Pages

Monday 19 July 2021

انگوٹھے_چومنا_دیوبندی_علما_کے_نزدیک_حدیث_مرفوع_سےثابت_ھے

#انگوٹھے_چومنا_دیوبندی_علما_کے_نزدیک_حدیث_مرفوع_سےثابت_ھے

 فتاوٰی دیوبند پاکستان (فتاوٰی فریدیہ)جلد دوم صفحہ 182 پر مفتی صاحب سے سوال ہوا کہ اذان میں اشھد ان محمد رسول اللہ پر پہنچ جاۓ تو بعض لوگ انگوٹھے چومتے ہیں کیا یہ درست ھے؟اور کہاں سے ثابت ھے 
#الجواب
جامع الرموز ۔کنزالعباد ۔فتاوٰی صوفیہ اور کتاب الفردوس وغیرہ میں اس چومنے کو جاٸز کہا گیا ھے۔اور اس باب میں احادیث مرفوعہ ضعیفہ مروی ہیں ایضاً فتاوٰی فریدیہ جلد اول صفحہ 319 پر اور "بوادر النوادر"میں اشرف علی تھانوی صاحب نے اس علاجاً مباح ہونے میں کہا ھے کہ شک نہیں ھے۔

دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے انصاف پسند حضرات فتاوٰی فریدیہ کی عبارت کر بار بار پڑھیں کہ جب یہ عمل احادیث مرفوعہ سے ثابت ھے فقہا اس کو مستحب لکھ رھے ہیں تو پھر اس عمل کے بجا لانے والوں کو بدعتی ہونے کا الزام دینا کس طرح درست ہو سکتا ھے کیا یہ شریعت سے مذاق اور ہوا پرستی نہیں ۔؟

نام محمدﷺ کی تعظیم

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مٶذن کا قول "اشھد ان محمد" سن کر انگوٹھوں کو چوما اور آنکھوں سے لگایا تو حضورﷺ نے فرمایا جس طرح میرے خلیل صدیق نے کیا جو بھی ایسے ہی کرے گا اس کے لٸے میری شفاعت واجب ہو گٸی۔

المقاصد الحسنة للسخاوی

دارلعلوم دیوبند پاکستان کا فتویٰ

اذان میں نبی کریمﷺ کا نام مبارک سن کر چومنا جاٸز ھے بطور احتیاط یہ کام قابل اعتراض نہیں ھے۔

فتاوی دیوبند پاکستان المعروف فتاویٰ فریدیہ جلد دوم

دارلعلوم دیوبند  کا فتویٰ

اذان میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام اقدس سن کر چومنا مستحب ھے(فتاویٰ دارلعلوم دیوبند,جلد دوم,صفحہ83) تو جناب یہی ہم اہلسنت کہتے ہیں مستحب عمل ناجاٸز کیسے ۔۔؟؟

گلی محلے کے گھامڑ فتوے باز ملاں اپنے اس فتاوی کا مطالعہ ضرور فرماٸیں ۔۔۔

وہابیوں کے مجتہد علامہ شوکانی کی کتاب سے حوالہ

اذان میں نبی کریمﷺ کا نام مبارک سن کر دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانے والے کی آنکھیں کبھی خراب نہیں ہونگی۔۔

(الفواٸد المجموعہ,صفحہ٢٠,علامہ شوکانی,وہابی مجتہد)

علامہ عبدالشکور لکھنوی دیوبندی لکھتا ھے جب اذان میں نام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سنے تو اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو آنکھوں پر رکھے اور کہے:قرة عینی بک یا رسول اللہﷺ،

(علم الفقہ,صفحہ158,عبد الشکور لکھنوی دیوبندی)

✍️ محمد راشد قادری

یستحبُ ان یقال عند سماع الاولیٰ من الشھادة"صلی اللہ علیک یارسول اللہ" وعند الثانیة منھا,قرت عینی بک یارسول اللہ, ثم یقول "الھم متعنی بالسمع والبصر"بعد وضع ظفری الابھا مین علی العینین فانہ ﷺ یکون قاٸدا لہ الی الجنة۔

