Pages

Tuesday 24 August 2021

فاتحہ سوئم چہلم بدعت کی مختصر تحقیق.........!!

فاتحہ سوئم چہلم بدعت کی مختصر تحقیق.........!!

سوال:

سوئم چہلم پے آپ کی پردلیل تحریر درکار ہے نیز قرآن میں جو ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا...اس کا جواب بھی عطاء فرمائیں
.
جواب:

فاتحہ سوئم چہلم وغیرہ پے علماء اہلسنت نے باقاعدہ کتب و رسائل لکھے ہیں، مکتبہ سے کتب خریدیں ، مطالعہ کریں...کم سے کم پی ڈی ایف بکس تو ضرور پڑہیں، marfat ڈاٹ کام پے جائیں اور سرچ کے خانے میں esal یا fatiha یا sawab وغیرہ لکھ کر سرچ کریں کافی کتب آجائیں گی
ہم یہاں اسلاف کی کتب سے تبرک کے طور کچھ لکھ رہے ہیں اللہ اسے قبول فرمائے ، نفع بخش بنائے
① وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ

اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے انہیں بخش دے

[سورہ الْحَشْرِ: آیت 10]

اگر زندہ کی دعا مردہ کے لیے فائدہ مند نہ ہوتی تو یہ دعا کرنا فضول کہلاتا....آیت میں مقام مدحت و انداز اثبات سے ثابت ہوتا ہے کہ دعا و استعغفار سے وفات شدگان کو فائدہ ہوتا ہے بشرطیکہ مومن ہوں جیسا کہ نمبر④کی حدیث پاک میں وضاحت ہے
.
② الحدیث:

إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ: أَنَّى هَذَا؟ فَيُقَالُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ

ترجمہ:

جنت میں کسی کا درجہ بلند ہوگا تو وہ پوچھے گا یہ کیسے...؟؟
اس سے کہا جائے گا کہ تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا(یہ اسکا نفع ہے
(سنن ابن ماجه ,2/1207حدیث3660)
(مسند أحمد 16/356حدیث10610)

جب استغفار فائدہ مند ہو سکتا ہے تو پھر دیگر صدقات و ایصال ثواب بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں جیسا کہ احادیث کے حوالے سے ہم بیان کریں گے

.
③قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْرَءُوا يس عَلَى مَوْتَاكُم

ترجمہ::

نبی پاک صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اپنے مردوں (قریب المرگ اور بعد از موت و بعد از دفن میت مُردوں) پے سورہ یس پڑھو
(سنن أبي داود ,3/191حديث3121)
(مستدرک حدیث2074نحوہ)
(ابن ماجہ حدیث1448نحوہ)

أَيْ عَلَى مَنْ حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَوْ بَعْدَ الْمَوْتِ أَيْضًا

ترجمہ:

 یعنی جو قریب المرگ ہوں اور جو وفات پا جائیں دونوں حالتوں میں ان پر سورہ یس پڑھو

(حاشية السندي على سنن ابن ماجه ,1/442)

سورہ یس کی تلاوت کا اہم نفع ہے جو اسکی خصوصیت آئی ہے جب یس کا نفع ہے تو دیگر سورتوں و صدقات وغیرہ کا بھی نفع پہنچے گا


④ ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ وفات پا گئیں صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سوال کیا

فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»

اگر میں اپنی وفات شدہ والدہ کی طرف سے صدقہ ( ایصال ثواب ) کروں تو کیا اس کو اجر.و.ثواب ملے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں

(بخاري حدیث1388)
.
⑤إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ بَلَغَهُ ذَلِكَ

ترجمہ
میت مسلمان ہوتو اس کےلیےغلام آزاد کرو یا صدقہ کرو یا حج کرو اسےاسکا ثواب پہنچتا ہے

(سنن أبي داود ,3/118 حدیث2883)
.
⑥ إن أبي مات وترك مالاً ولم يُوصِ فهل يُكفِّر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: ((نعم))

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  عرض کیا کہ میرا والد انتقال کر گیا ہے اور مال چھوڑ گیا اور اس نے وصیت نہیں کی...کیا اس کے گناہ بخشے جائیں گے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں۔“

(مسلم حدیث4219)
.
⑦ زندہ کے لیےبھی ایصال ثواب جائز بلکہ بہتر..........!!

