شیخ امین ملتانی شاہ رکن عالم کالونی ملتان کے نظریات کا رد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شیخ امین ملتانی کے نظریات کا شرعی حکم
شیخ امین عبد الرحمن ،پیری ،مریدی کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہے ۔احباب کا ایک حلقہ رکھتا ہے ،عقائد اور نظریات کے حوالے سے مبہم ہے ،آج تک موثق اور باعتماد ذرائع کے ساتھ جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ درج ذیل ہیں
:(۱)اس کے بال خلاف سنت پیٹ تک ہیں ۔
(۲)کہتا ہے کہ میں براہِ راست رسول پاک علیہ السلام سے فیض حاصل کرتا ہوں ،اللہ تعالی نے سب کچھ سرکار علیہ السلام کودے رکھا ہے ،میں ان سے لے کر مخلوق کو دیتا ہوں ،اس لئے مجھے صحابیت کا شرف حاصل ہے ۔
(۳)کبھی یہ بھی کہتا ہے کہ بعض صحابہ کامل ہیں اور بعض صحابہ ناقص ہیں ....(نعوذباللہ من ذالک )۔
(۴)کبھی یہ کہتاہے کہ ساتویں صدی میں ادریس نامی بزرگ گزرے ہیں ،میں اس سے فیض لے کر مخلوق کو پہنچاتا ہوں ،اس لئے اپنے آپ کو ادریسیہ سلسلہ کی طرف منسوب کرتا ہے ۔
(۵)رمضان شریف میں دس رکعت تراویح پڑھتا ہے ،یہ دس رکعت بھی صرف سورۂ طارق اور سورۂ اعلیٰ میں دو ،دو ،تین ،تین آیات کر کے پوری کرتا ہے ۔
(۶)رمضان میں وتر جماعت سے نہیں پڑھتا ۔
(۷)سنن اور نوافل کے شیخ اور اس کے مریدین تارک ہیں (نیا آنے والا کوئی پڑھ لیتا ہے )بعض احباب (مثلاً مولانا عبد الماجد صاحب جو شاہ رکن عالم کالونی کے رہائشی ہیں ،ایک سال تک شیخ امین کی مجلس میں حاضر رہے ہیں )نے جب یہ سوال کیا کہ شیخ امین اور اس کے مریدین سنن اور نوافل کیوں نہیں پڑھتے ،تو اس کے مرید خاص احتشام صاحب نے جواب دیا کہ اللہ جل شانہ نے ان کو معاف کردی ہیں ،مولانا نے کہا: کہ شریعت نے یہ چیز تو کسی کو معاف نہیں کی ،حتی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ تک کو یہ چیز معاف نہ ہوئی ،آپ کو کیسے معاف ہوگئی ،تو احتشام صاحب نے کہا :کہ شریعت اور چیز ہے اور طریقت اور چیز ،اللہ جل شانہ نے شیخ کو الہام کیا ہے اور ان کو یہ سب چیز معاف کر دی ہیں ۔
(۸)اس کے اخص الخواص مریدین رمضان میں فجر کی اذان کے بعد بھی کھاتے پیتے رہتے ہیں ۔
(۹)اپنی تقاریر میں علماء سے متنفر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دین علماء اور کتابوں سے نہیں آئے گا ،بلکہ میری صحبت میں بیٹھنے سے آئے گا ۔
(۱۰)کبھی کہتا ہے کہ سارے فرقے حق ہیں ،شیعہ ،سنی ،بھائی بھائی ہیں ،اور کبھی سب کو گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ دیوبندی ،بریلوی ،اہلِ حدیث یہ بڑے خبیث ہیں ،ان سے بچ کر رہنا ،کبھی کہتا ہے کہ فلمیں دیکھو ،گانے سنو،جو کچھ بھی کرتے ہو،کرتے رہو،سب جنتی نہیں،کسی کو کچھ نہ کہاکرو۔
(۱۱) نعت خوانی کے دوران کبھی کھڑے ہو کر جھومتا ہے اور تالیاں بجاتاہے ،اور نعت خوانی کے دوران نعت خواں ’’صلی اللہ علیکم یا رسول اللہ وسلم علیکم یا حبیب اللہ ‘‘پڑھتے ہیں۔
(۱۲)لوگوں کی کوشش کے باوجود عقائد اور سلسلہ تصوف کے بارے میں وضاحت نہیں کرتا اور نہ ہی یہ بتاتا ہے کہ کس کا مرید ہے۔
(۱۳)سب سے بڑی کرامت یہ بتلاتا ہے کہ جو مجھ سے تعلق جوڑے گا اس کا کاروبار چمکے گا۔
(۱۴)کبھی مغرب کی نماز اتنی لیٹ کر دیتا ہے کہ عشاء کے وقت میں پڑھتا ہے اور کبھی عشاء کی نماز مغرب کے وقت ہی پڑھ لیتا ہے ،ایک مرتبہ عشاء کی نماز مغرب کے وقت میں ادا کی اور تین رکعت ادا کی ،بعض احباب نے ایک مرید سے سوال کیا کہ یہ تو عشاء کی نماز تھی ،تین رکعت کیوں ادا کی ؟تو مرید صاحب کہنے لگے کہ ہم سب سے تو غلطی ہو سکتی ہے ،لیکن شیخ صاحب سے غلطی نہیں ہو سکتی ، اس لئے انہوں نے چارہی پڑھائی ہیں اگرچہ ہمیں تین کا پتہ چلا ۔
