Pages

Sunday 2 October 2016

چیچنیا کی راجدھانی غروزنی میں سنی کانفرنس کی روداد

چیچنیا کی راجدھانی غروزنی میں سنی کانفرنس کی روداد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، اما بعد:

فقیر انوار احمد بغدادی چیچنیا کے صدر عزت مآب رمضان قدیروف (اللہ تعالی ان کو اپنے حفظ وامان میں رکھے ) کی دعوت پر مورخہ۲۱؍ذو القعدہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۵؍اگست۲۰۱۶ء جمعرات کی شام چیچنیا کی راجدھانی گروزنی پہونچا ، یہ سفر گرچہ بہت لمبا تھا مگر جس قدر اس سفر میں آسانیاں پیدا ہوتی گئیں عموما ایسی آسانیاں دوسرے اسفار میں میسر نہ ہو سکیں ، چنانچہ 24  اگست ۲۰۱۶ کو ہم اپنے گھر سے نکلے، شام ساڑھے نو بجے بذریعہ فلائٹ دہلی پہونچے پھر وہاں سے ایک بجے رات  موسکو کے لئے روانگی ہوئی ، ایک سال قبل  بھی موسکو جانا ہوا تھا ابھی موسکو کی تمام یادیں تازہ تھیں مگر اس بار معاملہ بالکل الگ تھا ہم جوں ہی جہاز سے باہر نکلے تو ایک خاتون میرے نام کا پلے کارڈ لئے کھڑی تھیں انھوں نے اشارہ کیا ہم ان کے ساتھ چل پڑے انھوں ایک ہال میں ہمیں لے جاکر بٹھا دیا بڑی آسانی کے ساتھ پاسپورٹ پر Entry  کی مہر لگ گئی خاتون نے خود ہی اسی ہال میں میرا سامان منگوا لیا ، اس بار نہ لائن میں کھڑا ہونا پڑا نہ چک پوسٹ کے مراحل سے گذرنا پڑا ہاں تھوڑی بہت الجھن تھی تو تنہائی کی کہ اس بار میرا اردو بولنے دوست حالات کا شکار ہو کر مجھ سے بچھڑ چکا تھا یعنی اس بار میرے ساتھ میرے نہایت مخلص اور کرم فرما دوست حضرت مولانا مفتی محمد اسلم صاحب نہیں تھے جگہ جگہ ان کی یاد آ رہی تھی ، میں تنہائی کی کسک محسوس کر ہی رہا تھا کہ یہیں کینیا سے تشریف لانے والے شیخ فیصل سے ملاقات ہوگئی، ایک چمکتا دمکتا چہرا نہایت خوش مزاج انسان  اب میرا رفیق سفر بن چکا تھا چوں کہ ان سے ہماری سابقہ ملاقاتیں بھی تھیں اس لئے اب لمبے سفر کے تکان کے سوا کچھ نہ بچا ۔
ائیر پورٹ کے عملہ نے ہم لوگوں کو ایک ڈرائیور کے حوالے کیا جو روسی زبان کے سوا  کچھ نہیں جانتا تھا خیر اس کے ساتھ ہم اس کی کار میں انجام سے بے خبر ہوکر بیٹھ گئے ،  ڈرائیور ہماری بولی نہیں سمجھتا تھا اور ہم اس کی نہیں  ، واضح رہے کہ یہ صرف اسی ڈرائیور کی کہانی نہیں تھی بلکہ یہ وہاں کی عمومی حالت ہے انگلش کا تو دور دور تک نام ونشان نہیں  ہے ، لوگ انگلش جانتے ہوئے بھی صرف روسی زبان  بولنا چاہتے ہیں حد تو یہ ہے کہ ائیر پورٹ پر بھی بمشکل انگلش نظر آتی ہے ، ان کی یہ حالت دیکھ کر اس بات کا تجزیہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ابھی  بھی سرد جنگ  آہٹ محسوس کی جاری ہے ۔
بہر حال ڈرائیور صرف  گاڑی چلائے جا رہا تھا گویا ہم کوئی سامان ہوں جسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہے نا تو اس بندے نے چائے پوچھی اور نہ ہی کہیں کچھ نظر آرہا تھاہندوستان سے بالکل مختلف ، نہ چائے کی دکانیں نہ ڈھابے ،  مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا ہندوستان کے لوگ ہی کھاتے پیتے ہیں اور یہاں کے لوگ ہوا خوری کرتے ہیں۔
تقریبا دو ڈھائی گھنٹے موسکو کی ایک ہائی وے پر کار ڈوڑتی رہی پھرایک شیشے کی عمارت کے پاس جاکر رکی جہاں علما کے ایک قافلے سے ملاقات ہوگئی ، یہ عمارت موسکو کے چار بین الاقوامی ہوائی اڈوں میں سے ایک تھی ، یہاں سے ہمیں بذریعہ جہاز گروزنی جانا تھا ، کانفرنس کے منتظمین یہاں موجود تھے ، ساری کاروائی بڑی آسانی  کے ساتھ ہو گئی ڈھائی گھنٹہ سفر کرنے کے بعد جب ہم گروزنی ہوائی اڈہ پر جہاز سے اترے تو استقبال کے لئے صدر جمہوریہ کے مشیر عزت مآب جناب شیخ آدم شھیدوف صاحب  ایک بڑے عملے کے ساتھ موجود تھے ، انھوں نے وفد کا پرتپاک استقبال کیا ، پھر بغیر کسی کاروائی کے بذریعہ کار ایک فائیو اسٹار ہوٹل پہونچے جہاں علما مشائخ کا ایک جم غفیر پہلے سے ہی موجود تھا ۔