یعنی جب موذن اشھد ان محمد رسول اللہ کہے تو آذان سننے والا پہلی دفعہ کلمہ مذکور سن کر "الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ"پڑھے۔اور پھر دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر دعا مانگے"الھم متعنی بالسمع والبصر"تو ایسا کرنے سے نبی پاکﷺ اسے اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے کر جاٸیں گے۔اور آذان میں حضورﷺ کے نام کو سن کر انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگانا مستحب ھے۔

ردالمختار علی الدرالمختار

مصنف۔
علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز بن احمد المشہور بابن عابدین الشامیؒ
(المتوفیٰ۔1252ھجری)

(جلد۔2۔صفحہ۔68)

#حوالہ

اذان میں "اشھد ان محمد رسول اللہ"سن کر اگر پڑھے
صلی اللہ علیک یا سیدی یارسول اللہ یا حبیب اللہ قلبی ویا نور بصری ویاقرة عینی۔
تو اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں اور کبھی اندھا نہ ہو گا۔

المقاصد الحسنة
مولف۔
شیخ شمس الدین محمد بن عبدالحمٰن السخاویؒ
المتوفیٰ۔902 ھجری
صفحہ۔441

اذان سنتے ہوۓ اشھد ان محمد رسول اللہ سن کر پڑھے۔
الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ۔اور انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگاۓ۔

مسند الفردوس
اورادشیخ شہاب الدین سہروردی
(بحوالہ فتاوٰی شامی۔صفحہ۔84)

جو شخص اذان میں اشھد ان محمد رسول اللہ کے کلمات کو پہلی دفعہ سن کر پڑھے۔
الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ ۔پڑھے اور دوسری دفعہ سن کر قرت عینی بک یا رسول اللہ پڑھے پھر اللھم متعنی بالسمع والبصر پڑھے اور اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگاۓ تو نبی پاک ﷺ جنت کی طرف اس کی رہنماٸی کرنےوالے ہوں گے اور اس شخص کا یہ عمل مستحب ھے۔

طحطاوی علی مراقی الفلاح
مصنف
علامہ احمد بن محمد بن اسمعیل الطحطاوی الحنفی
المتوفیٰ۔1231۔ھجری
صفحہ۔205

حضرت ابن صالح فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیوخ سے سنا جو کہ اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگاتے ہوۓ پڑھتے تھے۔
صلی اللہ علیک یا سیدی یارسول اللہ یا حبیب قلبی و یانور بصری و یا قرة عینی۔
ابن صالح فرماتے ہیں میں نے بھی جب سے یہ عمل شروع کیا تو میری آنکھیں کبھی نہیں دکھیں اور یہ میرے مشاٸخ کا مجرب عمل ھے۔

تذکرة الموضوعات
علی طاہر بن علی الھندی
المتوفیٰ۔986ھجری
صفحہ۔231

مذکورہ کتب انتہاٸی معتبر ہیں اور ان میں سے طحطاوی ۔جامع الرموز۔اور ردالمختار فقہ کی مشہور کتب ہیں اور فتاوٰی دارالعلوم دیوبند۔فتاوٰی رشیدیہ از رشید احمد گنگوہی۔فتاوٰی امدادیہ از اشرف علی تھانوی ۔فتاوٰی فیدیہ المشہور فتاوٰی دیوبند پاکستان اور دیگر فتاوٰی میں اکثر فقہی جزیے انہی کتب سے ہی پیش کٸے جاتے ہیں ۔اور ان سے ثابت ھے کہ اذان میں نبی پاکﷺ کا اسم گرامی"محمدﷺ"سن کر انگوٹھے چومنا مستحب ھے اور اخروی نجات کا ذریعہ ھے۔

(انیس الجلیس) صفحہ 142پر امام سیوطیؒ نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔جس نے میرا نام سن کر اپنے انگوٹھوں کو چوما اور آنکھوں سے لگایا وہ اپنے رب کو اس طرح دیکھے گا جیسے کہ نیک لوگ دیکھیں گے اور میری شفاعت اس کو نصیب ہو گی اگرچہ وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو

توضیح(تقبیل ابھامین)
یعنی حضورﷺ کے اسم گرامی کو سن کر ادب و محبت سے انگوٹھوں یا انگلیوں کو چوم کر آنکھوں سے لگانا حدیث سے ثابت ھے۔
علامہ احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی مراقی کے حاشیہ صفحہ 205پر لکھتے ہیں۔
یعنی دیلمی نے مسند فردوس میں موذن کے قول اشھد ان محمد رسول اللہ کہنے کے وقت سبابہ انگلیوں کے پوروں کو چوم کر آنکھوں سے لگانے کے عمل کو حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی حدیث سے مرفوعاً روایت کیا ھے۔یہی وجہ ھے مسلہ (تقبیل ابھامین او سبابتین)کے بارے میں مانعین بھی مانتے ہیں کہ یہ عمل حدیث سے ثابت ھے۔
چنانچہ فتاوٰی دیوبند پاکستان (فتاوٰی فریدیہ)جلد دوم صفحہ 182 پر مفتی صاحب سے سوال ہوا کہ اذان میں اشھد ان محمد رسول اللہ پر پہنچ جاۓ تو بعض لوگ انگوٹھے چومتے ہیں کیا یہ درست ھے؟اور کہاں سے ثابت ھے 
الجواب
جامع الرموز ۔کنزالعباد ۔فتاوٰی صوفیہ اور کتاب الفردوس وغیرہ میں اس چومنے کو جاٸز کہا گیا ھے۔اور اس باب میں احادیث مرفوعہ صیغہ مروی ہیں ایضاً فتاوٰی فریدیہ جلد اول صفحہ 319 پر اور "بوادر النوادر"میں اشرف علی تھانوی صاحب نے اس علاجاً مباح ہونے میں کہا ھے کہ شک نہیں ھے۔

دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے انصاف پسند حضرات فتاوٰی فریدیہ کی عبارت کا بار بار پڑھیں کہ جب یہ عمل احادیث مرفوعہ سے ثابت ھے فقہا اس کو مستحب لکھ رھے ہیں تو پھر اس عمل کے بجا لانے والوں کو بدعتی ہونے کا الزام دینا کس طرح درست ہو سکتا ھے کیا یہ شریعت سے مذاق اور ہوا پرستی نہیں ۔؟
مکمل تحریر >>

Sunday 11 July 2021

تمیمہ اور تعویذ میں فرق اور تکفیری وہابیہ کی دھوکہ دہی*

*تمیمہ اور تعویذ میں فرق اور تکفیری وہابیہ کی دھوکہ دہی*

حدیث پاک میں تمیمہ لٹکانے کو شرک کہا گیا ہے نہ کہ تعویذ کو.. وہابی خارجی جو کہ مسلمانوں پر کفر و شرک کے فتوے لگانے کے عادی مجرم ہیں وہ دور جاہلیت یعنی اسلام سے پہلے کے زمانہ کے شرکیہ تمیمہ کی ممانعت کو قرآن کریم کی آیات، احادیث اور اسماءاللہ عزوجل و رسول علیہ الصلوۃ و السلام یا بابرکت کلمات کو بنا کر پیش کرتے ہیں اور بیوقوف لوگ ان خوارج کے جھانسہ میں آ کر اپنا ایمان برباد کرتے ہیں.

*تیمیہ و تعویذات میں فرق:*

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إن  الرقى  والتمائم  و التولة  شرك" 
 ''یعنی دم اور تمائم (تمیمہ کی جمع) اور محبت کے ٹونے ٹوٹکے شرک ہیں۔''(رواہ احمد و ابو داؤد)

 اس حدیث میں دم سے مراد شرکیہ دم ہیں کیونکہ شرک سے پاک دم کرنے کی اجازت بلکہ ترغیب خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أعرضوا  على  رقاكم  لا بأس  بالرقى ما لم تكن  شركا" 
 ''مجھے اپنے دم سناؤ  دَم میں کوئی حرج نہیں جب تک شرک نہ ہو۔''
اور صحیح مسلم میں ہی دَم کے متعلق آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:
"من استطاع  أن ينفع  أخاه  فلينفع" 
 ''جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو پہنچائے۔''