(۱۵)نماز جماعت سے پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتا،ایک مرتبہ ایک صاحب ان کے مرید کے ساتھ شیخ امین کی مجلس میں گئے ،عصر کا وقت تھا ،سب مریدین شیخ کے آنے کا انتظار کرتے رہے ،جب آخر وقت تک نہ آئے تو مریدین نے اپنی اپنی نماز پڑھ لی ،مغرب کے وقت میں اعلان ہوا کہ عصر کی نماز شیخ مدینہ منورہ میں پڑھانے گئے تھے ،اب واپس تشریف لے آئے ہیں ۔لہذا مغرب کی نماز خود پڑھائیں گے ۔
(۱۶)گذشتہ دنوں کچھ عرصہ پہلے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے یہودی کے جل کر مرجانے کی خوشی میں شیخ نے تین دن کے جشن کا اعلان کیا ،اور مریدین کو شرکت کی دعوت دی ،یہ جشن محلے کے پلاٹ میں منعقد ہوا۔جس میں ڈھول ڈھمکا،جھانجر،آتش بازی ،نمائش کے لئے پنجرے میں شیر ،ناچنے کے لئے گھوڑے منگوائے گئے ۔مریدین نے اس جشن میں تین دن ڈانس کر کے (حتی کہ بعض مریدین نے تو گھونگرو بھی پہن رکھے تھے)خوب خوشی کا اظہار کیا ۔(۱۷)چوتھے دن شیخ نے ایک دن کی مزید اجازت دی ،جس میں مریدین کو شیخ امین صاحب کے کتے بن کر بھونکنے کے لئے کہا گیا ،چنانچہ چوتھے دن شیخ امین کے مریدین نے مائیک ہاتھ میں لے کر صرف یہی کہتے رہے ،شیخ امین کے کتے بھاؤں ،بھاؤں (یعنی کتے کی آواز)۔
(۱۸)یہ بھی ذہن میں رہے کہ شیخ امین ایک عرصہ مدینہ منورہ میں رہے ہیں ،بعض بدعات کی بناء پر حکومت نے ان کا خروج کر دیا ۔یہ وہ معلومات ہیں جو ان علماء سے لی گئی ہیں ،جو معلومات حاصل کرنے کے لئے شیخ امین کی مجلس میں حاضر ہوتے رہے ،عوامی باتوں پر اعتماد نہیں کیا گیا ،یہ سب احوال گزارش کرنے کے بعد حضرات علماء سے دریافت یہ کرنا ہے کہ :
(۱)شیخ کی صفات کیا ہیں کہ شیخ کیسا ہونا چاہئے ؟(۲)کیا مذکورہ احوال کی روشنی میں امین عبد الرحمن میں شیخ بننے کی اہلیت ہے۔(۳)شیخ امین عبد الرحمن کی بیعت کرنے کا کیا حکم ہے ؟
--------------------------------------------------------
جواب : شیخ امین ملتانی کے مذکورہ نظریات تقریبا تمام افعال غیر شرعی اور من گھرٹ نفس پروری اور شیطان پرستی پر مشتمل ہیں اور ان میں بعض اقوال وافعال عقائدگمراہیہ و کفریہ پر مشتمل ہیں ۔ایسے افعال و اقوال کا حامل شخص ہرگز ہرگزپیر بننے کے قابل نہیں ہے ۔اس لئے کہ پیر بننے کے لئے شریعت مطہرہ کی چند شرائط ہیں اگر وہ شرائط پائی جائیں تو شرعاً اس کا پیر بننااور اس سے بیعت ہو نا جائز اگرچہ کوئی کرامت ظاہر نہ ہوئی ہو کہ کرامت سے استقامت بہتر ہے اور اگر ان شرائط میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو پھر ان سے بیعت ہوناجائز نہیں اگرچہ کئی کرامات ظاہر ہو چکی ہوں کہ درحقیقت وہ کرامات نہیں بلکہ استدراج یعنی دھوکا ہے ۔
ان شرائط کے بارے میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں کہ’’ پیر چار شرطوں کا جامع ہو(۱) سنی صحیح العقیدہ (۲)صاحب سلسلہ( اس پیر صاحب کا سلسلہ خلافت حضور ﷺ تک پہنچتا ہو)۔ (۳) غیر فاسق معلن(شریعت کے فرائض وواجبات کا پابند ہو اور حرام اور مکروہ تحریمی سے بچتا ہو )۔(۴) اتنا علم دین رکھنے والا کہ اپنی ضروریات کا حکم کتاب سے نکال سکے ۔ جہا ں ان شرطوں میں سے کوئی شرط کم ہو بیعت جائز نہیں‘‘۔ [فتاوی رضویہ ،ج:۲۶. ص: ۵۶۶، رضافاؤنڈیشن لاہور ]۔
صدرالشریعہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ’’ پیر ی کے لئے چار شرطیں ہیں قبل از بیعت ان کا لحاظ فرض ہے اول سنی صحیح العقیدہ ہو، دوم اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضرورت کے مسائل کتابوں سے نکال سکے، سوم فاسق معلن نہ ہو، چہارم اس کا سلسلہ نبی ﷺ تک متصل ہو ‘‘۔ [ بہارشریعت ،حصہ: اول ،ص: ۷۹ مکتبہ رضویہ ]۔
اگر مذکورہ شرائط کی روشنی میں شیخ امین کے سوال میں مذکور افعال واقوال کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جا تا ہے کہ یہ واقع میں پیر بننے کے قابل نہیں ۔مثلاً : سوال میں مذکور پہلی بات ہی شریعت کے خلاف ہے کہ ’’اس کے بال خلاف سنت پیٹ تک ہیں‘‘۔حالانکہ شریعت مطہرہ نے زلفیں رکھنے کا استحبابی حکم فرمایا ہے اور اس کی حد بھی مقرر فرمائی ہے کہ بال اتنے بڑے ہوں کہ کانوں کی لو تک پہنچ جائیں اگر اس سے بڑے ہوں تو گردن تک لٹکے ہوں اور اگر اس سے بھی بڑے ہوں تو اتنے ہوں کہ کندھوں کو چھو جائیں اگر اس سے بڑے ہوئے جس طرح عورتوں کے بال ہوتے ہیں تو یہ حرام ہے ۔
امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن بڑے بال رکھنے والے کے بارے میں فرماتے ہیں ’’(بال) نصف کان سے کندھوں تک بڑھانا شرعاً جائز اور اس سے زیادہ بڑھانا مرد کو حرام ہے ،خواہ فقرا ہوں خواہ دنیادار احکامِ شرع سب پر یکساں ہیں ،زیادہ میں عورتوں سے تشبہ ہے اور صحیح حدیث میں لعنت فرمائی ہے اس مرد پر جو عورت کی وضع بنائے اور اس عورت پر جو مرد کی وضع بنائے اگرچہ وضع بنانا ایک ہی بات میں ہو ،جو لوگ چوٹی گندھواتے ہیں جوڑا باندھتے یا کمر یا سینہ کے قریب تک بال بڑھاتے ہیں وہ شرعاً فاسق معلن ہیں اور فاسق معلن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے یعنی پھیرنا واجب اگرچہ پڑھے ہوئے دس برس گزر گئے ہوں اور یہ خیال کہ باطن صاحب ہونا چاہئے ظاہر کیسا ہی ہو محض باطل ہے ، حدیث میں فرمایااس کا دل ٹھیک ہوتا تو ظاہر آپ ٹھیک ہو جاتا ‘‘۔[فتاوی رضویہ ،ج:۲۲،ص:۶۰۵،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔
شیخ امین کا یہ کہنا کہ’’ مجھے صحابیت کا شرف حاصل ہے ‘‘محض باطل اس لئے کہ محدثین وفقہاء کرام نے صحابی کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ ’’جس نے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا زمانہ پایا اور آپ ﷺ کی مجلس میں ایمان کی حالت میں جسمانی طور پر حاضر ہوا وہ صحابی ہے‘‘۔چنانچہ شرح نخبۃا لفکر میں ہے ’’ھو من لقی النبی علیہ الصلاۃ والسلام ،مؤمناً بہ ومات علی الاسلام ‘‘یعنی،’’ صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے ملاقات کی ہو۔اوراس کا خاتمہ بھی اسلام پر ہوا ہو ‘‘۔[شرح نخبۃ الفکر علی شرح شرح نخبۃ الفکر ،تعریف الصحابی ،ص:۵۷۵،مکتبہ قدیمی کراچی]۔
اور آج حضور اکرم ﷺ کو اس دنیا سے پردہ فرمائے ہوئے چودہ سو سے زائد سال گزرگئے ہیں ۔فقہاء کرام نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص حضور ﷺکی وفات کے سو سال بعد دعوی کرتا ہے کہ میں صحابی ہوں تو اس کا دعوی قبول نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جوآج روئے زمین پر ہے ایک سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا اور اسی سال آپ کا وصال ہوا ۔
