Pages

Tuesday 31 October 2017

قادیانی فتنہ کیوں ایجاد کیا گیا

قادیانی فتنہ کیوں ایجاد کیا گیا
1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزی استعمار اپنے تمام مظالم، جبر و استبداد کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے جذبہ جہاد کے سامنے سپر انداز ہو گیا تھا۔ انگریزوں کی پریشانی کا اندازہ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر (W.W.Hunter) کی کتاب ’’ہندوستانی مسلمان‘‘ (THE INDIAN MUSALMANS) سے لگایا جا سکتا ہے۔

30 مئی 1871ء کو وائسرائے لارڈ میو نے جو کہ ڈزرائیلی حکومت کا آئرش سیکرٹری تھا، ایک مقامی سول ملازم ڈبلیو۔ ڈبلیو۔ ہنٹر کو اس سلگتے مسئلہ پر ایک رپورٹ تیار کرنے کو کہا: ’’کیا مسلمان برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے اپنے ایمان کی وجہ سے مجبور ہیں؟‘‘ ہنٹر کو حقیقت حال تک رسائی کے لیے تمام خفیہ سرکاری دستاویزات کی جانچ پڑتال کی اجازت دے دی گئی۔ ہنٹر نے 1871ء میں ’’ہندوستانی مسلمان۔ کیا وہ اپنے ایمان کی وجہ سے شعوری طور پر ملکہ کے خلاف بغاوت کے لیے مجبور ہیں؟‘‘ کے عنوان سے اپنی رپورٹ شائع کی۔ اس نے اسلامی تعلیمات خصوصاً جہادی تصور، نزول مسیح و مہدی کے نظریات وغیرہ پر بحث کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا:

’’مسلمانوں کی موجودہ نسل اپنے معتقدات کی رو سے موجودہ صورتحال (جیسی کہ ہے) کو قبول کرنے کی پابند ہے، مگر قانون (قرآن) اور پیغمبروں (کے تصورات) کو دونوں طریقوں سے یعنی وفاداری اور بغاوت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے پہلے بھی خطرہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں اور اس دعویٰ کی کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ یہ باغی اڈہ (شمال مغربی سرحد) جس کی پشت پناہی مغربی اطراف کے مسلمانوں کے جتھے کر رہے ہیں، کسی کی رہنمائی میں وہ قوت حاصل کرے گا جو ایشیائی قوموں کو اکٹھا اور قابو کر کے ایک وسیع محاربہ Crescentado کی شکل دے دے۔‘‘ (The Indian Musalmans by W.W.Hunter)

اس کے علاوہ وہ مزید لکھتا ہے:

’’ہماری مسلمان رعایا سے کسی بھی پرُجوش وفاداری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ تمام قرآن مسلمانوں کے بطور فاتح نہ کہ مفتوح کے طور پر تصورات سے لبریز ہے۔ مسلمانانِ ہند ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے ہمیشہ کا خطرہ ہو سکتے ہیں۔‘‘ (The Indian Musalmans by W.W.Hunter)

سابق برطانوی وزیر اعظم ولیم ایورٹ گلیڈ سٹون (William Ewart Gladstone) نے اپنے ہاتھ میں قرآن مجید لہرا کر برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:’’جب تک یہ قرآن مسلمانوں کے ہاتھوں یا ان کے قلوب و اذہان میں موجود رہے گا، اس کے تصور جہاد کی وجہ سے یورپ، اسلامی مشرق پر اولاً تو اپنا غلبہ و تسلط قائم نہیں کرسکتا اور اگر قائم کر لے تو وہ اسے برقرار رکھنے میں زیادہ دیر تک کامیاب نہیں رہ سکتا۔ حتیٰ کہ خود یورپ کا اپنا وجود بھی اسلام کی جانب سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔‘‘ (اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یورپی سازشیں از علامہ جلال العالم)

اس سے پہلے انگلستان گورنمنٹ نے 1869ء کے اوائل میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں، برطانوی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سرولیم کی زیر قیادت ہندوستان میں بھیجا تاکہ اس بات کا کھوج لگایا جا سکے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو کس طرح رام کیا جا سکتا ہے؟ ہندوستانی عوام اور بالخصوص مسلمانوں میں، وفاداری کیونکر پیدا کی جا سکتی ہے؟ برطانوی وفد ایک سال ہندوستان میں رہا اور حالات کا جائزہ لیا۔ اسی سال وائٹ ہال لندن میں اس وفد کا اجلاس ہوا، جس میں ہندوستانی مشنریز کے اہم پادری بھی تھے۔ کمیشن کے سربراہ سرولیم نے بتایا:

’’مذہبی نقطہ نظر سے مسلمان کسی دوسری قوم کی حکومت کے زیر سایہ نہیں رہ سکتے۔ ایسے حالات میں وہ جہاد کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ جوش کسی وقت بھی انھیں ہمارے خلاف ابھار سکتا ہے۔‘‘

