Pages

Thursday 12 January 2017

سوئم، ساتواں، چہلم، برسی بھی ایصال ثواب ثواب ہیں اور جائز ہیں

سوئم، ساتواں، چہلم، برسی  بھی ایصال ثواب ثواب ہیں اور جائز ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوئم، ساتواں، چہلم اور برسی وغیرہ کرنا یہ سب ایصال ثواب کے نام ہیں اور ایصال ثواب قرآن و حدیث سے ثابت ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سید اشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کےلئے تیسرے، دسویں، چالیسویں دن اور چھٹے مہینے اور سال کے بعد صدقہ دیا۔
معلوم ہوا کہ یہ مروجہ تیجہ، ساتواں، چہلم، اور گیارہویں وغیرہ دراصل ایصال ثواب کے نام ہیں جو کہ جائز ہیں۔ ان کو بدعت سیہ یا لغو وغیرہ کہنا گمراہی ہے۔
(1) سوئم: میت پر تین دن خاص سوگ کی جاتا ہے۔ بزرگوں نے فرمایا تین دن سوگ کیا ہے۔ اب اٹھنے سے پہلے چند گھر کے افراد مل کر کچھ صدقے کرو۔ کچھ پڑھو اور اس کا ثواب کا ثواب میت کی روح کو پہنچا کر اٹھو۔ اس کا نام سوئم یا تیجہ مشہور ہوگیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تیجا ہوا چنانچہ
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "تیسرے دن لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ شمار سے باہر ہے۔ اکیاسی (81) بار کلام اللہ ختم ہوئے بلکہ اس سے زیاد ہوئے ہونگے اور کلمہ طیبہ کا تو انداز ہی نہیں کہ کتنا پڑھا گیا"۔ (ملفوظات عزیزی)
نوٹ: میت پر اس کے گھر والوں کیلئے سوگ تین دن ہے مگر شوہر کے انتقال پر بیوی کےلئے چار ماہ دس دن سوگ یعنی (عدت) ہے۔
(2) ساتواں: حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ"بے شک مردے سات روز تک اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں تواسلئے علماء کرام سات روز تک ان کی جانب سے کھانا کھلانا مستحب سمجھتے تھے"۔
یعنی مردے کیطرف سے سات یوم تک فقراء کو کھانا کھلایا جائے۔ چنانچہ شیخ المحدثین حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہئیے"۔ اشعہ اللمعات بآ زیارۃ القبورجلد اول 716۔
(3) چھلم : بزرگان دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس روز تک اپنے گھر اور مقامات سے خاص تعلق رہتا ہے جو بعد میں نہیں رہتا۔ چنانچہ
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ" مومن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ خدا تعالٰی کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے اس کے عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے اس کی روزی اترتی تھی، روتے رہتے ہیں"۔ (شرح الصدور ص102)
اسی لئے بزرگان دین نے چالیسوں روز بھی ایصال ثواب کیا کہ اب چونکہ وہ خاص تعلق منقطع ہوجائے گا لہٰذا ہماری طرف سے روح کو کوئی ثواب پہنچ جائے تاکہ وہ خوش ہو۔
میت کے گھر میں ضیافت (دعوت) کا اہتمام کرنا
آج کل یہ عام رواج ہے کہ تیجا، دسواں اور چالیسواں یا برسی وغیرہ کے موقع پر باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے۔ اور بہت اہتمام کے ساتھ کھانے کا انتظار کیا جاتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔
فتح القدیر میں ہے اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت مکروہ (تحریمی) ہے کہ شریعت نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بری بدعت ہے۔
یہ حکم تو اس صورت میں ہے کہ جب تمام وارث بالغ ہوں اور سب اپنی خوشی سے انتظام کر رہے ہوں اور اگر وارثوں میں کوئی نابالغ بھی ہے تو کھانے کا انتظام سخت حرام ہے اور قرآن کریم کی اس وعید میں دخل ہے" وہ جو یتیموں کا مال ناحق کھانے ہیں وہ تو اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں"۔ (سورہ النساء)
ہاں! اگر غریبوں اور محتاجوںکےلئے کھانا پکوائیں اور تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور وہ اپنے مال سے کریں یا ترکہ سے تو اچھا ہے۔ (بہار شریعت حصہ چہارم ص91)
مسئلہ: اہل میت کےلئے کھانے لے جانا اور ان کے ساتھ کھانا، ان کے میت کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہونے کی وجہ سے پہلے دن جائز ہے اور اس کے بعد مکروہ ہے۔ (فتاوٰی رضویہ) جلد نہم مع تخریج ص667
دن مقرر کرنا : اہل سنت کے نزدیک بالاتفاق ایصال ثواب جائز ہے۔ جس دن چاہیں کریں۔ دس یا بیس دن کی کوئی قید نہیں۔ مسلمان اگر کبھی دن مقرر کرکے مجلس ایصال ثواب مقرر کرتے ہیں تو صرف اپنی سہولت کےلئے تاکہ بلانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ لوگ خود ان دنوں میں قرآن خوانی اور فاتحہ میں شریک ہوجائیں گے۔ کیونکہ کسی کام کےلئے اپنی سہولت کی خاطر دن اور وقت مقرر کرنا "سنت مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی ہے اور سنت صحابہ بھی"۔
بخاری شریف میں ہے " نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر ہفتہ روز مسجد قباء میں کبھی پیدل اور کبھی سوار ہو کر تشریف فرما ہوتے اور عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے تھے"۔
اس حدیث میں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نیک کام کرنے کےلئے دنوں اور وقتوں کو خاص کرنا جائز ہے۔
"حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعررات کے دن لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے"۔ (صحیح بخاری) باب من جعل لاہل العلم ایاما معلومۃ جلد 1 ص16
پس! معلوم ہوا کہ دن مقرر کرکے کسی ایک کام کو بجالانا، نہ حرام ہے اور نہ بدعت، بلکہ سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور طریقہ اسلاف ہے۔ اور کسی جگہ اس کی ممانعت نہیں آئی اس لئے یہ جائز ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