شرح نخبۃا لفکر کی شرح میں ہے ’’ لو ادعا ہ بعد مضی مءۃ سنۃ من حین وفاتہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ،فانہ لایقبل ......لقولہ ﷺ فی الحدیث الصحیح :’’ أرأیتکم لیلتکم ھذہ ؟ فانہ علی رأس مءۃ سنۃ لایبقی احد ممن علی ظہر الارض ‘‘یرید انخرام ذلک القرن قال ذلک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی سنۃ وفاتہ ۔قالوا وھوواضح جلی‘‘یعنی،’’اگر کوئی شخص حضور ﷺ کی وفات سے ایک سو سال کے بعد اپنے صحابی ہونے کا دعوی کرتا ہے تو اس کا یہ دعوی قبول نہیں کیا جائے گا ....اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حدیث صحیح میں ہے (جو کہ بخاری شریف میں ہے) ’’کیا تم دیکھتے ہو اپنی اس رات میں جو کچھ موجود ہے؟بے شک ایک سو سال بعدان میں سے روئے زمین پر کوئی ایک بھی باقی نہیں رہے گا ‘‘۔اس سے آپ کی مراد اس قرن (صدی) کا ختم ہونا ہے ۔یہ اسی سال آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جس سال آپ نے وفات پائی ۔علماء نے فرمایا یہ واضح اور ظاہر ہے ‘‘۔[شرح نخبۃ الفکر علی شرح شرح نخبۃ الفکر ،تعریف الصحابی ، ص:۵۹۲، مکتبہ قدیمی کراچی]۔
ہمارایہ عقیدہ ہے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنی قبر انور میں زندہ ہیں اس کے باوجود بھی اگر آپ ﷺ کسی کو زیارت کا شرف بخشیں اگرچہ بحالت بیداری ہی ہوتو بھی وہ صحابی نہیں ہو سکتا ۔
اور شیخ امین کا بعض صحابہ کو ناقص کہنا اس کے اپنے ایمان کے ناقص ہونے کی دلیل ہے اس لئے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کے لئے فرمایا’’رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ ‘‘یعنی ،’’اللہ تعالی صحابہ سے راضی ہے اور صحابہ اللہ تعالی سے راضی ہیں‘‘۔[البینہ ،آیت: ۸]۔جس سے اللہ تعالی راضی ہو اس کو ناقص کہناصحابہ کرام کے ساتھ عدوات اور دشمنی ہے اور ایسا شخص زندیق ہے ۔
فتح المغیث میں امام ابوزرعہ رازی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ’’ اذارایت الرجل ینقص احد امن اصحاب رسول اللہ ﷺ فاعلم انہ زندیق ،وذلک ان الرسول حق ،والقرآن حق ،وماجاء بہ حق ،انما ادی الینا ذلک کلہ الصحابۃ ،وھؤلاء یریدون ان یجرحواشھودنا لیبطلوا لکتاب والسنۃ والجرح بھم اولیٰ وھم زنادقۃ‘‘۔یعنی،’’جب تو کسی مرد کودیکھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک کے عیب بیان کرتا ہے پس جان لے وہ زندیق ہے اور یہ اس لئے ہے کہ رسول ﷺ حق ہیں اور قرآن حق ہے اور جو کچھ حضور اکر م ﷺ لے کر آئے ہیں وہ بھی حق ہے یہ تمام باتیں ہم تک صحابہ نے پہنچائی ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ گواہوں میں عیب ڈھونڈیں تاکہ قرآن وحدیث باطل ہو جائیں،صحابہ کو عیب دار کرنا بہت بڑا گناہ ہے اورایساکہنے والے زندیق ہیں ‘‘۔[معرفۃ الصحابہ ،ج:۴،ص:۹۴،مکتبہ دار الامام الطبری]۔
شیخ امین کا رمضان المبارک میں دس رکعت تراویح پڑھنا اور وہ بھی سورۂ طارق اور سورۂ اعلیٰ میں دو ،دو ،تین ،تین آیات کر کے پوری کرنا ۔اس کی نفس پروری اور گمراہیت کی دلیل ہے اس لئے کہ دس تروایح کا کوئی بھی قائل نہیں اور کچھ لوگ ہیں بھی تو وہ آٹھ کے قائل ہیں ان کے پاس بھی قرآن وحدیث سے کوئی دلیل موجود نہیں وہ بھی اپنے من کو راضی کرنے کے لئے آٹھ تراویح کاواویلا کرتے ہیں جب چاہتے ہیں اپنے پاس سے دلیل گھڑ لیتے ہیں اس طرح وہ ایک سنت مؤکدہ کے تارک ہو جاتے ہیں اس لئے کہ سنت مؤکدہ بیس تروایح ہیں اس سے کم پڑھنے والے سنت کے تارک اور گناہ گار ہیں ۔