ایک لمبا سفر طے کرنے بعد جب ہم گروزنی پہونچے تو ہمارا خیال تھا کہ آج کی رات ہم آرام کریں گے اور کانفرنس کل سے شروع ہوگی مگر چائے اور جوس وغیرہ سے ضیافت کے بعد ہی ہمیں ٹائم ٹائبل تھما دیا گیا اور ہم سے کہا گیا کہ آپ حضرات اپنے اپنے کمروں میں تشریف لے جائیں فریش ہو کر تھوڑا سا آرام کرلیں  آج شام سات بجے کانفرنس کی افتتاح کے لئے ہوٹل سے نکل کر ہال جائیں گے ، جہاں آج ہی آٹھ بجے کانفرنس کی افتتاح ہوگی جس میں  صدر جمہوریہ کی شرکت متوقع ہے ۔
واضح رہے کہ اس  کانفرنس کا انعقاد عزت مآب صدر  الحاج احمد قادیروف علیہ الرحمہ کی برسی کے موقع پر “اہل سنت وجماعت کون ہے؟ ان کے معتقدات کیا ہیں؟اس سے انحراف پرمرتب ہونے والے اثرات کیا ہیں‘‘۔ کے عنوان سے ہوا ،اس کی دیکھ ریکھ چیچنیا کے صدر رمضان قادیروف اوراس کی سرپرستی شیخ ازہر نے کی ، جبکہ پوری دنیا سے تقریبا ۲۰۰ سو علما نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کاانعقادایک ایسے وقت میں ہوا جب کہ غیر اسلامی سرگرمیوں  سے  دین حق کی شبیہ داغ دار کرنے والی خارجی جماعتیں  ’’ اہل سنت وجماعت ‘‘ کا مبارک ومسعود لقب چھین کر اپنے اوپر منطبق کرنے کی ناکام کوششیں کر رہی ہیں۔
بہر حال وقت مقررہ پر جب ہم ایک وسیع وعریض ہال میں پہونچے تو ہماری مسرتوں کی انتہا نہ رہی ، جدید سہولیات سے لیس یہ ہال علما کی زینت گاہ بنا ہوا تھا ، جہاں پوری دنیا سے تشریف لائے ہوئے علما موجود تھے ان میں کوئی اپنے وقت کا  عظیم محدث تھا تو کوئی فقیہ کوئی مفکر تھا تو کوئی قلم کار ، اور کوئی قائد ورہنما، بس ایسا لگ رہا تھا کہ یہ آسمان کے ماہ و نجوم  ہیں جو اس ہال کی زینت بن کر اتر آئے ہیں ۔
اسٹیج پر شیخ الازہر امام اکبر شیخ احمد طیب صاحب ، مصر کے سابق مفتی جمہوریہ حضرت علامہ علی جمعہ صاحب ، صوفی با صفا حضرت علامہ عمر بن الحفیظ الیمنی صاحب ، وغیرہ موجود تھے ۔ تلاوت کلام پاک کے بعد افتتاحی خطاب صدر جمہوریہ جناب رمضان قدیروف کا ہونا تھا مگر کسی مصروفیت کی بنا پر وہ نہ آ سکے اس لئے ان کی جگہ ان کے نائب نے  خطاب کیا ، ان کے بعد روسی صدر کے مندوب کا خطاب ہوا پھر مائک امام اکبر علامہ شیخ طیب صاحب قبلہ کے حوالے کیا گیا آپ نے نہایت خوبصورت اور جامع تقریر فرمائی کہ دل باغ باغ ہوگیا ۔شیخ الازہر کے بعد قوقاز کے ایک بڑے عالم دین کا خطاب ہوا  پھر مفتی چیچنیا شیخ صلاح الدین مجیدوف نے عربی زبان میں ایک خوبصورت تقریر کی  ،جس میں کانفرنس کی اہمیت اور چیچینیا میں اہل سنت وجماعت کے تعلق سے مختصر بیان پیش کیا ۔ ان کے بعد روس کے مفتی عام راوی عین الدین کا بیان ہوا اور پھر اختتام پر مصر کے سابق مفتی اعظم شیخ علی جمعہ صاحب نے اپنا  اختتامیہ پیش فرمایا جو الختام مسک کا بہترین نمونہ تھا۔ پھر دعا کے لئے عارف باللہ سیدی عمر بن الحفیظ کو یاد کیا گیاا ٓپ نے نہایت رقت آمیز دعا فرمائی کہ ایک روحانی سماں قائم ہوگئی ، اخیر میں فاتحہ پر یہ مجلس برخواست ہو گئی ۔
پندرہ منٹ کے وقفہ کے بعد با ضابطہ علمی بحوث ومقالات کی مجلسیں شروع ہوئیں جن  میں نہایت قیمتی ابحاث پیش کئے گئے ۔اس دن کی پہلی مجلس تقریبا ساڑھے نو بجے شروع ہوکر ایک گھنٹہ سے زائد چلی ۔ اس پہلی مجلس کی صدارت مفتی مصر ڈاکٹر شوقی علام نے فرمائی اور جارڈن سے تشریف لانے والے ڈاکٹر سعید فودہ نے اپنا قیمتی مقالہ بعنوان : ‘‘تعریف عام باھل السنہ والجماعہ’’ پیش فرمایا ۔ جبکہ تبصرہ اور تعقیب کا فریضہ سعودی عربیہ سے تشریف لانے والے ایک با صلاحیت سنی عالم دین حضرت علامہ شیخ شریف حاتم بن عارف العونی نے انجام دیا ۔