اس وفد نے "The Arrival of British Empire in India" (ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد) کے عنوان سے دو رپورٹیں لکھیں، جس میں انھوں نے لکھا: ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو الہامی سند پیش کرے تو ایسے شخص کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘

انگلستانی وفد کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:

REPORT OF MISSIONARY FATHERS

"Majority of the population of the country blindly follow their "Peers" their spiritual leaders. If at this stage, we succeed in finding out some who would be ready to declare himself a Zilli Nabi (apostolic prophet) then the large number of people shall rally round him. But for this purpose, it is very difficult to persuade some one from the Muslim masses. If this problem is solved, the prophethood of such a person can flourish under the patronage of the Government. We have already overpowered the native governments mainly pursuing a policy of seeking help from the traitors. That was a different stage, for at that time, the traitors were from the military point of view. But now when we have sway over every nook of the country and there is peace and order every where we ought to undertake measures which might create internal unrest among the country."

(Extract from the Printed Report. India Office Library, London)

ترجمہ: ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے پیروں اور روحانی رہنمائوں کی اندھی تقلید کرتی ہے۔ اگر اس موقع پر ہمیں کوئی ایسا شخص مل جائے، جو ظلی نبوت (حواری نبی) کا اعلان کر کے، اپنے گرد پیروکاروں کو اکٹھا کرے لیکن اس مقصد کے لیے اس کو عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی حکومت کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔ ہم نے مقامی حکومتوں کو پہلے ہی ایسی ہدایات دی ہوئی ہیں کہ غداروں سے معاونت حاصل کی جائے، اس وقت مسلح غداری ہوئی تھی اور صورت حال اور تھی، لیکن اب ہم نے ہندوستان کے طول و عرض میں ایسے انتظامات کر لیے ہیں، ملک میں ہر طرف امن و امان ہے۔ ملک کی اندرونی بدامنی سے نمٹنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جا چکے ہیں جو ملک میں اندرونی بدامنی پیدا کریں گے۔‘‘

(مطبوعہ رپورٹ سے ایک اقتباس: انڈیا آفس لائبریری، لندن)

رپورٹ کو مدنظر رکھ کر تاج برطانیہ کے حکم پر ایسے موزوں اور باعتبار شخص کی تلاش شروع ہوئی، جو برطانوی حکومت کے استحکام اور عملداری کے تحفظات میں الہامات کا ڈھونگ رچا سکے، جس کے نزدیک تاج برطانیہ کے مراسلات، وحی کا درجہ رکھتے ہوں، جو ملکہ معظمہ کے لیے رطب اللسان ہو، برطانوی حکومت کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی جس کی نبوت کا دیباچہ ہو۔ برطانوی شہ دماغوں نے ہندوستان میں ایسے شخص کے انتخاب کے لیے ہدایات جاری کیں۔ پنجاب کے گورنر نے اس کام کی ڈیوٹی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے ذمہ لگائی۔ چنانچہ ’’برطانوی معیار‘‘ کے مطابق نبی کی تلاش کا کام شروع ہوا۔ آخرکار قرعہ فال قادیان ضلع گورداسپور کے رہائشی مرزا غلام احمد قادیانی کے نام نکلا۔

’’برطانوی ہند کی سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا۔ ان میں سے مرزا غلام احمد قادیانی نبوت کے لیے نامزد کیا گیا۔‘‘

(تحریک ختم نبوت از آغا شورش کاشمیریؒ)

مرزا قادیانی، منیمی سے نبوت تک کیسے پہنچا؟ اس مختصر مگر دلچسپ کہانی کو جناب ابومدثرہ اپنے الفاظ میں یوں لکھتے ہیں:

’’مرزا غلام احمد کی ابتدائی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے معمولی سی دینی تعلیم حاصل کی۔ آپ کے والد نے سکھوں کے عہد میں چھن جانے والی جاگیروں کی بازیابی کے لیے مقدمات قائم کر رکھے تھے اور انگریز کے تعاون سے ان پر دوبارہ قابض ہونے کی فکر میں 1864ء میں آپ نے انگریز سے مل ملا کر آپ کو سیالکوٹ کی کچہری میں اہلمد (منشی) کی ملازمت دلوا دی۔ اس دوران آپ نے یورپی مشنریوں اور بعض انگریز افسران سے تعلقات پیدا کیے اور مذہبی مباحث کی آڑ میں باہمی میل جول کو بڑھایا۔

