Pages

Friday 14 October 2016

گستاخ رسول کی سزا موت ہی ہے چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم

گستاخ رسول کی سزا موت ہی ہے چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گستاخِ رسول کی سزا قرآن وحدیث اور اقوال ائمہ کے مطابق کیا ہے۔ میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ابھی عشق رسول کی چنگاری زندہ ہے؟جن کے جذبے ابھی سرد نہیں پڑے ۔ جو لوگ اب بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے میں سجائے ہیں۔

توہین رسالت کی سزا قرآن پاک کی روشنی میں : 1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : ان الذین یؤذون اللہ و رسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا و الآخرۃ واعد لھم عذاباً مھیناً (الاحزاب ،۵۷) ’’بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘۔ دوسرا فرمان مبارک ہے : والذین یؤذون رسول اللہ لھم عذاب الیم (التوبہ ،۶۱) ’’جو رسول اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے‘‘۔ تیسر ی جگہ فرمایا : ملعونین اینما ثقفوا اخذوا وقتلوا (الاحزاب ،۶۱) ’’پھٹکارے ہو ئے جہاں کہیں ملیں پکڑے جائیں اور گن گن کر قتل کئے جائیں ‘‘۔

توہین رسالت کی سزا احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ۱۔ بخاری اور مسلم میں ہے رسول اللہ نے واقعۂ افک کے بارے میں خطبہ دیا اور تہمت لگانے والے عبد اللہ بن ابی سلول کے بارے میں فرمایا من یعدرنی من رجل بلغنی اذاہ فی اھلیکون میری جان چھڑا ئے اس آدمی سے جس نے میری اہلیہ کے بارے میں مجھے ایذا دی ہے ،تو قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ ص نے عرض کیا یا رسول اللہ بندہ حاضر ہے اگر وہ اوس میں سے ہوا تو اس کی گردن اڑادوں گا اور اگر وہ ہمارے خزرجی بھائیوں سے ہے تو ہم ان سے اس پر عمل کا کہیں گے ۔ (البخاری ، ۴۱۴۱)

حضرت سعد کا قول واضح طور پر دلیل ہے کہ موذی کا قتل مسلم تھا اور پھر حضور ا نے بھی ان کی بات کو ثابت رکھا یہ نہیں فرمایا کہ اس کا قتل نا جائز ہے ۔ فتح مکہ کے دن آپ ا نے ابن ابی سرح کے قتل اور عبد اللہ بن حلال بن خطل اور مقیس بن صبابہ کے قتل کا حکم دیا اور فرمایا اگرچہ انہوں نے غلاف کعبہ کے نیچے پناہ لی ہو ، اس طرح حویرث بن نقید ، ھبار بن اسود ، ابن زبعری ، عکرمہ بن ابی جہل ، وحشی ، ابن خطل کی دو لونڈیاں فرتنا اور ارنب ، عمرو بن ہاشم کی لونڈی سارہ ،یہ تما م قتل ہوئے البتہ ابن ابی سرح ، ھبار بن اسود، ابن زبعری ، عکرمہ ، وحشی وفرتنا اسلام لے آئے ۔ حضرت انس ص سے ہے کہ ایک نصرانی اسلام لایا اور وہ حضور ا کا کاتب مقرر ہوا پھر وہ نصرانی ہو گیا اور وہ کہتا محمد(ا) اتنا ہی جانتے ہیںجتنا میں لکھ دیتا وہ مر گیا لوگوں نے دفن کیا تو زمین نے اسے باہر پھینک دیا ، کہنے لگے یہ حضور ا کے صحابہ کا عمل ہے جنہوں نے اسے قبر سے نکال کر پھینک دیا انہوں نے اس کے لئے خوب گہری قبر کھودی اور دبا دیا مگر جب صبح ہو ئی دیکھا تو اس نے اسے باہر پھینک دیا تو سمجھ گئے یہ کسی کا عمل نہیں ۔(البخاری )