شیخ امین اور اس کے مریدین کا سنن مؤکدہ کوہمیشہ چھوڑ دینااور سوال کرنے پر مریدین کا یہ کہنا کہ اللہ جل شانہ نے ان کو معاف کر دئے ہیں ۔انتہائی جہالت اور اندھی عقیدت ہے اور یہ شیخ اور اس کے مریدین شیطان کے بندے ہو چکے ہیں ان کو شیطان ہی نے الہام کیا کہ آپ کوسنن مؤکدہ معاف ہیں اس لئے کہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ’’ اللہ تعالی تو فرمایاہے:( فرائض کی ادائیگی کے بعد)بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی میں وہ میرے قریب ہو جاتا ہے تو میں اس سے محبت کرتا ہوں حتی کہ جب وہ کثرت نوافل سے میرا قرب حاصل کر لیتا ہے تو میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔اللہ تعالی اپنا قرب حاصل کرنے والوں کو حکم دے کہ تم نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرو اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سنن مؤکدہ اور نوافل کے بارے میں اللہ تعالی نے شیخ امین کو الہام کیا ہو کہ یہ تمہیں اور تمہارے مریدوں کو معاف ہیں جب یہ نہیں تو یقیناًیہ الہام رحمانی نہیں بلکہ یہ الہام شیطانی ہے اور شیطان ہی نے اپنا قرب دلانے کے لئے اس کو الہا م کیا ہوگا ۔
شیخ امین کے خاص مریدکا یہ کہنا کہ’’ شریعت اور چیز ہے اور طریقت اور چیز ہے ‘‘ یہ ان کی بدزبانی اور گمراہی اور اس کا پاگل پن ہے ۔ الفتاوی الحدیثہ میں ہے ’’ الطریقۃ مشتملۃ علی منازل السالکین وتسمی مقامات الیقین ،والحقیقۃ موافقۃ للشریعۃ فی جمیع علمھا وعملھا ،اصولھاوفروعھا وفرضھا ومندوبھا ،لیس بینھا مخالفۃ اصلاً‘‘یعنی،’’ طریقت سالکین کی منازل پر مشتمل ہے اس کانام یقین کا مقام ہے اورحقیقت تمام چیزوں میں شریعت کے موافق ہے ،علم میں ،عمل میں اصل اور فرع میں اور فرض ومستحب میں اور ان دونوں کے درمیان اصلاً کوئی اختلاف نہیں ‘‘۔[الفتاوی الحدیثیۃ،مطلب :فی الفرق بین الحقیقۃ والشریعۃ،ص:۴۰۹،مکتبہ قدیمی کراچی]۔
امام اہلسنت اما م احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن اس سے ملتے جلتے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں’’شریعت ،طریقت ،حقیقت ،معرفت میں باہم اصلاً کوئی تخالف نہیں اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تو نرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ بددین ‘‘۔[فتاوی رضویہ ،ج:۲۱،ص:۴۶۰،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔مزید فرماتے ہیں ’’ شریعت کے سواسب راہوں کو قرآن مجید باطل و مردود فرماچکا ۔لاجرم ضرور ہوا کہ طریقت ہی شریعت ہے کہ اسی راہ روشن کا ٹکڑا ہے اس کا اس سے جدا ہونا محال وناسزا ہے جو اسے شریعت سے جدا جانتا ہے اسے راہِ خدا سے توڑ کر راہ ابلیس مانتا ہے مگر حاشاطریقت حقہ راہِ ابلیس نہیں، قطعاً راہِ خدا ہے تو یقیناًوہ شریعتِ مطہرہ ہی کا ٹکڑا ہے ‘‘۔[فتاوی رضویہ ،ج:۲۱،ص:۵۲۴،رضافاؤنڈیشن لاہور]۔
اور رمضان المبارک کے ایام میں سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد روزہ رکھنے والے شیخ امین کے خاص مریدوں کا کھاتے پیتے رہنا بھی جائز نہیں اور اس طرح وہ تارک الصوم ہوئے ۔ شریعت مطہرہ کا حکم سب مسلمانوں کے لئے ایک ہی ہے چاہئے وہ کسی شیخ کے خاص مرید ہوں یا عام مرید ہوں اور ایسی باتیں شیخ امین اور اس کے مریدوں سے کوئی بعید نہیں جو دس رکعت تراویح اپنے نفس کو راضی کرنے اور شیطان کا قرب حاصل کرنے کے لئے نکال کر سکتے ہیں اور سنن مؤکدہ شیطانی الہام کے ذریعے معافی کا بھی اعلان کر سکتے ہیں وہ روزے کا وقت اپنا مقرر کریں تو ان پر تعجب کرنا خود عجیب ہے ۔