1868ء کے لگ بھگ سیالکوٹ میں ایک عرب محمد صالح وارد ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس حرمین شریفین کے بعض مفتیان کرام کا ایک فتویٰ تھا، جس میں ہندوستان کو دارالحرب ثابت کیا گیا تھا۔ انگریز کے مخبروں نے آپ کو اعتماد میں لے کر گرفتار کرا دیا۔ آپ پر دوالزامات عائد کیے گئے۔ ایک امیگریشن ایکٹ کی خلاف ورزی اور دوسرے برطانوی حکومت کے خلاف جاسوسی کرنا تھا۔ سیالکوٹ کچہری کے یہودی ڈپٹی کمشنر پارکنسن (Parkinson) نے تفتیش کا آغاز کیا۔ وہ ان تمام لوگوں کو گرفتار کرنا چاہتا تھا، جن سے نووارد عرب کا رابطہ تھا۔ دوران تفتیش ایک ایسے آدمی کی ضرورت پڑی، جو عربی کے مترجم کے طور پر کام کر سکے۔ (مجدد اعظم صفحہ 42 از ڈاکٹر بشارت احمد لاہوری قادیانی) یہ خدمت مرزا غلام احمد قادیانی نے ادا کی اور عرب دشمن اور برطانیہ نوازی کی وہ مثال پیش کی کہ پارکنسن آپ کا گرویدہ ہو گیا۔

ایک اور واقعہ جسے مرزا قادیانی کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے، وہ پادری بٹلر ایم۔ اے کی لندن واپسی ہے۔ یہ پادری برطانوی انٹیلی جنس کا ایک اہم رکن تھا اور مبلغ کے روپ میں کام کررہا تھا۔ مرزا صاحب نے مذہبی بحث کی آڑ میں ان سے طویل ملاقاتیں کیں اور برطانوی راج کے قیام کے لیے اپنی ہر قسم کی خدمات پیش کیں۔ 1868ء میں بٹلر ولایت جانے سے پہلے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ خفیہ بات چیت ہوئی اور معاملات کو حتمی صورت دی گئی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے مرزا محمود اپنی تصنیف ’’سیرت مسیح موعود‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ریورنڈ بٹلر ایم۔ اے، جو سیالکوٹ مشن میں کام کرتے تھے اور جن سے حضرت مرزا صاحب کے بہت سے مباحثات ہوتے رہتے تھے، جب ولایت واپس جانے لگے تو خود کچہری میں آپ کے پاس ملنے کے لیے چلے آئے اور جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے پوچھا، کس طرح تشریف لائے تو ریورنڈ مذکور نے کہا، صرف مرزا صاحب کی ملاقات

کے لیے! اور جہاں آپ بیٹھے تھے، وہیں سیدھے چلے گئے اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے۔‘‘

(سیرت مسیح موعود از مرزا بشیر الدین محمود صفحہ 12)

ایک خطبے میں مرزا محمود نے اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’اس وقت پادریوں کا بہت رعب تھا لیکن جب سیالکوٹ کا انچارج مشنری ولایت جانے لگا تو حضرت صاحب کو ملنے کے لیے خود کچہری آیا۔ ڈپٹی کمشنر اسے دیکھ کر اس کے استقبال کے لیے آیا اور دریافت کیا کہ آپ کس طرح تشریف لائے۔ کوئی کام ہو تو ارشاد فرمائیں مگر اس نے کہا، میں صرف آپ کے اس منشی سے ملنے آیا ہوں۔ یہ ثبوت

ہے اس امر کا کہ آپ کے مخالف بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ ایک ایسا جوہر ہے جو قابل قدر ہے۔‘‘

(روزنامہ ’’الفضل‘‘ قادیان، 24 اپریل 1934ء)

اسی سال 1868ء میں مرزا قادیانی بغیر کسی معقول ظاہری وجہ کے اہلمد کی نوکری سے استعفیٰ دے کر قادیان چلا گیا اور تصنیف و تالیف کے کام میں لگ گیا۔‘‘ (قادیان سے اسرائیل تک از ابو مدثرہ)

عالمی تحریک صیہونیت، برطانوی سیاست میں یہودیوں کا دخل، خصوصاً ان کا وزرائے اعظم کے عہدے تک پہنچنا، اسلامیان عالم کی سیاسی و معاشی زبوں حالی، ہندوستانی مسلمانوں کی حصول آزادی کے لیے جدوجہد اور انگریز کے سیاسی اور مذہبی تخریب کاری کے لیے خطرناک عزائم، جو علی الترتیب ہنٹر رپورٹ اور مشنری فادرز رپورٹ سے عیاں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک غدار خاندان کے فرد مرزا غلام احمد قادیانی کا یہودی افسروں اور جاسوس مشنری اداروں کے سربراہوں سے روابط اور ان کا پارکنسن کی شہ اور بٹلر کی اشیرباد پر نوکری چھوڑ کر نام نہاد اصلاحی تحریک کا آغاز کرنا… یہ سب واقعات اس عظیم سیاسی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو مذہبی روپ دھار کر ’’احمدیت‘‘ کی صورت میں منظر عام پر آئی۔

مکمل تحریر >>

حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا ثبوت غیر مقلد وہابی علماء سے

حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا ثبوت غیر مقلد وہابی علماء سے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فتاوی نذیریہ : شیخ الکل فی الکل غیر مقلدین محمد نذیر حسین محدث دہلوی1902
حضرات انبیاءعلیہم الصلوة والسلام اپنی اپنی قبراوں میں زندہ ہیں۔ خصوصاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کہ فرماتے ہیں کہ عند القبر درود بھیجتا ہے میں سنتا ہوں اور دور سے پہنچا یاجاتا ہوں۔