امام ابن اسحاق کہتے ہیں جب اوس نے ابن اشرف کو قتل کیا تو خزرج نے بھی ایک آدمی کا تذکرہ کیا جو رسول اللہا کی عداوت میں اس کی مثل تھا اور وہ خبیر میں ابن ابی الحقیق تھا انہوں نے اس کے قتل کی آپ ا سے اجازت چاہی تو آپ ا نے اجازت دے دی ۔ اس کے قتل کا واقعہ بخاری میں معروف ہے ۔ امام ابو دائود نے ، باب الحکم فیمن سبب النبی ا میں یہ روایت ذکر کی ہے، حضرت عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ، ایک نابینا آدمی کی ام دلد (لونڈی ) سرور عالم ا کی گستاخی کیا کرتی اس کے منع کے باوجود وہ باز نہ آئی ، اس نے اسے خوب ڈانٹا مگر وہ کہاں سمجھنے والی تھی ، ایک رات جیسے ہی اس نے گستاخی شروع کی تو آدمی نے اس کے پیٹ پر سوا ر کھ کر دبایا اور اسے قتل کر دیا اس کا بچہ قدموں میں گرا اور وہیں خون میں لت پت ہو گی ۔ صبح حضور اکی خدمت میں کیس آیا آپ ا نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا میں اسے اللہ کی قسم یاد دلاتا ہوں بتائے جس نے یہ عمل کیا ، نابینا صحابی کھڑے ہو ئے ، حالت اضطراب میں لوگوں کو پھلانگتے آپ ا کے سامنے حاضر ہو گئے ، عرض کیا یا رسول اللہ ا میں اس کا مالک ہوں یہ آپ کے بارے میں بکواس وگستاخی کیا کرتی ، میں نے روکا ، منع کیا مگر یہ باز نہ آئی ، اس سے میرے دو موتیوں کی طرح بیٹے ہیں اور یہ میری رفیقہ تھی گذشتہ رات اس نے جب گستاخی کا سلسلہ شروع کیا تو سُوا لے کر اس کے پیٹ میں گھونپ دیا حتیٰ کہ ختم ہو گئی ، آپ ا نے فرمایا :الا اشھدوا ان دمھا ھدر گواہ ہو جائو اس کا خون ضائع ہے۔ (سنن ابو دائود ،۴۳۶)(سنن نسائی ،۷:۱۰۷) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے ایک خطمی عورت نے آپ ا کی ہجو کی تو فرمایا کون ہے جو اسے سنبھالے ؟اسی کی قوم سے ایک آدمی نے عرض کیا ، یا رسول اللہ میں حاضر ہوں ، اس نے جا کر اسے ٹھکانے لگا دیا حضور ا کو اطلاع دی گئی تو فرمایا : لا ینطح فیھا عنزان (الکامل لابن عدی،۲:۱۴۵) ’’اس میں کسی کو اختلاف اور نزاع نہیں ‘‘۔

امام واقدی نے غزوہ بدر کے آخر میں اشعار نقل کرتے ہو ئے لکھا مجھے عبد اللہ بن حارث نے اپنے والد سے بیان کیا ، عصماء بنت مروان یزید بن زید حصن خطمی کی بیوی تھی یہ رسول اللہا کو اذیت دیتی تھی ، اسلام پر طعن اور حضور ا کی مخالفت پر ابھارنے کے لئے شعر کہتی ، حضرت عمیر بن عدی بن خرشہ بن امیہ خطمی کو اس بارت میں خبر ہو ئی تو انہوں نے یہ نظر مانی اے اللہ جب رسول اللہ ا بدر سے با خیر یت مدینہ آ جائیں گے تو میں اسے ضرور ٹھکانے لگائوں گا ، حضور ا جیسے ہی واپس آئے حضرت عمیر بن عدی رات کو اس کے ہاں داخل ہو گے وہاں اس کے ارد گرد بچے سوئے ہو ئے تھے ایک بچہ دودھ پی رہا تھا اسے ہاتھ سے پیچھے کیا اور تلوار مار کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے ۔ نمازصبح حضور ا کے ساتھ ادا کی جیسے ہی آپ ا نے سلام پھیرا ، حضرت عمیر کو بلا کر فرمایا اقتلت بنت مروان ؟بنت مروان کو تم نے ٹھکانے لگایا ہے ؟عرض کیا ، میرے والدین آپ پر فدا ، میں نے کیا ہے ، ساتھ ڈرے کہ میں نے بغیر پوچھے ایسا کر دیا ہے عرض کیایا رسول اللہ ا مجھ پر کچھ لازم تو نہیں ؟ فرمایا لا ینتطح فیھا عنزان ’’اس میں تو دوسری کوئی رائے ہی نہیں ‘‘پھرحضور ا نے اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا :اذا احببتم ان تنظروا الی رجل نصر اللہ ورسولہ بالغیب فانظروا الی عمیر بن عدی’’اگر تم ایسا شخص دیکھنا چا ہو جس نے غائبانہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ا کی خدمت کی تو عمیر بن عدی کو دیکھو ‘‘۔ ایک آدمی نے رسول اللہا کو گالی دی فرمایا ، اسے کون ٹھکانے لگائے گا ، حضرت خالد ص نے عرض کیا بندہ تو انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔(مصنف عبد الرزاق )

