Pages

Thursday 5 January 2017

درس قرآن ومما رزقنٰھم سے یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ آیت تک

درس قرآن ومما رزقنٰھم سے یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ آیت تک
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ: اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں۔}آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں کچھ اللہ  تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔راہِ خدا میں خرچ کرنے سے یا زکوٰۃ مراد ہے جیسے کئی جگہوں پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ ہی کا تذکرہ ہے یااس سے مراد تمام قسم کے صدقات ہیں جیسے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، طلبہ ، علماء اورمساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیاء کرام یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے جو خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کہ وہ سب صدقاتِ نافلہ ہیں۔
مال خرچ کرنے میں میانہ روی سے کام لیا جائے:
آیت میں فرمایا گیا کہ جو ہمارے دئیے ہوئے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں ،اس سے معلوم ہوا کہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے میں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اتنا زیادہ مال خرچ کر دیا جائے کہ خرچ کرنے کے بعد آدمی پچھتائے اور نہ ہی خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام لیا جائے بلکہ اس میں اعتدال ہونا چاہئے ۔اس چیز کی تعلیم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوۡلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوۡمًا مَّحْسُوۡرًا ﴿۲۹﴾‘‘ (بنی اسرآئیل: ۲۹)
ترجمہ : اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ پورا کھول دو کہ پھر ملامت میں ، حسرت میں بیٹھے رہ جاؤ۔
اورکامل ایمان والوں کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’وَالَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمْ یُسْرِفُوۡا وَلَمْ یَقْتُرُوۡا وَکَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ﴿۶۷﴾‘‘(فرقان: ۶۷)
ترجمہ : اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تونہ حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں۔
وَالَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبْلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَؕ﴿۴﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترااور آخرت پر یقین رکھیں۔
ترجمہ : اور وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
{وَالَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ:اور وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا ۔ }اس آیت میں اہلِ کتاب کے وہ مومنین مراد ہیں جو اپنی کتاب پر اور تمام پچھلی آسمانی کتابوں پراور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہونے والی وحیوں پر ایمان لائے اور قرآن پاک پر بھی ایمان لائے۔ اس آیت میں ’’ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ ‘‘ سے تمام قرآن پاک اور پوری شریعت مراد ہے ۔    (جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۱/۱۹، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۲۱، ملتقطاً)(دعاؤں کا طالب ڈاکٹڑ فیض احمد چشتی)
اللہ تعالیٰ کی کتابوں وغیرہ پر ایمان لانے کا شرعی حکم : یاد رکھیں کہ جس طرح قرآن پاک پر ایمان لانا ہر مکلف پر’’ فرض‘‘ ہے اسی طرح پہلی کتابوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جوگزشتہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئیں البتہ ان کے جو احکام ہماری شریعت میں منسوخ ہو گئے ان پر عمل درست نہیں مگر پھر بھی ایمان ضروری ہے مثلاً پچھلی کئی شریعتوں میں بیت المقدس قبلہ تھالہٰذا اس پر ایمان لانا تو ہمارے لیے ضروری ہے مگر عمل یعنی نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں ، یہ حکم منسوخ ہوچکا۔ نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کریم سے پہلے جو کچھ اللہ  تعالیٰ نے اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل فرمایا ان سب پر اجمالاً ایمان لانا ’’فرض عین‘‘ ہے یعنی یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ  تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامپر کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں جو کچھ بیان فرمایا سب حق ہے۔ قرآن شریف پریوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ ہمارے پاس جو موجود ہے اس کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برحق ہے بقیہ تفصیلاً جاننا ’’فرضِ کفایہ‘‘ ہے لہٰذا عوام پر اس کی تفصیلات کا علم حاصل کرنا فرض نہیں جب کہ علماء موجود ہوں جنہوں نے یہ علم حاصل کرلیا ہو۔
وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ:اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔} یعنی متقی لوگ قیامت پر اور جو کچھ اس میں جزاوحساب وغیرہ ہے سب پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے۔اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا آخرت کے متعلق عقیدہ درست نہیں کیونکہ ان میں سے ہرایک کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کے علاوہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگاجیسا کہ سورہ بقرہ آیت 111میں ہے اور خصوصا یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہم اگرجہنم میں گئے تو چند دن کیلئے ہی جائیں گے، اس کے بعد سیدھے جنت میں جیسا کہ سورہ بقرہ آیت 80 میں ہے۔
(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۱/۱۹، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۲۱، ملتقطاً)
اس طرح کے فاسد اور من گھڑت خیالات جب ذہن میں جم جاتے ہیں تو پھر ان کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے۔
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ﴿۵﴾
ترجمۂ کنزالایمان:وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔
ترجمہ : یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اوریہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔
{ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ: وہی فلاح پانے والے ہیں۔} یعنی جن لوگوں میں بیان کی گئی صفات پائی جاتی ہیں وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے عطا کی گئی ہدایت پر ہیں اوریہی لوگ جہنم سے نجات پاکر اور جنت میں داخل ہو کر کامل کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔
(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۱/۲۵)
اصل کامیابی ہر مسلمان کو حاصل ہے : یاد رہے کہ اس آیت میں فلاح سے مراد ’’کامل فلاح‘‘ ہے یعنی کامل کامیابی متقین ہی کو حاصل ہے ہاں اصلِ فلاح ہر مسلمان کو حاصل ہے اگرچہ وہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو کیونکہ ایمان بذات ِ خود بہت بڑی کامیابی ہے جس کی برکت سے بہرحال جنت کا داخلہ ضرور حاصل ہوگا اگرچہ عذابِ نار کے بعد ہو۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآ ءٌ عَلَیۡہِمْ ءَاَنۡذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنۡذِرْہُمْ لَا یُؤْمِنُوۡنَ﴿۶﴾
ترجمۂ کنزالایمان:بیشک وہ جن کی قسمت میں کفر ہے انہیں برابر ہے چاہے تم انہیں ڈراؤیا نہ ڈراؤ وہ ایمان لانے کے نہیں۔
ترجمہ : بیشک وہ لوگ جن کی قسمت میں کفر ہے ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ،یہ ایمان نہیں لائیں گے۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآ ءٌ عَلَیۡہِمْ:بیشک وہ لوگ جن کی قسمت میں کفر ہے ان کے لئے برابر ہے ۔}چونکہ ٹھنڈک کی پہچان گرمی سے ، دن کی پہچان رات سے اور اچھائی کی پہچان برائی سے ہوتی ہے اسی لئے اہل ایمان کے بعدکافروں اور منافقوں کے افعال اور ان کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ ان کی پہچان بھی واضح ہوجائے اور آدمی کے سامنے تمام راہیں نمایاں ہوجائیں۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ لوگ جن کی قسمت میں کفر ہے جیسے ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ کفار،ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انہیں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مخالفت کرنے کے عذاب سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ،یہ کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو پہلے سے ہی معلوم ہے کہ یہ لوگ ایمان سے محروم ہیں۔(جلالین مع جمل،  البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۱/۲۰-۲۱)
کفر کی تعریف اورازلی کافروں کو تبلیغ کرنے کا حکم دینے کی وجہ:
یہاں دو باتیں ذہن نشین رکھیں :