فتاوی ستاریہ : شیخ الحدیث حضرت مفتی عبدالستار محدث دہلوی امام جماعت غربا اہلحدیث انبیاء کی لاش دورد آپ تک پہنچنے اور خود سننے بابت سوال
سوال (559) کیا فرماتے ہیں علماءدین اس بارے میں کہ جس طرح عام مردوں کی لاش خراب ہوجاتی ہے کہ اسی طرح انبیاءکی لاش خراب ہو جاتی ہے اور تمام انبیاءحیات ہیں کہ نہیں ؟
(2) جو شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور يہ درود فرشتے لے جاکر آنحضرت کو سناتے ہیں یا نہیں؟
(3)جو شخص آنحضرت کی قبر پر جا کر سلام کرتاہے آنحضرت خو داس کو جواب ديتے ہیں یا نہیں؟
عبد الرحمن جیکب لاين کراچی
جواب(559) الجواب بعون الوباب۔ صورت مسنون میں واضح باد کہ
(1) انبیاءعلیہم السلام کا جسم مرنے کے بعد خراب نہیں ہوتا بلکہ بعینہ صحیح سالم رہتا ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے ۔ ان اﷲ حرم علے الارض ان تاکل اجساد الانبیا۔ یعنی اﷲ تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ اجساد انبیاء کو کھائے (یعنی خراب کرے) انبیاء برزخی زندگی حاصل ہے۔
(2) ہاں فرشتے درود نبی علیہ السلام کو پہنچاتے ہیں۔
(3) جو شخص آپ کی قبر پر جاکر سلام کہتا ہے اس کا سلام آپ خود سنتے ہیں ۔ یہاں سے نہیں سنتے کیونکہ فرشتے پہنچانے کے لئے اس نے مقرر فرمائے ہیں۔فقط عبد الستار عفرلہ ۔

مواعظ یزدانی مصنف  حبیب اﷲ یزدانی غیر مقلد وہابی
پتہ چلا کہ میر ے آقا دینا سے وفات پا چکے ہیں باقی رہ گیا قبر کی زندگی کا، میرا عقیدہ ہے کہ نبی قبر کی زندگی سے زندہ ہے، دنیاوی زندگی نہیں،وہ قبرکی زندگی ہے،ہم تو ولی کی قبر کی زندگی مانتے ہیں،نبی کی مانتے ہیں،کافر مانتے ہیں، مشرک کی مانتے ہیں اگر قبر کی زندگی نہ مانیں تو کافر کوعذاب قبر کیسا ہے؟ (مواعظ یزدانی صفحہ نمبر 56)

سنن ابن ماجہ حصہ اول ترجمہ فوائد علامہ وحید الزمان غیر مقلد وہابی ايک بات اور بھی سن لینا چاہيے۔ کہ آنحضرت ﷺ اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں،پس آپ کی قبر شریف کے پاس اور اسی طرح دوسرے اولیاء اور عرفا کی قبور پر ندا کے ساتھ سلام کرنا درست ہے، جیسے السلام عليک یا رسول اﷲ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مکمل تحریر >>

نبی کریمﷺ کے وصال مبارک کےبعد اعرابی نے بارگاہ رسولﷺ میں فریاد ،کی تو آپ ﷺ کی قبر انور سے آوازآئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔(تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 370 سورہ نساء)

نبی کریمﷺ کے وصال مبارک کےبعد اعرابی نے بارگاہ رسولﷺ میں فریاد   ،کی تو آپ ﷺ کی قبر انور سے آوازآئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔(تفسیر مدارک التنزیل  جلد 1 صفحہ 370 سورہ نساء)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (سورة النساء 64)
ترجمہ: اگر یہ لوگ اپنی جانوں  پر ظلم کرکے آپﷺ کے آستانہ پر آجائیں  اوراللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں  اور آپ بھی اے رسول  ان کی سفارش کریں  توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔ ''

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں  یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں  مسلمانوں  کاوسیلہ عظمیٰ ہیں  ان کی ذات اورنام وسیلہ اور  ان سے منسوب چیزیں  وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔

اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور ﷺ ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں  ظلموں میں  کوئی قید نہیں  اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة المائدہ ، 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں  جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو۔''

اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں  کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں  آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ  (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ: اے محبوب ! ان مسلمانوں  کے مالوں  کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں  پاک وصاف کریں  اور ان کے حق میں  دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے''( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں  ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات ﷺکے کرم سے حاصل ہوتی ہے۔

وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا (سورة البقرہ، 89) ۔

مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیںکہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات ﷺکی تشریف آوری سے پہلے حضور ﷺ کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں  میں  دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیابلکہ تائید کی اور فرمایا کہ'' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں  مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں  نہیں  لاتے۔ معلوم ہوا کہ حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ (سورة البقرہ، 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی''۔