حضرت علی صنے فرمایا کہ ایک یہودی عورت حضور ا کی گستاخی کیا کرتی تھی ۔ ایک شخص نے اسے قتل کر دیا ۔ حضور ا نے اس کے خون کا بدلہ قصاص و دیت کی صورت میں نہیں دلوایا۔ ( سنن ابی داؤد)

حضرت عمر صکے پاس ایک یہودی اور ایک منافق فیصلے کیلئے آئے۔ ان دونوں کا فیصلہ حضور انور ا پہلے فرما چکے تھے لیکن منافق نے حضور ا کے فیصلے تو تسلیم نہ کیا تو حضرت عمرص نے اس منافق کی گردن اڑا دی۔ مقتول کے ورثاء نے حضرت عمرص کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا۔ لیکن حضور انے کوئی قصاص مقرر نہ فرمایا۔ بلکہ آپ کو اسی واقعہ کے بعد ’’فاروق‘‘ کا لقب عطا کیا گیا۔ گستاخ رسول کی سزا آئمہ امت و بزرگان دین کی نظر میں: امام مالک فرماتے ہیں : من سب رسول اللہ ا او شتمہ او عابہ او تنقصہ قتل مسلما کان او کافرا ولا یسطاب (الصارم المسلول ص ۵۲۶) ’’

جس شخص نے حضورا کو گالی دی یا آپ کی طرف عیب منسوب کیا یا آپ کی شان اقدس میں تحقیر و تنقیص کا ارتکاب کیا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اسے قتل کر دیا جائے گا اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی ‘‘۔

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : کل من شتم النبی او تنقصہ مسلما کان او کافرا فعلیہ القتل (الصارم المسلول ص ۵۲۵) امام ابو یوسف فرماتے ہیں : وایما رجل مسلم سب رسول ا او کذبہ او عابہ او تنقصہ فقد کفر با اللہ وبانت منہ زوجہ۔ (کتاب الخراج ص ۱۸۲) ترجمہ:کوئی بھی مسلمان جو رسول اللہ ا کو گالی دے یا آپ کی تکذیب کرے یا عیب جوئی کرے یا آپ کی شان میں کمی کرے اس نے یقینا اللہ کا انکار کیا اور اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی ۔ (جد ا ہو گئی)۔