اس طرح پہلے دن کی کاروائی اپنے اختتام کو پہونچی اور ہم ہوٹل کے کمرے میں ، جب کہ تھکاوٹ اس منزل کو پہونچ چکی تھی کہ جہاں بھوک پیاس کا احساس ختم ہوجاتا ہے چناچہ  شام کا کھانا کھائے بغیر بستر پر دراز ہوگئے پھر کب ہم میٹھی اور پرسکون نیند کی آگوش میں چلے گئے ہمیں احساس نہ ہوا۔۔۔۔
دوسرا دن جمعہ کا تھا  ٹائم ٹیبل کے مطابق گروزنی شہر کے مضافات میں پریسڈینٹ کی طرف سے بنوائی گئی ایک خوبصورت مسجد کا افتتاح ہونا تھا ، تقریبا گیارہ بجے  علمائے کرام کا قافلہ مسجد پہونچا جہاں جمعہ سے پہلے بعض علمائے کرام کا مختصرا بیان ہوا اس موقع پر پریسڈنٹ رمضان قدیروف بھی  موجود تھے  ان کو بھی خطاب کی دعوت دی گئی تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ ان علمائے کرام کی موجودگی میں  میرا بولنا بے ادبی ہے ۔ (کاش علما کا احترام کرنے والے ایسے اور بھی حکمراں پیدا ہوجائیں تو آج بھی دنیا بدل سکتی ہے ، اللہ تعالی ایسے با ادب امیر کو سلامت رکھے )۔
اسی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی گئی، خطبہ مفتی مصر شیخ شوقی نے پڑھا جب کہ جمعہ کی نماز شیخ الازہر کی اقتدا میں ادا کی گئی ۔ پھر ہم ہوٹل لوٹ آئے ۔
دوسرے دن یعنی جمعہ کی  شام کل تین مجلسیں منعقد ہوئیں ان مجلسوں  کا بنیادی محور گفتگو عقیدہ تھا  ،البتہ ہر مجلس کا عنوان الگ الگ تھا ، پہلی مجلس جو شام چار بجے شروع ہوئی ، اس مجلس کا عنوان تھا   کہ ہر زمانے میں اہل سنت ہی غالب رہے ، اور وہی سواد اعظم کہلانے کے مستحق رہے، اس مجلس کی صدارت ڈاکٹر  محمد عدنان افیونی نے کی جب امارات عربیہ سے تشریف لانے والے ایک با صلاحیت  جید عالم دین ڈاکٹر سیف علی عصری نے اپنا مقالہ بعنوان: الاشاعرہ والاماتریدیہ ھم السواد الاعظم(اشعری اور ماتریدی ہی سواد اعظم ہیں) پیش فرمایا۔
اس مقالہ میں ڈاکٹر صاحب نے امام اشعری اور ماتریدی علیہما الرحمہ  کا جامع تعارف پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان دونوں شخصیتوں  نے اسلام کے اندر کسی نئے نظرئے کی بنیاد  نہیں ڈالی ہے  بلکہ انھوں نے محض کتاب وسنت اور صحابہ وتابعین کے ماثورات کی صحیح علمی تشریح کی ہے ۔اور انھیں کے تشریح کردہ اسلامی نظریات پر ہی ہمیشہ سے مسلمانوں کی بڑی جماعتیں قائم رہی ہیں ۔
اس دن کی دوسری مجلس تقریبا چھ بجے شروع ہوئی جس کا عنوان تھا کہ مذاہب اربعہ ہی اہل سنت ہیں ۔ اس مجلس کی صدارت سرزمین ہند سے تشریف لے جانے والی ایک نہایت مشہور معروف شخصیت، علامہ  شیخ ابو بکر احمد ملیباری نے کی ۔ مقالہ شیخ انس شرقاوی نے پیش کیا ان کے مقالے کا عنوان تھا : المذاہب الاربعہ ہم اہل السنۃ والجماعہ وہم السواد الاعظم فی الامۃ الاسلامیۃ (مذاہب اربعہ ہی اہل سنت وجماعت ہیں اور یہی امت اسلامیہ کے سواد اعظم ہیں ۔
جمعہ کی تیسری مجلس ساڑھے سات بجے شروع ہوئی ، اس مجلس کا عنوان تھا : مذہبیت کی اہمیت اور زمینی زندگی پر لا مذہبیت کی بد نظمی کا اثر۔ صدر اجلاس شیخ سعید بوطی کے صاحبزادے ڈاکٹر توفیق بوطی صاحب تھے جب کہ مراکش سے تشریف لانے والے ایک عظیم مفکر ، زبان وبیان کے ماہر ڈاکٹڑ احمد العبادی صاحب نے  مذکورہ بالا عنوان پر اپنا نہایت قیمتی اور علمی مقالہ پیش فرمایا ۔