 تمائم تمیمہ کی جمع ہے اس کا ترجمہ وہابی تعویذ کرتے ۔ مگر یہ ترجمہ درست نہیں کیونکہ تمیمہ کے متعلق لغت کی تمام کتابوں میں لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ منکے وغیرہ ہیں جنہیں اس مقصد کے لئے لٹکایا جاتا تھا کہ ان کے لٹکانے سے بیماری دور رہتی ہے۔

تعویذ کی لغوی معنی “حفاظت کی دعا کرنا” ہے. (مصباح اللغات : ٥٨٣) فعل کے حساب سے (عربی میں) مادہ عوذ کے تحت “عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ” باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے. (المنجد : صفحہ ٥٩٣) دوسرے لفظوں میں آپ اسے اسم کے حساب سے “تحریری دعا” کہہ لیجئے. جس طرح زبانی دعا کی قبولیت و اثرپذیری الله تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، ٹھیک اسی طرح پر قرآن کی آیات پر مشتمل تعویذ یعنی “تحریری دعا” کے اثرات و فوائد بھی الله تعالیٰ کی مشیت و مرضی پر ہی منحصر ہے. 

التميمة : وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم , يتقون بها العين في زعمهم (النهاية لابن الأثير : ج ١ ، ص ١٩٧)؛
“تميمة : “یہ خرزات (پتھر، منکے اور کوڑیوں کی مالا) کو کہتے ہیں جنہیں (زمانہ جاہلیت میں) عرب لوگ ( موثر بالذات سمجھ کر یعنی اللہ کے حکم کے بغیر خود سے اثر کرنے والے ) بچوں کو اس کے ذریعہ سے نظر_بد سے بچانے کے زعم (عقیدہ و نظریہ) سے پہناتے تھے”.
 
امام بغوی فرماتے ہیں : ’’ اَلتَّمَائِمُ جَمْعُ تَمِیْمَۃٍ وَ ہِیَ خَرَزَاتٌ کَانَتِ الْعَرَبُ تُعَلِّقُہَا عَلٰی اَوْلاَدِہِمْ یَتَّقُوْنَ بِہَا الْعَیْنَ بِزَعْمِہِمْ فَاَبْطَلَہَا الشَّرْعُ ‘‘ [شرح السنۃ (۱۲/۱۵۸)]
’’تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ گھونگے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کے لیے (اللہ کے حکم کے بغیر خود سے اثر کرنے والے سمجھ کرپہناتے تھے) شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔‘‘

*تعویذ کے جواز کے دلائل*

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ کَتَبَهَا فِي صَکٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے۔
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1479 (29413) دعاؤں کا بیان؛
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 503 (18572) – طب کا بیان : تعویذ کیسے کیے جائیں]

امام بخاری و مسلم رحمہما اللہ کے شیخ الحدیث امام ابو بکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ (235ھ) کی “المصنف” کے “كتاب الطب” کے “باب:جس نے اجازت دی تعویذ لٹکانے کے میں” کی احادیث ملاحظہ ہوں:
حضرت مجاہد رحمہ بچوں کے لئے “تعویذ” لکھتے تھے پھر وه ان پر اسے لٹکاتے تھے.
23893- …..حضرت جعفر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ تعویذات_قرآنیہ کو چمڑے میں ڈال کر گلے وغیرہ میں لٹکانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے.

23895- …..حضرت ابن سیرین تعویذات_قرآنیہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے.
23896- …..حضرت ایوب رحمہ اللہ نے حضرت عبیداللہ بن عبدالله بن عمر رحمہ اللہ کے بازو میں ایک دھاگہ دیکھا.
23897- …..حضرت عطاء رحمہ اللہ نے فرمایا : نہیں ہے کوئی حرج کہ (گلے میں) لٹکایا جاۓ قرآن.
23898- …..یونس بن حباب سے روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا تعویذات بچوں پر لٹکانے کے بارے میں؟ تو انہوں نے رخصت (اجازت) دی اس میں. 