قاضی عیاض علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں : ہر شخص جس نے رسول اکرم ا کو گالی دی اور آپ کی طرف عیب منسوب کیا یا آپ کی ذات اقدس کے متعلق اور نسب وحسب اور آپ کے لائے ہو ئے دین اسلام یا آپ کی عادات کریمہ میں سے کسی عادت کی طرف کوئی نقص وکمی منسوب کی یا اشارۃً کنائۃً آپ کی شان اقدس میں نا مناسب وناموزوں بات کہی یا آپ کو کسی شے سے گالی دینے کی طریق پر تشبیہہ دی یا آپ کی شان وعظمت وتقدس اور رفعت کی تنقیص وکمی چاہی یا آپ کے مقام و مرتبے کی کمی کا خواہش مند ہو یا عیب جوئی کی تو فھو سب والحکم فیہ حکم الساب لیقتل (الشفا ء ج ۲ ص ۲۲) ’’یہ شخص سب وشتم کرنے والا ہے اس میں گالی دینے والے کا حکم ہی جاری ہو گا اور وہ یہ کہ قتل کر دیا جائے گا ‘‘۔ امام احمد بن سلمان نے فرمایا: من قا ل ان النبی کان اسود یقتل (الشفا ء ج ۲ ص ۶۳۹) ’’جس شخص نے کہا حضور ا کا رنگ سیاہ ہے وہ قتل کر دیا جائے گا ‘‘۔

امام ابو بکر بن علی نیشا پوری فرماتے ہیں ـ: اجمع عوام اہل العلم علی ان من سب النبی یقتل قال ذالک مالک بن انس واللیث واحمد واسحاق وھو مذہب الشافعی وھو منتھیٰ قول ابی بکر (الصارم المسلول درالمختار ۲۳۲) ’’سب اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص نے نبی اکرم ا کو سب وشتم کیا وہ قتل کیا جائے گا ۔ جن آئمہ کرام نے یہ فتوی دیا ان میں امام مالک امام لیث امام احمد وامام اسحاق شامل ہیں یہی امام شافعی کا مذہب ہے اور یہی حضرت ابو بکر صدیق کے قول کا مدعا ہے ‘‘۔ تنویر الابصار اور در مختار فقہ حنفی کی بڑی مستند کتابیں ہیں ان میں یہ عبارت در ج ہے : کل مسلم ارتدفتو بتہ مقبولۃ الا الکافر بسب نبی من الانبیاء فانہ یقتل حدا ولا تقبل توبتہ مطلقاً ‘‘(در المختار جلد ۴ صفحہ ۲۳۱) ’’جو مسلمان مرتد ہو اس کی توبہ قبول کی جائے گی سوائے اس کافر ومرتد کے جو انبیاء علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کو گالی دے تو اسے حداً قتل کر دیا جائے گا اور مطلقا اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی ‘‘۔

امام ابن سحنون مالکی نے فرمایا : اجمع المسلمون ان شاتمہ کافر وحکمہ القتل ومن شک فی عذابہ وکفرہٖ کفر (در المختار جلد ۴ صفحہ ۲۳۳) ’’مسلمانوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ حضور نبی ا کو گالی دینے والا کافر ہے اور اس کا حکم قتل ہے جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ کافر ہے ‘‘۔

امام ابن عتاب مالکی نے حضور اکرم ا کی بے ادبی اور گستاخی کرنے والے کے لئے سزائے موت کا فتویٰ دیا ہے : الکتاب والسنۃ موجبان ان من قصد النبی باذی او نقص معرضا او مصر حاوان قل فقتلہ واجب فھدا الباب کلہ مماعدہ العلماء سبا او تنقصا وجب قتل قائلہ لم یختلف فی ذالک متقدمھم ولا متاخرھم ۔ ’’قرآن وسنت اس بات کو واجب کرتے ہیں کہ جو شخص رسول اللہ ا کی ایذا کا ارادہ کرے صریح وغیر صریح طور پر یعنی اشارہ وکنایہ کے انداز میں آپ کی تنقیص کرے اگرچہ قلیل ہی کیوں نہ ہو تو ایسے شخص کو قتل کرنا واجب ہے اس باب میں جن جن چیزوں کو آئمہ وعلماء کرام نے سب وتنقیص میں شمار کیا ہے آئمہ متقدمین ومتاخرین کے نزدیک بالاتفاق اس کے قائل کا قتل واجب ہے ‘‘۔