کانفرنس کے تیسرے اور آخری دن کا  پروگرام دوحصوں پر منقسم تھا، صبح اور شام ،دونوں وقتوں میں دو دو مجلسیں منعقد ہوئیں ، صبح کی دونوں  مجلسوں کا بنیادی محور تصوف تھا جب کہ شام کی دونوں مجلسوں کا بنیادی محور زمینی حقیقت پر اتر کر مسائل کا تدارک تھا۔صبح کی پہلی مجلس نو بجے شروع ہو کر ساڑھے دس بجے اختتام پذیر ہوئی ، اس مجلس کی صدارت  ڈاکٹر عبد الھادی قصبی نے کی ، جب کہ ڈاکٹر ادریس فہری نے  بعنوان : ‘‘بیان انہ علی مدی التاریخ اھل السنۃ والجماعہ ھم الصوفیہ’’ ( پوری تاریخ میں صوفیائے کرام ہی اہل سنت وجماعت رہے ہیں )  اپنا مقالہ پیش کیا ۔
صبح کی دوسری مجلس کا عنوان تھا: ‘‘ ماھیۃ التصوف وسمات اھل الطریق ’’ ( تصوف کی ماہیت اور اہل سلاسل کی خصوصیات) ، مقالہ نگار تھے عالم اسلام کی نابغہ روزگار شخصیت عارف باللہ شیخ باصفا حضرت علامہ حبیب عمر بن حفیظ (حفظہ اللہ) جنھوں نے اس موضوع کا حق ادا کردیا بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ دل سے نکلی ہوئی باتیں دلوں میں پیوست ہو کر رہ گئیں اور پورے مجمع پر اس وقت تک روحانی کیفیت طاری رہی  جب تک آپ بولتے رہے ۔ اس مجلس کی صدارت ڈاکٹر محمد محمود ہاشم نے فرمائی۔
صبح کی طرح شام میں بھی دو مجلسیں منعقد ہوئیں ، پہلی مجلس کا عنوان تھا : عقیدۃ المحدثین مذاھبھم وصلتھم بالتصوف، (محدثین کرام کا عقیدہ ان کے فقہی مذاہب اور تصوف سے ان کا تعلق) مقالہ نگار تھے مصر سے تشریف لانے والے بے باک متکلم شیخ اسامہ سید ازہری صاحب جنھوں نے مستند  حوالوں سے یہ ثابت کیا کہ محدثین کا عقیدہ وہ نہیں تھا جیسا کہ موجودہ زمانے کے سلفی حضرات دعوی کر رہے ہیں بلکہ وہ عقیدہ کے اعتبار سے  اہل سنت جماعت تھے مذاہب اربعہ کے پیرو کار تھے اور تصوف سے ان گہرا ربط تھا۔ اس مجلس کی صدارت شیخ خالد سانا نے فرمائی ۔
جب کہ شام کی آخری مجلس کا عنوان تھا : الخروج عن مذھب اھل السنۃ واثرہ فی الواقع (اہل سنت سے بغاوت اور معاشرے پر اس کے اثرات) اس مجلس کے مقالہ نگار تھے عالم اسلام کی عظیم شخصیت نابغہ روزگا شیخ حبیب علی جفری مد ظلہ جنھوں نے اپنا مقالہ بعنوان :  آثار الخروج عن المنھج الاصیل لاھل السنہ والجماعۃ علی الواقع  (معاشرے پر اہل سنت وجماعت کے اصلی منہج سے بغاوت کے آثار ) پیش فرمایا ۔ اس مجلس کی صدارت  ڈاکٹر ابراھیم مریخی نے کی۔
شیخ جفری صاحب نے اپنے مضمون میں اختصار کے ساتھ اہل سنت وجماعت کا منہج  بیان فرماتے ہوئے لکھا کہ چوں کہ یہ منہج عقل ونقل کا جامع تھا اسی لئے آفاق عالم کی وسعتوں میں سما گیا اور اسی جامعیت نے ہر زمانے کے نت نئے مسائل کا حل بھی پیش کیا اور تہذیب وتعمیر کی دنیا میں مثالی کارنامہ بھی ۔
شیخ صاحب نے اس منہج سے بغاوت کے آثار کی جھلکیاں درج ذیل نقاط میں پیش کئے:
٭محدودیت اور تنگ نظری۔٭کراہیت اور نا پسندیدگی پھیلانا۔٭اختلافی مسائل کو عقائد کا درجہ دینا ٭ مذہبی فرقہ واریت کو ہو دینا ٭ جہاد کی تصویر کو بگاڑ کر پیش کر نا٭ اخلاقی اصول کا خون کرنا ٭ من گھڑت عقائد ونظریات پیش کرنا۔ وغیرہ۔
حضرت نے نہایت ہی دکھ بھرے انداز میں فرمایا کہ تشدد کی جو لہر مسلمانوں میں دیکھی جا رہی ہے آنے والی نسلوں پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے اس لئے تشدد کا تدارک نہایت ضروری ہے ۔
ان مقالات کے اختتام کے موقع پر آخری گفتگو عالم اسلام کے ہیرو شیخ علی جمعہ کی ہوئی ۔ پھرسب سے آخر میں  شیخ اسامہ ازہری نے  کانفرنس کی قرار دادپیش کی۔دنیا بھر سے آئے ہوئے دیگر علما  میں سے کچھ نے تو بحث ومباحثہ میں حصہ لیا اور اکثر وبیشتر کی خاموشی ہی کانفرنس میں پیش ہونے والے مقالات اور قرار دادوں کی تائید تھی۔
کانفرنس کی نکات کا خلاصہ درج ذیل ہے:
٭ کانفرنس  میں ہونے والی شیخ ازہر کی تقریر پر بنیادی  دستاویزکی  حیثیت سے اعتماد کرنا ۔