بہت سے مفسرین کرام فرماتے ہیں  کہ وہ کلمہ حضور ﷺ معلم و مقصود کائنات کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہواکہ حضور علیہ الصلاة والسلام انبیائے کرام کابھی وسیلہ ہیں ۔( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (سورة النساء 64)
ترجمہ: اگر یہ لوگ اپنی جانوں  پر ظلم کرکے آپﷺ کے آستانہ پر آجائیں  اوراللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں  اور آپ بھی اے رسول  ان کی سفارش کریں  توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں  یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں  مسلمانوں  کاوسیلہ عظمیٰ ہیں  ان کی ذات اورنام وسیلہ اور  ان سے منسوب چیزیں  وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔

اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور ﷺ ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں  ظلموں میں  کوئی قید نہیں  اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو۔

أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة المائدہ ، 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں  جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں  کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں  آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ  (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ: اے محبوب ! ان مسلمانوں  کے مالوں  کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں  پاک وصاف کریں  اور ان کے حق میں  دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔

معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں  ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات ﷺکے کرم سے حاصل ہوتی ہے۔

وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا (سورة البقرہ، 89) ۔

مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیںکہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات ﷺکی تشریف آوری سے پہلے حضور ﷺ کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں  میں  دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیابلکہ تائید کی اور فرمایا کہ'' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں  مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں  نہیں  لاتے۔ معلوم ہوا کہ حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ (سورة البقرہ، 37) ''

آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی''۔

بہت سے مفسرین کرام فرماتے ہیں  کہ وہ کلمہ حضور ﷺ معلم و مقصود کائنات کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہواکہ حضور علیہ الصلاة والسلام انبیائے کرام کابھی وسیلہ ہیں ۔

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ (سورة البقرہ، 144) ۔

ہم آپﷺ کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں  اچھاہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیردیتے ہیں  جس سے آپ راضی ہیں ۔

معلوم ہواکہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لئے ہوئی کہ حضورﷺ کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ معلم و مقصود کائنات کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔جب کعبہ حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ کے وسیلہ کامحتاج ہے تودوسروں کاکیاپوچھنا ہے۔

احادیث مبارکہ اور وسیلہ

مسندامام احمدبن حنبل میں  حضرت شریح ابن عبید سے بروایت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ نے چالیس (40)ابدال کے متعلق فرمایا۔ ان چالیس(40) ابدال کے وسیلہ سے بارش ہوگی دشمنوں  پر فتح حاصل کی جائے گی اور شام والوں  سے عذاب دورہوگا۔ معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں  کے وسیلہ سے بارش فتح ونصرت ملتی ہے اوربلادفع ہوتی ہے۔(مشکوٰة باب ذکریمن وشام)۔

دارمی شریف میں  ہے کہ ایک دفعہ مدینہ شریف میں  بارش بندہوگئی اور قحط پڑگیا لوگوں  نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیاآپ نے فرمایاکہ روضۂ رسول پاک ﷺ کی چھت کھولدوکہ قبرانور اورآسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے تولوگوں  نے ایساہی کیاتو فوراً بارش ہوئی یہاں تک کہ چارہ اُگااونٹ موٹے ہوگئے گویا چربی سے بھرگئے ۔(مشکوٰة ،باب الکرامات)

مشکوٰ شریف باب المعراج میں  ہے حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں  کہ ہم واپسی میں  حضرت موسیٰ علیہ السلام پرگذرے توآپ نے پوچھا کہ آپ کو کیاحکم ملا؟ فرمایا ہردن پچاس (50) نمازوں  کافرمایا۔حضور آپﷺ کی امت میں  اتنی طاقت نہیں  میں  بنی اسرائیل کوآزماچکا ہوں ۔ اپنی امت کیلئے رب سے رعایت مانگئے غرضیکہ کئی بار عرض کرنے پر پانچ رہیں معلوم ہواکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے یہ رعایت اوررحمت ملی کہ پچاس(50) نمازوں  کی صرف پانچ باقی رہیں  یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں  کاوسیلہ ان کی وفات کے بعد بھی فائدہ مند ہے۔

مسلم وبخاری میں  ہے کہ حضور نے فرمایا ''انما اناقاسم واللہ ےُعطی'' (مشکوٰة ،کتاب العلم) ۔ ہم تقسیم فرمانے والے ہیں  اور اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔

معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی نعتمیں  حضورپرنورﷺ تقسیم فرمانے والے ہیں  اور تقسیم فرمانے والا وسیلہ ہوتاہے لہٰذا نبی پاک ﷺ خالق کی ہرنعمت کاوسیلہ ہیں ۔