(1)… ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار یا تحقیر و استہزاء کرنا کفر ہے اورضروریاتِ دین ، اسلام کے وہ احکام ہیں ،جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں ، جیسے اللہ  تعالیٰ کی وحدانیت، انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت، نماز، روزے ، حج ،جنت،دوزخ ، قیامت میں اُٹھایا جانا وغیرہا۔ عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو علماء کے طبقہ میں شمار نہ کئے جاتے ہوں مگر علماء کی صحبت میں بیٹھنے والے ہوں اورعلمی مسائل کا ذوق رکھتے ہوں ،اس سے وہ لوگ مراد نہیں جو دور دراز جنگلوں پہاڑوں میں رہنے والے ہوں جنہیں صحیح کلمہ پڑھنا بھی نہ آتا ہو کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اِس دینی ضروری کو غیرضروری نہ کردے گا، البتہ ایسے لوگوں کے مسلمان ہونے کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ ضروریاتِ دین کاانکار کرنے والے نہ ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے اور ان سب پر اجمالاً ایمان لائے ہوں۔(بہارِ شریعت، ۱/۱۷۲-۱۷۳، ملخصاً)
(2)… ایمان سے محروم کفار کے بارے میں معلوم ہونے کے باوجود انہیں تبلیغ کرنے کاحکم اس لئے دیاگیا تاکہ ان پر حجت پوری ہو جائے اور قیامت کے دن ان کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَمُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہِ حُجَّۃٌۢ بـَعْدَ الرُّسُلِ ؕ وَکَانَ اللہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵﴾‘‘ (النساء: ۱۶۵)
ترجمہ : (ہم نے )رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے (بھیجے)تاکہ رسولوں (کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر (باقی )نہ رہے اور اللہ  زبردست ہے،حکمت والا ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَلَوْ اَنَّـاۤ اَہۡلَکْنٰہُمۡ بِعَذَابٍ مِّنۡ قَبْلِہٖ لَقَالُوۡا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیۡنَا رَسُوۡلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنۡ قَبْلِ اَنۡ نَّذِلَّ وَنَخْزٰی ﴿۱۳۴﴾‘‘       (طہ: ۱۳۴)
ترجمہ : اور اگر ہم انہیں رسول کے آنے سے پہلے کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو ضرور کہتے: اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں کی پیروی کرتے؟
نیز انہیں تبلیغ کرنے سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہو اکہ وہ اگرچہ ایمان نہیں لائے لیکن حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو انہیں تبلیغ کرنے کا ثواب ضرور ملے گااور یہ بات ہر مبلغ کو پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا کام تبلیغ کرنااور رضائے الٰہی پانا ہے، لوگوں کو سیدھی راہ پر لاکر ہی چھوڑنا نہیں لہٰذا مبلغ نیکی کی دعوت دیتا رہے اور نتائج اللہ تعالیٰ کے حوالے کردے اور لوگوں کے نیکی کی دعوت قبول نہ کرنے سے مایوس ہونے کی بجائے ا س ثواب پر نظر رکھے جو نیکی کی دعوت دینے کی صورت میں اسے آخرت میں ملنے والاہے۔
خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمۡ ؕ وَعَلٰۤی اَبْصٰرِہِمْ غِشٰوَۃٌ ۫ وَّلَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ٪﴿۷﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر گھٹاٹوپ ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب۔
ترجمہ : اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہرلگادی ہے اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہواہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔
{خَتَمَ اللہُ: اللہ نے مہر لگادی۔} ارشاد فرمایا کہ ان کافروں کا ایمان سے محروم رہنے کاسبب یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے  ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے جس کی بناء پر یہ حق سمجھ سکتے ہیں نہ حق سن سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے نفع اٹھاسکتے ہیں اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہواہے جس کی وجہ سے یہ اللہ  تعالیٰ کی آیات اور اس کی وحدانیت کے دلائل دیکھ نہیں سکتے اور ان کے لئے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۱/۲۶)
بعض کافرایمان سے محروم کیوں رہے ؟ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ جو کافر ایمان سے محروم رہے ان پر ہدایت کی راہیں شروع سے بند نہ تھیں ورنہ تو وہ اس بات کا بہانہ بناسکتے تھے بلکہ اصل یہ ہے کہ ان کے کفرو عناد ، سرکشی و بے دینی ، حق کی مخالفت اور انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عداوت کے انجام کے طور پر ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگی اور آنکھوں پر پردے پڑگئے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص طبیب کی مخالفت کرے اور زہر ِقاتل کھا لے اور اس کے لیے دوا فائدہ مند نہ رہے اور طبیب کہہ دے کہ اب یہ تندرست نہیں ہوسکتا تو حقیقت میں اس حال تک پہنچانے میں اس آدمی کی اپنی کرتوتوں کا ہاتھ ہے نہ کہ طبیب کے کہنے کا لہٰذا وہ خود ہی ملامت کا مستحق ہے طبیب پر اعتراض نہیں کرسکتا۔ (دعاؤں کا طالب ڈاکٹڑ فیض احمد چشتی)
