفحہ 324).

حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے  حضرت کعب بن ضمرہ رضی اللّٰہ عنہما کو ایک ہزار کا لشکر دے کر حلب کی طرف روانہ کیا.  جب وہ حلب پہنچے تو یوقنا پانچ ہزار افراد کے ساتھ حملہ آور ہوا.  مسلمان جم کر لڑے اتنے میں پانچ ہزار اورں نےحملہ کر دیا.  اس خطرناک صورتحال میں حضرت کعب بن جمرہ نے جھنڈا تھامے ہوئے بلند آواز سے نعرہ لگایا یا محمد!  یا محمد یا نصراللہ انزل.  یا محمد یا محمد اے اللہ کی مدد نزول فرما. مسلمان ان کے گرد جمع ہو گئے اور کمال ثابت قدمی سے لڑے اور فتح پائی. (فتوح الشام,  جلد 1 ص 96).

ایسے ہی فتح بہسنا میں ایک دن رات بھر لڑائ ہوتی رہی اور مسلمانوں کا شعار تھا یا محمد یا محمد جا نصر اللہ انزل پکارنا تھا.(فتوح الشام جلد 2)

علامہ ابن کثیر حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کے کے زمانہ خلافت کے احوال لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اس زمانہ کا شعار یا محمداہ پکارنا تھا".)البدایہ والنہایہ جلد 6 ص 324 مطبوعہ دارلفکر بیروت).

امام عبدالرحمن بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا.  آپ رضی اللّٰہ عنہ کا پاؤں سن ہو گیا.  میں نے عرض کی اسے پکاریئے جو آپ کو سب سے محبوب ہے.  انہوں نے کہا یا محمد.  وہ اسی وقت بھلے چنگے ہو گئے گویا قید سے آزاد کر دیے گئے ہوں.(کتاب الاذکار باب مایقول اذا اخدرت,  امام نووی صفحہ 271 ).

حضرت زینب بنت مولا علی رضی اللّٰہ عنہما نے کربلا کی اسیری میں پڑھا. "یا محمداہ یا محمداہ صل علیک و ملک السماہ ھذا حسین بالعراہ........... ان کی پرسوز آواز نے ہر اپنے بیگانے کا رلا دیا. (البدایہ والنہایہ جلد 8 ص 193).

امام زین العابدین  اپن مشہور نعتیہ قصدہ میں فرماتے ہیں.

یارحمۃ للعالمین ادرک الذین العابدین.

محبوس  ایدی الظالمین فی موکب المذدہم

ترجمہ : اے رحمۃ للعالمین زین العابدین کی مدد کو پہنچو.  وہ اژدھام میں ظالموں کی قید میں ہے.

امیرالمؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کا سپہ سالاربنا کر نہاوند کی سرزمین میں جہاد کے لیے روانہ فرمادیا۔ آپ جہاد میں مصروف تھے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجدنبوی کے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ناگہاں یہ ارشاد فرمایا کہ یَاسَارِیَۃُ الْجَبَل (یعنی اے ساریہ!پہاڑکی طرف اپنی پیٹھ کرلو) حاضرین مسجد حیران رہ گئے کہ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو سرزمین نہاوند میں مصروف جہاد ہیں اورمدینہ منورہ سے سینکڑوں میل کی دوری پر ہیں۔آج امیر المؤمنین نے انہیں کیونکر اورکیسے پکارا ؟ لیکن نہاوند سے جب حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاصد آیا تو اس نے یہ خبر دی کہ میدان جنگ میں جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی اتنے میں ناگہاں ایک چیخنے والے کی آواز آئی جو چلا چلا کریہ کہہ رہا تھا کہ اے ساریہ ! تم پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو ۔ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز ہے، یہ کہا اورفوراً ہی انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کر کے صف بندی کا حکم دیا اور اس کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو ایک دم اچانک جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اوردم زدن میں اسلامی لشکرنے کفار کی فوجوں کو روندڈالا اورعساکر اسلامیہ کے قاہرانہ حملوں کی تاب نہ لاکر کفار کا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا۔ (مشکوٰۃ باب الکرامات ، بیہقی،  طبرانی ،ابو نعیم وتاریخ الخلفاء)