٭ اہل سنت وجماعت وہ لوگ ہیں جوعقیدتااشعری وماتریدی ہیں، اسی زمرے میں اہل حدیث،  چاروں مذاہب کے ماننے والے یعنی حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی اور  اس تصوف پر عمل پیرا ہیں  جو علم ، اخلاق اور تزکیہ کا صاف ستھرا مشرب ہے ،جو سید الطائفہ حضرت خواجہ جنید بغدادی اور اُن جیسے دیگر ائمہ ہدایت کے  پیروکار ہیں ۔ یہی وہ منہج ہے جو قرآن کی خدمت کرنے والے تمام علمی مراکز کی قدر کرتا ہے اور دین حق کے معالم اور مقاصدسے پردہ اُٹھاتا ہے جو جان ، مال ، عقل ، آبرو اور اعلی اخلاقی نظام کی حفاظت وپاسداری میں پنہاں ہے۔
٭ قرآن کریم کا ایک حرم ہے جس کے ارد گرد اس سے مستفاد علوم ہیں ، یہ علوم اس کے معانی کے استنباط ،اہداف ومقاصد کے  ادراک پر معاون  اور  ذات باری تک پہونچانے کے ضامن  ہیں ۔ اُس کی تہوں میں ودیعت شدہ اسرار ورموز کے استخراج، اور اس کی آیتیں  زندگی وتہذیب ، فن وادب ، اخلاق ورحمت وراحت، ایمان وآبادی اور پوری دنیا میں امن وآشتی کا پتہ دیتی ہیں ۔ تاکہ دنیا کی ساری قومیں ، تہذیب وتمدن کھلی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ دین حنیف سارے عالم کے لئے رحمت اور سعادت دارین کا باعث ہے۔
٭ اہل سنت کا منہج اسلام کے مناہج میں سب سے  زیادہ جامع ،دقیق اور مضبوط منہج ہے، علمی کتابوں اور ان تدریسی مناہج کا سب سے زیادہ اہتمام کرنے والا ہے  جو صحیح طور پر عقل مسلم کی روشنی میں شریعت مقدسہ کی معرفت ، حقائق کی واقعی جانکاری اور اُن کا حسین سنگم معلوم ہوتی ہیں۔
٭ صدیوں سے علم ومعرفت کے یہ گہوارے جو اہل سنت کے نمائندہ اور نام لیوا ہیں ان سے ہزار ہا ہزارعلماواصحاب فضل نکل کر سائبیریا سے نائجریا ، طنجہ سے جکارتا ،بلکہ پوری دنیا پر چھا گئے اور قضاوافتاء ، تدریس وخطابت کے بلند وقابل قدر مراتب کے حامل رہ کر معاشرہ کو امن و آشتی کا گہوارہ بنائے رکھا، فتنہ وفساد کی آگ بھڑکنے نہ دیا، ملکوں میں استقرار واستحکام کا بول بالا رہا اور علم ومعرفت کا دور دورہ ہوا۔
٭ اہل سنت وجماعت روز اول سے ہی ہر قسم کی کج فکری کا تعاقب کرتی رہی ہے۔مختلف فرقوں کے مقالات اور مفاہیم کی چھان بین کر کے اُن کی نقد وجرح کا تسلی بخش سامان فراہم کیااور ہر قسم کے فکری انحراف کا جواب نہایت دور اندیشی اور دور رسی سے دیا۔تحقیق وتصویب میں سائنس کے عمدہ آلات کا سہارا لیا۔ اور جوں ہی اُن کا سائنسی منہج لوگوں کے سامنے آیا ، فکری تشدد کی بساط سمٹتی گئی اور امت کے مسائل از خود حل ہوکر تہذیب وثقافت کی پرورش وپرداخت میں لگے رہے۔ اور پھر ایسے جید علما اور عبقری شخصیتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے جبر ومقابلہ ، حساب وعلم مثلث ، انجینئرنگ، کسر اور لاگھرتم، کوالٹی وزن، میڈیکل اور آنکھوں کاآپریشن، نفسانی علاج، انکولوجی،جانپدک، جنین اور منشیات، انسائکلو پیڈیا   فارمیسی، علوم حیوانات ونباتات، کشش ثقل، علم نجوم وماحولیات، علم اصوات وبینائی اور اس کے علاوہ دیگر بہت سارے علوم میں خاصا اہم کردار ادا کیا۔ یہ جماعت اہل سنت کی وہ خدمات ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