امام ابن الھمام حنفی کا فتوی : والذی عند ی من سبہ او نسبہ مالا ینبغی الی اللہ تعالیٰ وان کانوا لا یعتقد ونہ کنسبۃ الولدالی اللہ تعالیٰ وتقدس عن ذالک اذا اظھرہ یقتل بہ وینتقض عھدہ ۔ (فتح القدیر ج ۵ ص ۳۰۳) ’’میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ ذمی نے اگر حضور ا کو گالی دی یا غیر مناسب چیز اللہ تعالیٰ کی طر ف منسوب کی جو کہ ان کے عقائد سے خارج ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف بیٹے کی نسبت حالانکہ وہ اس سے پاک ہے جب وہ ایسی چیز کا اظہار کرے گا تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس کا عہد ٹوٹ جائے گا ‘‘۔

امام ابو سلیمان خطابی کا فتویٰ : لا اعلم احدا من المسلمین اختلف فی وجوب قتلہ اذا کان مسلما ۔ (الشفاء ۲ ص ۹۳۵) ’’میں مسلمانوں سے کسی ایک فرد کو بھی نہیں جانتا جس نے گستاخ رسول کی سزائے قتل کے واجب ہو نے میں اختلاف کیا ہو جبکہ وہ مسلمان بھی ہو ‘‘۔

ا بو بکر الجصاص کا فتوی : ولا خلاف بین المسلمین ان من قصد النبی صلی اللہ بذالک فھو فمن ینتحل الاسلام انہ مرتد یستحق القتل (احکام القرآن للجصاص ج ۳ ص ۱۰۹) ’’مسلمانوں کے مابین اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ جس نے رسول اللہ ا کی اہانت وایذا کا قصد کیا حالانکہ وہ خود کو مسلمان بھی کہلواتا ہو تو ایسا شخص مرتد اور مستحق قتل ہے ‘‘۔

امام حصکفی کا فتویٰ : من نقص مقام الرسالۃ بقولہ بان سبہ او بفعلہ بان بغضہ بفعلہٖ قتل حدا (درالمختار ۴ص ۲۳۲) ’’جس شخص نے مقام رسالت مآب ا کی تنقیص وتحقیر اپنے قول کے ذریعے بایں صورت کہ آپ کو گالی دی یا اپنے فعل سے اس طرح کہ دل سے آپ سے بغض رکھا تو وہ شخص بطور حد قتل کر دیا جائے گا ‘‘۔ علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں : واذا کان کذالک وجب علینا ان ننصر لہ ممن انتھک عرضہ والانتصار لہ با لقتل لان انتھاک عرضہ انتھاک دین اللہ (الصارم المسلول ص ۲۱۱) ’’اور جب یہ حقیقت ہم پر لازم ہے کہ حضور ا کی خاطر اس شخص کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں جو آپ کی شان میں گستاخی کرے اور احتجاج یہ ہے کہ اسے قتل کردیں اس لئے آپ ا کی عزت کو پامال کر نا اللہ کے دین کی اہانت کرنا ہے ‘‘۔

فتاوٰی حامدیہ میں ہے : فقد صرح علماء نافی غالب کتبھم بان من سب رسول اللہ ا أو احدا ً من الانبیاء علیھم الصلٰوۃ والسلام وااستخف بھم فانہ یقتل حدا ولا توبۃ لہ اصلاً سواء بعد القدرۃ علیہ والشھادۃ او جاء تایباً من قبل نفسہ لا تہ حق تعلق بہ حق البعد فلا یسقط بالتوبۃ کسائر حقوق الآدمیین ووقع فی عبارۃ البزازیہ ولو عاب نبیاً کفر (فتاوٰی حامدیہ صفحہ ۱۷۳) ’’ہمارے علماء کرام نے اپنی اکثر کتب میں اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ جو شخص رسول اللہ ا کی توہین کرے یا انبیاء کرام میں سے کسی بھی نبی کی توہین کرے ۔ یا ان کا استخفاف کرے تو اس کو بطور حد قتل کیا جائے گا ۔ اس کی توبہ اصلاً قبول نہیں ۔ خواہ گرفتار ہونے اور شہادت پیش ہونے بعد توبہ کرے یا گرفتاری اور شہادت سے قبل از خود توبہ کر لے بہر صورت ا س کی توبہ مقبول نہیں ۔ کیونکہ یہ ایسا حق ہے جس کے ساتھ حق عبد متعلق ہو چکا ہے ۔ لہذا انسانوں کے تمام حقوق کی طرح یہ حق بھی توبہ سے ساقط نہیں ہو گا اور بزازیہ کی عبارت میں ہے جو شخص کسی نبی پر عیب لگائے وہ اس کے سبب کا فر ہو جائے گا ‘‘۔

گستاخ رسول کے قتل پر صحابہ کا اجماع : علامہ ابن تیمیہ مذکورہ مسئلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے اجماع کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔ اما اجماع الصحابہ فلان ذالک نقل عنھم فی قضا یا متعددۃ ینتشر مثلھا ویستفیض ولم ینکر ھا احد منھم فصارت اجماعا (الصارم المسلول ۲۰۰) ’’مذکورہ مسئلے پر اجماع صحابہ کا ثبوت یہ ہے کہ یہی بات (گستاخان رسول ا واجب القتل ہے ان کے بہت سے فیصلوں سے ثابت ہے مزید برآں کہ ایسی چیز مشہور ہو جاتی تھی لیکن اس کے باوجود کسی صحابی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا جو اس کی بین دلیل ہے ‘‘۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں : من اذی رسول اللہ بطعن فی شخصہ ودینہ او نسبہ او صفتہ من صفاتہ او بوجہ من وجوہ الشین فیہ صراحۃ وکنایۃ او تعریضا او اشارۃ کفرو لعنھم اللہ فی الدنیا واعد لہ عذاب جہنم (۱ تفسیر مظہری ج ۷ صفحہ ۳۸۱) ’’جس شخص نے رسول اللہا کو اشارۃ وکنائۃ صریح وغیر صریح طریق سے عیب کی جملہ وجوہ میں سے کسی ایک وجہ سے یا آپ کی صفات میں سے کسی ایک صفت میں ، آپ کے نسب ، میں آپ کے دین میں یا آپ کی ذات مقدسہ کے متعلق کسی قسم کی زبان طعن دراز کی تو وہ کافر ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں اس پر لعنت کی اور اس کے لئے جہنم کا عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘۔

اندلس کے فقہائے اسلام نے ابن حاتم طلیلی کو قتل کرنے اور سولی چڑھانے کا فتویٰ دیا کیونکہ اس کے متعلق حضورا کی شان میں بے ادبی وگستاخی وتحقیر تنقیص اور اتخفاف کا مرتکب ہونے کی معتبر شہادتیں موصول ہوئی تھیں ۔ اس نے ایک مناظرے کے دوران گستاخانہ لہجے میں حضور ا کو یتیم اور ختن حیدر (حضرت علی ) کا سسر کہاتھا۔ جمیع امت مسلمہ کا فیصلہ: امام ابو بکر الفارسی شافعی نے بھی حضور اکرم ا کی گستاخی کرنے والے کو حد قتل کرنے کو اجماع امت کا قول کہا ہے: قد حکیٰ ابو بکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی القتل کما ان حد من سب غیرہ الجلد وھذا لا جماع الذی حکاہ محمول علی الصدر الاول من الصاحبۃ والتابعین اوانہ ارادا جماعھم علی ان ساب النبی یجب قتلہ اذا کان مسلما (الصار م المسلول ۳) ’’امام ابو بکر فارسی جو اصحاب شافعی میں سے ہیں انہوں نے امت مسلمہ کا ا س بات پر اجماع بیان کیا ہے کہ جس شخص نے حضور ا کو گالی دی تو اس کی سزا حد اً قتل ہے جس طرح کہ کسی غیر نبی کو گالی دینے والے کی سزا (حد )کوڑے لگانا ہے یہ اجماع صدر اول کے یعنی صحابہ وتابعین کے اجماع پر محمول ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ حضور ا کو گالی دینے والا اگر مسلمان ہے تو اس کے وجوب قتل پر اجماع ہے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