چونکہ تمیمہ (پناہ حاصل کرنے کے لئے) بھی گلے میں لٹکایا جاتا تھا اس لیے جاہل گمراہ وہابیوں نے اسے تعویذ کہنا لکھنا شروع کر دیا جبکہ تعویذ میں اسماء اللہ تعالیٰ یا ماثورہ دعائیں اور بابرکات کلمات ہوں اور اس کو موٴثر حقیقی (بغیر اللہ کے حکم کے اثر کرنے والا) نہ سمجھا جاتا ہو (صرف الله کو موثر حقیقی مانتے بطور سبب کے تعویذ اختیار کیا جاتا ہو) تو اس قسم کے تعویذ کو بھی شرک قرار دینا جہالت و خارجیت ہے، اس لیے کہ اس قسم کے تعویذ کے لینے دینے اور استعمال کی اجازت کتب حدیث سے ملتی ہے،
مکمل تحریر >>

Sunday 4 July 2021

شیعہ کے کافر ہونے کی بابت سلف صالحین، ائمہ عظام، اکابر مفسرین اور فقہائے کرام کے فتاوی *

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم​

* شیعہ کے کافر ہونے کی بابت سلف صالحین، ائمہ عظام، اکابر مفسرین اور فقہائے کرام کے فتاوی *

مسلمان کہلواکر اسلام سے خارج کرنے والے امور کا ارتکاب کرنے والے کو مسلمان نہیں بلکہ کافر کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کا انکار کرنے والے، امہات المؤمنین اور صحابہ کرام کو گالیاں دینے والے شیعہ کسی بھی لحاظ سے نہ مسلمان ہیں اور نہ ہی اسلام سے ان کا کوئی تعلق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب سے شیعیت ــ جس کا دوسرا نام رافضیت ہے ــ کے آغاز ہونے سے اب تک علمائے اہل حق شیعہ کو یہودونصاری کی طرح کا کافر بلکہ ان سے بدتر کافر قرار دیتے ہوئے آئے ہیں۔ اس وجہ سے کہ شیعہ نے اسلام کو ڈھادینے والے امور کا ارتکاب کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام دین کا لب ولباب شرک اور ہر کام میں اسلام کی مخالفت کرنا بنالیا ہے۔
شیعوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے شیعہ سنی بھائی بھائی کا نعرہ لگاتے ہوئے ہمیشہ ہر دور میں ہر جگہ میں امت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ مسلمانوں کیخلاف یہودونصاری اور دیگر دشمنان اسلام کی طرف سے ہونے والی ہر جارحیت اور حملے میں ان کا ساتھ دیا ہے۔
یہ سب حقائق کے باوجود کچھ سادہ لوح مسلمان ایسے ہیں جو اب بھی شیعوں سے دھوکے میں مبتلاہیں اور ان کو کافر کہنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
ایسے ہی لوگوں کے لیے ہم یہاں سلف صالحین، ائمہ کرام، فقہاء اور مفسرین رحمہم اللہ کے انتہائی اختصار کے ساتھ فتاوی کو بمع حوالہ اور اصل عربی عبارت کے ساتھ پیش کرینگے جن میں انہوں نے شیعوں کے کافر ہونے کے فتاوی جاری کرکے امت مسلمہ کو کئی صدیوں پہلے مسلمانوں کو کافروں کی اس نئی نسل شیعہ کی اصلیت بتاتے ہوئے ان سے خبردار کیا۔

سلف صالحین، ائمہ عظام، اکابر مفسرین اور فقہائے کرام کا رافضی شیعہ کے کافر ہونے کی بابت فتاوی:

1- امام مالك ابن انس رحمہ اللہ:
الخلال نے ابو بکر المروذی سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ کو یہ بتاتے ہوئے سنا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:
الذي يشتم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ليس لهم اسم أو قال : نصيب في الإسلام.
''جو نبی ﷺ کے صحابہ کو گالی دیتے ہیں ان کا برائے نام بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اسلام سے ان کا کوئی حصہ ہے۔'' (السنة، للخلال، ج 2 / ص 557)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اللہ تعالی کے اس فرمان {محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار} سے لیکر اس فرمان الہی تک {ليغيظ بهم الكفار}کی شرح میں لکھا ہے کہ:
ومن هذه الآية انتزع الإمام مالك رحمة الله عليه في رواية عنه بتكفير الروافض الذين يبغضون الصحابة رضي الله عنهم قال : لأنهم يغيظونهم ومن غاظ الصحابة رضي الله عنهم فهو كافر لهذه الآية ووافقه طائفة من العلماء رضي الله عنهم على ذلك.
''اس آیت سے امام مالک رحمہ اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنھم سے بغض رکھنے والے روافضہ (شیعہ) کی تکفیر کا استنباط کیا ہے کیونکہ یہ صحابہ کرام کو غیظ دلاتے ہیں اور جو صحابہ کو غیظ دلائے تو وہ اس آیت کی رو سے کافر ہے۔ علماء کی ایک جماعت ــ اللہ ان سے راضی ہوــ نے اس پر امام مالک کی موافقت کی ہے۔'' (تفسير ابن كثير: ج 4 / ص219 )
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لقد أحسن مالك في مقالته وأصاب في تأويله فمن نقص واحداً منهم أو طعن عليه في روايته فقد رد على الله رب العالمين وأبطل شرائع المسلمين
''امام مالک نے کافی اچھی بات کی ہے اور اس کی تاویل کرنے میں درستگی کو پایا۔ پس جس کسی نے کسی ایک صحابی کی شان گھٹائی یا ان کی روایت میں کوئی طعن کیا تو اس نے اللہ رب العالمین کو ٹھکرا دیا اور مسلمانوں کی تمام شریعتوں کو منسوخ کرڈالا ہے۔'' (تفسير القرطبی : ج 16 / ص 297 )

2- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ:
امام الخلال نے السنۃ میں ابوبکر المروزی سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ ـــ احمد بن حنبل رحمہ اللہ ـــ سے پوچھا کہ جو ابوبکر، عمر اور عائشہ رضی اللہ عنھم کو گالیاں دیتے ہیں، ان کا حکم کیا ہیں؟
امام احمد بن حنبل نے جواب دیا:
ما أراه على الإسلام.
''میرے نزدیک وہ اسلام پر نہیں ہیں۔''
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
إذا كان جهمياً، أو قدرياً، أو رافضياً داعية، فلا يُصلى عليه، ولا يُسلم عليه.
''اگر جہمی، قدری اور رافضی(شیعی) بلانے والا ہو تو اسے نہ سلام کیا جائے اور نہ اس کی نمازہ جنازہ پڑھی جائے۔'' (کتاب السنة، للخلال، اثر روایت نمبر: 785)

3- امام بخاری رحمہ اللہ:
ما أبالي صليت خلف الجهمي والرافضي، أم صليت خلف اليهود والنصارى، لا يُسلم عليهم، ولا يُعادون ولا يُناكحون، ولا يشهدون، ولا تُؤكل ذبائحهم.
''میرے نزدیک جہمی اور رافضی(شیعی) کے پیچھے نماز پڑھنے اور یہود ونصاری کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی فرق نہیں ہیں۔ ان جہمیوں اور رافضیوں(شیعوں) کو نہ سلام کیا جائے، نہ ان سے ملا جائے، نہ ان سے نکاح کیا جائے، نہ ان کی گواہی قبول کی جائے اور نہ ان کے ہاتھوں سے ذبح شدہ جانوروں کا گوشت کھایا جائے۔'' (كتاب خلق افعال العباد، از امام بخاری: صفحہ 125)

4- امام الفریابی رحمہ اللہ:
عن موسى بن هارون بن زياد قال: سمعت الفريابي – وهو محمد بن يوسف الفريابي – ورجل يسأله عمن شتم أبا بكرٍ قال: كافر، قال: فيصلى عليه؟ قال: لا، وسألته كيف يُصنع به وهو يقول: لا إله إلا الله؟ قال: لا تمسوه بأيديكم، ارفعوه بالخشب حتى تواروه في حفرته.
''موسی بن ھارون بن زیاد روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن یوسف الفریابی سے سنا کہ ان سے ایک شخص نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گالی دینے والے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ وہ کافر ہے۔ اس نے پوچھا کہ کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے تو آپ نے جواب دیا: نہیں۔
میں نے پھر آپ سے پوچھا کہ(اگر اس کی نمازہ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی) تو پھر اس کی لاش کے ساتھ کیا کیا جائے گا جبکہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اس کے جسم کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے۔ لکڑی کے ذریعے اسے اٹھا کر اس کی قبر میں ڈال دو۔'' (کتاب السنة للخلال، روایت نمبر: 794)
(یعنی شیعی کافر پلید کی لاش کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے اور اسے لکڑی کے ذریعے سے قبر میں ڈال دیا جائے۔)