٭ اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں کج فکری وانحراف کی تیز وتند ہوائیں بار بار چلیں اور یہ دعوی کرتی رہیں کہ وہی وحی متلو کی سچی وارث وامین ہیں حالاں کہ  وہ منہج حق سے بغاوت کر نے والی ہیں ، حق کو  تہ تیغ کرڈالا  ، لوگوں کا چین وسکون چھین لیا۔ یہ موذی اور خطرناک لوگ پرانے خارجی تھے جو آج تکفیری فکر کے حامل سلفی مکتب فکر،د اعش اور اس جیسی دیگر انتہا پسندتنظیموں کی شکل میں دنیا کے سامنے ظاہر ہوئے ہیں۔ان سب میں قدر مشترک امور دین میں غلو آمیز تحریف، انتحال باطل اور مبنی برجہالت دینی اوامر ونواہی کی تاویل، جس کے نتیجے میں درجنوں باطل افکاراور انتہا پسندانہ نظریات منصہ   شہود      پر آئے جیسے تکفیر، قتل وغارت،جان ومال کا ضیاع، دین حنیف کی بدنامی وغیرہ وغیرہ ۔ اسی چیز نے دین کے ذمہ داروں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ایسی تحریکوں  کے سامنے سینہ سپر ہوکر علم بغاوت بلند کریں جیسا کہ  رسول گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے جس میں آپ نے فرمایا ’’ دین حنیف کی حفاظت وصیانت کی ذمہ داری آنے والے ہر شخص پر عاید ہے جو اُسے غلو آمیز تحریف، انتحال باطل اور جہلا کی تاویل سے محفوظ رکھے گا‘‘۔
٭ مذکورہ بالا انھیں بنیادی مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیاتاکہ فکری کج روی اور نظریاتی انتہا پسندی کی اصلاح کے لئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوجس پر یہ لوگ اُچک کراہل سنت وجماعت کا لیبل لگا لئے ، اور اب اُس پر مصر ہیں اور اس کے حقیقی وارثین کو باہر کا راستہ دکھا رہے ہیں۔یہ سب ممکن اُس منہج قویم کے بہتر نفاذ سے ہوا جس کی تشکیل ہمارے اُن بڑے مدارس کے ہاتھوں عمل میں آیا، جو تکفیر وانتہاپسند نظریات سے دور امن وآشتی کے علم برداراور دنیا کے لئے امن وسلامتی کے پیغامبر تھے یہاں تک کہ پورا عالم روشنی کا گہوارہ اور رشد وہدایت  کا منبع بن جائے۔
کانفرنس کا اختتام درج ذیل سفارشات پر ہوا:
۱۔ پورے روس میں ملکی پیمانے پر ایک ٹی وی چینل کا قیام جواسلام کی صحیح تصویر لوگوں کے سامنے پیش کرے اور انتہا پسندی ودہشت گردی کا مقابلہ کرے۔
۲۔ماضی میں شاندار تاریخ وعلمی منہج کے حامل علم وعرفان کے اُن بڑے اداروں کی نشاۃ ثانیہ ہو جو ایسے علما تیار کریں جو رشد وہدایت کا فریضہ انجام دیں ، فکری انحراف وکج روی کا مقابلہ کریں، علم اور امن وسلامتی کو رواج دیں اور وطن کی حفاظت وصیانت کو یقینی بنائیں۔
۳۔ سماجی روابط کے نیٹ ورک کا قیام اور اس میدان میں موثر موجودگی کے لئے ناگزیر وسائل وماہرین کی خاطرخواہ مدد لی جائے
۴۔ جملہ اسلامی علوم کی تدریس وتفہیم کا اعلی نظم وضبط کیا جائے خصوصا اصول فقہ اور علم کلام تاکہ صحیح افکار ونظریات کی ترسیل ہو اور تکفیر وبے دینی جیسے نظریات کا قلع قمع ہو۔
۵۔  جمہوریہ چیچینیا میں ایک عظیم علمی مرکز کا قیام تاکہ معاصر جماعتوں اور اُن کے افکار ونظریات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے، اور اُن کا ایک دستاویزی ڈیٹا بیس تیار ہو، اور اُس کی روشنی میں انتہا پسندانہ نظریات کا صحیح علمی محاسبہ کیا جاسکے اور اس کا مجوزہ نام ’’تبصیر‘‘ ہو۔
۶۔ قدیم علمی اداروں اور موسسات جیسے ازہر شریف،جامعہ قروین، جامعہ زیتونہ وغیرہ ، نیزمتحدہ روس کے دیگر علمی وثقافتی ، تحقیقی مراکز سے رابطہ اور بہتر تعلقات قائم کیا جائیں۔
ٓ۷۔ مراسلاتی تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ امن وسلامتی پر مبنی علم کا رواج ہو ، یہ اقدام اُن طالبین علم کی خدمت کریگا جو اپنی عملی مصروفیات کے سبب ریگولر تعلیم نہیں جاری رکھ پاتے
۸۔ حکومتوں کویہ باور کرانا کہ وہ اعتدال  وسطیت کے منہج پر کام کر رہے دینی اداروں کو مادی ومعنوی تعاون فراہم کرائیں، نیز بعض حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی سیاسی چال سے متنبہ کریں ، کیونکہ اس سے لوگوں کے اندر مزید بے چینی پیدا ہوگی اور اُن کی صفوں میں دراڑ  آئے گی۔