مَنْ يَضْمَنُ لِي مِنْكُمْ أَنْ يُصَلِّيَ لِي فِي مَسْجِدِ الْعَشَّارِ رَكْعَتَيْنِ، أَوْ أَرْبَعًا، وَيَقُولَ هَذِهِ لِأَبِي هُرَيْرَةَ

ترجمہ:

تم میں سے کون ہے جو اپنے ذمے لے کہ وہ مسجد عشار میں دو رکعت پڑھے یا چار رکعت پڑھے اور کہے کہ یہ ابوہریرہ کے لیے ہے

(سنن أبي داود ,4/113روایت4308)

جب زندہ کو ایصال ثواب ہوسکتا ہے تو وفات شدگان کو بھی بدرجہ اولیٰ ایصال ثواب پہنچتا ہے
.
⑧ الحديث:

ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً، فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ فَقَالَ: «لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا»

ترجمہ:

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھجور کی ایک  ہری ڈالی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ صحابہ کرام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ امید ہے کہ اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہو جائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔

(صحيح البخاري ,2/95 حدیث1361)

اس حدیث پاک سے ایصال ثواب کو ثابت کرتے ہوئے علماء نے لکھا کہ:

فيه دليل على استحباب تلاوة القرآن على القبور، لأنه إذا كان يرجى أن يخفف عن الميت بتسبيح الشجر، فتلاوة القرآن أعظم رجاء وأكثر بركة

ترجمہ:

اس حدیث پاک میں دلیل ہے کہ 
قرآن پاک قبروں پر پڑھنا مستحب و ثواب ہے کیونکہ جب یہ امید ہے کہ سبزہ
(ڈالی تازہ پھول سبزہ) کی تسبیح سے عذاب میں کمی کی امید ہے تو قرآن تو اس سے زیادہ برکت والا ہے زیادہ امید والا ہے

(أعلام الحديث شرح صحيح البخاري1/274)

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,3/118)

(إكمال المعلم بفوائد مسلم2/120نحوہ)
دیوبندی کتاب احسن الفتاوی4/205بحوالہ تحقیق لاجواب ص58)
.
⑨ الحدیث:

مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ

ترجمہ:
میت قبر میں اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو ڈوب رہا ہو مدد کے لیے پکار رہا ہو، میت بھی انتظار میں ہوتا ہے کہ اسے دعا (صدقہ وغیرہ ایصال ثواب) پہنچے
(شعب الإيمان حدیث8855)
(مشكاة المصابيح حدیث2355)
(جامع الاحادیث حدیث19826)

.========================

وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ وَصَدَقَاتِهِمْ مَنْفَعَةٌ لِلْأَمْوَاتِ

زندہ لوگ جب دعا کریں اور صدقات کریں ایصال ثواب کریں  تو اس کا فائدہ مُردوں کو ہوتا ہے

[عقيدة الطحاوية مع الشرح ,2/663]
.
الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ اهـ هُوَ مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ

افضل ہیں کہ جب صدقہ ایصال ثواب کرے تو تمام مومنین و مومنات کو ایصال ثواب کرے ان سب کو ثواب پہنچے گا اور ایصال ثواب کرنے والے کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی یہی اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے

(فتاوی شامی حنفی ( رد المحتار ) ,2/243)

.
فَإِنَّ مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِنْ الْأَمْوَاتِ وَالْأَحْيَاءِ جَازَ وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ كَذَا فِي الْبَدَائِعِ وَبِهَذَا عُلِمَ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ الْمَجْعُولُ لَهُ مَيِّتًا أَوْ حَيًّا

ترجمہ:

بے شک جو شخص روزہ رکھے اور نماز پڑھے یا صدقہ خیرات کرے اور اس کا ثواب مُردوں میں سے یا زندوں میں سے کسی کے لئے ایصال ثواب کر دے تو ان سب کو ثواب پہنچتا ہے اہل سنت والجماعت کے مطابق... اسی طرح  الْبَدَائِعِ میں ہے۔۔۔۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے 

