Pages

Monday 10 October 2016

امام زین العابدین و امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں جس کا صبر نہیں اس کا ایمان نہیں ہے ۔ ( ماتم ، زنجیر زنی ، سینہ کوبی ، سینہ پیٹنا سب صبر کے خلاف ہے )

امام زین العابدین و امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں جس کا صبر نہیں اس کا ایمان نہیں ہے ۔ ( ماتم ، زنجیر زنی ، سینہ کوبی ، سینہ پیٹنا سب صبر کے خلاف ہے )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اصول کافی کے ص: ۴۱۰ پر یہ عبارت موجود ہے: ”لا إيمان لمن لا صبر له.“ جس کا صبر نہیں، اس کا ایمان نہیں۔
ان ارشادات کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ ماتم اور گریہ زاری کرنے والوں اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے والوں کا ایمان کہاں رہ جاتا ہے؟ اب حیرت اس بات پر ہے کہ جس واقعہ پر ائمہ نے صبر کیا، نہ جلوس نکالے، نہ دلدل، نہ مہندی، نہ ماتم کیا، نہ واویلا کیا، اس کے برعکس یار لوگوں نے ان تمام اشیاء کو فرض ِ عین اور مذہبی شعار کا درجہ دے دیا ہے اور بالکل مدعی سست اور گواہ چست کا مصداق بن گئے ہیں، حالانکہ ائمہ نے ان کو حرام قطعی اور ممنوع قرار دیا ہے۔
عن أبي عبدالله (ع) في قول الله عزوجل: " ولا يعصينك في معروف" قال: المعروف أن لايشققن جيبا ولا يلطمن خداولايدعون ويلا ولا يتخلفن عند قبر ولا يسودن ثوبا ولاينشرن شعرا.“ (فروع کافی،كتاب المعيشة .. باب دخول الصوفية على أبي عبدالله عليه السلام واحتجاجهم عليه فيما ينهون الناس عنه من طلب الرزق، باب صفة مبايعة النبي صلى الله عليه وآله النساء، جلد:5، ص: 761 بحوالہ شاملۃ الروافض)
یعنی امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے ”ولا يعصينك في معروف (القرآن )“ کی تفسیر میں فرمایا کہ معروف یہ ہے کہ وہ عورتیں اپنے کپڑوں کو میت پر نہ پھاڑیں، نہ اپنے چہرے کو پیٹیں، نہ واویلا کریں، نہ میت کے پیچھے قبر تک آئیں، نہ کپڑے کالے کریں اور نہ اپنے بالوں کو بکھیریں۔
اور نہج البلاغۃ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ” وقال(عليه السلام): يَنْزِلُ الصَّبْرُ عَلَى قَدْرِ الْمُصِيبَةِ، وَمَنْ ضَرَبَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ عِنْدَ مُصِيبَتِهِ حَبِطَ عملُهُ “ یعنی صبر بأندازہ مصیبت نازل ہوتا ہے اور جو شخص مصیبت کے وقت اپنے رانوں پر ہاتھ مارے، یعنی پیٹے تو اس کے نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔
اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن زینب کو وصیت کی: ” يا اُختاه ، إني أقسمت عليك فأبرّي قسمي ، لاتشقّي عليّ جيباً، ولا تخمشي عليّ وجهاً، ولاتدعي عليّ بالويل والثبور إذا أنا هلكت“ (اعلام الوریٰ باعلام الہدی لطبرسی، ج: 1، ص: 375، بحوالہ شاملۃ الروافض)
اور من لا یحضرہ الفقیہ مطبوعہ طہران کے ص: ۳۶ پر یہ روایت موجود ہے: ” وقال صلى الله عليه وآله لفاطمة عليها السلام حين قتل جعفر بن أبي طالب: لا تدعي بذل(بويل) ولا ثكل ولا حرب (ضرب) ، وما قلت فيه فقد صدقت“
اور اسی کتاب کے ص: ۴۶ پر یہ عبارت موجود ہے:
”وقال عليه السلام: ملعون ملعون من وضع رداءه في مصيبة غيره ،
وہ شخص ملعون ہے جس نے کسی دوسرے کی مصیبت میں اپنی چادر اتار پھینکی ۔
اور مجمع البیان (طبرسی) ج:9، ص: 413 پر پڑھیے:و قيل عنى بالمعروف النهي عن النوح و تمزيق الثياب و جز الشعر و شق الجيب و خمش الوجه و الدعاء بالويل عن المقاتلين“ معروف کا مطلب یہ ہے کہ رویا پیٹا نہ جائے، کپڑے نہ پھاڑے جائیں، بال نہ بکھیرے جائیں، چہرہ نہ پیٹا جائے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