شرح سنہ میں  ہےکہ ایک دفعہ حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے ایک اونٹ نے جوکھیت میں  کام کررہاتھا حضور علیہ الصلاة والسلام کودیکھا اور منھ اپنازانوئے مبارک پررکھ کرفریاد ی ہواسرکاردوعالم ﷺنے اس کے مالک کوبلاکر فرمایا یہ اونٹ شکایت کرتاہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہواورچارہ کم دیتے ہو۔اس کے ساتھ بھلائی کرو۔ معلوم ہواکہ بے عقل جانور بھی حضور ﷺکورفع حاجات کیلئے وسیلہ جانتے ہیں  ۔جو انسان ہوکرانکے وسیلہ کامنکر ہووہ اونٹ سے زیادہ بے عقل ہے۔

حضور علیہ الصلاة والسلام کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں  کچھ تخفیف ہوئی ۔کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور سرکاردوعالم ﷺ کودودھ پلایاتھا۔(بخاری شریف ،کتاب الرضاع)

معلوم ہوانبی کاوسیلہ ایسی نعمت ہے جس کافائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان توان کابندۂ بے دام ہے۔

اشیاء کا وسیلہ : مسلم شریف میں  ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس حضور ﷺ کاجُبہّ شریف تھا۔ یہ جُبّہ شریف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا ان کی وفات کے بعد میں  نے اسے لے لیا اس جُبّہ شریف کونبی پاک ﷺ پہنتے تھے اور اب ہم یہ کرتے ہیں  کہ مدینہ میں  جوبیمار ہوجاتا ہے اسے دھوکر پلاتے ہیں  اس سے شفا ہوجاتی ہے۔(مشکوٰة، کتاب اللباس)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام حضور علیہ الصلاة والسلام کے بدن شریف سے مس کئے ہوئے کوشفاکاوسیلہ سمجھ کر اسے دھوکر پیتے تھے ۔

بخاری شریف کتاب المساجد میں  ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کوحج کوجاتے ہوئے ہراس جگہ نماز پڑھتے تھے جہاں  نبی پاک ﷺنے اپنے حج کے موقع پر نمازپڑھی تھی ۔یہ مقامات بخاری نے بتائے بھی ہیں  معلوم ہواکہ جس جگہ بزرگ عبادت کریں  وہ جگہ قبولیت کاوسیلہ بن جاتی ہے۔

حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی کو دے کر کہا تھا کی یہ چادرمیرے بعد  اویس قرنی کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لےدعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا۔

یہ  اولیاء سے وسیلہ کا ثبوت حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ سے ہی ثابت ہوتا ہے۔

بزرگانِ دین علیہم الرّحمہ کے اقوال :  صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم سے لیکر آج تک کے تمام مسلمانوں  کا متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ نبی پاکﷺ مخلوق کیلئے وسیلہ ٔ عظمیٰ ہیں  اورحضور علیہ الصلاة والسلام کے صدقہ سے اولیاء اللہ اورعلماء بھی وسیلہ ہیں ۔

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ ٔ نعمان میں  فرماتے ہیں ۔

اناطامع بالجود منک ولم یکن

لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک

یارسو ل اللہ میں  حضور کی عطا کاامیدوار ہوں  اورمخلوق میں  ابوحنیفہ کیلئے آپ کے سواکوئی نہیں  ۔معلوم ہواکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور علیہ الصلاة والسلام کواپناوسیلہ مانتے ہیں ۔

امام حضور غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے قصیدہ ٔ غوثیہ میں  اپنے خداد اد اختیارات بیان فرماکر ارشادفرماتے ہیں ۔

وکل ولی لہُ قدم وانی

علیٰ قدم النبی بدرالکمال

میں  جودنیا پرراج کررہا ہوں  اورمیرے قبضہ میں  زمین وزمان ،مکین ومکان ہیں  اس کی وجہ یہ ہے کہ ہرولی کسی نہ کسی نبی کے نقش قدم پرہوتاہے میں  نبیوں  کے چاند  اور رسولوں  کے سورج حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ کے قدموں  پرہوں ۔ معلوم ہواکہ حضورغوثِ پاک کی نگاہ میں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ ایسی اہم خلقت ہیں  کہ انہیں  سارے مراتب عالیہ اسی سرکار سے میسرہوئے۔( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

امام بوصیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ بردہ شریف میں  فرماتے ہیں  اوریہ مقبول بارگاہ مصطفی ﷺہوچکا ہے۔

ومن تکن برسول اللہ نصرتہ

ان تلقہ الاسدفی احامھابجم

یعنی جس کی مدد رسول اللہ ﷺ فرمادیں  وہ شیروں  سے بھی بچ جاتا ہے ۔معلوم ہواکہ ہربزرگ بھی حضور ﷺکوہرمصیبت کے دفع کاوسیلہ مانتے ہیں ۔