5- امام احمد ابن یونس رحمہ اللہ:
أنا لا آكل ذبيحة رجل رافضي فإنه عندي مرتد.
''میں کسی رافضی (شیعی) کا ذبیحہ نہیں کھاتا ہوں کیونکہ وہ میرے نزدیک مرتد ہے۔'' (اعتقاد اہل السنة والجماعة، اللالكائی ج 8 / صفحہ 1546)
انہوں نے مزید فرمایا:
لو أن يهودياً ذبح شاة، وذبح رافضي لأكلت ذبيحة اليهودي، ولم آكل ذبيحة الرافضي لأنه مرتد عن الإسلام
''اگر یہودی کسی بکری کو ذبح کرے اور رافضی(شیعی) کسی بکری کو ذبح کرے تو میں یہودی کا ذبیحہ کھالوں گا (کیونکہ قرآن نے اہل کتاب کا ذبیحہ کھانا حلال کیا ہے)۔ میں رافضی (شیعی) کی ذبح کردہ بکری نہیں کھاؤں گا کیونکہ وہ اسلام سے مرتد ہے۔'' (الصارم المسلول، امام ابن تیمیہ: صفحہ 570 )

6- امام حسن بن علی بن خلف البربھاری رحمہ الله:
واعلم أن الأهواء كلها ردية، تدعوا إلى السيف، وأردؤها وأكفرها الرافضة، والمعتزلة، والجهمية، فإنهم يريدون الناس على التعطيل والزندقة
''جان لیجئے! اہل اھواء تمام مرتد ہیں، جو تلوار کی طرف بلاتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ارتداد اور کفر والے رافضی (شیعی)، معتزلہ اور جھمیہ ہیں کیونکہ یہ لوگوں میں تعطیل (انکار) اور زندیقیت (الحاد) پھیلانا چاہتے ہیں۔'' (کتاب شرح السنة، صفحہ: 54)

7- امام عبد القاھر البغدادی التمیمی رحمہ اللہ:
وأما أهل الأهواء من الجارودية والهشامية والجهمية والإمامية الذين كفروا خيار الصحابة .. فإنا نكفرهم، ولا تجوز الصلاة عليهم عندنا ولا الصلاة خلفهم
''اہل اھواء میں سے جاوردیہ، ھشامیہ، جھمیہ اور امامیہ (شیعہ) جنہوں نے صحابہ کرام کی مایہ ناز ہستیوں کی تکفیر کا ارتکاب کیا .. ہم ان کو کافر قرار دیتے ہیں اور ہمارے نزدیک نہ ان کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہیں اور نہ ہی ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔'' (کتاب الفرق بين الفرق، صفحہ: 357)

8- امام قاضی ابو یعلی رحمہ اللہ:
وأما الرافضة فالحكم فيهم .. إن كفر الصحابة أو فسقهم بمعنى يستوجب به النار فهو كافر
''رافضیوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ: .. بلاشبہ صحابہ کو کافر یا فاسق قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اپنے اوپر ہی جہنم واجب ہوجاتی ہیں اور وہ خود کافر ہیں۔'' (کتاب المعتمد، صفحہ: 267)

