Pages

Tuesday 25 July 2017

نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم (حصّہ سوم)

نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم (حصّہ سوم)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مختصر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے تمام مخلوق کو آپ کے نور سے پیدا کیا کیا تمام انبیائے کرام اپنی اپنی نبوتوں میں اصل نبی ہونے کے باوجود آپ کے تابع ہیں حقیقت محمدیہ تمام کائنات میں جاری و ساری ہے حقیقت محمدیہ کو عقل اول قلم اعلی جوہر بسیط نورانی نور الا نوار ابو الارواح یعنی روح الارواح کہا گیا ہے زیادہ وضاحت کے لیے میرے رسالہ عقیدہ حاضر و ناظر کا مطالعہ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاک نسلوں سے تشریف لائے: علامہ امام ابن جوزی نے کتاب الوفاء میں کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے روایت کو نقل کیا ہے کہ: ’’لما اراد اللہ عزوجل ان یخلق محمدا ﷺ امر جبرائیل علیہ السلام فاتاہ بالقبضۃ البیضاء التی ھی موضع قبر رسول اللہ ﷺ فعجنت بماء التسنیم فغمست فی انھار الجنۃ وطیفھا فی السموات فعرفت الملائکۃ محمدا ﷺ قبل ان یعرف آدم ثم کان نور محمد یری فی غرۃ جبھۃ آدم و قیل لہ یادم ھذا سید ولدک من المرسلین فلما حملت حواء بشیث انتقل النور من آدم الی حواء و کانت تلد فی کان بطن ولدین ولدین الاشیئا فانہ ولدتہ وجدہ کرامۃ لمحمدﷺ ثم لم یزل ینتقل من طاھر الی طاھر الی ان ولدتہ آمنۃ من عبد اللہ ابن عبد المطلب‘‘ (مرقاۃ ج ۱۱ ص ۴۴ باب فضائل سید المرسلین) جب اللہ تعالیٰ نے محمد (رسول اللہ) صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو جبرائیل کو حکم دیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی جگہ سے سفید مٹی کی ایک مٹھی لی پھر اسے ماء تسنیم (جنت کی نہر تسنیم کے پانی) سے گوندھا گیا پھر اسے جنت کی نہروں میں ڈبویا گیا اور آسمانوں میں اسے پھرایا گیا پس فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو پہچاننے سے پہلے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا پھر نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو آدم علیہ السلام کی پیشانی میں رکھا گیا جس کی وجہ سے آپ کی پیشانی جگماتی تھی اور آپ کو بتایا گیا اے آدم یہ تمہاری اولاد سے ہوں گے اور تمام رسولوں کے سردار ہوں گے پس جب حضرت حوا کے پیٹ میں شیث آئے تو وہ نور آدم علیہ السلام کی پیشانی سے منتقل ہوکر حوا کے پاس آگیا حالانکہ حضرت حوا کے بطن مبارک سے دو دو بچے ہر حمل سے پیدا ہو رہے تھے لیکن (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو منقسم ہونے سے بچانے کے لیے) صرف شیث علیہ السلام ہی اکیلے پیدا ہوئے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت کو مد نظر رکھا گیا پھر آپ کا نور ہمیشہ سے پاک ہستی سے پاک ہستی کی طرف منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ آپ کی والدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو عبد اللہ بن عبد المطلب سے جنا۔ خیال رہے کہ پاک نسلوں سے منتقل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد بدکاری اور کفر سے پاک تھے طہارت کو صرف بدکاری کی نجاست سے پاک ہونے کے ساتھ خاص کرنا باطل ہے بلکہ زیادہ مقصود ہی کفر سے پاک ہونا ہے یہ تفصیل حضرت ابراہیم کے حالات میں دیکھی جائے وہاں میں نے وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری: ’’والا کثرون انہ ولد عام الفیل وانہ بعد الفیل بخمسین یوما وانہ فی شھرربیع الاول یوم الاثنین لثنتی عشرۃ خلت من عند طلوع الفجر‘‘ (مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷) اکثر اہل علم کا قول یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سال دنیا میں تشریف لائے جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں پر سوار ہوکر کعبہ شریف کو شہید کرنے کی مذموم (حرکت) کی اور وہ تباہ و برباد ہوا اس سال کو عام الفیل کہتے ہیں یعنی آپ اس واقعہ کے پچاس دن بعد تشریف لائے یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور اس کی بارہ تاریخ تھی پیر کا دن تھا صبح صادق کا وقت تھا۔ پیر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق: آپ کی پیدائش پیر کے دن آپ کی نبوت عطا ہوئی پیر کے دن مکہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت پیر کے دن کی مدینہ طیبہ میں پہنچے پیر کے دن قریش کے نزاع کو مٹانے کے لیے حجر اسود کو اپنی چادر مبارک میں رکھ کر سب قبائل کے سرداروں کو اٹھانے کے متعلق ارشاد فرمایا اور خود حجر اسود کو اٹھاکر کعبہ شریف کی دیوار میں نصب کردیا یہ بھی پیر کا دن تھا مکہ شریف فتح فرمایا پیر کے دن سورہ مائدہ کا آپ پر نزول پیر کے دن ہوا تھا۔(مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور منتقل ہونے کے بعد بھی اثر انداز رہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پچاس دن پہلے ابرہہ کا واقعہ درپیش آیا اس وقت وہ نور حضرت عبد المطلب سے منتقل ہوکر حضرت عبد اللہ کی والدہ کے پاس اور ان سے حضرت عبد اللہ کے پاس اور ان سے حضرت آمنہ کے پاس آچکا تھا لیکن پھر بھی اس کے اثرات حضرت عبد المطلب کی پیشانی میں موجود تھے ’’فرکب عبد المطلب فی قریش حتی طلع جبل ثبیر فاستدار ت دارۃ غرۃ رسول اللہ علی جبھتہ کالھلال واشتد شعاعھا علی البیت الحرام مثل السراج فلما نظر عبد المطلب الی ذالک قال یا معشر قریش ارجعوا فقد کفیتم ھذا الامر فو اللہ ما استدار ھذا النور منی الا ان یکون الظفر لنا۔ (مواھب لدنیہ ج ۱ ص ۸۵) حضرت عبد المطلب سوار ہوکر قریش کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر (ابرھہ کے لشکر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے) شبیر پہاڑ پر چڑھے تو آپ کی پیشانی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور گول چاند کی طرح ظاہر ہوا اور اس کی شعاعیں چراغ کی طرح کعبہ شریف پر پڑیں۔ جب عبد المطلب نے یہ حال دیکھا تو آپ نے کہا: اے قریش کی جماعت واپس لوٹ چلو یہی تمہارے لیے کافی ہے۔ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی یہ نور میری پیشانی میں جو چمکا ہے یہ ہماری کامیابی کی دلیل ہے۔ آپ کے نور سے شام کے محلات روشن ہوگئے: حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انی عند اللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ و ساخبر کم باول امری دعوۃ ابراھیم و بشارۃ عیسی و رویا امی التی رات حین وضعتنی وقد خرج لھا نور اضاء لھا منہ قصور الشام‘‘ (شرح السنۃ، مسند احمد از ساخبر کم تا اخیر، مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳) میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت بھی خاتم النبیین لکھا ہوا تھا کہ جب آدم علیہ السلام کیچڑ میں تھے یعنی آپ کا خمیر تیار کیا جا رہا تھا تمہیں اپنے اول امور کی خبر دے رہا ہوں کہ میں ابراہیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کی رویا ہوں جو آپ نے اس وقت دیکھا جب مجھے جنا کہ آپ سے ایک نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔ دعوۃ ابراھیم سے اشارہ اس طرف تھا جو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے بعد دعا کی: ’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ‘‘ (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۱۲۹) کہ اے ہمارے رب تعالیٰ ان میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان میں سے ہی ہو۔ ’’بشارۃ عیسیٰ‘‘ سے مراد جو عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ‘‘ (پ ۲۸ سورۃ الصف آیت ۶) آپ نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول تشریف لائیں گے جن کا نام احمد ہوگا۔ رؤیا: کیا رویا سے مراد خواب ہے یا ظاہر طور پر دیکھنا مراد ہے اس پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں: ’’ظاھر ھذا الکلام ان رویۃ نور اضاء بہ قصور الشام کانت فی المنام وقد جاءت الاخبار انھا کانت فی الیقظۃ واما الذی فی المنام فھو انھا رأت انہ اتاھا آت فقال لھا شعرت انک قد حملت بسید ھذہ الامۃ ونبیھا فینبغی ان یحمل الرؤیا علی الرؤیۃ بالعین واللہ اعلم‘‘ (لمعات) اگرچہ ظاہر طور پر تو یہ سمجھ آتا ہے کہ آپ کا نور دیکھنا جس سے شام کے محلات روشن ہوئے خواب کا واقعہ ہو لیکن احادیث میں یہی واقعہ جاگتے ہوئے بھی درپیش آنے کا ذکر ہے خواب کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی والدہ نے خواب دیکھا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر مجھے کہہ رہا ہے کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم اس امت کے سردار اور نبی سے حاملہ ہوچکی ہو، مناسب یہی ہے کہ اس حدیث میں رویا سے آنکھ سے جاگتے ہوئے دیکھنا مراد لیا جائے۔ راقم کے نزدیک اس حدیث میں خواب کا معنی لینا ہی حقیقت سے دوری کی علامت ہے اس لیے کہ ’’حین وضعتنی‘‘ ظرف ہے ’’رأت‘‘ کی (جس وقت میری والدہ نے مجھے جنا اس وقت دیکھا)۔ پیدائش کے وقت خواب کا دیکھنا ناممکن ہے اس حدیث میں ظاہری طور پر دیکھنا مراد لیا جائے تو یہ معنی ظاہری ترکیب کے بالکل مطابق ہے خواب والا معنی لینا تکلفات اور تاویلات سے خالی نہیں۔( کوشش ہو گی کہ اس پر مزید لکھا جائے ان شاء اللہ )(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