Pages

Sunday 25 September 2016

دیوبندیوں اور وھابیوں کے اکابرین کےلیئے علم غیب حاصل مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کےلیئے شرک آخر یہ دھرا معیار کیوں ؟

دیوبندیوں اور وھابیوں کے اکابرین کےلیئے علم غیب حاصل مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کےلیئے شرک آخر یہ دھرا معیار کیوں ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دیوبندی، وہابی علماء نے اپنے اکابرین کے علم غیب کو ثابت کرنے کے لئے بھر پور کوشش کی ہے، اور انبیاء و اولیاء کے تعلق سے علم غیب کا انکار کیا ہے، جو انبیاء و اولیاء کو علم غیب مانے وہ مشرک ہے، یہ بات انتہائی ناقابل فہم ہے کہ ان ظالموں نے اپنے نبی برحق غیب داں پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی ذات والا صفات کو تنقید و تنقیص کا ہدف بنایا جب کہ سچ تو یہ ہے کہ بغیر حبّ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم دین و اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی ذات و صفات کو ہر عیب و نقص سے صاف و شفاف تسلیم کرنے والا ہی مومن ہوگا،
اے وہابیوں دیوبندیوں : تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟
تم نے لکھنے سے پہلے اپنے دماغ کا علاج کیوں نہ کیا، گندے اور غلیظ لوگوں کے مراتب اور درجات اس قدر بڑھا دئیے اور وہاں ذات گرامی جو کائنات میں سب سے معظم اور محترم ہے، جس کے ذکر کو رب نے اپنا ذکر فرمایا، جس کی اطاعت کو اللہ تعالٰی نے اپنی اطاعت فرمائ جو شافع یوم النشور ہیں، مالک کل کائنات ہیں، تاجدارِ دو عالم ہیں، جب جب موذن صدائے توحید بلند کرے گا اللہ کی کبریائی کے ساتھ رسول کی رسالت کا ذکر ہوگا، ان کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کر کے رسول دشمنی مول لینے والو!!
کچھ تو سوچا ہوتا تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ ہی کیا ہوتا، کیا تم نے نہیں پڑھا کہ جنگ بدر میں آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم رات ہی میں چند جاں نثاروں کے ہمراہ میدان جنگ کا معائنہ کرنے کے بعد اپنی مبارک چھڑی سے زمین پر لکیر بناتے ہوئے ارشاد فرمایا، کہ یہاں فلاں کافر قتل ہوگا یہاں کافر قتل ہوگا، یہاں ابوجہل کی لاش تڑپے گی، یہاں عتبہ ہلاک ہوگا، یہاں شیبہ کو ہی اپنے خون میں نہانا ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا آپ نے جن جن جگہوں پر جس جس کافر کی قتل گاہ بتائ اس کافر کی لاش اسی جگہ پائی گئی_
ان میں سے کسی کافر نے بال برابر بھی تجاوز نہ کیا، رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے مرنے والے کافر اور اس کی قتل گاہ سے میدان جنگ میں جو خبر دی، کیا وہابیوں کے پیشواؤں کو اس سے انکار ہے؟؟
اگر انکار نہیں ہے تو پھر علم مصطفٰے پر تنقیص و توہین کس لئے کیا جارہا ہے،

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

کرے مصطفٰی کی اہانتیں کھے بندوں اس پہ یہ جرائتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں

بانی دیوبند جناب قاسم نانوتوی لکھتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میں گنگوہ کی خانقاہ میں رکھے ہوئے بدھنا میں کنویں سے پانی بھر کر پیا تو پانی کڑوا پایا_ میں نے رشید احمد گنگوہی سے کہا تو انہوں نے کہا کہ کنویں کا پانی تو میٹھا ہے لیکن انہوں نے چکھا تو پانی کڑوا تھا بعد نماز ظہر سب نمازیوں سے اور خود نے کلمہ طیبہ پڑھا پھر دعا کی پھر پانی پیا تو پانی میٹھا تھا تب گنگوہی نے کہا کہ اس بدھنے کی مٹی اس قبر کی ہے جس پر عذاب ہورہا تھا، الحمدللہ کلمہ کی برکت سے عذاب رفع ہوگیا ۔ ( تذکرۃ الرشید جلد٢،صفحہ ٢٠٢)

حکیم الامت دیوبند تھانوی صاحب نے بحوالہ مولوی عبداللہ روایت کیا ہے کہ : ایک مولوی کے انتقال کی خبر آئی اس پر مولوی رشید احمد گنگوہی نے کہا کہ "مولوی" کا منہ قبلہ سے پھرا ہوا ہوگا جس کا جی چاہے قبر کھول کر دیکھ لے میں دیکھ رہا ہوں کہ منہ قبلہ سے پھر گیا ہے ۔ (حسن العزیز جلد٤،حصہ ٢،قسط١٠،صفحہ ١٦٤،)

قطب العالم دیوبند رشید احمد گنگوہی کا ایک واقعہ علامہ عاشق الٰہی میرٹھی نے اس طرح لکھا ہے کہ : منشی نثار علی اور گوہر خاں ملازم پلٹن 65،رخصت لیکر با ارادہ بیعت لکھنؤ سے گنگوہ روانہ ہونے کو تیار ہوئے دروازہ پر سواری تک آ کھڑی ہوئی اتفاق سے کسی حاکم کی آمد کا تار آیا اور عین وقت پر ان کو افسر کے حکم سے رکنا پڑا اس دن کے بعد فارغ ہو کر گنگوہ پہنچے تو حضرت(رشید احمد) نے صاف ارشاد فرمایا کہ تم دونوں صاحب فلاں دن روانہ ہونا چاہتے تھے مگر روک لیے گئے تھے اور جب کھانا دستر خوان پر آیا تو فرمانے لگے آپ کے ساتھ دو ٹٹو بھی تو ہیں آخر وہ بھی میرے مہمان ہیں اول انہیں گھاس دانہ پہنچانا چاہئے حالانکہ دونوں کے ٹٹو پر سوار ہو کر آنے کی اطلاع آپ کو کسی آدمی نے نہیں دی تھے ۔ (تذکرہ الرشید جلد ٢،صف٢٢٤)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