9- امام ابن حزم الظاہری رحمہ اللہ:
الروافض ليسوا من المسلمين.. وهي طائفة تجري مجرى اليهود والنصارى في الكذب والكفر.
''رافضی مسلمان نہیں ہیں.. بلکہ یہ ایک ایسا گروہ ہے جو جھوٹ اور کفر بکنے میں یہود ونصاری کے نقش قدم پر ان کے برابر چل رہا ہے۔'' (کتاب الفصل فی الملل والنحل، ج 2، صفحہ: 78)
ایک اور مقام پر فرمایا:
وإنما خالف في ذلك (وجوب الأخذ بما في القرآن) قوم من غلاة الروافض وهم كفار بذلك مشركون عند جميع أهل الإسلام وليس كلامنا مع هؤلاء وإنما كلامنا مع ملتنا
''قرآن میں جو کچھ ہے، اس پر عمل کرنا واجب ہونے کی مخالفت غلو پسند رافضیوں (شیعوں) کی قوم نے کی ہے اور ایسا کرنے کی وجہ سے وہ ایسے کافر ہیں کہ تمام اہل اسلام کے نزدیک وہ مشرک ہیں۔ اس لیے ہمارے مخاطب یہ (رافضی شیعہ) نہیں ہے بلکہ ہمارے مخاطب ہماری ملت والے ہیں (یعنی شیعہ ہم مسلمانوں کی ملت میں سے نہیں ہیں)۔'' (الاحكام لابن حزم: ج 1، صفحہ: 96)

10- امام شوکانی رحمہ اللہ:
إن أصل دعوة الروافض كياد الدين ومخالفة الإسلام وبهذا يتبين أن كل رافض خبيث يصير كافرا بتكفيره لصحابي واحد فكيف بمن يكفر كل الصحابة واستثنى أفرادا يسيره.
''رافضیوں کی دعوت (منہج) کی اصلیت ہی دین کیخلاف سازش اور اسلام کی مخالفت کرنے پر مبنی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہر رافضی (شیعی) خبیث ایک صحابی کی تکفیر کرنے کی وجہ سے کافر ہوجاتا ہے تو اس کا کیا حال ہوگا جو تمام صحابہ کو کافر کہتا ہوں اور چند صحابہ کو کفر سے مستثنی قرار دیتا ہوں۔'' (كتاب نثر الجوهر على حديث أبي ذر، از امام شوکانی)

11- امام قاضی عیاض رحمہ اللہ :
نقطع بتكفير غلاة الرافضة في قولهم إن الأئمة أفضل من الأنبياء
''اماموں کو انبیاء سے زیادہ افضل قرار دینے والے غالی رافضیوں(شیعوں) کے قول میں موجود کفر کا ہم سرے سے انکار کرتے ہیں۔''
ایک اور جگہ پر فرمایا:
وكذلك نكفر من أنكر القرآن أو حرفاً منه أو غير شيئاً منه أو زاد فيه كفعل الباطنية والإسماعيلية
''اسی طرح ہم ر اس شخص کی تکفیر کرتے ہیں جس نے قرآن کا انکار کیا یا اس کے ایک حرف کا انکار کیا یا اس میں موجود کسی لفظ کو تبدیل کر ڈالا یا اس میں اضافہ کیا جیساکہ باطنیہ اور اسماعیلیہ ( شیعوں) نے کیا۔'' (کتاب الشفا: ج 2 ص 1078)

12- امام السمعانی رحمہ اللہ:
واجتمعت الأمة على تكفير الإمامية، لأنهم يعتقدون تضليل الصحابة وينكرون إجماعهم وينسبونهم إلى ما لا يليق بهم
''ساری امت امامیہ (شیعوں) کے کافر ہونے پر متفق ہیں کیونکہ یہ صحابہ کو گمراہ سمجھتے ہیں، ان کے اجماع کے منکر ہیں اور ان کی طرف ایسی چیزوں کو منسوب کرتے ہیں جو ان کے شان شایان نہیں ہیں۔'' (کتاب الانساب ج 6، صفحہ: 341)

13- فقیہ مفسر امام اصولی، الاسفرایینی ابو المظفر شہفور بن طاہر بن محمد رحمہ اللہ:
رافضیوں کے چند عقائد بیان کرنے کے بعد آپ لکھتے ہیں:
وليسوا في الحال على شيء من الدين ولا مزيد على هذا النوع من الكفر إذ لا بقاء فيه على شيء من الدين
''یہ (رافضی شیعہ) دین کی کسی چیز پر نہیں ہے اور اس سے بڑھ کر کفر کی کوئی قسم نہیں ہے کیونکہ ان میں دین کی کوئی ایک چیز بھی موجود نہیں ہے۔'' (کتاب التبصیر فی الدین: صفحہ: 24-25)
مکمل تحریر >>