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ بِالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَمَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَۘ﴿۸﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ:اورکچھ لوگ کہتے ہیں۔  اس سے پہلی آیات میں مخلص ایمان والوں کا ذکر کیاگیا جن کا ظاہر و باطن درست اور سلامت تھا،پھر ان کافروں کا ذکر کیا گیا جو سرکشی اور عناد پر قائم تھے اور اب یہاں سے لے کرآیت نمبر20 تک منافقوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے جو کہ اندرونِ خانہ کافر تھے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی زبانوں سے اس طرح کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں کیونکہ ان کا ظاہر ان کے باطن کے خلاف ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ منافق ہیں۔
(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸، ۱/۵۱)
اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…جب تک دل میں تصدیق نہ ہو اس وقت تک ظاہری اعمال مؤمن ہونے کے لیے کافی نہیں۔
(2)… جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور کفر کا اعتقاد رکھتے ہیں سب منافقین ہیں۔
(3)… یہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے کھلے کافروں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔
{وَمِنَ النَّاسِ:اورکچھ لوگ۔}منافقوں کو ’’کچھ لوگ‘‘کہنے میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات اور انسانی کمالات سے ایسا عاری ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف و خوبی کے ساتھ نہیں کیا جاتابلکہ یوں کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ہیں۔ اسی لئے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو محض انسان یا صرف بشر کے لفظ سے ذکر کرنے میں ان کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے، لہٰذا اس سے اجتناب لازم ہے۔اگرآپ قرآن پاک مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صرف بشر کے لفظ سے ذکر کرنا کفار کاطریقہ ہے جبکہ مسلمان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ عظمت و شان سے کرتے ہیں۔
یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَمَا یَخْدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَمَا یَشْعُرُوۡنَؕ﴿۹﴾
ترجمۂ کنزالایمان:فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔

یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ: وہ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اسے کوئی دھوکا دے سکے، وہ تمام پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے ۔ یہاں مراد یہ ہے کہ منافقوں کے طرزِ عمل سے یوں لگتا ہے کہ وہ خدا کو فریب دینا چاہتے ہیں یا یہ کہ خدا کو فریب دینا یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں کیونکہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاللہ تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ ہیں اور انہیں دھوکہ دینے کی کوشش گویا خدا کو دھوکہ دینے کی طرح ہے لیکن چونکہ اللہ  تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو منافقین کے اندرونی کفر پر مطلع فرمایا تو یوں اِن  بے دینوں کا فریب نہ خدا پر چلے، نہ رسول پراور نہ مومنین پر بلکہ درحقیقت وہ اپنی جانوں کو فریب دے رہے ہیں اور یہ ایسے غافل ہیں کہ انہیں ا س چیز کا شعور ہی نہیں۔
ظاہر وباطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ظاہر وباطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے۔ یہ منافقت ایمان کے اندر ہوتو سب سے بدتر ہے اور اگر عمل میں ہو تو ایمان میں منافقت سے تو کم تر ہے لیکن فی نفسہ سخت خبیث ہے، جس آدمی کے قول و فعل اور ظاہر و باطن میں تضاد ہوگا تو لوگوں کی نظر میں وہ سخت قابلِ نفرت ہوگا۔ ایمان میں منافقت مخصوص لوگوں میں پائی جاتی ہے جبکہ عملی منافقت ہر سطح کے لوگوں میں پائی جاسکتی ہے۔ (دعاؤں کا طالب ڈاکٹڑ فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