حضرت امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرزمین روم میں مجاہدین اسلام کا ایک لشکر بھیجا ۔ پھر کچھ دنوں کے بعد بالکل ہی اچانک مدینہ منورہ میں نہایت ہی بلندآواز سے آپ نے دو مرتبہ یہ فرمایا : یَالَبَّیْکَاہُ!یَالَبَّیْکَاہُ!  (یعنی اے شخص! میں تیری پکار پر حاضر ہوں)اہل مدینہ حیران رہ گئے اوران کی سمجھ میں کچھ بھی  آیا کہ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس فریاد کرنے والے کی پکار کا جواب دے رہے ہیں؟ لیکن جب کچھ دنوں کے بعد وہ لشکر مدینہ منورہ واپس آیا اوراس لشکر کا سپہ سالاراپنی فتوحات اور اپنے جنگی کارناموں کاذکر کر نے لگا تو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان باتوں کو چھوڑدو! پہلے یہ بتاؤ کہ جس مجاہد کو تم نے زبردستی دریا میں اتاراتھا اوراس نے یَاعُمَرَاہُ! یَاعُمَرَاہُ!  (اے میرے عمر!میری خبرلیجئے ) پکارا تھا اس کا کیا واقعہ تھا. سپہ سالارنے فاروقی جلال سے سہم کر کانپتے ہوئے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اپنی  دریا کے پار اتارنا تھا اس لئے میں نے پانی کی گہرائی کا اندازہ کرنے کے لیے اس کو دریا میں اترنے کا حکم دیا ،چونکہ موسم بہت ہی سرد تھا اور زور دار ہوائیں چل رہی تھیں اس لئے اس کو سردی لگ گئی اوراس نے دو مرتبہ زور زور سے  یَا عُمَرَاہُ! یَاعُمَرَاہُ! کہہ کر آپ کو پکارا،پھر یکایک اس کی روح پرواز کر گئی ۔ خدا گواہ ہے کہ میں نے ہرگز ہرگز اس کو ہلاک کرنے کے ارادہ سے دریا میں اترنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ جب اہل مدینہ نے سپہ سالارکی زبانی یہ قصہ سناتو ان لوگوں کی سمجھ میں آگیا کہ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن جو دو مرتبہ یَالَبَّیْکَاہُ! یَالَبَّیْکَاہُ! فرمایا تھا درحقیقت یہ اسی مظلوم مجاہد کی فریاد وپکارکا جواب تھا ۔ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سپہ سالارکا بیان سن کر غیظ وغضب میں بھر گئے اورفرمایاکہ سر دموسم اور ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں میں اس مجاہد کودریا کی گہرائی میں اتارنا یہ قتل خطا کے حکم میں ہے ،لہٰذا تم اپنے مال میں سے اس کے وارثوں کو اس کا خون بہا ادا کرواورخبردار! خبردار!آئندہ کسی سپاہی سے ہرگز ہرگز کبھی کوئی ایسا کام نہ لینا جس میں اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہوکیونکہ میرے نزدیک ایک مسلمان کا ہلاک ہوجانا بڑی سے بڑی ہلاکتوں سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر ہلاکت ہے۔( ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء للشاہ ولی اللہ)۔

حصن حصین جو کہ امام جزری رحمہ اللہ کی مرتب کردہ ہے جس میں انہوں نے مسنوں دعائیں اور ازکار جمع کیے ہیں. ان کے فرمان کے مطابق اس کتاب میں سب کچھ صحیح یعنی مستند ہے. حصن حصین تمام مکاتب فکر کے نزدیک معتبرترین مسنون وظائف کی کتاب ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے امام جزری سے اس کی اجازت لی تھی۔ اسی حصن حصین میں امام جزری رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں. "جب مدد لینا چاہے تو کہے اے اللہ کے بندو میری مدد کرو,  اے اللہ کے بندو میری مدد کرو,  اے اللہ کے بندو میری مدد کرو ". (حصن حصین ص 22).

حصن حصین کی شرح میں ملا  علی قاری اس روایت کے تحت فرماتے ہیں کہ "اللہ کے بندوں سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا مسلمان,  یا جن یا رجال الغیب یعنی ابدال" مزید فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور مسافروں کو اس کی بڑی حاجت ہے.  اگر جنگل میں جانور بھاگ جائے تو آواز دو کہ اے اللہ کے بندو اسے روکو".(الحرزالثمین شرح حصن حصین. صفحہ 202 مطبوعہ مکۃ المکرمہ سعودیہ)

یہ کتاب عموما حاجیوں کو تحفہ میں دی جانے والی کتابوں میں بھی شامل ہوتی ہے.