مولانا جلال الدین رومی قدس سرة العزیز اپنی مثنوی شریف میں  فرماتے ہیں ۔

اے بسادرگوخفتہ خاک دار

بہ ز صداحیاء بنفع وابتشار

سایہ اوبورخاکش سایہ مند

صدہزاراں  زندہ درسایہ دے اند

بہت سے قبروں  میں  سونے والے بندے ہزاروں  زندوں  سے زیادہ نفع پہونچاتے ہیں  ان کی قبر کی خاک بھی لوگوں  پر سایہ فگن ہے لاکھوں  زندے ان قبروالوں  کے سایہ میں  ہیں  ۔معلوم ہواکہ مولانا قدس سرہ ' اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں  کوبعدوفات زندوں  کاوسیلہ مانتے ہیں ۔

عقلی دلائل اور وسیلہ : عقل کابھی تقاضہ یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں  کاوسیلہ پکڑناجائز ہے حسب ذیل دلائل سے (١) ''رب تعالیٰ غنی اور ہم سب فقیر''جیسا کہ ارشاد تبارک وتعالیٰ ہے ''اللہ غنی وّ انتم الفقراء ُ  '' اوروہ غنی ہمیں  بغیروسیلہ کے کوئی نعمت نہیں  دیتا۔ ماں  باپ کے وسیلہ سے جسم دیتاہے ۔استادکے ذریعہ علم، پیرکے ذریعہ شکل ،ملک الموت کے ذریعہ موت، غرضیکہ کوئی نعمت بغیروسیلہ نہیں  دیتا توہم فقیر ومحتاج ہوکربغیروسیلہ اس سے کیسے لے سکتے ہیں  ۔ اگر اس کو سب کچھ خود کنت ہوتا تو وہ رسول کو کیوں بھیجتا۔ بلکہ خود ہی سب کو ہدایت دے دیتا ۔معاذ اللہ ۔

دنیاادنی اور تھوڑی ہے آخرت اعلیٰ اورزیادہ ہے''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''قل متاع الدنیا قلیل ''اورفرماتاہے ''والاٰ خرة خیروّ ابقیٰ '' جب دنیاجیسی حقیر بغیروسیلہ نہیں  ملتی توآخرت جودنیاسے اعلیٰ ہے بغیر وسیلہ کیوں کر مل سکتی ہے۔ اس لئے قرآن وایمان دینے کیلئے پیغمبر ﷺکومبعوث فرمایا۔

ہمارے اعمال کی مقبولیت مشکوک ہے اور نبی پاکﷺ واولیاء اللہ کی مقبولیت یقینی ہے۔ جب مشکوک اعمال وسیلہ بن سکتے ہیں  تو یقینی مقبول بندے بدرجۂ اولیٰ وسیلہ ہیں ۔

اعمال صالحہ وسیلہ ہیں  رب سے ملنے کااور اعمال کاوسیلہ انبیاء ،اولیاء ،علما ء تویہ حضرات وسیلہ کے وسیلہ ہوئے اور وسیلہ کابھی وسیلہ ہے لہٰذا یہ حضرات بھی وسیلہ ہیں ۔

حضور اقدس ﷺ سے پہلے تین سوسال تک خانۂ کعبہ میں  بت رکھےگے تھے۔ حضور علیہ الصلاة والسلام کے دست اقدس سے کعبہ پاک صاف کیاگیا تاکہ معلوم ہوکہ کعبہ معظمہ جوخداتعالیٰ کاگھرہے وہ بھی بغیر وسیلہ مصطفےٰ ﷺ پاک نہ ہوسکا توتمہارے دل بغیر اس ذاتِ کریم کے وسیلہ سے ہرگز پاک نہیں  ہوسکتے۔

رب فرماتاہے: '' وکونوامع الصادقین '' سچوں  کے ساتھ رہو ۔اور سارے سچے اولیاء علماء وسیلہ کے قائل رہے۔ لہٰذا وسیلہ کامانناہی سچاراستہ ہے۔

شیطان نے ہزاروں  برس بغیر وسیلہ والی عبادت کیں  مگروہ وسیلہ والا ایک سجدہ نہ کیاتو مردودہوگیا ملائکہ نے وسیلہ والا سجدہ کرکے محبوبیت پائی۔ معلوم ہوا کہ وسیلہ والی عبادت تھوڑی بھی ہوتو مقبول بارگاہِ الٰہی ہے۔

قبرمیں  مردہ سے تین سوال ہوتے ہیں  پہلاسوال توحیدکا اوردوسرا دین کا۔ مگر ان دونوں  سوالوں  کے جواب درست دینے پربھی بندہ کامیاب نہیں  ہوتا اور جنت کی کھڑکی نہیں  کھلتی۔ سوال تیسرا یہ ہوتا ہے'' ماکنت تقول فی حق ہذاالرجل '' تواس کالی زلفوں  والے ہرے گنبد والے محبوب کوکیاکہتاتھا ۔دیکھ یہ تیرے سامنے جلوہ گرہیں ۔ حضور کافرماں  بردار بندہ جواب دیتاہے یہ میرے رسول میرے نبی ہیں  اور میں  ان کا امتی ہوں ۔

