Pages

Sunday 11 July 2021

تمیمہ اور تعویذ میں فرق اور تکفیری وہابیہ کی دھوکہ دہی*

*تمیمہ اور تعویذ میں فرق اور تکفیری وہابیہ کی دھوکہ دہی*

حدیث پاک میں تمیمہ لٹکانے کو شرک کہا گیا ہے نہ کہ تعویذ کو.. وہابی خارجی جو کہ مسلمانوں پر کفر و شرک کے فتوے لگانے کے عادی مجرم ہیں وہ دور جاہلیت یعنی اسلام سے پہلے کے زمانہ کے شرکیہ تمیمہ کی ممانعت کو قرآن کریم کی آیات، احادیث اور اسماءاللہ عزوجل و رسول علیہ الصلوۃ و السلام یا بابرکت کلمات کو بنا کر پیش کرتے ہیں اور بیوقوف لوگ ان خوارج کے جھانسہ میں آ کر اپنا ایمان برباد کرتے ہیں.

*تیمیہ و تعویذات میں فرق:*

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إن  الرقى  والتمائم  و التولة  شرك" 
 ''یعنی دم اور تمائم (تمیمہ کی جمع) اور محبت کے ٹونے ٹوٹکے شرک ہیں۔''(رواہ احمد و ابو داؤد)

 اس حدیث میں دم سے مراد شرکیہ دم ہیں کیونکہ شرک سے پاک دم کرنے کی اجازت بلکہ ترغیب خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أعرضوا  على  رقاكم  لا بأس  بالرقى ما لم تكن  شركا" 
 ''مجھے اپنے دم سناؤ  دَم میں کوئی حرج نہیں جب تک شرک نہ ہو۔''
اور صحیح مسلم میں ہی دَم کے متعلق آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:
"من استطاع  أن ينفع  أخاه  فلينفع" 
 ''جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو پہنچائے۔''

 تمائم تمیمہ کی جمع ہے اس کا ترجمہ وہابی تعویذ کرتے ۔ مگر یہ ترجمہ درست نہیں کیونکہ تمیمہ کے متعلق لغت کی تمام کتابوں میں لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ منکے وغیرہ ہیں جنہیں اس مقصد کے لئے لٹکایا جاتا تھا کہ ان کے لٹکانے سے بیماری دور رہتی ہے۔

تعویذ کی لغوی معنی “حفاظت کی دعا کرنا” ہے. (مصباح اللغات : ٥٨٣) فعل کے حساب سے (عربی میں) مادہ عوذ کے تحت “عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ” باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے. (المنجد : صفحہ ٥٩٣) دوسرے لفظوں میں آپ اسے اسم کے حساب سے “تحریری دعا” کہہ لیجئے. جس طرح زبانی دعا کی قبولیت و اثرپذیری الله تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، ٹھیک اسی طرح پر قرآن کی آیات پر مشتمل تعویذ یعنی “تحریری دعا” کے اثرات و فوائد بھی الله تعالیٰ کی مشیت و مرضی پر ہی منحصر ہے. 

التميمة : وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم , يتقون بها العين في زعمهم (النهاية لابن الأثير : ج ١ ، ص ١٩٧)؛
“تميمة : “یہ خرزات (پتھر، منکے اور کوڑیوں کی مالا) کو کہتے ہیں جنہیں (زمانہ جاہلیت میں) عرب لوگ ( موثر بالذات سمجھ کر یعنی اللہ کے حکم کے بغیر خود سے اثر کرنے والے ) بچوں کو اس کے ذریعہ سے نظر_بد سے بچانے کے زعم (عقیدہ و نظریہ) سے پہناتے تھے”.
 
امام بغوی فرماتے ہیں : ’’ اَلتَّمَائِمُ جَمْعُ تَمِیْمَۃٍ وَ ہِیَ خَرَزَاتٌ کَانَتِ الْعَرَبُ تُعَلِّقُہَا عَلٰی اَوْلاَدِہِمْ یَتَّقُوْنَ بِہَا الْعَیْنَ بِزَعْمِہِمْ فَاَبْطَلَہَا الشَّرْعُ ‘‘ [شرح السنۃ (۱۲/۱۵۸)]
’’تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ گھونگے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کے لیے (اللہ کے حکم کے بغیر خود سے اثر کرنے والے سمجھ کرپہناتے تھے) شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔‘‘

*تعویذ کے جواز کے دلائل*

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ کَتَبَهَا فِي صَکٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے۔
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1479 (29413) دعاؤں کا بیان؛
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 503 (18572) – طب کا بیان : تعویذ کیسے کیے جائیں]

امام بخاری و مسلم رحمہما اللہ کے شیخ الحدیث امام ابو بکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ (235ھ) کی “المصنف” کے “كتاب الطب” کے “باب:جس نے اجازت دی تعویذ لٹکانے کے میں” کی احادیث ملاحظہ ہوں:
حضرت مجاہد رحمہ بچوں کے لئے “تعویذ” لکھتے تھے پھر وه ان پر اسے لٹکاتے تھے.
23893- …..حضرت جعفر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ تعویذات_قرآنیہ کو چمڑے میں ڈال کر گلے وغیرہ میں لٹکانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے.

23895- …..حضرت ابن سیرین تعویذات_قرآنیہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے.
23896- …..حضرت ایوب رحمہ اللہ نے حضرت عبیداللہ بن عبدالله بن عمر رحمہ اللہ کے بازو میں ایک دھاگہ دیکھا.
23897- …..حضرت عطاء رحمہ اللہ نے فرمایا : نہیں ہے کوئی حرج کہ (گلے میں) لٹکایا جاۓ قرآن.
23898- …..یونس بن حباب سے روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا تعویذات بچوں پر لٹکانے کے بارے میں؟ تو انہوں نے رخصت (اجازت) دی اس میں. 

چونکہ تمیمہ (پناہ حاصل کرنے کے لئے) بھی گلے میں لٹکایا جاتا تھا اس لیے جاہل گمراہ وہابیوں نے اسے تعویذ کہنا لکھنا شروع کر دیا جبکہ تعویذ میں اسماء اللہ تعالیٰ یا ماثورہ دعائیں اور بابرکات کلمات ہوں اور اس کو موٴثر حقیقی (بغیر اللہ کے حکم کے اثر کرنے والا) نہ سمجھا جاتا ہو (صرف الله کو موثر حقیقی مانتے بطور سبب کے تعویذ اختیار کیا جاتا ہو) تو اس قسم کے تعویذ کو بھی شرک قرار دینا جہالت و خارجیت ہے، اس لیے کہ اس قسم کے تعویذ کے لینے دینے اور استعمال کی اجازت کتب حدیث سے ملتی ہے،

2 comments:

AM نے لکھا ہے کہ

اگر تعویذ میں قرآنی آیات ہوں تو اسے واشروم میں لیکر جانا مناسب ہے ؟

AM نے لکھا ہے کہ

دم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے تعویذ کی کوئی حدیث جس میں آپ صل اللہ علیہ وسلم نے تعویذ دیا ہو۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