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ,3/63)
.
يصله ثوابُ الدعاء، وثوابُ  الصدقة بالِإجماعْ

میت کو دعا اور صدقے کا ثواب پہنچتا ہے اس پر تمام علماء کا اجماع ہے

(فتاوى النووي الشافعی ص83)
.
فتادی دیوبند میں ہے کہ:

میت کو ثواب صدقہ و خیرات و تلاوت قرآن شریف وغیرہ پہنچتا ہے..
(فتاوی دار العلوم دیوبند5/430 بحوالہ تحقیق لاجواب ص88)
.
الإتيوبي شرح مسلم میں ابن تیمیہ وہابی کا قول نقل کرتےہوئے لکھتا ہے کہ:

فأجاب: الحمد لله رب العالمين، ليس في الآية، ولا في الحديث أن الميت لا ينتفع بدعاء الخلق له، وبما يُعمَل عنه من البرّ، بل أئمة الإسلام متفقون على انتفاع الميت بذلك۔۔۔وقد دَلَّ عليه الكتاب، والسنة، والإجماع، فمَن خالف ذلك كان من أهل البدع

ترجمہ:

ابن تیمیہ نے جواب دیا کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں کسی آیت یا کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ مخلوق کی دعا اور نیک اعمال (تلاوت ذکر درود حج زکوۃ صدقہ خیرات نوافل  وغیرہ) سے مردہ کو فائدہ نہیں ہوتا
بلکہ
ائمہ اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ ان تمام نیک کاموں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔۔۔اس پر قرآن و سنت اور اجماع دلیل ہے تو جو نہ مانے وہ بدعتی ہے

(البحر المحيط الثجاج في شرح صحيح الإمام مسلم بن الحجاج ,19/317ملتقطا)
.
أَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً كَانَ أَوْ صَوْمًا أَوْ حَجًّا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةَ قُرْآنٍ أَوْ ذِكْرًا أَوْ أَيَّ أَنْوَاعِ الْقُرَبِ وَهَذَا هُوَ الْقَوْلُ الْأَرْجَحُ

بےشک ایک انسان دوسرے کو اپنے اعمال کا ثواب ایصال کرسکتا ہے (مومن کو ہر طرح کا ایصال ثواب پہنچتا ہے) نماز روزے حج صدقہ تلاوت ذکر وغیرہ مختلف قسم کے نیک کام کے ثواب کو ایصال کرسکتا ہے یہی مذہب راجح و قوی ہے

(وہابی و اہل حدیث کتب سبل السلام1/509 فتاوی ثنائیہ2/35..فتاوی علماء حدیث.5/363بحوالہ تحقیق لاجواب ص78)
.
اہلسنت اور وہابی اہلحدیث وغیرہ میں اختلاف بس اس قدر ہے کہ وہابیوں اہلحدیثوں وغیرہ کے مطابق فاتحہ ایصال ثواب کا دن مقرر نہیں کرسکتے جبکہ اہلسنت کہتے ہیں کہ دن مقرر کرنا سہولت کے طور پر ہے اور باقی ایام بھی فاتحہ ہوتی رہتی ہے....

*تیسرا چالیسوان دن کیوں.........؟؟*

اصل فاتحہ ایصال ثواب مذکورہ احادیث و آیات سے ثابت ہے اور تیسرے دن و چہلم کی مناسبت و تعیین عرف و عادات مسلمین و صالحین سے ثابت و جائز جسکی اصل سنت  و آثار سے ثابت ہے...

جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وعظ کے لیے جمعرات کا دن مقرر فرمایا یہ تعیین سہولت کے طور پر تھی ، اس تعیین کا ثبوت کسی حدیث پاک میں نہیں
كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ
سیدنا عبداللہ ابن عباس لوگوں کو ہر جمعرات وعظ فرماتے

(صحيح البخاري ,1/25 روایت70)

لیھذا سہولت کے لیے سوئم چہلم کی تعیین جائز ہے بشرطیکہ اس کو ضروری بھی نہ سمجھا جائے، اگر کہیں ضروری سمجھا جاتا ہو تو فاتحہ سے منع نہ کریں گے بلکہ وضاحت پھیلائیں گے بتائیں گے کہ مسلمانوں سوئم چہلم دن مقرر کرنا سہولت و مناسبت کے لیے ہے جائز ہے فرض واجب ضروری نہیں....سہولت کے لیے دن مقرر کرنے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ دیوبندیوں کے ہاں ہر سال دن مقرر کرکے رائےونڈ اجتماع ہوتا ہے، ختم بخاری و دستاربندی کا دن مقرر کیا جاتا ہے مگر اسے کوئی بدعت نہیں کہتا اسی طرح فاتحہ کا سہولت کے لہے تیسرا دن مقرر کرنا اور باقی دنوں میں بھی فاتحہ ایصال ثواب کرتے رہنا بالکل جائز ہے....
مزید تحقیق و تفصیل کے لیے دیکھیے فتاوی رضویہ جلد 9 ص 585 اور کتاب سعیدالحق ، کتاب تحقیق لا جواب وغیرہ

.========================

*تعزیت کی فضیلیت اور تین دن تعزیت........!!*

الحدیث:
مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُعَزِّي أَخَاهُ بِمُصِيبَةٍ إِلَّا كَسَاهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ مِنْ حُلَلِ الْكَرَامَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ:

کوئی اپنے مسلمان بھائی کے دکھ و مصیبت میں "شرعی تعزیت" کرے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ قیامت کے اسے عزت و کرامت کا جبہ پہنائے گا

(ابن ماجہ حدیث1601)
.
نهينا أن نحد أكثر من ثلاث

ترجمہ:

ہمیں (وفات کے فورا بعد والے) تین دن سے زیادہ سوگ.و.غم کرنے سے روکا گیا ہے.
(بخاری حدیث1279)

جب سوگ و غم کے اظہار کی تین دن اجازت ہے تو ان تین دنوں میں تعزیت و تسلی دینا بھی ثابت ہوگیا....اسی لیے فقہاء علماء کرام نے لکھا کہ:

التعزية لصاحب المصيبة حسن فلا بأس بأن يجلسوا في البيت أو المسجد والناس يأتونهم ويعزونهم...وأكثرهم أنه يعزى إلى ثلاثة أيام

لواحقین سے تعزیت کرنا اچھا و ثواب ہے، لواحقین گھر میں یا مسجد میں بیٹھیں اور لوگ آئیں تعزیت کریں اس میں کوئی حرج نہیں...اکثر علماء کا فرمان ہے کہ تعزیت تین دن کی جائے

(البناية شرح الهداية ,3/260ملتقطا)
.
ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَيُكْرَهُ بَعْدَهَا إلَّا أَنْ يَكُونَ الْمُعَزِّي أَوْ الْمُعَزَّى إلَيْهِ غَائِبًا فَلَا بَأْسَ بِهَا

تین دن کے بعد تعزیت مکروہ ہے...ہاں اگر تعزیت کرنے والا یا جس سے تعزیت جائے وہ غائب ہوں تو بعد میں آنے پر تعزیت کرنے میں حرج نہیں

(الفتاوى الهندية ,1/167)

دکھ میں بن بلائے جانا چاہیے، دکھ ونڈانہ چاہیے،تعزیت کرنی چاہیے، تسلی دینی چاہیے، حسب طاقت مدد کرنی چاہیے…مریض کی عیادت کرنی چاہیے....وفات یا بیماری پے محض دور سے تعزیت و دعا کافی معلوم نہیں لگتی، اگر مشکل و عذر و مجبوری نہ ہو تو عیادت تعزیت و دعا کے لیے ضرور ضرور ضرور جانا چاہیے…
.
*سڑک پےتعزیت منع کیوں اور کب.....؟؟*