 اولیاءاللہ کی دور و نزدیک سے تصرف کرنے کی قوت

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا  ہے :جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں (اللہ تعالی) اس (بندے) کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں. اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں.

(البخاري في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب : التواضع، 5 / 2384، الرقم : 6137، وابن حبان في الصحيح، 2 / 58، الرقم : 347، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 219، باب (60)، وفي کتاب الزهد الکبير، 2 / 269، الرقم : 696

امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ سورہ کہف کی آیت نمبر 9 کے تحت فرماتے ہیں کہ

"جب بندہ نیکیوں کی پابندی کرتا ہے تو اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔ کہ میں اس بندے کی سمع و بصر ہو جاتا ہوں پس جب نورِ جلالت اس کا سمع ہو جاتا ہے تو وہ دور و نزدیک سے سنتا ہے اور جب یہ نور اس کی بصر ہو جاتا ہے تو وہ دور و نزدیک سے دیکھتا ہے اور جب یہ نور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے تو وہ بندہ مشکل و آسان،  دور و نزدیک امور  میں بھی تصرف کرنے پر قادر ہوتا ہے۔" تفسیر کبیر.

انور شاہ کشمیری دیوبندی نے بھی اپنی شرح بخاری میں اس حدیث کی یہی شرح کی ہے۔  تاوقت کسی نے امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ اور کشمیری صاحب پر شرک کا الزام نہیں لگایا.

اس بات کو علامہ اقبال نے یوں بیان کی ہے.

ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مؤمن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں کارکشا کار ساز

جو لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور اولیاءاللہ رحمہم اللہ کی کرامات میں انکا اپنا کچھ عمل دخل نہیں ہوتا اور انہیں کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ "سورہ ص" کی ان آیات مبارکہ کو بغور پڑھ کر اپنے عقیدہ کی اصلاح کر لیں۔

فَسَخَّرْنَا لَـهُ الرِّيْحَ تَجْرِىْ بِاَمْرِهٖ رُخَـآءً حَيْثُ اَصَابَ (36)

ترجمہ: پھر ہم نے ہوا کو اس کے تابع کر دیا کہ وہ اس کے حکم سے بڑی نرمی سے چلتی تھی جہاں اسے پہنچنا ہوتا

وَالشَّيَاطِيْنَ كُلَّ بَنَّـآءٍ وَّغَوَّاصٍ (37

اور شیطانوں کو جو سب معمار اور غوطہ زن تھے۔

وَاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِى الْاَصْفَادِ(38)

اور دوسروں کو جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

هٰذَا عَطَـآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ بِغَيْـرِ حِسَابٍ (39)

یہ ہماری بخشش ہے پس احسان کر یا اپنے پاس رکھ کوئی حساب نہیں۔

بعض اوقات جب انبیاء کرام علیہم السلام و اولیاء کرام رحمہم اللہ کے عطائی تصرفات کا قرآن و حدیث سے واضح ثبوت پیش کر دیا جائے تو منکرین حضرات کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو اللہ کے دینے سے ہیں۔ تو جناب آپ کو کس نے کہا کہ مسلمان ان تصرفات کو انبیاء کرام علیہم السلام و اولیاءاللہ رحمہم اللہ کے لیے ذاتی مانتے ہیں بلکہ اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ یہ سب اللہ کی عطا،  اذن اور ارادہ سے ہے اور ہر آن اللہ کے قبضہ و قدرت میں ہے۔ تو پھر مسلمانوں پر ان تصرفات کے ذاتی ماننے کا الزام کیوں دھرا جاتا ہے؟  بقول شاعر

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے

کیا دور سے دیکھ لینے یا سن لینے کا عقیدہ رکھنا شرک ہے؟

احادیث مبارکہ کے مطابق جنت ساتویں آسمان پر ہے لیکن جنتی حور وہاں سے اپنے مستقبل میں ہونے والے دنیوی شوہر کے احوال کا مشاہدہ کرتی ہے جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورِ عین کہتی ہے خدا تجھے قتل کرے اسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا". (ابن ماجہ،  کتاب النکاح،  باب فی المراۃ توذی زوجھا۔ الحدیث: 2014)

اسی طرح جنت ساتویں آسمان پر اور جہنم ساتوں زمینوں کے نیچے ہے لیکن قرآن کریم کے مطابق جنتی اور جہنمی ایک دوسرے کے ساتھ مقاملہ بھی کریں گے اور احوال کا مشاہدہ بھی۔

اس طرح کی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں لھذا یہ بھی وہابیہ کا من گھڑت عقیدہ ہے.