شیخ امین کا اپنی تقاریر میں علماء دین سے متنفر کرنا اور اپنی صحبت میں بیٹھنے کے لئے کہنا کہ دین علماء اور کتابوں سے نہیں آئے گا بلکہ میری صحبت میں بیٹھنے سے آئے گا ۔اس کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے کہ عالم دین سنی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے وہ حضور اکرم ﷺ کا نائب ہے اس سے متنفر کرنا اللہ تعالی اور اس کے رسول سے متنفر کرنا ہے اور یہ حرام ہے۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا’’ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُون‘‘ترجمہ کنز الایمان:’’ پس تم فرماؤکیا برابر ہیں جاننے والے(علماء) اور انجان (جاہل)‘‘۔[سورۃ الزمر ،آیت:۳۹]۔ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے ۔’’ سَلَامٌ عَلَیْْکُمْ لَا نَبْتَغِیْ الْجَاہِلِیْن‘‘ترجمہ کنزالایمان،’’ بس تم پر سلام ہم جاہلوں کے غرضی(چاہنے والے )نہیں‘‘۔[سورۃ القصص،آیت:۵۵]۔
حدیث پاک میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ثلثۃ لایستخف بحقھم الامنافق بین النفاق ذوالشیبۃ فی الاسلام وذوالعلم والامام المقسط ‘‘یعنی،’’ تین شخصو ں کے حق کو ہلکانہ جانے کا مگر کھلا منافق (۱)وہ جسے اسلام میں بڑھاپا آیا ،(۲)صاحب علم یعنی عالم دین ،(۳)بادشاہ اسلام عادل ‘‘۔ [کنزالعمال بحوالہ ابی الشیخ فی التوبیخ حدیث: ۴۳۸۱۱،مطبوعہ بیرورت]۔
مذکورہ آیات میں تو اللہ تعالی عام اعلان فرمارہا ہے کہ علماء اور جہلا برابر نہیں ہوسکتے اور دوسری آیت میں تو بالکل واضح فرمادیا کہ ہم جاہلوں کے چاہنے والے نہیں ۔اور شیخ امین لوگوں کو علماء سے متنفر کر کے اپنے گرد لوگوں کا جمگھٹالگانا چاہتا ہے خدا نہ کرے خدانہ کرے اگر یہ چندلوگوں کو بھی علماء سے متنفر کرنے میں کامیاب ہو گیا تو ان کو بھی اپنی شیطانی شریعت کی تعلیم دے گا جس پر وہ خود عمل کرتا ہے۔جس کے ذکر کرنے کی حاجت نہیں وہ سوال سے ظاہر ہے۔
اور شیخ امین کا کبھی یہ کہنا سب فرقے حق ہیں جو مرضی کریں سب جنتی ہیں کسی کو کچھ نہ کہواور کبھی سب کو گالیاں دینا کہ یہ بڑے خبیث ہیں ۔ ایسا کہنے والا گمراہ بے دین ہے ۔
حضور ﷺ نے فرمایا ’’وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول اﷲقال ما انا علیہ واصحابی رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داوٗد عن معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ ‘‘۔یعنی،’’ بے شک بنی اسرائیل کے بہتر۷۲ فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہوجا ئیں گے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ وہ ناجی فرقہ کون ہے ،ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو‘‘۔ [مشکوٰۃ المصابیح،ص:۳۰، قدیمی کتب خانہ]۔
دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا ا ورفرمایا جواس سے الگ ہوا جہنم میں الگ ہوا ، الفاظ حدیث یوں ہیں:’’اتبعواالسوادالاعظم فانہ من شذ شذ فی النار‘‘ رواہ ابن ماجہ‘‘۔[ مشکوٰۃ المصابیح،ص:۳۰، قدیمی کتب خانہ]۔
شیخ امین کا سب فرقوں کو ایک لائن میں رکھنا اور شیطان کو راضی کرنے کے لئے سب کو جنتی کہنا درست نہیں بلکہ حضور اکر م صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہے ۔کہ تمام فرقے جنتی نہیں صرف اور صرف ایک فرقہ اہل سنت وجماعت ہی حق پرہے اور یہی ایک جماعت جنتی ہے ۔
