Pages

Friday 27 October 2017

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قبر انور میں ہیں یا بہشت میں

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قبر انور میں ہیں یا بہشت میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں ارشاد فرماتے ہیں : اما آنکہ قونوی تفضیل و ترجیح دادہ بودن آنحضرت ﷺ دربہشت اعلیٰ ’’استمرار آورد‘‘ در قبر شریف جو اب وے آنست کہ قبر احاد مومنین روضہ ایست از ریاض جنت پس قبر شریف سید المرسلین افضل ریاض جنت باشدو تو اند بودکہ وے ﷺ ہم در قبر از تصرف و نفوذ حالتی بو د کہ از سموات وارض جنان حجاب مرتفع باشد بے تجاوزو انتقال زیر ا کہ امور آخرت و احوال برزخ رابراحوال دنیا کہ مقید و مضیق حدود و جہات است قیاس نتواں کرد۔ (جذب القلوب)

اور علامہ قونوی نے جو حضور ﷺ کے قبر انور میں ہونے پر حضور ﷺ کے بہشت بریں میں ہو نے کو ترجیح دی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب عام مومنین کی قبریں جنت کے باغیچے ہیں تو حضور ﷺ کی قبر انور ان سب میں افضل ترین باغیچہ جنت ہوگی۔

اور ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو قبرِ انور میں ایسا تصرف دیا گیا ہو اور ایسی حالت عطاء کی گئی ہو کہ آسمانوں ، زمینوں اور جنت سب سے حجاب اٹھ گیا ہو بغیر اس کے حضور ﷺ اپنے مقام سے آگے بڑھیں یا کہیں منتقل ہوں ۔ اس لئے کہ امور آخرت اور احوال برزخ کا قیاس اس دنیا کے احوال پر نہیں کیا جا سکتا۔ جو مقید ہے اور جس کے حدود اور جہات نہایت تنگ ہیں۔ انتہیٰ

اس عبارت سے بہت سے اشکال رفع ہوگئے اور احادیث کے درمیان تطبیق ہوگئی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مقام میں جلوہ گر ہیں اور بغیر اس کے کہ اپنے مقام شریف سے تجاوز فرمائیں یا کہیں منتقل ہوں۔ زمینوں اور آسمانوں اور قبر انور جمیع امکنہ کے ساتھ حضور ﷺ کو مساوی نسبت ہے اور ایک جگہ ہو نے کے باو جو د ہر جگہ مو جو د ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حجاب کو اٹھادیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ہر جگہ ہو نے میں رکاوٹ کا مو جب ہو۔

رہا یہ امر کہ دنیا میں یہ بات ناممکن ہے کہ ایک ہی وجود کئی جگہ یکساں مو جو د ہو تو اس کا جواب حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح دیا کہ دنیا کی حدود جہات بہت ہی تنگ واقع ہوئی ہیں اور عالم دنیا قیود کے ساتھ مقید ہے اس لئے عالم آخرت اور برزخ کا قیاس دنیا پر نہیں کیا جا سکتا۔

اور اس میں شک نہیں کہ حضر ت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بجا اور درست فرمایا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ مقید پر غیر مقید کا قیاس کر لیا جائے کسی کو تاہ اور تنگ چیز کو فراخ اور وسیع شئے کی طرح تسلیم کر لیا جائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبر انور میں بھی ہیں اور جنت اعلیٰ میں بھی لہٰذا کوئی تعارض اور اشکال باقی نہ رہا ۔

اس بیان سے دونوں مسلکوں کی تائید ہو جاتی ہے ۔ یعنی حضور ﷺ کے جسد اقدس کی حیات روح مبارک کے اس میں پائے جانے کی وجہ سے ہے یا کمال اتصال کی بناء پر۔ ہمارے نزدیک پہلا مسلک قوی اور راجح ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق اللہ تعالی ٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے : وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی (الضحیٰ آیت ۴)اے محبوب ﷺ آپ کیلئے ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے ۔

اس سے ثابت ہو ا کہ حضور ﷺ کیلئے کوئی ایسا وقت نہیں آئے گا۔ جس میں حضو ر ﷺ کی کوئی فضیلت پہلے سے کم ہو بلکہ ہر آنے والی گھڑی میں حضور کی فضیلتیں پہلے سے زیادہ ہوں گی۔

روح اقدس کا استقرار اگر جسم اقدس کے علاوہ کسی اور مقام میںہو تو ’’وَلَـلْاٰخِـرَۃُ خَیْـرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی‘‘ کے خلاف لازم آئے گا۔ ا س لئے کہ جسم اقدس سے روح مبارک کے قبض ہونے کے بعد اسے کوئی ایسی جگہ نہیں مل سکتی جو جسم مبارک سے زیادہ فضیلت والی ہو زیادہ تو درکنار تمام کائنات میں کوئی جگہ حضور ﷺ کے جسم اقدس کے برابر بھی فضیلت رکھنے والی نہیں کیونکہ علماء محققین نے اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ قبر انور اور زمین کا وہ حصہ جو حضور ﷺ کے اعضاء شریفہ سے متصل ہے تمام زمینوں اور آسمانوں اور کرسی اور یہاں تک کہ کعبہ مکرمہ اور عرش الٰہی سے افضل ہے۔ جسم اقدس سے اتصال (تعلق) رکھنے والی زمین عرش اور کعبہ سے افضل ہوئی ۔ تو خود جسم اقدس کا تو پھر کہنا ہی کیا ہے۔ چنانچہ الدر المنتقیٰ میں علامہ محمد علاء الدین الامام فرماتے ہیں
وما ضم اعضاء الشریفۃ افضل البقاع علی الاطلاق حتیٰ من الکعبۃ ومن الکرسی وعرش الرحمٰن جو زمین اعضاء شریفہ سے متصل ہے (یعنی قبر ا نور ) مطلقاً تمام مقامات سے افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ سے اور کرسی اور عرش رحمن سے بھی افضل ہے۔ (الدر المنتقی بہا مش مجمع الانہار جلد اول ص ۳۱۲) (یہ مضمون درمختار جلد دوم اور شامی جلد دوم ص ۳۵۲/۳۵۱پر مر قوم ہے )اگر روح مبارک جسم اقدس کے علاوہ کسی اور مقام پر ہو تو حضور ﷺ کی فضیلت پہلے سے کم ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ تسلیم کر نا پڑے گا کہ روح اقدس جسم مبارک سے باہر نکلنے کے بعد پھر جسم اقدس میں واپسی آگئی اور باہر نکلنا صرف قانون خداوندی کو پورا کر نے کے لئے تھا۔ روح مبارک کا جسم اقدس میں واپس آجانا حضور ﷺ کی حسی، حقیقی اور جسمانی حیات طیبہ کو مستلزم ہے۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