مسجد نبوی شریف میں  ایک نماز کاثواب پچاس ہزار ہے ۔کیوں  ؟ کیادوسری مسجدیں  خداکاگھرنہیں  ہیں ؟۔ صرف اسی لئے یہ ثواب بڑھاکہ ا س میں  حضور محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ سرکار دوعالم ﷺآرام فرمارہے ہیں  اسی طرح بیت المقدس میں  کئی ہزارپیغمبر جلوہ گرہیں ۔ کعبہ وہاں  بھی ایک نیکی کاثواب ایک لاکھ اس لئے کہ وہ حضور پُرنورﷺکامقام پیدائش ہے اور وہاں  بیت اللہ چاہ ِ زم زم اورمقام ِ ابراہیم ہے۔ ان کے وسیلہ سے ثواب زیادہ ہوگا ۔وسیلہ والی عبادت کادرجہ زیادہ ہے۔ معلوم ہواکہ وسیلۂ انبیاء واولیاء اعلیٰ چیزہے۔۔

منکرین وسیلہ کی سوچ  کا جواب : وسیلہ کے معانی جو کہ لغت میں بیان کیے گۓ ہیں وہ یہ ہیں۔ " ذریعہ، واسطہ، شفاعت، دستگیری، حمایت"

یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کی قران میں وسیلہ علیہدہ سے کیوں بیان کیا گیا ہے۔ حالنکہ پورے قران میں نیک اعمال کیا ہیں تفسیل سے بیان کیے گۓ ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ نیک اعمال ہی وسیلہ ہیں- اگر ایسا ہے تو پھر تلاش کیا کرنا ہے۔ اسی ایت میں جہاد بھی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اگر صرف وسیلہ کو نیک عمل ہی سمجھا جاۓ تو جہاد بھی تو نیک عمل ہے تو ایک ہی ایت میں یہ علیہدہ سے کیوں  بیان کیا گیا۔ علیہدہ آیت میں بھی تو جہاد کا ذکر ہو سکتا تھا- اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وسیلہ نیک عمل کرنے میں جو چیز مدد فراہم کرے وہ وسیلہ ہے اور جب نیک عمل ہو جاۓ گا تو اللہ کا قرب ملے گا-

یہ ایسا ہی ہے کہ آپ لاہور سے اسلام اباد میلاد شریف کی محفل کے لۓ جا رہے ہوں تو اس میں سواری وسیلہ ہے اور آب کا ارادہ اور سفر نیک عمل۔ اس میں سواری اور پیٹرول نیک عمل نہیں ہیں بلکہ ذریعہ یا وسیلہ ہیں۔( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

اسی طرح انبیاء اور صالحین جو کہ نیک عمل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔۔ یہ سب وسیلہ ہیں-

نیچے دی گی مثال میں نسبت بھی ایک بہت بڑا وسیلہ ہے کا ثبوت بخاری شریف سے پیش ہے۔

حضور علیہ الصلاة والسلام کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور سرکاردوعالم ﷺ کودودھ پلایاتھا۔(بخاری شریف ،کتاب الرضاع)
معلوم ہوانبی کاوسیلہ ایسی نعمت ہے جس کافائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان توان کابندۂ بے دام ہے۔

حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی کو دے کر کہا تھا کی یہ چادرمیرے بعد اویس قرنی کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لےدعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا۔
یہ اولیاء سے وسیلہ کا ثبوت حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ سے ہی ثابت ہوتا ہے۔

یاد رہے جو سوچ آپ بیان کر رہے ہیں وہ ہجرت کے 700 سال بعد کی ہے۔ یہ ہم سب ماننتے ہیں کہ جتنا زمانہ حضور ﷺ کے نزدیک ہو گا اتنا صحیح ہو گا۔ آپ کی دی گئی تفصیل میں جن تفاسیر کا بیان ہے ان کے بارے میں دیکھیں کہ تفسیر الجلالین 864ھ 1459ع کی ہے تفسير الخازن 741ھ کے قریب ہے۔ تفسیر حافظ ابن کثیر 774ھ سے ذرا پہلے کی ہے-

اب حضورﷺ کے نزدیک کے زمانہ کو سوچ پڑھیں-

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ ٔ نعمان میں  فرماتے ہیں ۔ ( 80ھ تا 150ھ  تابعین)

اناطامع بالجود منک ولم یکن

لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک

یارسو ل اللہ میں  حضور کی عطا کاامیدوار ہوں  اورمخلوق میں  ابوحنیفہ کیلئے آپ کے سواکوئی نہیں  ۔معلوم ہواکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور علیہ الصلاة والسلام کواپناوسیلہ مانتے ہیں ۔ پہلی مثال سے یہ ثابت ہے کہ حضور ارکرمﷺ کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے اور مثال نمبر دو سے نیک لوگوں کووسیلہ   کرناحضورﷺ معلم و مقصود کائینات سے ثابت ہے۔ (طا؛ب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

مکمل تحریر >>