Pages

Saturday 8 June 2019

کافروں ، مشرکوں ، بے دینوں ، گمراہوں اور ظالموں کے ساتھ ایسے سیاسی، سماجی و معاشرتی تعلقات جو شرعی اعتبار سے ناجائز و حرام ہیں۔*

*کافروں ، مشرکوں ، بے دینوں ، گمراہوں اور ظالموں کے ساتھ ایسے سیاسی، سماجی و معاشرتی  تعلقات جو شرعی اعتبار سے ناجائز و حرام ہیں۔*

اللہ تعالی قرآن مجید فرقان حمید کے پارہ 12، سورہ ھود کی آیت نمبر 113 میں ارشاد فرماتا ہے:

*وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(۱۱۳)*

*ترجمہ کنزالایمان: اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی نہیں پھر مدد نہ پاؤ گے۔*

تفسیر صراط الجنان:

*{وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا:اور ظالموں کی طرف نہ جھکو۔}* رُکون یعنی جھکنے کا معنی ہے قلبی میلان اور جب اس پر اتنی سخت وعید ہے تو کافروں کے ساتھ تعلقات کی اُن صورتوں میں کیا حال ہو گا جو قلبی میلان سے بڑھ کر ہیں۔
یاد رہے کہ طبعی میلان کی غیر اختیاری صورت اس آیت میں بیان کئے گئے حکم میں داخل نہیں ، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ ’’مگر طبعی میلان جیسے ماں باپ، اولاد یا خوبصورت بیوی کی طرف ہوتا ہے، اس کی جو صورت غیر اختیاری ہو وہ اس حکم کے تحت داخل نہیں ، پھر بھی اس تصور سے کہ یہ اللہ و رسول کے دشمن ہیں ان سے دوستی حرام ہے اور اپنی قدرت کے مطابق اُسے دبانا یہاں تک کہ بن پڑے تو فنا کردینا لازم ہے ۔ (میلان کا) آنا بے اختیار تھا اور (اس کا) جانا یعنی اسے زائل کرنا قدرت میں ہے تو (اس میلان کو) رکھنا اختیار موالات ہوا اور یہ حرام قطعی ہے ، اسی وجہ سے جس غیر اختیاری (میلان) کے مبادی (یعنی ابتدائی افعال) اس نے باختیار پیدا کئے تو اس میں معذور نہ ہوگا، جیسے شراب کہ اس سے عقل زائل ہوجانا اس کا اختیاری نہیں مگر جبکہ اختیار سے پی تو عقل کا زائل ہو جانا اور اس پر جو کچھ مرتب ہو سب اسی کے اختیار سے ہوا۔
(فتاویٰ رضویہ، ج: 14، ص: 465، 466)

*خدا کے نافرمانوں سے تعلقات کی ممانعت:*

            اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے نافرمانوں کے ساتھ یعنی کافروں ، بے دینوں ، گمراہوں اور ظالموں کے ساتھ بلاضرورت میل جول ،رسم و راہ، قلبی میلان اور محبت، ان کی ہاں میں ہاں ملانا اور ان کی خوشامد میں رہنا ممنوع ہے۔ ظالموں کے بارے میں امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(ظالموں کے ساتھ عملی طور پر تعاون تو ظاہر ہے اور) زبانی طور پر تعاون یہ ہے کہ وہ ظالم کے لئے دعا مانگتا ہے یا اس کی تعریف کرتا ہے یا اس کے جھوٹے قول کی صراحتاً تصدیق کرتا ہے، مثلاً زبان سے اسے سچا قرار دیتا ہے یا سر ہلا دیتا ہے یا اس کے چہرے پر مُسَرَّت ظاہر ہوتی ہے یا وہ اس شخص سے محبت و دوستی ظاہر کرتا ہے ، اس سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور اس کی عمر میں اضافہ اور ا س کی بقا کی حرص رکھتا ہے، ایسا شخص عام طور پر (ظالموں کو) صرف سلام ہی نہیں کرتا بلکہ (ان سے) کچھ بات چیت بھی کرتا ہے اور وہ اسی شخص کا کلام ہوتا ہے حالانکہ اس کا ظالم کی حفاظت، اس کی لمبی زندگی، اس کے لئے نعمتوں کی تکمیل اور اس طرح کی دوسری دعائیں مانگنا جائز نہیں ،اور اگر دعا کے ساتھ تعریفی کلمات بھی ہوں اور وہ ان باتوں کا ذکر کرے جو اس ظالم میں نہیں ہیں تو یہ شخص جھوٹا، منافق اور ظالم کا اعزاز کرنے والا ہے اور یہ تین گناہ ہیں ،اور اگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ا س کی باتوں کی تصدیق بھی کرے،اس کے کاموں کی تعریف کرے،اس کی پاکیزگی بیان کرے تو وہ اس تصدیق اور اِعانت کی وجہ سے گناہگار ہو گا کیونکہ ظالم کی پاکیزگی بیان کرنا اور تعریف کرنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔(احیاء العلوم، کتاب الحلال والحرام، الباب السادس فیما یحلّ من مخالطۃ السلطان الظلمۃ ویحرم۔۔۔ الخ، ج: 2 ، ص: 179، 180)

  اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال میں بھی ان چیزوں کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس وقت ناراض ہوتا ہے جب زمین پر کسی فاسق کی تعریف کی جاتی ہے ۔(شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ج:4، ص: 230 ، الحدیث: 4885)

حضرت حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو شخص کسی ظالم کے باقی رہنے کی دعا کرتا ہے وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جائے۔ (شعب الایمان، السادس والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ،  ج:7، ص:53، روایت نمبر:  9432)

   امام اوزاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عالم سے زیادہ ناپسندیدہ شخص کوئی نہیں جو کسی عامل (یعنی ظالم گورنر) کے پاس جاتا ہے۔ (مدارک، ھود، تحت الآیۃ: 113، ص:515)

     یہاں ایک اور بات یاد رکھیں کہ بعض حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ ہم اپنی دنیوی ضروریات کی وجہ سے ظالموں کے اعمال پر راضی ہوتے، ان کی خوشامد و چاپلوسی کرتے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ، اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارے لئے اپنی دنیوی ضروریات کو پورا کرنا دشوار ہو جائے، انہیں چاہئے کہ وہ علامہ احمدصاوی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ا س کلام پر غور کر لیں ، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ظالموں کے اَعمال سے راضی ہونے میں دنیوی ضروریات کو دلیل بنانا قابلِ قبول نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا رزق دینے والا، قوت والا اور قدرت والا ہے۔(5…صاوی، ہود، تحت الآیۃ:113، ج: 3، ص: 936)
اور جب حقیقی رازق، قوی اور قادر اللہ تعالیٰ ہے تو خود کو ظالموں کا دست نگر سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
          نوٹ: غیر مسلموں سے تعلقات رکھنے کے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر 14 سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے رسالے’’ اَ لْمَحَجَّۃُ الْمُؤْتَمِنَۃ فِی اٰیَۃِ الْمُمْتَحِنَہ‘‘ (سورہِ ممتحنہ کی آیت کے بارے میں تفصیلی کلام)کا مطالعہ کریں۔

*{وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ:اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حما یتی نہیں۔}* یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا اور کوئی مددگار نہیں کہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّکے عذاب سے بچاسکے اور نہ ہی کل قیامت کے دن تمہیں کوئی ایسا ملے گا کہ جو تمہاری مدد کر سکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے تمہیں بچا لے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: 113، ج:2، ص: 374)

*ظالموں کے لئے نصیحت:*

    علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ حال تو ان کا ہے جو ظالموں سے تعلقات اور میل جول رکھیں ، ان کے اعمال سے راضی ہوں اور ان سے محبت رکھیں اور جو خود ظالم ہو تو اس کا حال ان سے کتنا بدتر ہوگا وہ خود ہی غور کر لے۔ (خازن، ھود، تحت الآیۃ: 113، ج:2، ص: 374)

          اور امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں ’’ایک دن حضرت موفق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے امام کے پیچھے نماز پڑھی اور جب امام نے یہ آیت’’وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا…الخ‘‘ تلاوت کی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر غشی طاری ہو گئی ، جب اِفاقہ ہوا تو ان سے (غشی کی وجہ کے بارے میں ) عرض کی گئی توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’یہ ( سزا کا بیان) اُس شخص کے بارے میں ہے جو ظالم کی طرف جھکے اور جو خود ظالم ہو تو اس کا کیا حال ہو گا۔ (مدارک، ھود، تحت الآیۃ: 113، ص:515)

            ہم ظلم اور ظالموں کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں اور ہر ظالم کو چاہئے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آ جائے اور جیتے جی ان لوگوں سے معافی مانگ لے جن پر ظلم کیا ورنہ قیامت کے دن جب ظلم کا بدلہ دینا پڑا تو انجام بہت دردناک ہوگا جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی کی عزت یا کسی اور چیز پر زیادتی کی ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن سے پہلے آج ہی معافی حاصل کر لے جس دن دینار اور درہم پاس نہیں ہوں گے، اگر ظالم کے پاس نیک اعمال ہوئے تو ظلم کے برابر ان میں سے لے لئے جائیں گے اور اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو ظلم کے برابر مظلوم کے گناہ ظالم پر ڈال دئیے جائیں گے۔
(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل فحلّلہا لہ۔۔۔ الخ، ج:2، ص: 128، الحدیث: 2449)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