اور شیخ امین کا لوگوں کو فلمیں دیکھنے اور گانے سننے کی ترغیب دلانا حرام اور منافقین کا طریقہ ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان عالی شان ہے ’’الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُہُم مِّن بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمُنکَرِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَیَقْبِضُونَ أَیْْدِیَہُمْ نَسُواْ اللّہَ فَنَسِیَہُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ ہُمُ الْفَاسِقُون‘‘ ترجمہ کنز الایمان :’’منافق مرد اور منافق عورتیں ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں برائی کا حکم دیں اور بھلائی سے منع کریں اور اپنی مٹھی بندرکھیں وہ اللہ کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ نے انہیں چھوڑدیا بے شک منافق وہی پکے بے حکم ہیں‘‘۔[التوبہ ،آیت :۶۷]۔ایک اورمقام پر اللہ تعالی کا فرمان عالی شان ہے’’وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَہَا ہُزُواً أُولَءِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ‘‘ترجمہ کنز الایمان :اورکچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکادیں اوراسے ہنسی بنالیں ان کے لئے ذلت کاعذاب ہے‘‘۔[لقمان:۶]۔
شیخ امین کا نعت خوانی کے دوران تالیاں بجانانعت خوانی کے آداب کے خلاف ہے ۔
شیخ امین کااپنی سب سے بڑی کرامت یہ بتانا کہ جو مجھ سے تعلق جوڑے گا اس کا کاروبار چمکے گاباطل محض ہے۔اصل کرامت تو دین پر استقامت ہے جو شخص دین متین پر عمل نہیں کرتا وہ فاسق معلن ہے یعنی اعلانیہ گناہ کرتا ہے جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے اس سے کرامت کا ظہور کیا ہوگا بلکہ حقیقت میں یہ کرامت نہیں استدراج یعنی اللہ تعالی کی طر ف ڈھیل ہے ۔اب دنیا میں گہری نظر ڈالیں تو سب سے زیاد ہ مال ان لوگوں کے پاس ہے جو اللہ تعالی کے نافرمان ہیں مثلاً یہودی عیسائی کہ یہودی پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لانے کے خواب دیکھ رہے ہیں تو معلوم ہوا شیخ امین سے تعلق جوڑنے سے کاروبار کا چمکنا کو ئی کرامت نہیں ہے ۔کرامت تو یہ ہوتی ہے جوغوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:جو میرا مرید ہوجائے اس کو کوئی خوف نہیں ۔اور میرا کوئی مرید دنیا سے توبہ کیے بغیر نہیں مرے گا ،وغیرہ یہ ہیں کرامات ۔
شیخ امین کا بلاعذر شرعی مغرب کی نماز کو اتنا لیٹ کردینا کہ عشاء کا وقت ہو جائے یعنی مغر ب کی نمازقضاء کردیناحرام ہے کیونکہ اللہ تعالی نے مؤمنین کو ایک مقررہ وقت میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے ’’ ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتباًموقوتا‘‘ترجمہ کنز الایمان : بے شک نماز مسلمان پر وقت باندھا ہوا فرض ہے‘‘۔ [النساء؛آیت ۱۰۳] ۔ اور بلا وجہ شرعی وقت گزار کرنماز پڑھنے کی قرآن کریم میں سخت وعید آئی ہے۔ چنانچہ فرمانِ الہی ہے ’’ فویل للمصلین الذین ھم عن صلا تھم ساھون‘‘ ترجمہ کنزالایمان :تو ان نمازیوں کی خرابی ہے جو اپنی نماز بھولے بیٹھے ہیں ‘‘۔[الماعون؛آیت۴ -۵]۔امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں ’’جو ایک وقت کی نماز بھی قصداً بلاعذر شرعی دیدہ ودانسۃ قضا کرے‘ فاسق ومرتکبِ کبیرہ و مستحقِ جہنم ہے ‘‘۔[فتاوی رضویہ :ج:۵، ص:۱۱۰، رضافاؤنڈیشن لاہور]۔