۹۔ کانفرنس حکومتوں سے اس بات کی سفارش کرتی ہے کہ جو لوگ ہم وطنوں کے بیچ نفرت وبغض کی بیج بونے کی کی مجرمانہ سازش کرتے ہیں اور اُنھیں داخلی فتنہ وفساد پر اُکساتے ہیں،اُن کے خلاف سخت قانونی بل لایا جائے۔
۱۰۔ کانفرنس کے تمام شرکاء اہل سنت کے بڑے اداروں خصوصا ازہر وغیرہ ، سے پُر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ روسی مسلمان جو علوم شرعیہ حاصل کرنے رغبت رکھتے ہیں ان کو  وظائف دیں۔
۱۱۔ شرکاء کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اس نوعیت کی کانفرنس ہر سال منعقد کی جائے تا کہ یہ اہم مقاصد بھی پورے ہوتے رہیں اور نووارد مسائل کا حل بھی نکلتا رہے۔
۱۲۔ ایک کمیٹی کی تشکیل جو کانفرنس کی سفارشات کے نفاذ اور اُن سے مرتب ہونے والے نتائج پر نظر رکھے۔
کانفرنس کے تمام شرکاء نے چیچنیائی پریسیڈنٹ رمضان احمد قدیروف کا بے پناہ شکریہ ادا کیا اور قرآن وسنت کی نشر واشاعت کے باب میں اُن کی مبارک کوششوں کو سراہا ، نیز کلمات خیر سے نوازا۔اور اسلام وانسانیت کی خدمت ، عقیدہ ء اہل سنت وجماعت کی حفاظت وصیانت کے لئے اپنے والد گرامی الحاج احمد قدیروف کی روایت آگے بڑھانے کے لئے اُن کے حق میں دعائیں کی، کہ اللہ رب العزۃ شہید مرحوم پر اپنی رحمت ورضا کی بارش فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، اور چیچنیا کی حفاظت فرمائے ، امن وسلامتی واستقرار مرحمت فرمائے اور دن دونی رات چوگنی ترقی سے نوازے۔
دریں اثناء شرکاء  کانفرنس نے جملہ منتظمین، کارکنان، افراد وادارہ جات،  بالخصوص شیخ  احمد قدیروف سے منسوب ادارہ نیشنل چیریٹیبل فنڈ،  چیریٹیبل ٹرسٹ برائے ثقافت اسلامی، علم اور تعلیم،  طابہ ٹرسٹ  اور دیگر تمام معاونین ،مخلصین ، محبین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جنھوں نے اس کانفرنس کے اہتمام وانصرام میں اپنا دست تعاون دراز کیا۔  وصلی اللہ تعالی علی سیدنا ومولانامحمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔
(تحریر  بتاریخ۲۴؍ذو القعدہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۷؍اگست۲۰۱۶ء،  گروزنی، چیچنیا)

کانفرنس ختم ہونے کے بعد علما کا یہ قافلہ ایک نہایت خوبصورت شادی ہال میں پہونچا جہاں شام کے کھانے اور میوزک کے ساتھ محفل نعت ومنقبت  کا اہتمام کیا گیا تھا ، یہ ہال اس قدر خوبصورت تھا کہ ہمارے ایک شامی دوست شیخ مالک نے فرمایا آئے میں آپ کو اس ہال کی جنت نماں خوبصورتیوں کا نظارہ کرادوں تاکہ  آپ اندازہ کرسکیں کہ جب دنیا کی مصنوعی جنت کا یہ حال ہے تو آخرت کی فطری جنت کا کیا حال ہوگا ۔ شیخ مالک نے مزید فرمایا کہ یہ ہال روس کا سب سے خوبصورت ہال ہے ۔
اسی مقام پر چیچنیا کے صدر محترم عالی جناب رمضان قدیروف صاحب تشریف لائے اور تمام علمائے کرام سے مصافحہ کیا اور بے پناہ خوشیوں کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا آج الحمد للہ ہمارے ملک میں کوئی وہابی یا تشدد پسند تحریک نہیں پائی جاتی ہے یہ ایک صوفی سنی ملک ہے جہاں کی فضا پر امن اور خوشگوار ہے ۔
صدر کی یہ بات سو فیصد درست ہے بے شک آج یہ ملک دنیا کے لئے ایک آئیدیل ملک بن چکا ہے ، بلکہ آپ کی آنکھوں کو  یقین نہیں ہوگا کہ  یہ وہی چیچنیا ہے جس کے بارے آج سے کچھ دس بارہ سال پہلے آئے دن خوں ریزی کے واقعات سننے میں آتے تھے آج وہاں تعمیر ہریالی اور ہر طرف امن وامان کی فضا قائم ہے ،  یہ سب کچھ صدر محترم اور ان کے والد بزرگوار حاجی احمد قدیروف (اللہ ان کی قبر پر رحمت وانوارکی بارش فرمائے ) کی قربانیوں اور پر امن حکمت عملی کا ہی نتیجہ ہے۔اللہ انھیں سلامت رکھے ۔
