Pages

Friday, 9 September 2016

اہل مکہ کی طلب بارش کے لیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کے وسیلے کی دعا

اہل مکہ کی طلب بارش کے لیئے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کے وسیلے کی دعا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ابن سعد ، ابن ابی الدنیا ، بیہقی ، طبرانی ، ابونعیم اور ابن عساکر نے متعدد سندوں کے ساتھ مخزمہ بن نوفل سے انہوں نے اپنی والدہ رقیقہ سے جو کہ عبدالمطلب کی ہم عمر تھیں ، روایت کی کہ قریش کو مسلسل خشک سالی کا سامنا کرنا پرا جس کی بنا پربیچاروں کی ہڈیاں تک چٹخ گئیں۔ چنانچہ میں ایک روز سو رہی تھی (یا غنودگی کی حالت میں تھی) کہ دفعۃً ایک غیبی آواز سنی کہ:

"اے گروہ قریش ! وہ نبی جو تمہارے درمیان مبعوث ہونے والا ہے ۔ اس کے ظہور کا زمانہ قریب آگیا ہے تم لوگ بارش اور خوشحالی کےلیئے دعا کیوں نہیں مانگتے لہٰذا تم ایسے شخص کو مخصوص کرو جو حسب نسب میں بہتر اور جسامت میں عطیم، رنگ میں صاف وسفید اور جلد میں نازک لطیف ہو، اس کی پلکیں دراز وکثیر اور رخسار شاداب وحسین ہوں اور اس کی ناک سونتی ہوئی درمیان سے مرتفع ہو۔ اسے وہ فخرحاصل ہے کہ اس کے بیٹے، پوتے دعاؤں کے لیے مخصوص ہوجائیں اور تمام قبائل عرب سے ایک ایک فرد ان کے ساتھ آکر شریک ہو اور تمام افراد پانی سے غسل کریں۔ خوشبو ملیں رکن کعبہ کو بوسہ دیں ، سات مرتبہ طوافِ کعبہ کریں  پھر سب لوگ جبل ابوقبیس پر چڑھیں بعد ازاں وہ مذکورہ علامات کا حامل شخص اللہ تعالیٰ سے بارش کے لیئے التجا ودعا کرے باقی تمام لوگ آمین کہیں ۔ اس کے بعد تم لوگوں کو حسب ضرورت سیراب کیا جائے گا"۔

میں بیدار ہوئی تو صبح تھی اور میرا دل خوفزدہ اور اندام لرزاں ، دماغ چکرا رہا تھا، میں نے اپنے خواب کا ذکر کیا اور مکی خانوادوں میں آئی ، ہرشخص نے یہی کہا کہ جو علامات تم بیان کررہی ہو وہ سردار عبدالمطلب کے سوا کسی میں نہیں۔ پس اہل قریش اور دیگر قبیلوں میں سے ایک ایک فرد بہ طور نمائندہ مجتمع ہوکر عبدالمطلب کی خدمت میں آئے۔ غسل کیئے خوشبوئیں لگائیں ۔ استلام کے بعد طواف کیا ۔پھر جبل ابوالقبیس پر آئے ۔عبدالمطلب پہاڑ کی چوٹی پر پہلو میں کمسن پوتے یعنی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کرکھڑے ہوئے ۔ پھر عبدالمطلب نے ان الفاظ میں دعا کے لیئے لب کشائی کی۔

"الھم  ساد الخلۃ ۔۔۔۔الخ مریعا"۔ دعاکے بعد وہ ابھی لوٹے بھی نہیں تھے کہ آسمان ابرآلود ہوا۔ بارش ہونے لگی اور پوری وادی نالے بھر گئے۔ میں نے دو بوڑھے قریشیوں کو کہتے سنا ۔"اے عبدالمطلب ! اے ابوالبطحا یہ استجاب مبارک ہو کیونکہ اس کے سبب اہل بطحا میں زندگی کی لہر دوڑ گئی "۔ اس موقع پر رقیقہ نے حسب ذیل اشعار کہے:

"بشیبتہ،،،،،،،،۔ترجمہ یعنی شیبہ الحمدعبدالمطلب کے وسیلے سے اللہ نے ہمارے شہروں کو پانی بخشا جبکہ ہماری زندگیاں خشک سالی کے سبب تنگی میں تھیں"۔