گھر مسجد میں تعزیت کے لیے بیتھنے کو جائز لکھنے کے ساتھ ساتھ فقہاء کرام نے لکھا کہ
سڑک پر قناطیں لگا کر، قالینیں بچھا کر تعزیت کے لیے بیٹھنا برا ہے....
پہلے عبارت ملاحظہ کیجیے

وَلَا بَأْسَ لِأَهْلِ الْمُصِيبَةِ أَنْ يَجْلِسُوا فِي الْبَيْتِ أَوْ فِي مَسْجِدٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَالنَّاسُ يَأْتُونَهُمْ وَيُعَزُّونَهُمْ وَيُكْرَهُ الْجُلُوس عَلَى بَابِ الدَّارِ وَمَا يُصْنَعُ فِي بِلَادِ الْعَجَمِ مِنْ فَرْشِ الْبُسُطِ وَالْقِيَامِ عَلَى قَوَارِعِ الطُّرُقِ مِنْ أَقْبَحِ الْقَبَائِحِ

لواحقین تین دن گھر میں یا مسجد میں بیٹھیں اور لوگ آئیں تعزیت کریں اس میں کوئی حرج نہیں....گھر کے دروازوں پے تعزیت کے لیے بیٹھنا مکروہ ہے اور وہ جو عجم میں ہے کہ قالینیں بچھاتے ہیں راستوں کے بیچوں بیچ بیٹھتے ہیں یہ بہت برا ہے

(الفتاوى الهندية ,1/167)

مسجد گھر میں تعزیت کے لیے بیٹھنے کو ثواب لکھنے کے ساتھ جو یہ مکروہ لکھا ہے اسکی کیا وجہ ہے......؟؟
سرعام تعزیت وجہ ہے...؟؟
تو مسجد میں بھی سرعام تعزیت ہوتی ہے پھر وہ کیوں ثواب....؟؟

غور کیا جائے تو پہلے کے گھر بڑے ہوا کرتے تھے تو بلاعذر و بلااجازت راستے بند کرکے تعزیت کے لیے بیٹھنے کو مکروہ لکھا گیا
جبکہ
ہمارے دور میں شہروں کے گھر بہت چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے گھر سے باہر راستے پر بیٹھنا مجبوری بھی ہے اور عرف میں اسکی اجازت بھی ہے اور لوگوں کی حق تلفی بھی نہیں کہ لوگ اسکی اجازت دیتے ہیں لیھذا ہمارے دور میں اگر کسی کا گھر چھوٹا ہو ، اہل محلہ کی اجازت ہو تو کچھ راستہ بھی چھوڑا جائے یا نعم البدل راستہ موجود ہو تو راستے میں ٹینٹ لگا کر تعزیت و فاتحہ خیرات ممنوع نہ کہلائے گی
.=========================

*فاتحہ تیجہ میں کتنا خرچ کریں،کیا امیر کھا سکتا ہے..؟؟*

فتوی:
سوئم چہلم پے امیر غریب سب شرکت کر سکتے،کھانا کھا سکتے ہیں مگر سوئم چہلم پے غرباء کو کھلانا بہتر…تفخر ، دکھاوا، ایک دوسرے سے خرچے میں سبقت و تکلفات نہ کرنا لازم 
(دیکھیے فتاوی رضویہ 9/594,610)

بہتر ہے کہ چھوٹا موٹا سوئم پےاکتفاء کیا جائے اور بقایا رقم سے کوئی علمی دینی شعوری ترقی کے اچھے کام و خدمات پے خرچ کرکے،  غرباء کی اچھی امداد پے خرچ کرکے، مدارس و کتب پےخرچ کرکے، سچے سرگرم علماء مبلغین پے خرچ کرکے ایصال ثواب کرنا چاہیے

.=======================

*انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا....؟؟*

ایت میں ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا...اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کے نیک اعمال و ایصال و ثواب کا فائدہ میت کو نہیں ملے گا...اس کے متعدد جوابات دییے گئے ہیں

جواب ①: یہ آیت منسوخ ہے

جواب ②:

آیت کے سیاق و سباق میں غور کیا جاءے تو ترجمہ یہ بنے گا کہ صحف ابراہیم و موسی میں یہ ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا...یعنی یہ حکم پہلے کی شریعتوں کا ہے، ہماری شریعت میں دوسروں کا ایصال کردہ ثواب زندہ و مردہ کو ملتا ہے بشرطیکہ مسلمان ہو

جواب ③:
یہ آیت کفار کے بارے میں ہے کہ انہیں ایصال ثواب کا فائدہ نہ ملے گا جبکہ مومن کو ملے گا
.
علامہ قرطبی لکھتے ہیں
 وَقَالَ الرَّبِيعُ بْنُ أَنَسٍ:

(وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا مَا سَعى) 
يَعْنِي الْكَافِرَ وَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَلَهُ مَا سَعَى وَمَا سَعَى لَهُ غَيْرُهُ. قُلْتُ: وَكَثِيرٌ مِنَ  الْأَحَادِيثِ يَدُلُّ عَلَى هَذَا الْقَوْلِ، وَأَنَّ المؤمن يصل إليه ثَوَابِ الْعَمَلِ الصَّالِحِ مِنْ غَيْرِهِ
الرَّبِيعُ بْنُ أَنَسٍ نے کہا ہے کہ 
انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا... یہ کافر انسان کے متعلق ہے اور جہاں تک تعلق ہے مومن کا تو اسے اپنے اعمال کا ثواب ملتا ہے اور دیگر لوگوں کے اعمال کا ایصال کردہ ثواب ملتا ہے...میں یعنی امام قرطبی کہتا ہوں کہ اس قول پر کثیر احادیث دلالت کرتی ہیں کہ مومن کو دوسروں کے نیک اعمال کا ایصال کردہ ثواب ملتا ہے
(تفسير القرطبي17/114)
.
وَهَذَا أَيْضًا فِي صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى...وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَذَا مَنْسُوخُ الْحُكْمِ فِي هَذِهِ الشَّرِيعَةِ، بِقَوْلِهِ: "أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ"، 
(الطُّورِ-21)
وَقَالَ عِكْرِمَةُ: كَانَ ذَلِكَ لِقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ  وَمُوسَى، فَأَمَّا هَذِهِ الْأُمَّةُ فَلَهُمْ مَا سَعَوْا وَمَا سَعَى لَهُمْ غَيْرُهُمْ،
انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا یہ صحف ابراہیم و موسی کا حکم ہے یعنی ہماری شریعت کا حکم نہیں...سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ حکم ہماری شریعت میں منسوخ ہے
أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ"،
(الطُّورِ-21) ناسخ ہے....

سیدنا عکرمہ نے فرمایا کہ یہ حکم کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا یہ صحف ابراہیم و موسی کا حکم ہے جبکہ ہماری شریعت میں اپنے اعمال کا ثواب ملتا ہے اور دیگر لوگوں کا ایصال کردہ ثواب ملتا ہے

(تفسير البغوي - طيبة7/416ملتقطا)

.=========================

*آخر میں بدعت کے بارے میں بھی کچھ پڑھتے جائیے*

میلاد فاتحہ سوئم چہلم عرس دعا بعد جنازہ ، اذان سے قبل صلواۃ و سلام وغیرہ وہ کام جو اہلسنت کرتے ہیں یہ سب مروجہ صورت میں جائز و ثواب ہیں مگر انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے، یہ کام مروجہ صورت کے ساتھ سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں... سنت کے علاوہ جائز و ثواب بھی اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہیں.. یہ تمام امور شرائط و حدود کے ساتھ بدعت و گناہ نہیں..
.
فرقہ واریت یا اختلاف کی ایک بڑی وجہ وہ سوچ ہے جو معاشرے میں پھیلا دی گئ ہے اور مسلسل پھیلائی جا رہی ہے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے... جو کام سنت نہیں وہ بدعت ہے کہہ دیا جاتا ہے..پھر اسے دلیل بنا کر کہہ دیا جاتا ہے کہ اذان سے پہلے درود و سلام، دعا بعد نماز جنازہ، میلاد فاتحہ وغیرہ وغیرہ سب بدعت ہیں..پھر یہ بدعت وہ بدعت ایک لمبی لسٹ شروع کردی جاتی ہے...جو امت میں تفرقہ کا کلیدی کردار ادا کرتی ہے.. لیھذا ان مسائل میں اتفاق کیا جائے تو کافی حد تک اختلاف ختم کیا جاسکتا ہے
.
حدیث پاک میں ہے کہ:

وما سكت عنه فهو مما عفا عنه
ترجمہ:
جس چیز کے متعلق (قرآن و احادیث میں) خاموشی ہو (مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو) وہ معاف ہے، جائز ہے...
(ابن ماجہ حدیث3368)

یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے
.
حدیث پاک میں ہے:

من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء

ترجمہ:
جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد
جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اس نئے طریقے کو جاری کرنے والے کو ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی

(مسلم حدیث نمبر/6800, 1017)
یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے
.
ان دونوں احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ:

① جو کام سنت نہ ہو اور دوٹوک ممانعت بھی نہ ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا...لیھذا یہ کہنا کہ فلان کام سنت نہیں اس لیے بدعت ہے، یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کی روشنی سے واضح ہے کہ جو سنت نہ ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا... ہاں اگر سنت نہ ہو اور جائز بھی نہ ہو بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تب بدعت و گناہ کہلائے گا
.
② اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں کام سنت نہیں بدعت ہے تو آپ فورا جواب دیں کہ ٹھیک ہے سنت نہیں تو کیا جائز بھی نہیں...؟؟
.
③ بے شک سنت کی عظمت ہے مگر قرآن و حدیث نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنت کے علاوہ جائز بھی کوئی چیز ہے... لیھذا سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے
.
④ ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نہ ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز و ثواب ہیں... ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ان میں نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ ایصال ثواب وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نہ ہوں..

.=====================
جب نئےطریقےبدعت نہیں تو #پھر_آخر_بدعت_ہے_کیا...؟؟
.
جواب اور #چیلنج:
دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت ، کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا یا اولین ادوار میں نہ تھا وہ بدعت ہے ہم انہیں چیلنج کرتے ہیں کہ کسی آیت یا حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ نے نہ کیا ہو... چیلنج چیلنج... چیلنج...
کچھ لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نہ ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے، جائز بھی دین کی تعلیمات میں سے ہے..
.

*پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟*

ایات احادیث و آثار میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:
المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ
فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ
ترجمہ:
بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے
اور
جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائی کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعت شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت کے"

(فتح الباری 13/253
 حاشیہ اصول الایمان ص126
اصول الرشاد ص64) 

مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار
فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے
جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے
اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب سیدی امام احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)
.
صحابہ کرام کا فتویٰ:
یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
(بخاری جلد2 صفحہ707)

یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے
سنی وہابی نجدی شیعہ اہل ھدیث وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے
اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے
.======================

خلاصہ یہ ہے کہ
① سنت کے علاوہ جائز بھی اسلام کا ایک اہم ستون ہے... جائز کو بھلانا گمراہی اختلاف و انتشار تفرقہ کا باعث ہے
② ہر نئی چیز بدعت نہیں ہوتی...جو سنت نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ جائز کہلائے گی بشرطیکہ کہ اسلامی اصول کے خلاف نہ ہو...بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی اصل اسلام میں موجود نہ ہو

③ میلاد ، فاتحہ ، اذان سے پہلے درود، دعا بعد نماز جنازہ ، سوئم چہلم عرس وغیرہ جو کام اہلسنت کرتے ہیں وہ بدعت نہیں کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے... ہمارے بات پے ذرا غور کیجیے کہ مذکورہ کام جس طریقے سے آج کیے جاتے ہیں بالکل اسی طریقے سے پہلے نہیں کیے جاتے تھے مگر ان امور کی اصل قرآن وسنت میں موجود ہے لیھذا یہ موجودہ مروجہ طریقوں کے ساتھ مذکوہ کام سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے..
.

✍ تحریر :العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