اور رہی دوسری بات کبھی عشاء کی نماز کو مغرب کے وقت میں پڑھنا کسی طرح بھی جائز نہیں چلو مغرب کی نماز قضاء سہی پھر پڑھ لینے کی وجہ سے ادا تو ہو گئی اگرچہ ایسا کرنا حرام ہے ۔اور عشاء کی نماز مغرب میں پڑھنا اور وہ بھی تین رکعت اور پھر مریدوں کا یہ کہنا کہ’’ ہم سے غلطی ہو سکتی ہے شیخ امین سے نہیں انہوں نے چار ہی پڑھائی ہیں اگرچہ ہمیں تین کا پتہ ہے‘‘یہ ان کا اندھا اعتقادہے اور اس طرح شیخ امین کے مرید گمراہی کے گڑھے میں پڑچکے ہیں مغرب کے وقت میں عشاء پڑھنے سے فرض بھی ادا نہیں ہو گا وہ سر پر باقی رہے گا ۔کیونکہ پیچھے گزرا کہ اللہ تعالی نے نماز کا وقت مقرر فرمایا ہے ابھی عشاء کا وقت آیا ہی نہیں تو وہ کس طرح ادا ہو گی ۔
شیخ امین نے عصر کی نماز چھوڑدی اور مریدوں کا یہ دعوی کہ مدینہ منورہ نماز پڑھانے گئے تھے ۔جھوٹا اور من گھڑت اور لوگوں کو بیوقوف بنانے کے علاوہ کچھ نہیں یہ نماز تو مدینہ میں پڑھنے کا دعوی کرتے ہیں اور جب کھانے کا وقت آتا ہے تو اپنے شہر کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں کیا مدینہ منورہ کے کھانے سے بڑھ کر کہیں کا کھانا ہو سکتا ہے ۔پھر کیوں نہیں وہیں کا کھانا کھاتے ہیں۔
اس کے سوال میں مذکور افعال اس بات کی گواہی ہیں کہ یہ کوئی ولی اللہ نہیں بلکہ یہ ولی الشیطان ہے جو اپنی من کوراضی کرنے کے لئے نمازوں کے اوقات میں تبدیلی کرتا اور نماز معاف کراتا رہتا ہے اورمدینہ منورہ میں نماز کا ڈھونگ کرنالوگوں کواپنی گمراہی کے جال میں پھنسانے کا طریقہ ہے کہ لوگوں میں واہ واہ ہو ۔لہذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسے آدمی سے دور رہیں اور اس کو اپنے سے دور رکھیں۔
گستاخ رسول کی موت پر خوش ہونا مسلمان کے لئے ایک فطری بات ہے لیکن خوشی کا اظہار اس انداز میں کرنا جس میں اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی صریح نافرمانی ہومثلاً ڈھول ڈھمکا ،جھانجر ،آتش بازی ،نمائش کے لئے پنجرے میں شیر ،ناچنے کے لئے گھوڑے منگوائے گئے اور شیخ امین کے مریدوں کا گھونگرو پہن کرڈانس کرناحرام در حرام اورسر اسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور دنیا کے سامنے اسلام کا چہر ہ بگاڑکر پیش کرنا ہے ۔گویا شیخ امین نے گستاخ رسول کے مرنے کی خوشی میں محرمات کا میلہ لگایا جو کسی طرح بھی جائز نہیں۔
اور اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات یعنی اپنی تمام مخلوق سے افضل واعلی اور صاحب عزت وشرف والا پیدا فرمایا ہے ۔اور کتا ذلیل جانور ہے پھر انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ جانوروں کی حرکات اور آوازیں اپنائے ۔ اس میں انسانیت کی توہین ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیخ امین کانماز ،روزہ اور دیگر فرائض شرعیہ کو ادا نہ کرنا یا ان کی ادائیگی میں سستی کرنا اور صحابہ کرام کی (نعوذ باللہ)تنقیص کرنااوراپنے مریدوں کو فلمیں دیکھنے ، ناچ گانے سننے اور دیگر فواحش کی اجازت دینا اور ان کا خود بھی مرتکب ہونا اس طرح کے تمام افعال حرام بلکہ اشد حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں اور یہ فاسق معلن ، بے دین ،گمراہ اور گمراہی پھیلانے والا ہرگز ہرگز پیر بننے کے قابل نہیں اور اس سے بیعت ہونا حرام لوگوں پر لازم ہے کہ فوراً فوراً اس سے دور ہوجائیں اور جتنے لوگ اس سے بیعت ہو چکے ہیں ان پر لازم ہے کہ فوراً اپنے آپ کو اس کی گمراہی سے بچائیں اور مقتدر شخصیات پر لازم ہے کہ اس فتنہ کا سد باب کریں تاکہ لوگ اس فتنہ سے بچ سکیں ۔واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم ۔
Monday, 19 September 2016
شیخ امین ملتانی شاہ رکن عالم کالونی ملتان کے نظریات کا رد
Posted by
Unknown
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