"فجاءبالماء۔۔۔۔۔۔۔ترجمہ: تو موسلادھار بارش ہوئی جس سے دریا اور نالے بھر گئے۔چوپائے اور درخت زندہ ہوگئے۔"

"منامن،،،،،،،،ترجمہ: ہم سب کی سیرابی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ اس کے وسیلے سے ہے۔ جس کا نصیبہ برکت والا ہے اور وہ اس سے بہتر ہے جس کی بشارت ایک دن مضر نے دی تھی۔"

"مبارک۔۔۔۔۔ترجمہ:بابرکت ہے وہ نام جس کے وسیلے سے بادل کے ذریعے پانی مانگا گیا ۔ وہ ایسی ذات ہے جس کی ہمسر اور ہم مرتبہ ذات لوگوں میں کوئی نہیں۔" "(خصائص الکبریٰ ،جلد 1، صفحات 7۔631) دارالکتب العلمیہ بیروت)۔

نوٹ:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ابوطالب رضی اللہ عنہ کے ان کلمات کو پسند فرماتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:

"ایک بار مدینہ میں قحط پڑا۔ایک بّدو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوااور عرض گزار ہوا کہ یارسول اللہ! آپکی اُمت سخت تکلیف میں ہے،نہ بھوک کے ہاتھوں بچے بول پاتے ہیں، نہ ہی اونٹوں کی آواز نکلتی ہے۔پھر اُس نے چند اشعار پڑھے۔ اُن میں سے ایک یہ ہے۔

"ولیس لنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔الی الرُسل ۔۔۔" ترجمہ: ہم آپ کا در چھوڑ کر کہاں جائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی پناہ گاہ ہیں من جانب اللہ"۔
تب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شال مبارک جھاڑی اور اُٹھ کھڑے ہوئے ، اور منبر کو رونق بخشی، اور پھر دعا فرمائی "اے اللہ ! ہمیں بارش سے نواز دے" اور فوراً بارش شروع ہوگئی ، حدیث میں یہ بھی ذکر آیا ہے کہ ابوطالب رضی اللہ عنہ اگر حیات ہوتے، وہ بہت زیادہ خوش ہوتے۔ پھر سیدی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا کہ وہ ابوطالب رضی اللہ عنہ کے وہ اشعار سماعت فرمانا چاہتے ہیں۔تب سیدنا مولائے کائنات شیر خدا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفہامیہ تصدیق فرمائی کہ آیا یہ والے اشعار آپ کی مراد ہیں: یعنی
"وابیض یستسقی الغمام بوجہ۔۔۔۔۔ (مشہور اشعار عربی سکین دیکھیں) ترجمہ:

"آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ایسے حسین و جمیل ہیں کہ بادل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور سے پانی مانگتا ہے۔اور آپ یتیموں اور بیواؤں کی پناہ گاہ ہیں۔ "فھم عندہ۔۔۔۔۔۔" یعنی" ہلاک ہونے والے ہاشمیوں کی اولاد، آپ کے دامن میں پناہ تلاش کرتی ہے تو وہ لوگ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن میں نعمتوں اور برکتوں سے مستفید ہیں۔"
(حوالہ:فتح الباری شرح صحیح البخاری ، جز 2، صفحہ 575،طبع آلِ سعود، مسجد النبوی)

اسی کے تناظر میں سنیوں کے عظیم امام حضرت امام بدر الدین عینی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ حدیث لکھنے کے بعد یہ الفاظ درج کیئے کہ :(حوالہ:عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، جز 7،ص 54دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

"للہِ درُّ ابی طالبِِ لو کان حاضرًا لقرّت عینا" ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ساتھ میں یہ الفاظ بھی ادا فرماتے۔

یعنی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے محبوب افراد کا وسیلہ پیش کرنا اپنی حاجت کے لیئے کوئی شرک نہیں اور نہ ہی غیراللہ سے امداد ہے، بلکہ یہ اللہ کی طرف اپنی حاجت روائی کے لیئے نظرِ رحمت کے لیے کرنا عین صحابہ اور سلف کا عمل ہے جسکو آج نام نہاد سلفی (شرک ) کہتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