غیر اللہ کے لئے کون سی پکار شرک ہے

عقیدہ توحید کیوں کہ اسلام کی بنیاد ہے اور اسی پر باقی تمام عقائد و امور کی بنیاد کھڑی ہے لھذا اللہ کریم نے ہر گز توحید و شرک کو ناقابل فہم اور موشگافیوں سے پرُ کر کے بیان نہیں کیا کہ عام آدمی سمجھ ہی نہ سکے۔ قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے اللہ کے ساتھ کسی کو بطور الہ یعنی معبود نہ پکارو۔ وَ لَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۘ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۟ کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ ؕ لَہُ الۡحُکۡمُ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ۔   سورہ القصص 28آیت 88)

اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ پکارنا بجز اللہ تعالٰی کے کوئی اور معبود نہیں ، ہرچیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے، اسی کے لئے فرمانروائی ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔

یاد رہے کہ وہابیہ کا مسلمانوں پر شرک کا اطلاق کرنے کے لیے پکار کو دور و نزدیک،  زندہ و مردہ اور ماتحت الاسباب و مافوق الاسباب سے مقید کرنا ان کا من گھڑت اور بدعتی عقیدہ ہے جسکا قرآن و حدیث میں کہیں ذکر نہیں.
حدیث پاک میں دجال کے بہت سے فوق الاسباب تصرفات بیان کیے گئے ہیں.. کیا ان احادیث کو ماننا شرک ہے؟
دجال
"آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین کو حکم دے گا تو وہ سبزہ اگائے گی۔ان کے جانور جب ان کے پاس لوٹیں گے تو ان کے کوہان بڑھ چکے ہوں گے اور تھن خوب بھرے ہوئے ہوں گے، کولہے چوڑے ہوگئے ہوں گے، پھر وہ لوگوں کے پاس آئے گااور انہیں دعوت دے گاتو لوگ اس کی دعوت کو رد کردیں گے تو وہ ان کے پاس سے واپس لوٹ جائے گااور لوگ قحط زدہ ہوجائیں گے۔ان کے ہاتھوں میں کچھ بھی مال نہیں بچے گا،اس وقت دجال ویرانے سے گزرے گا تو اس سے کہے گا اپنا خزانہ نکال تو اس کے خزانے شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں گے"…..(صحیح مسلم)

جس عقیدہ سے دور والے اور فوت شدہ کو پکارنا شرک ہے اسی عقیدہ سے سامنے والے اور زندہ کو پکارنا بھی شرک ہے۔ اگر اسکو اللہ کا بندہ تصور نہ کیا جائے اور اسکی مدد کو اللہ کے حکم سے اور اللہ کی مدد کا مظہر نہ سمجھا جائے۔ کیونکہ ہر مدد خواہ ماں باپ،  بہن بھائی،  دوست و حاکم کریں یا انبیاء علیہم السلام و اولیاءاللہ رحمہم اللہ وہ اللہ کے حکم و ارادہ سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یعنی حقیقی طور پر مددگار صرف اللہ ہے جس میں اسکا کوئی شریک نہیں نہ زندہ نہ مردہ،  نہ دور والا نہ پاس والا نہ ماتحت الاسباب نہ ما فوق الاسباب۔ مخلوق کی مدد باذن اللہ اور مجازی ہے جب اللہ کی مدد حقیقی و ذاتی ہے۔         

یہ بھی یاد رہے کہ اہلسنت انبیاء علیہم السلام اور اولیاءاللہ رحمہم اللہ سے استمداد کے فقط جواز یعنی جائز ہونے کے قائل ہیں نہ کہ اسے کوئی فرض و واجب یا اسلام کے بنیادی عقائد میں شمار کرتے ہیں لیکن وہابیت کا  یہ بنیادی اور اہم ترین عقیدہ ہے مسلمانوں پر شرک کا الزام لگانا ہے مگر بغیر قرآن وحدیث سے دلیل پیش کیے فقط خوارج کے طریقہ پر۔

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں (خوارج کو) بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں۔ (1-بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539)

 ،(2. ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)، (3. ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے.

"حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا" راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا،اے اﷲ کے نبی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم !  ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا؟ جس نے الزام لگایا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرک کا الزام لگانے والا۔ (الحديث رقم 25 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220.)

اللہ پاک دورِ فتن میں ہمارے ایمان و عقیدہ کی حفاظت فرمائے. آمین

مکمل تحریر >>