اسی موقعہ پر آبروئے اہل سنت سیدی شیخ حبیب علی جفری مد ظلہ العالی  کو ان کی خدمات کے اعتراف میں چیچنیا کا سب سےبڑا  تمغہ پیش کیا گیا ۔ واضح رہے کہ   شیخ جفری کی شخصیت ایک بے لوث مرد مجاہد کی ہے جو عصر حاضر میں زہد وتقوی کے نادر ونایاب نمونہ ہیں ، پوری دنیا میں امن وامان قائم کرنے اور اہل سنت وجماعت کی عظمت رفتہ لوٹانے میں کوشاں ہیں، اس کانفرنس کے انعقاد میں آپ کا کلیدی کردار رہا ہے ۔ اللہ سے دعا کہ ہے ہمارے سروں پر آپ کا سایہ تا دیر قائم ودائم فرمائے۔
یہ کانفرنس کس قدر کامیاب تھی اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس کانفرنس کے رد عمل میں پوری دنیائے وہابیت چیخ پڑی جیسے اس کے ایوان میں زلزلہ آگیا ہو اور کچھ موقع پرست حضرات نے  تو خوف ودہشت سے چولی ہی بدل ڈالی ۔یہ سب کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہے تاہم آپ غور کریں کہ مخالف کانفرنس  کی کامیابی سے تلملا رہا ہے، علمائے اہل سنت کی کوششوں کو سبو تاز کرنے کے لئے پوری طاقت جھونک دے رہا ہے مگر اس سے زیادہ اس کی بات نہیں بن پا رہی کہ  یہ کانفرنس موجودہ حالات میں  مسلمانوں کو بانٹ دے گی۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ مخالف کہ یہ بات بھی نہایت بے تکی اور ظالمانہ ہے ، مخالف یہ بھول رہا کہ اب تک بانٹنے کا کام کس نے کیا ہے ؟کس فکر نے آج مسلمانوں کو یہاں لا کر کھڑا کیا ہے ؟ مسلمانوں کو کافر ومشرک بنانے والے آج اتحاد کی دہائی دے رہے ہیں ۔ کاش انھیں عقل آتی اور اپنی پر تشدد فکر سے باز آتے تو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔
قارئیں آپ کو پتہ ہے کہ کانفرنس کی اس کامیابی کے پیچھے کون سے عناصر پنہاں ہیں کہ مخالف کی بات نہیں بن پا رہی ہے ۔ آئے چند چیزوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائیں :
٭ کانفرنس نہایت منظم تھی ،  گویا بڑی حکمت عملی کے ساتھ اس کی پلاننگ کی گئی تھی۔
٭ پوری دنیا سے اہل سنت کی نمائندگی کو یقینی بنایا گیا تھا حتی کہ سعودیہ عربیہ کی بھی نمائندگی تھی ۔جس سے اہل سنت کی وحدت کثرت اور تنظیم کا پیغام برملا طور پر دنیا کے سامنے پہونچا۔
٭ کانفرنس میں تنقید کا ہدف کسی ملک یا کسی ذات اور شخص کو نہ بنا کر پوری توجہ فکر اور سوچ پر دی گئی۔ اور نہایت صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی کہ ہمیں کسی سے دشمنی نہیں ہے ہم تو پوری دنیا میں صحیح فکر اورصحیح  سوچ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
٭ کانفرنس میں پیش کئے گئے عام طور پر مقالات میں جذباتیت کا عنصر نہیں بلکہ عقلانیت کا عنصر غالب  تھا ، مقالات اور بحوث دلائل وبراہین کا مجسمہ تھے ۔
٭ کانفرنس میں پیش کئے گئے افکار ونظریات پر بحث ومباحثہ نہایت آزادانہ طور پر علمی اور ادب کے دائرے میں ہوا۔
٭ کانفرنس میں ہوائی باتیں نہیں کی گئیں بلکہ زندگی کی زمینی حقیقتوں کا منصفانہ جائزہ پیش گیا ۔
٭کسی کی دل ا ٓزاری یا رسوائی کا سامان مہیا نہیں کیا گیا بلکہ نہایت تعمیری طرز فکر کی باتیں کہیں گئیں کہ جس سے پوری دنیا میں امن امان اور محبت کی فضا قائم ہو سکے۔
٭ کانفرنس میں اس اسلوب پر زور دیا گیا کہ کسی بھی نظرئے کا ابطال بر بنائے محبت اور اصلاح ہو تاکہ مخالف بغاوت کی بجائے آپ کا ہم فکر اور ہم نوا دوست بن جائے ۔
٭ کانفرنس اعلی سطح کی تھی ، شیخ الازہر اور مفتی مصر وغیرہ کی شرکت نے کانفرنس کی اہمیت کو دوبالا کر دیا تھا۔
یہ چند وہ باتیں ہیں جو کانفرنس کی اس قدر کامیابی کی ضمانت بنیں  کہ  مخالف لاکھ ہاتھ پیر مارنے کے باوجود کچھ معقول بات کہہ پانے سے معذور ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